کراچی کا امن پاکستان کی بقاء کا ضامن ہے

کراچی ہمارے ملک کا نہ صرف سب سے بڑا شہر ہے بلکہ ملکی معیشت میں بھی اس کی حیثیت نہایت اہم ہے۔ ملک کی واحد فعال بندرگاہ ہونے کی بناء پر عالمی سطح پر پاکستان کی تجارت کا سارا دارومدار بھی اس شہر قائد پر منحصر ہے۔ علاوہ ازیں یہاں پورے ملک سے ہر زبان بولنے والے آباد ہیں۔ یہاں کے کاروبار، فیکٹریاں اور تجارتی مراکز ملک بھر کے لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہیں۔ کراچی کو اسی لئے غریب پرور شہر بھی کہا جاتا تھا کہ جسے کہیں روزگار یا مزدوری نہیں ملتی تھی وہ کراچی چلا آتا تھا اور یہ شہر ایسے غریب الدیار لوگوں کو ماں کی طرح اپنے دامن میں چھپا لیتا تھا۔ کراچی کی یہ حیثیت پاکستان مخالف قوتوں کی نظر میں ہے اس لئے اس ملک کی سلامتی کے دشمن اب کراچی کے امن کو تہہ و بالا کرنے میں مصروف ہیں۔ ویسے تو شہر قائد گذشتہ کئی عشروں سے بدامنی، لسانی اور نسلی فسادات کی زد میں ہے مگر حالیہ دنوں میں تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب یہاں کی سڑکیں، مارکیٹ اور رہائشی علاقوں میں بے گناہوں کے لاشے نہ گرتے ہوں۔ رمضان کے مقدس دنوں میں بھی ہزاروں اموات واقع ہوچکی ہیں، بوری بند لاشیں پیغامات کے ساتھ سڑکوں پر پڑی ملتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تخریب کاروں نے مختلف علاقوں میں باقاعدہ عقوبت خانے بنارکھے ہیں جہاں لوگوں کو اغواء کرکے انہیں اذیت سے گزار کر بے رحمی سے ہاتھ پاؤں کاٹ کر مار دیا جاتا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ ایسا کرنے والے خود کو انسان سمجھتے ہیں۔ ہم نے تاتاریوں، چنگیزیوں اور نازیوں کے مظالم کی داستانیں سنی تھیں مگر کیا خبر تھی کہ عروس البلاد کی آستینوں میں ان سے بڑے سانپ پل رہے ہیں۔ شہر قائد میں اسی قسم کے شرمناک مظالم کی داستانیں، قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ، لوٹ مار اور بھتہ خوری کا فوری نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کاروباری مراکز بند ہوگئے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے، عام لوگوں کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے، ہر طرف خوف کا عالم ہے، باہر نکلنے والا سلامتی سے گھر واپس آنے کی امید نہیں رکھ سکتا، مائیں اپنے پیاروں کو سکول، کالج بھیجنے سے گھبراتی ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں جو کسی بھی معاشرے کے لئے ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں۔ کراچی جیسے اہم صنعتی اور تجارتی شہر میں پہلے ہی توانائی کے بحران نے کاروباری حجم کو کم کردیا تھا اب جو کسر رہتی تھی وہ اس خونی لہر نے پوری کردی۔ ایک اخباری سروے کے مطابق بدامنی کے نتیجے میں گذشتہ دو ہفتوں میں قومی معیشت کو ایک سو ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ صرف تاجر برادری کو روزانہ مجموعی طور پر دو ارب کا نقصان ہورہا ہے۔ انسانی جانوں کا ناقابلِ تلافی نقصان اس سے الگ ہے۔

گذشتہ چند دنوں میں سرمایہ دار یہاں سے متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، سری لنکا، نیپال حتی کہ بنگلہ دیش میں منتقل ہوچکے ہیں۔ موجودہ حکومت اس سارے خونی کھیل میں تماشائی بنی ہوئی ہے۔ یہ حکومت یا تو صلاحیت سے عاری ہے یا پھر ارادے اور نیکی نیتی کا فقدان ہے۔ دونوں صورتوں میں اس کا جرم ناقابل معافی ہے۔ اب تک کے حالات میں دیکھا یہی گیا ہے کہ حکومت اپنی سیاسی ساکھ اور مستقبل بچانے کی فکر میں ملک کے کئی اداروں کو تباہ کرچکی ہے۔ کراچی کے مسئلے میں بھی حکومت ابھی تک گومگو کا شکار ہے۔ کراچی کے اکثر علاقے حکومت اور اس کی حلیف جماعتوں کے زیر اثر ہیں اور ان جماعتوں نے حسب ضرورت و استطاعت اپنے اپنے علاقوں میں گینگ بنا رکھے ہیں۔ یہ گینگ زیادہ تر جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہیں جو سیاسی چھتریوں کے نیچے دن دھاڑے خون خرابہ کرتے پھررہے ہیں اور بعض اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں عام طور پر پولیس حالات پر قابو پاسکتی ہے لیکن کراچی کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ پولیس جانبدار سیاسی بھرتیوں سے بھری ہوئی ہے اس لئے غیر موثر ہوچکی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال 12 مئی کا واقعہ ہے جب تخریب کار دن دھاڑے لاشیں گرارہے تھے، آگ لگارہے تھے اور کنٹینر کھڑے کرکے پورے شہر کو مفلوج کیا جارہا تھا مگر پولیس ہمیں کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔

اب اگر عدالت عالیہ نے قائد تحریک منہاج القرآن پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے ایک مراسلے پر سو موٹو ایکشن لے لیا ہے تو اسے بہت زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ بالخصوص تینوں مذکورہ سیاسی جماعتوں کے زیر اثر پنپنے والے جرائم پیشہ تربیت یافتہ افراد کی چھان بین ہونی چاہئے۔ ایسے لوگوں پر عدالتوں میں مقدمات چلنے چاہئیں اور فرد جرم عائد ہونے کی صورت میں کیفر کردار کو پہنچانا چاہئے۔ کاش کہ عدالت عظمیٰ اگر بحالی کے فوراً بعد 12 مئی کے واقع پر سوموٹو ایکشن لے کر کاروائی مکمل کرچکی ہوتی تو خاصی حد تک حالات درست ہوسکتے تھے اور حالیہ خرابی کی نوبت ہی نہیں آنی تھی۔

ان واقعات کا دوسرا اور حساس پہلو یہ بھی ہے کہ ان تربیت یافتہ افراد میں غیر ملکی ایجنٹ بھی ہیں۔ سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل میمن کے بقول بھارت کے تربیت یافتہ متعدد ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح اے این پی کے شاہی سید بھی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ پاکستان مخالف بھارتی ادارے ’’مکتی باہنی‘‘ کی مشق یہاں دہرانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیر داخلہ کے بقول بعض مقامات سے اسرائیل ساختہ اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔ علاوہ ازیں بلیک واٹر اور سی آئی اے کے کارندے بھی ملک میں آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں اور انہوں نے بھی اپنی تجوریوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ ایسی نازک اور حساس صورت حال میں آخری حل کے طور پر آرمی کی مداخلت کے بغیر معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آتا مگر گنجان آباد شہری علاقوں میں کرائے کے غنڈوں سے فوج کا مقابلہ کئی طرح کی مشکلات بھی پیدا کرسکتا ہے۔ تاہم سوات آپریشن کی طرح بڑے نقصان سے بچنے کے لئے ممکنہ چھوٹے نقصان برداشت کرنا پڑیں گے۔ بہر حال یہ ملک سمیت جمہوریت کے لئے بھی کڑے امتحان کے دن ہیں۔ اب صدر اور وزیراعظم صاحب رحمان ملک پر انحصار کے دائرے سے باہر نکلیں اور قومی سیاسی رہنماؤں سے وسیع تر مشاورت کرکے اس بہتے ہوئے بے گناہ خون کو فوری روکیں۔ معصوم شہریوں کے بے دریغ خون کی قیمت پر سیاست کی جنگ اور مفادات کا کھیل اب ختم ہوجانا چاہئے۔

ڈاکٹر علی اکبر قادری