ترکی میں تحریک احیائے اسلام

مذہبی کارکنان کیلئے ایک دلچسپ تاریخی مطالعہ
قسط اوّل

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

گذشتہ دنوں مجھے عالم اسلام کے عظیم ثقافتی اور تاریخی مرکز استنبول میں منعقدہ ایک تحقیقی علمی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ کانفرنس دراصل ترکی کے نامور مذہبی دانشور بدیع الزماں سعید نورسی رحمۃ اللہ علیہ کے ’’رسائل نور‘‘ پر دنیا کی درجنوں یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیقات کے جائزے سے متعلق تھی۔ اس منتخب عالمی تحقیقی اجتماع میں امریکہ، یورپ اور مڈل ایسٹ کی تقریباً 30 یونیورسٹیوں کے سینئر اساتذہ اور ریسرچ سکالرز مدعو تھے۔ مجھے اپنی مادر علمی منہاج یونیورسٹی کی طرف سے نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کانفرنس کے علاوہ مجھے استنبول اور قونیہ کے مختلف مراکز پر جانے اور ’’جماعت النور‘‘ کے ’’طلاب‘‘ کا نظام دعوت و تربیت دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ اس دوران جہاں تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر اور انکی احیائی علمی و تحقیقی کاوشوں کے تعارف کا فریضہ سرانجام دینے کا موقع ملا وہاں جدید ترکی میں آنے والی مثبت سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کے حیران کن مظاہر بھی دیکھنے کو ملے۔ ان مشاہدات کی تفصیل تو الگ کتابی شکل میں ہی آسکے گی تاہم یہاں چیدہ چیدہ نکات قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔

اس سفر نامے کو ماہنامہ منہاج القرآن کے صفحات کی زینت بنانے کا مقصد جہاں تحریکی قارئین کو برادر اسلامی ملک سے آگاہی دینا ہے وہاں کارکنان کے لئے تحریک احیائے اسلام کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات کے دوران ترک بھائیوں کا صبرو استقامت اور حکمت عملی بھی ہمارے لئے ہزاروں اسباق لئے ہوئے ہے۔

برادر اسلامی ملک ترکی جو حنفی المسلک صحیح العقیدہ مسلمانوں کا زرخیز خطہ ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد سیکولر حکومتی نظام کی زنجیریں توڑ کر اسلامی تہذیب و ثقافت کے احیاء کی طرف گامزن ہوچکا ہے۔ اس تاریخی تبدیلی اور احیائے اسلام کے پیچھے جس عظیم صوفی دانشور کی علمی، عملی، تربیتی اور روحانی کاوشیں کار فرما ہیں ان کا نام بدیع الزماں سعید نورسی رحمۃ اللہ علیہ ہے جو (1960ء میں) 90 سال کی عمر میں دار فانی سے کوچ کرگئے۔ انہوں نے مجرد زندگی کا زیادہ حصہ مصائب و مشکلات اور قید تنہائی میں بسر کیا۔ انہوں نے جیل سے ’’تلامذہ نور‘‘ کے نام مختلف اوقات میں جو پیغامات بھیجے وہ لاکھوں کی تعداد میں زیر زمین دعوتی نظام کے تحت قلمی مکتوبات کی صورت میں تقسیم کئے جاتے رہے۔ سعید نورسی رحمۃ اللہ علیہ سمیت ان کے ابتدائی کارکنوں کو سخت ترین تکالیف سے دوچار کیا گیا مگر ان لوگوں نے ملحد حکومت کی جملہ معاندانہ کاروائیوں کی موجودگی میں تحریک احیائے اسلام کا سفر جاری رکھا۔ تاریخ دعوت و عزیمت میں یہ ایک منفرد داستان ہے جس میں تحریکی کارکنان کے لئے دلچسپی کے کئی گوشے مستور ہیں۔ ثانیاً جون2011ء میں ہونے والے حالیہ عام انتخابات میں طیب اردگان کی اسلام پسند پارٹی نے دو تہائی اکثریت حاصل کرکے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ جو بجائے خود ترکی جیسے سیکولر تاریخ کے حامل مسلم ملک میں ایک بڑے اور خاموش انقلاب سے کم نہیں۔

ترکی میں اس مثبت سیاسی تبدیلی کے ساتھ ساتھ معاشی، تعلیمی اور ثقافتی میدان میں بھی حیران کن تبدیلیاں آرہی ہیں جو عالم اسلام کے لئے ایک اچھا شگون ہے۔ 500 سو سال تک خلافت اسلامی کے پاسدار اس ملک اور راسخ العقیدہ ترک قوم کا موجودہ کردار امت مسلمہ کے لئے ایک بار پھر بڑا اہم ہوگیا ہے مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی عوام اپنے برادر ملک ترکی کی دینی شخصیات اور مذہبی اداروں کے مجموعی کردار سے بالعموم نابلد ہیں۔ ان تبدیلیوں کے پیچھے جو مذہبی شخصیات اور ادارے گذشتہ کئی دھائیوں سے کام کررہے ہیں ہمیں ان کا بھی سرے سے علم نہیں۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ ہمارا تعلق زیادہ عرب ممالک کے ساتھ رہتا ہے اس لئے عرب ممالک میں آنے والی تبدیلی سے ہم براہ راست آگاہ رہتے ہیں۔ ترکی کے احوال سے ہم اس لئے بھی آگاہ نہیں ہوسکتے کہ ایک تو ان کی زبان ہماری زبان سے بالکل مختلف ہے اور دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ ترکی میں سابقہ حکومتیں تسلسل کے ساتھ سیکولر ایجنڈے پر عمل پیرا رہیں جس کے تحت انہوں نے عالم اسلام سے زیادہ عالم مغرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ترجیح دیئے رکھی۔ اس ذہنی بُعد اور کسی حد تک غلط فہمی نے پاکستان سمیت عرب ممالک کے عوام کو بھی ان سے دور رکھا۔ اسی دوری کے سبب ہم وہاں کی مذہبی سرگرمیوں اور دینی شخصیات کے کارناموں سے بھی ناواقف ہیں۔

ذیل میں ہم سعید نورسی کی شخصیت، ان کے علمی، فکری اور دعوتی کارناموں اور موجودہ دور میں ان کی حکمت عملی کی افادیت پر روشنی ڈالیں گے لیکن ان تفصیلات میں جانے سے پہلے ترکی کی مختصر تاریخی اور جغرافیائی اہمیت واضح کرنا ضروری ہے۔ نیز ترکی اور بالخصوص استنبول میں اسلامی فتوحات کا پس منظر جاننا بھی موضوع زیر بحث کو سمجھنے میں مدد دے گا۔

ترکی کی تاریخی اور جغرافیائی اہمیت

ترکی ہمیشہ کی طرح اب بھی کئی اعتبار سے عالم اسلام کے لئے ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ طلوع اسلام کے وقت موجودہ ترکی عظیم رومی سلطنت کا حصہ تھا جبکہ اس کا سب سے بڑا شہر استنبول، قسطنطنیہ کے نام سے بازنطینی عیسائی مملکت کا دارالحکومت تھا۔ ترکی کا موجودہ نقشہ ایک مستطیل شکل میں ہے جس کی مشرقی سمت میں ایک طرف ایران، عراق اور شام جیسے اہم ممالک واقع ہیں اور دوسری طرف اسلامی تہذیب و ثقافت کا قدیم گہوارہ عظیم تر ترکستان جس کا مشرقی حصہ چین کا موجودہ صوبہ سنکیانگ کہلاتا ہے اور دوسرے حصے کو کمیونسٹ انقلاب کے بعد چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم کردیا گیا تھا جو اب علیحدہ علیحدہ ریاستی ڈھانچوں کی شکل میں روسی استعمار سے آزادی حاصل کرچکے ہیں، ان میں ازبکستان، قازقستان، قرغیستان، ترکمانستان اور تاجکستان جیسے ممالک ہیں۔ یہ علاقے ایک عرصہ تک اسلامی ثقافت کا اہم ترین مرکز تھے۔ امام بخاری، امام مرغینانی اور حضرت بہاء الدین نقشبند سمیت بڑے بڑے محدثین فقہاء اور صوفیاء یہاں مدفون ہیں۔ ترکی کا مغربی حصہ تین بڑے سمندوں کے درمیان واقع ہے جن میں ایک بحر اسود (Black Sea) دوسرا بحر ابیض اور تیسرا حصہ بحر اپجین ہے۔ جس کے پار پورا یورپ واقع ہے۔ استنبول شہر کے درمیان سے گزرنے والی آبنائے باسفورس دنیا کی اہم ترین تجارتی گزرگاہ ہے جو براعظم یورپ اور ایشیاء کو جدا کرتی ہے۔ اسی آبنائے پر استنبول میں دو عدد آہنی پل ہیں جو یورپ اور ایشیا کو ملاتے ہیں۔ یوں ترکی کا ایک حصہ یورپ میں شامل ہونے کے باعث اس کی سرحدیں یونان سے ملتی ہیں نیز بلغاریہ اور اٹلی سے بھی اس کی بحری سرحدیں قریب ہوجاتی ہیں۔ اسی جغرافیائی محل وقوع کے سبب ایک عرصہ تک ترکی یورپی یونین میں شامل ہونے کا خواب بھی دیکھتا رہا مگر اہل یورپ نے تمام تر سیکولر نظامِ حکومت کے باوجود صرف اس لئے اسے اپنا حصہ بننے سے روکے رکھا کہ یہ شاندار تاریخ کا حامل ملک مسلمان تھا۔

اسلامی تاریخ میں ترکی کی مرکزی حیثیت اس وقت قائم ہوئی جب دنیا کا خوبصورت ترین شہر استنبول عثمانی خلافت کا دارالحکومت بنا۔ خلافت عثمانیہ نے یہاں سے 500 سال تک دنیا کی مضبوط اور خوشحال ترین مملکت کی حیثیت سے پوری اسلامی دنیا پر حکومت کی اور پورے یورپی ممالک سے کئی سو سال تک خراج وصول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان آج بھی ترکی کو عثمانی خلافت کے امین سمجھتے ہیں جبکہ عالم کفر ترکی کی اسی تاریخی حیثیت کی وجہ سے اسے ہمیشہ ایک سیکولر اور غیر اسلامی خطہ بنانے میں دلچسپی ظاہر کرتا رہا ہے۔ ان تمام تر استعماری حربوں کے باوجود ترک قوم ترقی کے زینے تیزی سے چڑھ رہی ہے اور اس وقت اس کا شمار دنیا کی 14 ویں بڑی معیشت میں ہورہا ہے۔ اس وقت سالانہ فی کس آمدنی کے لحاظ ترکی کا نمبر چین کے بعد آتا ہے۔ اس معاشی استحکام کا سبب دراصل موجودہ اسلام پسند حکومت کی وہ معاشی اصطلاحات ہیں جو طیب اردگان کی مخلص اور غیور قیادت نے ممکن بنائیں ورنہ ترکی آج سے 9، 10 سال قبل پاکستان کی موجودہ سیاسی و اقتصادی حالت سے بھی بری حالت میں گرفتار تھا۔

فتح استنبول کی بشارت اور ترکی میں دعوت اسلام

جیسا کہ اوپر اشارتاً ذکر ہوچکا ہے کہ استنبول کا قدیم نام قسطنطنیہ تھا اس کی بنیاد Byzantiunm کے نام سے 658 قبل مسیح رکھی گئی تھی اس کے ابتداء میں کئی نام رکھے گئے مگر جب 330 عیسوی میں رومی بادشاہ قسطنطین نے اس خوبصورت شہر کو جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت کے باعث رومی سلطنت کا دارالحکومت بنایا تو اسی بادشاہ کے نام پر اسکا نام قسطنطنیہ مشہور ہوگیا۔ اسی بادشاہ نے اس کے گرد ایک فصیل تعمیر کرائی جس کے آثار ابھی تک کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ بعد ازاں جب رومی سلطنت مشرقی علاقوں تک پھیل گئی تو بھی یہی شہر اس کا پایہ تخت رہا۔ شاید اسی تاریخی اہمیت کے سبب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ کے جھرمٹ میں فرمایا :

لتفتحن القسطنطنیہ فلنعم الامیر امیرھا ولنعم الجیش ذلک الجیش۔ (مسند احمد، المستدرک)

’’تم (اہل اسلام) ایک دن یقینا قسطنطنیہ کو فتح کرلو گے۔ اس فاتح لشکر کا سپہ سالار بھی کیا خوب ہوگا اور اس فاتح لشکر کی شان بھی کیا نرالی شان ہوگی‘‘۔

اسی طرح امام بخاری سمیت کئی محدثین نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ذی شان بھی نقل کیا ہے :

قال النبی صلی الله عليه وآله وسلم اول جيش من امتی يغزون مدينة قيصر مغفور لهم.

(صحیح البخاری ج 3، ص 1069)

’’یعنی میری امت کی پہلی فوج جو قیصر (کے شہر قسطنطنیہ) پر حملہ آور ہوگی اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان حق ترجمان سے جب صحابہ نے یہ کلمات سنے تو یقینا ان کے دلوں میں اس شہر دلپذیر کی فتح کے خیالات پیدا ہوئے ہوں گے۔ چنانچہ تاریخ کے اوراق پر اس شہر کا رخ کرنے والوں میں کئی صحابہ کے اسمائے گرامی محفوظ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کو فتح کرنے کے لئے صحابہ کا پہلا لشکر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم کے دور حکومت میں 48ھجری (بمطابق 668 عیسوی) میں روانہ ہوا۔ اس لشکر میں جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے شرکت فرمائی ان میں سر فہرست میزبان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم، حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم، حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم، حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم، حضرت ابوالدردائ رضی اللہ عنہم اور سلمان ابن عیینہ رضی اللہ عنہم کے نام آتے ہیں، یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہی صحابہ احادیث نبوی کے معروف راوی بھی ہیں۔

اس لشکر کے ہاتھوں یہ شہر فتح تو نہ ہوسکا مگر اس دوران جب سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم کی طبیعت خراب ہوئی تو آپ نے اس شہر کی فصیل کے پاس دفن ہونے کی وصیت فرمائی تاکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور حقانیت کو عملاً ثابت کرنے تک یہاں آنے والے عساکر اسلامی کو نشان منزل نظر آتا رہے اور ان کی عسکری مہم کو آخری فتح تک جاری و ساری رکھا جاسکے۔ یقینا اس عظیم الشان لشکر میں شامل جلیل القدر صحابہ نے یہاں آتے جاتے دعوت اسلام دی ہوگی اور موجودہ ترکی کے بیشتر مقامات کو صحابہ کے قدم چومنے کی سعادت ملی ہوگی۔

علاوہ ازیں عہد صحابہ میں مزید دو مرتبہ اس شہر پر لشکر کشی ہوئی، پھر سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ خلافت میں مسلمہ نے 97ھجری میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا، بعد ازاں اموی عہد میں ہشام بن عبدالملک نے 121ھجری میں، پھر بنو عباس کے دور میں خود ہارون الرشید کی زیر قیادت 164ھجری میں، پھر ہارون الرشید کے سپہ سالار عبدالملک کی زیر قیادت 182 ھجری میں یکے بعد حملے کئے گئے۔ بعد ازاں خود عثمانی ترکوں نے بھی باری باری اس شہر کی فصیل کو عبور کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ مل سکی۔ الغرض عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر سلطان محمد فاتح کے عہد تک اس اہم شہر پر تقریباً آٹھ سو سالوں میں گیارہ مرتبہ مسلمانوں نے لشکر کشی کی اور محاصرے جاری رکھے۔

آپ حیران ہوں گے کہ اس قدر مسلسل حملوں کے باوجود آخر کیا بات تھی کہ شاہین صفت مجاہدین اسلام اس شہر میں داخل نہ ہوسکے، اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے نوجوان عثمانی حکمران سلطان محمد فاتح کی قسمت میں لکھ دی تھی جس نے 1453ء میں تقریباً دو ماہ کے محاصرے کے بعد 29 مئی کو سمندر کے راستے سے فوجیں داخل کرکے تاریخی فتح کا تاج اپنے سر سجالیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا مصداق ٹھہرا۔ علاوہ ازیں اس کی عمومی وجہ یہ تھی کہ اس شہر کے تینوں طرف سمندر ہے اور ایک سمت خشکی۔ زمینی حصے پر قدیم عیسائی حکمرانوں نے بلند و بالا فصیل تعمیر کی ہوئی تھی۔ ہر لشکر اسے فتح کرنے کے لئے اسی فصیل کو توڑ کر اندر آنے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن جب سلطان محمد فاتح نے اسے فتح کیا تو اس نے سابقہ روٹین سے ہٹ کر حکمت عملی اختیار کی اور آبنائے باسفورس کے قدرے تنگ حصے کو راتوں رات لکڑی کے تختوں اور کشتیوں کی مدد سے عبور کرکے شہر میں فوجیں داخل کردیں۔ چنانچہ اسی دن پورا شہر مسلمانوں کے قبضے میں آگیا اور سلطان محمد فاتح نے خود اس شہر کے قدیم ترین عیسائی عبادت خانے ’’آیا صوفیہ‘‘ کے مرکزی حال میں نماز ادا کرکے اللہ کے حضور سجدہ شکر بجا لایا اور اس معروف عیسائی معبد کو مسجد میں تبدیل کردیا۔ اسی دن عثمانی سلطنت کا دارالحکومت بھی ’’ادرنہ‘‘ سے یہاں منتقل ہوگیا۔ ’’ادرنہ‘‘ موجودہ یورپی ترکی کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ تب سے 13 اکتوبر 1923ء تک 470 سال استنبول شہر عظیم الشان عثمانی خلافت کا مرکز رہا۔ تاآنکہ مصطفیٰ کمال نے انگریزوں سے ساز باز اور سلطان عبدالحمید ثانی سے غداری کے نتیجے میں نیا حکومتی ڈھانچہ تشکیل دیا جس کا مرکز استنبول کی بجائے انقرہ کو بنایا گیا۔ چنانچہ 1923ء سے تاحال جدید ترکی کا دارالحکومت اگرچہ انقرہ ہے مگر دنیا بھر سے آنے والے مسلم اور غیر مسلم سیاح آج بھی استنبول کا قصد لے کر یہاں آتے ہیں اور قدرتی حسن کے اس شاہکار شہر کا بانکپن دیکھنے کے ساتھ انسانی کاریگری کا نمونہ سینکڑوں مساجد دیکھ کر سر دھنتے ہیں۔

سلطان محمد فاتح نے عیسائی سلطنت کے اس تاریخی نشان کو جب اسلام کے زیر نگین کیا تو اس کا پرانا نام بھی تبدیل کردیا۔ چنانچہ اس تاریخی شہر کو قسطنطنیہ کی جگہ استنبول کہا جانے لگا۔ ’’استنبول‘‘ اصل میں ’’اسلام بول‘‘ تھا اس لحاظ سے استنبول اور اسلام آباد دونوں شہر ہم معنی ہیں اللہ کرے اسلام آباد کو بھی استنبول کی طرح اسلامی ثقافت کی کوئی امانت اپنے سینے میں محفوظ کرنے کا موقع مل سکے۔

ترکی میں مسلم حکومت کا ہزار سالہ دور

یاد رہے کہ فتح استنبول سے قبل بھی تقریباً 500 سال ترکی میں مسلم حکومت کا دور قائم رہا۔ اس میں پہلا تقریباً 3 سو سالہ دور سلجوقی سلاطین کا تھا۔ ترکستان سمیت جنوب مشرقی علاقے میں ایک شاندار سلجوقی حکومت تقریباً ساڑھے چار سو سال تک قائم رہی جبکہ قونیہ موجودہ ترکی کا مرکز تھا۔ اس کی اسی ثقافتی، علمی اور سیاسی اہمیت کے طفیل شاید مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے قونیہ کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا ہوگا۔ سلجوقی حکمرانوں کے آخری دور میں تاتاریوں نے جب بلاد اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجائی تو سلجوقی حکومت بھی کمزور ہوگئی۔ اس دوران دولت عثمانیہ کے بانی عثمان خان غازی کے آباؤ اجداد 1261ء کے قریب ترکستان (وسطی ایشیائ) سے ہجرت کرکے اناطولیہ (موجودہ ترکی) میں آباد ہوگئے تھے۔ اس وقت یہاں مشہور سلجوقی مسلمان حکمران سلطان علاؤ الدین کیقباد کی حکومت تھی۔ اس نے عثمان غازی کے والد ارطغرل اور ان کے ساتھیوں کو منگولوں کے خلاف جنگ میں بہادری کے جوہر دکھانے پر موجودہ انقرہ کا علاقہ جاگیر میں دیا۔ یہ بہادر مہاجر ترک خاندان جب یہاں آباد ہوا اور اس کا اثر و رسوخ بڑھا تو سلطان نے کچھ مزید علاقے بھی انہیں بخش دیئے۔ ارطغرل کی وفات تک یہ لوگ ایک بااثر جاگیردار کے طور پر محدود علاقے کے حاکم رہے۔ بعد ازاں جب ارطغرل کے بعد اس کا بیٹا عثمان جانشین بنا تو اس نے اپنی قوت مجتمع کرکے اردگرد کے رومی علاقے فتح کرنے شروع کردیئے اور علاقے میں ایک متوازی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ ترکی میں یہ عثمانی دور حکومت کا نقطہ آغاز تھا۔ اسی وجہ سے عثمان خان غازی عثمانیہ خلافت کا بانی کہلاتا ہے۔ بعد ازاں اس کے بیٹے ادرخان نے رومیوں کے عظیم الشان مرکز ’’بورصہ‘‘ کو نوخیز عثمانی مملکت کا حصہ بناکر دارالحکومت یہاں شفٹ کردیا۔ چنانچہ 1326ء میں بورصہ مضبوط ابھرتی ہوئی عثمانی سلطنت کا مرکز بنا دیا گیا۔ (بورصہ استنبول اور انقرہ کے وسط میں ایک تاریخی آثار کا حامل شہر ہے) عثمانی سلاطین نے یکے بعد دیگرے علاقے زیر نگین کرنے شروع کردیئے۔ عثمان خان کے پوتے سلطان مراد نے موجودہ ترکی کے یورپی حصوں کو بھی عثمانی سلطنت میں شامل کرلیا تھا اس لئے اس نے بورصہ سے دارالحکومت نئے مفتوحہ شہر ’’دیمہ توقہ‘‘ منتقل کردیا جو اس وقت یونان کے زیر نگین ہے۔ بعد ازاں یورپ کے ہی ایک اور شہر ’’ادرنہ‘‘ کو فتح کرکے سلطان مراد اول نے اسے دارالحکومت بنالیا کیونکہ یہ ایشیاء سے یورپ میں داخل ہونے کا دروازہ کہلاتا تھا۔ جب سلطان محمد فاتح نے استنبول کو فتح کیا تو عثمانیوں کا مرکز یہی یورپی شہر ’’ادرنہ‘‘ تھا۔ ان تمام تفصیلات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کم و بیش 200 سال سلجوقیوں کے بعد فتح استنبول تک اس علاقے میں مسلمان ہی حکمران رہے۔ اس طرح سقوط استنبول کے وقت جب مصطفیٰ کمال خلافت عثمانیہ کے خلاف نام نہاد ’’جنگ آزادی‘‘ کا ہیرو بن کر خود اہل ترکی پر مسلط ہوگیا تو اس سے قبل یہاں ایک ہزار سال تک اسلامی ثقافت اور تہذیب راج کرتی رہی جس کے آخری 500 سال تو نہایت شاندار تھے جب مسلمانوں کے پاس دنیا کے خوشحال ترین خطوں پر مشتمل نہایت موثر حکومت موجود تھی جس کی سرحدیں ایک طرف چین اور دوسری طرف افریقہ کے اندر تک پھیلی ہوئی تھیں۔

سلطان عبدالحمید ثانی کا قابل فخر کردار

ترکی سمیت عالم اسلام پر 7 صدیوں تک مسلم طرزِ حکمرانی کے شاندار نقوش چھوڑنے والے عثمانی سلاطین کی آخری کڑی سلطان عبدالحمید ثانی تھے۔ موصوف کا دورِ اقتدار کئی دھائیوں پر مشتمل تھا۔ ذاتی طور پر یہ ایک نیک سیرت، صلح جو، باعمل اور عالم اسلام کے اتحاد و اتفاق کے خواہاں انسان تھے۔ ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کے دور میں یورپ ایک طرف صنعتی ترقی کے بام عروج پر پہنچ گیا اور دوسری طرف مسلمان ممالک تعلیمی پسماندگی کے باعث ترقی یافتہ اقوام کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔ اس میں شک نہیں کہ سلاطین اسلام نے جس قدر اپنی یادگاریں تعمیر کروائیں اس قدر تعلیمی یونیورسٹیاں نہیں بناسکے جبکہ یورپ میں اس کے برعکس ہوتا رہا۔ تاہم ترکی کے حکمران اس لحاظ سے منفرد رہے ہیں کہ انہوں نے جو کچھ بھی بنایا وہ عوام اور اسلام کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا۔ استنبول میں چپے چپے پر جتنی بھی شاندار مساجد موجود ہیں ان سے ملحق آج بھی تعلیمی ادارے، لائبریری اور علاج گاہوں کے واضح آثار ملتے ہیں۔

یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ سلطان عبدالحمید ثانی سمیت اس وقت کے دیگر مسلمان حکمرانوں نے جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی تعلیم پر کماحقہ توجہ نہیں دی۔ اسی وجہ سے بدیع الزماں سعید نورسی اور جمال الدین افغانی جیسے نابغہ ہائے روزگار تڑپتے رہے مگر شاہی مصلحتیں اور مجبوریاں اپنی جگہ موجود رہیں۔ اس میں بھی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ سلطان نے بدلتے ہوئے معاشرتی تیور اور بڑھتے ہوئے سائنسی ترقی کے سیلاب کے اثرات کی چاپ کماحقہ نہیں سنی لیکن عثمانیوں کے زوال کا اصل سبب یک دم ظاہر نہیں ہوا تھا بلکہ اس سے تقریباً دو صدیاں قبل صلیبی جنگوں کے نتیجے میں عثمانی سلطنت سمٹنا شروع ہوگئی تھی۔ ثانیاً ترقی یافتہ مغرب اور یورپ منظم سازش کے تحت واحد اسلامی خلافت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑا ہوا تھا۔ جلتی پر تیل اس یہودی مشن نے ڈالا جو فلسطین کی سرزمین پر مراجعت کے لئے پر تول رہے تھے اور وہاں ایک یہودی ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ اس خواب کو عملی تعبیر دینے کے لئے یہودیوں نے کئی بار سلطان سے رابطہ کیا، سلطان کو بھاری معاوضوں اور مالی اعانت کا لالچ بھی دیا گیا کہ وہ انہیں فلسطین کا علاقہ فروخت کردے۔ مگر سلطان نے ایک باغیرت اور وفاشعار مسلمان حکمران کے طور پر ہر بار یہودیوں کو سخت الفاظ میں جواب دیا بلکہ سلطان نے جب یہ دیکھا کہ روس کے علاقوں سے یہودی اجتماعی ہجرت کرکے مشرق وسطیٰ میں آرہے ہیں تو اس نے 1888ء میں ایک شاہی حکمنامہ جاری کیا جس کے ذریعے دولت عثمانیہ میں (فلسطین سمیت) اجتماعی ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو آباد ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ اسی طرح یہودی زائرین کو فلسطین میں 3 ماہ سے زائد قیام کو بھی ممنوع قرار دے دیا۔

بعض کتب میں یہ درج ہے کہ کئی یہودی وفود بعض یورپی حکمرانوں کی سفارش لے کر سلطان سے ملتے تھے اور ان سے غزہ اور بحر مردار کے درمیان کوئی خطہ انہیں عطا کرنے کی درخواست کرتے تھے مگر سلطان ہر بار انہیں یہ کہتے تھے کہ

’’عرب ہمارے لئے نہایت قابل احترام ہیں، عربوں کی زمین میری ملکیت نہیں جو میں آپ کو ہبہ کردوں۔ میں اگر حکمران ہوں تو ان کے حقوق کی حفاظت بھی میرا فرض ہے۔ میرے جیتے جی تو آپ کو عربوں کی زمین کا ایک انچ بھی نہیں ملے گا ہاں میں نہ رہا یا میری حکومت ختم ہوگئی تو آپ کی ریاست خود بخود قائم ہوجائے گی‘‘۔

یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ یہودی تحریک کے بڑوں نے بعد ازاں سلطان کو مزید لالچ دینے کی بھی بارہا کوششیں کی۔ 1900ء میں انہوں نے درخواست کے ساتھ 50 لاکھ سنہری عثمانی پونڈ سرکاری خزانے کو دینے کا عندیہ بھی ظاہر کیا اور صہیونیوں کی طرف سے 20 لاکھ پونڈ بلاسود قرض کی پیشکش بھی کی گئی حالانکہ سلطان کو اس زمانے میں حکومتی اخراجات کے لئے اس رقم کی شدید ضرورت تھی مگر سلطان نے ملت فروش بننے کی بجائے پیشکش کرنے والے یہودیوں کو دھکے دے کر دربار سے نکلوادیا۔

ان تمام حربوں میں ناکامی کے بعد یہودیوں نے ایک خفیہ تنظیم قائم کی جس میں ’’دونمہ یہودی‘‘ کثیر تعداد میں بھرتی کئے گئے۔ یہ وہ ترک لوگ تھے جو سپین میں عیسائیوں کے مظالم سے بھاگ کر عثمانی سلطنت میں شامل ایک جزیرے ’’سالونیک‘‘ میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ یہ لوگ بظاہر مسلمان ہوگئے تھے مگر اصل میں ان کا مقصد یہودیت کے ہی مفادات کا تحفظ تھا۔ مصطفیٰ کمال کے ساتھ آزادی کی اس تحریک میں آستین کے یہی سانپ پیش پیش تھے جنہوں نے ملحدانہ دستور بنوایا اور سلطان عبدالحمید کو اپنے آبائی وطن میں معزول کروایا۔ حالات کی ستم ظریقی دیکھئے کہ ترک احرار کی طرف سے سلطان کے پاس معزولی کا حکم نامہ لے کر جو شخص گیا وہ وہی ’’قرہ صو آفندی‘‘ یہودی پیشوا تھا جسے 1900ء میں سلطان اپنے دربار سے ڈانٹ کر نکال چکے تھے۔ اس وقت اس سازشی یہودی پیشواء نے سلطان کو کہا تھا کہ آج اگر آپ ہماری بات نہیں مانیں گے تو ہم دوسرے طریقے سے آپ کو زیر کرلیں گے۔ یوں یہودیوں نے سلطان سے اپنی بے عزتی کا انتقام لیا اور سقوط غرناطہ کی داستان دھراتے ہوئے عظیم عثمانی دور خلافت بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔

ترکی کا ملحدانہ انقلاب

یہاں میں قارئین کی خصوصی توجہ چاہتے ہوئے یہ حقیقت بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جو مصطفیٰ کمال پاشا جدید ترکی کا بانی کہلاتا ہے وہ خلافت اسلامی کا کھلا دشمن اور باغی تھا۔ قوم کے لئے جہاں تک آزادی کی جنگ میں اس کی قیادت کا تعلق ہے تو یہ بھی ایک سوچی سمجھی اسلام دشمن سازش تھی۔ یہ شخص اسلامی شعائر کا سخت ترین مخالف اور دینی اقدار سے ذہنی اور قلبی عداوت رکھتا تھا۔ وہ بظاہر انگریزوں کے خلاف جہاد کا علم لے کر سادہ لوح تُرک عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا تھا۔ جو برطانوی استعمار، جنگ عظیم اول میں جرمنی اور جاپان کو شکست دے چکا تھا بھلا اسکے مقابلے میں کمزور ترکی کیا حیثیت رکھتا تھا؟ ہاں البتہ یہ ضرور تھا کہ مسلمان مغربی تہذیب و ثقافت کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عظیم خلافت عثمانیہ کو زوال کا شکار کرنے اور اس کے حصے بخرے کرنے کا ذمہ دار برطانیہ کو سمجھ رہے تھے۔ اس لئے نہ صرف ترکی بلکہ پوری دنیائے اسلام برطانوی استعمار کو نفرت کی نظر سے دیکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے برطانوی حکومت کے خلاف بھرپور احتجاج کیا اور باقاعدہ تحریک بحالیء خلافت شروع کردی۔ ہندوستان کی مسلمان عورتوں نے اپنے زیور اتار کر ترکی کے مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیج دیئے۔ ترک قوم آج تک مسلمانان برصغیر کا یہ احسان نہیں بھول سکی۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ برطانیہ کے خلاف علم جہاد بلند کرنے میں خود مسلمانوں کا جذبہ کار فرما تھا اس میں مصطفیٰ کمال کا کوئی کمال نہیں تھا۔ البتہ اس نے اس موقع پر یہ چالاکی ضرور کی کہ ان جذبات کو اپنے حق میں کیش کروالیا۔ تاریخ اسلام کے قابل ذکر سپہ سالاروں اور حکمرانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ رواداری پر مبنی روش سے بالکل برعکس مصطفیٰ کمال نے انتہائی کوتاہ اندیشی اور گھٹیا پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عثمانی خاندان کو ملک بدر کردیا۔ شاندار خلافت عثمانیہ کے آخری نیک سیرت فرماں روا سلطان عبدالحمید ثانی کو نہ صرف معزول کردیا بلکہ عالم اسلام کے اس محسن بہادر متدین حکمران خاندان کے بچے بچے کو ترکی سے بے یارو مددگار نکال باہر کیا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ہمیشہ کے لئے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کا اعلان بھی کردیا۔ اس موقعہ پر اقبال کی روح نے تڑپ کر کہا تھا۔

’’چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا‘‘

پھر اس نے چن چن کر علماء مشائخ اور غیور جہادی مسلمان رہنماؤں کو جگہ جگہ پھانسیاں دیں۔ ان کو قید اور جیل میں بند رکھا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔ 1000 سالہ اسلامی تاریخ کے وارث ترک مسلمانوں پر مساجد کے دروازے بند ہوگئے۔ مساجد کے میناروں سے اذان کی صدائیں بند کردی گئیں، مردوں کو داڑھی رکھنے اور عورتوں کو اسلامی لباس پہننے پر پابندی عائد کردی گئی۔

1924ء سے اس منفی تبدیلی کا سلسلہ شروع ہوا اور 1932ء تک جاری رہا۔ اسی دوران 1928ء میں باقاعدہ طور پر ملک میں قدیم اسلامی دستور العمل اور عائلی قوانین کو منسوخ کرکے ملحدانہ دستور منظور کروالیا گیا اور اعلانیہ اسلام کی مخالفت شروع کردی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ نسل درنسل اسلامی تعلیمات اور دینی شعائر کو ورثے میں حاصل کرنے والی ترک قوم نے ان اصطلاحات کا بھرپور مقابلہ کیا۔ انہیں اگر اللہ کا نام لینے پر پھانسی چڑھا دیا جاتا تو وہ یہ قربانی خوشی سے قبول کرتے تھے۔

مصطفیٰ کمال اور اس کی اسلام مخالف ملحد کابینہ کی آتش انتقام یہیں سرد نہیں ہوئی بلکہ اس نے اسلامی ثقافت اور تاریخ پر ایک اور کاری ضرب یہ لگائی کہ ترک نسل کو عربی رسم الخط سے ہی محروم کردیا۔ ترک زبان جو اسلامی زبان کی طرح عربی و فارسی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی اور اس کے ہجے عربی اور فارسی سے ملتے جلتے تھے اسے باقاعدہ طور پر سرکاری اعلان کے ساتھ لاطینی طرز میں لکھا اور پڑھا جانے لگا۔ تعلیمی اداروں سے ترک زبان پر مشتمل تمام کتب ضبط کرلی گئیں اور ان کی جگہ لاطینی حروف میں لکھی گئی کتب لگادی گئیں۔

ادھر عربی پڑھانے والے دینی ادارے تو سرے سے بند کردیئے گئے تھے، سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی اسلامیات کا نصاب ختم کردیا گیا۔ تمام چھاپہ خانوں کو حکم ہوگیا کہ کسی قسم کی دینی کتاب چھاپنا اور اسے تقسیم کرنا قانوناً منع ہے۔ استنبول سے دارالحکومت بھی اسی لئے انقرہ منتقل کردیا گیا تاکہ لوگوں میں دینی آثار اور مساجد سے دلچسپی ختم کردی جائے۔ یہ تھا وہ ’’انقلاب‘‘ جسے ترقی پسند لوگ مصطفیٰ کمال پاشا کا تاریخی کارنامہ سمجھتے ہیں اور ہمارے نصاب تعلیم میں بھی اسے بہت بڑا ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی شخص جنرل پرویز مشرف کا آئیڈیل ہوسکتا ہے کیونکہ دونوں کے اندر ایک جیسی دینی بیگانگی تھی اور میلانِ طبع بھی یکساں تھا۔ علاوہ ازیں اسے قائداعظم محمد علی جناح اور نہ جانے کن کن عالمی رہنماؤں کی صف میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس نے ترکی عوام کے ساتھ اتنے مظالم روا رکھے جن کی تاتاری حکمران بھی جرات نہ کرسکے اور ترکی جیسے اسلامی ملک میں اسلام پر وہ قدغنیں لگائیں جو عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے اپنے ادوار میں مسلمانوں پر نہیں لگائی تھیں۔

عالم اسلام کے لئے اس ملحد ترک حکومت کا ایک اور بڑا ہی بھیانک کردار باعث ذلت رہا وہ یہ کہ اس حکومت نے پوری اسلامی دنیا کے برعکس اسرائیلی حکومت کو نہ صرف فوری طور پر تسلیم کرلیا بلکہ ایک عرصہ تک ترکی اسرائیل کا نمبر1حلیف بھی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ استنبول یہودیوں کے لئے اسی طرح تھا جیسا کہ تل ابیب، ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ عثمانی خلافت کے خاتمے میں یہودی جتنے خوش ہوئے اتنا کوئی اور دشمن نہیں ہوا۔

(جاری ہے)