کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات

زندگی کے عمومی مراکز
انسانی شخصیت پر اثرات
قسط : 7

شفاقت علی شیخ

قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں امریکن رائٹر ’’سٹیفن آرکووے‘‘ کی تحریر Seven Habits of highly efective people کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے۔ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے پہلی عادت ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ماہنامہ منہاج القرآن ماہ جنوری، فروری، اپریل اور جون 2011ء کے شماروں میں شائع کیا گیا۔ کامیاب لوگوں کی دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کا پہلا اور دوسرا حصہ جولائی و اگست کے شمارہ میں ملاحظہ کر چکے ہیں جس میں معمولات زندگی میں اعتدال و توازن، درست سمت اور ترجیحات کا تعین، اعمال و نتائج، بے مقصدیت کے نقصانات، ذہنی منصوبہ بندی کی اہمیت، انسانی شخصیت کی تشکیل، عروج کا منہاج، باطنی افکار و خیالات کا تجزیہ، زندگی کے عناصر اربعہ (تحفظ، رہنمائی، بصیرت، طاقت) اور ان عناصر اربعہ کے درجات و اثرات کو بیان کیا گیا۔ اسی مضمون کا اگلا حصہ نذرِ قارئین ہے :

ہم میں سے ہر شخص کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مرکز ہوتاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہت مرتبہ ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا ‘ نہ ہی عام طور پر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس مرکز کا ہماری زندگی کے ہر پہلو پر کس قدر گہرا اور مکمل طور پر احاطہ کر لینے والا اثر ہوتاہے۔

اب ہم معاشرے میں عام طور پر پائے جانے والے چند ایک مراکز یا بنیادی زاویہ ہائے نظر کا جائزہ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم اس بات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں گے کہ یہ مراکز کس طرح مذکورہ بالا چاروں عناصر (تحفظ۔ رہنمائی۔ بصیرت۔ طاقت) کو متاثر کرتے ہیں۔ اور نتیجۃًکس طرح ہماری زندگی کا مجموعی تاثر اُبھرتاہے۔

1۔ شادی کا مرکز

رشتہ ازدواج انسان کا سب سے قریبی، سب سے سکون بخش، سب سے دیرپا اور تقویت دینے والا انسانی رشتہ ہو سکتاہے بشرطیکہ اسے حکمت اور سلیقے سے منظم کیا جائے۔ قرآن مجید نے ایک مقام پر’’لیسکن الیھا‘‘ (تاکہ وہ اُس سے سکون حاصل کرے) کہہ کر اس رشتہ کا باعثِ سکون ہونا بتایا ہے اور دوسرے مقام پر ’’ ھن لباس لکم وانتم لباس لھن‘‘( وہ تمہارا لباس ہیں اور تم اُن کا لباس ہو)فرما کر اس رشتہ کی قربت کی انتہا کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ یہ ایک فطری سی بات ہے کہ بعض اوقات کوئی خاونداپنی بیوی کو یا بیوی اپنے خاوند کو اپنی سوچوں کا مرکز بنالے۔ ایسے تمام معاملات میں جہاں کسی نے اپنے ساتھی کو اپنی زندگی کا مرکز بنا رکھا ہو وہاں ایک خامی ضرور پائی جاتی ہے اور وہ ہے دوسرے پر شدید جذباتی انحصار۔

جب ہم اپنے جذبات کی قدروقیمت کا احساس بنیادی طور پر اپنی شادی سے اخذ کرتے ہیں تو پھر ہمارے اندر اس رشتے پر شدید قسم کا انحصار پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے ساتھی کے موڈ، اس کے محسوسات، اُس کے ہمارے

ساتھ رویے اور سلوک سے زبردست طریقے سے متاثر ہوتے ہیں۔ کوئی بھی بیرونی عنصر یا واقعہ ہمارے تعلقات کو نقصان پہنچا سکتاہے۔ قدم قدم پر غلط فہمیاں شکوک و شہبات اور شکوے شکائتیں پیدا ہوتے ہیں اور بعض اوقات نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسے تعلق میں بظاہر تو سب کچھ ٹھیک نظر آرہا ہوتا ہے مگر دراصل یہ بڑا عارضی اور غیر محفوظ سا ہوتاہے چونکہ اس میں رہنمائی وقتی جذبات سے اخذ کی گئی ہوتی ہے ایک دوسرے پر منفی انحصار اور اُس پر مبنی تعلق میں بصیرت اور طاقت کہیں کھو جاتے ہیں۔

انسان جب کسی چیز کو زندگی کا مرکز مان لیتا ہے تو اُس کے کیا اثرات اُس کی سوچ پر مرتب ہوتے ہیں اور کس طرح زندگی کے دیگر پہلوؤں پر وہ نکتہ نظر حاوی ہوتاہے اس کی ایک مثال فرائڈ جیسا مشہور ماہر نفسیات ہے جس نے زندگی کا مرکز و محور جنسی جذبہ (Sex) کو مان لیا تو وہ ساری زندگی اس کے دائرے سے باہر آکر سوچ ہی نہ سکا۔ اُس کی تمام تر نفسیات اسی نکتے کے گرد گھومتی رہی اور وہ ہر معاملے کی تشریح اسی جذبے کے حوالے سے کرتا رہا۔

2۔ خاندان کا مرکز

انسان جس بھی خاندان سے تعلق رکھتا ہو اُس سے قدرتی طور پر ایک لگاؤ رکھتا ہے۔ اُسے بہتر اور مضبوط دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ اُس کی مضبوطی میں اُسے اپنی مضبوطی اور استحکام دکھائی دیتا ہے لیکن اگر خاندان کو اپنا مرکز بنا لیا جائے تو پھر انسان خاندانی رسم و رواج کا غلام بن کر رہ جاتاہے۔ باپ دادا کی طرف سے ملنے والی روایات خواہ وہ کتنی ہی فرسودہ اور خلافِ حقیقت کیوں نہ ہوں انسان اُن کو سینے سے لگا کر رکھتا ہے اور یوں اُس کی زندگی ایک خاص دائرے میں بند ہو کر جمود اور تعطل کا شکار ہوجاتی ہے۔

جن لوگوں کا مرکز خاندان ہوتاہے وہ اپنے تحفظ اور ذاتی قدر قیمت کا احساس، خاندانی روایات اور اُس کی شہرت سے اخذ کرتے ہیں (ہمارے ہاں بعض لوگوں کا بڑے فخر کے ساتھ اپنا تعارف کسی مخصوص برادری /قبیلے /خاندان کی نسبت سے کروانا اس کی ایک واضح مثال ہے) لہٰذا ان میں ایک کمزوری پیدا ہوجاتی ہے جب بھی ان خاندانی روایات میں کوئی تبدیلی آئے گی یا اُس کی شہرت کو کوئی نقصان پہنچے گا تو وہ بہت بُرے طریقے سے متاثر ہونگے۔ ایسے لوگ انتخابات میں ووٹ ڈالتے وقت قطعاًنہیں دیکھتے کہ صحیح کون ہے اور غلط کون ہے ؟ وہ صرف اور صرف یہ دیکھتے ہیںکہ اُن کے اپنے خاندان یا برادری کا بندہ کون سا ہے۔ خواہ اُس کا کردار کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے لیے اُن کا خاندان گویا ایک بت بن جاتا ہے جس کی وہ پوجا کر رہے ہوتے ہیں اُن کے احساسِ تحفظ، رہنمائی، بصیرت اور طاقت کا تمام تر دارومدار خاندان اور اُس کی روایات پر ہوتاہے۔

3۔ دولت کا مرکز

اللہ رب العزت نے مال و دولت کو انسانی زندگی کے قیام اوربقا کا ذریعہ بنایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِيْ جَعَلَ اﷲُ لَکُمْ قِيٰمًا.

’’اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے‘‘۔

(النساء : 5)

ایک اور مقام پر اسے خیر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

وَاِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيْدٌ.

(العادیات : 8)

’’اور بے شک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے‘‘۔

’’بے شک انسان خیر (مال) کی محبت میں بہت سخت ہے۔ ‘‘

انسانی زندگی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے مال کا ہونا بہت ضروری ہے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے زندگی کو کشتی اور مال کو پانی کی مانند قرار دے کر زندگی میں مال کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا ہے کہ کشتی کی سلامتی اُسی وقت تک ہے جب تک پانی نیچے رہے۔ اگر وہ کشتی کے اوپر آجائے تو وہی پانی کشتی کی تباہی کا باعث بن جاتاہے۔ بالکل اسی طرح جب تک مال ضرورت کے درجے میں رہتا ہے تو خیر ہی خیر ہے لیکن یہی مال جب مقصدِ حیات بن جاتاہے تو پھر انسان کے لیے بہت بڑا فتنہ بن جا تا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَة.

’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تو بس فتنہ ہی ہیں‘‘۔

(الانفال : 28)

حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا :

ان لکل اُمة فتنة و فتنة اُمة مال

’’بے شک ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہوتاہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے‘‘

جب زندگی کا مرکز و محور پیسہ بن جاتاہے تو پھر زندگی کئی طرح کے خوفوں، خدشوں اور اندیشوں کا شکار ہوجاتی ہے چونکہ مال و دولت کو ثبات اورقرار نہیں ہے اور اس پر منفی انداز میں اثرانداز ہونے والے خارجی عوامل بھی بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو ایک طرف تو یہ فکر کھائے جارہی ہوتی ہے کہ مزید مال و دولت کو کیسے حاصل کرنا ہے اور دوسری طرف وہ اس غم میں گھلے جا رہے ہوتے ہیں کہ حاصل شدہ سرمائے کی حفاظت کس طرح کرنی ہے اس طرح زندگی کو تقویت دینے والے چاروں عناصر (تحفظ، رہنمائی، بصیرت اور طاقت) بہت پست سطح پر چلے جاتے ہیں۔ جب ایک انسان کی ذاتی قدرو قیمت کا احساس اُس کی کل جمع شدہ پونجی ہی ہوگی تو صاف ظاہر ہے کہ اُس جمع شدہ پونجی پر اثر انداز ہونے والی کوئی بھی چیز اُسے بے چین کر دے گی۔ علاوہ ازیں مال و دولت نہ تو انسان کو صحیح رہنمائی دیتے ہیں اور نہ ہی سچی بصیرت عطا کرتے ہیں۔ بس ایک محدود سی طاقت اور احساسِ تحفظ فراہم کرتے ہیں مگر یہ طاقت اور تحفظ کا احساس بھی سو طرح کے اندیشوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔

4۔ کام کا مرکز

بعض لوگ جس شعبے میں ہوتے ہیں وہ اپنے شعبے یا کام کو ہی زندگی کا مرکز و محور بنا لیتے ہیں اور زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو نظر اندازکرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اتنے کام کے دھنی بن جاتے ہیں کہ پھر چاہے اُنہیں اپنی صحت کی قربانی دینی پڑے، قریبی رشتوں کو پس پشت ڈالنا پڑے یا زندگی کی دوسری اہم باتوں سے صرفِ نظر کرنا پڑے، وہ بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔ اُن کی بنیادی شناخت ہی کام کے حوالے سے ہوتی ہے۔ مثلاً ’’میں ایک ڈاکٹر ہوں‘‘ ’’میں ایک ادیب ہوں‘‘ ’’میں ایک ایکٹر ہوں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

چونکہ ان کی شناخت اور قدروقیمت کا احساس اُن کے کام میں لپٹا ہوتا ہے لہٰذا اُن کے احساسِ تحفظ کو اس وقت خطرہ لاحق ہو جاتاہے کہ جب اُن کے کام پرکوئی اورچیز اثراندازہو۔ اُن کی رہنمائی بھی کام کے مطالبوں سے اخذ شدہ ہوتی ہے اور اُن کی بصیرت اور طاقت بھی بس اُن کے کام کے محدود دائرے ہی میں ہوتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں اور شعبوں میں بے اثر ہو جاتے ہیں۔

5۔ ملکیت کا مرکز

کچھ لوگ اپنی ملکیت میں موجود مختلف چیزوں مثلاً مکان، دوکان، جائیداد، کار، زیوروغیرہ کو اپنی زندگی کا مرکز بنا لیتے ہیں اور ان کے ذریعے سے ذہنی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ نیز اسی میں سماجی رتبہ (Social status)، عزت و شہرت اور ناموری وغیرہ جیسی غیر مرئی چیزیں بھی شامل ہیں۔ ایسے لوگوں کی تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور مندرجہ بالا چیزیں ہی ہوتی ہیں اور اُن کی جملہ حرکات و سکنات انہی چیزوں کی بقا اور تحفظ نیز ان میں اضافے کے گرد گھومتی ہیں۔

تجربہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ بھی انتہائی کمزور مرکز ہے کیونکہ بے شمار بیرونی عناصر ان اشیاء پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اب جو لوگ ان چیزوں کے ذریعے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کا احساسِ تحفظ انتہائی پست درجے پر ہوتا ہے کیونکہ اُنہیں ہر وقت یہ خوف اور ڈر رہتا ہے کہ کہیں یہ سب کچھ کھو نہ جائے۔ وہ جب کسی دوسرے کو ان چیزوں میں اپنے آپ سے بڑھا ہوا محسوس کرتے ہیں تو احساسِ کمتری اور حسد میں مبتلا ہوجا تے اور جہاں اپنے آپ کو دوسروں سے بڑھا ہوا محسوس کرتے ہیں تو وہاں تکبر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن کی تمام کوششیں اسی ایک نکتے پر مرکوز ہوتی ہیں کہ ان چیزوں کا تحفظ کس طرح کرنا ہے اور ان میں دوسروں سے آگے کیسے بڑھنا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے کمزور اور خامیوں والے مرکز سے حاصل ہو نے والی رہنمائی، بصیرت اور طاقت بھی کمزور درجے کی ہوتی ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو کاروبار میں ناکامی یا کسی اور بڑے نقصان کی صورت میں دل برداشتہ ہو کر خود کشی کرلیتے ہیں۔

6۔ لذت کا مرکز

ملکیت کے مرکز سے جڑا ہوا ایک اور مرکز لذت کا ہے۔ ہماری دنیا میں لذت کے بے شمار سامان موجود ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔ لذت سے مراد جسمانی اور حسی لذتیں بھی ہیں مثلاً کھانا، پینا، جنسی تعلقات اور راحت و آسائش کے دیگر بے شمار سامان اور ذہنی لذتیں مثلاً فلمیں، ڈرامے ناول اور مختلف قسم کے کھیل تماشے جن کا مقصد صرف ذہنی عیاشی ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا ساری چیزیں انسان کو وقتی طور پر ایک سکون اور راحت کا احساس دیتی ہیں لیکن یہ سب کچھ عارضی، فانی اور ناپائیدار ہوتا ہے۔ لوگ ان کے ظاہری پہلو اور وقتی نفع کو دیکھتے ہوئے ان کے دلدادہ بن جاتے ہیں اور زندگی کا مرکزومحور انہی جسمانی و ذہنی لذتوں کو بنا لیتے ہیں لیکن ان کے اندر انہماک ہی انسانی زندگی کو بے شمار پریشانیوں، محرومیوں اور مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے اور زندگی کو کانٹوں کا بچھونا بنا دیتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میانہ روی اور اعتدال کے دائرے میں رہتے ہوئے بے ضرر تفریح (جس کی اسلام میں اجازت دی گئی ہو )انسان کو ذہنی و جسمانی آرام بخشتی ہے اور اُس کی صلاحیتوں کو تروتازہ اور طبیعت کو شگفتہ و شاداب رکھتے ہوئے اُسے اپنے فرائض زیادہ بہتر انداز میں سر انجام دینے کے قابل بناتی ہے نیز دوسرے لوگوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں بھی ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ لیکن جب زندگی کا مقصد ہی محض لذت کا حصول بنا لیا جائے تو اس سے کبھی بھی گہری اور دیرپا تسکین حاصل نہیں ہو سکتی۔ لذت و عیاشی پر مرکوز انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لذت کے موجودہ درجے سے بہت جلد اُکتا جاتا ہے اور پھر اُس سے اعلیٰ درجے کی لذت چاہتا ہے۔ اس طرح اُس کی زندگی محض عیاشی کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ کسی اور کام کا نہیں رہتا۔

بہت لمبی چھٹیاں گزارنا، بہت زیادہ فلمیں یا ٹی وی دیکھنا، بہت زیادہ ویڈیو گیمز کھیلنا، بہت زیادہ غیر منظم وقت گزارنا کہ جس میں انسان کا جو دل چاہے کرتا رہے وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو بہت جلد انسان کو بے کار بنا دیتی ہیں۔ ایسے انسان کی صلاحیتیں بے کار پڑی رہتی ہیں۔ اُس کے جوہر کی نشوونما نہیں ہو پاتی۔ جسم اور جان سست ہوجاتے ہیں اور روح و دل بے سکون رہتے ہیں۔ ہر طرح کی لذتوں اور راحتوں سے استفادہ کرنے کے باوجود زندگی حقیقی کیف اور سکون سے ناآشنا ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں تحفظ، رہنمائی، بصیرت اور طاقت اپنے انتہائی پست درجے پر ہوتے ہیں۔

7۔ دوستی کا مرکز

بعض لوگ اپنی زندگی کا مرکز دوستی کے جذبے کو بنا لیتے ہیں۔ کوئی دوست (یہ صنفِ موافق سے بھی ہوسکتا ہے اور صنفِ مخالف سے بھی ) اس طرح انسان کی زندگی میں آجاتا ہے کہ اُس پر بہت زیادہ جذباتی انحصار پیدا ہو جاتا ہے۔ اور یہ مرض بالعموم جوانی میں لگتا ہے۔ ایسی صورت میں انسان کے سکون و راحت کا دارومدار دوسرے کے ہر وقت بدلتے موڈ، احساسات، جذبات اور رویے پر ہوتا ہے۔ اور یہ انتہائی کمزور بنیاد ہے کیونکہ کسی ایک شخص پر اتنا زیادہ جذباتی انحصار بہت سارے منفی مسائل پیدا کرتا ہے۔ نتیجۃً تحفظ، رہنمائی، بصیرت اور طاقت بھی نچلے درجے میں چلے جاتے ہیں۔

کئی مرتبہ دوستوں کا ایک حلقہ معرضِ وجود میں آجاتا ہے جو انسان کی توجہات کا مرکزو محور بن جاتا ہے۔ اپنے حلقے سے وابستہ ہونے میں انسان فخر محسوس کرتا ہے اور یہ چیز زندگی میں اتنی زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ اس تعلق کو نبھانے میں بعض اوقات بڑے بڑے غلط کام بھی کر لیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت مرتبہ قتل کے واقعات میں دوستوں کا بھرپور تعاون شامل ہوتا ہے۔

8۔ دشمنی کا مرکز

بظاہر تو یہ بات بڑی عجیب دکھائی دیتی ہے کہ کوئی شخص دشمنی کے جذبے کو اپنی زندگی کا مرکزو محور بنا لے لیکن عملی طور پر اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے کسی دشمن کو اپنے منفی جذبات و احساسات پر مبنی سوچوں کا مرکزو محور بنا لیتا ہے۔ یہ دشمن اُس کا کوئی سابقہ شراکت دار (Partner ) بھی ہوسکتا ہے جس نے انسان کو دھوکہ دیا ہو یا نقصان پہنچایا ہواور سابقہ جیون ساتھی بھی ہوسکتا ہے جس سے لڑائی جھگڑے کی بنا پر نوبت طلاق تک پہنچ گئی ہواور اس کے علاوہ کوئی بھی ایسا فرد ہو سکتا ہے جس کے کسی غلط طرزِ عمل کی بنا پر انسان کو کوئی نقصان پہنچا ہو یا نفسیاتی دھچکا لگا ہو۔

دشمنی کو زندگی کا مرکز و محور بنا لینے کی صورت میں انسان ہروقت اپنے دشمن کے رویے کے متعلق سوچ سوچ کر جلتا اور کڑھتا رہتا ہے اور اُس کے ذہن میں نفرت اور بعض اوقات انتقام کے جذبات بھی گردش کرتے رہتے ہیں۔ ایسا شخص ایک پُر اثر زندگی گزارنے کی بجائے اپنے دشمن کے رویوں اور باتوں پر ردِّ عمل کا اظہار کرنے میں مصروف رہتا ہے اور ہر وقت اُسے ہی اپنی سوچوں پر سوار کیے رکھتا ہے۔ چناچہ اُسے اندرونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ اپنی قدروقیمت کا احساس محض خیالی ہوتا ہے جس کا دارومدار دوسرے کی جذباتی کیفیت اور رویے پرہوتا ہے۔ ایسے شخص کی رہنمائی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ مخالف کا ردِّعمل کیا ہوگا۔ اور اُس کی بصیرت کو بھی دشمنی کا مرکزمحدود کر دیتا ہے۔ نیز ایسے فرد کے پاس کوئی طاقت بھی نہیں ہوتی اور وہ دوسرے شخص کی کمزوریوں کو اس بات کی اجازت دے رہا ہوتا ہے کہ وہ اُس کی زندگی کے تمام نقشے کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیں۔

9۔ عبادت کا مرکز

عبادت انسان کے روحانی وجود کی بقا کے لیے ضروری ہے جس کے بغیر روح مردہ ہوجاتی ہے اور انسان چلتی پھرتی لاش بن جاتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندگی کا تعلق مضبوط بنانے کے لیے بھی عبادت نا گزیر ہے لیکن ہر چیز توازن، اعتدال اور میانہ روی کے دائرے میں ہی اچھی لگتی ہے۔ جب ایک شخص اعتدال کے دائرے سے باہر نکل کر صرف عبادت (یہاں عبادت سے مراد، عبادت کا وہ محدود تصور ہے جو ہمارے ہاں کم علمی کی بنا پر صرف نماز، روزے، حج، زکوٰۃ وغیرہ تک محدود کر لیا جاتا ہے) کو ہی زندگی کا مرکزومحور بنالے تو پھر دیگر انسانی ضروریات کے بارے میں اُس کے اندر حساسیت کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے۔ بالفاظ ِدیگر حقوق النفس اور حقوق العباد نظر انداز ہونے لگتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان لا رھبانیۃ فی الاسلام (اسلام میں رہبانیت نہیں ہے ) میں اسی رجحان کی ممانعت کی گئی ہے۔ نیز جب بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق عباداتِ شاقہ پر ساری زندگی کاربند رہنے کا عزم کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سختی سے منع فرماتے ہوئے اعتدال والی روش کو اپنانے کا حکم دیا۔ عبادت کو اس طرح زندگی کا مرکزو محور بنا لینے سے زندگی عدمِ توازن کا شکار ہو جاتی ہے اور تحفظ، رہنمائی، بصیرت اور طاقت بھی ایک محدود دائرے میں سکڑ کر رہ جاتے ہیں۔

10۔ خود مرکزیت

خود مرکزیت کا مطلب ہے اپنی ذات کو مرکزبنا لینا۔ اسی کا دوسرا نام خود غرضی ہے جس کی اسلام میں سخت ممانعت کی گئی ہے۔ اپنے آپ کو مرکز بنا لینے سے انسان ذاتی مفادات کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے وہ ہر معاملہ میں صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس میں مجھے کیا فائدہ ہو گا۔ اُس کی اولین ترجیح اپنی ذات ہوتی ہے۔ دوسروں کے ساتھ تعلقات اور معاملات میں اُسے صرف اور صرف اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے خواہ دوسروں کے نقصان کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے شخص کو اگر موقع ملے تو وہ اپنے معمولی فائدے کے حصول کے لیے ملک اور قوم کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچا دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یہ خود غرضی، حرص اور لالچ انسان کو جامد، بے حس اور بے غیرت بنا دیتی ہے اور وہ اعلیٰ اخلاقی قدروں سے تہی دامن ہوتا جلد چلا جاتا ہے۔ نیز اُس کے پاس تحفظ، رہنمائی، بصیرت اور طاقت جیسے جواہر بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس اگر انسان اپنی ذاتی ترقی پر اس نیت سے توجہ دے کہ اس کے ذریعے سے خدمت اور نفع بخشی کی صلاحیت بڑھ جائے گی اور ماحول اور معاشرے کو زیادہ بہتر انداز میں فائدہ پہنچایا جا سکے گا تو یہ ایک نہایت اعلیٰ درجے کی خصلت ہوگی اور ایسی صورت میں زندگی کو تقویت دینے والے چاروں عناصر بھی ڈرامائی انداز میں بڑھ جاتے ہیں لیکن جب دوسروں کی نفی کی قیمت پر آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے تو یہ روش انسان کو انسانیت کے مرتبے سے گرا کر حیوانیت کے مرتبے سے بھی پست درجے میں لے جاتی ہے جہاں اُسے بحیرہ مردار (Dead sea) کی طرح دوسروں سے صرف لینا ہی آتا ہے اور دینا نہیں آتا۔ ایسا شخص ماحول اور معاشرے کی نظروں میں گرنے کے ساتھ ساتھ خود اپنی نظروں میں بھی گرتا چلا جاتا ہے۔

مندرجہ بالا مراکز کی فہرست حتمی نہیں ہے۔ اس میں چند اور ناموں کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اکثرو بیشتر لوگوں کی زندگیوں کا مرکز و محور مندرجہ بالا یا اسی طرح کی کچھ اور چیزیں بنی رہتی ہیں اور پھر انہی کی مناسبت سے اُن کی زندگیوں پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ کوئی ایک ہی مرکز ساری زندگی برقرار رہے بلکہ وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے ہیں۔ بچپن کے زمانے کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں اور جوانی کے زمانے کی ترجیحات اور ہوتی ہیں جبکہ بڑھاپے کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ایک وقت میں کوئی ایک ہی چیز انسان کا مرکزِ توجہ بنی ہوئی ہو۔ ایک سے زیادہ چیزوں کا مجموعہ بھی زندگی کا مرکزو محور ہوسکتا ہے اور عموماً ایسا ہی ہوتا ہے۔ تاہم اُس میں پھر ترجیحات کا اُصول چلتا ہے۔ ایک وقت میں انسان کسی ایک چیز کو ترجیحِ اول بنائے ہوئے ہوتا ہے جب کہ دوسرے وقت میں کسی دوسری چیز کو۔ لیکن یہ بات بہر حال مسلمہ ہے کہ انسان کو علم ہویانہ ہو زندگی کی ہر سٹیج پر کوئی نہ کوئی چیز انسان کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہوتی ہے اور اُسی مناسبت سے اُس کی زندگی کی سرگرمیوں کا رُخ متعین ہورہا ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا مراکز میں پائی جانے والی دونمایاں خامیاں درج ذیل ہیں۔

i۔ تغیر پزیری : اکثر و بیشتر جن چیزوں کو انسان اپنی زندگی کا مرکزو محور بناتا ہے وہ تغیر پذیر ہوتی ہیں، فانی، عارضی اور ناپائیدار ہوتی ہیں۔ اُن میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ زندگی کو استحکام اور قرار نصیب نہیں ہوپاتا۔ زندگی ہر وقت حوادثات کی زد میں رہتی ہے۔ تبدیلیوں کو برداشت کرنا اور اُن کا سامنا کرنا انسان کے لیے بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک کمزوری کا مداوا دوسری کمزوری سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی مستقل سمت کا احساس نہیں ہوتا۔ بصیرت قائم نہیں ہوتی اور طاقت کا کوئی باقاعدہ ذریعہ نہیں ہوتا۔ ذاتی اور اندرونی قدرو قیمت کا احساس اور تشخص بھی کہیں کھو جاتے ہیں۔ شاخِ نازک پر بننے والے آشیانے کا انجام اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟

ii۔ محدودیت : ان مراکز کی دوسری خا می ان کا محدود ہونا ہے۔ انسانی زندگی کثیر الجہات (Multi Dimensional ) ہے۔ اس کے بہت سے پہلو اور گوشے ہیں اور اس میں طرح طرح کی بوقلمونیاں پائی جاتی ہیں۔ مندرجہ بالا میں سے انسان جس بھی چیز کو مرکز بنائے گا وہ محدود ہوگی۔ کسی ایک ہی جانب حد سے زیادہ جھکاؤ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے درمیان عدمِ توازن پیدا کردے گا جبکہ زندگی کا سارے کا سارا حسن اس بات میں ہے کہ زندگی کے مختلف پہلوؤں اور جہتوں میں ایک خوبصورت توازن، تناسب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔ چنانچہ اس طرح زندگی محدودیت کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ بھرپور، فعال، مؤثر، متحرک اور ہمہ جہت و ہمہ رنگ زندگی جو ایک مردِ مومن کا طُرَّہ امتیاز ہوا کرتی ہے اُسے گزارنا ممکن ہی نہیں رہتا۔ اور انسان اپنے حقیقی مقام و مرتبے سے بہت نیچے آکر زندگی گزارنے پر مجبور ہاجاتا ہے۔ یہی کچھ لوگوں کی اکثریت کے ساتھ ہورہا ہے۔

(جاری ہے)