پاکستان کی نظریاتی اساس پر حملے

اس میں کوئی شک نہیں کہ بیسوی صدی کے وسط میں دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ابھرنے والا ملک، اسلام کے گہوارے کے طور پر بنایا گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم بطور قوم اس وعدے سے پھر گئے ہیں۔ اس کے بانی قائدین سے لے کر اس کے لئے جان قربان کرنے والے لاکھوں افراد اور اس کی سرزمین پر ہجرت کر کے آنے والے کروڑوں مہاجرین سب کے سب کلمہ گو مسلمان تھے۔ قربانیوں کے یہ سارے سلسلے مضبوط مذہبی اور دینی جذبے کے تحت ہی قائم رہے، ورنہ کوئی آسانی سے جان دیتا ہے اور نہ گھربار چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوزائیدہ پاکستان پر بھارتی نیتاؤں نے پہلے ہی دن سے چڑھائیاں اور حملے جاری رکھے۔ 47، 65 ،71ء اور 1998ء کی پاک بھارت جنگیں بار بار اس دو قومی نظریے کی تعبیر و تشریح کرتی رہیں۔ جغرافیائی سرحدوں پر ہونے والے ان مسلسل حملوں کے ساتھ ساتھ اب عالمی طاغوت کے ساتھ سازباز کرتے ہوئے بھارت کی طرف سے ہماری نظریاتی اساس پر بھی حملوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

مخالفین اسلام اور دشمنانِ وطن کی طرف سے یہ زہریلے حملے دو سطحوں پر جاری ہیں۔ ایک میڈیا کی سطح پر اور دوسرا بعض سازشی افراد کی پروپیگنڈہ مہم کی صورت میں۔ اس مہم کے دو حصے ہیں۔ ایک ان مذہبی لوگوں پر مشتمل ہے جن کے اکابرین نے تحریک پاکستان میں نہ صرف خود حصہ نہیں لیا بلکہ اس کی بھرپور مخالفت بھی کی۔ ان لوگوں کے نزدیک علامہ اقبال اور قائداعظم مغربی تعلیمی اداروں کے پڑھے ہوئے لوگ تھے۔ اس لئے انہوں نے اسلام مخالف قوتوں کا آلہ کار بن کر مسلمانان برصغیر کی اجتماعی قوت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا۔ پاکستان مخالف مہم کا دوسرا فریق اس مذہبی گروہ سے بالکل برعکس ہے, وہ لوگ خود کو سیکولرازم کا علمبردار سمجھتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان کی بقاء سیکولرازم سے مشروط ہے۔ ان کے نزدیک مذہبی جماعتیں اور شخصیات آئے روز قتل و غارت گری میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس لئے ملک کی مذہبی شناخت پوری دنیا کے ساتھ ساتھ خود کئی پاکستانی طبقات کے لئے بھی خطرناک ہے۔ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر وہ قائداعظم کو خالص سیکولر شخص کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور دو قومی نظریے کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔

نام نہاد اشرافیہ کا ایک گروہ بھی اس ابلیسی مہم کا حصہ ہے, جس میں بعض سیاسی گروہوں کے قائدین اور سماجی و صحافتی شخصیات شامل ہیں۔ یہ لوگ آئے روز نئے سے نئے نظریاتی الجھاؤ اور فکری تضادات گھڑ کر قوم کو گمراہ کرنے کی نہایت منفی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی زبانیں کچھ زیادہ ہی زہر اگلنے لگی ہیں۔ ابھی فضاؤں میں کراچی کے حالات پر سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزامات کی بازگشت گونج رہی تھی کہ ایک معاصر T.V چینل پر ایک صحافی خاتون کو بٹھایا ہوا تھا، جو دو قومی نظریے سمیت اسلامی اور پاکستانی تاریخ کے بہت سے حقائق کو جھوٹ کا پلندا قرار دے رہی تھی۔ مثلاً وہ اس بات پر انتہائی غصے اور نفرت انگیز لہجے میں دلائل دے رہی تھی کہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر ہرگز قائم نہیں ہوا۔ قائداعظم نے پاکستان کو اسلامی قوانین کی تنفیذ کے لئے نہیں بنایا۔ اسی طرح اقبال نے بھی کسی ایسے ملک کا تصور پیش نہیں کیا جہاں اسلام کا تشخص اجاگر کیا جا سکے۔ ’’سیفما‘‘ سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کی زبان سے الفاظ نہیں بلکہ آگ کے زہریلے شعلے نکل رہے تھے اور یہ سب کچھ آن ائر پوری قوم سن رہی تھی۔ اس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کے واضح جارحانہ منفی کردار کی بجائے پاکستان آرمی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ بقول اس کے پاک آرمی کے افسروں اور نوجوانوں نے بنگالی خواتین کو (العیاذ باللہ نسل تبدیل کرنے کے لئے) اندھا دھند ریپ کیا۔ حالانکہ اس پرانے الزام کی تردید خود بنگلہ دیش کے دانشوروں کی کتب اور بیانات سے کئی بار ہو چکی ہے۔

قارئین! آپ خود اندازہ لگائیں، کیا یہ خواتین و حضرات جو آئے روز پاکستان اور اس کی بانی قیادت کے بارے میں مختلف تقریبات میں نئے نئے شوشے چھوڑتے ہیں، پاکستان میں بیٹھ کر اس کی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپ رہے؟ حقیقت میں یہ آستین کے سانپ ہیں۔ انہیں جب بھی ملک دشمنی کا موقع ملتا ہے، اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لئے ’’حقِ نمک‘‘ ادا کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو آج کل نوجوان نسل کو ورغلانے اور انہیں پاکستان کے بنیادی نظرئیے سے برگذشتہ کرنے کا ٹاسک ملا ہوا ہے، مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ابھی تک ہمارے بزرگوں کی شکل میں وہ نسل موجود ہے، جنہوں نے پاک وطن کے لئے خود قربانیاں دیں اور ہجرت کی۔ ان کی سماعتوں سے ابھی تک قائدین تحریک پاکستان کے نعرے اور تقاریر ٹکرا رہی ہیں۔

اسلامیان برصغیر نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت اور شہادتوں کا طویل سلسلہ سیکولر پاکستان کے قیام کی خاطر نہیں بلکہ ایک نظریاتی مسلمان ملک کے لئے پیش کیا تھا جہاں زبان، نسل، رنگ اور صوبوں کی شناخت مٹا کر تمام کلمہ گو پرچم محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیچے جمع ہو جائیں اور اسلام کے آفاقی پیغامِ امن کو پوری دنیا تک پہنچانے میں پاکستان ایک متحرک مرکز کا کردار ادا کرے۔

جہاں تک دیگر مذہبی اقلیتوں کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ کی طرح پاکستانی معاشرے کا حصہ ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پہلی اسلامی ریاست مدینہ میں تمام مذہبی اکائیوں کے ساتھ دنیا کا پہلا تحریری دستوری معاہدہ ہوا تھا۔ قائد اعظم  کا یہ کہنا کہ پاکستان تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لئے پرامن ملک ہو گا۔ اس سے اس کے سیکولر ہونے کی دلیل نہیں دی جا سکتی۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح پندرہ صدیوں سے آج تک جملہ مسلم ممالک میں تمام اقلیتیں پرامن بقائے باہمی کے جذبے کے تحت خوش و خرم رہ رہی ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کی اس فراخدلی اور رواداری کی گواہی خود بھارت کے ہندو بھی دیتے ہیں، جن کی کئی نسلیں مسلمانوں کے دورِ اقتدار میں یہاں پلتی اور بڑھتی رہیں مگر تمام تر اختیارات کے باوجود کسی مسلمان فرمانروا نے ان پر زبردستی اپنے مذہبی عقائد مسلط نہیں کئے۔ اگر ایسا ہوتا تو سات آٹھ سو سالہ اقتدار کے بعد بھارت میں ہندو اتنی کثرت کے ساتھ موجود نہ ہوتے۔ یاد رہے کہ ہندو مسلم تفریق جو مسلمانوں کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد انگریزوں کے دور میں شروع ہوئی، پہلے نہیں تھی۔ پاکستان کا جواز بھی اس وقت پیدا ہوا جب ہندو اکثریت نے مسلمانوں کو روز مرہ زندگی کے معاملات میں نفرت، حقارت اور بدسلوکی کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ بھارت میں آج بھی کروڑہا مسلمان آباد ہیں مگر کشمیر اور حیدرآباد جیسے مسلم اکثریتی علاقوں سمیت کون سا علاقہ ہے، جہاں آئے روز مسلمان مذہبی تفریق اور ظالمانہ تعصب کا نشانہ نہیں بنتے۔

آج جو لوگ قائداعظم کی تقریروں اور تحریروں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ انہوں نے کہیں بھی پاکستان کو اسلامی ملک بنانے کا ذکر نہیں کیا (قطع نظر اس کے کہ وہ ایک مخلص مسلمان تھے اور ان کی کاوشوں کا مدعا بھی مسلمانان برصغیر کی بہتری اور بھلائی تھی جس کے لئے وہ علیحدہ ملک چاہتے تھے) ایک لمحے کے لئے یہ تصور کر بھی لیا جائے کہ قائداعظم پاکستان کو خالص مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے، تب بھی ان لوگوں کی کاوشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس لئے کہ اکیلے قائداعظم نے پاکستان نہیں بنایا بلکہ تحریک پاکستان کے قائدین تو سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں موجود تھے جو پورے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے۔ جن کی نمائندگی نامی گرامی علماء و مشائخ اور سیاسی و سماجی شخصیات کر رہی تھیں۔ انہوں نے متفقہ طور پر محمدعلی جناح کو اپنا قائد اور وکیل بنایا ہوا تھا۔ انہیں ’’قائداعظم‘‘ کہنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ ان تمام قائدین کی قیادت کر رہے تھے۔ لہٰذا مدعاء کلام یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس مملکت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور اپنی تحریر و تقریر میں اس کی اہمیت اجاگر کی وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ یہ لوگ کس کس کی زندگیوں سے اسلام اور پاکستان کو نکال سکیں گے؟

یہ جو کہا گیا کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں پاکستان کی تاریخ درست نہیں پڑھائی جا رہی۔ جن لوگوں نے یہ تاریخ بنائی ہے انہیں صحیح اور غلط کا زیادہ علم ہے یا جو ساٹھ سال بعد غیر ملکی آقاؤں کی گود میں بیٹھ کر اس کا جائزہ لے رہے ہیں انہیں حقیقت حال کا بہتر علم ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخ کو ایک مخصوص طبقہ اپنے خودساختہ تصورات کے آئینے میں درست نہیں سمجھ رہا۔ یہ لوگ اس واضح تاریخ کو مٹانے کے جتن کر رہے ہیں جس کے اوراق لاکھوں شہیدوں کے خون سے لکھے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ خون سے لکھی ہوئی تاریخ ہمیشہ اَن مٹ اور دائمی ہوتی ہے۔

اب آئیے میڈیا کے اس کردار کا جائزہ لیتے ہیں جس سے پاکستان کی نظریاتی اساس پر براہ راست حملے ہو رہے ہیں اور ہماری نوجوان نسل تیزی کے ساتھ ’’مسلم شناخت‘‘ کھو رہی ہے۔

ہمارے میڈیا چینلز تو اب دن دگنی رات چوگنی ترقی کر کے اپنے ’’فیوضات‘‘ کا سلسلہ دراز کر لیا ہے۔ انہوں نے رمضان میں اگرچہ چند اچھے پروگرام بھی دکھائے مگر جیسے ہی رمضان رخصت ہوا ان کا قبلہ ہی تبدیل ہو گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے محرم کے ابتدائی عشرے میں ہمارا میڈیا مومن بن جاتا ہے اور اگلے ہی روز سب خواتین و حضرات یزیدی لشکر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ غضب خدا کا، لچر پن میں یہ چینلز ایک سے بڑھ کر ایک بیہودگی منظرِ عام پر لاتے جا رہے ہیں اور اس ’’بے تکلف‘‘ دوڑ میں بازی لینے کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ سوائے ایک آدھ چینل کے ہر جگہ ناچ گانے پر مبنی ناقابلِ برداشت مخربِ اخلاق پروگرامز نشر ہو رہے ہیں، حالانکہ ہمارے شمالی علاقہ جات، بلوچستان اور کراچی سمیت پورے ملک میں لاشیں گر رہی ہیں۔ ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ ثابت ہو چکا ہے کہ اس ملک دشمن سازش میں دین دشمن ابلیسی تکون کا اہم رکن بھارت پیش پیش ہے۔ مگر ہمارا میڈیا صرف روپیہ بنانے کے چکر میں پوری قوم کو بے غیرتی اور ایمانی ہلاکت کی وادیوں میں دھکیل رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے لوگوں کو اسی بھارتی کلچر کا دیوانہ بنانے کی جیسے قسم کھا رکھی ہے۔ بقول میر

میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

یہ فحش بھارتی کلچر ہماری معاشرتی اور مذہبی اقدار کو بری طرح نگل رہا ہے۔ آپ ملک کے کسی شہر سے کسی گاڑی پر بیٹھیں آپ کو ہر طرف ننگے جسموں کے ساتھ رقصاں بھارتی اداکاروں کے ڈانس اور فحش بھارتی گانوں کی آوازیں سنائی دیں گی۔ اب تو ہمارے ملک کے سینما گھر بھی بھارتی فلموں سے آباد کیے جا رہے ہیں۔ ملک و ملت کی غیرت و حمیت فروخت کر کے اگر دولت کمانی ہے اور تفریح کا سامان کرنا ہے تو لعنت ہے۔ ہمارے مذہبی، امتیازی دعوؤں پر۔ ایک طرف ہم نوجوان نسل کے لئے دو قومی نظریے کے تحفظ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے مادر پدر آزاد میڈیا کی وسیع تر تخریب کاری سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔

اسلام اور پاکستان دشمن طاقتیں غیر روائتی انداز سے ہماری نوجوان نسل کے ایمانی جذبوں پر شدید حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان حملوں کے آلہ کار وہ پاکستانی چینلز ہیں جن پر تفریح کے نام پر اسلام، نظریۂ پاکستان اور شرافت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ ہمارے ان ٹی وی چینلز پر درجنوں ڈرامے ایسے چل رہے ہیں جن میں لڑکوں اور لڑکیوں کو آزادانہ اختلاط کی ترغیب اور گھر سے بھاگ کر کورٹ میرج کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح موبائل کمپنیوں کے اشتہارات کا طوفان بدتمیزی ہے جن میں آئے روز نئے سے نئے سلوگن متعارف کرائے جاتے ہیں۔ کبھی ’’رات لمبی بات لمبی‘‘ ’’ٹاک شاک‘‘ ’’بول کے لب آزاد ہیں تیرے‘‘ ’’آؤ بات کریں‘‘ اور انہی جیسے دیگر ذومعنی جملوں کے ذریعے نوجوان نسل کو بلاخوف و خطر غیر اخلاقی گفتگو کا آزادانہ موقع معمولی سی قیمت میں فراہم کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے، اور یہ فری پیکجیز ہی ہماری سوسائٹی کو جڑوں سے کھوکھلا کر رہے ہیں۔ جس کا اثر روزمرہ کی زندگی میں ہر چوک، ہر گلی، ہر بس سٹاپ اور دیگر مقامات پر دیکھا جا سکتا ہے، جہاں دنیا و مافیھا سے بے خبر نوجوان لڑکے لڑکیاں مصروف گفتگو نظر آتے ہیں۔

موبائل کمپنیوں کے علاوہ دیگر ملٹی نیشنل اداروں کے یہ اشتہارات اتنی کثرت کے ساتھ بار بار ٹی وی سکرین پر نشر ہوتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ نوجوانوں کے حافظہ پر اثر انداز ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں انہی جملوں پر مبنی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی ان کی زبان پر ’’شیلا کی جوانی‘‘ اور کبھی ’’منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے‘‘ سنائی دیتے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ ہم کون سی نسل تیار کر رہے ہیں؟ رہی ہمارے کیبل زدہ گھروں کی سنجیدہ خواتین تو وہ پہلے سے سٹار پلس کی ریگولر ویورز ہیں۔

اب تو حساس اداروں کی طرف سے ایسی رپورٹس بھی سامنے آ رہی ہیں جن میں واضح انداز میں بعض TV چینلز کو ان طاقتوں کی طرف سے کروڑوں ڈالر اسی قبیح مقصد کی تکمیل کے لئے دئیے جا رہے ہیں۔ اس لیے ہماری چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری سے دردمندانہ درخواست ہے کہ جس طرح انہوں نے کراچی بچانے کے لیے سوموٹو ایکشن لے کر تحقیقات شروع کر دی ہیں اور اس کے حوصلہ افزاء نتائج بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی نوجوان نسل کا ایمان، اس کے نظریاتی تشخص اور اسلام کی غیرت کو بچانے کے لئے بھی سوموٹو ایکشن لیں۔ اس سے پاکستانی معاشرے پر جو اثرات مرتب ہوں گے، سو ہوں گے، مگر کم از کم آپ کے نامہ اعمال میں ایک ایسا اضافہ ضرور ہو جائے گا جو آپ کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سرخرو کر دے گا۔

ایسے نام نہاد پاکستانی T.V چینلز کے غیر ملکی پروگرامز غیر اخلاقی اشتہارات سمیت تمام غیر ملکی مخرب اخلاق فلموں پر پابندی لگائی جائے۔ ورنہ سیفما کی طرح سٹیج روز لگیں گے اور عام لوگ بھی یہ کہتے ہوئے سنائی دیں گے کہ ہم تو ایک کلچر کے دلدادہ ہیں، اس لیے یہ سرحدی لکیریں کیوں کھڑی کی گئی ہیں۔

اسلام میں زمینی خطوں سے کہیں زیادہ تعلیمات اور نظریات کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جغرافیے بدل بھی جائیں تو دوبارہ متشکل ہو جاتے ہیں مگر قوم کا مزاج فکر و عمل بدل جائے، اس کی روایات دم توڑ دیں یا تعلیمات کی روح فوت ہو جائے تو وہ صدیوں تک دوبارہ بحال نہیں ہو پاتیں۔ سماجی روایات اور ثقافت صدیوں کی جانفشانی سے تعمیر ہوتی ہیں۔ اس کی حالیہ اور بہت خوبصورت مثال ترکی ہے، جو ایک صدی کے بعد اسلامی روایات کی طرف لوٹنا شروع ہوا ہے۔ نہ جانے ان اقدار کی طرف لوٹنے اور انہیں اپنے معاشرے میں راسخ کرنے کے لئے ہمیں مزید کتنا عرصہ درکار ہو گا۔۔۔؟

ہمارے ہاں فحاشی و بے حیائی کا پنپتا ہوا کلچر اسی بھارت نواز میڈیا کا شاخسانہ ہے۔ یہ اسی طرح سرگرم رہا تو اس آزادی کا معنی کیا ہوگا؟ جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی اور آزادی کی اس جنگ میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے تھے۔

تحریک منہاج القرآن کے لاکھوں کارکنان دراصل تحریک تکمیل پاکستان کے مشن کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہیں اندرون اور بیرون ملک مندرجہ بالا دونوں سازشوں کا ادراک بھی کرنا چاہئے اور اپنے اپنے دائرہ اختیار میں ان دونوں زہریلے فتنوں سے قوم کو بچانے کی سعی بھی بروئے کار لانی چاہئے۔ اس لئے کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جس بیدارئ شعور کا آغاز فرمایا ہے، اس ہمہ جہتی تحریک کا ایک پہلو اپنے نظریات اور روایات کا تحفظ بھی ہے۔

ڈاکٹر علی اکبر قادری