القرآن : فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام انقلاب کے راستے کی بڑی رکاوٹ

مرتّب : محمد یوسف منہاجین معاون : اظہر الطاف عباسی

زیر نظر مضمون شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا بیداری شعور کنونشن (cd # 1462 مورخہ 09-04-2011 ) کے موقع پر کارکنان تحریک سے کیا گیا خطاب ہے۔ اس خطاب کے حصہ اول و دوم (شائع شدہ مجلہ ماہ ستمبر+ اکتوبر2011ء) میں آپ نے بیداری شعور کو قرآن پاک کی متعدد آیات کی روشنی میں بیان فرماتے ہوئے انقلاب کا حقیقی راستہ، صبرو استقامت، تحریک کی حکمت عملی و غلط فہمیوں کا ازالہ، بیداری شعور تحریک کی چار جہات، اخلاص و للہیت، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفا کرنے کا مفہوم (سیرت صحابہ کی روشنی میں) اور پاکستان کے موروثی جمہوری نظام کوتفصیلاً بیان فرمایا۔ اسی خطاب کا آخری حصہ نذرِ قارئین ہے۔

مغربی طریق پر ہمارے ملک میں جو الیکشنز ہوتے ہیں یہ جمہوریت اور انتخابات ان ہی ملکوں کے لئے مناسب ہے جن کے پیچھے دو سو سال کی تعلیم اور سماجی ترقی کا تسلسل ہے، معاشرتی بیداری کا ایک سفر ہے۔ ان تمام مغربی ممالک کے تمام شہری حتی کہ school going بچے بھی جماعتوں کے characters، ان کی پالیسیوں، ان کے منشوروں اور ان کی تمام ترجیحات سے واقف ہیں کہ کس پارٹی کی کیا پالیسی ہے؟ یہ پارٹی گورنمنٹ میں آئی تو مختلف حکومتی معاملات پر اس کی پالیسیاں کیا ہوں گی؟ ایک ایک ووٹر کو یہ سب کچھ پتہ ہوتا ہے کہ میرے اس ووٹ سے ملک کے معاملات میں کیا تبدیلیاں آئیں گی۔

اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ مغربی ممالک کی حالتِ تعلیم، شعور، آزادی فکر اور آزادی رائے کا ملک پاکستان کے ساتھ موازنہ کریں کہ کیا یہاں کسی کو شعور ہے کہ اس کے ووٹ سے کیا تبدیلی آئے گی؟ یہاں تو ووٹ دینے کا مقصد صرف اور صرف گلیاں بنوانا، نالیاں بنوانا اور بجلی کے کھمبے لگوانا ہے۔ ۔ ۔ برادری ازم، غنڈہ گردی اور پیسے کو ووٹ ملتے ہیں۔ ۔ ۔ آٹے کے تھیلے اور دیگیں تقسیم کر کے ووٹ لئے جاتے ہیں۔ جو اس بے شعور قوم کو نقدی دیتا ہے اسی کو ووٹ ملتے ہیں۔ ملک پاکستان کے انتخابات میں ساز باز ہوتی ہے، establishment اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ۔ ۔ پولیس کا عمل دخل ہے۔۔۔ DC اور ساری مشینری سرگرم ہوتی ہے۔۔۔ مخصوص امیدواروں کے لئے ماحول بن جاتا ہے۔۔۔ میڈیا کا کردار شامل ہوجاتا ہے، انہی مخصوص امیدواروں کا نام لے کر اینکرز صبح و شام تذکرہ شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ ہر جگہ پیسے بٹ جاتے ہیں اور کروڑوں اربوں روپے کی Deal ہوجاتی ہیں۔۔۔ دو تین ماہ مسلسل ان ہی کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ باقی وہ احباب جو شرفاء ہیں جن کے پاس حرام کی دولت نہیں، کروڑوں، اربوں روپے لگانے کی استعداد نہیں، جن کے پیچھے اندرونی و بیرونی ایجنسیوں کا کردار نہیں، ان تمام احباب کا میڈیا اور اخبارات میں صفایا ہوجاتا ہے۔ وہی کرپٹ لوگ زندہ رہتے ہیں جن کے پاس پیسہ، غندہ گردی، برادری، ایجنسیاں اور بیرونی دبائو ہے جبکہ اسکے برعکس جس کے پاس علم ہے اس کا صفایا ہوجاتا ہے۔۔۔ فکر ہے تو اس کا صفایا۔۔۔ جس کے پاس کردار ہے تو اس کا صفایا۔۔۔ جسکے پاس قوم کو کچھ دینے کی صلاحیت ہے اس کا صفایا۔۔۔ جو ملک و قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں ان کا صفایا۔۔۔ اخلاق، شرافت، علم، فکر، امانت، دیانت یہ سب اس نظام کے اندر جرائم ہیں اور اسی کرپٹ اور فرسودہ نظام کو بچانے کے لئے ساری حکومتیں اور جماعتیں متفق ہیں۔

آج نام نہاد جمہوری نظام کے متوالے عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اس نظام کے بچانے کا نعرہ لگا رہے ہیں کہ اس نظام کو بچاؤ، اس نظام کو بچاؤ، میڈیا پر بھی 24 گھنٹے ایک شور ہے کہ اس نظام کو بچنا چاہئے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کس نظام کی بات کرتے ہو؟ وہ نظام جس نے تیرہ کروڑ عوام کو دوزخ میں ڈال رکھا ہے۔ یہ صرف اور صرف لٹیروں، بد دیانتوں، کرپٹ لوگوں، حرام خوروں، عیاشوں، جاہلوں، سازشیوں اور چند مفاد پرستوں کی بقاء و سا لمیت کا نظام ہے۔ یہ سترہ کروڑ عوام کی خوشحالی اور ترقی کا نظام ہر گز نہیں ہے۔ اس نظام نے عوام کو بھیڑ بکریاں بنا رکھا ہے۔

اس نظام میں ہر ایک کی باریاں لگی ہوئی ہیں، یہ گئے وہ آجائیں گے۔۔۔ وہ جائیں گے تو یہ آئیں گے۔۔۔ اور اب تو باریاں بھی نہیں بلکہ ساروں کو اکٹھا حصہ ملتا ہے۔ کوئی مرکز میں، کوئی پنجاب میں، کوئی خیبر پختونخواہ میں، کوئی بلوچستان میں، کوئی سندھ میں ہے، سارے حکومت میں ہی بیٹھے ہوئے ہیں، اپوزیشن ہے ہی نہیں۔

اس ملک میں کیا کسی نے ووٹ دینا ہے، کسی جماعت کا منشور (Menifesto) ہی نہیں بچا اور نہ اس ملک میں کوئی کسی جماعت کا منشور پوچھتا ہے۔ منشوروں کے دور چلے گئے۔ ۔ ۔ منشور، نظریات، جماعتوں کی فکر اور پالیسیاں سب ختم ہوگئے۔ اب تو منشور صرف یہ ہے کہ آئندہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے اور ذوالفقار علی بھٹو کے case کو Reopen کرنے پر الیکشن لڑا جائے گا کہ ہم نے بھٹو کے کیس کو Reopen کردیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل بے نقاب کر دیئے۔

5 سال یہ سارے اکٹھے چلیں گے، مل کر کھائیں گے، آخر پر ایک دوسرے پر کرپشن کا الزام لگائیں گے کہ فیڈرل گورنمنٹ کرپٹ تھی اور دوسرے کہیں گے کہ صوبائی کرپٹ تھے، اس طرح کرپشن کے خلاف مہم شروع ہوجائے گی۔ پانچ سال مل کے اکٹھے بکرے کی سجی، مرغ، حلوے، گوشت وغیرہ کھائے جارہے ہیں۔ آخر پر اس بیمار، مردہ اور بے شعور قوم کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے کے لئے میدان میں مختلف نعرے لے کر نکل آئیں گے۔

جنہوں نے چہرہ پر داڑھیاں سجا رکھی ہیں اور سر پر پگڑیاں پہن رکھی ہیں، اسی اسلام دشمن نظام کا حصہ بنتے ہوئے وہ اسلام کا نام لے کر نکل آئیں گے، قرآن ان کے ہاتھ میں ہوگا، اسلامی نظام اور سنت کی بولی بولیں گے۔ جس طرح ہر جانور کی الگ بولی ہوتی ہے اسی طرح ہمارے ہاں بھی موسمِ انتخابات میں ہر کوئی اپنی بولی بولتا ہے۔ کوئی اسلام اور شریعت کی بولی لے کے میدان میں اتر آئے گا۔۔۔ کوئی عوام کی بولی لے کر اتر آئے گا۔۔۔ کوئی جمہوریت کی بولی لے کر نکل آئے گا۔۔۔ کوئی غریب عوام کے ترانے گائے گا۔ اسی تماشا میں قوم کو ساٹھ سال سے مسلسل مبتلا کر رکھا ہے۔

یہ سارا نظام، انقلاب کا دشمن ہے اور جب تک اس نظام کو آپ ٹکرا کر پاش پاش نہیں کردیتے، اس وقت تک انقلاب کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ کارکن اس طویل سفر کی جدوجہد کے لئے تیار ہوجائیں مگر یہ جدوجہد پرامن ہو، پرامن ہو، پرامن ہو۔ اس جمہوریت اور الیکشنز کے نظام کی مثال اس طرح ہے جیسے ٹانگے کے اندر کار کا انجن سجا رکھا ہو۔ ٹانگے میں سے گھوڑے کو نکال دیا ہے اور ٹانگے کے دونوں پاٹوں کے اندر کار کا انجن رکھ دیا ہے اور پھر کار کی رفتار سے سفر بھی کرنا چاہتے ہیں۔

مغربی جمہوریت کی طرز پر نظام اور الیکشنز کے بنیادی تقاضے یہ ہیں کہ پہلے لوگوں کو تعلیم و شعور سے آشنا کیا جائے۔ ۔ ۔ ان کی آزادی رائے کا احترام ہو۔۔۔ ان کے ایک ایک ووٹ کا ملکی پالیسیاں مرتب کرنے میں اثر ہو۔۔۔ پارٹیوں کے اندر بھی جمہوری کلچر ہو۔ جیسے کینیڈا کے اندر گورنمنٹ اکثریت نہ ہونے کی بناء پر ایک بل پاس نہیں کروا سکی اوراکثریت نہ ہونے کی وجہ سے دوسری بار ختم ہوئی، نیا الیکشن ہوا۔ انہیں اپنے نظام کا اتنا حیا ہے جبکہ پاکستان کے سیاست کے نظام میں حیا نام کی کوئی شے ہی نہیں۔ لوگ پارٹیوں میں داخل ہوجاتے ہیں، پتہ نہیں ایجنڈا کیا ہے۔۔۔ ؟ پھر ناراض ہوکر چوتھے دن نکل جاتے ہیں۔۔۔ پھر ان کی رسائی منائی ہوجاتی ہے تو دوبارہ داخل ہوجاتے ہیں۔۔۔ پھر کہتے ہیں کہ مرکز سے نکل گئے ہیں صوبوں میں برقرار رہنا ہے۔ یہ سب کچھ ایک تماشا ہے، یہ ایک سرکس ہے، ڈرامہ ہے۔ دوسری طرف اس قوم کے شعور کا یہ حال ہے کہ کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

آج قوم کے اس شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں احساس دلائیں کہ اگر اس طرح سوئے رہے تو تمہارا نام و نشان مٹ جائے گا۔ مہنگائی اور بیروزگاری انتہاء پر ہے۔۔۔ پانی، بجلی ملتے نہیں ہیں۔۔۔ آٹا نہیں ملتا۔۔۔ کھانے کو کچھ نہیں ملتا۔۔۔ لوگوں کے وسائل کم تر رہ گئے ہیں۔۔۔ بجلی استعمال کئے بغیر بل اتنے کہ تنخواہیں ساری بل پر خرچ ہوجاتی ہیں۔ اب تو صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کراچی میں لوگ حرام کھانے کے لئے مولوی صاحبان سے فتویٰ پوچھ رہے ہیں کہ حرام کھانا حلال ہوجائے، رشوت حلال ہوجائے، چوری کرنا حلال ہوجائے، ڈاکہ زنی حلال ہوجائے۔ 2 ہزار لوگوں نے دستخط کر کے اس حوالہ سے فتویٰ پوچھا ہے۔ وہ احباب جو اس حوالہ سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہ حرام، حلال ہوجائے وہ سب لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں مل کر ایک ہی بار اس حرام نظام کا خاتمہ کیوں نہیں کر دیتے جو ان پر مسلط ہے۔ آج ضرورت اس شعور کو بیدار کرنے کی ہے، اس کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہوگی۔

عرب ممالک میں تبدیلی کی موجودہ لہر

بالفرض کبھی آپ کے خیال میں یہ آتا ہے کہ تیونس، مصر، لیبیا، یمن میں تبدیلی آرہی ہے تو اس ضمن میں یاد رکھ لیں کہ جو کچھ وہاں ہوا ہے یہ کوئی انقلاب نہیں ہے۔ ابھی تو ان کا ایک سفر شروع ہے، وہاں حالات کیا ہوتے ہیں۔۔۔؟ حالات کتنے بدلتے ہیں یا نہیں بدلتے۔۔۔؟ حقیقی اقتدار کس کے ہاتھ میں منتقل ہوتا ہے۔۔۔؟ نظام پر کیا اثر پڑتا ہے۔۔۔؟ عوام کو کیا ملتا ہے۔۔۔؟ ان تمام باتوں کا مستقبل میں فیصلہ ہوگا کہ یہ انقلاب تھا یا صرف ایک تبدیلی تھی جو بعد میں اوروں کے مفادات کے ہاتھ چڑھ گئی۔ ابھی دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔

ان ممالک میں حالیہ تبدیلی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں بات کا ایسا ڈھونگ نہیں تھا جیسا ہمارے ہاں ہے۔ وہاں پارٹیاں نہیں تھیں۔ اُن ممالک میں ایک ڈکٹیٹر ہے جو تیس، چالیس سال سے چلا آرہا ہے۔ بالآخر قوم خود تنگ ہوئی یا انہیں تنگ کرایا گیا۔۔۔ قوم خود اٹھی یا انہیں باہر سے اٹھایا اور اکسایا گیا۔۔۔ یہ ایک الگ معاملہ ہے جس کا فیصلہ تاریخ کرے گی اور وقت بتائے گا مگر سارے اٹھے اور قوم ایک ڈکٹیٹر کے خلاف مجتمع اور متحد ہوگئی۔ وہاں سیاسی پارٹیاں اور سو لیڈر نہ تھے کہ وہ اپنے حصے کی بھیڑ بکریوں کو لے کر الگ الگ سڑکوں پر جلوس نکال لیتے اور پورا اجتماع اکٹھا نہ ہونے دیتے۔ ہر کوئی اپنے اپنے گروہ کو الگ الگ لے کر چلا جائے، یہ نہیں تھا۔ جہاں پر تبدیلی آتی ہے وہاں زمین پر کوئی لیڈر نہیں ہوتا۔ ہماری جیسی صورت حال نہ تھی وہاں کوئی لیڈر نہیں تھا جو ان ممالک کی عوام کو لیڈ کر رہا ہو۔ وہاں سب لوگ یکجا تھے، کوئی گروہ بندی نہ تھی، ایک ہی نعرہ تھا جس سے بعض جگہوں پر تبدیلی آ گئی۔

تبدیلی کے راستے میں حائل رکاوٹ

پاکستان میں انقلاب کے راستے اس سیاسی نظام نے روک رکھے ہیں۔ ہمارے ہاں تبدیلی نہ آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہماری 100 جماعتیں اور 100 لیڈر ہیں، سارے لیڈر اپنا اپنا الگ احتجاج کرتے ہیں، ہر ایک کی قوت کا مختلف اوقات میں انفرادی طور پر اظہار ہوتا ہے۔

بعد ازاں میڈیا پر مخصوص بندوں کی تشہیر سے ایک نئی جنگ شروع ہوجاتی ہے، اس ساری صورت حال سے فائدہ دشمن کو پہنچتا ہے۔ اس لیے کہ ساری قوم کو لیڈرز نے تقسیم کر دیا ہے اور ساری قوت یکجا نہ ہونے دی۔ ہر کوئی یہاں لینن، سٹالن، ماؤزے تنگ اور خمینی ہے۔ یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے۔ مذہبی جماعتوں میں سے ہر چوتھے محلے کی مسجد کا امام بھی لیڈر ہے اور کسی نہ کسی جماعت کا مقامی سربراہ ہے۔ اپنے اپنے حصے کے لوگ بانٹ کے سارے الگ ہو جاتے ہیں، نتیجتاً یہاں کسی ایک کو بھی اکثریت حاصل نہیں ہوتی اور مفاد پرست طبقہ کے مفادات کو تحفظ مل جاتا ہے۔ کوئی اس نظام کے خلاف اس لئے نہیں اٹھتا کہ وہ سارے اس نظام کا حصہ ہوتے ہیں، الیکشن میں شریک ہو جاتے ہیں، سب کے امیدوار کھڑے ہوتے ہیں، جب سارے لوگ ووٹ ڈالنے کے عمل میں مصروف ہوجاتے ہیں تو ان حالات میں انقلاب کسی کی خواہش ہی نہیں رہتا۔ پس انقلاب کا راستہ یہ انتخابات روک دیتے ہیں۔

پاکستانی قوم اگر تبدیلی چاہتے ہیں، اپنا مقدر بدلنا چاہتے ہیں تو یاد رکھ لیں کہ یہ جماعتیں اور یہ لیڈر اس فرسودہ نظام کا حصہ ہیں، یہ نظام ان سے مطابقت رکھتا ہے، نظام ان کو اور یہ نظام کو بچائے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ نظام کو اگر گالی بھی دیتے ہیں تو وہ صرف عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے گالی دیتے ہیں۔ ان سے پوچھو کہ نظام کو اگر گالی دینی ہے تو اس نظام کو ٹھوکر مارو اور عوام کو اس طرف راغب کرو کہ اگلے الیکشن میں کوئی ووٹ نہ ڈالے تب یہ نظام کو گالی دینا کہلائے مگر ان میں سے کوئی ایسا نہیں کرتا۔ 5 سال نظام کو گالیاں دیتے ہیں اور جب اگلے الیکشن آتے ہیں تو اس نظام کے تحت پھر الیکشن لڑتے ہیں۔ گویا نظام کو گالی دینے کا مطلب ہی ووٹ لینا ہے۔ پاکستانی قوم اگر واقعتا اس نظام کے خلاف ہے، تو پھر اگلے الیکشن میں اس نظام کو اتنا مسترد کر دے کہ اس ڈھونگ کے الیکشن میں کوئی شخص ووٹ نہ ڈالے۔ اگر ووٹ دیئے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی نظام میں آپ پھر حصہ بن رہے ہیں تو بظاہر اس نظام کو برا بھلا کہنے سے کیا حاصل ہوگا۔ یہ عادت ساٹھ سال سے چل رہی ہے اور اگر سوچ و فکر کا زاویہ یہی رہا تو اگلے سات سو سال بھی یونہی چلتی رہے گی۔

لوگ تبدیلی کے حوالے سے ایرانی انقلاب کی مثال دیتے ہیں، لیکن یہ بات بھی خیال میں رہے کہ وہاں جب تبدیلی آئی تو خمینی صاحب کے ایران پہنچنے سے پہلے شہنشائہ ایران اپنی فیملی سمیت ملک چھوڑ چکا تھا۔ وہاں جب انقلاب آیا تو خمینی صاحب وہاں موجود نہ تھے۔ وہ اٹھارہ، بیس سال سے عراق اور فرانس میں تھے۔ شہنشاہیت کے خلاف قوم باہر نکلی۔ فروری 1979ء کو خمینی صاحب کا جہاز تہران میں اترا جبکہ رضا شاہ پہلوی شہنشاہ ایران فیملی کو لے کر 16 جنوری 1979ء یعنی ان کی آمد سے 15 دن پہلے ملک چھوڑ کر جا چکا تھا۔ خمینی صاحب نے آ کر شہنشاہ سے ملک نہیں چھڑوایا۔ یہ سہرا ایران کی عوام کے سر تھا۔ اپنے ایک لیڈر کی قیادت میں سب لوگ طلباء، علماء، سیکولر، کمیونسٹ اور عوام خود لیڈر بنے ہوئے تھے اور دو دو ملین افراد کا احتجاج ہو رہا تھا، کوئی لیڈر ان کو جمع نہیں کر رہا تھا بلکہ صرف ایک فکر تھی، ایک سوچ تھی، شہنشاہیت کے خلاف ایک بغاوت تھی، اس نظام کو پھینک دینے کا ایک جذبہ تھا۔

اس طرح تبدیلیاں آتی ہیں اور موجودہ دور کے بھی واقعات ایسے ہی ہو رہے ہیں۔ ایک بت کے خلاف، ایک نظام کے خلاف، جب تک قوم خود باہر نہیں نکلے گی، کوئی جماعت اور اس جماعت کے کارکن انقلاب نہیں دے سکتے۔ یہ بات یاد رکھ لیں، قوم کو اس نظام کے حوالے سے خود فیصلہ کرنا ہے۔ میں اس وقت اگر پاکستان میں ہوتا اور آپ کو لے کر باہر نکلتا۔ تو خود ہمارے ہی مقابلے میں حسد کرنے والے، مخالفت کرنے والے دس جلوس مختلف تاریخوں میں اور نکل آتے۔ ایم۔ این۔ اے کو اگر اس کی پارٹی کہے تو وہ اپنے حلقے میں پیسے لگا کر دس دس ہزار لوگوں کو لے کر باہر نکل آتے ہیں۔ ہر پارٹی کا الگ جلوس۔۔۔ ہر ایک کی قیادت الگ۔۔۔ قیادتوں میں ہی تماشا بن جاتا ہے، قوم منتشر ہو جاتی ہے، قوم فیصلہ ہی نہیں کر سکتی کہ کس کا راستہ اختیار کرنا اور کس کے پیچھے جانا ہے۔ جس منزل کی طرف جانا تھا، انقلاب یا اس نظام کو ختم کرنا تھا، اس کی طرف توجہ ہونے کے بجائے بٹ جاتی ہے اور مخصوص طاقتوں کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔

تحریک بیداری شعور کا یہ مقصد ہے کہ لوگوں تک یہ بات پہنچائیں کہ کوئی لیڈر انقلاب نہیں لائے گا، سب سے پہلے انقلاب کے لیے عوام کو نکلنا ہو گا، اس نظام کو اٹھا پھینکنا ہو گا، اپنے مقدر کا فیصلہ خود کرنا ہو گا۔ اس لئے کہ

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

جو لوگ گھر بیٹھے مر رہے ہیں انہیں چاہئے کہ باہر نکل کر مریں، شہادت تو کہلائے۔ کبھی خود کش حملوں سے مرتے ہیں، کبھی بھوک سے مرتے ہیں، کبھی بے روزگاری کی وجہ سے بچوں کو قتل کر رہے ہیں۔ خود کشیاں کر رہے ہیں، اس قوم پر اتنا بڑا جو عذاب مسلط ہے اسکا سبب یہ نظام ہے۔ اگر قوم متحد ہو کر اس نظام کو ختم کردے تو سارے مسائل حل ہوجائیں۔ مہنگائی کا سبب یہ نظام۔ ۔ ۔ لوٹ مار کا سبب یہ نظام۔۔۔ بے روزگاری کا سبب یہ نظام۔۔۔ قتل و غارت اور دہشتگری کا سبب یہ نظام۔۔۔ عوام کی محرومی کا سبب یہ نظام۔۔۔ بجلی، پانی، گیس کی عدم دستیابی کا سبب یہ نظام۔۔۔ ملکی غیرت کے بیچے جانے کا سبب یہ نظام۔۔۔ ملکی حاکمیت اور خود مختاری برقرار نہ رہنے کا سبب یہ نظام۔۔۔ اس ملک کے کالونی اور غلاموں کا اڈا بن جانے کا سبب یہ نظام۔۔۔ جب تک اس نظام کے خلاف آپ نہیں اٹھتے اور ہر فرد باہر نہیں آتا، اپنا فرض ادا نہیں کرتا، اس وقت تک ہمارا مقدر، ملک کا مقدر، اگلی نسلوں کا مقدر سنور نہیں سکتا۔

قیادت کا معیار اور ہمارا رویہ

یہاں تو یہ شعور ہی نہیں ہے کہ صحیح قائد کون ہے اور کون نہیں۔۔۔ ؟ جس سوسائٹی میں قیادت کا ہی شعور نہ ہو، وہاں کون کس کو پہچانے گا۔۔۔ ؟ کس کے پیچھے چلے گا۔۔۔ ؟ اچھے اور برے کا معلوم نہیں۔۔۔ ؟ ایک اچھے، نیک، صالح، تعلیم یافتہ، با کردار آدمی کو انتخابات میں کھڑا کر دیں، 200 ووٹ بھی اسے نہیں ملیں گے، اس لئے کہ اس کے پاس کیمپ لگانے کے پیسے ہی نہیں ہیں۔ حلال کی کمائی والا اس نظام میں کیا کرے گا۔ میں خود دو حلقوں سے الیکشن نہ لڑ سکتا اگر پوری دنیا کے ہمارے کارکنان حلقے میں آکر خود کوشش نہ کرتے، محنت نہ کرتے۔ یہ الیکشن تحریک منہاج القرآن کے کارکنان نے لڑا۔ اگر میں نے بحیثیت محمد طاہر القادری الیکشن لڑنا ہوتا تو میں ایسا نہ کرسکتا۔

موجودہ نظام انتخابات پیسے، غنڈہ گردی، دہشتگردی، وسائل، دھوکہ بازی، میڈیا، ایجنسیوں، establishment اور بیرونی ساز باز کی جنگ ہے۔ یہ سب چیزیں مل کر انقلاب دشمن ہیں اور ان حالات میں قوم کو قیادت کی پہچان اور اس بات کا شعور بھی نہیں ہے کہ قیادت کا پیمانہ کیا ہوتا ہے؟ آپ سقراط، افلاطون، ارسطو، مارکس، ہوبس، ہیوم، لوکس، ہیکل، ولیم جیمز الغرض یونانی فلسفے اور قبل زمانے کی قدیم تاریخ اور دور جدید مغربی دنیا تک کے اُن تمام political science (سیاسیات) کے فلاسفرز کو پڑھیں جو ریاست، لیڈر شپ، پاور، جمہوریت، عوامی حقوق پر بات کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک قیادت کی تعریف کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جو قیادت کا تصور تین ہزار سال سے آج کے دن تک جس فلسفی نے بھی دیا ہے، اس تصور کا تو اس ملک میں نام و نشان ہی نہیں ہے۔ اس تصور کے مطابق تو قوم کسی کو قائد ہی نہیں مانتی۔ یہاں تو قیادت کے پیمانے ہی اور ہیں۔

اسی طرح آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث میں امیر اور قائد کی تعریفات موجود ہیں۔ ۔ ۔ سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر و عثمان اور حضرت علی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تعلیمات میں اچھے قائد، امیر کی علامات کا ذکر ہے مگر ہم اس پیمانہ ہی کو فراموش کئے بیٹھے ہیں۔

مسلم فلاسفرز اور ائمہ ابو نصر فارابی، الماوردی، ابو یعلیٰ محمد بن حسین الفرائ، امام غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ، ابن خلدون اور اسلامی تاریخ کے جملہ ائمہ و مفکرین نے اوصاف قیادت بیان کئے۔ سب نے کہا کہ قیادت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اہل علم ہو۔ ۔ ۔ اس کی طبیعت کے اندر عدل ہو۔ ۔ ۔ پرہیز گار ہو۔ ۔ ۔ محرمات سے بچنے والا ہو۔ ۔ ۔ سخی ہو۔ ۔ ۔ عوام کے لیے رحم رکھنے والا ہو۔ ۔ ۔ صاحب فکر و تدبر ہو۔۔۔ صاحب اجتہاد ہو۔۔۔ صاحب فہم و صلاحیت ہو۔۔۔ جرات مند ہو، غیرت مند ہو۔

مگر افسوس! قیادت کے اس تصور کو تو پاکستان کی عوام نے رد کردیا ہے۔۔۔ نہ مغربی دنیا کا معیار قیادت یہاں قبول۔۔۔ نہ اسلامی تاریخ کا معیار قیادت یہاں قبول۔۔۔ نہ قرآن کا معیار قیادت یہاں قبول۔۔۔ پھر قوم کا مقدر کہاں سے بدلے؟ عوام کو جو قبول ہے وہ اس تصور قیادت کے برعکس ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

آخری زمانے میں لوگ شرار لوگوں کو ان کے شر کے ڈر سے، ان کے ظلم کے ڈر سے اپنا لیڈر منتخب کر لیں گے، اپنا سردار بنا لیں گے، اور کمینے، گھٹیا، بد کردار لوگ قوم کے سربراہ اور لیڈر بن جائیں گے۔ و کان زعيم القوم ارزلهم، قوم کے لیڈر، ان کے ذلیل اور رذیل لوگ ہوں گے۔

سب سے زیادہ کرپٹ، سب سے زیادہ جاہل، سب سے زیادہ جھوٹے، سب سے زیادہ خائن، سب سے زیادہ بد دیانت، سب سے زیادہ دھوکے باز، سب سے زیادہ عیار لوگ قیادت کریں گے۔ جن کے اندر درج بالا ’’خوبیاں‘‘ ہوں اس کو حق ہے کہ وہ یہاں لیڈر بنے، وہ اس قوم کا ’’قائد‘‘ ہے۔

قوم کو یہ شعور منتقل کرنے کی ضرورت ہے کہ جب تک قوم معیار قیادت کو نہیں بدلتی، تصور قیادت کو نہیں بدلتی، جھوٹی قیادتوں کے بتوں کو پاش پاش نہیں کر دیتی اور اچھی قیادت کی آواز کو سن کر لبیک کہہ کر باہر نہیں نکل آتی، اس وقت تک اس قوم کو انقلاب نصیب نہیں ہو گا۔

مکہ کی قوم میں یہ شعور نہ تھا چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما گئے اور آٹھ سال کے بعد پھر اس قوم (اہل مکہ) کو مفتوح قوم بننا پڑا۔ فاتح اہل مدینہ بنے، جن کو شعور آ گیا اور وہ بیدار شعور کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔

ہمارے ہاں جو نظام چل رہا ہے یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ٹانگے میں کار کا انجن۔۔۔ کار میں ریل کا انجن۔۔۔ اور ریل میں ہوائی جہاز کا انجن۔۔۔ ہمارے تو ظروف و احوال ہی اپنی پوزیشن میں نہیں پہنچے۔ ہمیں علم و شعور چاہئے۔۔۔ ایسی قیادت چاہئے جو قوم کو تمام ترجیحات سے بڑھ کر پہلے تعلیم و شعور دینا شروع کرے۔۔۔ ان کے احوال کو درست کرے اور ان کے لیے راستے متعین کرے۔ ۔ ۔ کرپشن اور تباہی کے راستے ختم کرے۔۔۔ لوگوں کا جینا آسان کرے۔۔۔ ان کے اندر آزادی رائے اور فکر ہو۔۔۔ ان کو روزگار ملے اور عزت نفس بحال ہو۔۔۔ قوم کو قوم بنایا جائے۔۔۔ آج تو قوم، قوم ہی نہیں رہی، سب کچھ منتشر ہو گیا ہے۔۔۔ ہر شخص نفسا نفسی کے عالم میں ہے اور حیوانوں کی زندگی میں معاشرہ چلا گیا ہے۔۔۔ پڑوسی کا پورا خاندان قتل ہو جائے ساتھ والے گھر کے آنسو نہیں بہتے۔۔۔ جس کے سر پہ پڑتی ہے وہی روتا ہے اور باہر نکلتا ہے۔ جو قتل ہوتا ہے اسی کے ماں باپ روتے ہیں، محلے میں کسی دوسرے شخص کا آنسو نہیں گرتا۔ پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ آدمی خود کش حملے میں ہلا ک ہوتے ہیں اور مجلس میں ذکر تک نہیں ہوتا۔ روز مرہ کا معمول بن گیا ہے۔ اس حد تک حالت خراب اور بے حسی طاری ہو چکی ہے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر

اس وقت ضرورت ایسے شخص کو لانا اور ایسے نظام کو لانا ہے جو پہلے قوم کو قوم بنائے، انسان کو انسان بنائے۔ ان حالات میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عمل ہی شعور کی بیداری کی راہ رہ گئی ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے کہا :

کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.

(البقره : 110)

’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو ‘‘۔

اسی حکم پر کماحقہ عمل کو بیداری شعور کہتے ہیں۔ خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میرے جان ہے اگر تم اس شعور کو بیدار کرنے کے لیے نہیں نکلو گے، نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے اور ظلم کے خلاف لوگوں کو آگاہ کر کے ظلم کے راستے میں دیوار کھڑی کرنے کے لیے نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے ہمہ گیر عذاب کی ایسی لپیٹ میں لے لے گا کہ صالحین، خیار امت، اولیاء بھی تمہارے حق میں دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں بھی تمہارے حق میں قبول نہیں کرے گا۔ اس لیے کہ یہ ان لوگوں کے حق میں دعائیں ہیں جو لوگ حق کے لیے باہر نکلنے کو تیار نہیں تھے۔۔۔ جو لوگ ظلم کے خلاف ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے۔۔۔ جو بے حسی کا شکار ہو کر امر بالمعروف اور شعور کی بیداری کے لئے میدان میں نہیں نکلے۔۔۔ برائی کو برائی کہنے اور سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔۔۔ پانچ سال جن کو گالیاں دیتے ہیں الیکشن میں پھر انہی کو ووٹ دے آتے ہیں۔

کارکنان کے لئے لائحہ عمل

جو تقسیم ہو چکی یہ تقسیم کبھی نہیں بدلنی، جب تک اس تقسیم کی اصل جڑ کو آپ نہیں کاٹتے۔ آپ اپنے سفر کو شعور کی بیداری کا سفر بنائیں۔ یہی طریق انقلاب ہے، اس سے نگاہ نہ ہٹے۔ دو سے تین کروڑ عوام کا سمندر بیدار شعور کے ساتھ آپ کے ساتھ آ کر ملے تب منزل ملے گی۔ یونین کونسلز اور یونٹ لیول تک بیداری شعور کے اس پیغام کو پہنچائیں۔ مرکز کی طرف سے میرے خطابات پر مشتمل بیداری شعور پیکج ترتیب دیا گیا ہے۔ ان خطابات کو لوگوں تک پہنچائیں۔

سی ڈی نمبر عنوانات

514 (انقلاب کی عملی جدوجہد کے تقاضے۔ ورکرز کنونشن)
725 (تحریکی جدوجہد میں علم و عمل کی ضرورت۔ ورکرز کنونشن)
893 (کارکن اور تحریکی حکمت عملی۔ ورکرز کنونشن)
1299 (اوصافِ قیادت۔ مرکزی مجلس شوریٰ)
1448 (انقلاب کب اور کیسے ؟۔ ایم ایس ایم پارلیمنٹ اجلاس)
1450 (پاکستان میں شعوری انقلاب کی ناگزیریت۔ مرکزی مجلس شوریٰ)

ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے عنوان پر کلک کریں۔

تنظیمات آپس میں محبت پیدا کریں۔۔۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے پیدا کرنا، تناؤ پیدا کرنا، حسد کرنا، مخالفت کرنا، یہ سب منافقت کے مختلف نمونے ہیں۔۔۔ خدا کے لیے منافقت سے باہر نکل آئیں اور یک جان دو قالب بنیں۔ تنظیم نو میں اچھے اور قابل لوگوں کو آگے لائیں اور ان کی صلاحیتوں سے تحصیل لیول تک فائدہ اٹھائیں۔ ۔ ۔ تحریک کی بیٹیاں اور بیٹے اتنی کوشش کریں کہ ایک سال میں اس ملک کی ہر تحصیل اور تحصیل کے ہر یونین کونسل میں تحریک کی تنظیمات قائم ہو جائیں۔۔۔ دس سال کا سفر ایک سال میں طے کریں۔۔۔ اپنی کوشش کو نتیجہ خیز بنائیں۔۔۔ رسمی اجتماعات نہ کریں، بیداری شعور کا پیغام سمجھ کر لوگوں کے دل و دماغ تک منتقل کریں اور اس فکر کی طرف لوگوں کو متوجہ کریں اور متحرک کریں۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، کامیابی آپ کا مقدر بنے گی اور اُس کامیابی، مصطفوی انقلاب اور تبدیلی کا سویرا ان شاء اللہ طلوع ہو گا جس کا خواب آپ دیکھتے ہیں۔ مگر طریقہ یہ ہے جو میں نے اس پیغام اور گفتگو میں آپ کو سمجھایا۔

اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ یہ پیغام دل وجان میں بساتے ہوئے گھر گھر پہنچائیں اور ایک سال میں یہ کیفیت پیدا کر دیں کہ پانچ کروڑ افراد کے کانوں تک یہ پیغام پہنچے۔ اخلاص اور للہیت سے لیس ہوکر اتنی محنت کریں کہ دو تین کروڑ لوگ اس شعور کے ساتھ آراستہ ہو کر اس نظام کو ٹھکرانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔ ۔ ۔ ملک پاکستان کی خیر ہو۔ ۔ ۔ آئینِ پاکستان کی خیر ہو۔۔۔ پاکستانی قوم کی خیر ہو۔۔۔ عالم اسلام کی اور امت مسلمہ کی خیر ہو۔۔۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین سر بلند ہو۔۔۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔۔۔ اس ریاست کو اللہ تعالیٰ ہر بری آنچ سے بچائے۔۔۔ یہ قوم ایک زندہ قوم بن کر اٹھے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امیدوں کے مطابق مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع کرے۔