الحدیث : محبوبوں کی طرف منسوب چیزیں اور ان کی برکتیں

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت جحیفہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں :

رَاَيْتُ بِلَالًا اَخَذَ مِنْ وَضُوْء النبی صلی الله عليه وآله وسلم وَالناسُ يَبْتَدِرُوْنَ الْوَضُوْءَ فَمَنْ اَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا لَمَسَّحَ بِهِ وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا اَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ.

(بخاری، 871)

’’میں نے دیکھا حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضوء کا پانی لے کر آئے تو لوگ اس کی طرف بے تحاشا بھاگے، جسے تبرک مل گیا، اس نے چہرے پر مل لیا اور جسے نہ ملا اس نے ساتھی کے ہاتھ سے ہی کچھ نہ کچھ نمی حاصل کر لی‘‘۔

جو چیز اللہ والوں کے ساتھ نسبت رکھتی ہو، یا ان کے جسم کا جزو ہو، یا ان کے بدن کے ساتھ لگ چکی ہو، یا انہوں نے خود اسے چھو لیا ہو، ہر صورت میں اس چیز کے اندر برکت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ تبرک بن جاتی ہے۔

صحابہ کرام ایسے تبرکات کی معجزانہ تاثیر اور حیرت انگیز فیضان کا صبح و شام مشاہدہ کیا کرتے تھے، اس لئے ان کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ ان تبرکات کے کسی حصے سے محروم نہ رہیں، چاہے وہ تھوڑا ہی ہو۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مستعمل پانی، پس خوردہ کھانا، لعابِ دہن، وضوء کا بچا ہوا پانی، جسم مبارک کے ساتھ لگے ہوئے کپڑے، آپ کے بال مبارک، ناخن مبارک اور اسی قسم کے دیگر تبرکات، ان کی عقیدت و محبت کا مرکز تھے۔ وہ ان کے حصول کے لئے سر توڑ کوشش کرتے تھے اور انہیں پا کر یوں محسوس کرتے تھے جیسے ہفت اقلیم کی دولت پا لی ہو، پھر جان سے بڑھ کر ان کی حفاظت کرتے تھے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات و تعلیمات کی بدولت ہی صحابہ کرام اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ تبرکات میں فیض رساں تاثیر ہوتی ہے اور وہ انسان کو فائدہ بخشتی ہے نیز حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تبرکات کے بڑے ہی شائق، حریص اور شوقین تھے۔ جب ملنے کی باری آتی تھی تو ہزار سخی اور دریا دل ہونے کے باوجود وہ یہ خزانہ کسی اور کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے اور ذوق و شوق کے ساتھ خود ہی وصول کرتے تھے۔ اس سلسلے کی نمائندہ احادیث ترتیب وار بیان کی جاتی ہیں۔

چشمہ تبوک میں برکت کا راز

مجاہدین میدان تبوک کی طرف رواں دواں تھے، محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں بڑے جوش و جذبے کے ساتھ پیش قدمی جاری تھی۔ جواں حوصلوں اور توانا ولولوں کی سرخی، حسین چہروں پر شفق کی طرح بکھری ہوئی تھی۔ عربی شہسوار شوق شہادت سینوں میں دبائے ایک عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک روز شام کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خوشخبری سنائی :

انکم ستاتون غدا ان شاء الله عين تبوک وانکم لم تاتوها حتی يضحی النهار.

’’اللہ نے چاہا تو کل تم چشمہ تبوک کے کنارے پہنچ جاؤ گے اور اس وقت پہنچو گے جب دن چڑھ چکا ہوگا‘‘۔

بے آب و گیاہ ریگستانی سر زمین اور جھلسا دینے والی لوکی سلطنت میں یہ ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ پانی ملنے کی نوید سن کر نورانی چہروں پر بشاشت پھیل گئی۔ اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصیحت فرمائی :

تم میں سے اگر کوئی شخص پہلے پہنچ جائے تو چشمے کا پانی جوٹھا کرنے کی کوشش نہ کرے بلکہ رکا رہے اور ہمارا انتظار کرے، یہاں تک کہ ہم وہاں پہنچ جائیں۔

دو منافق وہاں موجود تھے انہوں نے اس حکم کی پرواہ نہ کی اور پہلے پہنچ کر پانی پی لیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے بہت ناراض ہوئے۔

صحابہ کرام نے دیکھا، چشمے میں پانی لکیر کی طرح موجود ہے، انہوں نے چلووں کے ساتھ ایک برتن میں کچھ پانی جمع کیا، اس کے بعد

غسل رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يديه و وجهه.

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ منہ دھوئے اور پانی دوبارہ چشمے میں انڈیل دیا۔ جونہی یہ متبرک پانی، چشمے کی تہہ تک پہنچا۔

جرت العين بماء منهر.

(مسلم، 2 : 246)

’’پانی زبردست جوش کے ساتھ جاری ہوگیا‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے، مجاہدین جس چشمے تک پہنچنے والے ہیں اس میں پانی کم ہوگا اور تمام لوگ اس سے سیراب نہیں ہوسکیں گے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے استعمال کرنے سے منع فرما دیا تھا تاکہ وہاں پہنچ کر پہلے اسے متبرک بنا لیں اور بعد میں سب کو استعمال کرنے کی اجازت دیں تاکہ کمی واقع نہ ہو۔

جب وہاں پہنچے تو چشمے میں صرف نام کو پانی موجود تھا، اسی کو جمع کر کے اپنے ہاتھ منہ دھوئے، جسم اطہر کے ساتھ لگنے سے اس میں فیوض و برکات کی نظر نہ آنے والی خصوصیت اور زیادہ ہونے کی صفت و تاثیر پیدا ہوگئی۔ جونہی اس تبرک کو پانی میں انڈیلا گیا، وہاں پانی کے دھارے بہہ نکلے اور ہر طرف پانی ہی پانی ہوگیا جیسے خشک زمین سے سوتے پھوٹ پڑے ہوں۔ اس مشاہدے نے سب پر یہ حقیقت منکشف کر دی کہ جو پانی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم مبارک کے ساتھ لگ جائے، وہ بڑا ہی بابرکت، پر تاثیر، فیض رساں اور شفا بخش ہوجاتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی لئے حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال میں آنے والے یا پینے کے بعد بچے ہوئے پانی کی بڑی قدر کرتے تھے اور کسی قیمت پر اس سے دستکش ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے بلکہ بڑی چاہت اور رغبت کے ساتھ اسے خود پیتے اور تبرک بنا کر رکھتے تھے۔

صحابہ کرام کا حصول برکت کیلئے باقاعدہ آنا

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

خدام مدینہ کا دستور تھا کہ وہ فجر کے بعد پانی کے برتن لے کر آجاتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی کو متبرک بنا دیتے تھے۔

کان رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم اذا صلی الغداة جاء خدم المدظينه بانيتهم فيها الماء فما يوتی باناء الاغمس يده فيه وربما جاء ه فی الغداة الباردة فيغمس يده فيه.

(مسلم، 2 : 656)

تبرکاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کا عمل

حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ اپنا چشم دید واقعہ بیان فرماتے ہیں۔

میدان بطحاء میں صحابہ کرام خیمہ زن تھے، میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس وقت نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چمڑے کے ایک سرخ قبہ میں تشریف فرما تھے۔ نماز کا وقت ہوگیا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر وضوء کرایا۔ جو پانی بچا، وہ لے کر باہر نکلے تو وہاں موجود مجمع میں ہلچل مچ گئی، لوگ اس متبرک پانی کے حصول کے لئے دیوانہ وار ٹوٹ پڑے اور بڑی عقیدت و محبت سے قطرہ قطرہ لیا، جسے کچھ نہ مل سکا اس نے دوسرے شخص کی ہتھیلی پر اپنی ہتھیلی رگڑ کر ہی برکت حاصل کر لی۔ حدیث کے الفاظ ہیں :

واخرج فضل وضوء رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فوقع الناس عليه ياخذون منه.

 (بخاری، 503)

’’حضرت بلال رضی اللہ عنہ وضوء کا بچہ ہوا پانی باہر لائے تو لوگ اسے حاصل کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے‘‘۔

حضرت جحیفہ کہتے ہیں :

رايت بلالا اخذ من وضوء النبی صلی الله عليه وآله وسلم والناس يبتدرون الوضوء فمن اصاب منه شياء تمسح به، ومن لم یصب منه شيئا اخذ من بلل يد صاحبه.

(بخاری، 871)

’’میں نے دیکھا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضوء کا پانی لے کر آئے تو لوگ اس کی طرف بے تحاشا بھاگے، جسے تبرک مل گیا اس نے چہرے پر مل لیا اور جسے نہ ملا اس نے ساتھی کے ہاتھ سے ہی کچھ نہ کچھ نمی حاصل کر لی‘‘۔

٭ حضرت ابو قرارہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

دعا بطهور فغمس يده فيه فتوضا فتتبعاه فحسوناه.

’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضوء کے لئے پانی منگایا، اس میں ہاتھ ڈال کر وضوء فرمایا ہم نے کوشش کر کے وہ پانی حاصل کیا اور پیا‘‘۔

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میکدہ محبت کے ان فرزانے متوالوں کی یہ عاشقانہ کیفیت دیکھی تو پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟

اور انہوں نے بھی محبت چھپانے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی اور برملا اعتراف محبت کرتے ہوئے کہا :

یہ سب کچھ ہم نے خدا اور رسول کی محبت کی وجہ سے کیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر چاہتے ہو کہ خدا اور رسول تمہارے ساتھ محبت کریں تو امانت میں خیانت نہ کرو، جب بات کرو تو سچ بولو اور اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔

(اسد الغابه، 5 : 276)

نگاہِ ایمان میں تبرک کی قدر

مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ’’جعرانہ‘‘ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام کے ہمراہ وہاں قیام پذیر تھے، ایک دیہاتی آیا اور بڑی رعونت سے نام مبارک لے کر بولا :

جو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا اب وہ پورا کریں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے لہجے کی شوخی کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی ملائمت سے فرمایا : ہم سے خوشخبری لے لو۔

دنیا جہاں کی کامیابی اور جنت کے سوا خوشخبری اور کس چیز کی ہو سکتی تھی، مگر اس پر تو بدبختی سوار تھی، وہ دنیاوی خزف ریزوں کا طالب تھا، اسی ڈھٹائی سے بولا :

خوشخبری تو آپ دیتے ہی رہتے ہیں، ہمیں تو مال دیں۔

اس کی یہ ڈھٹائی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت بری لگی، اس وقت وہاں حضرت ابو موسی اور حضرت بلال موجود تھے، آپ نے ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : اس نے خوشخبری کی نعمت حاصل کرنے سے انکار کردیا ہے تم یہ خوشخبری قبول کرو۔

انہیں اور کیا چاہئے تھا، قدرت نے نوازش و عطا کا از خود موقعہ پیدا کردیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار ہوگئے اور عاجزی سے بولے :

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم یہ بشارت عظمیٰ قبول کرتے ہیں۔

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی وقت فیض یاب اور بھرپور کرنے کے لئے ارشاد فرمایا : برتن میں پانی لاو۔ جب پانی آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے

غسل يديه ووجهه ومج فيه.

’’اس میں ہاتھ دھوئے، چہرہ دھویا اور کلی کی اس کے بعد فرمایا :

اشربا منه وافرغا علی وجوهکما ونحورکما وابشرا.

’’اس دھوون کو پی لو، اپنے چہرے اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاو‘‘۔

اس دھوون میں سوزو سرور کیف و مستی کی جو نشاط انگیز اور سینہ کشا کیفیت پیدا ہوگئی تھی اس کو تو وہی جان سکتے ہیں جنہیں یہ نعمت عظمیٰ میسر آئی البتہ وہاں ایک ہستی اور بھی موجود تھی جو اس متبرک دھوون میں مستور انوار کی موجودگی سے بے خبر نہیں تھی۔ اسے پتہ تھا کہ یہ صرف استعمال شدہ پانی نہیں بلکہ جام طہور کو بھی شرمانے والا آب حیات ہے جس کے حیات بخش قطرات جسمانی ہی نہیں بلکہ دل کی زندگی کے بھی ضامن ہیں۔ یہ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تھیں، ان دونوں کو تنہا سیراب ہوتا دیکھ کر پردے کے پیچھے ہی سے گویا ہوئیں۔

افضلا لامکما ما فی انائکما.

(مسلم، 2 : 303، بخاری، 220)

’’جو کچھ تمہارے برتن میں ہے، وہ اپنی امی جان کے لئے بھی بچا کر رکھنا۔ چنانچہ دونوں حضرات نے حضرت ام المومنین کو بھی اس تبرک سے حصہ دیا‘‘۔

٭ ایک دن حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک طرف حضرت ابن عباس اور دوسری طرف حضرت خالد بن ولید بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت ام المومنین نے دودھ کا گلاس پیش کیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ دودھ نوش فرمایا، جو باقی بچا وہ ہاتھ میں لے کر حضرت عباس سے فرمایا :

تم دائیں طرف بیٹھے ہو، اس لئے حق تمہارا ہے لیکن خالد بن ولید تم سے پہلے آئے ہیں اگر اجازت دو تو دودھ انہیں دے دوں؟

حضرت ابن عباس یہ بیش بہا دولت چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور عرض کیا؟

ماکنت اوثر علی سورک احدا.

(ترمذی، 183)

’’جو آپ کا پس خوردہ ہے وہ تو میں کسی قیمت پر دوسرے کو دینے کے لئے آمادہ نہیں ہوں گا‘‘۔

٭ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا نے تو اس تبرک کی خاطر بہت بڑی قربانی دے ڈالی اور روزہ توڑ دیا تاکہ اس تبرک سے محروم نہ رہیں۔ آپ فرماتی ہیں :

کنت قاعدة عند النبی صلی الله عليه وآله وسلم فاتی بشراب فشرب منه، ثم ناولی فشربت منه وقلت انی اذنبت فاستغفرلی قال وما ذاک قلت کنت صائمة فافطرت.

’’میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی کہ آپ کی خدمت میں مشروب پیش کیاگیا، آپ نے اس میں سے پی کر تبرک مجھے عنایت فرمایا، میں نے پہلے پی لیا پھر عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے گناہ کیا ہے، میں روزے دار تھی، میں نے روزہ توڑ لیا ہے‘‘۔

(ترمذی، 1 : 91)

آقا علیہ السلام نے کوئی سرزنش نہ فرمائی۔

ان احادیث میں بیان شدہ تبرکات کی اعجازی شان اور صحابہ کرام کے واقعات و معاملات کی تفصیل سے یہ نکتہ حاصل ہوتا ہے کہ تبرکات انمول شے ہوتے ہیں اور ان میں ایسا روحانی کیف اور فیضان موجود ہوتا ہے کہ اس کے حصول کے لئے دیوانوں کی طرح لڑائی بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ روزے کی قضا ممکن ہے مگر اس نعمت سے محروم ہوجانے کی کوئی قضا نہیں۔