الفقہ : قربانی احکام و مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

اللہ تبارک وتعاليٰ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آج سے ہزاروں سال پہلے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لئے پیش کر کے اطاعت و وفا کا ایسا اظہار فرمایا کہ جس کی مثال پوری تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی۔ قربانی و ایثار اور اللہ کے حکم کی تعمیل میں اس قدر کمال کا یہ جذبہ اللہ تبارک وتعاليٰ کو اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک اس کو برقرار رکھ کر امت مسلمہ کو یہ حکم دیا کہ وہ جانوروں کو قربان کیا کریں تاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد تازہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا اسوہ زندہ رہے۔ چنانچہ فرزندان اسلام ہمیشہ سے اس سنت ابراہیمی کو تازہ و زندہ رکھنے کے لئے دس ذی الحج کو قربانی کرتے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی :

مَاهٰذِهِ الْاَضَاحِی قَالَ هِيَ سُنَّةُ اَبِيْکُمْ اِبْرَاهِيْمِ.

’’یارسول اللہ یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے لہذا اس کو خوش دلی سے ادا کرو‘‘۔

قربانی اسلام کے شعائر اور دین کی نشانیوں میں سے ہے۔ قربانی کی عبادت ہر دور میں کسی نہ کسی رنگ میں ہوتی چلی آ رہی ہے۔ اللہ تعاليٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا :

وَلِکُلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّيَذْکُرُوْ اسْمَ اللّٰهِ عَلٰی مَارَزَقَهُمُ اللّٰهُ مِنْم بٰهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ.

’’اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے زبان چوپائیوں پر‘‘۔

 (الحج، 22 : 34)

قربانی کیا ہے؟

القربان ما يتقرب به الی الله وصارفی التعارف اسماً للنسيکة التی هی الذبيحة.

’’قربانی وہ چیز جس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، اصطلاح شرع میں یہ قربانی جانور ذبح کرنے کا نام ہے‘‘۔

 (المفردات للراغب ص 408 طبع مصر)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

٭ امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَا عَمِلَ ابْنُ اٰدَمَ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰهِ مِن اِهْرَاقِ الدَّم ِواِنَّهُ لَيَاْتِيْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ بِقُرُوْنِهَا وَاشعارِهَا وَاَظْلاَفِهَا وَاِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللّٰهِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ يَقَعَ بِالْاَرْضِ فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا.

 (مشکوٰة، ص 128، باب الاضحيه)

’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قربانی کرتے وقت دعا فرماتے :

بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّمِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ

’’الہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ کی آل اور آپ کی امت کی طرف سے قبول فرما‘‘۔

 (مشکوة، ص 127)

٭ اس میں احمد، ابو دائود اور ترمذی نے ان الفاظ کا مزید اضافہ کیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ هٰذَا عَنِّيْ وَعَمَّنْ لَّمْ يُضَحِّ مِن اُمَّتِيْ.

(مشکوة، ص 128)

’’الہی یہ میری طرف سے اور میرے ان امتیوں کی طرف سے قبول فرما جو قربانی نہیں کر سکے‘‘۔

فقرائے امت کی خوش نصیبی دیکھئے کہ ان کے احساس محرومی کا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے قربانی دیکر ہمیشہ کے لئے ازالہ فرما دیا تاکہ کوئی غریب مسلمان یہ سوچ کر احساس کمتری کا شکار نہ ہو کہ اہل ثروت نے قربانی کا سارا ثواب حاصل کر لیا اور ہم محروم رہے۔

٭ حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا یہ کیا؟ فرمایا :

اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَوْصَانِيْ اَنْ اُضَحِّی عَنْهُ. فَاَنَا اُضَحِّ عَنْهُ.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔ سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں‘‘۔

(ابودائود، ترمذی وغيره، مشکوة، ص 128)

سبحان اللہ، کیسے سعادت مند ہیں وہ اہل خیر، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، رسول محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آج بھی عمدہ قربانی دیتے ہیں۔ یقینا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح خوش ہوگی اور یقینا اس کے طفیل ان کی اپنی قربانی بھی شرف قبول پائے گی۔

٭ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔

قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَارَسُوْلَ اللّٰهِ مَاهٰذِهِ الْاَضَاحِيْ قَالَ سُنَّةُ اَبِيْکُمْ اِبْرَاهِيْمَ عِليه السَّلاَمُ قَالُوْا فَمَالَنَا فِيْهَا يَارَسُوْلَ اللّٰهِ بِکُلِّ شَعْرَةٍ مِّنَ الصُّوْفِ حَسَنَةٌ.

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی۔ عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے بدلے نیکی ہے‘‘۔

 (احمد، ابن ماجه، مشکوة)

آیئے قربانی کے چند مسائل کا مطالعہ کرتے ہیں :

جانور ذبح کرنے کا شرعی طریقہ

ذبح کرنے سے پہلے جانور کو گھاس ڈالیں اور پانی پلائیں۔ ایک جانور کے سامنے دوسرے کو ذبح نہ کریں۔ جانور کے سامنے چھری کو تیز نہ کریں۔ چھری خوب تیز ہو۔ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ کی طرف اس کا منہ ہو اور اپنا داہنا پاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر چھری چلائیں۔ اس طرح ذبح کریں کہ چاروں رگیں کٹ جائیں یا کم از کم تین رگیں کٹ جائیں۔ اس سے زیادہ نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مہرہ تک پہنچ جائے۔ جب تک یقین نہ ہو جائے کہ روح نکل گئی اس وقت تک نہ چمڑہ اتاریں نہ اعضاء کاٹے جائیں۔

زخمی جانور کی قربانی کا حکم

جس جانور کا پورا کان یا زیادہ حصہ کٹا ہوا ہے اس کی قربانی جائز نہیں۔

لا تصح بمقطوعة الاذن او الذنب او الالية اذا ذهب اکثر من ثلثها اما اذا بقی ثلثا فانها تصح.

(هدايه مع فتح القدير ص 433، ج 8 / شامی ج 2 ص 1322)

’’جس جانور کا کان یا دم یا چکی (سرین) کٹے ہوئے ہوں اس کی قربانی درست نہیں جبکہ ایک تہائی سے زیادہ حصہ کٹا ہو، اگر دو تہائی باقی ہے اور صرف تہائی چلا گیا تو اس کی قربانی جائز ہے‘‘۔

قربانی کے گوشت کی درست تقسیم اور نیت

قربانی کے گوشت کے لئے بہتر ہے کہ تین حصے کئے جائیں۔

  1. اپنے لئے
  2. رشتہ داروں کیلئے
  3. عام لوگوں کے لئے

یہاں تک کہ ضروریات کے پیش نظر تمام گوشت بھی کسی ایک قسم میں صرف کر سکتا ہے۔ ایثار کا یہی توسنہرا موقع و ذریعہ ہے۔

لطف کن لطف کہ بیگانہ شود حلقہ بگوش

 قربانی دیتے وقت جس کی نیت کریں گے اسی کی طرف سے ہوجائے گی۔ اپنی طرف سے، کسی اور کی طرف سے، زندہ کی طرف سے، مرحوم کی طرف سے۔

اگر آپ صاحب نصاب ہیں تو پہلے اپنی قربانی دیں پھر کسی اور کی طرف سے۔ صاحب نصاب نہیں تو جس کی طرف سے چاہیں دے سکتے ہیں۔ قربانی خواہ زندہ کی طرف سے ہو، خواہ مرحوم کی طرف سے، اس کے گوشت وغیرہ کے وہی احکام ہیں جو مذکور ہوئے۔

بغیر نصاب کے قربانی جائز ہے

کسی کی ابتر مالی حالت کے پیش نظر، اس پر شرعاً قربانی واجب نہیں لیکن اسکے باوجود اگر وہ قربانی کرتا ہے تو قربانی ہو جائے گی۔ جیسے نابالغ پر کوئی نماز، روزہ وغیرہ واجب نہیں مگر ادا کرے تو صحیح ہے۔ یعنی نماز بھی ہوجائے گی اور روزہ رکھنے سے روزہ بھی ہو جائے گا، ہاں فرض کے طور پر نہیں بلکہ نفلی عبادت کے طور پر۔ اسی طرح اس شخص کی قربانی ہوجائے گی مگر واجب کے طور پر نہیں، نفلی حیثیت سے۔ پس اگر کوئی قربانی کرتا ہے اور خلوص نیت سے کرتا ہے تو یقینا اللہ تعاليٰ کے حضور اجر و ثواب پائے گا۔

حلال جانور کے حرام اجزاء

حلال جانور کی اوجھڑی اور گردے وغیرہ کھانا جائز ہے۔ صرف سات اجزاء مکروہ تحریمہ یا حرام ہیں۔

ما يحرم اکله من اجزاء الحيوان سبعة الدم المسفوح والذکر والانثيان، والقبل، والغدة، والمثانة، والمرارة.

(فتاوی عالمگيری ص 290، ج 5 / بدائع الصنائع ج 5، ص 61)

’’حلال جانور کے سات اجزاء حرام ہیں :

  1. بہتا ہوا خون
  2. آلہ تناسل
  3. خصئے
  4. پیشاب گاہ
  5. گلٹی
  6. مثانہ
  7. پِتہ

صرف ان سات اجزاء کو کھانا، حرام ہے۔ باقی سب حلال ہیں۔