تعلیماتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نفسیاتی پہلو

شفاقت علی شیخ

اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی قدرتِ کاملہ کا شاہکار بناتے ہوئے اُسے بے شمار ظاہری و باطنی صلاحیتوں سے مالا مال فرمایا۔ اُسے ایک سوچنے والا دماغ اور دھڑکتا ہوا دل عطا فرمایا۔اُسے غور و فکر کرنے کی منفرد صلاحیت عطا فرمائی۔ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھا کر حصولِ علم کے لا محدود دروازے کھول دئیے۔ فرشتوں کے مقابلے میں حضرت آدم علیہ السلام کی برتری کی بنیاد بھی علم کو ہی قرار دیا۔حضرت آدم علیہ السلام کا یہ علمی ورثہ اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا رہا اور ہر زمانے میں غور وفکر کے ذریعے اس ذخیرے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

صدیوں پہلے انسان نے اللہ رب العزت کی دی ہوئی فطری صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے کائنات کے حقائق پر غورو فکر کرنا شروع کیا۔ کائنات کی تخلیق، اس کے مختلف مظاہر اور خود انسانی وجود کے حوالے سے بے شمار سوالات تھے جو انسان کو غورو فکر کی دعوت دے رہے تھے۔انسان نے ان پر غور کرنا شروع کیا اور سوچ بچار کے نتیجے میں نئے نئے علوم و فنون معرض وجود میں آتے گئے۔ پچھلی نسلوں کے تجربات و مشاہدات اگلی نسلوں کو منتقل ہونے کے ساتھ ساتھ ہر آنے والے دن میں علم کے نئے نئے زاویے آشکار ہوتے چلے گئے۔ ان تمام انسانی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں جو علم معرضِ وجود میں آیا اُسے سائنس کا نام دے دیا گیا۔

جیسے جیسے علم میں پھیلاؤ آیا تو پھر علم کی تقسیم (Classification) شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے علم کی سینکڑوں شاخیں(Branches) معرضِ وجود میں آگئیں۔ اُن شاخوں میں سے ہی ایک کا نام فلسفہ ہے جس کا مقصد بطورِ خاص حقائق ِحیات پر غورکرنا ہے۔فلسفہ صدیوں تک زندگی کے حقائق پر غوروفکر کرتا رہا اور اپنی دانست میں حقائق کی گتھیوں کو سلجھاتا رہا۔ اس سفر میں بے شمار نشیب و فراز بھی آئے، ٹھوکریں بھی کھائیں مگر بہر حال فلسفے کا سفر جاری رہا۔ فلسفہ میں سے ہی چلتے چلتے علم کی ایک اور شاخ نکل آئی جس کانام نفسیات رکھا گیا۔علم نفسیات کا مقصد بطورِ خاص انسانی شخصیت اور کردار کو زیرِ بحث لانا تھا تاکہ انسانی رویہ جات کو سمجھ کر شخصیت کی بہتری کے اصول و ضع کیے جا سکیں۔

علم نفسیات کی تاریخ بحیثیت ایک علم اور سائنس کے تو بہت قدیم نہیں ہے تاہم دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو یہ علم اتنا ہی قدیم ہے جتنی خود یہ کائنات۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب سے کسی انسان نے اپنے متعلق سوچنا شروع کیا تب سے ہی یہ علم معرضِ وجود میں آگیا۔ پھر رفتہ رفتہ اس علم کی باقاعدہ شکل بنی، اس کے اندر وقتاً فوقتاً مختلف تجربات اور مشاہدات ہوتے رہے۔ نئی نئی تحقیقات اس کے ذخیرے میں اضافہ کرتی رہیں اوراب یہ علم اتنا پھیل چکا ہے کہ خود اس کے اندر کئی ضمنی شاخیں معرضِ وجود میں آچکی ہیں۔

معروف سائنس دان الفریڈ آئن سٹائن کا ایک مشہور قول ہے :

Science without religion is lame,religion without science is blind.

’’مذہب کے بغیر سائنس لنگڑی ہے۔ سائنس کے بغیر مذہب اندھا ہے‘‘۔

اس قول کا مطلب یہ ہے کہ سائنس کو اپنی تحقیقات آگے بڑھانے کے لیے مذہب کی بیساکھیوں کی ضرورت ہے کہ وحی کے ذریعے منکشف ہونے والے حقائق کو لے کر وہ اُس پر تجربات کر کے نئے نئے نتائج اخذ کرتی ہے۔ دوسری طرف مذہب کو آگے بڑھنے کے لیے سائنس کی ضرورت ہے کہ مذہب نے جو تھیوری پیش کی ہوتی ہے سائنس اُس کو عملی طور پر صحیح ثابت کر کے اُس کے لیے تقویت کا ذریعہ بنتی ہے۔

ضروری نہیں کہ ہم اس قول کے دوسرے حصے سے بھی کلیتاً اتفاق کر لیں۔ تاہم اتنی بات ماننی ہی پڑے گی کہ مذہب نے صدیوں پہلے جن حقائق کا انکشاف کیا تھاسائنس کی تحقیقات و ایجادات اُن کی تصدیق کرتی چلی جا رہی ہیں اور ہر آنے والا دن مذہب (بالخصوص دینِ اسلام) کی صداقت کو روزِ روشن کی طرح عیاں کرتا چلا جا رہا ہے۔ انسانی زندگی اور کائنات کے متعلق کتنی ہی باتیں ہیں جو قرآنِ مجید نے مدتوں پہلے بیان کر دیں۔ آج سائنس صدیوں کا فاصلہ طے کرنے کے بعد اُن تمام باتوں کو من و عن تسلیم کرتی چلی جا رہی ہے۔

دین اور علم نفسیات کا باہمی تعلق

یوں تو تمام علوم کا مذہب/ دین کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کا تعلق ہے لیکن علمِ نفسیات کا تعلق مذہب/ دین کے ساتھ بطورِ خاص اس طرح ہے کہ مذہب/ دین کی تعلیمات کا مرکز و محوربھی انسان ہے کہ انسان کس طرح اپنی شخصیت کو بہتر بنا کر ترقی و عروج کی طرف جا سکتا ہے۔ دوسری طرف علمِ نفسیات کا موضوع بھی انسان ہی ہے کہ اُس کی سیرت و کردار اور رویہ جات کے اندر کس طرح بہتری لائی جا سکتی ہے۔ لیکن دونوں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ ایک طرف دانشِ رحمانی ہے جو ہر قسم کی غلطی و سہو سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی کے محدود مفادات سے آگے بڑھ کر اخروی سعادت و فلاح کو بھی اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ جب کہ دوسری طرف دانشِ انسانی ہے جس کے اندر غلطی و سہو کا امکان بھی پوری طرح موجود ہے اور جس کا مطمع نظرعموماًدنیوی زندگی کو بہتر انداز میں گزارنے تک محدود رہتاہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کلمة الحکمة ضالة المومن اخذ من حيث وجد

’’حکمت کی بات مومن کی گمشدہ میراث ہوتی ہے۔جہاں سے بھی اُسے ملتی ہے وہ لے لیتاہے۔‘‘

لیکن اس میں ایک شرط رکھی گئی ہے کہ

خذ ما صفا ودع ما کدر

’’جو صاف ہے وہ لے لو اور جو گدلا ہے اُسے چھوڑ دو‘‘

صاف اور گدلے کو پرکھنے کا پیمانہ پھر مذہب کو ہی قرار دیا جائے گا جو چیز قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پوری اترے گی اُسے قبول کر لیا جائے گا۔اور جو چیز کسی بھی درجے میں متضاد ہو گی اُسے رد کر دیا جائے گا اگرچہ بظاہر دیکھنے میں کتنی ہی خوبصورت دکھائی دے۔ عربی زبان میں کہا جاتا ہے :

کلام الملوک ملک الکلام

’’بادشاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہوتاہے‘‘

اور بقول حضرت واصف علی واصف

’’پیغمبر کی بات، باتوں کی پیغمبر ہوتی ہے‘‘

لہٰذا اسلام اور ایمان اس چیز کا نام ہے کہ قرآن اور صاحبِ قرآن کی بارگاہ میں آکر اپنی عقل و فکر کے چراغوں کو بجھادیا جائے اور یہاں سے ملنے والی ہر چیز کو آنکھیں بند کر کے من وعن تسلیم کر لیا جائے۔ اس لئے کہ

لَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلاَّ فِيْ کِتٰبٍ مُّبِيْنٍ.

’’نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)‘‘۔

(الانعام : 59)

نیز فرمایا :

مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَيْئٍ.

(الانعام : 38)

’’ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی (جسے صراحتہً یا اشارۃً بیان نہ کر دیا ہو)‘‘۔

اور حضرت عبداللہ ابن عباس کا قول ہے کہ

لو ضاع لی عقال بعير لوجدته‘فی کتاب الله

’’اگر میرے اونٹ کی نکیل بھی گم ہو جاتی تو میں اُسے بھی قرآن میںتلاش کرلیتا‘‘

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو اُسوہ حسنہ اور سیرتِ مبارکہ دی گئی وہ بھی ہر لحاظ سے کامل اور جامع ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا گیا :

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.

(الاحزاب : 21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے‘‘۔

لہٰذااب قیامت تک کے لیے جو شخص بھی ہدایت و راہنمائی کا طلب گار ہو اُسے قرآن و سنت کی دہلیز پر آنا پڑے گا۔اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

قد ترکت فيکم امرين ان تمسکتم بهما لن تضلوا ابدا وهی کتاب الله وسنتی

’’ بے شک میں تم میں دو چیزیں چھوڑکر جا رہا ہوں جب تک ان دونوں کو تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ اور یہ اللہ کی کتاب اور میری سنت ہیں۔‘‘

تاہم جب انسانی فکر ہزارہا سال تک ٹھوکریں کھانے کے بعد کسی ایسے نتیجے پر پہنچتی ہے جو نبوت کی بارگاہ سے صدیوں پہلے بیان ہو چکا ہوتاہے تو ایمان میں مضبوطی کے ساتھ ساتھ ایمان کا لطف بھی دو آتشہ ہوجاتاہے۔

اس ضروری تمہید کے بعد اب جس نکتے کو بیان کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ علم نفسیات کے اندر پچھلی چند دہائیوں میں Self Helpکے حوالے سے کافی ساری کتابیں منظرعام پر آئی ہیں جن کا مقصد ان کتابوں میں دیئے گئے اصولوں کو استعمال کرتے ہوئے شخصیت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ کامیابی وکامرانی کو حاصل کرنا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کتاب 2006ء میں "The secret" کے نام سے چھپی۔ جس کی مصنفہ ایک خاتون رہونڈا بائرن (Rhonda Byren)ہیں۔ مصنفہ کے بقول اس کتاب کے چھپنے کے دو سال پہلے تک اُس کی زندگی بکھر چکی تھی، اپنے پرائے منہ موڑ چکے تھے، ہر طرف مایوسیاںاور ناامیدیاں تھیں کہ نفسیات کی ایک سو سالہ پرانی کتاب "The science of Getting Rich" اُس کے ہاتھ لگی اور اس کتاب میں سے اُس کے ہاتھ وہ راز آگیا جسے استعمال کرنے کے ساتھ ہی اُس کے حالات بدلنا شروع ہو گئے۔ مصنفہ کے بقول یہ راز کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے اور ہر زمانہ کے مشہور اور کامیاب لوگ اسے استعمال کرتے چلے آئے ہیں۔تاہم یہ راز سینہ بہ سینہ چلا آرہا تھا لیکن اُس نے اسے پہلی بار کھول کر باقاعدہ ایک فارمولے کے طور پر بیان کیا ہے جسے استعمال کر کے کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں جو چاہے پا سکتاہے اور جو بننا چاہے بن سکتاہے۔چنانچہ مصنفہ نے اس راز کو عام کرنے کے لیے پہلے ایک فلم بنائی اور بعد ازاں اس حوالے سے ایک پوری کتاب لکھ دی جس کا نام "The Secret" رکھا۔ یہ کتاب 2006ء میں چھپی اور اب تک اس کی لاکھوں کاپیاں دنیا بھر میں فروخت ہو چکی ہیں۔ اور آج سیلف ہیلپ (Self Help)کے سلسلے میں لکھی جانے والی کتابوں میں یہ ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔

اصولِ نفسیات اور تعلیماتِ اسلام

آئیے! دیکھتے ہیں کہ وہ راز کیا ہے اور تعلیمات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اُسے کس طرح استعمال کر کے خود بیان کرنے والوں سے بھی زیادہ اچھے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

اس راز کو جاننے سے پہلے نفسیات کے تین اہم اصولوں پر غور کر لیں جن پر اس راز کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ اصول یہ ہیں :

  1. کائنات میں ہر چیز کی فراوانی ہے۔یہاں ہر شخص کے لیے پانے کے لیے سب کچھ یا بہت کچھ موجود ہے۔
  2. ہماری زندگی ہمارے خیالات سے ہی بنتی ہے جس طرح کے خیالات ایک انسان اکثر و بیشتر سوچتا ہے۔ اُسی سانچے میں اُس کی شخصیت ڈھلنا شروع ہو جاتی ہے۔
  3. ہمارے خیالات صرف ہماری شخصیت پر ہی اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ ہمارے حالات کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جیسے ہمارے خیالات اور سوچیں ہوتی ہیں، اُسی طرح کے حالات ہمارے ارد گرد تخلیق ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

ان تینوں باتوں میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہو۔ بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات، انبیائے کرام کے معجزات اور اولیائے کرام کی کرامات جا بجا اس کی تصدیق کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

ـ"The Secret"میں بیان کیا جانے والا راز مندرجہ ذیل تین نکات پر مشتمل ہے۔

  1. مانگنا
  2. یقین کرنا
  3. محسوس کرنا

1۔مانگنا

ہم جو کچھ اپنی زندگی میں بننا چاہتے ہیں یا جو کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں اُسے پانے کی پہلی شرط ہے ’’مانگنا‘‘۔ مانگنے کا مطلب ہے اُس کی ایک سچی آرزو اور خواہش دل میں پیدا کرنا۔اور پھر وقتاًفوقتاً اُس کے متعلق سوچتے رہنا۔ علمِ نفسیات کا کہنا ہے کہ جس طرح زمین کے اندر کشش ثقل کا قانون ہے جس کے ذریعے وہ ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے اُسی طرح اس کائنات میں قانونِ کشش بھی موجود ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہماری سوچیں وجود رکھتی ہیں اور ہم جس چیز یا جس حالت کو پانا چاہتے ہیں، اُس کے متعلق سوچتے رہنے سے قانونِ کشش کے ذریعے وہ چیزیں ہماری زندگی میں شامل ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور کائنات کا خود کار نظام انہیں ہمارے لیے تخلیق کرنا شروع کر دیتا ہے لیکن اس کے لیے ایک سچی آرزو اور خواہش کا ہونا ضروری ہے اور ہمیں واضح طور پر معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا پانا چاہتے ہیں ؟اس کی مثال یوں ہے کہ بازار کے اندر تقریباً تمام چیزیں موجود ہوتی ہیں مگر جب ہم شاپنگ کے لیے بازار جاتے ہیں تو واپسی پر ہمارے ساتھ صرف وہی چیزیں آتی ہیں جن کی خواہش اور تمنا لے کر ہم بازار گئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کائنات کے پاس سب کچھ موجود ہے مگر آپ کو وہی کچھ ملنا ہے جس کی طلب و تمنا کو اپنے قلب و ذہن رکھتے ہوئے اُس پر اپنی توجہ کو مرکوز کرتے ہیں۔

مندرجہ بالا اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دعا کی شکل میں جو بہترین اصول دیا ہے کیا وہ اسی اصول کی اعلیٰ ترین شکل نہیں ہے۔؟ اس فرق کے ساتھ کہ علمِ نفسیات ہمیں کائنات سے مانگنے کے لیے کہتا ہے جب کہ ُاسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنی تمام ضروریات کائنات کے خالق و مالک سے مانگنے کے لیے کہتاہے۔ایک طرف تو ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں قدم قدم پر ہر ہر موقع کی مناسبت سے انتہائی موزوں الفاظ میں کوئی نہ کوئی خوبصورت دعاملتی ہے دوسری طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات مبارکہ میں دعا کی اہمیت و فضیلت پر اتنا زور دیا ہے کہ اکثر کتب حدیث میں دعا کے حوالے سے الگ ابواب موجود ہیں۔ چند احادیث پر غورکریں :

اَلدُّعاَءُ هُوَالْعِبَادَة.. ’’دعا عبادت ہی ہے‘‘

اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَة.. ’’دعاعبادت کا نچوڑ ہے‘‘

انسان اللہ رب العزت سے مانگ تو اپنی ضروریات رہا ہے مگر پہلی حدیث میں اُس کے مانگنے کو عبادت قرار دیا جا رہاہے۔جب کہ دوسری حدیث میں اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر دعا کوعبادت کا بھی جو ہر بتایا جا رہا ہے۔اسے کہتے ہیں ’’آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام‘‘ اور چونکہ دعا عبادت کی بھی اعلیٰ ترین شکل ہے اس لیے ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا : ـ

لَيْسَ شَيئُ اَکْرَمُ عَلَی اللّٰهِ مِنَ الدُّعَاء.

’’اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ کوئی شے معزز نہیں ہے‘‘

اور جب دعااللہ تعالیٰ کے ہاں قدرومنزلت والی چیز ہے تو وہ بندہ بھی خود بخود معزز بن جاتاہے جو کثرت سے دعا مانگتاہے۔ اللہ رب العزت نے چونکہ دعا کو اپنی عطائوںکا ذریعہ بنایا ہے اس لیے وہ اس بات کو پسند کرتاہے کہ بندہ اُس سے زیادہ سے زیادہ مانگنے اورزیادہ سے زیادہ عنایات اور نوازشوں کا مستحق بنتا چلا جائے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

سلوا اللّٰه من فضله فان اللّٰه عزوجل يحب ان يسئَل

’’اللہ تعالیٰ سے اُس کا فضل مانگا کرو۔پس بیشک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتاہے کہ اُس سے سوال کیا جائے‘‘

اور دوسری طرف نہ مانگنے والوں کے حوالے سے فرمایا :

من لم يسئل اللّٰه يغضب عليه

’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتا اللہ تعالیٰ اُس پر ناراض ہوتاہے۔‘‘

ایک اور حدیث ِقدسی میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يا ابن اٰدم انک ان سالتنی اعطتيتک وان لم تسئلنی غضبت عليک

’’اے ابن آدم! اگر تو مجھ سے مانگے تو میں تجھے دوں گا اور اگر نہیں مانگے گا تو میں تجھ پر ناراض ہوں گا‘‘

چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر چھوٹی بڑی حاجت اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

ليسئل احدکم رب عزوجل حاجته حتی شسع نعله اذا انقطع

’’تم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی ضرورت کی ہر چیز اپنے رب سے مانگے حتی کہ جب اُس کے جوتے کا تسمہ ٹوٹے تو وہ بھی اُسی سے مانگے‘‘

دعا انسان کے لیے کیا کچھ کر سکتی ہے۔اس کا اندازہ مندرجہ ذیل حدیث ِ مبارکہ سے لگائیں :

لاَ يرد القضاء الا الدعاء

’’دعا کے علاوہ کوئی چیز تقدیر کو نہیں بدل سکتی‘‘

دوسری جگہ ارشاد فرمایا

لن ينفع حذر من قدر ولکن الدعا ينفع مما نزل و مما لم ينزل فعليکم بالدعاء عباد اللّٰه

’’کوئی بچانے والی چیز تقدیر کے معاملہ میں کام نہیں دیتی مگر دعا سب معاملات میں نفع دیتی ہے جو نازل ہو چکے ہیں اور جو ابھی نازل نہیں ہوئے۔ پس اے اللہ کے بندو! دعا کو لازم پکڑو‘‘

دعا کی اتنی زیادہ اہمیت کے پیشِ نظردعا سے محروم لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ان اعجز الناس من عجز فی الدعا

’’بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ عاجز (قابلِ ترس) وہ شخص ہے جو دعا میں عاجزی کرتاہے۔‘‘(یعنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے دعا نہیں مانگتا ہے)

2۔یقین کرنا

" The Secret"میں دئیے گئے طریقہ کار کا دوسرا قدم ’’یقین کرنا ‘‘ ہے یعنی اس بات کا پختہ یقین رکھنا کہ جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں وہ لازماً ہمیں مل جائے گا۔ کیونکہ کائنات کے پاس ہر چیز فراوانی سے موجود ہے۔ بات صرف ہمارے طلب کرنے کی ہے۔ جو نہی ہم کسی چیز کو طلب کرتے ہیں اور پھر اس بات کا پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ چیز ہمیں مل جائے گی توساری کائنات کا نظام ہمارے ساتھ موافقت کرتے ہوئے بذریعہ قانونِ کشش کے وہ چیز ہمارے قریب لانا شروع کر دیتاہے۔اس کے برعکس اگر اُس چیز کو پانے کے حوالے سے ہمیں بے یقینی اور نا اُمیدی ہوگی تو ہمارے ذہن سے خارج ہونے والی سوچ کی منفی لہریں ہمارے اور اُس چیز کے درمیان حائل ہو جائیں گی اور قانونِ کشش مثبت چیزوں کی بجائے منفی چیزیں ہماری زندگی میں لانا شروع کر دے گا۔ لہٰذا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جو کچھ ہم مانگیں اُس کے ملنے کا کامل یقین ہو۔

عربی زبان میں کہا جا تاہے :

مَنْ طَلَبَ وَجَدَ.

’’جوشخص کسی چیز کو طلب کرتاہے وہ اُسے پا لیتا ہے ‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں طلب کرنے اور پانے کے درمیان کوئی اجنبیت نہیں ہے بشرطیکہ طلب میں خلوص ہو اور اُس کے ملنے کا یقین ہو۔قرآن و حدیث سے اس یقین کے سلسلے میں ہمیں ٹھوس بنیاد یں میسر آتی ہیں۔اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا :

أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.

(البقره : 186)

’’میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے‘‘۔

لہٰذا پکارنے والے کو پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ اُس کی ہر بات کو سنا جا رہا ہے اور صرف سنا ہی نہیں جا رہا بلکہ اُس کا جواب بھی دیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اُسے قبول بھی کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ.

(المومن : 60)

’’تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا‘‘۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کا حکم دیا لیکن اُس کی قبولیت کا وعدہ نہیں فرمایا لیکن دعا کا حکم دیتے ہوئے ساتھ ہی وعدہ بھی فرما لیا کہ میں قبول کروں گا تاکہ بندہ مکمل طور پر یکسوئی، اطمینان اور کامل یقین کی حالت میں دعا مانگے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا :

اُدْعُوا اللّٰهَ وَاَنْتُمْ مُوْقِنُوْنَ بِالْاِجَابَة

’’اللہ سے دعا مانگا کرو۔اس حال میں کہ تمہیں قبولیت کا مکمل یقین ہو‘‘

یہاں جو لفظ موقنون استعمال ہوا ہے وہ لفظ ایقان سے ہے اور ایقان عربی زبان میں یقین کے اُس اعلیٰ ترین درجہ کو کہتے ہیں جہاں شک و شبہ کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ ہو۔قبولیت کے اس یقین کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے خزانہ میں ہر چیز وافر مقدار میں موجود ہے۔ساری مخلوقات کو دے کر بھی اُس کے خزانہ میں ایک ذرہ بھر کمی نہیں آتی۔چنانچہ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يا عبادی لو ان اولکم و اٰخرکم وجنکم انسکم اجتمعوافی صعيد واحد فسئَلونی جميعا فاعطيت کل انسان منهم مسئلته لم ينقص ذلک مما عندی الا کما ينقص المخيط اذا غمس البحر

’’اے میرے بندو! اگر تمہارے سب اگلے پچھلے، جن و انسان ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور سب مجھ سے مانگیں اور میں اُن میں سے ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تو یہ دینا میرے خزانہ میں کمی نہیں کرے گامگر اتنی جتنی کہ سمندر میں ڈبونے سے سوئی سمندر کے پانی میں کمی کرے گی۔‘‘!

ایک طرف تو اُس کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور دوسری طرف وہ ذات اپنے بندوں کے ساتھ حد درجہ مہربان اور قدردان ہے۔ چنانچہ بندوں کے اٹھے ہوئے ہاتھ واپس لوٹانا اُس کی بندہ پروری کو گوارا ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ان الله تعالیٰ ليستحی ان يبسط العبد اليه بديه ليساله خيرا فيرد هما خائبتين.

’’بے شک اللہ تعالیٰ کو اس بات سے حیا آتی کہ بندہ اُس کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا کر بھلائی کا سوال کرے اور اللہ تعالیٰ اُن ہاتھوں کو خالی لوٹا دے‘‘

ویسے بھی ایمان والوں کو ہر حال میں اللہ رب العزت کی بارگاہ سے پُر امید رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا گیا۔

لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اﷲِ.

(الزمر53)

’’تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا‘‘۔

اور حدیثِ قدسی میں اللہ رب العزت نے فرمایا :

اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ.

’’ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہی اُس کے ساتھ معاملہ کرتا ہوں۔‘‘

چنانچہ جو بندہ جیسا گمان اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ ویسا ہی سلوک اُس کے ساتھ کرتے ہیں لہٰذا جو بندہ دعا کی قبولیت کا یقین رکھے گا اُس کے لیے قبولیت یقینی ہے۔لیکن یہاں یہ بات اہم ہے کہ بندہ اپنے محدود علم کی بنا پر کبھی کوئی ایسی چیز مانگ رہا ہوتاہے جو اُس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، کبھی وہ کسی معاملے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر رہا ہوتاہے۔ چنانچہ اللہ رب العزت کی طرف سے دعا کی قبولیت کا وعدہ تو ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ بندے کی سوچ کے مطابق ہی ہو۔ اللہ رب العزت کی ذات بندے کی مصلحت اور بھلائی کو بندے سے زیادہ بہتر جانتی ہے۔ چنانچہ وہ خود ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس دعا کو کس انداز میں قبول کرنا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبولیت کی تین شکلیں بیان فرمائی ہیں۔

من دعا بدعوة ليس فيها اثم ولا قطيعة رحم اعطاه الله عزوجل احدٰی ثلاث : اما ان يغفر له بها ذنبا قد سلف، واماانُ يّعجلها له فی الدنيا‘ واما ان يد خرها له فی الاحزة.

’’ جو آدمی ایسی دعا مانگے جس میں نہ کوئی گناہ ہو اور نہ قطع رحمی ہو تو اللہ تعالیٰ اس دعا کے بدلہ میں تین میں سے ایک چیز ضرور دیتاہے یا اس دعا کی وجہ سے اس کا کوئی سابقہ گناہ معاف کر دیا جاتاہے یا اسے وہ چیز (جو اس نے مانگی ہے)فوراً دنیا میں دے دی جاتی ہے یا یہ دعا اُس کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر لی جاتی ہے‘‘

تعلیماتِ اسلام کی انفرادیت

جبکہ دوسری طرف علم نفسیات پر غور کیا جائے گا تو اس کے پاس خواہش اور آرزو کے پورا نہ ہو سکنے کی بنا پر متبادل کوئی نہیں ہے۔ لہٰذامایوسی ہی ہے جب کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو متبادل راستے دکھا کر تسلی دے دی کہ اگر مطلوبہ خواہش پوری نہیں بھی ہو رہی ہے تو اطمینان رکھو اُس کا کوئی اور بہتر نعم البدل مل جائے گا اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ دعا کی قبولیت کے انتظار میں پُر امید رہنے کو اعلیٰ درجے کی عبادت قراردیا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

افضل العبادة انتظار الفرج.

’’بہترین عباد ت کشادگی کا انتظار کر نا ہے‘‘

پھر حالات مرضی کے مطابق بن جائیں تو شکر کے ذریعے استقبال کرنا ہے اور جہاں صورتِ حال مرضی کے خلاف ہو تو وہاں صبر کا دامن تھام لینا ہے اور یہ دونوں حالتیں ہی بندہ مومن کے لیے سراسرخیر ہی خیر ہیں۔جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

عجبا لامر المومن المومن ان امره کله له خير وليس ذلک لا حد الا للمومن ان اصابته سرآء شکر فکان خيراً له وان اصابته ضرآء صبر فکان خيراله.

’’مومن کا حال عجیب ہے اُس کا ہر معاملہ ہی اُس کے لیے خیر ہے اور یہ چیز سوائے مومن کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر اُسے کوئی بھلا ئی پہنچے تو شکر کرتاہے اور یہ شکر کرنا اُس کے لیے بہتری کا باعث بنتا ہے اور اگر اُسے کوئی برائی پہنچے تو صبر کرتا ہے اور یہ صبر کرنا بھی اُس کے لیے بہتری کا ذریعہ بنتا ہے‘‘

مندرجہ بالا حقائق جس بھی بندئہ مومن کے دل میں اُتر جائیں گے اُس کے لیے کسی بھی قسم کی صورتِ حال میں پریشانی کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ وہ ہر قسم کے حالات میں پُراُمید رہ سکتا ہے اور اپنے آپ کو منفی خیالات سے بچا کر پُر اُمید رہ سکتاہے۔اور یہ بات طے ہے کہ ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہماری منفی سوچ ہی ہے اور تمام خوبیوں کا منبع و سرچشمہ مثبت سوچ کو اپنانا اور اُس پر قائم رہنا ہے۔

3۔محسوس کرنا

اس طریقہ کار کا تیسرا اور آخری مرحلہ ہے ’’محسوس کرنا‘‘ یعنی جو چیز یا جس حالت کو پانے کی آرزو آپ لیے ہوئے ہیں اور اُس کے مل جانے کا یقین بھی آپ کے اندر موجود ہے ایک قدم آگے بڑھیں اور یوں محسوس کریں جیسے آپ اپنی مطلوبہ چیز یا حالت کو پا چکے ہیں۔ جیسے آپ بننا چاہتے ہیں ویسے بن چکے ہیں اور جو کچھ آپ پانا چاہتے ہیں، پاچکے ہیں۔ یہ احساس کائنات کی ساری قوتوں کو حرکت میں لے آئے گا اور آپ ایک مقنا طیس کی طرح ہر اچھی چیز کو اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں گے۔کسی چیز کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سوچوں کی فریکونسی کی وہی سطح ہو اور اس کا آسان ترین طریقہ اُن چیزوں کو پہلے سے ہی اپنے پاس محسوس کرنا ہے۔

اللہ رب العزت نے انسان کو جو منفرد صلاحیتیں دے رکھی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم ماضی و مستقبل میں جھانک کر دیکھ سکتے ہیں اور تصورات کے ہوائی قلعے تعمیر کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ایک چیز جو آج ہمارے پاس نہیں ہے ہم اپنی سوچ کو مستقبل میں لے جاکر خود کو اُس کا مالک سمجھتے ہوئے اور اُسے استعمال میں لاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔یاکوئی ایسی خوبی جو آج ہمارے اندر موجود نہیں ہے تو ہم تصورات میں اپنے آپ کو اُس خوبی سے متصف دیکھتے ہوئے اُس کے مطابق خود کو عمل کرتے ہوئے محسوس کر سکتے ہیں گو کہ یہ عمل بظاہر ایک مضحکہ خیز کام دکھائی دیتاہے لیکن قانونِ کشش کو زبردست طریقے سے حرکت میں لانے اور ہمیں ہماری مطلوبہ چیز یا حالت کا مالک بنانے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔

شُکرمیں پنہاں حکمتیں

مندرجہ بالا سطور میں دعا کے حوالے سے جو باتیں کہی گئی ہیں اُن کی روشنی میں ایک بندہ مومن کے لیے اس بات پر عمل کرنا چنداں دشوار نہیں ہے۔ کیونکہ ایک طرف تو اُس کے پاس دعا کا ہتھیار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کی قبولیت کا یقین بھی موجود ہے اور دوسری طرف اُس کے پاس تصورات کی طاقت بھی موجود ہے۔تو ان دونوں کے امتزاج سے وہ کسی بھی حالت کو مستقبل میںرونما ہوتے ہوئے دیکھ سکتاہے۔

تاہم ڈاکٹر میر ولی الدین نے اپنی خوبصورت کتاب’’ قرآن اور تعمیرِسیرت‘‘ میں اس کا ایک اور آسان حل بھی دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان ماضی اور حال کی نعمتوں کو یاد کر کے شکر بجا لائے اور ماضی کے ایسے مواقع کا تصور کرے جہاں اللہ رب العزت نے اپنی خصوصی مدد و نصرت سے اُسے کسی مشکل یا الجھن سے نکالا تھا۔ ایسے مواقع پر شکر بجا لانے کے ساتھ ساتھ یہ سوچے کہ اللہ رب العزت کی طاقتیں اور قدرتیں آج بھی وہی اور آئندہ بھی وہی رہیں گی چنانچہ جو کچھ اُس نے مجھے ماضی میں دیا وہ سب کچھ بھی اور اُس کے علاوہ بھی سب کچھ وہ مجھے آئندہ بھی دے سکتاہے۔چنانچہ ماضی و حال کی نعمتوں کا شکر بجا لانے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ملنے والی نعمتوں کا بھی شکر زمانہ حال میں ادا کرے اور یوں محسوس کرے جیسے وہ نعمتیں اُسے مل چکی ہیں۔ یہ شکر گویا نعمتوں کی ایڈوانس بکنگ کے مترادف ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک طرف تو لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِيْدَنَّکُمْ (اگر تم شکرادا کروگے تو میں نعمتوں میں اور اضافہ کردوں گا) کے وعدہ الٰہی کے مطابق سابقہ نعمتوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ آئندہ کے لیے مزید نعمتوں کے دروازے کھلنا شروع ہوجائیں گے۔ (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شکر ادا کرنے پر نعمتوں میں اضافے کا وعدہ خود فرما رکھا ہے اور وہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا)اور دوسری طرف اُس کے محسوسات کی قوت اُس کی ذہنی فریکونسی کو اُس سطح پر لے آئے گی جہاں وہ نعمتوں کو وصول کرنے کا مستحق بن سکے۔

راقم کے خیال میں یہ بہت ہی شاندار نسخہ ہے۔ ایک عام آدمی اپنے ماضی کے منفی اور ڈرائونے واقعات و حادثات کو یا دکر کے اپنے اندر ڈر، خوف اور وہم جمع کرتا رہتا ہے اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار ہوتاہے یہی بے یقینی اُس کے اندر منفی سوچوں کو پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں مزید منفی چیز یں اُس کی زندگی میں آتی چلی جاتی ہیں اور ماضی کے ساتھ ساتھ حال اور مستقبل بھی تباہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ اس کی بجائے اگر انسان غور کرے تو ماضی میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی مدد و نصرت سے اُسے کسی بہت بڑی مشکل سے نکال لیا یا کسی حادثے میں اُسے بال بال بچا لیا۔ تو اس کے نتیجے میں ذہن کے اندر مثبت سوچیں اور خوشگوار احساسات جنم لیں گے اور اس ذہنی کیفیت میں اپنی مطلوبہ صفات اور پسندیدہ اشیاء کو پانا آسان سے آسان تر ہوتاچلا جائے گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیوٰۃ طیبہ میں دعا کی طرح شکر کا جذبہ بھی قدم قدم پر کثرت کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ کھانے، پینے، پہننے، نیند سے بیدار ہونے، رفع حاجت سے فارغ ہونے وغیرہ جیسے مواقع کی جو دعائیں ہیں اُن سب کے اندر شکر کا جذبہ اُبلتا ہوا دکھائی دیتاہے۔ اُن میں سے ہر دعا کا آغاز الحمد للہ سے ہو رہا ہے جو کلمہ شکر ہے اور جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہترین دعا بھی قرار دیا ہے۔نیز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتاہے کہ انسان لقمہ کھائے اور الحمد للہ پڑھے‘ پانی کا گھونٹ پئے اور الحمد للہ پڑھے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو قدم قدم پر شکر گزاری کے جذبات سے لبریز ہونا چاہیے اور اُسے یہ احساس ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے بے شمار نعمتوں سے نواز رکھا ہے تاکہ وہ محرومیوں کے احساس میں جینے کی بجائے ہر وقت پُر امید اور نعمتوں کے تصور سے سرشار رہے۔یہ شکر گزاری کا جذبہ اتنا اہم ہے کہ اس کا دائرہ کار فقط خدا تک رکھنے کی بجائے پوری مخلوق تک پھیلا دیا گیا۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

مَنْ لَمْ يَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْکُرِ اللّٰه.

’’جو شخص بندوں کا شکر یہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بھی نہیں بن سکتا‘‘

گویا روزمرہ کی زندگی میں قدم قدم پر بندوں کے ساتھ معاملات میں شکر گزاری والی روش کو اپنا نا ہے اور پھر اسی چیز کو بڑے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا نا ہے تاکہ یہ شکر گزاری والی روش انسان کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بن جائے اور اُس کے قلب و ذہن کو مثبت احساسات سے لبریز کر دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اذا نظر احدکم الیٰ من فضل عليه فی المال و الخلق فلينظر الیٰ من هو اسفل منه ذلک ادنیٰ الا تزدروا نعمة الله عليکم.

’’تم میں سے جب کوئی ایسے شخص کی طرف دیکھے جسے مال اور جسمانی قوت میں برتری دی گئی ہو تو اُسے چاہیے کہ (اپنی توجہ کا رخ پھیرتے ہوئے)ایسے شخص کی طرف دیکھے جو ان چیزوں میں اُس سے کم ہے۔ یہ بات اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کو حقیر نہ سمجھو‘‘

اس نصیحت کا مقصد یہی ہے کہ جب انسان اپنے سے اوپر والے کی طرف دیکھے گا تو اُس کے اندر محرومی کے احساسات بیدار ہوں گے جو اُسے منفی نفسیات کی طرف لے جائیں گے اور منفی نفسیات انسان کی صلاحیتوں کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ اس کے برعکس نیچے والے کی طرف دیکھنے سے اپنے پاس محرومی کی بجائے یافت کے احساسات پیدا ہوتے ہیں جو مثبت نفسیات کا باعث بنتے ہیں اور مثبت نفسیات کے اندر ہی ہر قسم کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا راز چھپا ہواہے۔

احساس کے ساتھ جہدِ مسلسل بھی۔۔۔

"The Secret" نے تو خوشگوار اور کامیاب زندگی کے حصول کے لیے یہ تین باتیں بیان کی ہیں۔ لیکن اسلام ان تینوں باتوں کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بات کا اور اضافہ کرتا ہے اور وہ ہے جدوجہد۔ اسلامی تعلیمات کا کہنا یہ ہے کہ انسان جن مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے اُن کو پانے کے لیے اللہ رب العزت سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ جہدِ مسلسل کو اپنا شعار بنائے یعنی اپنے خوابوں کی تعبیر کو پانے کے لیے جو کچھ وہ اپنے امکان کی حد تک کر سکتاہے ضرور کرے اور اُس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے نتائج کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔چنانچہ اس قانون کو بیان کرتے ہوئے قرآن ِ مجید نے کہا ہے :

وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی.

(النجم : 39)

اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)‘‘۔

اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

العاجز من اتبع نفسه هوا هاوتمنی علی الله.

’’عاجز وہ شخص ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرتاہے اور اللہ تعالیٰ سے (بڑے بڑے مراتب کی) اُمیدیں رکھتاہے‘‘

خلاصہ کلام

دین، دنیا اور آخرت کی جملہ سعادتوں کے حصول کے لیے انسان کثرتِ دعا اور کثرتِ شکر کے ساتھ ساتھ خیالات و تصورات کی طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال میں لائے۔ہمیشہ اپنی سوچ کو مثبت اور پُر امید رکھے۔ کسی حال میں بھی مایوسی، بے یقینی اور پست ہمتی کا شکار نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ جہد مسلسل کو اپنا شعار بناتے ہوئے اپنے معاملات کی تکمیل اور مقاصد کے حصول کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں اور وسائل و ذرائع کو بہترین انداز میں استعمال میں لاتے ہوئے نتائج کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ اور اعتماد رکھے۔ ان شاء اللہ العزیز دنیا و آخرت کی کامیابیاں اُس کے قدم چومتی چلی جائیں گئیں۔

(وما توفيق الا بالله)