حضور نبی اکرم (ص) کی وسعتِ رحمت، غیر مسلمین کے اعترافات

محمد افضل کانجو

سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے جیسے گوناگوں رنگوں اور بے مثال خوشبوئوں والے پھولوں کا گلشن ہو لیکن اس زیرِ نظر مضمون میں اس پورے گلشن کو بیان کرنا مقصود نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ یہاں صرف ایک خوش رنگ پھول کی خوشبوئوں کو بیان کرنے کی کوشش کرنا مقصود ہے جو ’’رحمت‘‘ کا پھول ہے۔ جس کی طرف اللہ رب العزت نے اس طرح ارشاد فرمایا :

 وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ.

(الانبياء : 21 : 107)

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘۔

اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

 فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ.

’’(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے‘‘۔

(آل عمران، 3 : 159)

ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

اِن رحمتوں کی خوشبو کی طرف بعض متعصب اور تنگ نظر مستشرقین اور غیر مسلمین نے نہ دیکھا اور نہ اس کی خوشبو کو سونگھا۔ اس لئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک کو بیان کرتے وقت آپ کی رحمت کو نہ صرف نظر انداز کردیا بلکہ سیرت پاک کی تصویر کو منفی انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

ان متعصب مستشرقین، راہبوں اور غیر مسلم مخالف مصنفین اور کیری کیچرسٹس (Caricaturists) کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ انہوں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دفاعی جنگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے انکار کردیا اور آپ کو سخت مزاج۔۔ وغیرہ تک ظاہر کیا۔ حالانکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ان جنگوں پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مجبور کردیا تھا۔

متعصب مخالفین کے اس رویے کے باوجود بھی بعض غیر متعصب اور انصاف پسند اغیار نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے پہلو کو اچھے انداز میں بیان کیا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا ہے کہ

الفضل ماشهدت به الاعداء

’’جس کی گواہی اعداء بھی دے دیں وہ فضیلت ناقابل انکار ہوتی ہے‘‘۔

گو کئی قرآنی آیات اور احادیث نبویہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت عامہ کا واضح اظہار سامنے آتا ہے مگر غیر مسلم چونکہ قرآن و حدیث کو مانتا ہی نہیں، لہذا ہم غیر مسلموں کے اہم محققین اور مستشرقین کے حوالوں ہی سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ کے غالب پہلو ’’رحمت‘‘ کو بیان کرتے ہیں۔

1۔ جارج برنارڈشا

جارج برنارڈشا نے اعتراف کیا ہے کہ ’’از منہ وسطیٰ میں راہبوں نے جہالت اور تعصب کی وجہ سے مذہب اسلام کی بڑی بھیانک تصویر پیش کی ہے۔ اس کے خلاف تحریک چلائی اور (حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو (بھی) اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا‘‘۔

(سيرت امام الانبياء عليه السلام ص342 از سيد محمد سعيد الحسن شاه مکتبه نوريه رضويه، گلبرگ A، فيصل آباد2001ئ)

2۔ مائیکل ہارٹ

’’(حضرت) محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عاجزانہ طور پر (یعنی ظالمانہ طور پر نہیں بلکہ رحمت سے) اپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا۔ وہ ایک انتہائی موثر سیاسی رہنما بھی ثابت ہوئے۔ آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلّم اور گہرے ہیں‘‘۔

(سو عظيم آدمی از مائيکل ہارٹ. مترجم عاصم بٹ، ص25)

اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، العیاذ باللہ، بقول متعصب غیر مسلمین ظالم ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات و تعلیمات کے اثرات تو کب کے مٹ چکے ہوتے۔ مگر رحمت، آسانی و محبت پر مبنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے اثرات تو اتنے ہیں کہ ایک ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح سلام عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہوگیا :

سلام اس ذات اقدس پر، سلام اس فخر دوراں پر
ہزاروں جس کے احسانات ہیں دنیائے امکاں پر

سلام اس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
رہا جو بے کسوں کا آسرا مشفق غریبوں کا

مددگار و معاون بے بسوں کا، زیرہ ستوں کا
ضعیفوں کا سہارا اور محسن حق پرستوں کا

بڑے چھوٹوں میں جس نے اک اخوت کی بنیاد ڈالی
زمانے سے تمیزِ بندہ و آقا مٹا ڈالی

سلام اس پر جو آیا رحمۃ للعالمین بن کر
پیام دوست لے کر صَادِقُ الْوَعْد وَ اَمِیْں بن کر

(سيرت امام الانبياء عليه السلام، ايضاً ص 377 تا 378)

مائیکل ہارٹ کردار مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اثرات کی وجوہات بیان کرتے ہوئے مزید لکھتا ہے کہ

’’اس کی وجہ میرا اپنا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام کی تشکیل میں ان (یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا ذاتی اثر کہیں زیادہ نمایاں ہے، بہ نسبت عیسائیت کی ہئیت سازی میں (حضرت) عیسیٰ مسیح (علی نبینا وعلیہ السلام) کے کردار کے‘‘۔

(سوعظيم آدمی ايضا! ص10)

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ظلم سے پاک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا رحمت اور ذریعہ رحمت تھے اور ہیں۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے اثرات آج 1400 سال گزرنے کے باوجود ہر شعبہ و طبقہ زندگی پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔

3۔ ولیم منٹگمری واٹ

ولیم منٹگمری واٹ رحمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برداشت اور تحمل کے پیرائے میں دیکھتے ہوئے لکھتا ہے کہ

’’آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا اپنے عقائد کی خاطر ظلم و ستم اور اذیت کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا رہنما تسلیم کرنے والوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھنے والوں کا بلند اخلاقی کردار اور انجام کار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامیابی کی عظمت کی دلیل ہیں۔ (حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دغا باز (نبوت کا جھوٹا دعویدار) فرض کرلینا مسائل کو بڑھاتا ہے، حل نہیں کرتا۔ تاریخ میں عظیم شخصیات میں سے کوئی بھی اتنی غلط انداز میں بیان نہیں کی گئی جتنا غلط انداز میں (حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بیان کیا گیا ہے‘‘۔

(Muhammad at Mecca by W.M.Watt)

4۔ جیمز میکنر (James Mechener)

جیمز میکنر اپنی کتاب The Islam. Misunderstood religion میں رقمطراز ہیں :

’’آزادی ضمیر جس کی آپ نے تبلیغ کی، کے دفاع کے لئے لڑنے پر مجبور ہوکر آپ ایک بلند پایہ فوجی سپہ سالار بن گئے۔ اگرچہ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بار بار اس حال میں جنگ آزما ہوئے کہ آپ کے مد مقابل کو تعداد اور اسلحہ کے لحاظ سے ایک کے مقابلے میں پانچ کی برتری حاصل تھی (لیکن پھر بھی) آپ کو بعض قابل ذکر اور بے مثال فتوحات نصیب ہوئیں‘‘۔

5۔ سٹینلے لین پول (Stanley Lane Poole)

اپنی تصنیف The speeches and Table talk of the Prophet Muhammad میں لکھتا ہے :

’’(حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے دشمنوں پر عظیم ترین نصرت اور ظفریابی کا دن آپ کے لئے اپنے آپ پر سب سے زیادہ عظیم الشان فتح حاصل کرنے کا دن تھا۔ آپ نے قریش کے سالہا سال کے تمام مصائب و آلام اور ظالمانہ و تضحیک آمیز سلوک کو معاف کردیا جس کا انہیں نشانہ بنایا گیا تھا۔ آپ نے مکہ کی تمام آبادی کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا۔ جب آپ اپنے بدترین دشمنوں کے شہر میں بطور فاتح داخل ہوئے تو (حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فوج خاموشی اور امن و آشتی کے ساتھ وارد شہر ہوئی۔ کوئی مکان نہ لوٹا گیا۔ کسی عورت کی بے حرمتی نہ کی گئی۔(حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس انداز سے اپنے آبائی شہر میں دوبارہ داخل ہوئے کہ فتح کی تمام داستانوں میں سے اس سے زیادہ فاتحانہ شان سے داخلے کی مثال اور کہیں ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتی‘‘۔

لالہ لال چند فلک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے :

باہمی نفرت و کینہ تھا وطیرہ جن کا
انس و الفت کا سبق ان کو پڑھایا تو نے

خوابِ غفلت میں پڑے سوتے تھے مکی مدنی
لبِ اعجاز سے قُم کہہ کے اٹھایا تو نے

ریت کے ذروں کو بارود کی طاقت بخشی
خاکِ ناچیز کو اکسیر بنایا تو نے

کردیا ایک شہنشاہ و گدا کا رتبہ
اونچ اور نیچ کا سب فرق مٹایا تو نے

دختر حارثِ غمگیں کو رہائی بخشی
قید غم سے غلاموں کو چھڑایا تو نے

(سيرة امام الانبياء عليه السلام، ايضاً، ص382)

6۔ آرتھر گل مین (Arthur Gilman)

اپنی کتاب ’’The Saracens‘‘ میں رقمطراز ہے :

موازنہ کرنے سے صلیبی جنگ بازوں کی وہ مثال سامنے آتی ہے جس میں انہوں نے 1099ء میں 70,000 مسلمانوں، مردوں، عورتوں اور بے یارومددگار بچوں کو یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ یا صلیب کے زیر سایہ لڑتی ہوئی انگریز فوج کی مثال جس نے 1874ء کے خدائی انعام کے سال میں ایک افریقی دارالحکومت کو گولڈ کوسٹ کے معرکے میں نذر آتش کردیا۔ (اس کے مقابلے میں حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی فتح، حق گوئی سے کام لیا جائے تو مذہب کی فتح تھی، سیاست کی فتح نہ تھی۔ انہوں نے اپنی ذات کے لئے ذاتی تفاخر کے ہر اظہار کو رد کردیا اور شاہی جاہ و جلال کو پائے استحقار سے ٹھکرادیا اور جب قریش کے متکبر اور مغرور سردار آپ کے سامنے حاضر ہوئے تو ان سے پوچھا :

’’تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟‘‘ تو وہ کہنے لگے : رحمدلی کی، اے فیاض و مہربان بھائی‘‘ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس پر بے ساختہ پکار اٹھے۔ ایسا ہی ہوگا۔ جائو تم سب آزاد ہو‘‘۔

7۔ نیپولین بونا پارٹ

نامور فاتح یورپ نپولین بونا پارٹ کا قول ہے :

’’(حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) درحقیقت بنی نوع انسان کے ایک عظیم رہنما تھے۔ انہوں نے عربوں میں اتحاد و یکجہتی کا پرچار کیا جو اس وقت باہمی جھگڑوں اور مفسدہ پردازیوں کے باعث انتشار اور نااتفاقی کا شکار تھے جسکا نتیجہ بعض اوقات خونی جنگوں کی صورت میں نکلتا تھا۔ آپ نے ان کو ذلت و رسوائی کی پستی سے باہر نکالا اور انہیں انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا قرینہ سکھایا۔۔۔ میں اس عظیم انسان کو سلام کرتا ہوں۔ میں ان کی دل و دماغ کی صفات حمیدہ کو سلام کرتا ہوں‘‘۔

(سيرة الرسول صلی الله عليه وآله وسلم ، شيخ الاسلام الدکتور محمد طاهرالقادری، ص 590)

8۔ پروفیسر لارا ویکشیا ویگلیری

Prof. Laura Veccia Vaglleri نے اپنی کتاب تعبیر اسلام ’’Interpretation of Islam‘‘ میں لکھا ہے :

’’آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے جنگ جیسی خوفناک حیات انسانی کی ضرورت (مجبوری) کو کم ظالمانہ بنادیا۔ دیگر سیرت نگاروں کے مطابق آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا یہ عملاً معمول تھا کہ آپ اپنی سپاہ کو حکم صادر فرماتے تھے کہ ان بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی جان بخشی کردیا کرو جو مزاحمت نہ کریں۔ ان کے مکانوں کو مسمار نہ کیا کرو اور ذرائع رزق کو تباہ نہ کیا کرو، پھلدار درختوں کو بربادنہ کیا کرو، کھجور کے درختوں کو بھی (کاٹنے کے لئے) ہاتھ نہ لگایا کرو‘‘۔

راجندر بہادر موج نے دل لگتی بات کہی ہے :

ہر مذہب و ملت پر یکساں ہے کرم جاری
ہے سب کے لئے رحمت، اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا

تصویرِ حقیقت ہے، اک درس محبت کا
ہر بات محمد کی، ہر کام محمد کا( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )

اوہام کی ظلمت میں اک شمع ہدایت ہے
بھٹکی ہوئی دنیا کو پیغام محمد کا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )

خالق نے سنوارا ہے ہر کام محمد کا
گرتوں کا سہارا ہے اک نام محمد کا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )

(سيرة امام الانبياء عليه السلام، ايضاً ص367)

9۔ اے کاسپر پی بی (A Casper P.B)

اپنی کتاب ’’مکالماتی تفہیم کے لئے بنیادی مذہبی موضوعات‘‘ Religious fundamental themes for A Dialogistic understanding میں حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذہب کی تعریف اس طرح کرتا ہے :

’’ایک عالمی اور مکمل مذہب کے طور پر اسلام اس زندگی اور اخروی زندگی میں انسان کو خوشی اور مسرت سے یقینی طور پر ہمکنار دیکھنا چاہتا ہے‘‘۔

10۔ وی سی بیڈلے (V.C Badley)

اپنی مشہور کتاب The Messenger میں لکھتا ہے :

’’Muhammad has no blood lust‘‘ ’’(حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بے جا خون بہانے کی بالکل ہوس نہ تھی‘‘۔ آگے لکھتا ہے۔ ’’در حقیقت کافر قیدیوں میں سے ہر ایک کو یہ اختیار حاصل تھا کہ یا تو وہ قیدی فدیہ دے کر اپنے گھر روانہ ہوجائے یا پھر اسلام قبول کرلے۔ قرآن فرماتا ہے کہ دین اسلام میں کوئی جبر نہیں۔ آپ نے کبھی اپنے شکست خوردہ دشمن سے انتقام نہیں لیا‘‘۔

11۔ ریمنڈ لرونگ (Raymand Leronge)

اپنی کتاب Viede Muhamet میں جنگ کے سلسلہ میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح خراج عقیدت پیش کرتا ہے :

’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم تھی کہ) مقدس جنگ کا مقصد تباہی نہیں ہونا چاہئے بلکہ ضروری ہے کہ اعلائے کلمۃ الحق کے لئے انصاف اور جذبہ رحم پر مبنی ہو۔ جنگ کا معاملہ غارتگری اور انتقام اور ظلم سے بالکل پاک انسانی ہمدردی پر مبنی ہونا چاہئے‘‘۔

12۔ ولیم میور

ولیم میور، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں تعصب و عناد سے بھرا شخص ہے مگر ایک موقع پر اس نے بھی اپنی کتاب The Life of Muhammad میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمدلی کو اس طرح بیان کیا ہے :

’’۔۔۔(حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم سے) ایمان کے دائرہ میں برادرانہ محبت، یتیموں کی پرورش، غلاموں سے احسان، حرمت خمر وغیرہ، سب کے سب جوہر نمودار ہوگئے‘‘۔

عرش ملسیانی ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتا ہے :

طوفان زندگی میں سہارا تمہی تو ہو
دریائے معرفت کا کنارا تمہی تو ہو

ہاں ہاں تمہی تو ہو، دل عالم کی دل نواز
دلدار و دل نشیں و دل آرا تمہی تو ہو

(سيرت امام الانبيائ، ص381)

13۔ باسورتھ سمتھ

باسورتھ سمتھ نے اپنی کتاب ’’محمڈ اینڈ محمڈنزم‘‘ میں حضور اقدس، آقا و مولا، محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ، سرور انبیائ، حبیب کبریا، شفیع الوریٰ، روح ارض و سمائ، علیہ السلام کی یتیموں اور غلاموں پر نوازشات کو اس طرح بیان کیا ہے :

’’رسول (کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی خصوصی عنایات کا مرکز غلاموں کے ساتھ یتیم بھی رہے ہیں۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے عمر بھر کسی کو اپنے ہاتھ مقدس سے نہ مارا۔ اگر کوئی مصافحہ کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تواپنا ہاتھ الگ کرنے میں پہل کرتے اور نہ ہی از خود اس سے جدا ہوتے۔ گفتگو نہایت درجہ، نرم اور شیریں فرماتے‘‘۔

14۔ پروفیسر موسیو سیڈیو

فرانسیسی دانشور پروفیسر موسیو سیڈیو نے اپنی کتاب ’’خلاصہ تاریخ عرب‘‘ میں لکھا ہے کہ

’’آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) انصاف کے معاملے میں اپنے اور بیگانے سب سے ایک جیسا سلوک کرتے تھے۔ غرباء اور مساکین سے محبت کرتے اور ان میں رہ کر خوش ہوتے۔ کسی بھی نادار کو اس کی تنگ دستی کی وجہ سے نہ حقیر جانتے اور نہ ہی کسی بادشاہ کو اس کی بادشاہی کی وجہ سے ترجیح دیتے۔ کسی ملاقات کرنے والے سے از خود جدا نہ ہوتے یہاں تک کہ وہ خود ہی چلا جاتا۔ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) سے کمال درجہ شفقت و محبت فرماتے۔ دشمن ہو یا دوست سب سے کشادہ پیشانی سے ملا کرتے‘‘۔

ستیش چند طالب دہلوی نے احسان مندی کا اظہار اس طرح کیا ہے :

کیا درسِ مساوات دیا نوعِ بشر کو
اترے گا نہ سر سے کبھی احسانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کیوں ایسی اسیری پہ نہ صدقے ہو رہائی
آزادِ دو عالم ہیں غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

15۔ یوحنا پادری دمشقی

دراصل متعصب مستشرقین نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت یوحنا پادری دمشقی (696۔ 749ء) کی اندھا دھند نقالی میں کی ہے۔ اس پادری نے اسلام اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بدنام کرنے کے لئے درج ذیل دو کتابیں لکھی تھیں :

1. محاورة مع المسلم.

2. ارشادات النصاریٰ فی جدل المسلمين.

پھر مخالف مستشرقین نے ان دو کتابوں سے استفادہ کرکے اسلام اور ہمارے آقا پیغمبر اسلام رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیوں اور رحمت کا انکار کیا اور ایک مخالفانہ تحریک چلانے پر پورے وسائل خرچ کردیئے۔

(اضواء علی الاستشراق از الدکتور احمد دياب. ص 15)

ولیم منٹگمری واٹ نے ان مذکورہ متعصب مستشرقین کے فتنہ کو اپنی کتاب "Muhammad Prophet and statesman" (صفحہ نمبر231، مطبوعہ آکسفورڈ 1961ئ) میں اس طرح بیان کیا ہے :

"Of all the world's great men, none has been so much maligned as Muhammad... At a point Muhammad was transformed into Mahound, the prince of darkness."

’’دنیا کے عظیم آدمیوں میں سے کسی کے ساتھ اتنی زیادہ دشمنی نہیں کی گئی جتنی کہ (حضرت) محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ کی گئی ہے۔۔۔ حتی کہ اس مرحلے پر (اسم پاک) محمد کو میہائونڈ میں تبدیل کردیا گیا جس کے معنی ہیں تاریکی کا شہزادہ‘‘۔

حالانکہ تاریکی میں ڈوبی ہوئی مغربی دنیا تھی نہ کہ اسلامی دنیا۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :

(ضياء النبی صلی الله عليه وآله وسلم از پير کرم شاه الازهری)
(سيرت الرسول صلی الله عليه وآله وسلم ، از شيخ الاسلام الدکتور محمد طاهرالقادری)

اس لئے کہ جن غیر مسلموں نے تعصب و عناد کی عینک اتار کر پاک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحیمانہ عادات و خصائل کو دیکھا ہے وہ پکار اٹھے ہیں کہ پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا رحیم و کریم تو کوئی بھی نہیں ہے۔

چنانچہ سرداری لال نشتر میرٹھی نے کہا ہے :

طلسم عدا و شکو حضرت نے توڑا
خلائق میں رشتہ محبت کا جوڑا

یتیموں کے محسن، نگہبان تھے وہ
غریبوں پہ سو دل سے قربان تھے وہ

نہ کی رنج و غم کی شکایت کسی سے
نہ رکھی جہاں میں عداوت کسی سے

نہ غصہ، نہ خفگی، نہ نخوت کسی سے
نہ کینہ، نہ رنجش، نہ نفرت کسی سے

زمانے میں کس طرح رہتی غلامی؟
کہ تھے آپ آزادیوں کے پیامی

ہیں ممنونِ احسان ذات گرامی
عراقی و ترکی، حجازی و شامی

فقط ایک نشتر ہی کیا مدح خواں ہے
ثنا خواں محمد کا سارا جہاں ہے

(سيرت امام الانبياء، ايضاً ص416)

16۔ ارون شوری کی علمی بددیانتی اور اسکا جواب

ارون شوری نے اپنی کتاب فتاویٰ دنیا کے صفحہ نمبر 572 پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترنے والی کتاب کے ذریعے قرآن مجید اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (نعوذ بااللہ) خون بہانے والا ثابت کرنے کے لئے عجب قلا بازیاں کھائی ہیں۔ اس نے سورہ توبہ کی آیت نمبر5 کا ذکر تو کیا مگر اس کے بعد والی آیت نمبر6 کو نہیں لکھا۔

سورہ توبہ کی آیت نمبر 5 کے ساتھ آیت نمبر6 کا پڑھنا بھی ضروری تھا بلکہ بہتر تو یہ تھا کہ اس سورہ کی آیت نمبر1تا 6 سب ہی کو پڑھا جاتا تاکہ اصل اور صحیح مفہوم واضح ہوجائے۔ اس مذکورہ آیت نمبر5 اور پھر آیت نمبر6 ملاحظہ فرمایئے :

 فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.

’’پھر جب (لڑائی کی) حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں تم انہیں پائو اور انہیں گھیر لو اور ان کے لئے ہر گھات میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ (تعالیٰ) بخشنے والا نہایت مہربان ہے‘‘۔

(سورة توبة،9 : 5)

اگر اس آیت سے پہلے والی آیات نہ بھی پڑھی جائیں بلکہ صرف یہی ایک آیت ہی مکمل پڑھ لی جائے اور نیک نیتی سے پڑھی جائے تو بھی قرآن مجید کی اور پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسا الزام لگانے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ آیت مبارکہ تو یہ بتا رہی ہے کہ اگر مشرکین توبہ کرلیں اور اپنی توبہ کو ثابت کردیں تو ان کا راستہ چھوڑ دینے کا حکم ہے یعنی ان کی جان بخشی کرنے کا حکم ہے۔ تو کیا جان بخشی خونریزی ہے یا رحمت ہے؟ مگر مخالف غیر مسلموں کی طرف سے ظلم اور ناانصافی اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اس پوری آیت کا حوالہ نہیں دیتے بلکہ آگے پیچھے کے الفاظ مبارکہ کاٹ کر درمیان والی اتنی عبارت کا حوالہ دیتے ہیں :

فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ.

حالانکہ اس آیت کو مکمل پڑھنے سے مفہوم واضح ہوجاتا ہے اور جب آیت نمبر6 بھی پڑھ لی جائے تو حق بات مزید واضح ہوجاتی ہے اور اگر پہلی 4 آیتیں بھی پڑھ لی جائیں تو مخالفین کا الزام خود بخود اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتا ہے۔ تو ذرا ملاحظہ تو ہو صرف آیت نمبر6 از سورہ توبہ۔ اس میں قرآن مجید نے امن پسندی کی حد کردی ہے :

 وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَعْلَمُونَ.

’’اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دے دیں تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر آپ اسے اس کی جائے امن تک پہنچادیں، یہ اس لئے کہ وہ لوگ (حق کا) علم نہیں رکھتے‘‘۔

(توبة، 9 : 6)

ممکن ہے آج کوئی غیر مسلم امن پسند جرنیل جنگ کے دوران تو دشمن کو جان بخشی کی بھیک مانگنے پر یہ بھیک دے دے مگر ایسا کون سا فوجی جرنیل ہوگا جو اپنے فوجیوں سے یہ کہے کہ دوران جنگ امن طلب کرنے والے دشمن فوجی کو نہ صرف چھوڑ دو بلکہ اسے محفوظ مقام پر بھی پہنچادو۔

اسی رحمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جابجا اظہار کی وجہ سے جگن ناتھ آزاد نے بدیں الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

خلیق آئے کریم آئے، رئوف آئے رحیم آئے
کہا قرآن نے جن کو صاحبِ خلقِ عظیم آئے

بشر بن کر جمالِ اولین و آخریں آئے
متاع صدق لے کر صادق الوعدالامیں آئے

وہ آئے جن کو کہیے فخر آدم، ہادی اکبر
وہ آئے جن کو لکھیے زندگی کا محسن اعظم

مبارک ہو زمانے کو کہ ختم المرسلین آئے
سحابِ رحم بن کر رحمۃ للعالمین آئے

(سيرت امام الانبياء عليه السلام، ايضاً، ص 379)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبیوں کا اعتراف

کئی انصاف پسند اور حقیقت شناس مستشرقین میرے پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت والی خوبیوں سے متاثر ہوکر ایمان کی دولت سے بہرہ یاب ہوچکے ہیں۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :

1۔ عبداللہ عبداللہ۔ 2۔مسٹر ڈبلیو ایچ کیو لیم۔ 3۔رسل ویب۔ 4۔ڈاکٹر مارٹن لنگز۔ 5۔ڈاکٹر ارتھرکین۔ 6۔جان سنٹ۔ 7۔علاء الدین شلبی۔ 8۔الفونس اتیین۔ 9۔لارڈھیڈلے الفاروق۔ 10۔علامہ محمد اسد۔ 11۔ڈاکٹر عبداللہ علاء الدین۔ 12۔ڈاکٹر عمر رولف ایرنفلس۔ 13۔ڈاکٹر غرینیہ۔ 14۔ڈاکٹر خالد شیلڈرک۔ 15۔محترمہ مریم جمیلہ وغیرہا۔

مزید کئی مستشرقین جو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے قائل ہیں :

1۔رچرڈ سائمن۔ 2۔پئیر بائیل۔ 3۔سائمن اوکلے۔ 4۔ہادریان ریلانٹ۔ 5۔یوہان جے ریسکے۔ 6۔مائیکل ایچ ہارٹ۔ 7۔ڈاکٹر مارس بیوکائے۔ 8۔طامس کارلائل۔ 9۔لامارٹن۔ 10۔پروفیسر لیک۔ 11۔پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ وغیرہ۔

(تفصيل کے لئے ملاحظہ فرمائيں ضياء النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ج6 ص 212 تا 232)

گرنبیند بروز شپرہ چشم، چشمہ آفتاب راچہ گناہ؟

حاصل کلام

یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو جنگیں مجبور ہوکر دفاعی طور پر لڑنا پڑیں وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا مظہر ہیں۔ جس طرح مریض کو کڑوی کونین جیسی گولی کھلانا اس پر ظلم نہیں ہوتا بلکہ اس کو شفایاب کرنے کے لئے اس پر ترس اور رحم ہوتا ہے، مجبوراً جو کارروائی کرنا پڑی، جنگیں لڑنا پڑیں وہ اسی طرح ہے جس طرح کسی زہریلے پھوڑے کا آپریشن کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور سارے جسم کو زہر سے بچالیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے آقا کا دفاعی عمل سراسر رحم ہی رحم تھا۔