القرآن : اتحاد امت اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

خطاب : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری (حصہ اول)

مرتّب : محمد یوسف منہاجین معاون : اظہر الطاف عباسی

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْكُرُواْ نِعْمَتَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا.

(آل عمران : 103)

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہو گئے‘‘۔

’’اتحاد امت اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے موضوع پر یہ گفتگو تین حصوں میں مشتمل ہو گی :

  1. پہلا حصہ : حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور تعمیل کے بیان پر مشتمل اس حصہ کا عنوان ’’اتحاد امت‘‘ ہے کہ قرآن و سنت میں صریحاً، بار بار مسلمانوں کو متحد ہونے، متحد رہنے اور ایک جسد واحد کی طرح جینے کا حکم موجود ہے۔
  2. دوسرا حصہ : سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ضمن میں اس حصہ گفتگو کا عنوان ’’مسلمان پیکرِ امن و رحمت‘‘ ہے اور اسے پیکر امن و رحمت بن کر رہنا چاہئے‘‘۔ اس حصہ میں گوشہ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے راہنمائی لی جائے گی۔
  3. تیسرا حصہ : ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مضبوط اور دائمی تعلق کی استواری پر مشتمل اس حصہ کا عنوان ’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور معرفت‘‘ ہے۔ اس حصہ پر پوری امت مسلمہ ایک ہو کر رہے، اس لئے کہ یہ ایمان کی بنیاد ہے۔

اللہ رب العزت نے حکم دیا :

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِيْعًا.

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ‘‘۔

پھر اتنی بات پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ فرمایا وَلَا تَفَرَّقُوْا اور ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جاؤ، جڑو اور اپنے اندر افتراق اور انتشار پیدا نہ کرو بلکہ اتحاد اور وحدت پیدا کرو۔ اس فرمان کے بعد اللہ رب العزت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے حالت کفر اور بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دورِ اسلام کے زمانوں کا موازنہ فرمایا :

وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اﷲِ عَلَيْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً.

یاد کرو وہ نعمت جو تم پر ہوئی اس حال میں کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، باہم دست و گریباں تھے، ٹکڑوں میں بٹے ہوئے تھے اور تمہارے افتراق کی یہ حالت باہمی عداوت تک پہنچ گئی تھی اور تم ایک دوسرے کے دشمن بن گئے تھے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر تمہارے مابین فساد ہوتے، قتل و غارت ہوتی، خون خرابہ ہوتا، طویل مدت تک انسانوں کے طبقات کے درمیان جنگ رہتی اور نسلیں اس جنگ کی نذر ہو جاتیں۔

اس افتراق، انتشار اور نفرت و عداوت کی کیفیت کو قرآن مجید نے حالت کفر کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں تم پر نعمت نازل فرمائی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمہارے اندر مبعوث فرمایا :

فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِکُمْ.

اللہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ سے تمہارے دلوں میں باہمی الفت پیدا کر دی، نفرت کو الفت میں بدل دیا اور افتراق کو اتحاد میں بدل دیا۔

فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا

اور تم جو ایک دوسرے کے دشمن تھے، عداوت کو اخوت میں بدل کر بھائی بھائی بن گئے۔

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اورآمد کے فیض اور نتیجے میں جو امت وجود میں آئی قرآن مجید نے اس کی حالت کو اتحاد، وحدت و اخوت سے تعبیر کیا جبکہ بعثت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جو حالت تھی اس کو کفر، انتشار، افتراق اور عداوت کے ساتھ تعبیر کیا۔

اس پورے پیغام کو بیان کرنے کے بعد آخر پر ارشاد فرمایا کہ اب مسلمانو سنو!

وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِينَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ.

’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے، اور انہی لوگوں کے لیے سخت عذاب ہے‘‘۔

 (آل عمران : 106)

جس نعمت نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نعمت رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، نعمت ہدایت قرآن نے تمہاری نفرتوں کو محبتوں سے اور تمہارے تفرقوں کو وحدت سے بدل دیا ہے اس نعمت کو پا لینے کے بعد خبردار! دوبارہ ٹکڑے ٹکڑے نہ ہو جانا، پھر نہ پھوٹنا اور ہدایت کی واضح نشانیاں آ جانے کے بعد اختلافات کی نذر نہ ہو جانا۔ پھر قرآن مجید نے سورۃ حجرات میں یہ ارشاد فرمایا :

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْکُمْ وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.

(الحجرات : 10)

’’بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔

پس اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو باہمی بھائی چارہ اور اخوت کے رشتے میں منسلک کیا ہے کہ اگر تمہارے درمیان اختلاف یا افتراق ہو تو اصلاح، موافقت، باہمی مودت اور خیر خواہی کے ساتھ اس کو مٹایا کرو اور مٹا کر وحدت کی منزل کو پایا کرو۔

قرآن مجید کی آیات مبارکہ میں موجود انہی احکامات کی تعلیم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابجا امت مسلمہ کو احادیث طیبہ کے ذریعہ بھی دی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو جہاں وحدت کا درس دیا وہاں حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جڑے رہیں۔

٭ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِيْن

(أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الفتن، باب : کيف الأمر إذا لم تکن جماعة، 6 / 2595، الرقم : 6673)

مسلمان کی جو بڑی اور اکثریتی جماعت ہے اس کے ساتھ جڑے رہو چونکہ اسی جڑے رہنے میں تمہاری بقاء، خیر، سلامتی اور عافیت ہے۔

٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

عَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَةِ، وَإِيَّاکُمْ وَالْفُرْقَةَ.

مسلمانو! تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم اجتماعیت کا ساتھ دو، مسلمانوں کی جو بڑی جماعت ہے اس کے ساتھ جڑے رہو اور تفرقہ سے ہمیشہ بچو۔ کیوں؟ اس لئے کہ

فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الاِثْنَيْنِ أَبْعَدُ.

اگر مسلمان تنہا و اکیلا رہ جائے تو شیطان کے قریب ہونا بڑا آسان ہو جاتا ہے اور اگر مسلمان جڑ جائیں، ایک ہو جائیں تو دو کے قریب شیطان کا جانا قدرے مشکل ہو جاتا ہے۔ جتنا زیادہ عدد ہو جائے شیطان کا ان کے قریب جانا مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ پس اگر مسلمان بکھرے رہیں تو ایک ایک کو گمراہ کرنا شیطان کے لئے آسان ہوتا ہے اور اگر مسلمان متحد ہو کر ایک اجتماعی وحدت میں منسلک ہو جائیں تو ان سب کو گمراہ کرنا شیطان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ أَرَادَ بُحْبُوْحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ.

(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الفتن، باب : ما جاء في لزوم الجماعة، 4 / 465، الرقم : 2165)

جو شخص چاہتا ہے کہ جنت کا وسط یعنی جنت کے اعلیٰ درجات تک جا پہنچے تو اس کے لئے لازم ہے کہ وہ امت کی اجتماعیت کے ساتھ جڑ جائے۔ امت کا اجتماعیت کے ساتھ آپس میں جڑے رہنے سے ان کے ایمان کی بھی حفاظت ہو گی، عمل کی بھی حفاظت ہو گی، اخلاق کی بھی حفاظت ہو گی اور جملہ ظاہری، باطنی فوائد و مفادات کی بھی حفاظت ہو گی۔

٭معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الإِنْسَانِ کَذِئْبِ الْغَنَمِ.

شیطان انسانوں کے لئے بھیڑیا کی مانند ہے اسی طرح جیسے بکریوں کے ریوڑ کے لئے بھیڑیا ہوتا ہے، شیطان انسانوں کے ریوڑ کے لئے بھیڑیا ہے۔ پھر فرمایا :

يَأْخُذُ الشَّاةَ الْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ. فَإِيَّاکُمْ وَالشِّعَابَ، وَعَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَالْعَامَّةِ وَالْمَسْجِدِ

(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 233، الرقم : 21928، وعبد الرزاق في المصنف، 1 / 521، الرقم : 1997)

شیطان اسی طرح اجتماعیت سے الگ ہو کر تنہا رہنے والے مسلمان کو پکڑ کر کھا جاتا ہے، گمراہ کر دیتا ہے، برباد کر دیتا ہے جس طرح بھیڑیئے کو تنہا تنہا بکریاں مل جائیں تو انہیں بھیڑیا اچک کر لے جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمان بھی اگر الگ مل جائے تو شیطان اسے گمراہ کر دیتا ہے۔ لہذا تم پر لازم ہے کہ بکری کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے ریوڑ سے جدا ہو کر دور کنارے پر کھڑی ہوتی ہے اور پھر اسے بھیڑیئے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ مسلمان اگر اجتماعیت سے جدا ہو کر تنہا ہو جائے گا تو شیطان کے حملے سے اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔

پھر فرمایا : کہ تم ٹکڑوں اور گروہوں میں بٹ جانے سے بھی بچو۔ تمہارے اوپر جماعت کے ساتھ جڑ جانا لازم ہے، سواد اعظم کے ساتھ جڑ جانا لازم ہے اور مسجد کے ساتھ جڑ جانا لازم ہے کہ مسجد کی چار دیواری تمہارے ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنے گی۔

٭ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيْکُمْ بِالطَّاعَةِ وَالْجَمَاعَةِ فَإِنَّهُمَا حَبْلُ اللّه الَّذِي أُمِرَ بِهِ.

اے مسلمانو! تم پر اللہ اور رسول کی اطاعت واجب ہے اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت کے تحت تمام مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا واجب ہے چونکہ جماعت کے ساتھ متصل رہنا اللہ تعالیٰ کی وہ رسی ہے جو تمہیں تفرقہ کی صورت میں نقصان سے بچاتی ہے اور پھر فرمایا :

وَأَنْ مَا تَکْرَهُوْنَ فِي الْجَمَاعَةِ خَيْرٌ مِمَّا تُحِبُّوْنَ فِي الْفُرْقَةِ.

(الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 198، الرقم : 8972)

جب تم تنہا رہتے ہو تو اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہو، تمہاری آزادی مطلق ہوتی ہے۔ Unchecked ہوتی ہے، Questionable نہیں ہوتی، جو چاہو کرتے ہو، تمہیں کوئی پوچھتا نہیں، تمہاری اتھارٹی Unconditional ہوتی ہے اور تم خوش ہوتے ہو کہ تم بڑی اتھارٹی رکھتے ہو لیکن جب تم ایک جماعت یا اجتماعیت سے منسلک ہو جاتے ہو تو تمہاری آزادی اتنی نہیں رہتی کہ جتنی انفرادی طور پر تمہیں حاصل تھی۔ سو عین ممکن ہے کہ تمہیں یہ بات ناپسند ہو کہ میں تنہا رہ کر جو آزاد تھا اور جو مرضی حاصل تھی اب ایک جماعت اور اجتماعیت کے نظم میں آنے کے بعد پابند ہو گیا ہوں، اب اتنی آزادی نہیں رہی۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ممکن ہے تمہیں یہ نظمِ اجتماعی ناپسند ہو اور تنہائی کی آزادی زیادہ پسند ہو مگر اس ناپسند آزادی سے گھبرانا نہیں بلکہ خیر اور نفع اسی میں ہے۔

امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین اہم خصوصیات

تین شرف و امتیازات ایسے ہیں جو بطور خاص امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعلین مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں عطا کئے گئے اور پہلے کسی امت کو نہیں ملے تھے۔

٭ 1۔ حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إِنَّ أُمَّتِي لَا تَجْتَمِعُ عَلَی ضَلَالَةٍ.

(أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب : الفتن، باب : السواد الأعظم، 4 / 130، الرقم : 3950)

’’میری امت کبھی بھی گمراہی پر مجتمع نہیں ہو گی‘‘۔

یہ ضمانت کسی پیغمبر نے اپنی امت کو پہلے نہیں دی تھی یہ شرف صرف امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو حاصل ہے کہ قیامت تک کبھی گمراہی پر مجتمع نہ ہو گی۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ میری امت کی اکثریت کو جب کسی عقیدے، عمل، طریقہ اور شعار پر جمع ہوتے دیکھو تو سمجھ لینا کہ اسی اجتماعیت میں ہدایت کا راستہ ہے۔ اللہ نے امت کی اجتماعیت کو گمراہی سے بچایا ہے اور اگر امت میں پھوٹ پڑ جائے گی تو اللہ رب العزت کی حفاظت کی ضمانت اس پر نہیں ہے۔

2۔ دوسرا شرف جو اپنی امت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا اس کا اظہار صحیح مسلم کی اس حدیث مبارکہ سے ہوتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہداء احد کے قبرستان میں اُن پر فاتحہ پڑھی اور طویل خطاب میں خوشخبریاں دینے کے بعد فرمایا کہ لوگو! اب شرک کبھی پلٹ کر میری امت میں نہیں آئے گا۔ میں دنیا سے خوف سے بے نیاز ہو کر جا رہا ہوں کہ میرے بعد تم شرک میں مبتلا ہو جاؤ گے۔

جو لوگ امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکثریت پر شرک کا طعنہ دیں یا شرک کا خیال کریں گویا انہوں نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو رد کر دیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت دنیا داری میں مبتلا تو ہو سکتی ہے، دنیاوی مفادات میں ایک دوسرے کے گلے تو کاٹ سکتی ہے یہ بدنصیبی ہو گی مگر جس شرک کی جڑیں میں کاٹ کر جا رہا ہوں وہ اب میری امت میں نہیں آئے گا۔ پس آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت مشرک نہیں ہو سکتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو کسی بھی اعتبار سے مشرک تصور کرنا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس ضمانت کو گویا رد کرنا ہے۔

3۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو تیسرا شرف دیا اس کا پس منظر یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ بگاڑ آئیں گے، دین کی تعلیمات، اخلاق، افکار، عقائد میں بگاڑ آئے گا۔ بگاڑ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آتے رہیں گے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اب قیامت تک کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا، کتاب نہیں آئے گی، کوئی وحی نہیں آئے گی، کوئی نبوت و رسالت کا سلسلہ نہیں ہو گا۔ مگر قیامت تک ہر صدی کے ابتداء میں دین کی مٹی ہوئی قدروں اور احیاء دین کے لئے مجدد آئے گا اور اس مجدد کے ذریعے دین کی مٹتی ہوئی قدروں کو زندہ کیا جائے گا، عقائد میں جو خرابیاں آئیں گی ان کی اصلاح کی جائے گی، اخلاق، اعمال، احوال کی اصلاح کی جائے گی۔ حتی کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کی نسبت اور تعلق میں جو کمزوری آ رہی ہو گی مجدد اس ٹوٹے ہوئے تعلق کو بھی دوبارہ قائم کرے گا۔ پس ہر سو سال بعد دین اسلام کی تعلیمات میں در آنے والی خرابیوں اور کمزوریوں کو دور کرے گا اور امت کے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹے ہوئے عشق، محبت اور غلامی کے تعلق کو مضبوط تر کرے گا۔ مجدد دین کا یہ سلسلہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد تک جاری رہے گا۔

پہلے جب بگاڑ آتا توان کی اصلاح کے لئے ایک پیغمبر کے بعد دوسرے پیغمبر تشریف لائے اور سوسائٹی میں موجود بگاڑ کی اصلاح کر دیتے مگر جب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی تو نبوت و رسالت کا سلسلہ بند ہو گیا۔ برائیوں، خرابیوں اور اخلاق و عقائد کے باب میں آنے والے نقائص کو دور کرنے کے لئے نبوت و رسالت کا بدل اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لئے مجدد کی صورت میں رکھ دیا۔ اب قیامت تک پہلی امتوں کے جو کام انبیاء کرتے تھے امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے مجدد کرتے رہیں گے۔

پس جس امت کا اتنا بڑا شرف ہو چاہے کہ اس امت کی اجتماعیت و اکثریت کو سنبھالنے والی جماعت کے ساتھ منسلک و وابستہ ہوا جائے۔ وہ جماعت خواہ سر زمین ہند میں ہو، خواہ پاکستان، خواہ وہ سر زمین عرب و عجم میں ہو، دنیا میں جہاں مسلمانوں کی اجتماعیت دیکھو، سواد اعظم دیکھو مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے ایمان اور اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت کے لئے اجتماعیت سے جڑ کر رہیں۔ جڑیں رہیں گے تو ایمان ان کی نسلوں میں جائے گا، کٹے رہیں گے تو شیطان اچک کر لے جائے گا۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دنیا کچھ نہیں

جو موجیں بڑی بڑی کشتیوں کو ڈبو دیتی ہیں اور جہازوں کو ہلا دیتی ہیں، طوفان بپا کرتی ہے یہ اگر اکٹھی ہیں تو ان کی طاقت کے ساتھ جہاز الٹتے ہیں اگر وہ موج ایک ایک ہو جائے اور سمندر سے باہر نکل جائے تو پانی بن کر بکھر جاتی ہے اور اس کی حیثیت نہیں رہتی۔ یہ ایک نظام قدرت و فطرت ہے اس لئے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتماعیت کے ساتھ رہنے کا حکم فرمایا۔

یہ ممکن نہیں کہ پوری امت اور کل مسلمان ایک جماعت میں جمع ہو جائیں۔ میں پوری دنیا میں سفر کرتا ہوں لیکن شرق تا غرب مسلمانوں کو یہ کبھی نہیں کہا کہ تم منہاج القرآن میں شامل ہو جاؤ کہ منہاج القرآن ہی ایک واحد جماعت ہے جو تمہارے ایمان اور عقیدہ کو بچائے گی، آپ میرے اگر ہزار خطبات کو بھی سنیں تو میں نے اس التزام سے کہ منہاج القرآن میں شامل نہیں ہو گے تو تمہارا ایمان اور عقیدہ نہیں بچے گا اور صرف اسی میں شامل ہونے سے بچے گا، یہ کلمہ میری زندگی کے تیس سال میں کہیں آپ نے نہیں سنا۔ میں پوری دنیا میں صرف یہ کہتا ہوں کہ اجتماعیت چھوڑ کر تنہا نہ رہو۔ اجتماعیت اور جماعت کے ساتھ جڑے رہو کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے کہ تنہا رہو گے تو تم نہ اپنا، نہ اپنی اولاد کا عقیدہ بچا سکو گے اور نہ اپنے مفادات کی حفاظت کر سکو گے اور نہ خیر میسر ہو گی۔ اس صورتِ حال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس جماعت کے ساتھ جڑیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عقل و دانش سے کام لو، جو جماعتیں دستیاب ہوں ان کو دیکھ لو، جہاں دین و ایمان، عقیدہ اور دین کے معاملات کی سب سے زیادہ بہتری کی امید نظر آئے تو اس سے جڑ جاؤ۔ یہ نصیحت میری ہمیشہ ہوتی ہے کہ بکھر جائیں گے تو کاٹ دیئے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اﷲَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي (أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم) عَلَی ضَلَالَةٍ،

اللہ پاک اس امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور گمراہی پر جمع اس لئے نہ ہوں گے کہ يَدُ اﷲِ مَعَ الْجَمَاعَةِ، اللہ کی حفاظت کا ہاتھ ہمیشہ جماعت کے اوپر ہوتا ہے۔

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کا ہاتھ ایک ایک بندے پر ہوتا ہے اور نہ تنہا تنہا ٹکڑوں پر ہوتا ہے بلکہ اللہ کی حفاظت کا ہاتھ ہمیشہ جماعت پر ہوتا ہے۔ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ جماعت کیا اور کون سی ہے فرمایا :

وَمَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَی النَّارِ

(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في لزوم الجماعة، 4 / 466، الرقم : 2167)

جو سب سے اکثریتی جماعت ہو اس کو سواد اعظم کہتے ہیں، اس کے ساتھ جڑ جاؤ۔ جو اس سے ایک ایک کر کے الگ الگ ہوا وہ جہنم میں جائے گا۔ گویا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سوادِ اعظم کی تعریف کر دی پھر جماعت اور اکثریت کی مزید وضاحت حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ملتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اثْنَانِ خَيْرٌ مِنْ وَاحِدٍ،

 ایک طرف دو اور دوسری طرف ایک ہو تو ایک سے دو کا جمع ہونا بہتر ہے۔

 وَثَـلَاثَةٌ خَيْرٌ مِنِ اثْنَيْنِ،

 تین ہوں تو وہ دو سے بہتر ہیں

 وَأَرْبَعَةٌ خَيْرٌ مِن ثَـلَاثَة

 چار ہوں تو وہ تین سے بہتر ہیں تین مثالیں دے کر اکثریت کا جب بیان کر دیا تو فرمایا :

 ٍفَعَلَيْکُمْ بِالْجَمَاعَةِ،

 اس کو جماعت کہتے ہیں۔ اس کو لازم پکڑو اس کے ساتھ جڑے رہو۔

فَإِنَّ اﷲ لَنْ يَجْمَعَ أُمَّتِي إِلَّا عَلَی هُدًی

اللہ تعالیٰ میری امت کو سوائے ہدایت کے گمراہی پہ جمع نہیں ہونے دے گا۔

(أحمد بن حنبل في المسند 5 / 145، الرقم : 21190)

سیدنا علی کرم اللہ وجہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

َّالإِسْلَامَ ثَـلَاثُ أَثَافِي

 لوگو! اسلام کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔ اس سے اتحاد اور جماعت کی اہمیت واضح ہو رہی ہے۔ فرمایا :

 الإِيْمَانُ وَالصَّلَاةُ وَالْجَمَاعَةُ.

  1. ایمان
  2. نماز قائم کرنا
  3. جماعت کے ساتھ جڑے رہنا۔

(أبوداود فی السنن، کتاب : السنة، باب : في قتل الخوارج، 4 : 241، الرقم : 4758، )

جماعت کے ساتھ جڑے رہنا سے مراد صرف نماز باجماعت نہیں، یہ بھی اسی تصور کا حصہ ہے۔ اس لئے کہ اکیلے نماز پڑھیں تو عبادت تب بھی ہو رہی ہے اور جماعت کے ساتھ پڑھیں تو تب بھی وہی عبادت ہے۔ پس یہاں جماعت کے ساتھ جڑے رہنے سے مراد اجتماعیت کی طرف اشارہ ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ اﷲَ يَرْضَی لَکُمْ ثَـلَاثًا. وَيَکْرَهُ لَکُمْ ثَلاَ ثًا :

اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرماتے ہیں اور تین چیزیں ناپسند فرماتے ہیں۔ جن کو پسند کیا۔ وہ یہ ہیں :

فَيَرْضَی لَکُمْ أَنْ تََعْبُدُوْهُ

 کہ اللہ چاہتا ہے تم اس کی عبادت کیا کرو۔

چوَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا

 اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔

وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِيْعًا وََلَا تَفَرَّقُوا

 اللہ کی رسی کو اجتماعیت کے ساتھ تھام لو اور ٹکڑوں ٹکڑوں میں نہ بٹو۔

تین چیزیں جو اللہ کو ناپسند ہیں، وہ یہ ہیں :

وَيَکْرَهُ لَکُمْ قِيْلَ وَقَالَ

قیل وقال کرنا، بحث و تمحیص کرنا، تکرا رکرنا چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑا کرنا جس سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اللہ اس رویے کو ناپسند کرتا ہے۔ وسعت قلب، برداشت اور ایک دوسرے کو سننے کا مادہ پیدا ہونا چاہئے۔

وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ

 اور زیادہ سوال کرنے کو اللہ ناپسند کرتا ہے۔

3. وَإِضَاعَةَ الْمَالِ.

اور مال کو بے جا ضائع کرنا اللہ ناپسند کرتا ہے۔

(مسلم في الصحيح، کتاب : الأقضية، باب : النهي عن کثرة المسائل من غير حاجة، 3 / 1340، الرقم : 1715، )

(جاری ہے)