کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات، قسط 10

شفاقت علی شیخ

’’ ترجیحات کا تعین کرنا‘‘ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے تیسری عادت ہے اور یہ عادت پہلی دو عادتوں ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ اور ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کی عملی تکمیل ہے۔ یہاں آ کر تسخیر ِ ذات کا مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے۔ تسخیرِ ذات، تسخیرِ کائنات کی اولین شرط اور بنیاد ہے۔ ہماری بڑی غلطی ہی یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسخر کیے بغیر کائنات کو مسخر کرنے کے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ خود کو تبدیل کیے بغیر ماحول اور معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے چل پڑتے ہیں۔ نتیجہ سوائے مایوسی اور ناکامی کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا معاشرے میں ایک بھرپور، فعال، موثر اور متحرک کردار ادا کرنے کے لیے پہلے ہمیں اپنے اندر مضبوطی، استحکام اور اثر انگیزی کی خصوصیت پیدا کرنا ہو گی۔ جس کے لیے ان تینوں عادتوں کو اپنی شخصیت اور کردار کا حصہ بنا لینا بہت ضروری ہے۔

گذشتہ اقساط میں بیان کی جانے والی دو عادات اور زیر نظر تیسری عادت ایک دوسری کے ساتھ اسی ترتیب کے ساتھ منسلک ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کر کے اُس سے اگلی پر براہِ راست عمل نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح چھت پر جانے کے لیے زینہ بہ زینہ چڑھنا پڑتا ہے۔ آپ زینوں کو پھلانگ کر نہیں جا سکتے۔ اسی طرح پہلی عادت بنیاد ہے اُسی کی بنا پر آپ دوسری عادت کی طرف آئیں گے۔ اور پھر دوسری سے تیسری کی طرف آئیں گے۔ اگر کسی بھی جگہ کسی عادت کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی تو خاطر خواہ نتائج کا برآمد ہونا مشکل ہو گا۔

ان عادات کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل نکات پر غور کریں۔

٭ پہلی عادت نے ہمیں بتایا کہ آپ اپنی زندگی کے معمار ہیں۔ دوسری نے بتایا کہ اپنی زندگی کا نقشہ خود بنائیں۔ تیسری عادت بتاتی ہے کہ نقشے کے مطابق تعمیر شروع کر دیں۔

٭ پہلی عادت نے بتایا کہ آپ اپنی زندگی کے ڈرائیور ہیں۔ دوسری عادت نے بتایا کہ اپنی منزل کا تعین کریں۔ یعنی فیصلہ کریں کہ آپ نے کہاں جانا ہے اور اُس کے لیے راستے (Road Map) کا تعین کریں۔ تیسری عادت کا تقاضا ہے کہ اپنی منزل کی طرف چل پڑیں۔

٭ پہلی عادت نے بتایا کہ آپ اپنی زندگی کے پروگرامر ہیں۔ دوسری عادت نے بتایا کہ اپنا پروگرام بنائیں کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیا بننا چاہتے ہیں۔ تیسری عادت کا مطالبہ ہے کہ جو پروگرام آپ نے بنا لیا ہے اُسے چلانا شروع کریں۔

تیسری عادت کو سمجھنے کے لیے مکان کی مثال پر غور کریں۔ پہلی عادت نے آپ کو بتایا کہ مکان بنانا چاہیے۔ دوسری عادت نے آپ کے ذہن میں مکان کا ایک نقشہ تشکیل دیا کہ مکان اس طرح کا بننا چاہیے۔ تیسری عادت یہ کہہ رہی ہے کہ وہ مکان جو ابھی تک آپ کے ذہن میں ہے یا نقشے کی صورت میں کاغذ پر منتقل ہو چکا ہے اب اُس کو ٹھوس اور عملی شکل میں معرضِ وجود میں آنا چاہیے۔ اور اُس کے لیے طریقہ کار تجویز کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ترجیحات کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ آپ اپنے خوابوں کی عملی تعبیر کو نہیں پا سکیں گے۔

ترجیحات کے تعین سے کیا مراد ہے؟مکان کے نقشے نے ہمیں یہ تو بتا دیا کہ یہاں بنیادیں ہوں گی، یہاں دیوار ہو گی، یہاں چھت ہو گی وغیرہ۔ لیکن وہ یہ نہیں بتا رہا کہ پہلے کس چیز کو تعمیر کرنا ہے۔ یہ عادت نمبر 3 ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ پہلے بنیادیں بنائیں گے، پھر دیوار یں بنائیں گے اور پھر چھت ڈالیں گے وغیرہ۔ اس عادت کا کہنا ہے کہ بنیادوں کو بنائے بغیر مضبوط اور پائیدار دیواریں نہیں بنائی جا سکتیں اور دیواروں کو تعمیر کیے بغیر چھت ڈالنا ممکن نہیں ہے۔ تو جو کام پہلے ہوتاہے اُسے پہلے کرتے ہیں اور جو دوسرے نمبر پر ہوتا ہے اُسے اُس کی باری پر کرتے ہیں اور اس طرح قدم بقدم (Step by Step) آگے بڑھتے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں’’ ترجیحات کا تعین کرنا‘‘۔ ’’ترجیحات کے تعین ‘‘کا آسان مطلب یہ ہے کہ جو کام پہلے ہے اُسے پہلے کیا جائے اور جو بعد میں ہے اُسے بعد میں کیا جائے۔

اللہ رب العزت نے ساری کائنات کے نظام کو ایک خاص نظم و ضبط کا پابند بنایا ہے۔ یہاں واقعات ایک خاص ترتیب سے رونما ہوتے ہیں اور معاملات مرحلہ وار پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔ ہر کام کے اندر ایک خاص ترتیب (Sequence) ہوتی ہے۔ کسی بھی کام کو خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس ترتیب کو ملحوظِ خاطر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اسی کے مطابق چلیں گے تو منزل تک پہنچ جائیں گے اور اگر ترتیب اُلٹ دی تو محنت کرتے رہیں گے مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں ملے گا۔ جس طرح ایک طالب علم پرائمری کے بغیر میٹرک، میٹرک کے بغیر انٹر، انٹر کے بغیر بی۔ اے اور بی اے کے بغیر ایم اے کرنا چاہے تو یہ اُس کی خام خیالی ہو گی جو حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گی۔ درست طریقہ یہی ہے کہ ان تمام مقاصد کو مرحلہ وار حاصل کیا جائے۔ یہی قانون زندگی کے ہر معاملے میں پایا جاتا ہے۔ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اس قانون کو سمجھیں اور ہر معاملے میں ترجیحات کا تعین کریں۔

عادت نمبر 3 کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ زندگی مختصر ہے اور کام بے شمار ہیں۔ اگر ہم بغیر سوچے سمجھے ہر کام کو کرنا شروع کر دیں تو ہماری قیمتی زندگی کا بیشتر حصہ فضول، بے کار اور تیسرے درجے کے گھٹیا کاموں میں گزر جائے گا اور اعلیٰ درجے کے کاموں کو کرنے کے لیے وقت بہت کم بچے گا۔ جس کے نتیجے میں ہم کامیابی کے کسی بڑے درجے پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ لہٰذا اعلیٰ درجے کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے وقت کا زیادہ سے زیادہ حصہ اہم اور بامقصد کاموں میں صرف کرنا ہو گا۔ اور غیر اہم اور ادنیٰ درجے کے کاموں سے حتی الوسع اپنا دامن بچانا ہو گا۔ جیسا کہ جرمن کا مشہور شاعر ادیب اور فلاسفر گوئٹے کہتا ہے کہ ’’ اہم ترین کاموں کو فضول ترین باتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘

گویا تیسری عادت کو مختصر اً یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔

1 : ۔ کاموں کو اُن کی اہمیت کے لحاظ سے ترتیب دینا۔

2 : ۔ اہم کاموں کی خاطر غیر اہم کاموں کو ترک کرنا۔

تیسری عادت کا بطورِ خاص تعلق وقت کی تنظیم (Management) کے ساتھ ہے۔ لہٰذا ہمارے لیے وقت کی اہمیت سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم وقت کی قدر و قیمت کو نہیں پہنچانیں گے تب تک وقت سے بھرپور استفادہ کی فکر بھی دامن گیر نہیں ہو گی۔ اور عادت نمبر 3 پر خوش دلی سے عمل پیرا ہونا بھی مشکل ہو گا۔ چنانچہ انسانی زندگی میں وقت کی اہمیت پر روشنی ڈالنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

وقت کی اہمیت

وقت اللہ جل مجدہ کی ایک ایسی نعمت ہے جو امیر و غریب، عالم و جاہل اور چھوٹے بڑے کو یکساں ملی ہوئی ہے۔ غور سے دیکھا جائے تو انسان کی زندگی وقت کے علاوہ کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ انسان کو جتنی بھی زندگی کی مہلت یہاں ملی ہوئی ہے وہ ساری کی ساری وقت کی اکائیوں سے ہی عبارت ہے جہاں وقت ختم ہو جاتا ہے، وہاں ہر چیز ختم ہو جاتی ہے۔ وقت کو اس کائنات کی روح بھی کہہ لیا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ ہر دور کے علماء و عقلاء اس بات پر متفق رہے ہیں کہ انسان کی سب سے اہم پونجی جس کو بچا بچا کر استعمال کرنا چاہیے، وقت ہے۔ لمحاتِ زندگی فراہم کرنے والا وقت در حقیقت بہت بڑی غنیمت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی دولت سونا، چاندی، ہیرے، جواہرات وغیرہ وقت کی برابری نہیں کر سکتے۔ دنیا کی ہر دولت کو کھونے کے بعد بھی اس بات کا امکان رہتا ہے کہ انسان اُسے دوبارہ پا لے بلکہ بسا اوقات اُس سے بھی زیادہ حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن وقت ایک ایسی دولت ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اس کا ایک لمحہ کسی قیمت پر واپس نہیں لا سکتا۔

انسان دنیا میں جتنی بھی کامیابیاں حاصل کر تا ہے اور جو بھی کارہائے نمایاں سر انجام دیتا ہے وہ سب کے سب وقت کے بہترین استعمال کے ہی مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ وقت سے اچھے طریقے سے کام لینے والے اس تھوڑی سی زندگی میں موجد بن گئے، فلاسفر بن گئے، دانش ور بن گئے اور دین و دنیا کے مالک بن گئے۔ اس کے برعکس جتنے مفلوک الحال اور قابلِ ترس لوگ دکھائی دیتے ہیں یہ سب کے سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں وقت کو ضائع کیا ہوتا ہے۔ گویا وقت کو ضائع کرنا صرف وقت کو ضائع کرنا ہی نہیں ہے بلکہ خود اپنے آپ کو اور اپنی زندگی کو ضائع کرنا اور اپنے مستقبل کو تباہ کرنا ہے۔ لہذٰا دین، دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں، کامرانیوں، سعادتوں اور بھلائیوں کا دار و مدار صرف اور صرف وقت کے بہترین استعمال پر منحصر ہے۔ دنیا میں جس قدر کامیاب و کامران ہستیاں گذری ہیں اُن کی کامیابی اور ناموری کا راز صرف وقت کی قدر اور اُس کا صحیح استعمال تھا۔ وقت ایک ایسی زمین ہے کہ اگر اس میں سعی کامل کی جائے تو یہ پھل دیتی ہے۔ بے کار چھوڑ دی جائے تو خار دار جھاڑیاں اُگاتی ہے۔ یا پھر وقت خام مسالے کی مانند ہے جس سے جو چاہیں بنایا جا سکتا ہے اور اگر اسے یونہی چھوڑ دیا جائے تو ضائع ہو جائے گا۔ یا پھر وقت کی مثال چلچلاتی دھوپ میں رکھے ہوئے برف کے اُس بلاک کی ہے جس سے، اگر فائدہ اُٹھا لیا جائے تو ٹھیک ورنہ اُس نے تو بہر حال پگھل ہی جانا ہے۔

وقت کی اس اہمیت کے پیشِ نظر قرآن و حدیث میں بھی جا بجا وقت کی قدر و قیمت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔

وَالعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ.

(العصر : 1. 2)

’’زمانے کی قسم، انسان گھاٹے میں ہے‘‘۔

یہاں انسان کے حوالے سے ایک بات کہنی تھی اُس سے پہلے زمانے کی قسم کھائی گئی اور زمانہ وقت سے ہی عبارت ہے۔ اسی طرح مختلف مقامات پر مختلف اوقات مثلاً صبح، دوپہر اور رات کے اوقات کی قسمیں کھائی گئی ہیں جو وقت کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مختلف اسالیب اور پیرائے میں وقت کی قدر و قیمت کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

نِعمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا کَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ : الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ.

( بخاری، الصحيح، کتاب الرقاق، باب لا عيش إلا عيش الآخرة، 5 : 2357، رقم : 6049)

"دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے متعلق اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں۔ صحت اور فراغت"

اغْتَنِم خَمْساً قَبْلَ خَمْسٍ : شَبَابَکَ قَبْلَ هَرَمِکَ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سُقْمِکَ، وَغَنَاءَ کَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ، وَحَيَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ.

(حاکم، المستدرک، 4 : 341، رقم : 7846)

"پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جان۔ زندگی کو موت سے پہلے، صحت کو مرض سے پہلے، فراغت کو مشغولیت سے پہلے، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے اور امارت کو غربت سے پہلے"

علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’جمع الجوامع‘‘ میں ایک حدیث نقل کی ہے جس میں حضو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر روز صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اُس وقت دن یہ اعلان کرتا ہے۔

من استطاع ان يعمل خيرا فليعمله فانی غير مکرر عليکم ابد.

’’جو شخص آج کوئی بھلائی کر سکتا ہے کر لے۔ آج کے بعد میں پھر کبھی واپس نہیں لوٹوں گا‘‘

حقیقت بھی یہی ہے کہ ہماری زندگی میں طلوع ہونے والا ہر دن منفرد ہوتا ہے اُس طرح کا دن نہ پہلے کبھی آیا ہوتا ہے اور نہ بعد میں کبھی آنا ہوتا ہے۔ اگرچہ بظاہر دیکھنے میں دن ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں مختلف ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے جیسے کسی کے پاس سو روپے کے بالکل نئے نوٹوں کا ایک پیکٹ ہو تو اُس میں سے نکلنے والا ہر نوٹ بظاہر ایک جیسا دکھائی دے گا مگر حقیقت میں ہر ایک دوسرے سے مختلف ہو گا۔ ایسے ہی ہماری زندگی کا کوئی دن اور کوئی لمحہ پلٹ کر نہیں آتا ہے۔ جو ایک دفعہ گزر گیا سو وہ گزر گیا۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اتنی انمول اور نایاب دولت کو ہم کہاں صرف کر رہے ہیں۔

٭ سید نا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ دعا کیا کرتے تھے :

الهم لا تدعنا فی غمرة ولا تا خذنا علیٰ غرة ولا تجعلنا من الغافلين

’’اے اللہ! ہمیں شدت میں نہ چھوڑنا اور ہمیں غفلت کی حالت میں نہ پکڑنا اور ہمیں غافل لوگوں میں سے نہ بنا دینا‘‘

٭ سید نا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی :

الهم انا نسئلک صلاح الساعات والبرکة فی الا وقات

’’اے اللہ! ہم آپ سے زندگی کی ساعات کی بہتری اور اپنے اوقات میں برکت کا سوال کرتے ہیں۔‘‘

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :

الايام صحائف اعمارکم فخلد وها صالح اعمالکم

’’یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔

٭ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

يا ابن آدم انما انت ايام فاذا ذهب يوم هب بعضک

’’اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے۔ پس جب ایک دن گزر جائے تو یوں سمجھ کہ تیرا ایک حصہ گزر گیا۔‘‘

٭ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :

’’ میں اُس دن سے زیادہ کسی چیز پر نادم نہیں ہوتا جو میری عمر سے کم ہو جائے اور اس میں میرے عمل کا اضافہ نہ ہو سکے۔ ‘‘

٭ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کا قول ہے :

’’دن رات کی گردش آپ کی عمر کم کر رہی ہے۔ پھر آپ عمل میں کیوں سست ہیں۔ ‘‘

٭ چھٹی صد ی کے مشہور عالم علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے صاحبزادے کے لیے ایک نصیحت نامہ ’’لفتۃ الکبدفی نصیحۃ الولد‘‘کے نام سے لکھا اُس میں وقت کی اہمیت اور عمر عزیز کی قدر ومنزلت کے حوالے سے جو کچھ انہوں نے کہا، اختصار کے پیشںِ نظر صرف اُس کے ترجمے پر اکتفا کیا جاتا ہے فرماتے ہیں :

’’بیٹے! زندگی کے دن چند گھنٹوں پر مشتمل ہیں اور گھنٹے چند گھڑیوں سے عبارت ہیں۔ زندگی کا ہر سانس گنجینہ ء ایزدی ہے۔ ایک ایک سانس کی قدر کرو کہ کہیں بغیر فائدے کے نہ گزرے تاکہ کل قیامت والے دن زندگی کا دفینہ خالی پا کر اشک ندامت نہ بہانے پڑیں۔ ایک ایک لمحہ کا حساب کرو کہ کہاں صرف ہو رہا ہے اور اس کوشش میں رہو کہ ہر لمحہ کسی مفید کام میں صرف ہو۔ بے کار زندگی گزارنے سے بچو اور اپنے آپ کو کام کرنے کی عادت ڈالو تاکہ آگے چل کر وہ کچھ پا سکو جو تمہارے لیے باعثِ مسرت ہو‘‘

حقیقت یہ ہے کہ انسان کے ذمہ کام بہت زیادہ ہیں۔ اور وقت بہت مختصر۔ انسان کا مستقبل موہوم ہے۔ اُس کا حال ثبات سے خالی ہے اور ماضی اُس کی قدرت سے باہر ہے جس نے حال سے فائدہ اٹھا لیا محنت و مشقت کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا اور جرات ِرِندانہ سے کام لیتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کر لی اُس کے دامنِ نصیب میں تو بقدر ہمت و کوشش تھوڑا یا زیادہ آ جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر وقت گزر جاتا ہے اور انسان حسرت سے ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے کیونکہ گردشِ زمانہ کی تنگی داماں کا کوئی علاج نہیں ہے۔ نہ یہ کسی کی خاطر رکتی ہے اور نہ گذر جانے کے بعد واپس لائی جا سکتی ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک شعر میں بہت خوبصورتی سے وقت کی حقیقت، اُس کی بے وفائی و بے نیازی کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے انتظار میں حال کو ضائع کرنے والی انسان کی روش کو بیان کیا ہے :

جو تھا نہیں ہے، جو ہے، نہ ہو گا، یہی اک حرف محرمانہ
قریب تر ہے نمود جس کی، اُسی کا مشتاق ہے زمانہ

مندرجہ بالا آیات و احادیثِ مبارکہ اور دیگر اقوال وقت کی اہمیت و افادیت کو کسی نہ کسی رنگ میں بیان کر رہے ہیں کہ انسان کو وقت کی قیمتی متاع سے ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہیں ہونا چائیے اور وقت کی صورت میں ملی ہوئی مہلت کے ایک ایک لمحے سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے تاکہ وہ دنیا وآخرت کی بھلائیاں حاصل کر سکے۔

اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عادت نمبر 3 کو استعمال میں لاتے ہوئے ترجیحات کا تعین کس طرح کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ذیل میں دیا گیا چارٹ ہمیں مکمل رہنمائی دیتا ہے۔ اس چارٹ کو سمجھنے اور اس کے مطابق وقت کے دانشمندانہ استعمال میں ہی کامیاب زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔ اس کے برعکس اسے نہ سمجھنے یا اس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں کامیابی کا اعلیٰ درجہ حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔

درج بالا چارٹ کے اندر دو کالم ہیں جنہیں فوری اور غیر فوری کاموں کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا ہے جب کہ دو قطاریں ہیں جو اہم اور غیر اہم کاموں کے عنوان پر مشتمل ہیں۔ فوری نوعیت کے کاموں سے مراد وہ کام ہیں جو ہماری فوری توجہ چاہتے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو۔ جب کہ اہم کاموں سے مراد وہ کام ہیں جو ہماری زندگی پر دور رس اثرات کے حامل ہوتے ہیں اور زندگی میں ہمہ جہت ترقی کے لیے جن کو بجا لانا ضروری ہے۔

کالموں اور قطاروں کے اجتماع سے کل چار خانے بن رہے ہیں۔ ہر خانے میں پائے جانے والے کاموں کی دو حیثیتیں ہیں۔ مثلاً فوری اور اہم، فوری اور غیر اہم وغیرہ۔ ہماری شب و روز کی زندگی میں جتنے بھی کام اور سرگرمیاں ہیں اُن سب کا تعلق انہی خانوں کے ساتھ ہے اور ہمارا ہر چھوٹا بڑا کام ان میں سے ہی کسی نہ کسی خانے میں آتا ہے۔ ان خانوں کی مختصر تشریح کچھ یوں ہے۔

پہلا خانہ (First Quadrant)

پہلے خانے میں جو کام آتے ہیں وہ اہم بھی ہیں اور فوری نوعیت کے حامل بھی ہیں۔ ایک طرف تو زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھنے کے لیے انہیں کرنا ضروری بھی ہے اور دوسری طرف اُن کاموں کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ فوری طور پر انجام دہی کا تقاضا کرتی ہے۔ اور اُن کو زیادہ عرصہ کے لیے ملتوی بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً گاڑی کے خراب ہو جانے پر اُس کی مرمت کروانا، بچے کے بیمار ہو جانے پر اُس کی دوائی کا بندوبست کرنا، امتحان سر پر آ جانے کی صورت میں اُن کی تیاری کرنا، کسی زیر تکمیل منصوبہ کی مقررہ تاریخ (Dead line) کا قریب آ جانا وغیرہ۔

دوسرا خانہ (Second Quadrant)

اس خانے میں آنے والے کام اہم تو ہیں لیکن فوری نہیں ہیں۔ ان کاموں کے ہماری زندگی پر بہت خوشگوار اثرات ہوتے ہیں لیکن یہ کام ایسے ہیں کہ فوری ادائیگی کا تقاضا نہیں کرتے۔ مثلاً مستقبل کو بہتر بنانے کے حوالے سے منصوبہ بندی، زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے لیے نئے مواقع کی دریافت، اپنے متعلقین کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھنے کے لیے اور نئے تعلقات استوار کرنے کے لیے وقت نکالنا۔ اپنی صلاحیتوں کی تجدید اور اُنہیں بہتر بنانے کے لیے نیز اپنے زیر استعمال اشیاء کی حفاظت کے لیے مناسبت تدابیر اپنانا (جسے متعلقہ خانے میں PC(rodaction Capability)کی حفاظت سے تعبیر کیا گیا ہے ) وغیرہ۔

تیسرا خانہ (Third Quadrant)

تیسرا خانہ ایسے کاموں اور سرگرمیوں پر مشتمل ہے جو فوری نوعیت کے حامل ہیں تاہم وہ اہم نہیں ہیں کسی واقف کار کا اچانک ملنے آ جانا، فون کی گھنٹی کا بجنا وغیرہ جیسے کام ایسے ہیں جو ہماری فوری توجہ کے متقاضی ہیں اور عمل کا تقاضا کرتے ہیں لیکن یہ قطعاً ضروری نہیں ہے کہ ان کاموں کا کوئی خاص مثبت نتیجہ بھی ہماری زندگی پر مرتب ہو۔

چوتھا خانہ (Fourth Quadrant)

اس خانے میں آنے والے کام وہ ہیں جو نہ تو اہم ہیں اور نہ ہی فوری نوعیت کے حامل ہیں کہ جن کو سر انجام دینا ہماری مجبوری ہو۔ یہ خانہ سارے کا سارا اُن مصروفیات سے عبارت ہے جن میں سرا سر وقت کا ضیاع ہے۔ مثلاً محض تفریحِ طبع کے لیے ناول اور افسانے پڑھنا، بغیر کسی خاص مقصد کے محض وقت گزاری کے لیے ٹی وی پروگرام دیکھتے رہنا۔ دوست احباب کی محفل میں بیٹھ کر گھنٹوں فضول باتوں اور خوش گپیوں میں مشغول رہنا۔ وغیرہ

اب ہم قدرے باریک بینی سے وقت کے ان چاروں حصوں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان سے متعلقہ کاموں کے ہماری زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اوقاتِ کار کی تقسیم کے اثرات

پہلے خانہ میں موجود اہم اور فوری نوعیت کے حامل تمام کام بحرانی نوعیت کے ہوتے ہیں جن سے صرفِ نظر کرنے سے زندگی میں بے شمار الجھنیں، محرومیاں اور پریشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں لہٰذا انہیں نظر انداز کرنا کسی طرح بھی ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ دوسری طرف یہ ہنگامی نوعیت کے حامل ہوتے ہیں کہ انہیں التواء میں بھی نہیں ڈالا جا سکتا یہ ہمارے بالکل سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور فوری عمل کا تقاضا کرتے ہیں چنانچہ ان کی انجام دہی کے حوالے سے ہمارے اُوپر ایک دبائؤ ہوتاہے جس کی وجہ سے ہمیں مجبوراً ان کی طرف توجہ دینا ہی پڑتی ہے۔

غور سے دیکھا جائے تو ان کاموں کے پیدا ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ ہماری ایک عادت ہے اور وہ ہے’’ کاموں کو ملتوی کرنا‘‘اکثر و بیشتر لوگ روزمرہ کی زندگی میں کئی اہم کاموں کو آخری وقت تک ٹالتے رہتے ہیں۔ بالآخر وہی کام ایک بحرانی شکل اختیار کر کے انسان کے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں اور اب اُنہیں مزید ٹالنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ مثلاً ایک طالب علم کے پاس کسی بھی کلاس کے آغاز میں اتنا وقت ہوتا ہے کہ وہ بڑے آرام اور سکون کے ساتھ اُس کی تیاری کر سکتا ہے لیکن امتحان کی تیاری کو وہ آج کل پر ٹالتا رہتا ہے یہاں تک کہ امتحان سر پر آ جاتا ہے اور اب اُس کے لیے امتحان کی تیاری ایک دردِ سر بن جاتی ہے اور وہ اُس حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جو گاڑی میں بروقت پٹرول نہیں ڈلواتا ہے تو بالآخر کسی نہ کسی جگہ پر گاڑی رک جاتی ہے اور وہ اُس کے لیے ایک مسئلہ کھڑا کر دیتی ہے۔ یونہی ایک شخص کے پاس ایک منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے کافی وقت ہوتا ہے جس میں وہ ایک روٹین کے تحت کام کرتے ہوئے کامل سکون اور اطمینان سے اپنا کام مکمل کر سکتا ہے مگر ابتداء میں وہ سستی، کاہلی اور غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے جس کی وجہ سے آخری تاریخ (Dead line) کے قریب آ جانے پر وقت کم ہوتا ہے اور کام زیادہ۔ یہ چیز ایک ہنگامی صورتِ حال کو پیدا کر دیتی ہے اور اُسے دباؤ کی حالت میں اپنا کام مکمل کرنا ہوتاہے۔ (جاری ہے)