حضرت شیخ الاسلام کی زمرہ خاصاں میں روحانی پذیرائی

علامہ محمد معراج الاسلام

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ محبت کی ایک حسین و دلکش علامت یہ ہے کہ پیار و محبت کا دعویدار امتی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ساتھ ٹوٹ کر پیار کرتا ہے اور ان کی خیر وفلاح چاہتا ہے۔ اس پیار اور خیر خواہی کی ایک حیرت انگیز مگر ایمان افروز مثال دنیائے محبت کا یہ زندہ جاوید واقعہ ہے، جو آج بھی دلوں کو گرماتا، ایمان کو تازہ کرتا اور ایثار و قربانی پر ابھارتا ہے۔

اس کا تعلق دنیائے روحانیت کی فرماں روا عظیم شخصیت حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ذاتِ اقدس و اطہر کے ساتھ ہے۔ آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے دادا پیر حضرت خواجہ شریف زندنی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کا شرف حاصل کریں چنانچہ اپنی اس خواہش اور شوق فراواں کا اظہار اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی سے کیا، آپ نے جب اپنے مرید کی بے قراری اور جذبہ شوق کو دیکھا تو زیارت کرانے کی حامی بھر لی اور فرمایا کہ ہم اپنے پیر و مرشد سے اجازت لے دیں گے وہ جو وقت اور جگہ متعین کریں اس وقت جا کر ان کی زیارت کر لینا۔

حضرت خواجہ معین الدین بہت خوش ہوئے اور اس روزِ سعید کا بڑی بے چینی سے انتظار کرنے لگے۔ ایک روز خواجہ عثمان نے اپنے مرید باصفا حضرت خواجہ معین الدین کو یہ خوشخبری دی کہ تمہاری درخواست منظور ہو گئی ہے، میرے پیر و مرشد حضرت خواجہ شریف زندنی نے حکم فرمایا ہے کہ معین الدین سے کہہ دیں کہ وہ کل فجر کے وقت میرے حجرے سے باہر آ کر کھڑا ہو جائے اور ہماری زیارت کر لے، اس وقت جو بھی ہماری زیارت کرے گا وہ جنتی ہو جائے گا مگر یہ ایک سر بستہ راز ہے، اسے فاش نہ کرے، اگر معین اسے فاش کرے گا تو دوزخی ہو جائے گا۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے جب یہ خوشخبری سنی تو خوشی کی انتہاء نہ رہی، ملاقات و زیارت کی تیاری شروع کر دی اور تیاری یہ کی کہ گلے میں ڈھول ڈال لیا اور گلی کوچوں میں یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ لوگو! فجر سے پہلے پہلے حضرت خواجہ شریف زندنی کے حجرہ مبارک کے سامنے اکٹھے ہو جاؤ اور جب وہ دروازہ کھولیں تو ان کی نگاہِ ایمان و عقیدت سے زیارت کرو، جو اس وقت ان کی زیارت کرے گا وہ جنتی ہو جائے گا۔ لوگوں نے جب یہ پیار اور رحمت بھرا ایمان افروز اعلان سنا تو وہ حجرہ مبارک کی طرف بھاگ پڑے اور فجر سے پہلے ہی وہاں ٹھٹ کے ٹھٹ لگ گئے، ایک بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔

دریائے معرفت کے شناور، مردِ حق، حضرت خواجہ شریف زندنی نے جب دروازہ کھولا تو دیکھا کہ صرف معین الدین ہی نہیں بلکہ انسانوں کا ایک جمِ غفیر آنکھوں میں عقیدت و محبت کی شمعیں فروزاں کئے کھڑا ہے اور محبت میں ڈوبی ہوئی پُر شوق نظروں سے انہیں دیکھ رہا ہے۔ حیراں رہ گئے، فرمایا : اے معین! ہم نے تو صرف تمہیں جنت اور زیارت کی بشارت دی تھی، تم نے ایک جہان اکٹھا کر لیا ہے، کیا افشاء راز کی سزا تمہیں یاد ہے؟

ہاتھ باندھ کر، نیاز مندی سے عرض کی : پیر و مرشد! اگر ایک معین الدین کے دوزخ میں جانے سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتنی امت، جنت میں جاتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین کا یہ ایثار اور جذبہ خیر خواہی دیکھ کر، پیر و مرشد کو وجد آ گیا، خوش ہو کر فرمایا : اے معین الدین! تو نے امت کا بھلا چاہا ہے جا تو بھی جنتی اور قیامت تک تیرے سلسلے کے ساتھ جو وابستہ ہو گا وہ بھی جنتی۔

اس واقعہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اہل محبت کے نہاں خانہ دل میں امت کی بھلائی، کامیابی، خوشی اور نجات کا جذبہ طبعی طور پر موجود ہوتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جتنی زیادہ محبت ہو، اتنا ہی یہ جذبہ بھی شدید ہوتا ہے، شیدائے نبی، امت کی بے چینی، بے چارگی، دلوں کی ویرانی اور ان کی صفوں میں پھیلی ہوئی افسردگی اور انتشار کی کیفیت نہیں دیکھ سکتا۔ امت کی زبوں حالی اور پریشانی دیکھ کر وہ خون کے آنسو روتا ہے۔ اس کا دل کڑھتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جلد سے جلد ایسا روحانی انقلاب آئے جو امت کی قسمت بدل کر رکھ دے، سماجی برائیاں مٹ جائیں اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ ملے، سماجی ناہمواریوں کا خاتمہ ہو اور امت ایک نئے دور میں داخل ہو جائے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے فرید و وحید والد گرامی حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے ہی بالغ نظر، نباضِ عصر اور امت کا بھلا چاہنے والے درد مند انسان اور سچے عاشق رسول تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ والہانہ محبت کی وجہ سے ان کی شدید اور واحد خواہش یہ تھی کہ امت کی زبوں حالی اور ناکامی، صبح سے پہلے خوشحالی و ترقی میں بدل جائے، شامِ غم ڈھل جائے اور مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہو جائے، احیائے دین کا سنہری دور شروع ہو اور عالم اسلام ایک جھنڈے تلے جمع ہو جائے۔ چونکہ نباضِ عصر، قوموں کے عروج و زوال کے فلسفہ سے آگاہ، ماہر معالج جسمانی و روحانی، ایک دانا و بینا انسان تھے، اس لئے امت کے ذہنی و اخلاقی زوال وانحطاط کی صحیح تشخیص کرتے ہوئے ایک ایسی تمنا اور دعاء کی جو واقعی امت کی تمام کمزوریوں کا مداوا اور ان کی پستی کا واحد علاج تھی۔

فرید الملت نے ایک ایسے وحید العصر اور یگانہ روزگار فرزندِ ارجمند کی آرزو کی جو اپنی خداداد صلاحیتوں سے ملت کی کایا پلٹ کر رکھ دے اور ذہنوں میں عشقِ رسول کی ایسی تخم ریزی کرے کہ ہر فرد، ملت کے مقدر کا ستارہ بن جائے اور عشقِ نبی کا تمغہ سینے پہ سجائے، ہر برائی سے تائب ہو جائے۔ اللہ نے ان کی یہ پرخلوص دعا قبول فرمائی اور ان کی خواہش کے مطابق ایک ایسا ہونہار اور یگانہ روزگار فرزند عطا فرمایا، جو آج خود ملت کے مقدر کا ستارہ ہے اور عالم اسلام کو اپنی تابانیوں سے درخشاں کر رہا ہے۔

اتنے عظیم کام کیلئے صاحبِ نسبت، روحانیت سے بہرہ ور اور اہل اللہ کا منظور نظر ہونا بہت ضروری ہے، اس کے بغیر ایسے عظیم الشان کام کا پایہ تکمیل تک پہنچنا ممکن ہی نہیں اس لئے ہم جب حضرت شیخ الاسلام کی ساری زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے، انہیں ہر مرحلہ پر اہل اللہ کی روحانی معیت حاصل رہی ہے اور وہ اہل ولایت کے منظور نظر ہیں، خواہ اہل ولایت زندہ ہوں یا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ہم مرحلہ وار اس مقبولیت و محبوبیت اور روحانی فیضان و عطا پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

1۔ حضرت داتا صاحب کا مہمان

حضرت شیخ الاسلام کے والد گرامی نے روحانی تربیت کے لئے بچپن ہی سے آپ کو راہ سلوک کا راہرو بنا دیا تھا اور آپ اوائل عمر ہی میں ریاضت ومجاہدہ کے دلدادہ، خلوت کے شائق، تہجد گزار اور جادہ حق کے مسافر بن چکے تھے اور حصول فیض کے لئے اولیاء کرام کے مزارات پہ جانا شروع کر دیا تھا۔

اسی سلسلہ میں ہر جمعرات کو داتا حضور کے دربار پر حاضری دینا معمول تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب فیصل آباد گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھے مگر کالج لائف کے ساتھ معمولاتِ تصوف بھی جاری تھے، خود فرماتے ہیں کہ ایک جمعرات کو حاضر دربار تھا، رات بھیگ چکی تھی، اس زمانے میں بھاٹی گیٹ پر آدھی رات کو بھی دودھ فروش حلوائیوں کی دکانیں کھلی ہوتی تھیں، اس لئے دل میں خیال آیا کہ وہاں چل کر دودھ پی لینا چاہئے تاکہ طبیعت میں کچھ تازگی اور توانائی پیدا ہو پھر اسی جگہ واپس آ جاؤں گا۔ ابھی میں اٹھنے کے لئے سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک کسی نے کندھے پہ ہاتھ رکھ دیا، مڑ کر دیکھا تو ایک نورانی صورت بزرگ میرے پاس بیٹھے تھے، مجھے مخاطب کر کے کہا : آپ کو دودھ کی طلب ہے اگر کہیں تو میں یہیں لے آتا ہوں یا پھر میرے ساتھ چلیں، دکانیں کھلی ہیں، وہاں جا کر پی لیتے ہیں۔ میں حیران رہ گیا اور پوچھا : آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں دودھ پینا چاہتا ہوں۔

وہ بولے! مجھے حضرت داتا صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ بچہ ہمارا منظور نظر مہمان ہے، اس کا دودھ پینے کو جی چاہ رہا ہے تم اسکی میزبانی کرو۔

2۔ حضرت محدث اعظم کی نظر کرم

حضرت محدث اعظم پاکستان قبلہ محمد سردار احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، فیضان نبوت سے بہرہ یافتہ، اپنے وقت کے بادشاہ اور صاحب نسبت بزرگ تھے، آپ مرشد کامل اور پیر طریقت ہی نہیں اپنے دور کے متبحر عالم بھی تھے اور آپ کے علمی تبحر کا فیضان پورے پاکستان میں جاری تھا۔ آپ کے مرکزِ علمی جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد میں تشنگان علوم آتے اور سیراب ہو کر جاتے، اس چشمہ فیض کے دوازے ہر خاص وعام کے لئے کھلے ہوئے تھے۔

آج کل ایک خاص طبقہ اس خیال باطل میں گرفتار ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر فضائل و کمالات کھل کر بیان کرنا توحید کے منافی ہے، اس لئے انہیں بیان نہیں کرنا چاہئے یہی وجہ ہے کہ اس طبقہ کے لوگ مقاماتِ نبوت کے منکر ہیں اور علوم و اختیاراتِ نبی کا انکار کرتے ہیں اور فضائل و خصوصیات کو بھی نہیں مانتے اور اب تو کھلے بندوں ان پر اس طرح تنقید کرنے لگ گئے ہیں جیسے جے پال کی روح ان میں حلول کر گئی ہو اور وہ ابوجہل یا ذوالخویصرہ کی بولی بول رہے ہوں۔

جب پاکستان بنا تو اس وقت اس باطل اور فاسد خیال کے لوگ خال خال تھے اور ابھی اُگ رہے تھے مگر انہوں نے ہر طرف اودھم مچایا ہوا تھا اور سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانے میں مصروف تھے اور مناظروں کا چیلنج کرتے رہتے تھے باوجود یہ کہ انہیں ہر محفل میں ذلیل ہونا پڑتا تھا، مگر وہ ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے تھے۔ ان دنوں علمِ غیب، اختیاراتِ نبوی اور نور و بشریت اور اسی قسم کے دیگر موضوعات پر جھگڑے بڑے عام تھے۔ اکھاڑے سجتے اور مجمعے لگتے تھے اور مناظرین میدان میں اترتے اور دلائل و براہین سے اپنا موقف واضح کرتے تھے۔

حضرت محدث اعظم پاکستان نے ان کا ناطقہ بند کر دیا، ہر موضوع پر ایسے دلائل دیئے کہ بولنے کے قابل نہ چھوڑا مگر جب آپ کا وصال ہو گیا تو وہ پھر بلوں سے باہر آ گئے اور شیر ہو گئے اور دل میں یہ سوچا کہ اب ان کو جواب دینے والا کوئی نہیں ہے، اس لئے خوب اودھم مچایا اور جگہ جگہ اہل سنت وجماعت کے علماء کو مناظروں کا چیلنج کر دیا۔ پرتاپ نگر فیصل آباد کی آبادی نئی نئی بنی تھی، وہاں کے باشندوں کو منکرین شان رسالت نے بہت پریشان کیا اور جلسہ کر کے اہل سنت کے عقائد پر تابڑ توڑ حملے کئے اور کہا : ہمارے یہ دلائل بڑے ہی مضبوط ہیں کوئی انہیں توڑ نہیں سکتا۔ اگر کوئی ہے تو اسے میدان میں لاؤ۔

اہل سنت وجماعت کے افراد بہت پریشان ہوئے اور دبستانِ محدثِ اعظم جھنگ بازار فیصل آباد پہنچے اور صورت حال سے آگاہ کیا اور حضرت محدث اعظم کے مزار پر بھی حاضری دی اور فاتحہ پڑھ کر گزارش کی کہ اس سلسلے میں ان کی معاونت کریں۔

حضرت محدثِ پاکستان رحمۃ اللہ علیہ ایک ذمہ دار شخص کو خواب میں ملے اور ارشاد فرمایا گورنمنٹ کالج میں ایک نوجوان پڑھتا ہے اس کا نام محمد طاہرالقادری ہے دیکھنے کو بچہ لگتا ہے لیکن فیضانِ نظر کا پروردہ ہے، تم میری طرف سے عطر، پھول اور رومال لے کر جاؤ اور اسے جواب دینے کے لئے آمادہ کرو، وہ ایسے جوابات دیگا کہ سب کے منہ بند ہو جائیں گے۔ خواب بڑا حیران کن اور عجیب تھا مگر چونکہ حسب حال اور موقعہ و محل کے مطابق تھا اس لئے اس پر عمل درآمد میں ہچکچاہٹ کا کوئی جواز نظر نہ آیا اور وہ لوگ عطر، پھول اور رومال لے کر ایک یقین کے ساتھ گورنمنٹ کالج پہنچ گئے۔

طلبہ سے پتہ پوچھا تو انہوں نے ایک دبلے پتلے لڑکے کی طرف اشارہ کر دیا، اس نام کا ایک نو عمر لڑکا دیکھ کر انہیں کچھ حوصلہ ہوا کیونکہ خواب کی ایک بات پوری ہو گئی تھی انہوں نے آگے بڑھ کر عطر، رومال اور پھول پیش کر کے مدعا بیان کیا، انہیں مزید حوصلہ ہوا جب طاہرالقادری نے کسی تذبذب کے بغیر سب کچھ قبول کر لیا اور کہا : آپ لوگ بے خوف وخطر جلسے کا اعلان اور انتظام کریں اور مناظرہ بازوں کو بتا دیں کہ ان کا چیلنج منظور ہے۔ وہ جلسہ میں آئیں اور جوابی دلائل سنیں۔

معین وقت پر جب لوگ جلسہ گاہ میں اکٹھے ہو گئے تو مخالفین بھی پہنچ گئے۔ جب محمد طاہرالقادری وہاں پہنچے تو مخالفین شیر ہو گئے اور ہنسے کہ ایک ناتجربہ کار اور چھریرے بدن کا طالب علم ہمارے اعتراضات کے کیا جوابات دے گا۔ مگر جب محمد طاہرالقادری نے اپنے فصیح و بلیغ خطاب کا آغاز کیا تو خطاب کی اٹھان اور گفتگو کے تیور دیکھ کر ان کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔

سب سے پہلے محمد طاہرالقادری کے روپ میں باکمال خطیب نے ان کے اٹھائے ہوئے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے اور انہیں تارِ عنکبوت کی طرح اڑا کر رکھ دیا۔ پھر اپنی موثر اور گرجدار آواز میں اپنے دلائل کی بارش کر دی اور اپنا موقف اس شاندار انداز سے ثابت کیا کہ دنیا انگشت بدنداں رہ گئی، مخالفین کے چھکے چھوٹ گئے اور ندامت سے سر جھک گئے پھر انہیں کبھی جرات نہ ہوئی کہ اہل سنت وجماعت کو چیلنج کریں۔

3۔ پیر خاکی شاہ صاحب کے شیخ الاسلام

ایک دفعہ مجذوب دانا، عارف باللہ حضرت پیر سید خاکی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : مجھے حضرت غوث اعظم سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے حکم دیا ہے کہ لوگوں کو بتا دوں کہ محمد طاہرالقادری، شیخ الاسلام ہے۔ چنانچہ وہ آپ کو اسی لقب سے یاد کیا کرتے تھے اور بڑی محبت کرتے تھے، ایک دفعہ انہوں نے اپنی محبت و شفقت کے اظہار کے لئے ایک سبز رنگ کا بڑا خوبصورت جھنڈا بنا کر بھیجا، جس پر گوٹے سے لکھا ہوا تھا :

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

حضرت شیخ الاسلام نے جب وہ جھنڈا وصول کیا تو راقم الحروف (محمد معراج الاسلام) کو فرمایا :

اب اگر میں یہ جھنڈا اپنے گھر میں لگاؤں تو اس میں ایک خود ستائی سی پائی جاتی ہے، اس لئے یہ آپ لے لیں، چنانچہ وہ جھنڈا آپ نے از راہِ شفقت مجھے عنایت فرما دیا۔

4۔ حضرت قدوۃ الاولیاء کی خصوصی توجہ

حوصلہ بلند ہو تو انسان طبعی طور پر مہم جو ہوتا ہے اور نئی دنیاؤں اور جہانوں کی تلاش میں رہتا ہے، لڑکپن میں یہ کیفیت پورے شباب پر ہوتی ہے اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والا جوان اپنی ہمت اور صوابدید کے مطابق کوئی انوکھی راہ منتخب کرتا ہے۔

جنات کی تسخیر اور ان سے کام لینے کی خواہش بڑی ہی سرور بخش ہے، زندگی کے کسی موڑ پر ابتدا میں یہ خواہش، حضرت شیخ الاسلام کے دل میں بھی پیدا ہو گئی مگر چونکہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو بے ہنر اور نکمے ہوں اور ان کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو اس لئے مرشد کامل حضرت قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے فوراً تنبیہ اور گرفت ہوئی اور خواب میں فرمایا گیا :

تم یہ کس راہ پر چل نکلے ہو، دل سے یہ واہیات خیال نکال دو تمہاری زندگی کا مقصد کچھ اور ہے یہ بازاری کھیل تماشا نہیں۔

5۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے دربار میں پذیرائی

حضرت شیخ الاسلام کی ذات جس طرح اہل نظر اولیاءِ کرام کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے، اسی طرح اصحابِ مزارات کی بھی منظور نظر ہے، وہ ہر مقام پر اپنے فیضان سے نوازتے اور خصوصی پذیرائی بخشتے ہیں۔

گذشتہ سال جب آپ ترکی تشریف لے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے بڑے ہی پرشکوہ اور وسیع و عریض مزار مبارک پر بھی حاضری دی۔

وہاں مزار مبارک تک رسائی ممکن نہیں، راہیں مقفل ہیں، جس خادم کے پاس چابیاں تھیں، اس نے تالے کھولنے سے صاف انکار کر دیا، چونکہ بڑی امید کے ساتھ حاضرِ دربار ہوئے تھے اس لئے انکار سے صدمہ بھی پہنچا اور مایوسی بھی ہوئی واپسی کے لئے مڑے تو وہی خادم بھاگتا ہوا آیا اور حضرت شیخ الاسلام کو مخاطب کر کے گویا ہوا : آپ کے لئے اجازت مل گئی ہے۔ چنانچہ اس نے تالے کھول دیئے آپ مزار شریف کے اندر گئے اور دل کی تسکین حاصل کی۔

6۔ مولانا روم اور حضرت آتش باز ولی

ترکی ہی کے سفر میں حضرت شیخ الاسلام استنبول سے قونیہ پہنچے، جہاں حضرت مولانا روم اور تھوڑے ہی فاصلے پر آپ کے پیر و مرشد حضرت شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک بھی ہے۔ قونیہ کے علاقہ سے باہر مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے خادم خاص اور خلیفہ حضرت آتش باز ولی کا مزار ہے، یہاں ان کے مزار پر عرصہ پچاس سال سے ایک خاتون مقیم ہیں، جن کا اسم گرامی صالحہ فاطمہ ہے۔ جب شیخ الاسلام حضرت آتش باز کے مزار کی زیارت کے لئے پہنچے تو صالحہ فاطمہ پہلے ہی سے ان کی منتظر تھی اس نے بتایا کہ میں صبح ہی سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں کیونکہ مجھے بتا دیا گیا تھا کہ آپ آ رہے ہیں۔

7۔ احمد العسیران کے ذریعے امام نبہانی رحمۃ اللہ علیہ سے خصوصی شرفِ نسبت

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنات کے بھی رسول ہیں، چنانچہ ایک دفعہ جب آپ وادی نخلہ میں فجر کی نماز پڑھا رہے تھے تو جنات کا ایک گروہ ادھر سے گزرا جب انہوں نے تلاوت کی آواز سنی تو ٹھٹھک کر کھڑے ہو گئے اور غور سے قرآن پاک سننے لگے۔

قرآن پاک کی فصاحت و بلاغت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری دلکش آواز و تلاوت نے انہیں بے حد متاثر کیا چنانچہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہو گئے انہیں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہو گیا۔ ان میں ایک جن کا نام قاضی شمھورش تھا، جس نے طویل ترین عمر پائی کیونکہ جنات کی عمریں بہت لمبی ہوتی ہیں وہ صدیوں تک جیتے ہیں اور موقعہ ملے یا ضرورت پڑے تو مسلمان انسانوں کی ہر قسم کی مدد اور دینی و روحانی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔

قاضی شمھورش ایک ایسے ہی صالح، معلم اور فیض رساں جن تھے، جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث روایت فرمائی ہیں جنہیں محدث کبیر حضرت عبدالباقی انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے مناھل السلسلۃ فی الاحادیث المسلسلۃ۔ میں بیان فرمایا ہے اور اہلِ علم انسانوں نے بھی ان سے کسب فیض کیا اور باقاعدہ سند کے ساتھ ان سے احادیث سن کر آگے روایت فرمائی ہیں۔

حضرت شمھورش جن صحابی کی روایت کردہ احادیث کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ چند راویوں اور واسطوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جاتی ہیں اور سند عالی کا درجہ پاتی ہیں۔ حدیث کی ایک خاص قسم حدیث مسلسل بالمصافحہ ہے۔ یہ وہ حدیث ہوتی ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی کے سامنے بیان کرتے ہوئے اس سے مصافحہ بھی فرمایا ہو، آگے اس صحابی نے اپنے کسی شاگرد تابعی کو بیان کرتے ہوئے اس سے مصافحہ فرمایا ہو اور بیانِ حدیث کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا ہو۔

اس قسم کی حدیث کی فضیلت و انفرادیت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَافَحَنِيْ وَصَافَحَ مَنْ صَافَحَنِيْ اِلٰی اَرْبَعٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ.

’’جس نے مجھ سے مصافحہ کیا یا مجھ سے مصافحہ کرنے والے سے مصافحہ کیا (پھر تیسرے نے اس سے مصافحہ کیا، پھر چوتھے نے اس تیسرے سے مصافحہ کیا) وہ جنت میں جائے گا‘‘۔

ایک اور حدیث میں سات واسطوں کا ذکر ہے اور حضور آقائے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے پایاں و بے کنار رحمت کی آئینہ دار ایک اور حدیث میں قیامت تک مصافحہ کرنے والوں کا ذکر بھی ہے۔

اس تمہید کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، اس کی وجہ ایک نادر و نایاب، روحانی اعزاز ہے، جو بیروت کے سفر میں قائدِ تحریک حضرت شیخ الاسلام مدظلہ کو ایک عظیم محدث اور پر نور روحانی شخصیت حضرت حسین بن احمد عسیران کی طرف سے عطا ہوا۔ اس عطائے ربانی کی نورانی کہانی اور تفصیل یہ ہے :

قائد محترم کیلئے ایک نادر ونایاب اعزاز

حضرت امام نبہانی رحمۃ اللہ علیہ محدث کبیر اور سرمایہ نازش علمی و روحانی شخصیت تھے، جنہوں نے مسلمانوں کو بدعقیدگی اور منافقت سے بچانے کے لئے زبردست علمی کام کیا۔ اس انقلابی اور ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے حضرت شیخ الاسلام کو ان کی ذات کے ساتھ بے حد عقیدت تھی، دلوں کو دلوں سے راہ ہوتی ہے، انہوں نے بھی شفقت فرمائی اور حضرت شیخ الاسلام کو خواب میں سند حدیث عطا فرمائی۔

حضرت قائد کی عقیدت اور بڑھ گئی اور دل میں پختہ عزم کر لیا کہ جب بھی لبنان جانا ہوا تو حضرت امام نبہانی کے مزار پر ضرور حاضری دیں گے اور اگر ان کا کوئی شاگرد ملا تو اس سے درس حدیث اور سند بھی لیں گے تاکہ خواب کی بات عالم بیداری میں بھی عملی روپ دھار لے۔ چنانچہ اس دفعہ جب آپ لبنان گئے تو پتہ چلا ان کے ایک معمر شاگرد ’’حضرت حسین بن احمد عسیران‘‘ بیروت کے پہاڑ میں مقیم ہیں، آپ بڑے عزم کے ساتھ وہاں پہنچے اور ان سے ملاقات کی، ماحول سے کچھ ایسا مترشح ہوا، جیسے روحوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ہو اور صرف رسمی بات باقی ہو۔

حضرت شیخ الاسلام کی خواہش کے مطابق انہوں نے بڑی محبت سے سند حدیث عطا فرمائی اور بعد میں ایک ایسا نادر و نایاب اور روحانی تحفہ عطا فرمایا کہ روحانی اور ایمانی دنیا میں جس سے بڑھ کر کوئی تحفہ ہو ہی نہیں سکتا۔

بیش بہا علمی و روحانی تحفہ

حضرت حسین بن احمد عسیران مدظلہ کے پاس حدیث مسلسل بالمصافحہ کی ایک سند موجود تھی جو مندرجہ ذیل صرف چار واسطوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ جاتی تھی۔

  1. حضرت حسین بن احمد عسیران نے یہ حدیث اپنے استاذ گرامی حضرت شیخ محمد عربی رحمۃ اللہ علیہ سے سنی اور ان سے مصافحہ کیا۔
  2. حضرت محمد عربی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث اپنے استاذ گرامی محمد مصطفی رحمۃ اللہ علیہ سے سنی جن کا لقب ماء العینین ہے اور ان سے مصافحہ کیا۔
  3. انہوں نے یہ حدیث اپنے استاذ گرامی محمد الکحیل رحمۃ اللہ علیہ سے سنی اور مصافحہ کیا۔
  4. انہوں نے یہ حدیث حضرت شمہورش جن صحابی سے سنی اور مصافحہ کیا۔

حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی روحانی شخصیت و علمیت سے متاثر ہو کر، جناب حسین بن احمد عسیران نے کمال محبت و شفقت کے ساتھ، یہ حدیث طریقہ محدثین کے مطابق ان کو عطا کی اور ان سے مصافحہ کیا۔

اس طرح حضرت شیخ الاسلام مصافحہ کرنے والے پانچویں راوی بن گئے اور یہ اعزاز پانے والوں کے لئے جو خوش خبری ہے وہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں۔

ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

حضور خواجہ اجمیری رضی اللہ عنہ کی طرح قائد محترم نے بھی امت کی خیر و فلاح اور برکت و سعادت کیلئے یہ فیض عام کر دیا ہے اور عالم اسلام اور دنیائے مغرب میں جا کر جگہ جگہ اہل محبت سے مصافحہ کر کے انہیں یہ حدیث سنائی ہے تاکہ سب مغفرت کی بشارت کے دائرے میں آ جائیں اور رحمت کے حصہ دار بن جائیں۔