شیخ الاسلام کا صوفیانہ اسلوبِ دعوت

پروفیسر محمد نصراللہ معینی

صوفیانہ دعوت و استقامت

جب کسی انسان کو حق کی بارگاہ میں رسائی نصیب ہو جاتی ہے اور وہ سچائی کو پا لیتا ہے تو اس کے لئے خاموش بیٹھا رہنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ وہ بے تاب ہو کر چاہنے لگتا ہے کہ جس نور نے اس کے من کی دنیا کو روشن کیا ہے اس سے وہ دوسروں کی راہوں کو بھی منور کر دے، اور جو سعادت اُسے میسر آئی ہے اس میں اوروں کو بھی حصہ دار بنا دے اور جو پھول اس کے دامن میں ڈالے گئے ہیں اس کی خوشبو سے ہر گھر کو معطر کر دے۔

ایک امریکی خاتون بیکی ہاپکنس (Becky Hopkins) نے قرآن مجید کے مطالعہ سے اسلام کی روشنی پا لی تو نور ایمان سے سرفراز ہو گئیں۔ اسلا م قبول کرنے کے بعد اُن کا ایک خط اسلامک ہورائزن میگزین دسمبر میں 1987میں چھپا تھا، جس میں وہ لکھتی ہیں :

’’جن سوالوں کا جواب میں اپنی پوری زندگی میں تلاش کرتی رہی ان کا جواب پانا میرے لیے کتنا زیادہ تسکین کا باعث تھا، میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ ۔ ۔ میں اس خوشی کو کیونکر بیان کر سکتی ہوں جو سچائی کو پا لینے سے مجھے حاصل ہوئی ہے۔ ۔ ۔ میں چاہتی ہوں کہ جو چیز میں نے پائی ہے اُسے ساری دنیا کے سامنے گاؤں۔ ۔ ۔ اگر میں سب سے اونچے پہاڑ پر چڑھ سکتی اور میری آواز ہر اس آدمی تک پہنچ سکتی جو اسلام سے بے خبر ہے تو میں چِلا چِلا کر ان کو بتاتی وہ سچائی جو میرے مشاہدے میں آئی ہے۔ ‘‘

سچائی کو پا لینے والوں کی تڑپ اور آرزو آپ نے ملاحظہ کی، صوفیا ئے کرام ایسے ہی نفوس قدسیہ تھے جو صداقتوں کو پا لینے اور اپنے من کو اجالنے کے بعد بیٹھ نہیں گئے بلکہ انسانیت کو راہ حق دکھانے اور دکھی مخلوق کی خدمت اور دلجوئی کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ اجمیر حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کا مولد نہیں تھا اور نہ ہی لاہور حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا آبائی مسکن، یہ پاکباز لوگ کہاں سے چلے اور کن کن دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے ہزاروں میلوں کی مسافت طے کرتے سچائی کی روشنی پھیلاتے ہند میں پہنچے اور کروڑوں لوگو ں کی ہدایت کا سامان کر گئے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اسی تڑپ اور جذبے نے جھنگ سے اُٹھا کر لاہور لا بٹھایا۔ حق وہدایت کی روشنی پا لینے کے بعد اپنے شیخ کامل حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کے حضور بیٹھ کر انہوں نے اپنے رب سے جو عہد وپیمان باندھا تھا اسے نبھانے کے لئے جادہ دعوت پر گامزن ہو گئے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اس راہ میں انہیں کن کن طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا، کیسی کیسی مزاحمتوں سے واسطہ پڑا، کیسے کیسے کیچڑ اچھالے گئے اور کیا کیا فتوے لگائے گئے لیکن راہ وفا کے اس مسافر کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغز ش نہ آئی۔

حضر ت بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے یہ ابیات حضرت شیخ الاسلام کی استقامت اور وفا کیشی کی کتنی سچی اور خوبصورت ترجمانی کرتے ہیں۔ بابا صاحب فرماتے ہیں:

فریدا ! گلین چِکّڑ، دور گھر، نال پیارے نینہْ
چلاں تاں بھجے کمبلی، رہاں تا ٹُٹّے نینہْ

بھِجّو سِجّو کمبلی، اللہ ورسو مینہْ
جا ملاں تنہاں سجناں، ٹٹو ناہیں نینہْْ

اے فرید گلیوں میں کیچڑ ہے اور محبوب کا گھر جس سے عہد وفا باندھا ہے، بہت دور ہے۔ اگر چلتا ہوں تو بارش اور کیچڑ سے کمبلی بھیگتی ہے، اگر رکتا ہوں تو عہد وفا ٹوٹتا ہے۔ تو پھر اے کمبلی تو بھیگتی رہ، اے اللہ !مینہ برساتا رہ، میں اُس محبوب سے ضرور ملوں گا اور عہد وفا نہ ٹوٹنے دوں گا۔

ایک سچے عاشق کو محبوب کی طرف جانے والے رستے بھی پیارے ہوتے ہیں کہ اس کا محبوب دوسرے سرے پر اس کا منتظر ہوتا ہے۔ دشواریوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سر مستی کے عالم میں قدموں کا بڑھتے چلے جانا اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ اس راہ کا مسافر منزل آشنا ہے اور سفر کی قدر وقیمت اور منزل کی عظمت سے آگاہ ہے۔

استغنا اور حق گوئی

صوفیائے کرام کے امتیازی اوصاف میں سے ایک اہم وصف ان کا استغنا اور فقر و غیور ہے۔ وہ ناساز گار حالات میں بھی دعوت وارشاد کا صبر آزما فریضہ سرانجام دیتے رہے لیکن انہوں نے اپنا دامن کبھی حرص اور لالچ سے آلودہ نہ ہونے دیا۔ انہوں نے جو بھی خدمت دین انجام دی بلامعاوضہ انجام دی۔ انہوں نے دعوت و تبلیغ کو پیشہ نہیں بلکہ فریضہ سمجھ کر ادا کیا۔ اس لئے ان کی نظر لوگوں کی جیبو ں پر نہیں ان کے دلوں پر ہوتی تھی چو نکہ انہیں کسی سے کوئی دنیاوی مفاد اور غرض نہ ہوتی تھی اس لئے وہ کلمہ حق کہنے سے نہ چوکتے، نہ گھبراتے۔

حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک مرتبہ کسی نے کچھ رقم بطور نذرانہ پیش کی اس وقت مجلس میں مغل بادشاہ شاہجہاں موجود تھا جو کسی علاقے کی فتح کی دعا کے لیے حاضر خدمت ہوا تھا۔ آپ نے نذر پیش کرنے والے سے کہا میاں! ہمیں ان روپوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ تمہارے سامنے بادشاہ سلامت بیٹھے ہیں، یہ روپے انہیں دے دو کہ انہیں ان کی زیادہ ضرورت ہے۔ یہ بادشاہ اسی دولت کی خاطر تو لشکر کشی کر کے قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو مثنوی اسرار خودی میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ چند شعر ملاحظہ ہوں :

گفت شیخ ایں زر حق سلطان ما است
آنکہ در پیراہن شاہی گدا است

حکمران مہر و ماہ و انجم است
شاہ ما مفلس ترینِ مردم است

حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : یہ روپے ہمارے بادشاہ کا حق ہے وہ بادشاہ جو دراصل شاہی لباس میں ایک گداگر ہے۔ وہ اگرچہ سورج، چاند اور ستاروں پر حکمران ہے لیکن ہمارا یہ بادشاہ سب سے زیادہ مفلس ہے۔

خلق در فریاد از ناداریش
ازتہی دستی ضعیف ازاریش

وہ ایسا نادار ہے کہ اس کی چھینا جھپٹی سے دنیا فریاد کناں ہے اس کا ہاتھ خالی ہے لیکن کمزوروں کو دکھ دے کر دولت سمیٹنا چاہتا ہے۔

حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ نے بادشاہ کی طرف رُخ کرتے ہوئے فرمایا :

آتش جانِ گدا جوع گداست
جوع سلطاں ملک و ملت را فنا است

فقیر اگر بھوکا ہے تو بھوک کی آگ صرف اس کی جان کو جلاتی ہے لیکن بادشاہ کی بھوک ملک و ملت کو فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

محبوب سبحانی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عباسی خلیفہ حاضر ہوا اس نے سونے کی اشرفیوں سے بھری تھیلیاں نذر کیں تو آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے زیادہ اصرار کیا تو آپ نے ایک تھیلی کو پکڑ ا اور اُسے دونوں ہاتھوں میں لے کر دبایا تو اس سے خون نچڑنے لگا۔ خلیفہ اشرفیوں سے بہتا ہوا خون دیکھ کر کانپ اٹھا۔ حضرت محبوب سبحانی نے فرمایا : یہ خون تمہارے وزراء اور کارندوں کے مظالم کی داستان بیان کر رہا ہے جو وہ غریب رعایا سے روا رکھتے اور ان کو لوٹتے رہتے ہیں۔ مجھے اگر تمہارے جد امجد (حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ) کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرابت داری کا لحاظ نہ ہوتا تو اس تھیلی کو اتنا نچوڑتا کہ خون تمہارے محل تک جا پہنچتا۔

برصغیر کی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں کہ حکمران وقت اور ریاستوں کے نواب صوفیا کی خدمت میں جاگیروں کے قبالے پیش کرتے لیکن وہ قبول نہ کئے جاتے۔

حضرت غوث زماں شاہ محمد سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں نواب آف ڈیرہ غازی خان نے جاگیر پیش کی آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ عرض کیا گیا کہ اپنے لیے نہیں تو اپنے صاحبزادگان کے لئے قبول کر لیں۔ آپ نے فرمایا : انہیں جاگیروں کی ضرورت نہیں، یہ اگر درویشوں کی جوتیاں سیدھی کرتے رہے تو انہیں کسی چیز کی کمی نہ رہے گی۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ صوفیا کی خدمت میں نذرانوں کے ڈھیر لگا دیے جاتے لیکن وہ اسکی طرف گوشہ چشم سے بھی نہ دیکھتے۔ عرض کیا جاتا کہ اپنے دست مبارک سے ہی فقراء اور درویشوں میں تقسیم کر دیجئے لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے۔ نذر گزار خود تقسیم کرتا یا پھر حاضرین میں سے کسی کے ذریعے تقسیم کرا دئیے جاتے۔

حقیقت یہ ہے کہ جنہیں سچی محبت اور درد وسوز کی دولت نصیب ہو جاتی ہے انہیں دنیا والوں سے کسی ذاتی مفاد کی تمنا نہیں رہتی۔ حضرت گنج شکر فرماتے ہیں :

فریدا جاں لُب تاں نینہ کیا لُب تاں کوڑا نینہ
کچر جھٹ لنگائیے چھپڑ ٹُٹے مینہ

یعنی اے فرید! جہاں لالچ ہے وہاں محبت کیسی؟ لالچ ہو گا تو محبت جھوٹی ہو گی۔ بارش میں ٹوٹی ہوئی چھت کے نیچے کب تک گزارہ ہو سکتا ہے۔

حضرت بابا صاحب نے لالچ آمیز محبت کو بارش میں ٹوٹے ہوئے چھپر کے نیچے پناہ لینے سے تعبیر کیا ہے جس سے کپڑے بھیگے بغیر نہیں رہ سکتے۔ صوفیا کے اسی بے غرض عمل کی اقبال کیا خوب ترجمانی کرتے ہیں :

جس کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم کو بھی رب العزت نے متقدمین صوفیاء کو عطا ہونے والی استغناء کی اسی دولت سے سرفراز کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے تحریک کے روز اول ہی سے اپنی دینی خدمات کا کبھی کوئی معاوضہ قبول نہیں کیا۔ اگر آپ چاہتے تو اپنے ہزاروں خطابات کی کیسٹوں اور سینکڑوں کتابوں کی رائلٹی میں لاکھوں روپے ماہانہ وصول کر سکتے تھے لیکن آپ نے کیسٹوں اور کتابوں کی تمام آمدنی مشن کے لئے وقف کر دی ہے۔ لوگوں کے لئے یہ بات بھی بڑی تعجب انگیز ہوتی ہے کہ اندرون و بیرون ملک دعوتی و تبلیغی دوروں کے موقع پر پیش کئے گئے نذرانوں کو آپ نے کبھی قبول نہیں کیا بلکہ کسی نے اگر خطیر رقم مشن کے لئے بھی پیش کرنا چاہی تو خود وصول کرنے کی بجائے اسے مقررہ طریقے سے تنظیم کو ارسال کرنے کی تلقین فرمائی۔ استغنا کی دولت سے سرفراز ایسے ہی مرد مومن کو اقبال یوں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں :

خاکی و نوری نہاد، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز

اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب، اس کی نگاہ دل نواز

حضرت محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی اور حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کی مثالیں گزریں، جن سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ استغنا کی دولت داعی الی اللہ کے اندر جرات اظہار پیدا کر دیتی ہے چنانچہ جسے وہ حق سمجھتا ہے اور جس میں دین حق اور امت مسلمہ کا مفاد اور بھلائی دیکھتا ہے، اسے زبان پر لائے بغیر نہیں رہتا اور لا يخافون لومة لائم کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اس کے پیشِ نظر رہتا ہے۔

حضرت شیخ الاسلام کو رب العزت نے علم و آگہی اور حکمت و بصیرت کے ساتھ جرات اظہار سے بھی نواز رکھا ہے چنانچہ وہ صوفیاء اسلام کے اسلوب پر عمل پیرا ہو کر آج جرات و بہادری کی ایک مثال بن چکے ہیں۔ انہوں نے جس بات میں دین حق، ملت اسلامیہ اور ملک و قوم کا مفاد دیکھا، اسے ببانگ دہل کہہ دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کبھی رد عمل یا منفی پروپیگنڈہ کی پرواہ نہیں کی۔

اپنے بھی خفا مجھ سے، ہیں بیگانے بھی ناخوش
کہ میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

تحمل وبردباری

صوفیاء کے اعلیٰ اوصاف میں سے ایک وصف تحمل وبردباری بھی ہے۔ عام آدمی بے جا الزام اور بہتان تراشی کو برداشت نہیں کر سکتا، جسمانی و ذہنی اذیت کا جب تک انتقام نہ لے لے وہ بے چین رہتا ہے۔ قرآن مجید نے اگرچہ جزاء السيئة سيئة بمثلها کی اجازت دے رکھی ہے لیکن صوفیائے کرام کی زندگیاں اس پر شاہد ہیں کہ انہوں نے اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں درگزر اور معاف کرنے کو ہی ہمیشہ ترجیح دی ہے کیونکہ وہ محبت کرنا ہی جانتے تھے، نفرت کا لفظ ان کی لغتِ سلوک میں تھا ہی نہیں۔

کہتے ہیں کہ کسی نے صوفی کو پتھر مارا تو اس نے مشتعل ہونے کی بجائے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ مارنے والے نے حیرت سے پوچھا کہ میں نے تو آپ کو پتھر مارا ہے، آپ نے مجھے سینے سے کیوں لگایا؟ صوفی نے کہا : تمہارے اندر نفرت تھی وہ نکلی اور پتھر کی صورت میں میری طرف آئی، میرے دل میں تو خلقِ خدا کے لئے محبت ہی محبت ہے، لہذا وہ نکلی اور اس نے تمہیں سینے سے لگا لیا۔

حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ ایک دن عقیدت مندوں کے حلقہ میں تشریف فرما تھے کہ ان کے ایک ہم عصر مولوی صاحب غصے میں بپھرے ہوئے آئے۔ ان صاحب کو خبر ملی تھی کہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کسی کو برا نہیں کہتے اور فرماتے ہیں کہ میں سب فرقوں سے متفق ہوں۔ ہمارے دور کے فرقہ پرست علماء کی طرح مولانا روم کے اس قول پر بھلا ان صاحب کا چپ رہنا کیسے ممکن تھا۔ چنانچہ آتے ہی اس بارے میں سوال داغ دیا۔ آپ نے فرمایا جو کچھ تم نے سنا ہے ٹھیک ہی سنا ہے۔ اس پر مولوی صاحب مزید طیش میں آ کر دشنام طرازی پر اتر آئے۔ جب دل کی بھڑاس نکال کر خاموش ہوئے توحضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : مولوی صاحب! آپ جو کچھ میرے بارے میں ابھی فرما رہے تھے میں اس سے بھی متفق ہوں۔ یہ جواب سن کر وہ صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے اورخاموشی سے واپس چلے گئے۔ صوفیائے متقدمین ومتاخرین کے عفو و درگزر اور تحمل وبرداشت کے حوالے سے بے شمار واقعات کتب تصوف میں ملتے ہیں۔

ماضی قریب میں بیربل شریف کی عظیم علمی و روحانی شخصیت حضرت خواجہ محمد عمر بیر بلوی رحمۃ اللہ علیہ (وصال 1967) عارف یزدانی شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کے اجلہ خلفا میں سے ہو گزرے ہیں۔ آپ وسیع المشرب بزرگ تھے اور اعلیٰ روحانی مرتبے پر فائز ہونے کے علاوہ تصوف میں بلند پایہ کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔ علامہ عبدالروف صاحب خطیب آسٹریلیا مسجد لاہور نے ماہنامہ سلسبیل جولائی 1971ء کے شمارے میں آپ کے تحمل وبردباری کا ایک دلچسپ واقعہ تحریر کیا ہے کہ بیربل شریف کے قریبی قصبہ جھاوریاں کے ایک صاحب مولانا حکیم مولا بخش دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ مولانا غلام اللہ خاں کی شاگردی میں ان کی طرز کی توحید سیکھ کر واپس آئے تو خیال کیا کہ قریبی خانقاہ بیربل شریف کی خبر لینی چاہیے اور اس ’’شرک کے گڑھ‘‘ (معاذاللہ) سے توحید کا غلغلہ بلند کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت خواجہ محمد عمر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر خطاب کی اجازت چاہی۔ اس حلم کے پیکر نے خندہ پیشانی سے اجازت عطا فرما دی، مولوی صاحب نے اپنی تقریر میں شرک کے خوب فتوے لگائے، سجادہ نشینوں کو کوسا اور مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہونے والی ساری آیتیں مسلمانوں پر چسپاں کیں۔ حضرت نہایت خاموشی اور سکون سے خطاب سنتے رہے۔ مولوی صاحب تقریر ختم کر کے بیٹھے تو آپ نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا : واہ مولانا! ’’آپ نے خوب قرآن بیان کیا ہے‘‘ بڑا لطف آیا۔ مگر آپ نے ہمیں تو ابو جہل سے بھی بدتر سمجھا ہے، ہم اتنے برے تو نہیں۔

حضرت کے تحمل عفو ودرگزر، بردباری اور اس ایک جملے نے وہ کام کیا جو شاید کئی وعظوں اور مناظروں سے بھی نہ ہو سکتا۔ مولانا حکیم مولا بخش کی سوچ میں ایسی تبدیلی آئی کہ وہ حضرت کے محبین اور عقیدت مندوں میں شامل ہو گئے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی دعوتی و تحریکی زندگی میں ہمیشہ اس صوفیانہ تحمل و بردباری اور عفو و درگزر کا ثبوت دیا ہے۔ پاکستان میں تنگ نظری اور شدت و انتہا پسندی کے ماحول میں انقلابی فکر پیش کرنا یا ایسی بات کرنا جن سے خود ساختہ نظریات اور مفادات پر زد پڑتی ہو انتہائی دشوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لفافہ کلچر صحافت ہو یا وقت کے تقاضوں کے ادراک سے بے بہرہ اور اپنے خول میں بند رہنے پر مصر بے بصیرت دینی حلقے سبھی شیخ الاسلام کی کردار کشی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے لیکن آفرین ہے مسلک صوفیا پر کاربند اس مرد مجاہد کے تحمل و بردباری پر کہ وہ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے جادہ حق پر رواں دواں ہیں۔ وہ اس سوچ کے حامل ہیں کہ اگر رستے کے کانٹے دامن میں الجھ جائیں تو اتنا ٹکرا کاٹ کر ان کے حوالے کر دو، وہ اسی سے کھیلتے رہیں تم اپنا سفر جاری رکھو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے حلقہ کے اہل علم کو فتوی بازوں کی مکروہ مہم میں داخل ہونے سے سختی کے ساتھ منع کر رکھا ہے کہ اس سے اصل کام متاثر ہوں گے۔

موجودہ دور میں نئی نسل کی اسلام سے دوری اور بغاوت کے اسباب میں جہاں مغربی تہذیب کی یلغار کا ہاتھ نظر آتا ہے وہاں ہمارے ارباب علم اور بعض دینی حلقوں کی کوتاہ نظری، بے بصیرتی، خود پسندی، غلو اور شدت کا بھی پورا پورا عمل دخل ہے جنہوں نے قوم کو لا یعنی مسائل میں الجھا دیا ہے۔

انڈیا کے ایک صائب الفکر اسلامی سکالر جناب علامہ خوشتر نورانی( ایڈیٹر ماہنامہ جام نور دھلی) کا جنوری 2012ء کے شمارے میں’’مسلمان، فکری بحران سے دو چار ہیں‘‘ کے عنوان سے فکر انگیز اداریہ شائع ہوا ہے جس کا ہر لفظ از دل خیزد بر دل ریزد کی عمدہ مثال ہے۔ علامہ خوشتر نورانی کے مطابق ایک طبقہ قدامت پرستی اور قدماء کی عقیدت میں اس قدر جامد ہے کہ فروعی فقہی مسئلہ میں اختلاف رائے کو بھی گمراہی قرار دیتا ہے۔ اس طبقے کے ذریعے اسلام کی جو تعبیر ات و تشریحات منظر عام پر آ رہی ہیں وہ اسلام کی کاملیت، ہمہ گیریت اور آفاقیت کے مفاہیم سے متصادم ہیں۔ امن محبت، رواداری مساوات، انسانیت، حکمت بالغہ جو کہ اسلامی تعلیمات کی اساس ہیں، وہ اس طبقہ کی تعبیرات سے فارغ ہیں۔

چنانچہ فروعی مسائل فرضیت کے دائرے میں آ گئے ہیں جبکہ مستحبات کو غایتِ دین سمجھا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک ہی مسلک کے لوگ آپس میں دست و گریبان ہیں۔

فرقہ پرستی کی حشر سامانیاں اور صوفیا کا کردار

موجودہ دور میں مسلمانوں کے زوال اور اسلام سے دوری کے اسباب میں سب سے بڑا سبب مسلمانوں کا واعتصموا بحبل الله جميعا و لا تفرقوا کے حکم ربانی کو فراموش کر کے اور فرقوں میں بٹ کر افتراق و انتشار کو ہوا دینا اور اپنے علاوہ سب کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھنا اور قابل گردن زدنی قرار دینا ہے۔ دینی حلقوں کی اس تنگ نظری، کوتاہ فہمی، شدت پسندی و انتہا پسندی اور بے بصیرتی نے ہمیشہ امت مسلمہ کو آزمائشوں سے دوچار رکھا ہے۔

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں مسلکی مخالفت اور منافرت کی بناء پر رونما ہونے والے متعدد واقعات میں سینکڑوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس منافرت کا عالم یہ تھا کہ ان واقعات میں مارنے والوں کا یقین تھا کہ ہم نے جہاد کیا اور مقتولین کے ہمنواؤں نے سمجھا کہ ہمارے ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا ہے۔

فرقہ پرستی کی فتنہ سامانیوں نے اوائل عمر ہی سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے درد مند دل کو بے چین اور مضطرب کر رکھا تھا۔ یقینا ایسی بے چینی ان روحوں کے ہی مقدر میں ہوتی ہے جنہیں رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ گداز کا فیض نصیب ہوتا ہے۔ وہ قلب اطہر جس میں امت کے لئے بے پناہ درد اور اضطراب دیکھ کر رب کائنات جل شانہ نے فرمایا تھا۔

لعلک باخع نفسک الا يکونوا مومنين.

’’ایسا لگتا ہے کہ ایمان کی دولت سے سرفراز نہ ہونے والوں کے غم میں آپ خود کو ہلکان کر لیں گے‘‘۔

شیخ الاسلام پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری امت کے اصلاح احوال کے لئے غور و تدبر کرتے رہے۔ وہ اپنے علم، مشاہدے اور بصیرت کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچے کہ

علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی

یعنی اشاعت اسلام، اصلاح احوال اور فرقہ پرستی کی حشر سامانیوں سے نجات کے لئے بہترین منہج صوفیا کا منہج دعوت و ارشاد ہے کیو نکہ جب بھی اُمت مسلمہ پر ایسی آزمائش کی گھڑی آئی تو صوفیا کا فکر وعمل ہی مدد کو آیا۔

اسلامی تاریخ میں موجودہ فرقہ وارانہ کشمکش اور باہمی جنگ و جدال کی جھلک ہمیں پانچویں صدی ہجری میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ دور مسالک اور مذاہب کے درمیان جدال اور مناقشات کے لیے مشہور ہے۔

اس دور میں صرف صوفیائے کرام ہی وہ نفوس قدسیہ تھے جو مذہبی طبقات کے اس تفرقہ و انتشار اور جدال و تنازعات سے الگ تحمل و بردباری، وسیع النظری اور رواداری کے ساتھ دعوت دیں، خلق خدا کی خیر خواہی اور خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں۔

چنانچہ تاریخ تصوف در اسلام کے مصنف ڈاکٹر قاسم غنی لکھتے ہیں :

’’صوفیانِ قرن پنجم کہ در بحبوبہ مجادلات ومنازعات مذہبی و جنگ ہائے ہفتاد و دوملت غالباً بکنار نشستہ و سرگرم مباحث خویش بودہ اند‘‘

’’پانچویں صدی ہجری میں علماء اور اہل مدرسہ مذہبی نزاع میں مبتلا تھے اور ہر فرقہ اپنے مسلک کی حمایت میں دوسرے فرقوں سے جنگ و جدال کر رہا تھا لیکن صوفیانے بہتر فرقوں والی جنگ اور مذہبی تنازعات اور جھگڑوں سے خود کو علیحدہ رکھا اور اپنے تصوف کے معاملات میں مشغول رہے۔ ‘‘

(بحواله تصوف اور سريت، پروفيسر لطف الله ص 198)

پانچویں صدی ہجری کے صوفیا کی فہرست کافی طویل ہے جن میں سے چند جلیل المرتبت صوفیاء میں حضرت داتا علی ھجویری رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت ابو عبد الرحمن السلمی، حضرت ابو القاسم القشیری، حضرت ابو نعیم اصفہانی اور حضرت ابو اسماعیل عبداللہ انصاری کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹر قاسم غنی دوسر ی جگہ لکھتے ہیں :

باضافہ در نزاعہاو جدال ہائے بین مذاھب مختلفہ داخل نشدہ باہمہ فرق باصلح و صفا سلوک می کردند ونسبت بہ ہمہ علی السویہ مہربان بودند

(حواله مذکور)

’’صوفیاء کرام نہ صرف مختلف فرقوں کے مذہبی اختلافات اور جھگڑوں سے کنارہ کش رہے بلکہ تمام فرقوں سے صلح و آشتی کے تعلقات بھی برقرار رہے اور سب کے ساتھ مہر و محبت سے پیش آتے رہے‘‘

یہ نفوس قدسیہ اپنے اعلیٰ اخلاق، حسن کردار اور خدمت خلق کے ذریعے دعوت و ارشاد کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ یہ لوگ شدت کی بجائے اعتدال، نفرت کی بجائے محبت اور توڑنے کی بجائے جوڑنے اورجمع کرنے والے لوگ تھے۔

حضرت فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک شخص نے قینچی کا تحفہ پیش کیا کہ اس کے شہر کی یہی سوغات مشہور تھی۔ حضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : کاش تم قینچی کی بجائے مجھے سوئی دھاگے کا تحفہ دیتے کیونکہ قینچی کاٹنے اور سوئی جوڑنے کے کام آتی ہے۔

صوفیاء نے کبھی اپنے دروازے کسی مذہب اور مسلک کے ماننے والوں پر بند نہیں کئے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خانقاہ کے خدام کو تلقین کر رکھی تھی کہ

ہر کہ دریں سرا آید نانش بدہید از ایمانش مپرسید

جو اس مہمان خانہ میں آئے اسے کھانا پیش کرو، اس سے اس کا مذہب مت پوچھو۔

حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان کے پیچھے دراصل صوفیا کے نظام فکر و عمل کا پورا فلسفہ کارفرما تھا۔ صوفیا نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین آسمان، سورج، چاند ستارے، ہوا اور پانی بلکہ سارے عناصر فطرت کسی خاص قوم قبیلے یا کسی خاص نسل انسانی کے لیے پیدا نہیں کیے بلکہ ان پر سب انسانوں کا حق ہے۔ سب ان سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ وہ رب العالمین ہے اس کی ربوبیت عامہ سب کو شامل ہے۔ اسی طرح اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمتہ للعالمین ہیں۔ ان کی رحمت کے دائرے میں سب جہان شامل ہیں چنانچہ ان کی رحمت میں سب کا حصہ ہے۔

صوفیا کرام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس رحمت کے حصے کو مذھب و مسلک اور رنگ و نسل کی تمیز کے بغیر ہر ایک تک پہنچانے میں مصروف ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے رکھے۔

سلطان ہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول ہے کہ درویش وہ ہے جو خلق خدا کے لیے سورج کی طرح شفیق، دریا کی طرح سخی اور زمین کی طرح متواضع ہو جائے۔

اس فرمان مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح سورج کی روشنی اور حرارت کسی ایک قوم، مذھب اور خطے کے لیے محدود نہیں ہوتی مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو اور سکھ غرضیکہ ہر مذھب و ملت کے لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ اسی طرح صوفی اور درویش وہ ہے جو ساری مخلوق کے لیے نفع رساں ہو۔ جو اپنے علم و فضل، نور ہدایت، شفقت و مہربانی اور خدا کی عنایات میں دوسروں کو بھی شریک کرے۔

درویش کے دریا کی طرح سخی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح دریا اپنا پانی کسی قوم اور مذھب و ملت کے لیے مخصوص نہیں کرتا ہر کوئی اپنا برتن اس سے بھر سکتا ہے۔ اسی طرح درویش کی خدمت میں جو بھی آئے وہ فیض رسانی میں بخل سے کام نہیں لیتا اور ہر کوئی اپنے ظرف کے مطابق اپنا حصہ لے سکتا ہے۔ زمین ہر ایک کے آگے بچھی رہتی ہے اس سے جس طرح کا کوئی فائدہ اٹھانا چاہے انکار نہیں کرتی۔ اس پر خواہ کوئی سبک خرام ہو یا ایڑی مار کر چلے۔ ہر دھرتی اس کے لیے فرش راہ ہوتی ہے۔

حضرت فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

فریدا خاک نہ نندیے، خاکو جیڈ نہ کوء ِ
جیوندیاں پیراں تلے، مویاں اوپر ہوءِ

اے فرید خاک کو حقیر نہ سمجھو۔ زندگی میں تمہارے آگے بچھی رہتی ہے۔ یعنی تم اس سے اپنی مرضی سے بے شمار کام لے سکتے ہو اور جب تم مر جاتے ہو اور تمہیں کوئی بھی رکھنے اور سنبھالنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تو یہ خاک ہی ہے جو تمہیں اپنی آغوش میں لے کر تمہاری پردہ پوشی کرتی ہے۔

حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کے فرمودات کا ماحصل یہ ہے کہ درویش زمین کی طرح متواضع ہوتا ہے اور جس طرح زمین ایڑی مار کر چلنے والوں کو کچھ نہیں کہتی اسی طرح درویش لوگوں کی تلخ و ترش باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔

الغرض صوفیانے اپنی دعوت کو آفاقی بنایا، اپنے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے رکھے اور خود کسی کے پاس جانے اور ملنے سے پرہیز نہ کیا۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ بعض دفعہ اچانک کسی مندر میں تشریف لے جاتے، جہاں آپ کے دو میٹھے بول اور چہرہ پر جمال محمدی کی جھلک سے ہندوؤں کے دل شکار ہو جاتے اور کلمہ ان کی زبان پر جاری ہو جاتا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے صوفیا کے اسی نظام فکر و عمل پر اپنی تحریک اور دعوتی منہج کی بنیاد استوار کی۔

منفرد اور مثبت اسلوب خطاب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے آغاز ہی سے ان منکرات سے اپنے خطابات کو آلودہ ہونے سے بچائے رکھا جو مسلمانوں کے درمیان دوریاں پیدا کر کے نفرت اور بغض و عناد کا بیج بوتیں اور فتنہ و فساد کی راہ ہموار کرتی ہیں۔ شیخ الاسلام مسلکی موضوعات پر لٹھ کی بجائے دلائل کی زبان سے بات منوانے کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ مثبت انداز سے دلائل کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ دوسروں پر نہ تو طعن و تشنیع کرتے ہیں اور نہ ہی دوسرے مسلک کے اکابرین کو برے القابات سے یاد کرتے ہیں۔ ہر مسئلے پر کفر کے فتوے جاری کرنے سے بھی ان کا دامن پاک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تفرقہ بازوں کے روائتی انداز خطابت سے نالاں اندرون و بیرون ملک سامعین کا ایک وسیع حلقہ مسلک کی تفریق کے بغیر ان کے لئے چشم براہ رہتا ہے کیونکہ یہاں ان کی دلآزاری نہیں ہوتی بلکہ علم و دانش کی باتیں ہی میسر آتی ہیں۔ محبت کے ساتھ اگر دلیل اور منطق کی طاقت بھی شامل ہو گی تو بات معقول اور وزنی ہو جاتی ہے۔ شیخ الاسلام کی یہی خصوصیت انہیں اپنے معاصر علماء میں ممتاز کرتی ہے۔

بین المسالک روابط کا آغاز

بین المسالک دوریاں ختم کرنے اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا کرنے کے لئے شیخ الاسلام نے بین المسالک دو طرفہ روابط کا آغاز کر دیا۔ شیخ الاسلام نے جب ان روابط کا آغاز کیا تو حالات سخت ناموافق تھے۔ ہمارے ہاں مسلکی فضا اتنی مکدر تھی کہ ایک مسلک کے علماء کا دوسرے مسلک کے علماء سے میل جول رکھنا تو دور کی بات ہے ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا بھی مسلکی خالصیت اور غیرت کے منافی سمجھا جاتا تھا۔

میرے استاد گرامی غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی قدس سرہ العزیز ساتویں اور آٹھویں دہائی میں جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں حکومت کی طرف سے شیخ الحدیث کے منصب جلیلہ پر فائز رہے۔ اس ادارے میں دیگر مسالک کے جید علماء بھی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ایک مذہبی طبقہ حضرت غزالی زماں رحمۃ اللہ علیہ سے ناراض تھا اور انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتا رہتا تھا کہ وہ جامعہ اسلامیہ کے مخلوط ماحول میں دیگر مسالک کے علماء سے ملتے جلتے اور علیک سلیک کرتے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلک کی ’’خالصیت‘‘ کے لئے حضرت کاظمی صاحب جامعہ سے استعفیٰ دے دیں۔

تعصب و تنگ نظری پر مبنی ایسے رویوں کا کوئی ثبوت ہمیں صوفیائے متقدمین اور متاخرین کے ہاں نہیں ملتا۔ گذشتہ صفحات میں بیان ہوا کہ یہ نفوس قدسیہ کسی سے ملنے ملانے سے پرہیز نہ کرتے تھے۔ ان صفحات میں گنجائش نہیں ورنہ، حضرت شاہ ابوالخیر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت محمد عمر بیربلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ احمد میروی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سید طاہر حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر کئی بزرگوں کی دیگر مسالک کے علماء سے میل جول کی مثالیں پیش کرتا اور حضرت پیر جماعت علی شاہ محدث علی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادہ سراج ملت حضرت محمد حسین کو مولانا محمود الحسن دیوبندی کی دی ہوئی ٹوپی اور پگڑی کو آج تک سنبھال رکھنے کی تفصیل بیان کرتا اور بعض وہ مثالیں بھی بیان کرتا جس سے ثابت ہوتا کہ

ایں گناہیست کہ در شہرِ شما نیز کنند

سواد اعظم اہل سنت و جماعت کے عقائد وہی ہیں جو صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، چاروں ائمہ کرام، بانیان سلاسل تصوف اور تمام صوفیائے عظام کے تھے۔ ان عقائد و نظریات کے حاملین اہل سنت و جماعت کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے لیکن گذشتہ صدی میں بعض علماء کی کوتاہ نظری، نادانی، عدم بصیرت اور اس مسلک کے مخالفین کی چالاکی سے اہل سنت و جماعت کو ’’ بریلوی‘‘ کے ٹائٹل سے مشہور کر دیا گیا تاکہ اسے ایک نیا فرقہ ثابت کیا جا سکے۔

شیخ الاسلام کی وسعت نظری، دور اندیشی اور بصیرت اس ٹائٹل کے مفاسد کو بھانپ چکی تھی۔ چنانچہ انہوں نے بریلوی اور بریلویت کے لفظ سے اجتناب برتا۔ جس کی بناء پر آج تک ان پر الزامات کی بوچھاڑ اور فتوؤں کی بھرمار ہوتی رہی لیکن الحمدللہ اب ان کی آواز کے ساتھ ساتھ اور آوازیں بھی ملنا شروع ہو گئی ہیں۔

گیا وقت کہ تنہا تھا میں انجمن میں
اب یہاں میرے رازدار اور بھی ہیں

’’ ماہنامہ جام ِنور‘‘ اکتوبر نومبر 2007ء کے شمار وں میں ملت کا درد رکھنے والے ایک عظیم محقق اور اسکالر علامہ ذیشان احمد مصباحی نے ایک تفصیلی فکر انگیز مضمون لکھا جس میں اہلسنت کو مشورہ دیا گیا تھا کہ حالات کا تقاضا اور مصلحت یہ ہے کہ ہمیں بریلوی لفظ اور مسلک اعلیٰ حضرت کے استعمال سے اجتناب برتنا چاہیے کیونکہ اس سے مخالفین کے اس پروپیگنڈا کو تقویت ملتی ہے کہ ’’ بریلوی ‘‘ ایک نیا فرقہ اور مسلک ہے جس کے بانی مولانا احمد رضا خان ہیں۔

علامہ ذیشان احمد کے مطابق ہمیں ’’ بریلوی ‘‘ مشہور کر کے مخالفین خود کو اہل سنت کہنے لگے ہیں۔ چنانچہ ان کے پروپیگنڈا کے اثرات آج ہر جگہ محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ غریب سے امیر تک، تعلیم یافتہ سے جاہل عوام تک ہر ایک پر یہ جادو چل گیا ہے اور وہ اہل سنت (بریلوی) سے دور ہونے لگے ہیں۔

علامہ ذیشان نے مضمون کیا لکھا روایت پسندوں کے خرمنِ امن میں آگ لگا دی۔ انہوں نے اس تحریر کو مسلک اعلیٰ حضرت اور مسلک اہل سنت کا انکار قرار دے دیا۔ اس پر فتووں اور پروپیگنڈے کی ایک زبردست مہم شروع کر دی گئی۔ اور اہل سنت عوام کو ماہنامہ جامِ نور کے مطالعہ سے منع کر دیا۔ اس پر علامہ خوشتر نورانی نے ماہنامہ جامِ نور کے دسمبر 2007ء میں ایک بڑا چشم کشا اور فکر انگیز مفصل اداریہ لکھا۔ اس اداریے کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک سطر ہمارے دل کی آواز ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں سے وطن عزیز میں جاری فرقہ پرستوں کی انہی ہلاکت خیز کارروائیوں نے اس اسلام کی تصویر کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جو سراسر امن و سلامتی اور رحمت و رافت اور رواداری کا دین ہے۔ اس صورت حال نے اسلام کی اشاعت و فروغ میں رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔

دین اسلام کی تبلیغ اور فروغ و اشاعت کے لئے جتنے سازگار حالات 20 ویں صدی کے وسط میں شروع ہوئے اس کی مثال گزشتہ ہزار سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ قدیم دور میں ذرائع آمد و رفت محدود تھے لیکن جدید دور میں فاصلے مٹ گئے ہیں چنانچہ مبلغین کے لئے تھوڑے وقت میں دور دراز سفر آسان ہو گئے ہیں، نیز گذشتہ ادوار میں مذہب کی تبدیلی اور تبلیغ کا کام نہایت دشوار تھا۔ ریاست اور معاشرے کی طرف سے سخت مزاحمت بلکہ تادیب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 1948ء میں اقوام متحدہ نے Universal declaration of human rights میں تمام اقوام عالم سے تسلیم کرا لیا کہ ہر انسان کو مذہب کی تبلیغ یا تبدیلی کا حق حاصل ہو گا۔ اس اعلان سے دعوت اور فروغ اسلام کے بے شمار نئے مواقع کھل گئے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اکیسویں صدی میں دنیا کی اکثریت آغوش اسلام میں آ جائے گی لیکن افسوس کہ ہمارے تنگ نظر علماء اور فرقہ پرست جماعتوں کی فرقہ وارانہ سرگرمیوں، انتہا پسندیوں اور دہشت گردیوں کی بناء پر مسلمانوں کے ہاتھ سے یہ مواقع نکلتے جا رہے ہیں اور غیر مسلم دنیا بدک کر پیچھے ہٹ گئی ہے۔ اس وقت دنیا کو اسلام کے دین امن و سلامتی ہونے اور اس کے رحمت و رافت ہونے کے تصور پر اعتماد بحال کرنے کی ایک ہی موثر صورت ہے اور وہ ہے دعوت و ارشاد میں صوفیانہ حکمت و دانش اور ان کے فکر و عمل کا احیاء۔