کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات، قسط : 11

شفاقت علی شیخ

ترجیحات کا تعین کرنا

قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں امریکن رائٹر ’’سٹیفن آرکووے‘‘ کی تحریر Seven Habits of highly effective people کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون کا یہ سلسلہ ماہنامہ منہاج القرآن میں جنوری 2011ء سے جاری ہے اور اب تک دو خصوصی عادات ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ اور ’’انجام پہ نظر رکھنا‘‘ کو مختلف جہات سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے تیسری عادت ’’ترجیحات کا تعین‘‘ کا دوسرا حصہ نذرِ قارئین ہے۔

اہم و فوری نوعیت کے امور کی انجام دہی

اگر ہم بحران سے دوچار کام، شدید دباؤ میں آئے ہوئے کام، فوری حل طلب مسائل، مقررہ تاریخ میں مکمل کئے جانے والے منصوبہ جات کو ملتوی کرتے رہیں گے اور ان اہم اور فوری نوعیت کے حامل کاموں کو آخری وقت تک ٹالتے رہیں گے تو یہ تمام کام بحرانی شکل اختیار کر لیں گے اور انہیں مزید ٹالنا انسان کے بس میں نہیں رہے گا۔ ہمارے وقت کا بیشتر حصہ انہی کاموں کو کرنے میں گزر جائے تو پھر ساری زندگی بحرانوں کو حل کرنے میں ہی گزر جائے گی اور ہم زندگی کے بازار سے اپنے وقت اور صلاحیتوں کی پوری قیمت وصول نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی کامیابی کی بلندیوں تک پہنچ سکیں گے۔ لوگوں کی اکثریت کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔

جب ان کاموں کا دباؤ ناقابلِ برداشت محسوس ہونے لگتا ہے تو بیشتر لوگ راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے غیر اہم و غیر فوری امور مثلاً

٭ اوٹ پٹانگ سرگرمیاں

٭ فضول اور بے کار کاموں میں مشغولیت

٭ خوش گپیاں و ہنسی مذاق

٭ بے مقصد باتیں و ملاقاتیں اور فون کالز وغیرہ کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔

اس طرح کچھ وقت اہم اور فوری نوعیت کے مسائل کو حل کرنے میں اور بقیہ وقت سکون اور راحت کے عارضی سامانوں سے دل بہلانے میں صرف ہونے لگتا ہے۔ ان کاموں میں ایک نشہ ہوتا ہے جو وقتی طور پر حقائق کو نگاہوں سے اوجھل کر دیتا ہے اور انسان کوعارضی طور پر تسکین مل جاتی ہے لیکن اس طرح مسائل تو حل نہیں ہونے ہوتے بلکہ اُن کا انبار بڑھتا چلا جاتا ہے اور زندگی ناقابلِ برداشت بوجھ دکھائی دینے لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ

٭ ذہنی تناؤ

٭ جسمانی تھکاوٹ

٭ ہر وقت ہنگامی صورت حال

٭ صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ نہ کر سکنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

غیر اہم و فوری نوعیت کے امور کی انجام دہی

فوری نوعیت کے مگر غیر اہم کچھ کام مثلاً

٭ بے وقت مداخلت

٭ غیر اہم فون کالز

٭ چھوٹے چھوٹے مسائل میں مشغولیت

٭ ہر دلعزیز کام وغیرہ دکھائی ایسے ہی دیتے ہیں جیسے یہ بہت اہم ہوں۔

اسی بنا پر انسان مطمئن ہوتا ہے کہ میں اہم کاموں میں وقت کو صرف کر رہا ہوں مگر حقیقتاًوہ وقت کو صرف نہیں بلکہ ضائع کر رہا ہوتا ہے اور وقت کی صورت میں درحقیقت اپنی زندگی کو ہی تباہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ کام بھی فوری عمل کا تقاضا تو کرتے ہیں لیکن اُن میں اہمیت والا پہلو مفقود ہوتاہے۔ اس حصے میں وہ تمام کام آتے ہیں جن کو ہم محض دوسروں کی دل جوئی اور اُن کی خوشنودی کے لیے کرتے ہیں یا بالفاظِ دیگر محض دوسروں کی نظر میں مقبول (Popular) ہونے کے لیے بجا لاتے ہیں۔

اس امور میں زیادہ تر فون کالز، میٹنگز، تقریبات‘ دوست احباب کے ساتھ ملاقاتیں اور اس طرح کے دیگر مشاغل شامل ہیں جن کا مقصد اکثر وبیشتر دوسرے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا، ان کی نگاہوں میں معزز و محترم بننا اور اپنی شخصیت کو ماحول اور معاشرے کے لیے قابلِ قبول بنانا جیسی خواہشات ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض اوقات فون کالز، ملاقاتیں، اور میٹنگز واقعی فائدہ مند اور دور رس اثرات کی حامل ہوتی ہیں مگر یہاں جن فون کالز اور ملاقاتوں وغیرہ کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ ایسی ہیں جن کے اندر مقصدیت اور اہمیت کا پہلو نہ ہو اور اُن کا مقصد محض وقت گزاری اور دوسروں کی نظروں میں نمایا ں بننا ہو۔

ان امور کی انجام دہی کے دوران ہم جو زندگی گزارتے ہیں وہ دراصل ہماری اپنی نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کے لیے ہوتی ہے کیونکہ اُس میں دوسرے لوگ ہی شامل ہوتے ہیں اور اُن کو ہی خوش کرنا مقصود ہوتا ہے ان کاموں پر زیادہ توجہ مرکوز کر دی جائے تو یہ کام بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں اور دیگر کاموں کے لئے وقت سکڑتا چلا جاتا ہے اور اس کے نتیجہ کے طور پر

٭ مقاصد اور منصوبہ بندی کا فقدان
٭ احساسِ کمتری و احساسِ مظلومی
٭ نظم و ضبط کا فقدان
٭ مضبوط اور پائیدار تعلقات کافقدان جنم لیتا ہے۔

غیر اہم و غیر فوری نوعیت کے امور کی انجام دہی

اوٹ پٹانگ سرگرمیاں، بے کار کاموں میں مشغولیت، خوش گپیاں، بے مقصد باتیں و ملاقاتیں اور فون کالز وغیرہ کو تو حقیقتاً کام کہنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ وہ نہ تو اہم ہوتے ہیں اور نہ ہی فوری نوعیت کے حامل ہوتے ہیں کہ جن کو کرنے کے حوالے سے ہمارے اوپر کوئی دباؤ ہو۔ ان تمام کاموں کا تعلق وقت کے ضیاع کے ساتھ ہے کیونکہ اُن میں مشغول ہونے سے نہ تو ہماری شخصیت میں کوئی بہتری آتی ہے اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل ہوتاہے۔ مثلاً ہم گھنٹوں بیٹھ کر تاش کھیلتے رہیں، ٹی وی پر اوٹ پٹانگ قسم کے پروگرام دیکھتے رہیں یا محض ذہنی عیاشی کے لیے کوئی ناول پڑھتے رہیں تو اُس کا حقیقی فائدہ تو کوئی نہ ہو گا البتہ سونے اور چاندی سے کہیں زیادہ قیمتی وقت بڑی تیزی سے ضائع ہوتا چلا جائے گا جس کے نتیجے میں ہم اپنی خوابیدہ صلاحیتیوں کو بھر پور طریقے سے نشو ونما دینے اور کامیابی و کامرانی کے بیشمار مواقع سے استفادہ کرنے سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔ نتیجتاً زندگی محرومیوں، مایوسیوں اور ناکامیوں کا مرقع بنتی چلی جائے گی۔

بے مقصد سرگرمیوں میں مشغولیت کیوں؟

اب سوال یہ ہے کہ ہم ان فضول، بے مقصد اور اوٹ پٹانگ سرگرمیوں میں مشغول ہو کر اپنے آپ کو ضائع کیوں کرتے ہیں؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں :

1۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ نفس کو سستی، کاہلی، غفلت اور لاپرواہی کی عادت ہے۔ انسانی نفس راحت و آسائش کا دلدادہ اور تن آسانی کو پسند کرتا ہے، محنت و مشقت والے کاموں کو نا پسند کرتا ہے اسی لیے ذمہ داریوں کو قبول کرنے سے بھی گریز کرتا ہے کہ اُس میں اس کی آزادیاں اور آوارگیاں ختم ہوتی ہیں۔ یہ کام چونکہ نفس کی اس خواہش کی تسکین بڑے عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔ اس لیے اسے یہاں زیادہ سکون میسر آتا ہے۔

2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب فوری عمل کا تقاضا کرنے والے کاموں کا دباؤ ہمارے اوپر زیادہ ہو جائے تو لا محالہ ہم راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے اپنی سلامتی اور سکون کے لیے ان سرگرمیوں کو گوشہء عافیت سمجھتے ہوئے اُس میں پنا ہ لے لیتے ہیں۔

سطحی نظر سے دیکھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مشاغل ہمیں جسمانی اور ذہنی سکون فراہم کر رہے ہیں لیکن بنظرِ غائر جائزہ لینے سے پتہ چلتاہے کہ ان کاموں میں یہ صلاحیت نہیں ہے کہ یہ ہمیں حقیقی راحت و تسکین سے ہم کنار کر سکیں۔ اگر انسان اپنا زیادہ وقت ان امور میں گزارے تو زندگی کے دوسرے اہم اور ضروری کاموں کے لیے وقت بہت کم بچے گا اور انسان اپنے آپ کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے لیے بھی عضوِ معطل بن کر رہ جائے گا۔ جوں جوں ہمارے معمولات میں یہ مشاغل بڑھتے جائیں گے دیگر اہم اور فوری نوعیت کے کاموں کی طرف متوجہ ہونے کے لئے ہمارے پاس وقت نہ بچے گا۔ نتیجتاً

٭ غیر ذمہ دارانہ زندگی
٭ محرومی و ناکامی
٭ عزت نفس کا فقدان
٭ تعلقات میں خرابی

٭ حقیقی سکون و راحت سے محرومی ہمیں گھیر لے گی۔

اہم و غیر فوری نوعیت کے امور۔ معراج زندگی

زندگی کے اس سفر میں کچھ کام ایسے بھی ہیں جو حقیقت میں زندگی کو عروج سے ہمکنار کرتے ہیں اور انسان کے دامن کو سچی خوشیوں‘ حقیقی مسرتوں اور دائمی راحتوں سے بھر دیتے ہیں۔ ان کاموں میں

٭ پرہیزی اور احتیاطی تدابیر
٭ تعلقات کی استواری
٭ نئے مواقع کی دریافت
٭ آئندہ کے حوالے سے منصوبہ بندی
٭صلاحیتوں کی تجدید شامل ہیں۔

یہ کام اہم تو ہیں کہ اُن کے کرنے سے زندگی پر بہت سے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور زندگی کا سفر بہت آسان ہوتاچلا جاتا ہے لیکن یہ فوری نوعیت کے حامل نہیں ہوتے یعنی وہ ہم سے عمل کا فوری تقاضا نہیں کرتے۔ لہٰذا ہم انہیں لمبے عرصے تک ملتوی کر سکتے ہیں۔

حقیقی امور کی انجام دہی سے گریز کیوں؟

سوال یہ ہے کہ جب ہماری کامیابیوں کا دارومدار انہی کاموں کو زیادہ سے زیادہ بجا لانے پر ہے تو پھر ہم ان سے گریز کیوں کرتے ہیں؟ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں :

1۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ کام فوری عمل کا تقاضا نہیں کرتے اور ان کے کرنے کے حوالے سے ہمارے اوپر کوئی دبائو بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے انہیں ترک کر دینا یا ملتوی کر دینا ہمیں آسان دکھائی دیتا ہے کیونکہ اُن کے فوری نتائج سامنے نہیں آ رہے ہوتے۔

2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ سب کام اہم ہونے کے باوجود بہت زیادہ دلچسپ نہیں ہوتے لہٰذا نفس کو ان کے کرنے میں کوئی خاص رغبت محسوس نہیں ہوتی بلکہ اُلٹا ایک ذمہ داری کا احساس ہوتاہے۔ اس لیے طبیعت ان کاموں کی طرف راغب نہیں ہو پاتی اورانسان ان کاموں کو آنے والے وقت پر ٹالتا رہتا ہے لیکن جن لوگوں نے کامیابی کی بلند منزل پر پہنچنا ہوتا ہے وہ ان کاموں کو ترک یا ملتوی کرنا گوارا ہی نہیں کرتے۔

کامیاب و ناکام لوگوں میں فرق

کامیاب اور ناکام لوگوں میں فرق ایک جملے میں یہ ہے کہ ناکام لوگ اُن کاموں کی طرف لپکتے ہیں جو اُن کو پسند ہوں اورطبیعت کو مرغوب ہوں چاہے وہ بے فائدہ بلکہ نقصان دہ ہی کیوں نہ ہوں مگر کامیاب لوگ کسی کام کو کرنے نہ کرنے کا معیار اپنی ذاتی پسند و نا پسند اور دلچسپی یا غیر دلچسپی کو نہیں بناتے بلکہ وہ اُس کام کی اہمیت کو دیکھتے ہیں۔ وہ ہر اہم کام کو کرتے ہیں خواہ وہ اُنہیں کتنا ہی نا پسند ہو اور ہر غیر اہم کام سے گریز کرتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی انہیں پسند ہوں گویا ناکام لوگ اپنی طبیعت اور مزاج کے غلام ہوتے ہیں اور اپنے جذبات و احساسات کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہتے ہیں جبکہ کامیاب لوگ اپنے جذبات و احساسات، عادات و اطوار اور اپنے اعمال و افعال کے آقا ہوتے ہیں اور انہیں اپنی اقدار، بلند مقاصد اور طے شدہ نصب العین کے تابع رکھتے ہیں۔

اہم و غیر فوری امور پر توجہ کے نتائج

پرہیزی اور احتیاطی تدابیر، تعلقات کی استواری، نئے مواقع کی دریافت، آئندہ کے حوالے سے منصوبہ بندی، صلاحیتوں کی تجدید ایسے امور ہیں جو معیاری اور دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ یہ وہ سرگرمیاں ہیں جو ہمارے اندر قوتِ استعداد بڑھاتی ہیں اور ہماری کارکردگی میں اضافہ کرتی ہیں اور دنیا کی سٹیج پر ہمیں ایک بھرپور‘ فعال اور متحرک کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ مثلاً اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرنا‘ اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو پروان چڑھانے اور اُنہیں بھرپور انداز میں استعمال کرنے کے حوالے سے مناسب تدابیر اپنانا، مستقبل میں پیش آنے والے حالات کی قبل از وقت تیاری کرنا۔ یہ سارے کام وہ ہیں جو ہماری زندگی میں مضبوطی اور استحکام لاتے ہیں اور ہماری اثریت میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے وقت، صلاحیتوں اور مواقع سے بھرپور استفادہ کرنے کے قابل بناتے ہیں اور دنیا کی سٹیج پر اپنا مخصوص اور منفرد کردار بطریق ِ احسن ادا کرنے کے لیے ہمیں تیار کرتے ہیں۔

جوں جوں انسان ان کاموں پر توجہ مرکوز کرتاہے تو اس کے نتیجے میں فوری اور اہمیت کے حامل کام بھی کم ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ جب ہر کام اپنے وقت پر مکمل ہوتا چلا جائے گا تو پھر ہنگامی کام خود بخود کم سے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں

٭ زندگی میں توازن، اعتدال، ہم آہنگی اور ٹھہراؤ
٭ نظم و ضبط (Discipline)
٭ حالات اور معاملات کا کافی حد تک کنٹرول میں ہونا
٭ ذہنی و قلبی سکون و اطمینان
٭ شخصیت میں مسلسل ترقی و ارتقاء اور اثر انگیزی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

یوں تو ہم سب لوگ اپنا وقت اہم و فوری، اہم و غیر فوری، غیر اہم و فوری اور غیر اہم و غیر فوری کاموں میں ہی صرف کرتے ہیں لیکن کامیابی کا دارمدار اس بات پر ہے کون اپنا کتنا وقت ان چاروں میں سے کہاں صرف کرتاہے۔ کامیاب لوگوں کی خوبی یہ ہے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اہم و غیر فوری کاموں میں صرف کرتے ہیں اور اہم و فوری نوعیت کے کاموں میں ضرورت اور مجبوری کی حد تک ہی رہتے ہیں اور غیر اہم و فوری اور غیر اہم و غیر فوری کاموں سے حتی الوسع گریز ہی کرتے ہیں کیونکہ ان دونوں کا تعلق غیر ذمہ دارانہ زندگی کے ساتھ ہے۔ جتنا زیادہ کوئی شخص اپنا وقت اہم و غیر فوری کاموں میں صرف کرنا شروع کر دیتا ہے اُسی تناسب سے کامیابی کا معیار بلند سے بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جو شخص پہلے سے ایک غیر منظم اور بے ترتیب زندگی گزار رہا ہے اور اب وہ اپنی زندگی کو منظم کرنا چاہتاہے تو اُسے اہم و غیر فوری کاموں میں زیادہ وقت صرف کرنے کے لیے ابتداء میں وقت غیر اہم و فوری اور غیر اہم و غیر فوری کاموں سے لینا پڑے گا کیونکہ بحرانی اور ہنگامی مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا شروع میں انہی امور پر صرف کئے جانے والے کاموں کی قربانی دینی ہو گی۔ تاہم جوں جوں انسان اہم اور غیر فوری نوعیت کے کاموں پر محنت کر کے زندگی کے معیار کو بہتر بناتا چلا جائے گا تو پھر اہم اور فوری نوعیت کے ہنگامی مسائل اور بحرانی کام خود بخود کم سے کم ہوتے چلے جائیں گے اور یہ ہم سے صرف اتنے ہی وقت کا متقاضی ہوں گے جو کہ حقیقت میں نارمل اور صحت مند زندگی میں ہونا چاہئے۔

’’ہاں‘‘ اور ’’نہ‘‘ کہنا سیکھئے!

اہم و غیر فوری نوعیت کے کاموں کو کرنے کے لیے ہمیں ذمہ دار (Proactive) بننا پڑے گا۔ اس لیے کہ اہم و فوری اور غیر اہم و غیر فوری نوعیت کے کام ہم پر عمل کرتے ہیں اور ہمیں دباؤ کی کیفیت میں لے آتے ہیں۔ لہٰذا اہم و غیر فوری ترجیحات کو’’ہاں‘‘ کہنے لیے ہمیں بعض دوسرے کاموں کو ’’ نہ ‘‘ کہنا سیکھنا پڑے گا۔ اگرچہ اُن میں سے کچھ چیزیں ہمیں فوری نوعیت کی دکھائی دیں گی۔ ہمیں پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہماری اہم ترجیحات کیا ہیں اور پھر اپنے اندر یہ حوصلہ پیدا کرنا ہو گا کہ ہم اُن کے مقابلے میں دوسری غیر اہم یا کم اہم چیزوں کو ’’نہ‘‘ کہہ سکیں مگر اس’’نہ‘‘ کہنے کے لیے پہلے ہمارے اندر ایک بھڑکتی ہوئی ’’ہاں‘‘ کا ہونا ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہم پہلے کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے پہلی عادت ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ کے ذریعے ’’خود اعتمادی اور احساسِ ذمہ داری‘‘ پیدا کر چکے ہوں اور پھر دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کے ذریعے اپنے نصب العین اور اپنی گہری اقدار کو قلب و ذہن میں اتار چکے ہوں۔

یوں تو ہم ہر وقت کسی کام کو ’’ ہاں‘‘ اور کسی کو ’ ’نہ‘‘ کہہ رہے ہوتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں ہر وقت ہمارے سامنے مختلف کاموں کے آپشنز کھلے ہوتے ہیں۔ اُن میں سے ہم نے کسی کو لینا ہوتا ہے اور کسی کو چھوڑنا ہوتا ہے لیکن عام طور پر ہم سوچ سمجھ کر فیصلہ نہیں کرتے اور یونہی بلا سوچے سمجھے اہم اور ضروری کاموں کو چھوڑ کر کم اہم یا غیر اہم کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً اپنے وقت کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کی بجائے کبھی بہتر پر اکتفا کر لیتے ہیں اور کبھی وقت کو ضائع کرتے چلے جاتے ہیں لیکن اگر ہمارے اندر ہمارا نصب العین راسخ ہو چکا ہے اور ہماری زندگی درست اصولوں پر قائم ہو چکی ہے تو پھر ہمارے اندر یہ بصیرت پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم ہر موقع پر مؤثر انداز میں صحیح فیصلہ کر سکیں اور اپنے وقت کو بہترین انداز میں استعمال کر سکیں۔ نیز ہمارے اندر اتنی جرات بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو حوصلہ مندانہ طور پر عبور کر سکیں اور ثابت قدمی اور استقامت سے اپنے متعینہ راستے پر گامزن رہ سکیں۔

بزدلی کے بجائے جرات مندی کا اظہار

تیسری عادت ’’ترجیحات کا تعین‘‘ ہم سے صرف وقت کو بہترین انداز میں استعمال کرنے کا ہی تقاضا نہیں کرتی بلکہ یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ دوسری عادت ’’انجام پر نظر رکھنا‘‘ کے ذریعے جن اقدار کو ہم نے اپنی زندگی کے لیے متعین کیا ہے اُن پر کاربند رہیں۔ بالفاظ دیگر یہ عادت ہمیں اہم کاموں اور اہم اصولوں پر کاربند رہنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہ چیزقدرے مشکل ہے اور اس میں طبیعت پر جبر کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف ہماری طبیعت کی سہل پسندی آسان کاموں کی طرف لپکتی ہے اور محنت طلب اور پُرمشقت کاموں سے بالعموم گریز کرنا چاہتی ہے۔ معمول (Routine) کے حالات میں تو پھر بھی انسان کسی نہ کسی درجے میں اہم چیزوں کو اپنی عملی زندگی میں اولیت دے دیتا ہے لیکن خوف اور دباؤ کی حالت میں ان چیزوں پر کاربند رہنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے اور عافیت ان چیزوں کو نظر انداز کر دینے میں ہی دکھائی دیتی ہے۔ اس صورتِ حال کو مندرجہ ذیل دائرے کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے۔

مندرجہ بالا شکل میں اندرونی دائرہ ایسی چیزوں کی نمائندگی کرتا ہے جن سے ہم مانوس ہیں اس میں ایسی جگہیں ہیں جنہیں ہم جانتے ہیں۔۔۔ ایسے دوست ہیں جن کے ساتھ ہم آسانی محسوس کرتے ہیں۔۔۔ اور ایسی سرگرمیاں ہیں جنہیں انجام دیتے ہوئے ہمیں لطف محسوس ہوتا ہے۔ اس حلقے میں ہمیں کسی قسم کا خطرہ درپیش نہیں ہوتا۔ یہ بہت آسان ہے اور یہاں ہم اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔

اس کے برعکس بیرونی دائرہ اُن سرگرمیوں سے عبارت ہے جن میں ہمارے حوصلے، جرات مندی اور جوانمردی کا امتحان ہوتا ہے۔ مثلاً نئے دوست بنانا، بڑے ہجوم کے سامنے تقریر کرنا، ہر قسم کے حالات میں اپنی اقدار پر قائم رہنا اور بیرونی خوف اور دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے متعینہ راستے پر گامزن رہنا وغیرہ ایسے کام ہیں جو خطرات اور چیلنجز سے بھر پور ہیں۔ یہاں ہر وہ شے نظر آتی ہے جس کی بدولت وقتی طور پر ہم بے سکونی، مشقت اور کلفت محسوس کرتے ہیں۔ اس حلقے میں کئی رکاوٹیں، مزاحمتیں اور الجھنیں ہیں جن پر قابو پانے کے لیے مضبوط قوتِ ارادی درکار ہوتی ہے۔ نیز یہاں نتائج کے حوالے سے بے یقینی اور ناکامی کا خوف بھی ہوتا ہے تاہم مواقع کو حاصل کرنے اور کامیابی کی بلند سے بلند منزلیں حاصل کرنے کی جگہ بھی یہی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہم اپنی صلاحیتوں کو بھر پور انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔

کامیاب اور ناکام لوگوں میں بڑا فرق یہی ہے کہ ناکام لوگ اپنی طبیعت کی سہل پسندی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وقتی لذتوں، راحتوں اور آسانیوں کی تلاش میں زیادہ تر وقت اندرونی دائرے میں صرف کرتے ہیں جب کہ کامیاب لوگ اپنے وقتی جذبات و احساسات پر قابو کر کے اندرونی دائرے کی آسانیوں سے باہر نکل کر زیادہ سے زیادہ وقت بیرونی دائرے کے مشکل اور اہم کاموں کو کرنے میں صرف کرتے ہیں اور نتیجتاً ہر آنے والے دن میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں اور اُن کی اثرانگیزی کا دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔

(جاری ہے)