تجدید دین اور اس کے تقاضے

سید فرحت حسین شاہ

اللہ رب العزت نے انسانیت کی رشد وہدایت کا جو الوہی نظام بنایا ہے، اس کے مطابق انسانوں ہی میں سے بعض لوگوں کو منتخب اور چن کر امام وپیشوا بنا دیا جاتا ہے جو انسانیت کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ اَئِمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا.

(السجده : 24)

’’اور ہم نے ان میں سے جب وہ صبر کرتے رہے کچھ امام و پیشوا بنا دیئے‘‘۔

اس ضابطہ خداوندی کے مطابق حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک انبیاء کرام اور رسل عظام کے ذریعے امامت و پیشوائی کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا گیا کہ آپ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا لہذا قیامت تک اور بعد از قیامت نبوت و رسالت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ہو گی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقاصد کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا :

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ.

’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے‘‘۔

(التوبة : 33)

اس آیت مبارکہ میں صراحتا دو چیزوں کا ذکر کیا ہے :

1۔ ہدایت اور دین حق

2۔ اس ہدایت اور دین حق کو تمام ادیان پر غالب اور جاری وساری کرنا۔

کار نبوت ورسالت کی امت کو منتقلی

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک کو اللہ تعالی نے جامع صفات وکمالات بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری میں دین کے تمام پہلو اور تمام معاملات پورے ہوتے رہے، بعثت کا مقصد مکمل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد یہ عظیم کام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو منتقل ہوا۔ اس لئے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی ہرطرح کی حفاظت کا قیامت تک وعدہ لے رکھا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ

یہ منشاء خداوندی ہے کہ دین اسلام قیامت تک غالب ومستحکم ہی رہے اور جاری وساری بھی۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کے بعد جب یہ فریضہ امت مصطفوی کو منتقل ہوا تو امت میں کوئی فرد واحد ایسا نہ تھا جو بتمام وکمال کارنبوت کو لے کر چلتا۔ اس حکمت کے پیش نظر کارِنبوت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور امت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت و خلافت دو طرح نصیب ہوئی :

  1. خلافت ظاہری
  2. خلافت باطنی

خلافت ظاہری کا مقصد

خلافت ونیابت ظاہری امت کو اس لئے عطا کی تاکہ دین اسلام کا ظاہری غلبہ قائم رہے اور اس خلافت کی موجودگی میں اسلام کو محکوم ومغلوب ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الاسلام يعلو ولا يعلی

’’اسلام دنیا میں غالب‘ اونچا اور سربلند ہونے کے لئے آیا ہے۔ مغلوب وسرنگوں ہونے نہیں آیا۔‘‘

گویا خلافت ظاہری کے ذریعے اسلام کا سیاسی غلبہ بحال ہوتا رہے گا۔ خلافت ظاہری کی عملی صورت خلفائے راشدین اور آقا علیہ السلام کی امت کے نیک اور صالح حکمرانوں اور ریاست کی سربراہی ہے۔

خلافت باطنی کا مقصد

دین اسلام کا دینی‘ علمی‘ اخلاقی اور روحانی غلبہ خلافت باطنی کے ذریعے قائم رکھا جائے گا اور نسل درنسل منتقل ہوتا رہے گا۔ اہل فن اور اہل علم نے خلافت باطنی کو تین شعبوں میں تقسیم کیا ہے۔

  1. علم العقائد
  2. علم الاحکام
  3. علم الاخلاص

علم العقائد :

وہ علم جو عقائد سے تشکیل پایا، اہل فن نے اس کو علم العقائد کا نام دیا۔

علم الاحکام :

وہ علم جو احکام سے تشکیل پایا، اہل فن نے اس کو علم الفقہ کا نام دیا۔

علم الاخلاص :

وہ علم جو اخلاص سے تشکیل پایا، اہل فن نے اس کو علم التصوف والطریقت کا نام دیا۔

اسی بنا پر خلافت باطنی کے لئے تین طبقات علماء وجود میں آئے۔

(i) علمائے متکلمین :

علمائے متکلمین نے درست اور صحیح عقائد کا تحفظ اور دفاع کیا اور قرآن وسنت کی روشنی میں باطل افکار ونظریات کا ردکیا۔ جیسے امام ابوالحسن اشعری اور امام ابومنصور ماتریدی۔

(ii) علماء وفقہا :

احکام قرآن وسنت لوگوں تک پہنچائے۔ جدید مسائل کے لئے اجتہاد کیا، آنے والے مسائل ومشکلات کا حل قرآن وسنت کی روشنی میں عطا کیا اور اس کے لئے اصول وضوابط وضع کئے جیسے ائمہ اربعہ۔

(iii) صوفیاء واولیاء :

طریقت وتصوف‘ صدق واخلاص اور باطنی دولت ان کے ذریعے امت میں جاری وساری ہوئی۔

عروجِ امت کیلئے الوہی انتظام

امراء‘ سلاطین اور صالح حکمرانوں کے ذریعے خلافت ظاہری کے لئے امرِ سیاسی کی حفاظت کا کام بھی ہوتا رہا اور علماء وفقہاء اور صوفیاء کے ذریعے خلافت باطنی کا اہتمام بھی ہوتا رہا لیکن یہ امر واقع ہے کہ ہر کام میں جوں جوں وقت گزرتا چلا جاتا ہے، احوال زمانہ کی وجہ سے اس میں بگاڑ بھی پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔ زمانہ جیسے جیسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کے زمانے سے دور ہوتا چلا گیا اسی قدر امت زوال آشنا ہوتی چلی گئی۔ امت کے احوال بدل گئے، بگاڑ اور تباہی آئی، دین کی قدریں پامال ہوئیں، لوگ دین سے دور ہوتے گئے اور دین پر عمل ترک ہونے لگا۔

امت مسلمہ کا اس طرح زوال آشنا ہونا اور اس میں بگاڑ کا آنا اللہ رب العزت کے علم میں تھا چنانچہ اس علیم وقدیر ذات نے اس بگاڑ کی اصلاح کے لئے اور زوال کو پھر سے عروج میں بدلنے کے لئے علاج بھی امت مصطفوی کو عطا کیا اور درج ذیل تین طبقات امت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کئے :

  1. مصلحین : اصلاح کرنے والے
  2. مجتہدین : اجتہاد کرنے والے
  3. مجددین : تجدید دین کرنے والے

اصلاح احوال امت کو سنوارنے کیلئے مصلحین و مجتہدین کو ذمہ داری سونپی۔۔۔ اور امت کا زوال ختم کرنے کیلئے مجدد دین کا طبقہ بنایا۔

ان تینوں طبقوں کے سپرد جدا جدا کام کئے۔۔۔ ان کے دائرہ ہائے کار بھی جدا جدا رکھے۔ ان کے کام کارنگ و اسلوب بھی جدا جدا رکھا۔۔۔ ان کے احوال ومراتب بھی الگ الگ رکھے۔۔۔ ان کے کام کے اثرات کو بھی جدا جدا رکھا۔۔۔ ان کے درجات بھی مختلف رکھے۔

یہ لوگ امر سیاسی کی حفاظت کے لئے بھی آئے اور امر باطنی کی حفاظت کے لئے بھی آئے۔ اگر زوالِ امت امر مذہبی، امر باطنی اور اعمال واحکام میں آیا تو اس کی اصلاح کے لئے مصلح عطا کیا۔۔۔ اعمال و احکام کی اصلاح اور جدید مسائل کے حل کے لئے مجتہد عطا کیا۔۔۔ اور امر دین نے تجدید کا تقاضا کیا تو مجدد پیدا فرما دیا۔۔۔ گویا ہر ہر شعبہ دین کے اندر مصلح، مجتہد اور مجدد حسب ضرورت امت کو عطا کیا۔

مصلح کی آمد کا اصول اور ذمہ داریاں

مصلح کی آمد کا اصول وضابط یہ ہے کہ جب عقائد میں افراط وتفریط ہونے لگے‘ کمی بیشی ہونے لگی، غلو ہونے لگے۔۔۔ ادب الوہیت پیش نظر نہ رہے‘ ادب بارگاہ رسالت پیش نظر نہ رہے۔۔۔ ادب اولیاء وصلحاء پیش نظر نہ رہے‘ ادب دین پیش نظر نہ رہے۔۔۔ کتاب وسنت کے عقائد نظروں سے اوجھل ہو جائیں‘ باطل افکار ونظریات کی یلغار آنے لگے۔۔۔ تو پھر عقائد کی اصلاح کے لئے‘ اعمال واحکام کی اصلاح کے لئے مصلح کی ضرورت ہوتی ہے۔

مصلح اپنی محنت‘ کوشش اور جدوجہد سے اصلاح کا کام کرتا ہے‘ وہ بگاڑ کو مٹاتا ہے‘ غلو کو ختم کرتا ہے‘ اعمال واحکام پر لوگوں کو راغب کرتا ہے اور صحیح عقائد کا چہرہ سنوار کر امت کے سامنے رکھتا ہے۔ بہت سے علمائے صالحین اور بزرگان دین یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔

مجتہد کی آمد کا اصول اور ذمہ داریاں

اگر حالات اتنے زیادہ بگڑ چکے ہوں کہ مصلح کی اصلاح کار آمد نہ رہی ہو‘ عقائد‘ اعمال‘ اقدار اور حالات میں تغیر بہت زیادہ آ چکا ہو۔۔۔ نئے تقاضے اور مسائل اس قدر پیدا ہو چکے ہوں کہ علم وفکر‘ قانون اور اقدار کا تصور اپنی ظاہری ہیت کی تشکیل نو کو چاہتا ہو۔۔۔ کتاب وسنت پر عملدرآمد کو بحال کرنے کے لئے اخلاق کے نئے طور طریقے چاہتا ہو۔۔۔ حدیث پاک کی تعلیمات کا دور جدید کے مطابق معنی ومفہوم چاہتا ہو تو ایسے حالات میں مجتہد کو بھیجا جاتا ہے۔

مجتہد قرآن وسنت اور اجماع کی روشنی میں مقررہ شرائط کے مطابق استنباط واستخراج کرتا ہے‘ قوانین کی تشکیل نو کرتا ہے۔۔۔ قرآن وسنت کی نصوص کی تعبیر نو کرتا ہے۔۔۔ قیاس سے کام لیتا ہے‘ اجتہاد کرتا ہے۔۔۔ ضرورت شرعی‘ نظائر شرعیہ‘ قضاء حکام‘ اقوال فقہاء‘ استدلال واستعاب ‘ تغیر زماں سے تغیر احکام کے اصولوں کو اپناتا ہے۔۔۔ کبھی اجتہاد بیانی کرتا ہے اور کبھی اجتہاد قیاسی کرتا ہے‘ کبھی سنت کی نئی تعبیر لاتا ہے۔۔۔ کبھی حدیثوں کے نئے معارف کھولتا ہے اور کبھی معانی قرآن کے سمندر بہاتا ہے۔ وہ خداداد صلاحیت کے پیش نظر اسلاف کی یاد تازہ کرتا ہے وہ خدا ومصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کو قابل عمل بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔

مجدد کی آمد کا اصول اور ذمہ داریاں

جب حالات اس سے بھی زیادہ بگڑ جائیں کہ محض مجتہد کے آنے سے بھی حالات نہ سنوریں‘ دین اسلام کی قدریں مٹ جائیں‘ شعائر اسلام کا مذاق اڑایاجانے لگے۔۔۔ دین اسلام کو ناقابل عمل سمجھا جانے لگے‘ لوگ دین سے منحرف ہونے لگیں۔۔۔ باطل غالب آنے لگے‘ طاغوت طاقتور ہو جائے۔۔۔ دین اور اہل دین کمزور ہو جائیں اور دین کا پرچم ظاہرا سرنگوں ہونے لگے۔۔۔ اسلامی اقدار منہدم ہونے لگیں‘ شریعت پر عمل ترک ہو۔۔۔ الغرض زندگی کا ہر شعبہ زوال کا شکار ہو تو ایسے حالات میں مجدد کو بھیجا جاتا ہے۔

مجدد خداداد صلاحیت سے دین کی مٹی ہوئی قدروں کو پھر سے زندہ کرتا ہے۔ کفر وطاغوت کے ہر باطل ہتھکنڈے کو کمال حکمت و بصیرت سے شکست دیتا ہے۔ وہ امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگاتا ہے۔ باطل کے ہر چیلنج کا منہ توڑ جواب دیتا ہے۔ باطل افکار ونظریات کا توڑ کرتا ہے۔ نتیجتاً احوال زمانہ اس کی کوشش سے بدل جاتے ہیں‘ وہ کفر وطاغوت کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ دین اسلام کے پرچم کو سربلند کر دیتا ہے اور جو لوگ حالات زمانہ کی وجہ سے دین سے منہ موڑ چکے تھے پھر کشاں کشاں دین کی طرف راغب ہونے لگتے ہیں۔

مصلح، مجتہد اور مجدد میں فرق

مصلح :

مصلح کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے اور یہ ہر وقت موجود ہے۔ ایک ہی وقت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں ہزاروں نیک اور مقرب لوگ اصلاح کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مصلح کی اصلاح کی تاثیر مختلف ہوتی ہے یہ کم وقت کے لئے بھی ہوتی ہے اور زیادہ دیر کے لئے بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے کسی خاص وقت کا تعین نہیں کیا گیا۔

مجتہد :

مجتہد پر بھی کوئی پابندی نہیں لگائی کہ وہ کس سال میں سامنے آ سکتا ہے۔ امت کو جب بھی ضرورت اجتہاد ہو گی، مجتہد آئے گا۔ ہر گھڑی آ سکتا ہے‘ ہر وقت آ سکتا ہے، کوئی قدغن نہیں لگائی۔

مجدد :

کار امت مصلح سے چلتا رہے گا‘ مجتہدین آتے رہیں گے لیکن جب سو سال گزرجائیں گے پھر مجدد کو بھیجا جائے گا۔ پھر مجدد جو کام کرے گا اس کا اثر سو سال تک رہے گا۔ سو سال کے بعد پھر جب دوبارہ ضرورت ہو گی تو پھر مجدد کو بھیجا جائے گا۔ مصلحین‘ مجتہدین اور مجددین یہ سب کے سب آئِمَّةٌ يَهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا کے مصداق ٹھہرے۔ اب ہم قدرے تفصیل کے ساتھ مجدد کے حوالے سے بات کریں گے۔

تفویض کردہ امور کے لحاظ سے اقسام مجدد

ائمہ دین کے وضع کردہ اصول وضوابط کی روشنی میں مجددین کے کام کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

(1) خلافت ظاہری کے لئے۔ سیاسی مجدد

(2) خلافت باطنی کے لئے :

(i) مجدد فی العقائد

(ii) مجدد فی الاحکام

(iii) مجدد فی الطریقت والتصوف

واضح رہے کہ یہ تقسیم غلبہ حال اور خصوصی امتیاز کی نشاندہی ہے ورنہ ہر قسم میں سے کوئی بھی قسم دوسری قسم کے خواص وکمالات سے کلیتاً خالی نہیں ہے۔ ان میں سے ہر ایک کودوسری قسم کے ساتھ کوئی نہ کوئی نسبت اور اشتراک حاصل ہے۔

اگر جماعت مجددین کا تنقیدی جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ پاک نے ہر مجدد کو جدا جدا صلاحیتوں اور خوبیوں سے نوازا ہے۔

بعض کو یک جہتی‘ بعض کو دوجہتی بعض کو سہ جہتی اور بعض کو ہمہ جہتی مجدد بنایا‘ بعض مجددین کو کسی ایک وصف اور فن میں باکمال کر دیا اور اس مجدد نے اپنے دور کے اس فتنے کا مقابلہ کیا۔ کسی دوسرے دور میں کوئی نیا فتنہ اٹھا اس نئے فتنے کو ختم کرنے کے لئے کسی دوسرے مجدد کو بھیج دیا۔

جیسے فتنہ قادیانیت ومرزائیت کو ختم کرنے کے لئے حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو بھیجا‘ جنہوں نے ہر سطح پر اس کا مقابلہ کیا اور ’’سیف چشتیائی‘‘ لکھ کر اس فتنے کا سر کچل کر رکھ دیا۔۔۔ فتنہ وہابیت ونجدیت پیدا ہوا تو اللہ تعالی نے اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے اس فتنے کا سدباب کیا۔

برصغیر پاک وہند میں سیاسی و فکری زوال آیا تو حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو پیدا کیا جنہوں نے امت کے عروق مردہ میں روح پھونکی اور سیاسی زوال کو ختم کرنے کے لئے قوم کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔

بعض مجدد ہمہ جہت شان کے مالک ہوتے ہیں وہ بیک وقت سیاسی زوال‘ دینی زوال اور تصوف و روحانیت کے زوال کو ختم کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں اور ان کی سعی وکاوش سے اللہ رب العزت ہمہ جہت، نوعیت کی تبدیلی امت کا مقدر کر دیتے ہیں۔

اس کی مثال ہمیں ماضی قریب میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کی صورت میں نظر آتی ہے‘ جنہوں نے بیک وقت اکبری الحاد اور اس کے بنائے ہوئے دین الہی کا مقابلہ بھی کیا۔ اس دور کے درباری علماء دین کے احکامات کو پس پشت ڈال چکے تھے اور طریقت کو شریعت سے جدا کیا جا رہا تھا‘ شریعت کا میلان ختم ہو چکا تھا۔ لوگوں کے عقائد کو بدلا جا رہا تھا۔ گویا ہمہ جہت نوعیت کا زوال تھا۔ اس زوال کے خاتمے کے لئے اللہ رب العزت نے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کو پیدا فرمایا۔ آپ کی محنت اور کوشش سے حالات بدلے‘ احوال زمانہ بدلے‘ امر سیاست میں تبدیلی ہوئی‘ لوگوں کو درست عقائد پر گامزن کیا‘ امر طریقت اخلاص کی صحیح راہ پر چل پڑا۔

مجدد احادیث مبارکہ کی روشنی میں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود زبان رسالت سے مجدد کی تعریف ‘ اس کا زمانہ تجدید اور اس کے کام کے اثرات کو بیان فرمایا :

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه فِيْمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُّجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس (علم) میں سے جو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو اس (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘

(ابو دائود فی السنن، کتاب الملاحم، باب ما يذکر فی قرن المائة، 4 / 190، رقم : 4291)

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَدْنَی الرِّيَاءِ شِرْکٌ وَأَحَبَّ الْعَبِيْدِ إِلَی اﷲِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْأَتْقِيَاءُ الْأَخْفِيَاءُ الَّذِيْنَ إِذَا غَابُوْا لَمْ يُفْتَقَدُوْا وَإِذَا شَهِدُوْا لَمْ يُعْرَفُوْا أُوْلَئِکَ أَئِمَّةُ الْهُدَی وَمَصَابِيْحُ الْعِلْمِ.

(الحاکم فی المستدرک، 3 / 303، الرقم : 5182، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 5 /  163، الرقم : 4950)

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معمولی سا دکھاوا بھی شرک ہے اور بندوں میں سے محبوب ترین بندے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک متقی اور خشیت الٰہی رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو موجود نہ ہوں تو تلاش نہ کیے جائیں اور موجود ہوں تو پہچانے نہ جائیں، وہی لوگ ہدایت کے اِمام اور علم کے چراغ ہیں۔‘‘

عَنِ الْحَسَنِ بِنْ عَلِيٍّ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ جَاءَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ لِيُحْيِي بِهِ الإِسْلَامَ فَبَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّيْنَ دَرَجَةٌ وَاحِدَةٌ فِي الْجَنَّةِ.

(الدارمی فی السنن، باب : فی فضل العلم والعالم، 1 / 112، الرقم : 354)

’’حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دورانِ حصولِ علم اگر کسی شخص کو موت آ جائے اور وہ اس لئے علم حاصل کر رہا ہو کہ اس کے ذریعہ سے اسلام کو زندہ کرے گا تو اس کے اور انبیاءِ کرام کے درمیان جنت میں صرف ایک درجے کا فرق ہو گا۔‘‘

عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْفَرْيَابِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رضی الله عنه : إِنَّ اﷲَ يُقَيِّضُ لِلنَّاسِ فِيکُلِّ رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُعَلِّمُهُمُ السُّنَنَ وَيَنْفِي عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْکِذْبَ.

(المزی فی تهذيب الکمال، 24 /  365، والعسقلاني فی تهذيب التهذيب، 9 / 25)

’’حضرت ابو سعید فریابی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر صدی کے آخر پر لوگوں کے لئے ایک ایسی شخصیت کو بھیجتا ہے جو لوگوں کو سنت کی تعلیم دیتی ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب جھوٹ کی نفی کرتی ہے۔‘‘

مجدد کی خصوصیات

احادیث مبارکہ سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مجدد انتخاب خداوندی ہے۔ تجدید کی صلاحیت اس کی خلقت میں ودیعت کی جاتی ہے۔ یہ صلاحیت پروان چڑھتی رہتی ہے۔ جب مناسب وقت آتا ہے تو وہ مرد مجاہد اس کام کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے۔

٭ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ یحیی بہ الاسلام وہ ایسا علم حاصل کرتا ہے جس سے اسلام کو زندہ کرتا ہے۔ اس کے علم میں اسلاف کے علم کی جھلک بھی موجود ہو گی مگر اس کا امتیاز دور جدید کے مطابق اس کا تخلیقی علم ہو گا۔ وہ اپنے تخلیقی علم کے ذریعے احیاء وتجدید کا کام کرے گا اور دور حاضر کے مسائل اور فتنوں کا سدباب کرے گا۔

٭ مجدد کا علم قدیم وجدید کا حسین امتزاج ہوتا ہے۔ مجدد کی بنیادی ذمہ داری اصل بنیاد پر قائم رہتے ہوئے حال و مستقبل میں پیش آمدہ مسائل کا حل دینا ہے۔ دین میں کوئی نئی بات داخل نہیں کرتا نہ ہی ایسے اعمال بجا لاتا ہے جس سے اسلاف کی قائم کردہ عمارتوں کو منہدم کر دے‘ کتاب وسنت سے منحرف ہو جائے‘ شریعت کے وضع کردہ اصول وضوابط سے باہر نکل جائے بلکہ مجدد جو کچھ بھی کرتا ہے اسلاف کی پیروی میں کرتاہے‘ ان کے کام کو موثر کرتا ہے‘ ان کی جدوجہد میں مزید تاثیر لاتا ہے۔ اُسے علوم عصریہ اور قدیمہ پر کامل دسترس عطا کی جاتی ہے۔ قرآن وسنت کی تعبیر وتفسیر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کرنا اس کی ذمہ داری ہوتا ہے۔

٭ مجدد کا کردار اپنے زمانے اور معاشرے میں مثالی ہوتا ہے اور اس کا کردار‘ کردار نبوت کا عکس ہوتا ہے۔ نگاہ خداوندی اس کی حفاظت کرتی ہے۔ اسے کردارمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض ملتا ہے۔

٭ مجدد اپنی صلاحیت‘ قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے ہر دنیاوی عہدہ اور منصب کا اہل ہوتا ہے مگر اس کے دل میں کسی عہدہ ومنصب‘ جاہ وحشمت اور دنیاوی مال ودولت کا کوئی لالچ نہیں ہوتا۔ اگر دنیا جہاں کی دولت لا کر اس کے قدموں میں ڈھیر کر دی جائے تو وہ اسے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔

مجدد کی مخالفت قانون فطرت ہے

یہ دنیا کا قاعدہ ہے کہ جس پر اللہ تعالی کی رحمت وکرم‘ فضل واحسان زیادہ ہو اس پر حسد بھی اسی قدر زیادہ کیا جاتا ہے۔ عربی کا بھی قاعدہ ہے کہ المنعم المحسود ’’نعمتوں والے پر حسدکیا جاتا ہے۔‘‘

بزرگان دین فرماتے ہیں کہ جس درخت پر پھل زیادہ ہو گا، پتھر بھی زیادہ اسی کو مارے جائیں گے۔

مجدد کی مخالفت کرنے والوں میں وہ تمام طبقات اور لوگ شامل ہوں گے جن کے مفادات دین کی مخالفت پر مبنی ہوں گے یا دین کے غلبہ کی صورت میں ان کے مفادات پر زد پڑے گی۔

حضرت شاہ ولی اللہ، حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کی مخالفت کرنے والوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

ظالم‘ فاسق وفاجر امراء ان کے دشمن تھے‘ اسی طرح بدعتی ان کا دشمن‘ جاہل علماء ان کے دشمن‘ حاسد اور متعصب علماء ان کے دشمن‘ جاہل اور مکار صوفی ان کے دشمن‘ تصوف وطریقت اور پیری ومریدی کے نام پر دکانداری چمکانے والے ان کے دشمن تھے۔

جس طرح ہر نبی کی مخالفت ہوئی‘ ان کے کام میں رکاوٹیں ڈالی گئیں‘ ان کے خلاف سازشیں ہوئیں‘ ان کا راستہ روکنے کی ہر کوشش ہوئی‘ بعض کو شہید تک کر دیا گیا۔ اسی طرح ان مجدد دین کو بھی بہت زیادہ آزمایا جائے گا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :

وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبٍّی عَدُوٌّ مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ

’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے مجرمین میں سے دشمن بنائے۔‘‘

چونکہ مجدد کار نبوت سرانجام دے رہا ہوتا ہے ‘ وہ وراثت نبوت کو تقسیم کر رہا ہوتا ہے تو لامحالہ اُسے بھی ان مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن کے بارے میں حدیث پاک میں ارشاد فرمایا گیا :

مثل العلماء فی الارض کمثل النجوم

’’اہل حق علماء کی مثال زمین میں ایسے ہے جیسے آسمان کے ستارے۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا :

ان العلماء ورثة الانبياء.

’’بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘

وہ علماء جو ستاروں کی مانند ہیں اور علم نبوت کے وارث ہیں‘ وہی خلفاء، نائبین اور مجددین ہیں۔

احادیث مبارکہ میں آقا علیہ السلام نے اسی تصور کو بیان کیا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا :

ای الناس اشد بلاء قال الانبياء ثم الامثل فالامثل.

میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سے سب سے زیادہ کس کو آزمایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انبیائے کرام کو۔ پھر جو جتنا زیادہ ان کے قریب اور ان کے کام جیسا کام کرے گا۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ

فقلت يا رسول اللّٰه ای الناس اشد بلاء؟ قال الانبياء قلت يا رسول اللّٰه ثم من؟ قال ثم الصالحون.

میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ کس کو آزمایا گیا؟ فرمایا : انبیاء کو۔ میں نے پھر سوال کیا؟ ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : صالح لوگوں کو۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

أنه قال اعظم الجزاء مع اعظم البلاء.

’’بیشک عظیم جزا عظیم آزمائشوں سے ملتی ہے‘‘۔

ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ کوئی شخص تجدید دین جیساعظیم فریضہ نبھائے تو یہ ناممکن ہے کہ اس کی کوئی مخالفت نہ ہو‘ تمام لوگ اس کی دعوت کو قبول کر لیں‘ ہر طرف سے اس پر پھولوں کی بارش ہو‘ کوئی مخالفت نہ ہو‘ کوئی مزاحمت نہ ہو‘ کوئی رکاوٹ نہ ہو‘ اسے کسی مشکل کا سامنا نہ ہو‘ عوامی سطح سے لے کر حکومتی سطح تک اس کی پذیرائی ہو۔

بلکہ آغاز کام سے لے کر انجام کار تک اسے مخالفتوں‘ مزاحمتوں‘ تکلیفوں‘ پریشانیوں‘ رکاوٹوں‘ سازشوں اور مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عوامی سطح سے لے کر حکومتی سطح تک اس کے خلاف تقریریں بھی ہوں گی‘ تحریریں بھی ہوں گی‘ علماء بھی خریدے جائیں گے‘ جاہل اور دنیادار صوفیاء کی خدمات بھی لی جائیں گی‘ سرکاری مشینری اس کے خلاف استعمال ہو گی‘ درباری ملا اور پیر اس کے خلاف ہوں گے‘ سرکار کی زیر سرپرستی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس کے خلاف استعمال ہو گا، معاشرے کے جرائم پیشہ لوگ اس کے خلاف ہوں گے۔ گویا مخالفت کا ایک طوفان ہو گا‘ کردار کشی کی ایک مہم چلے گی‘ مصائب وآلام ‘ طوفان بن کر آئیں گے‘ قتل کے منصوبے ہوں گے‘ جیلوں میں ڈالا جائے گا۔

ان تمام حالات میں مجدد کی نظر اللہ تعالی اور مکین گنبدخضریٰ پر رہتی ہے۔ مشکلات اور پریشانیاں اس کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتیں‘ جیسے جیسے مخالفت اور مزاحمت بڑھے گی ویسے ویسے اس کا کام بڑھتا جائے گا اور بالآخر وہ اپنی منزل مقصود کو پا لے گا۔

مجدد کے ضروری اوصاف

ایک مجدد میں درج ذیل اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے۔

  1. ایمان اور صحتِ اعتقاد وعمل
  2. عدالت‘ تقویٰ اور پرہیزگاری
  3. قرآنی علوم اور ان کے لوازمات کا ضروری علم
  4. علم حدیث متعلقہ لوازمات کا ضروری علم
  5. فقہ، اصول فقہ اور متعلقہ لوازمات کا ضروری علم
  6. عربی زبان وادب سے صحیح واقفیت
  7. احکام شریعت کے مقاصد اور حکم ومصالح پر گہری نظر
  8. استنباط احکام‘ تعبیر نصوص‘ اور اجتہادی وقیاسی ضوابط کی کامل معرفت
  9. جدید پیش آمدہ مسائل کا صحیح فہم
  10. عصری تقاضوں کی صحیح واقفیت
  11. عصری فتنوں کا مکمل ادراک
  12. جدید علوم سے آگہی
  13. سنت وسیرت کی کامل اتباع

٭ ان جملہ اوصاف کی روشنی میں دیکھا جائے تو بلاشبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات ہمیں مجدد وقت کی صورت میں نظر آتی ہے۔

٭ قرآن وحدیث کے علوم اور معانی کی تعبیر نو اور تشکیل نو جس انداز میں آپ کر رہے ہیں۔ یہ اس دورمیں فقط آپ ہی کی ذات کا حصہ ہے اور خصوصاً قرآن وحدیث کے وہ سائنسی علوم ومعارف جن کا زمانہ ماضی میں انکشاف نہیں ہوا اور آج کے دور کی ضرورت ہے اور آج کا انسان قرآن وحدیث کی سائنسی تعبیر مانگ رہا تھا۔ آپ نے اسی رنگ میں پیش کیا۔

٭ آج پھر پوری دنیا میں بالعموم اور عرب دنیا اور برصغیر پاک وہند میں بالخصوص تنقیص مقام رسالت کا فتنہ بڑی شدومد کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ آپ نے پوری دنیا میں مقام عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ادب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فروغ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تحریک برپا کر کے اس فتنہ کا سدباب کر دیا ہے۔ شرک وبدعت کے نام پر بہت سے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج کر کے مشرک اور بدعتی بنایا جا رہا ہے۔ آپ نے اس کا خطابات اورکتب کی صورت میں قلع قمع کیا ہے اور پوری دنیا میں میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کی دھوم مچا دی۔

٭ آپ نے قرآن مجید کا جدید سائنسی انداز میں جو ترجمہ عرفان القرآن کے نام سے کیا ہے۔ امت کی آٹھ سو سالہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اسی طرح ’’المنہاج السوی‘‘ سے لے کر جامع السنہ تک جو احادیث مبارکہ کے حوالے سے کام ہو رہا ہے جو امت مسلمہ کو آنے والے کئی سوسال تک ہدایت اور راہنمائی کا کام دیتا رہے گا یہ دونوں کام اجتہادی اور تجدیدی نوعیت کے ہیں۔

٭ ہمارے قدامت پرست مذہبی ذہن تصور تقلید کو فی الواقع فکری تعطل میں بدل چکا ہے اور اجتہاد کو عملا شجر ممنوعہ بنا دیا ہے۔ جو عملی اور فقہی کام آج سے کئی سال پہلے ہوا تھا، اس سے جزوی اختلاف یا اس میں اجتہاد نو کو فعل حرام سمجھتا ہے۔ آپ نے دور حاضر میں اجتہاد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جامد ذہنوں کو سوچنے پر مجبور کیا اور بہت سے جدید مسائل میں اجتہاد کر کے اس کا عملی ثبوت دیا۔

٭ دور حاضر میں تصوف وطریقت اور روحانیت محض ایک مردہ رسم بن کر رہ گئی ہے۔ خانقاہوں سے جو روحانی تربیت کا سامان ہوتا تھا۔ جس سے لوگوں کے احوال بدل جاتے تھے، ان کے اخلاق بدلے جاتے تھے، آج وہ روحانیت کے مرکز اجڑ گئے ہیں۔ وہاں تصوف وطریقت اور پیری مریدی کے نام پر پیسے بٹورنے، مرید بنانے اور نذرانے اکٹھے کرنے کی جنگ جاری ہے۔ اکثر پیران کرام خود شریعت وطریقت سے عاری‘ اصول تربیت سے ناواقف‘ دل کے احوال سے بے خبر صاحب مزار سے نسبی تعلق کی بنیاد پر یہ دکان چلا رہے ہیں۔ انہوں نے جاہ وجلال‘ آنکھوں کا سرخ ہونا۔۔۔ جبہ‘ قبہ‘ دستار‘ ٹوپی۔۔۔ تسبیح‘ منکے‘ رنگا رنگ۔۔۔ روحانیت کی باتیں‘ شریعت کی مخالفت۔۔۔ ہاتھ پاؤں کا بوسہ‘ بیعت‘ دم‘ تعویز دھاگہ۔۔۔ بداخلاقی اور غیر محرم عورتوں کے جن نکالنا وغیرہ کو تصوف وطریقت کا نام دے رکھا ہے۔

اور وہ حقیقی تصوف وروحا نیت جو حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے لے کر حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ‘ حضرت شیخ بہاء الدین ذکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ‘ حضرت شاہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ‘ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر مسعود رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بزرگان دین کی زندگی میں تھا موجودہ دور میں اس کا تصور بھی ختم ہو رہا ہے۔ دوسری طرف منکرین تصوف اور روحانیت موجودہ دور کے تصوف کو دیکھ کر تصوف کی حقیقت اور عظمت ہی سے انکاری ہیں۔

آپ نے اس پہلو پر بھی مجددانہ نوعیت کا کام کیا ہے۔ علمی طور پر اسے قرآن وسنت صحابہ کرام‘ ائمہ اہل بیت اور ائمہ مجتہدین کے عمل سے ثابت کیا‘ دروس تصوف حقیقت تصوف‘ حسن اعمال‘ حسن احوال‘ سلوک وتصوف کا عملی دستور‘ فیوضات محمدیہ اور تذکرے اور صحبتیں جیسی نادر کتب تصنیف فرما کر اس فتنے کا رد کیا اور مرکزی اجتماعی اعتکاف کی صورت میں ہر سال دس دن آخری عشرہ رمضان المبارک میں عملی تصوف کا درس دے کر لوگوں کی عملی تربیت کا اہتمام کیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانیت اور امت مسلمہ کی سطح پر کئے گئے شیخ الاسلام کے جملہ اقدامات کی صحیح معنوں میں پیروی کرتے ہوئے مصطفوی مشن کی فکر کو فروغ دینے کے لئے شیخ الاسلام کے دست و بازو بنا جائے تاکہ احیائے اسلام، تجدید دین اور اصلاحِ احوال امت کا یہ عظیم مصطفوی مشن اپنی منزل سے ہمکنار ہو سکے۔