کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات، قسط : 12

شفاقت علی شیخ

ترجیحات کا تعین کرنا

قارئین کے پسندیدہ اس سلسلہ وار مضمون میں امریکن رائٹر ’’سٹیفن آرکووے‘‘ کی تحریر Seven Habits of highly effective people کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون کا یہ سلسلہ ماہنامہ منہاج القرآن میں جنوری 2011ء سے جاری ہے اور اب تک دو خصوصی عادات ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ اور ’’انجام پہ نظر رکھنا‘‘ کو مختلف جہات سے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ کامیاب لوگوں کی خصوصی عادات میں سے تیسری عادت ’’ترجیحات کا تعین‘‘ کا تیسرا حصہ نذر قارئین ہے۔

کامیاب اور ناکام لوگوں میں بڑا فرق یہی ہے کہ ناکام لوگ اپنی طبیعت کی سہل پسندی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وقتی لذتوں، راحتوں اور آسانیوں کی تلاش میں زیادہ تر وقت سستی، کاہلی اور بے مقصد مگر دلچسپ کاموں میں صرف کرتے ہیں جب کہ کامیاب لوگ اپنے وقتی جذبات و احساسات پر قابو کر کے آسانیوں سے باہر نکل کر زیادہ سے زیادہ وقت مشکل اہم اور بامقصد کاموں کو کرنے میں صرف کرتے ہیں اور نتیجتاًہر آنے والے دن میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے قرآن و حدیث کی تعلیمات ہمیں رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں زندگی کی نوعیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْ کَبَدٍ.

(البلد : 4)

’’بے شک ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا ہے‘‘۔

ایک اور مقام پر فرمایا :

يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ.

(الانشقاق : 6)

’’اے انسان! تو اپنے رب تک پہنچنے میں سخت مشقتیں برداشت کرتا ہے بالآخر تجھے اسی سے جا ملنا ہے‘‘۔

نیز فرمایا کہ

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى.

(النَّجْم ، 53 : 39)

’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی (رہا فضل اس پر کسی کا حق نہیں وہ محض اﷲ کی عطاء و رضا ہے جس پر جتنا چاہے کر دے)‘‘۔

مطلب یہ ہے کہ انسان جس میدان میں جس درجے کی کوشش اور جدو جہد کر ے گا اُس میدان میں اُسی طرح کے نتائج وہ حاصل کرے گا۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک اور مقام پر فرمایا :

إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ .

’’بے شک اﷲ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں‘‘۔

(الرَّعْد ، 13 : 11)

ایک اور مقام پر فرمایا :

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى.

(النَّازِعَات ، 79 : 40)

’’اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا‘‘۔

اب نفس کی خواہشات کیا ہیں! وہ تمام کام جن میں ہمیں مزہ آتا ہے اور شریعت نے انہیں نا پسندیدہ قرار دیا ہے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا :

حُجِبَت النَّارُ بِالشَّهْوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّةُ بِالْمَکارة.

’’جہنم کو نفس کی شہوتوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنت کو اُن کاموں سے ڈھانپ دیا گیا ہے جو نفس پر گراں گزرتے ہیں۔‘‘

مطلب یہ کہ جتنا زیادہ انسان نفس کی لذتوں، ذائقوں، چسکوں اور اس کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہوتا ہے اُتنا ہی زیادہ وہ جہنم سے قریب ہوتا جاتا ہے اور اس کے بر عکس وہ کام جو نفس پر بوجھ محسوس ہوتے ہیں اور جنہیں کرنا ہماری طبیعت پر گراں گزرتا ہے اُن کاموں کو کرنے سے انسان جنت کے قریب ہوتا جاتا ہے۔ ہر روز فجر کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے) کے الفاظ دہرائے جانے کا مقصد بھی یہی بتانا ہے کہ نیند جو کہ ہمارے نفس کی خواہش ہے اُسے چھوڑ کر نماز جو کہ ہمارے رب کی پکار ہے اُس کی طرف آنا زیادہ بہتر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت بڑی خوبصورت نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :

’’اپنے آپ کو لذت طلبی سے بچانا۔ اللہ کے بندے لذتوں کے عادی نہیں ہوتے‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُوْمِن وَ جَنَّةُ الْکَافِر.

’’دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت‘‘

مطلب یہ کہ مومن کی زندگی پابند ہوتی ہے جب کہ کافر ہر قسم کی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہو کر اپنی نفسانی خواہشات کے تحت زندگی گزارتا ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ

تُحْفَةُ الْمُوْمِن الموْت.

’’موت مومن کے لیے تحفہ ہے‘‘

کیونکہ بندہ مومن کے لیے دنیا دارالامتحان ہے اور آخرت دارالجزاء ہے۔ موت انسان کو محنت و مشقت والے گھر سے نکال کر جزا والے گھر (جنت) کی طرف لے جانے کا باعث بنتی ہے۔ لہٰذا مومن کے لیے موت ایک تحفہ ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ مَعَالِی الْاُمُوْر

’’ اللہ تعالیٰ اعلیٰ امور کو پسند کرتے ہیں‘‘

مطلب یہ ہے کہ بندہ مومن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔ اسے اعلیٰ درجے کے کاموں میں استعمال ہونا چاہیے نہ کہ ادنیٰ، گھٹیا، نکمے، ردی، فضول اور بیکار کاموں میں ضائع ہونا چاہیے۔

یونہی اعلیٰ اقدار پر اپنے آپ کو کاربند رکھنے کے لیے بھی زبردست مجاہدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اٰيَةُ الْمُنَافِقَ ثَلَاثٌ. اِذَا حَدَثَ کَذِبَ وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذا ئَتُمِنَ خَانَ.

’’منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ وعدہ کرے تو پورا نہیں کرتا اور امانت کو ادا نہیں کرتا‘‘۔

گویا مندرجہ بالا تینوں علامات سے ہر ایک بندہ مومن کو اپنے آپ کو سختی سے بچانا چاہیے کیونکہ ہر قسم کے حالات میں سچائی پر کاربند رہنے، وعدہ کو پورا کرنے اور امانت کو پورا پورا ادا کرنا مشکل ہے اور اس کے مقابلے میں جھوٹ، وعدہ خلافی اور بددیانتی جیسے کام آسان ہیں۔

ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح بلندی کی طرف چڑھنا ہمیشہ محنت و مشقت کا تقاضا کرتا ہے جب کہ پستی کی طرف آنا بہت آسان دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح انسان اگر زندگی کو عروج سے ہم کنار کرنا چاہتا ہے تو اُسے سفلی جذبات‘ وقتی لذات اور پست خواہشات سے اوپر اٹھ کر اعلیٰ مقاصد کے لیے مسلسل اور متواتر جدوجہد کرنی ہو گی جس کے لیے اہم و غیر فوری کاموں میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنا بہت ضروری ہے۔

اہم و غیر فوری کاموں کیلئے خو د انتظامی

اس سلسلے میں اپنے آپ کو منظم کرنے اور اس سے متعلقہ سرگرمیوں کو بھرپور انداز میں سرانجام دینے کے لیے مندرجہ ذیل تین چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑے گا۔

1۔ کرداروں کی شناخت

سب سے پہلے ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے زندگی میں اپنے اہم کرداروں کو تلاش کریں اور معلوم کریں کہ وہ کون کون سی جگہیں ہیں جہاں ہم اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کو استعمال میں لاتے ہوئے کوئی مخصوص کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایسا کردار جو ہمارے سوا اور کوئی سر انجام نہیں دے سکتا۔ مثلاً ہم کسی گھر کے سر براہ ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہماری کچھ مخصوص ذمہ داریاں بھی ہوں گی جنہیں بہر حال ہم نے ہی ادا کرنا ہو گا۔ ہمارے علاوہ کوئی اور شخص ان ذ مہ داریوں کو اُتنے احسن طریقے سے نہیں سر انجام دے سکتا۔۔۔ اسی طرح ہم کسی دفتر میں کسی خاص عہدے پر مامور ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی ہمارا ایک مخصوص کردار ہے۔۔۔ یا اگر ہم نے کوئی اپنا بزنس شروع کر رکھا ہے تواُس کے اپنے تقاضے ہیں۔ یہ ہماری دوسری نمایاں حیثیت ہو گی۔۔۔ اس طرح ہم کسی مذہبی، رفاہی یا فلاحی تنظیم کے کوئی عہدیدار یا رکن بھی ہو سکتے ہیں اور یہ چیز بھی ہم سے ہمارا کردار ادا کرنے کا تقاضا کرے گی۔۔۔ علاوہ ازیں سماج کا ایک اہم فرد ہونے کے ناطے اردگرد کے ماحول اور لوگوں کے حوالے سے بھی ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں جن سے فرار ممکن نہیں ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ہماری اپنی ذات ہے کہ مندرجہ بالا تمام کرداروں کو بہترین انداز میں سرانجام دینے کے لیے ہمارے اپنے وجود کا ہر حوالے سے صحت مند اور بہترین حالت میں ہونا ضروری ہے۔ علیٰ ھذا القیاس ہر شخص کی زندگی میں چار پانچ یا کم وبیش کردار ایسے ہوتے ہیں جہاں اُسے اپنا مخصوص اور منفرد کردار ادا کرتے ہوئے زندگی کو بامقصد سرگرمیوں سے مزین کرنا ہوتا ہے اور زندگی کی گاڑی رواں دواں رکھنے کے لیے اپنا حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ ہر شخص کے لیے کامیاب اور موثر زندگی گزارنے اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے اُن مخصوص کرداروں کو پہچاننا بہت ضروری ہے۔

2۔ اہداف کا یقین

زندگی میں اپنے مخصوص کرداروں کو شناخت کر لینے کے بعد ہمیں اُن کے حوالے سے اہداف کا تعین کرنا ہو گا تاکہ اُن اہداف کو حاصل کرنے کے لیے لائحہ عمل کو تشکیل دیا جا سکے۔ مثلاً ایک شخص اپنے تمام کرداروں کو بہتر انداز میں سر انجام دینے کے لیے اپنی جسمانی، ذہنی، قلبی اور روحانی صلاحیتوں کو بہتر بنانا چاہتا ہے تو اُسے اس حوالے سے متوازن غذا، ورزش، نیند، مطالعہ، غور و فکر عبادات وغیرہ کی طرف توجہ دینا ہو گی اور اُن کے لیے وقت نکالنا ہو گا۔ ایک شخص کسی دفتر کا سربراہ ہے اور وہ اپنے دفتر کے حالات کو مثالی انداز میں چلانا چاہتا ہے تو اُسے لازماً کچھ اہداف طے کرنا ہوں گے اور اُن کے حصول کے لیے لائحہ عمل کا تعین کرنا ہو گا۔ الغرض ہم جو کچھ بھی ہیں ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم جس جس شعبے میں بھی ہیں اُسے کہاں تک پہنچانا چاہتے ہیں اور کون کون سے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

3۔ شیڈول بنانا

تیسرا اہم کام اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے نظام الاوقات کا تعین کرنا اور ہر اہم کام کے لیے وقت مقرر کرنا ہے۔ یہ شیڈول ہفتہ وار بنیاد پر بنانا زیادہ موزوں رہے گا۔ روزانہ کی بنیاد پر بنانا ایک دردِسر ہے اور ماہانہ بنیادوں پر بنانے میں کئی پیچیدگیاں اور قباحتیں ہیں۔ لہٰذا ہفتہ کو وقت کی ایک مناسب اکائی سمجھتے ہوئے اس بنیاد پر شیڈول بنانا آسان ہے۔ تاہم اسے اپنایا روزانہ کی بنیاد پر جائے گا۔ اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ شیڈول کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے کہ انسان بالکل ہی ایک مشین بن کر رہ جائے۔ اُس میں چھوٹے موٹے ضمنی کاموں کے لیے بھی گنجائش ہونی چاہیے۔ نیز تمام کرداروں کے حوالے سے ایک توازن دکھائی دینا چاہیے۔ کسی ایک شعبے پر اتنی زیادہ توجہ نہ دی جائے کہ بقیہ نظر انداز ہو جائیں۔ تاہم وقت کی تقسیم کاموں کی اہمیت کے لحاظ سے ہو گی۔ پھر بعض کام روزانہ کی بنیاد پر ہوں گے۔ بعض روزانہ کی بجائے مخصوص دنوں میں سرانجام دیئے جائیں گے۔ اور بعض ایسے بھی ہوں گے جن کے لیے کوئی ایک خاص دن مخصوص ہو گا۔ بہرحال روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے کاموں، مخصوص دنوں میں سرانجام دیئے جانے والے کاموں اور کسی خاص دن میں سر انجام دئیے جانے والے کاموں میں سے ہر ایک کے متعلق طے ہو کہ کون سا کام کس دن کے کس وقت میں ہو گا۔

بعض اوقات کسی ہنگامی حالت (Emergency) یا مجبوری کی بنا پر شیڈول میں رد وبدل کرنا پڑے، کسی معمول کی تقدیم و تاخیر کرنی پڑے یا کسی کو کسی وقت ترک کرنا پڑے تو اس پر دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور مایوس ہو کر سارے پروگرام کو ہی ترک نہیں کر دینا چاہئے بلکہ مجبوری کو مجبوری کی حد تک ہی رکھتے ہوئے حالات کے نشیب وفراز کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے طے شدہ پروگرام پر کاربند رہنا چاہیے۔ شیڈول چھ دن کا بنانا چاہیے اور ساتویں دن کو فری رکھنا چاہیے تاکہ طبیعت یکسانیت اور اکتاہٹ کا شکار نہ ہو جائے۔

ہفتے کے اختتام پر (چھٹی والے دن) ہفتہ بھر کی کار کردگی کا جائزہ لیا جائے کہ کس حد تک عمل ہو سکا اور کس حد تک نہیں۔ مطلوبہ اہداف و مقاصد کو کس حد تک حاصل کیا جا سکا۔ کہاں کہاں مجبوریاں اور رکاوٹیں تھیں اور کہاں کہاں کوتاہیاں اور لغرشیں سرزد ہوئیں پھر اُن سب کی روشنی میں نئے جوش و خروش سے آئندہ ہفتے کی پلاننگ کی جائے اور اُس پر حتی الوسع کاربند رہنے کا عزم مصمم کیا جائے۔

تنظیم الاوقات کے تین بنیادی ضابطے

زندگی کی آوارگیوں اور پراگندگیوں کو ختم کر کے اُسے نظم و ضبط کی لڑی میں پرونا اگرچہ کافی حدتک مشکل کام ہے تاہم اگر مندرجہ ذیل تین بنیادی ضابطوں کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور انہیں اس سفر کے نکتہ آغاز کے طور پر اپنا لیا جائے تو یہ کام خاصا آسان ہو جاتا ہے۔

1۔ پہلا ضابطہ :

نماز کے اوقات کی پابندی کرنا۔ یعنی ہر نماز کو حتی الوسع اُس کے مقررہ وقت میں جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرنا۔ اس سے انسان زندگی میں بہت زیادہ نظم وضبط (Displine) آتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جتنا زیادہ انسان اپنی نمازوں کے اوقات منضبط کرتا چلا جاتا ہے اُتنا ہی انسان کی دیگر سرگرمیاں نظم وضبط کے دائرے میں آتی جاتی ہیں۔

2۔ دوسراضابطہ :

کھانے پینے کے اوقات مقرر کرنا اور حتی الوسع اُن کی پابندی کرنا۔ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سے بھی انسانی زندگی نظم و ضبط کی پابند ہوتی چلی جاتی ہے۔ لہٰذا زندگی کی سرگرمیوں کو منضبط کرنے کے لیے کھانے پینے کے اوقات کو مقرر کرنا اور حتی الوسع اُن کی پابندی کرنا بہت ضروری ہے تاہم یہاں بھی طبیعت کی راحت وآسانی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے چھٹی والا دن پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔

3۔ تیسرا ضابطہ :

سونے جاگنے کے اوقات مقرر کرنا اور حتی الوسع اُن کی پابندی کرنا۔ ایسا کرنے سے بھی انسان کی وقت پر گرفت مضبوط ہوتی ہے اور اوقات کو نظم و ضبط کی لڑی میں پرونے میں کافی مدد ملتی ہے۔ بالخصوص رات کو جلد سونے اور صبح کو جلد اٹھنے کی عادت ڈالنا اور اس پر باقاعدگی اور دوام اختیار کرنا انسان کو اپنے آپ کو بہتر طریقے سے استعمال میں لانے پر بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا تینوں ضابطوں کو انسان جتنا زیادہ مضبوطی سے تھام لے گا اُتنا ہی بقیہ اوقات کی پابندی آسان ہوتی چلی جائے گی اور شیڈول پر عمل کرنا اور وقت کا بہتر استعمال ممکن ہوتا چلا جائے گا۔ (انشاء اللہ العزیز)

عملی مشورہ

تیسری عادت ’’ترجیحات کا تعین‘‘ پر بہترین انداز میں عمل پیرا ہونے اور اس سے بطریقِ احسن استفادہ کرنے کے لیے چند عملی مشورہ جات درج ذیل ہیں۔

1۔ تیسری عادت ’’ترجیحات کا تعین‘‘ کی بنیادپہلی دو عادتیں ’’ذمہ داری قبول کرنا‘‘ اور ’’انجام پر نظررکھنا‘‘ ہیں۔ جب تک اُن دونوں کو نہیں اپنایا جائے گا اس سے کماحقہ فائدہ اٹھانا ممکن ہی نہیں ہے۔ لہٰذا واپس لوٹیں اور پلٹ کر دیکھیں کہ آپ نے اُن دونوں عادتوں کو کس حد تک اپنے دل و دماغ میں اتار لیا ہے اور اپنے کردار اور عمل کا حصہ بنا لیا ہے۔ اس حوالے سے جو کمیاں ہیں اُنہیں دور کریں۔

2۔ تیسری عادت ’’ترجیحات کا تعین‘‘میں دو چیزیں بالخصوص شامل ہیں :

(1) اقدار کی حفاظت

(2) اوقات کی حفاظت

ان دونوں چیزوں پر کار بند ہونے کے لیے ضبطِ نفس اور قوتِ ارادی کی ضرورت ہے۔ قوتِ ارادی کو بڑھانے کا آسان ترین طریقہ اپنی ذات اور دوسروں کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کی پاسداری کرنا ہے۔ لہٰذا اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ موقع بہ موقع ایسے وعدے کریں جو نبھائے جا سکتے ہوں اور پھرحتی الوسع اُن کی پاسداری کریں۔ اس سے انسان کی قوتِ ارادی مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔ مثلاًصبح کو اٹھنے کے لیے الارم کا وقت بہت سوچ سمجھ کر طے کریں لیکن جو وقت طے کر لیں پھر ہمت سے اُس وقت اٹھ جائیں۔ اس کا آپ کے اپنے تصور ِ ذات (Self Image) پر بہت اچھا اثر پڑے گا اور شخصیت میں مضبوطی اور استحکام آئے گا۔

3۔ کسی فارغ وقت میں بیٹھ کر دقتِ نظر اور باریک بینی کے ساتھ زندگی کا بغور جائزہ لیں کہ وقت کہاں صرف ہو رہا ہے۔ کتنا وقت سستی اور کاہلی کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے اور کتنا وقت ادنیٰ، ردی اور فضول کاموں میں صرف ہو رہا ہے نیز اُس وقت کو کس طرح بچایا جا سکتا ہے یا اُس میں کمی لائی جا سکتی ہے یہ بھی دیکھیں کہ وہ کون کون سے ایسے اہم کام ہیں کہ جن کو کرنے سے زندگی میں بڑی خوشگوار تبدیلیاں آ سکتی تھیں لیکن آج تک اُنہیں نہیں کیا جا سکا۔ اُن میں سے کس کس کام کو اب شروع کیا جا سکتا ہے۔

4۔ روزانہ صبح کے ابتدائی وقت میں سے چند منٹ تجدید ِ عزم پر صرف کریں۔ اپنی ذات کے ساتھ عہد کریں کہ آج کا دن بہترین انداز میں استعمال کریں گے۔ اپنے اوقات اور اقدار کی حتی الوسع حفاظت کرنی ہے۔ پھر دن کے اختتام پر چند منٹ کے لیے دن بھر کی کار کردگی کا جائزہ لیں۔ کیا کھویا اور کیا پایا۔ کہاں کہاں پر اپنے کیے گئے فیصلوں پر عمل کیا اور کہاں کوتاہیاں ہوئیں۔ جو مثبت باتیں نظر آئیں اُن پر اللہ کا شکر ادا کریں اور جو منفی باتیں نظر آئیں اُن پر دل شکستہ اور مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ توبہ و استغفار کا دروازہ کھلا ہوا ہے، سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے دن بھر کی غلطیوں، کوتاہیوں اور لغرشوں کی معافی مانگیں اور آئندہ کے لیے اُن کی اصلاح اور بہتری کا عزم کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو گا۔ (انشاء اللہ العزیز)