محترم واصف علی واصف کی کتاب ’’دل دریا سمندر‘‘ میں ’’رفاقت‘‘ کے عنوان سے موجود یہ خوبصورت تحریر دوستی، رفاقت اور صحبت کی افادیت اور تقاضوں کو اجاگر کرتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے رفقاء خوش قسمت ہیں کہ انہیں وحسن اولئک رفیقا کے مصداق عظیم رفاقت کا شرف حاصل ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے اس سفر میں ہم اللہ رب العزت اور آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں ایک اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ہمارا آپس کا یہ تعلق، وابستگی اور رفاقت الحمدللہ تعالیٰ دنیاوی مفادات کے حصول سے ماوراء احیائے اسلام، تجدید دین اور اصلاح احوال کے لئے ہے۔

اس تحریر کے تناظر میں ہمیں غور کرنا ہے کہ کیا ہم اس رفاقت کا حق ادا کررہے ہیں۔ ۔ ۔؟ رفاقت جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے کیا ہمیں اس کا ادراک ہے۔ ۔ ۔؟ کیا ہمارا یقین، اعتماد اور تحریک و قائد تحریک سے وفا اس درجہ کی ہے کہ ہم رفاقت کے حقیقی ثمرات سمیٹ سکیں۔ ۔ ۔؟ ہم تحریک سے رفاقت کو اللہ تعالیٰ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اولیاء و صلحاء سے رفاقت قرار دیتے ہیں، کیا ہم اس کے تقاضوں کو بھی پورا کر رہے ہیں۔ ۔ ۔؟

اگر ان سوالات کے جوابات ’’ہاں‘‘ میں ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لانا ہو گا اور اس خوبصورت رفاقت میں استقامت کیلئے دعا کرنا ہو گی اور اگر ان سوالات کے جوابات ’’نہیں‘‘ میں ہیں تو ہمیں اپنے طرز عمل پر غور و فکر کرتے ہوئے جذبات، نعروں، تقریروں اور عقیدت کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی آگے بڑھنا ہو گا۔

رفاقت کی تمنا سرشتِ آدم ہے۔ انسان کو ہر مقام پر رفیق کی ضرورت ہے۔ جنت بھی انسان کو تسکین نہیں دے سکتی، اگر اس میں کوئی ساتھی نہ ہو، کوئی اور انسان نہ ہو، کوئی ہمراز نہ ہو، کوئی سننے والا نہ ہو، کوئی سنانے والا نہ ہو۔ آسمانوں پر بھی انسان کو انسان کی تمنا رہی اور زمین پر بھی انسان کو انسان کی طلب سے مفر ممکن نہیں۔

تنہائی صرف اسی کو زیب دیتی ہے جو’’لاشریک‘‘ ہے، جو ماں باپ اور اولاد سے بے نیاز ہے۔ لامکاں میں رہنے والا تنہا رہ سکتا ہے لیکن زمین پر رہنے والا تنہا نہیں رہ سکتا۔ یہ انسان کی ضرورت بھی ہے اور اس کی فطرت بھی۔

انسان کسی مقام پر تنہا نہیں رہ سکتا۔ قبل از پیدائش اور بعد از مرگ کے حالات تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن زندگی میں انسان پر کوئی دور ایسا نہیں آتا جب وہ تنہا ہو، نہ جنازہ تنہا، نہ شادی تنہا۔

رات کے گہرے سناٹے میں اپنی کرسی پر اکیلا بیٹھا ہوا انسان بھی اکیلا نہیں ہوتا۔ اسے ماضی کی صدائیں آتی ہیں۔ اس کے ساتھ وہ نظارے ہوتے ہیں جو اس کے سامنے نہیں ہوتے۔ یادوں کے گلاب کھلتے ہیں۔ جلتی بجھتی آنکھوں کے طلسمات وا ہوتے ہیں۔ حسین پیکروں کے خطوط ابھرتے ہیں، ڈوبتے ہیں۔ گزرے ہوئے ایام پھر سے رخصت ہونا شروع ہوتے ہیں۔ خشک شاخیں زخموں کی طرح پھر سے ہری ہوتی ہیں اور اس سناٹے میں آوازیں ہی آوازیں آنی شروع ہوتی ہیں اور یوں تنہائی ممکن نہیں ہوتی۔

رفاقت کی افادیت سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی صفات اور اپنی صلاحیتوں کا جائزہ لے۔ ہماری ہر صلاحیت، رفاقت کی محتاج ہے۔ ہماری گویائی سماعتِ رفیق کی محتاج ہے۔ ہماری سماعت آوازِ دوست کی منتظر رہتی ہے۔ ہماری نگاہ دوست کے چہرے سے خوراک لیتی ہے، ہمارا چہرہ مرکزِ نگاہِ یار ہوتا ہے، ہمارے افکار دوست کو روشنی دیتے ہیں اور ہم اس کی فکر سے پرورش پاتے ہیں۔ دل ہمارا ہوتا اور درد دوست کا۔ ہماری خوشیاں شرکتِ حبیب سے دوبالا ہوتی ہیں اور ہمارے غم، غمگسار کے تقرب سے کم ہوتے ہیں۔ ہمارا سفر ہمارے ہمسفر کی معیت سے بامعنی و پررونق ہوتا ہے۔ ہمارا قیام اسی چراغ سے منور ہوتا ہے۔ دوست کی توجہ اور اس کا تعاون ہمیں عروج کی منازل سے آشنا کراتا ہے۔ ہمارے منصوبے ہماری زندگی میں اور ہماری زندگی کے بعد بھی ہمارے دوست کی نگرانی سے پروان چڑھتے ہیں۔

دوست سے گفتگو حکمت و دانائی کے رموز آشکار کرتی ہے۔ ہمارے ظاہر و باطن کا نکھار جمالِ ہم نشیں سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ ہماری عبادت بھی رفاقت سے سعادت حاصل کرتی ہے۔ ہماری تمام دعائیں اجتماعی ہیں اور اجتماع کی بنیاد رفاقتوں کے فیض سے قائم ہے۔

وہ انسان جس نے رفیق سے وفا نہ کی، کسی سے وفا نہیں کرسکتا، نہ دین سے، نہ خدا سے، نہ خود اپنے آپ سے۔ عظیم انسان اپنے حبیب پر غیر متزلزل اعتماد کے سہارے عظیم ہوتے ہیں۔

انتخاب رفیق سے پہلے تحقیق کر لینا جائز ہے، لیکن کسی کو دوست کہہ لینے کے بعد اسے کسی آزمائش سے گزارنا بددیانتی ہے۔ دوست کے ساتھ صرف ایک ہی سلوک روا ہے اور وہ وفا ہے وفا کرنے والے کسی کی بے وفائی کا گلہ نہیں کرتے۔ اپنی وفا کا تذکرہ بھی وفا کے باب میں ابتدائے جفا ہے۔

رفاقت قائم رکھنے کے لئے انسان کو نہ ختم ہونے والا حوصلہ ملا ہے۔ رفاقتیں گردش حالات سے متاثر نہیں ہوتیں۔ رفاقت صعوبتوں کی گھاٹیوں سے گنگناتی ہوئی گزرتی ہے۔ کائنات کی ہر شے میں ہمہ وقت تغیر ہے، لیکن رفاقت کے خمیر و ضمیر میں استقامت کا جوہر ہے۔ رفاقتوں کا مفرور زندگی سے فرار کرتا ہے۔

جس کو زندگی میں سچا اور سُچا دوست نہ ملا ہو، اس جھوٹے انسان نے اپنی بدبختی کے بارے میں اور کیا کہنا ہے؟ انسان کا جہان رفاقتوں کا جہان ہے۔ یہ وفائوں کی داستان ہے، رشتوں کی تقدیس ہے، سماجی اور دینی رابطوں کی تفسیر ہے۔ خو ش نصیب ہے وہ انسان جس کا ہمسفر اس کا ہم خیال ہو۔

خدا سے لو لگانے والے مخلوق خدا سے الگ بیٹھ کر عبادات کے درجات حاصل کرنے کے بعد مخلوق خدا کے پاس واپس لوٹا دیئے جاتے ہیں تاکہ مخلوق کی راہنمائی کریں۔ تنہائیوں سے واپسی ہی رفاقت کی اہمیت کا ثبوت ہے۔ پیغمبروں نے پسندیدہ رفاقتوں کی دعائیں فرمائیں، کوئی عابد عبادت کی غرض سے جنگل میں تنہا بیٹھ جائے تو بھی تنہا نہ رہ سکے گا۔ کچھ ہی عرصے بعد اس کے گرد انسانوں کا ہجوم اکٹھا ہو جائے گا۔ آستانہ بنے گا، عبادت گاہ بنے گی، لنگر خانے کھل جائیں گے اور طالبان حق و صداقت اس ویرانے میں بستی آباد کریں گے۔

پیدا ہونے والا بچہ جب آنکھ کھولتا ہے تو سب سے پہلے اسے جو شے نظر آتی ہے، وہ انسانی چہرہ ہے، شفیق چہرہ، نورانی چہرہ، محبت ومسرت سے سرشار مامتا کا مقدس چہرہ۔ اس کے بعد ساری زندگی چہروں کی رفاقت کا سفر ہے۔ ایک انسان کا تقرب ہی انسانیت کا تقرب ہے۔ نیکی، بدی، گناہ، ثواب، سب انسانوں سے وابستہ ہے۔ انسان سے آشنائی خدا شناسی کی کُنہ ہے۔ رفاقت کا سرمایہ ہر سرمائے سے افضل ہے۔ انسان، انسان کی خاطر جان پر کھیل جاتا ہے۔ بادشاہ تخت چھوڑ دیتے ہیں، دوست کو نہیں چھوڑتے۔

رفاقتوں کے فیض اعتماد کے دم سے ہیں، بداعتماد انسان نہ کسی کا رفیق ہوتا ہے، نہ اس کا کوئی حبیب ہوتا ہے۔ بداعتمادی کی سب سے بڑی سزا یہ ہے کہ انسان کو ایسا کوئی انسان نظر نہیں آتا جس کے تقرب کی وہ خواہش کرے اور نہ وہ خود کو کسی کے تقرب کا اہل سمجھتا ہے۔ تنہائی کی مسافر بیمار روحیں اذیت کی منزلیں طے کرتی ہیں۔

رفاقت زندگی ہے، فرقت موت ہے۔

آج کے مشینی دور نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے۔ رفاقتِ بشری سے محروم انسان مال اور اشیاء کی محبت میں گرفتار ہے۔ وہ نظریات کا قائل ہے، انسان کا قائل نہیں۔ آج کا انسان انسانوں سے بیزار ہے۔ وہ خود سے بیزار ہے، وہ غیر فطری زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس پر کربناک تنہائی کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ کوئی کسی سے ہمدردی نہیں رکھتا۔ کوئی کسی کو نہیں پہچانتا۔ کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں۔

آج انسانوں کی بھیڑ میں ہر انسان اکیلا ہے، ایسے ہی جیسے ایک وسیع سمندر میں بے شمار جزیرے، ایک دوسرے کے آس پاس، لیکن ایک دوسرے سے ناشناس۔ ناشناسی اور نہ آشنائی کی وبا پھیل چکی ہے۔ کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں ہے۔ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے بے خبر ہے۔ بھائی بھائی سے بیگانہ ہے، رشتوں کی تقدیس پامال ہو چکی ہے۔ افسر ماتحت کا خیال نہیں رکھتا، ماتحت افسر کا لحاظ نہیں رکھتا، استاد شاگردوں سے، شاگرد استادوں سے نالاں ہیں۔ ڈاکٹر مریض کی نبض پر ہاتھ رکھنے سے پہلے اس کی جیب پر ہاتھ رکھتا ہے۔ عجیب بے حسی کا دور ہے، رفاقت ختم ہو رہی ہے۔

ملتیں پائیدار رفاقتوں سے بنتی ہیں۔ رفاقت میسر نہ ہو تو عناصر ملت میں ظہور ترتیت ممکن ہی نہیں۔ اینٹ کا اینٹ سے ربط ختم ہو جائے تو دیواریں اپنے بوجھ سے گرنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ملت کے تشخص کی تلاش دراصل اپنے رفیق کی تلاش کا نام ہے۔ دیار حبیب ہی محبوب ہو سکتا ہے۔ دوست ہی محبت و وفا کا سرچشمہ ہے اور یہ محبت و وفا ملک و ملت کا سرمایہ ہے۔ جس انسان کا ملک میں کوئی دوست نہیں وہ ملک سے دوستی نہیں کر سکتا۔

ملک کی خاطر قربانیاں دینے والے دراصل اپنی وابستگی کے لئے قربانیاں دیتے ہیں۔ جس کی وابستگی ختم ہو جائے، اس کی حب الوطنی مشکوک ہو جاتی ہے۔ کارواں کو غبار راہ میں چھوڑ کر کسی نامعلوم منزل پر پہنچنے والا رہنما دراصل راہزن ہے۔ رہبر وہی ہے جو قافلے کو شادابی منزل سے آشنا کرے۔

زندگی کا خوبصورت میلہ سنگت کے دم سے ہے۔ سنگت نہ ہو تو اس میلے میں ہر انسان اکیلا ہے۔ یہ میلہ خوش نصیبوں کا میلہ ہے، خوش نصیب وہ ہے جو کسی انسان کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ خوش نصیب وہ ہے جو کسی کا منتظر ہے، خوش نصیب وہ ہے جو رفیقِ طریق کے ہمراہ میلے پر نکلا ہے۔ دل میں رفاقت کی روشنی نہ ہو تو چراغوں کے میلے کس کام کے۔ بہر حال ہمارا رفیق ہی ہمارا میلہ ہے۔ وہی ہمیں زندگی اور موت کے جھمیلوں سے نجات دلاتا ہے۔