تحریکی زندگی میں نظم و ضبط

حسن محی الدین قادری

اﷲ رب العزت نے قرآن مجید کی سولہویں سورت کا نام اَلنَّحْل رکھا ہے۔ اَلنَّحْل عربی زبان میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اگر ہم شہد کی مکھی کی زندگی اور اس کی مسلسل جد و جہد کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اﷲ رب العزت نے اِس مخلوق کو اپنی قدرت کے عجائب اور اپنی وحدانیت اور قدرت کے کمالات و اوصاف پر دال بنایا ہے۔ گویا شہد کی مکھی کی زندگی کی مثال دیتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے منکرین اور معترضین کو جواب دیا ہے کہ پہلے اِس مکھی جیسی کوئی مثال تو سامنے لاؤ، پھر میرے مد مقابل آنا اور میری قدرت کا مقابلہ کرنا۔

اﷲ رب العزت کا شہد کی مکھی کی اتنی اَہمیت بیان کرنے اور اس کے عنوان سے قرآن حکیم میں ایک پوری سورت کو مزین کرنے کے پس پردہ حکمت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اِس مخلوق کو ایک ایسا منہج ودیعت کیا ہے جو انسانی زندگی کے بہت قریب ہے۔ جس طرح انسان پورے عالم میں اﷲ کی عجیب ترین مخلوق نظر آتا ہے اُسی طرح عالم حیوانات میں شہد کی مکھی اﷲ کی عجیب ترین مخلوق نظر آتی ہے۔ انسان کے بعد شہد کی مکھی وہ واحد مخلوق ہے جسے اﷲ رب العزت نے اپنی وحی کا شرف عطا کرتے ہوئے خود مخاطب فرمایا ہے۔ اِرشاد فرمایا :

وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ.

(النحل : 68)

’’اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا۔‘‘

وحی سے مراد الہام بھی لیا جاتا ہے یعنی اﷲ رب العزت نے شہد کی مکھی کو اُس کا نظامِ حیات القاء کیا۔ اس سے مراد وہ programmed system اور اُلوہی و اِلہامی نظام ہے جو اﷲ رب العزت نے شہد کی مکھی کی فطرت میں رکھ دیا ہے۔

شہد کی مکھی کے نظامِ حیات کا ایک نہج سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِسے اِنسان کی تربیت کے لئے منہج بنایا گیا ہے۔ اﷲ رب العزت نے جو نظام اس شہد کی مکھی کو دیا وہ آج بھی اس پر عمل پیرا ہے لیکن دیکھنا ہے کہ انسان جسے خدا نے اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر زمین پر بھیجا کیا وہ بھی اپنے وعدے پر کاربند ہے؟

انسان اپنے نظام اور منہج کو بھول گیا، اسے اپنے خالق کی عطا کردہ ہدایت یاد نہ رہی، اُس نے اپنے طریق اور سلوک و نسبت کو فراموش کر دیا وہ اپنے منہاجِ حیات سے دور ہوتا گیا۔ مگر شہد کی مکھی جو عمل پہلے کر رہی تھی آج بھی وہی کر رہی ہے۔ اُس وقت بھی وہ اپنے پیٹ سے انسانیت کی شفاء اور بقاء کے لیے شہد دیتی تھی۔ ۔ ۔ آج بھی دے رہی ہے، مگر انسان کبھی ہدایت کا پیکر اور کبھی سرکشی کا مظہر بنتا ہے۔ ۔ ۔کبھی فساد انگیزی کرتا ہے اور کبھی امن کے لئے سرگرداں ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔کبھی لوگوں کو جوڑتا ہے تو کبھی توڑتا ہے۔ ۔ ۔کبھی ملاتا ہے تو کبھی بکھیرتا ہے۔ ۔ ۔کبھی بلاتا ہے تو کبھی بھگاتا ہے۔ ۔ ۔کبھی نظام دیتا ہے تو کبھی نظام تباہ کرتا ہے۔ ۔ ۔کبھی قائم کرتا ہے تو کبھی منہدم کرتا ہے۔ ۔ ۔کبھی ارتقاء دیتا ہے تو کبھی سکوت دیتا ہے۔ ۔ ۔حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر حضرت انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے کئے ہوئے اپنے عہد کا منحرف ہی رہا اور اپنے وعدے کا کبھی پاس نہیں کیا لیکن شہد کی مکھی کو جس کام کے لئے رب العزت نے چن لیا، وہ اطاعت کی پیکر اسی پر کاربند ہے۔

شہد کی مکھی کا منہج حیات

شہد کی مکھی کے منہجِ حیات کی تفصیل سورۃ النحل کی آیات نمبر 68 اور 69 میں یوں وارِد ہوئی ہے :

وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَo ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاً يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَo

’’اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیںo پس تو ہر قسم کے پھلوں سے رس چوسا کر، پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو اُن پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لیے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر، ان کے شکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہےo‘‘

اِن آیاتِ مبارکہ سے شہد کی مکھی کی وُسعتِ عمل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ آیئے اللہ تعالیٰ کی اس مخلوق کے طرزِ حیات پر غور و فکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کچھ نہ کچھ تو ایسی خصوصیات عطا فرمائی ہوں گی جس بناء پر اس کا تذکرہ قرآن پاک میں بطور خاص فرمایا۔ بے شک ہمارے لئے اس میں اپنے طرز حیات کو بہتر بنانے کے لئے غور و فکر کا سامان بھی موجود ہو گا۔

1۔ فکری یکسانیت اور اطاعت

جدید سائنسی تحقیق کے مطابق شہد کی مکھی کے چھتے میں ایک وقت میں چار سے آٹھ ہزار کارکن رہتے ہیں۔ ان تمام کارکنان کی سوچ بھی ایک ہوتی ہے، دوسری ہو ہی نہیں سکتی۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں ایسا حسن دیا کہ سوچ میں بھی وحدت رکھ دی۔ کارکنوں میں اتباع اور اطاعت کا ایک جذبہ رکھ دیا۔ وہ سب کی سب اپنی ملکہ کی اِطاعت و اِتباع میں اس کی رعایا بن کر رہتی ہیں، اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو ایک programmed نظام ودیعت کیا ہے، جس سے سرمُو اِنحراف ممکن نہیں۔ مکھی جونہی پیدا ہوتی ہے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو جاتی ہے۔ اسے آغاز سے ہی جو تعلیمِ اِتباع دی جاتی ہے وہ اس پر مرتے دم تک قائم رہتی ہے۔

2۔ منزلِ یقین

اِنسان اور شہد کی مکھی میں چند اُمور مختلف ہیں۔ اِنسان کا بچہ پیدائش کے بعد دو، تین، چار سال کا وقت لیتا ہے۔ تب وہ بولنا سیکھتا ہے، شعور حاصل کرتا ہے، سونگھتا ہے، چکھتا ہے، سنتا ہے، دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے۔ پھر وہ مشاہدے کے ذریعے علم الیقین اور عین الیقین کے مراحل سے گزرتا ہوا حق الیقین تک آتا ہے۔ جب کہ مکھی پیدا ہوتے ہی حق الیقین کے مقام پر فائز ہوتی ہے۔ وہ جنم لیتے ہی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی ہے اور وہاں سے پاکیزہ پھلوں اور پھولوں سے رَس چوس کر لاتی ہے اور اسے شہد میں ڈھال دیتی ہے۔

3۔ فرض شناسی

شہد کی ہر مکھی کا ایک نظام اور ڈیوٹی ہے۔ اُس کی یہ مجال نہیں کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے ادھر ادھر ہو جائے۔ جو اس کا مقصد حیات ہے وہ ساری زندگی وہی کرے گی۔ اس کارخانے میں کسی کی مجال نہیں کہ وہاں نزاع یا دشمنی ہو، ظلم و ستم یا خون خرابہ ہو۔ وہاں ایک ایسا ماحول ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ محبت و اُلفت سے رہتی ہیں۔ جو وظیفہ جس کو دے دیا جائے وہ اس پر گام زَن رہتی ہیں اور اِدھر اُدھر نہیں بھٹکتیں۔ جب تک نتیجہ حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتیں۔ یعنی ان کی جد و جہد کبھی نہیں رُکتی۔

4۔ محبت و وحدت اور اِجتماعیت

شہد کی مکھیاں ایک گروہ کی صورت میں مجتمع ہو کر رہتی ہیں۔ آپ ان میں کوئی جھگڑا دیکھیں گے نہ فساد۔ ۔ ۔ ان میں کوئی اختلاف ہو گا نہ اعتراض۔ ۔ ۔نہ کسی کے کام میں دخل اندازی کرتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ جب ہر کوئی اپنا کام کرنے لگ جائے تو پھر شہد پیدا ہوتا ہے۔

شہد کی مکھی کے کارخانے میں ہر ایک کارکن کی الگ الگ ذمہ داری اور کام ہوتا ہے۔ کچھ کارکن سفر کرتے ہیں، ثمرات کا جوس چوس کر لاتے ہیں اور آ کر اپنے چھتے میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ۔ ۔کچھ ملکہ کی اولاد کو پالتی ہیں۔ ۔ ۔اور کچھ مل کر خوراک مہیا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ کچھ مکھیاں شہد اور گھر کی حفاظت پر مامور ہوتی ہیں۔ اس طرح ہر کارکن کے لئے ایک وظیفہ اور کام ہے۔ ۔ ۔ایک مکھی ایسی بھی ہوتی ہے جو امور داخلہ و خارجہ کی نگرانی کرتی ہے کہ کتنی مکھیاں گئیں اور کتنی واپس آئی ہیں۔ ۔ ۔مکھیاں اپنی ملکہ (قائد، امیر و رہنما) جو ان کی انچارج ہے کی اِجازت کے بغیر اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتیں۔ ۔ ۔ ان میں اتحاد کا یہ عالم ہے کہ جو کارکن یعنی مکھی اپنے چھتے یعنی گھر اور مرکز سے جدا ہو جائے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ جو مکھی مرکز سے جدا ہو جائے اسے بقاء نہیں۔ وہ یا تو کسی دوسرے چھتے میں جائے گی، وہاں ٹھہرنے کی اِجازت مانگے گی اور اگر اجازت مل گئی تو وہاں ٹھہر جائے گی مگر جس مکھی نے چھتے سے بغاوت کی ہو گی اسے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ شہد کی مکھی اپنے اجتماع میں رہتی ہے تو حیات میں رہتی ہے، مرکز سے جدا ہو جائے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

ایک کارکن کے لئے اس سے بہتر مرکز سے وابستگی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے گویا مرکز سے علیحدگی تحریکی موت کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں اس مخلوق کی اس خوبی میں بھی ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ ہر کوئی اپنا کام کرنے لگ جائے اور لڑائی جھگڑا نہ کرے تو پھر شہد پیدا ہوتا ہے، مراد مقصد اور منزل نصیب ہو جاتی ہے۔

5۔ طہارت و پاکیزگی

قرآن حکیم کے فرمان کے مطابق شہد کی مکھی تین جگہوں پر اپنے چھتے بناتی ہے :

  1. پہاڑ
  2. صحر
  3. درخت

اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میں طہارت و لطافت رکھ دی ہے۔ وہ پاک جگہ پر اپنا مرکز بناتی ہے۔ کسی گندگی میں بیٹھتی ہے نہ بیٹھنا پسند کرتی ہے۔ جو انسانیت کے لئے شفاء تیار کر رہی ہو، کیسے ممکن ہے کہ وہ گندگی کے ساتھ اپنا تعلق رکھے۔

معلوم ہوا اس مکھی سے شہد کی صورت میں فائدہ اور منفعت اِس لیے حاصل ہوتی ہے کہ وہ طاہر بھی ہے اور مطہر بھی۔ یعنی وہ خود بھی طاہر ہے اور جو طہارت اس سے نکلتی ہے وہ لوگوں کے لیے باعثِ شفاء ہے۔

6۔ شفاء و منفعت

شہد کی مکھی میں ایک خوبی یہ ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو خود تو بیماری کی تکلیف اٹھاتی ہے مگر اس کا شہد کسی کو بیمار نہیں کرتا۔ وہ اپنے آپ کو ختم کردیتی ہے مگر کسی کو ضرر نہیں پہنچاتی۔ گویا وہ زبان حال سے کہتی ہے کہ جب قدرت نے الہام کے ذریعے میرے اندر شفاء ہی رکھی ہے تو میری زندگی کا مقصد فقط شفا ہے، مجھے ضرر سے کیا غرض؟ میں ضلالت اور گمراہی سے پاک شفا کا حامل شہد مہیا کرنے پر فائز ہوں۔

شہد کی مکھی کی یہ خوبی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ مصطفوی مشن کا اَدنیٰ سے اَدنیٰ کارکن حق پر قائم رہتے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے کی دعوت دینے والا ہو۔

7۔ دیانت و وفاداری

شہد کی مکھی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مشن اور مرکز کے ساتھ انتہائی وفادار ہوتی ہے۔ وہ سینکڑوں میلوں کا سفر ہی کیوں نہ کر لے، وہ جو شہد بناتی ہے خود نہیں کھاتی۔ اس کی وفاداری کا عالم یہ ہے کہ خود بھوک سے مر جائے گی مگر جس ذمہ داری پر اسے مامور کیا گیا ہے اسے بہر طور پورا کرے گی۔

اللہ رب العزت نے شہد کی مکھی کو یہ حکم دے رکھا ہے کہ :

فَاسْلُکِيْ سُبُلَ رَبِّکَ ذُلُـلا.

(النحل : 69)

’’پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو اُن پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لیے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر۔‘‘

یعنی جو راستے خدا نے بنائے ہیں ان کی سالک ہوجاؤ ان راستوں پر چلتی چلی جاؤ جو خدا نے تمہارے لیے مسخر کیے ہیں۔ اُس منہجِ حیات پر چلو جو تمہیں عطا کیا گیا ہے۔

پس جو کوئی حکم اِلٰہی کی اتباع میں اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے اُسے کامیابی کی نوید سنائی جاتی ہے۔ جس طرح کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

مَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا يَبْتَغِي فِيْهِ عِلْمًا سَلَکَ اﷲُ لَهُ طَرِيْقًا إِلَی الْجَنَّةِ.

’’جو آدمی طلبِ علم میں کسی راستہ پر چلتا ہے اُسے اﷲ تعالیٰ جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے۔ ‘‘

یعنی طالبِ خیر اور طالبِ معرفت کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔

8۔ بے مثال محنت و مشقت

اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی میں محنت و مشقت کی صفت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ آپ عالم حیوانات میں دیکھیں تو آپ کو زیادہ تر جانور سستی و کاہلی کا نشان نظر آئیں گے مگر یہ ایسی مخلوق ہے جس میں جد و جہد کا اتنا ملکہ رکھا گیا ہے کہ انسان میں بھی اس کی مثال کم ملتی ہے۔ ایک مکھی پچاس ملی لیٹر شہد بنانے کے لیے سینکڑوں میل سفر کرتی ہے اور ایک کلو شہد بنانے کے لیے چار ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے۔

اتنی محنت کے بعد اللہ نے اسے وہ مقام عطا کیا کہ شہد کی شکل میں وہ ایسا مشروب عطا کرتی ہے جس میں اللہ نے شفاء رکھ دی ہے۔

منزل کا حصول کیسے ممکن ہے؟

اﷲ تعالیٰ نے سورۃ النحل کی آیات نمبر 68 اور 69 میں اَمر کے تین صیغے بیان فرمائے ہیں :

1. اِتَّخِذِيْ.

2. کُلِيْ.

3. فَاسْلُکِيْ

اِن تین اَحکامات کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے حصولِ مقصد کی راہ اور کامیابی کا طریقہ سمجھا دیا ہے کہ کسی بھی شے اور کسی بھی مقصد کو حاصل کرنا ہو تو اپنے اندر درج ذیل صفات پیدا کرو۔

1. اِتِّخِذِيْ :

حاصل کرنے والی خوبی پیدا کرو۔ کچھ لو گے تو کچھ دو گے۔ جو لینا بند کر دے گا وہ دینا بند کر دے گا۔ طالبِ مراد ہو گے تو مراد ملے گی۔ پہلے مرید بنو گے تو پھر مراد بنو گے۔ سالک ہو گے تو سلوک بنو گے، پہلے راضی ہوگے تو پھر رضا بنو گے۔ پہلے دینے والے بنو گے تو پھر صاحب منفعت بنو گے۔

شہد کی مکھی کو اِتَّخِذِيْ کے ذریعے ایک طریقہ کار دے دیا کہ یہ راستے بنا دیئے ہیں، ان پر اطاعت کے ساتھ چلتی چلی جاؤ تو پھر خیر ہی خیر ملتی چلی جائے گی۔

2. کُلِيْ :

اِس میں اﷲ رب العزت نے اِستفادے کا ضابطہ بیان فرما دیا کہ پاک اور حلال شے کھاؤ گے تو حلا ل نتیجہ پیدا ہو گا۔ گویا رزقِ حلال، طہارت و پاکیزگی، تقویٰ و اخلاص اور نیت کی صداقت کی طرف اشارہ کر دیا کہ اگر نیت صاف ہو گی تو نتیجہ بھی صحیح نکلے گا۔ ۔ ۔اگر صداقت کے ساتھ سفر کرو گے تو منز ل تک پہنچ جاؤ گے۔ ۔ ۔ اگر للہیت کے ساتھ خدمت کرو گے تو خدا مل جائے گا۔ ۔ ۔اگر توجہ اِلی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرو گے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مل جائیں گے۔۔۔ اگر خداکی عبادت خدا کے لئے کرو گے تو خدا مل جائے گا۔ ۔ ۔اگر دنیا کے لئے کرو گے تو دنیا مل جائے گی۔ ۔ ۔اگر پاک جگہوں پر جاؤ گے تو پاکی ملے گی۔ ۔ ۔اہل اﷲ کی بارگاہ میں جاؤ گے تو اہل اﷲ کا فیض ملے گا۔ ۔ ۔اگر مقربانِ اِلٰہی کی بارگاہ میں جاؤ گے تو خدا کے مقرب ہو جاؤ گے۔۔۔اگر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسی صحبت کو اپناؤ گے تو پھر علم کے گہوارے ہو جاؤ گے اور علم کے نور سے ظلمتیں، اجالوں میں بدل جائیں گی اور یوں وہ کارکن بن جاؤ گے جس جیسا اور کوئی کارکن نہیں ہو سکتا۔

شہد کی تقریباً پچیس قسمیں ہوتی ہیں۔ اسے پھلوں اور پھولوں کے ساتھ نسبت دی جاتی ہے چنانچہ جس پھل پر مکھی زیادہ بیٹھتی ہے اس کے شہد کو بھی اُسی پھل کے ساتھ نسبت ملتی ہے۔ اگر گلاب کی خوشبو آ جائے تو اسے flower honey کہتے ہیں، اگر آڑو کی خوشبو آئے تو اسے peach honey کہتے ہیں، سیب کی خوشبو آ جائے تو apple honey کہتے ہیں۔ شہد میں جس چیز کی خوشبو آ جائے اسے وہ نسبت مل جاتی ہے۔

اِسی طرح انسان اگر عرفاء کی مجلس میں بیٹھے گا تو عارف ہو جائے گا۔ ۔ ۔اگر علمائے حق کی صحبت میں بیٹھے گا تو عالم ہو جائے گا۔ ۔ ۔اہل صدق کی مجلس کو اختیار کرنے سے صادق ہو جائے گا۔ ۔ ۔اہل تقویٰ کی صحبت اسے متقی بنا دے گی۔ ۔ ۔اہل اخلاق کے ساتھ بیٹھو گے تو خلق آ جائے گا۔ ۔ ۔اہل دنیا کے ساتھ بیٹھو گے تو من میں دنیا سما جائے گی۔ ۔ ۔اہل معرفت کے ساتھ بیٹھو گے تو معرفت آ جائے گی۔ ۔ ۔

3. فَاسْلُکِيْ :

اِس صیغہ اَمر سے ہمیں سلوک کے لئے پلیٹ فارم مل رہا ہے۔ سالک کے لئے سلوک اور ایک پیکر کامل کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے سلوک کے مرحلوں سے گزار کر منزل تک پہنچا دے۔ اس لئے فرمایا کہ ہم نے شہد کی مکھی کے لئے راستے مسخر کر دیے کہ وہ ان راستوں پر چلے گی تو منزل تک پہنچ جائے گی۔

کارکنو! ہمارے لئے بھی ایک راستہ ہے اور وہ ’’منہاج القرآن‘‘ ہے۔ ہمارا سفر مصطفوی انقلاب کے لیے ہے۔ اسی سے احیائے اسلام کی راہ ہموار ہوگی۔ یہ سفر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خدمت کا سفر ہے۔ یہ سفر قرآن اور صاحبِ قرآن کی فکر کو گلی گلی اور نگر نگر پہنچانے کا سفر ہے۔ اس منزل کے راستے قرآن و سنت کی روشنی میں حضرت شیخ الاسلام نے عطا کر دیے ہیں۔ یہی منہاج ہے، اس پر چلتے جائیں گے تو منزل ضرور حاصل ہو گی۔

ہر کام کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ مصطفوی اِنقلاب کا ایک وقت مقرر ہے، لیکن اس کے لیے جہد مسلسل اور عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ اِن شاء اﷲ وہ وقت ضرور آئے گا اور جلد آئے گا جب مصطفوی انقلاب کا پرچم لہرائے گا اور اُمت کو اسلامی تعلیمات کے ہر طبقہ زندگی اور ہر شعبہ حیات پر اثرات کی صورت میں شہد ملے گا۔ جس طرح شہد کی مکھی سے شہد کا حصول اس کے سفر سے مشروط ہے اسی طرح ہماری منزل کا حصول بھی ہمارے سفر، محنت اور مجاہدہ و ریاضت سے مشروط ہے۔ یہ اب ہم پر ہے کہ ہم کتنا شہد بنا سکتے ہیں، اپنی منزل کو اپنے کتنا قریب کر سکتے ہیں۔ عطا کرنے والے کے ہاں تو کوئی کمی نہیں یہ تو ہماری قوتوں اور کوششوں پر منحصر ہے کہ ہم جتنا سفر کر لیں گے اتنا شہد بن جائے گا۔

زادِ راہِ انقلاب

تحریک منہاج القرآن وہ پلیٹ فارم ہے جس سے راستہ دکھلایا جاتا ہے۔ ان راستوں کے لیے زادِ راہ للہیت، اخلاص، تقویٰ، طہارت و عبادت اور نسبت ہے کیوں کہ یہ راہ، راہِ عشق ہے۔ نسبت مضبوط ہوگی تو سفر جلدی طے ہو گا۔

یاد رکھیں کہ خدمت وہی مقبول ہے جو کسی منہاج سے ہو رہی ہو۔ جو کسی سیدھے اور صحیح راستے پر چلتے ہیں وہی کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ ورنہ تو لاکھوں کروڑوں ہیں جو بغیر راستے کے چل رہے ہیں۔ تحریک منہاج القرآن کے رفقاء و کارکنان خوش قسمت ہیں کہ راستے بھی مل گئے، مراد بھی مل گئی اور پھر شفاء کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ اس لئے کہ منہاج القرآن میں توحید کی تعلیم بھی مل رہی ہے اور نسبت رِسالت کی پختگی کا درس بھی ملتا ہے، یہاں عقیدے اور تصوف کی تربیت بھی ہوتی ہے۔ الغرض یہاں تقویٰ و طہارت، علمیّت و فکریّت، اِستدلال و اِستنباط، سب کچھ مل رہا ہے۔ الغرض ہر شے کا الگ الگ رنگ اور شہد موجود ہے جسے کارکنان نے آگے تقسیم کرنا ہے۔

شہد کی مکھی کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اِس کا نظام دنیا کے نظام سے مختلف ہے۔ آپ جو کھاتے ہیں وہی خارِج ہوتا ہے۔ اگر کسی نے کوئی چیز کھائی، اس کے پیٹ سے وہی نکلے گا لیکن شہد کی مکھی نے جو رس چوسا اور جو کچھ بھی کھایا اسے شہد میں تبدیل کر کے دوسروں کے لیے نفع بخش بنا دیا۔ وہ تکلیف اپنے اوپر جھیلتی ہے اور لوگوں کے لیے شہد ہی دیتی ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ تکلیف آئے تو برداشت کر لیں کیونکہ بارگاہِ اِلٰہی سے اِس کا اجر ملے گا۔ راہِ حق میں پیش آنے والی تکالیف اور مصائب کو ہمت و حوصلے سے برداشت کریں اور صبر کریں۔ اس کا اتنا اجر ملے گا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم تو اشرف المخلوقات ہیں، انسان ہیں۔ جب کہ شہد کی مکھی کو دیکھیں، اس قدر ناتواں اور کمزور مخلوق ہو کر بھی اپنے مشن کی خاطر اتنا سفر کرتی ہے، کبھی تند و تیز ہوائیں آتی ہوں گی، طوفان آتے ہوں گے، کبھی اس کے چھتوں پر حملے ہوتے ہوں گے، کبھی لوگ اسے مارتے ہوں گے لیکن وہ تمام مسافتوں اور مراحل و مصائب سے گزر کر منزل پر پہنچ ہی جاتی ہے۔

ہماری منزل بھی وہ انقلاب ہے جس کا راستہ حضرت شیخ الاسلام نے دکھایا ہے، انہوں نے اس کی منزل بھی دیکھ لی ہے اور اس کا مقصد اور مراد بھی دیکھ لیا ہے۔ اب ہمارا یہ فرض ہے کہ مخالفتوں، مزاحمتوں، رکاوٹوں، مصائب و آلام اور طعن و تشنیع سے بے نیاز ہو کر حصول منزل تک سرگرم عمل رہیں۔

جزا و سزا کا اُلوہی ضابطہ

شہد کی مکھی کی جہد مسلسل کے مطالعہ سے ہمیں ایک اور سبق بھی ملتا ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں، ہمیں اپنی محنت اور تگ و دو جاری رکھنی چاہیے۔ ہر حال میں اﷲ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے اور اُس کا شکر بجا لاتے رہنا چاہیے کیونکہ شکرِ اِلٰہی ہی درحقیقت نعمتوں میں اِضافہ کا سبب بنتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا اِنکار درحقیقت اُس کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :

لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ.

(ابراهيم : 7)

’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہےo‘‘

اِسی طرح سورۃ النحل میں ہی آگے چل کر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ایک آیت میں مثال بیان فرمائی ہے :

وَضَرَبَ اللّهُ مَثَلاً قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّهِ فَأَذَاقَهَا اللّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُواْ يَصْنَعُونَ.

’’اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) اَمن اور اِطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھےo‘‘

 (النحل : 112)

نعمتوں کا شکر ادا کرنا اور تحدیث نعمت کرنا وہ مقام عطا کرتا ہے جو دوسروں کے لیے نفع رسانی کا باعث بنتا ہے لیکن جب اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو فراموش کر کے اُس کی نافرمانی کی جائے تو اﷲ تعالیٰ بھوک اور خوف مسلط کر دیتا ہے اور وہ قوم طرح طرح کے آلام و مصائب کا شکار ہو کر گرداب میں پھنستی چلی جاتی ہے۔

ایک قول کے مطابق اِس آیت مبارکہ میں بیان کی گئی بستی سے مراد کفار مکہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں مرکزی مقام عطا کیا تھا اور مکہ مکرمہ کو جائے امن بنایا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل اِس شہرِ مکہ میں ہر طرح کی نعمتیں عطا کی گئیں اور اسے ایک مرکزی مقام حاصل ہو گیا تھا اور یہ سب سے زیادہ پُر اَمن شہر تھا۔ حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ مکہ پُر اَمن اور پُر سکون شہر تھا، اس کے ارد گرد کے لوگوں کو ہر وقت اپنی جان کا خطرہ رہتا تھا لیکن اُس پُرفتن دور میں بھی اگر کوئی مکہ مکرمہ میں داخل ہو جاتا تو اُسے اَمن میسر آ جاتا اور وہ ہر طرح کے خوف سے بے نیاز ہو جاتا۔

لیکن جب اُن اہل مکہ نے ان نعمتوں کا اِنکار کیا اور سب سے بڑی نعمت جو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں انہیں عطا ہوئی، اس کا انکار کیا تو اﷲ تعالیٰ نے ان پر دو عذاب مسلط کیے :

  1. بھوک اور پیاس
  2. دشمن کا خوف

یعنی جو پہلو مکہ کا اِمتیازی وصف تھے اُنہی دو پہلوؤں میں اہل مکہ بدترین پستی کا شکار ہو گئے۔ اُن کے پاس ہر طرف سے رزق اور پھل بکثرت آتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کے باعث انہیں تنگ دست کر دیا گیا یہاں تک کہ اہل مکہ اونٹ کے خون آلود بال کھانے پر مجبور ہو گئے۔ مزید برآں اَمن بھی رُخصت ہو گیا اور خوف کے سیاہ بادل ہر وقت اَہل مکہ پر منڈلانے لگے۔ ہجرت مدینہ کے بعد ہمہ وقت اُن پر مسلمانوں کا رُعب و دبدبہ اور سطوت و ہیبت طاری رہتی اور حملوں کا دھڑکا لگا رہتا۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائے خاص کے نتیجے میں اس شہر کو ہر طرح کی نعمتوں کی فراوانی عطا کر دی گئی لیکن جب سب سے بڑی نعمت کا انکار کیا گیا تو اس شہر والوں سے تمام نعمتیں چھین کر انہیں محروم کر دیا گیا۔

پس جب تک قوموں کو اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی معرفت رہتی ہے، اُس وقت تک انہیں اُلوہی نعمتیں بھی ملتی رہتی ہیں لیکن جب قومیں نعمتوں کا اِنکار کرتی ہیں تو ذلت و رُسوائی اُن کا مقدر کر دی جاتی ہے۔

اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہمارے آج کے حالات پر بھی اِس آیت کا اِطلاق ہوتا ہے۔ آج اُمت مسلمہ معاشی ناہمواری اور سیاسی زبوں حالی کا شکار ہے تو صرف اور صرف کفرانِ نعمت کی وجہ سے۔ اُمتِ مسلمہ دنیا کے ستر فیصد وسائل کی مالک ہونے کے باوجود اَغیار کی دست نگر ہے اور اپنی بقا کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہی ہے کیونکہ اُمت نے اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنا چھوڑ دی ہے۔ آج ملک خداداد پاکستان میں ہر طرف افراتفری اور بداَمنی ہے۔ ۔ ۔ معاشی بدحالی اور سیاسی اِنتشار کی فراوانی ہے۔ ۔ ۔ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ ۔ ۔ چار مختلف موسموں کا حامل زرعی ملک ہونے کے باوُجود غذائی اَجناس کی قلّت ہے۔ ۔ ۔ دنیا کا بہترین نہری نظام ہونے کے باوجود ملک میں پانی اور بجلی نہیں ہے۔ ۔ ۔ قدرتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود معاشی خوش حالی نہیں ہے اور لوگ محروم المعیشت ہیں۔

اِن تمام مسائل اور مصائب کی وجہ صرف اور صرف کفرانِ نعمت ہے۔ آج ہم اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا اِنکار کرتے ہیں اور اس کا شکر بجا نہیں لاتے جب کہ اُس کی نعمتیں صرف اُنہی کو ملتی ہیں جو اُس کا شکر بجا لاتے ہیں۔ اُس نے ہمیں دین کی نعمت عطا کی تو ہم نے دین کو چھوڑ دیا۔ ۔ ۔ اُس نے ہمیں اِسلام کی نعمت عطا کی تو ہم نے اِسلام کو پس پشت ڈال دیا۔ ۔ ۔ اُس نے ہمیں قرآن کی نعمت عطا کی تو ہم نے قرآن کو غلاف میں بند کر کے طاق میں سجا دیا۔ ۔ ۔ اُس نے ہمیں دیگر بے شمار نعمتیں عطا کیں لیکن ہم نے داخلی اِفتراق و اِنتشار کے باعث ان نعمتوں کو ضائع کر دیا۔ ۔ ۔ یعنی تمام نعمتوں کی فراوانی ہونے کے باوجود ہم قعر ذلت میں دھنستے چلے جا رہے ہیں اور آج ہر طرف سے ہم پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں۔

لہذا اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنا سیکھنا ہو گی اور اُنہیں بہتر طریقے سے اِستعمال میں لانا ہوگا۔ ان نعمتوں کو ضائع کرنے والے کو اﷲ تعالیٰ ضائع کر دیتا ہے۔ اُس نے ہمیں ’’منہاج القرآن‘‘ جیسی نعمت عطا کی ہے اُس نے ہمیں قائد تحریک شیخ الاسلام جیسی نعمت عطا کی ہے کہ جن جیسا قائد کسی اور کے پاس نہیں۔ لہٰذا آج اﷲ تعالیٰ کے دین کی خاطر ان نعمتوں کے ساتھ صحیح معنوں میں جڑنا ہو گا اور اپنا جینا مرنا صرف اور صرف اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی خاطر کرتے ہوئے اپنا اوڑھنا بچھونا مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی خدمت کو بنانا ہوگا۔ پس یہی زندگی ہے، اِس زندگی کی قدر کریں۔

مستقل مزاجی سے محنت کرتے چلے جائیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی سے کوئی اجرو جزاء کی امید نہ رکھیں کیونکہ جن کے لیے خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ان کی نگاہوں سے تو کچھ مخفی نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ ہم محنت کر کر کے مر گئے، کھپ گئے لیکن ہمیں appreciation اور پذیرائی نہیں ملی، کچھ نہیں ملا! اگر یہ عقیدہ رہا کہ جو کر رہے ہیں اس کی پذیرائی یہیں ہونی چاہیے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، البتہ اگر یہ عقیدہ اپنا لیا کہ کاش یہ ٹوٹی پھوٹی کوشش اُس بارگاہ میں قبول ہو جائے تو اس سے سب کچھ مل جاتا ہے۔

ہماری منزل اور ہمارا منہاج ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے مشن مصطفوی کا پیغام پوری دنیا میں پہنچانا ہے۔ مستقل مزاجی سے تکالیف پر صبر کرتے ہوئے مشن کی خدمت کا کام جاری رکھیں گے تو جو فیض اُس بارگاہ سے ملے گا دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، کوئی قوت اور طاقت ہمیں اپنی منزل سے دور نہیں کر سکتی۔ جب ہم اللہ کے لیے ہوگئے تو ہمارے معاملات بھی وہ خود ہی طے کرتا ہے۔ اس حدیث مبارکہ کے مصداق اتقوا بفراسة المومن إِنَّهٌ يَنْظُرُ بِنُورِ اﷲِ مومن نورِ اِلٰہی کے پرتو سے دیکھتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے قائد بھی ہمارے تمام احوال و اعمال سے باخبر ہیں اس لئے کہ کوئی شے اللہ کے نور کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ پس جان لیجیے کہ منزل ہمارے سامنے ہے، ہم نے محنت کر کے اپنے اپنے حصے کا شہد لانا ہے۔ اگر ہم شہد کی مکھی کے طرز حیات پر اور اس کی خصوصیات پر غور و فکر کریں گے تو ہمارے تمام جھگڑے اور فساد ختم ہوئیں گے، پھر کوئی نزاع نہیں رہتا اس لئے کہ مقصد اﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس منہاج پر اسی طرح مطیع ہو کر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی اور اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و وفا کا پیکر بنائے۔