دور فتن میں خدمت دین کے تقاضے : حصہ اول

خطاب : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ.

(آل عِمْرَان ، 3 : 110)

’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری امت کی تعریف کی ہے اور امت کا خیرالامم ہونا اس کا شرف قرار دیا ہے۔ فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اس امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل تمام انبیاء و رسل عظام کی امتوں کی تعداد 69 تھی اور امت محمدی 70ویں امت ہے جسے ان تمام امتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ امت محمدی کو خیرالامم قرار دینے کا سبب قرآن پاک نے بیان فرمایا کہ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ ’’تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘‘ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ’’اور برائی سے منع کرتے ہو‘‘ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ ’’اور اللہ پر پختہ ایمان رکھتے ہو‘‘۔ ان تین اوصاف کو بطور خاص امت محمدی کے خیرالامم ہونے کے لئے سبب اور امت محمدی کی زینت قرار دیا گیا ہے۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.

(آل عِمْرَان ، 3 : 104)

’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں‘‘۔

اس آیت میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ امت میں سے کوئی ایک جماعت / گروہ بھی ہر زمانے میں قیامت تک بطور خاص ہونا چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔

خدمتِ دین کیا ہے؟

اللہ رب العزت نے امت میں کسی ایک جماعت /  گروہ کے قیام پر زور دیتے ہوئے جو خوبیاں بیان کیں یہ وہی ہیں جن کا ذکر آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے من حیث الکل امت کی خوبیوں کے طور پر کیا یعنی

  1. دعوت الی الخیر۔
  2. امر بالمعروف۔
  3. نہی عن المنکر

ان تین امور کوخدمت دین کہا جاتا ہے اور ان امور کو بجا لانے کی جدوجہد اقامت دین ہے۔

اللہ کا دین عظیم نعمت ہے اور کائنات ارض و سماء میں کوئی اور نعمت اس کے برابر نہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر ایک پیغمبر کو یہی دین دے کر مبعوث کیا گیا۔ دین کی خدمت و اشاعت کا یہ کام پہلے انبیاء اور ان کی امتیں سرانجام دیتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دین کی خدمت، اشاعت، تبلیغ، دعوت و اقامت، اس دین کے پیروکاروں کے احوال میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی اصلاح اور دین کی مٹتی ہوئی اقدار کو دوبارہ زندہ کرنے کے عمل کو آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے بعد بھی جاری رکھنا تھا۔ لہذا یہ کام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو سونپ دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں خدمت و اقامت دین کا فریضہ جس طبقہ نے سب سے پہلے سرانجام دیا وہ خلفاء راشدین تھے۔ جن کا اسوہ اور شعار و عمل امت مسلمہ کے لئے نمونہ بنایا گیا اور اس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی Extention (توسیع) قرار دیا گیا۔ ارشاد فرمایا:

عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْن المَهْدِيِيْن.

(جامع ترمذی، ابواب العلم، ج 5، ص 44، رقم : 2676)

بعد ازاں یہ فریضہ تابعین، اتبع التابعین، سلف صالحین، ائمہ مجتہدین اور اولیاء و صالحین انجام دیتے رہے۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے بہترین لوگ، کئی جماعتیں اور کئی گروہ الگ الگ حیثیت سے، الگ الگ میدانوں میں، الگ الگ طریق سے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے دین کی خدمت، اقامت، اصلاح و تجدید اور احیاء کا فریضہ اپنے اپنے دور میں سرانجام دیتے رہے اور یہ تسلسل آج تک قائم ہے۔ نیز یہ تسلسل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول، حضرت امام مہدی کی ولادت، دجال کے قتل اور دوبارہ زمین پر غلبہ اسلام تک جاری رہے گا۔ وہ لوگ خوش نصیب تھے، خوش نصیب ہیں اور آئندہ خوش نصیب ہوں گے جن کو اپنے اپنے زمانے میں اللہ تعالیٰ خدمت دین کی توفیق سے نوازے گا اور اقامت دین کی نوکری ان کے سپرد کرتے ہوئے ان سے یہ عظیم کام لے گا۔

تحریک منہاج القرآن خدمت و اقامت دین، رجوع الی اللہ والی الرسول، رجوع الی القرآن، رجوع الی العلم والسنہ، رجوع الی الاخوۃ والفتوۃ، رجوع الی الجماعۃ والسواد الاعظم اور رجوع الی المجاہدہ والاقامۃ کی بلاشک و شبہ اس صدی کی عظیم الشان تحریک ہے۔ اس تحریک میں شامل احباب اس خدمت و اقامت دین کے عظیم پیغمبرانہ کام کے لئے کارکن کے طور پر منتخب کئے گئے ہیں۔ اللہ رب العزت کے حضور اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ میں کارکنان دین کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان شاء اللہ آخرت میں بھی اسی طرح جانے جائیں گے اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کسی کے اخلاص پر مبنی عمل کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ کارکنان تحریک کی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے اخلاص پر مبنی شب و روز کی کاوشیں اللہ رب العزت کے ہاں مقبول عبادت ہیں۔

عذابِ الہٰی سے حفاظت کیونکر ممکن ہے؟

امر بالمعروف ونہی عن المنکر، خدمت و اقامت دین کا قرآنی و نبوی عنوان ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر پر جتنی تاکید کی ہے اس کا بطور خاص ذکر دور فتن میں کیا کہ جب فتنوں کا زمانہ شروع ہو جائے گا تو خدمت دین و اقامت دین کی کاوشوں کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائے گی۔ جب فتنوں کا غلبہ شروع ہو جائے گا اس وقت نامساعد حالات اور دور فتن میں حق کا علم بلند کرنے والوں، مشکلات اور ناموافق حالات کے اندر اپنے شب و روز، توانائیاں، وقت، مال و دولت صرف کر کے، آرام چھوڑ کر، اخلاص و للہیت کے ساتھ خدمت دین اور اقامت دین کا فریضہ سرانجام دینے والے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور دعوت الی الخیر کا علم بلند کرنے والے کا درجہ پہلی صدیوں کے لوگوں سے بھی بلند ہو جائے گا۔ امت میں جب بھی خدمت و اقامت دین کا کام رک جائے گا، اس وقت اللہ رب العزت کا عمومی عذاب امت کو گھیر لے گا۔ جس ملک، جس طبقہ اور جس خطہ ارضی میں یہ کام رک جائے گا اس ملک پر اللہ کا عذاب آ جائے گا جو بالعموم تمام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب اس وقت تک موخر رہے گا اور لوگ اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے جب تک خدمت و اقامت دین کا کام کرتے رہیں گے۔

فریضہ خدمت دین کی بلا انقطاع ادائیگی

اس حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاداتِ گرامی ہمارے لئے غور وفکر کا سامان لئے ہوئے ہیں۔ انہی ارشادات میں سے ایک ارشاد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اپنے خطبہ خلافت کے ذریعے امت کو پہنچایا۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ کے دوران سورۃ مائدہ کی آیت نمبر105 تلاوت کی:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ لاَ يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ.

(الْمَآئِدَة ، 5 : 105)

’’اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو، تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان کاموں سے خبردار فرما دے گا جو تم کرتے رہے تھے‘‘۔

اس آیت کو تلاوت کر کے آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ لوگ اس آیت کریمہ کا مفہوم غلط سمجھتے ہیں، اصل موقع و محل سے ہٹا کر اس کا اطلاق کرتے ہیں اور اس سے معاذ اللہ یہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شاید امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے حکم کا وجوب اور فرضیت ایک زمانے میں اٹھ جائے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اصلاح کی کہ خدمت دین اور اقامت دین کا فریضہ کسی بھی زمانے میں تم پر معطل نہیں ہوگا۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا:

اِنَّ الْقَوْمَ اِذَا رَاٰوُ الظَّالِمَ فَلَمْ يَاخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ وَالْمُنْکَرَ فَلَمْ يُغَيِرُوْهُ عَمَّهُمُ اللّٰهُ بِعَقَابِهِ.

(ابويعلیٰ، المسند، ج 1، ص 120، رقم 132)

فتن کے دور میں ایسا دور آئے گا کہ قوم ظالموں کو دیکھے گی کہ وہ ظلم کر رہے ہیں۔ ظالم سے مراد حکمران اور امراء ہیں مگر وہ ان کے ہاتھ نہیں روکیں گے۔ ان کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے۔ معروف کا امر نہیں دیں گے اور منکر کی نہی نہیں کریں گے۔ گناہ، بے حیائی، برائی اور اللہ کی نافرمانی کو دیکھیں گے مگر احوال کے بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اگر لوگ حالات کو ان کے حال پر چھوڑ کر خدمت و اقامت دین اور دعوت و اشاعت دین کا فریضہ ترک کر دیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ اس پوری قوم کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا اور ساری قوم پر طرح طرح کے عذاب مسلط کئے جائیں گے۔

ہم اس باب میں بہت غافل ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس کام کی اہمیت کی جانب کس کس طرح متوجہ فرمایا آیئے مزید چند احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں:

فریضہ خدمتِ دین کی عدم ادائیگی پر سزا

سنن ابوداؤد، کتاب الملاحم، (رقم 4336) میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں جو عذاب اللہ کی طرف سے آیا، اس کی ابتداء سب سے پہلے یہاں سے ہوئی کہ بنی اسرائیل کے لوگ امر بالمعروف ونہی عن المنکر یعنی اپنے دین کی خدمت و اقامت اور دعوت الی الخیر کا فریضہ ادا کرنا چھوڑ گئے تھے اور روش یہ اختیار کر لی کہ ایک شخص جب دوسرے کو ملتا تو اس سے رسماً ایک بار کہتا تاکہ عذر پورا ہوجائے کہ ’’اے اللہ کے بندے تو اللہ سے ڈر، یہ اچھا کام نہیں ہے جو تو کر رہا ہے، اس کو چھوڑ دے‘‘۔ پس اس کو اس طرح رسماً کہہ دیتا۔ وہ اس کی بات نہ مانتا اور برائی سے نہ رکتا۔ وہی منع کرنے والا شخص جب اگلے دن پھر اس مؤثر اور مال دار آدمی سے ملتا جس کی معاشرے میں عزت اور طاقت ہوتی تھی تو پچھلے روز جو اس کو رسماً کہا تھا وہ بھی بھول جاتا۔ حتی کہ اس کے ساتھ مل کر کھاتا، پیتا اور اس کا ہم مجلس ہوتا کیونکہ اس کے ساتھ دوستی اور مجلس رکھنا چاہتا تھا لہذا جب دوبارہ اس سے ملاقات ہوتی تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی بات رسماً بھی نہیں کہتا تھا۔ گویا انہوں نے اس فریضے کا مذاق اڑایا، اس پر اللہ پاک نے ان پر عذاب نازل کیا:

ضَرَبَ اللّٰهُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ.

کہ ان کے دلوں کے حال کو آپس میں خلط ملط کر دیا۔ اس طرح کہ شروع میں منع کرنے والے بھی معاصی و گناہ کا ارتکاب اور اللہ کے احکام سے بغاوت کرنے والے کے حال کے ساتھ مل گئے، ان کے شریک ہوگئے اور یہی حال ان کے دل کا بھی ہوگیا۔ نتیجتاً اب برائیاں ہو رہی ہیں مگر ان کے دل پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا تھا۔۔۔ نافرمانی، بے حیائی اور ظلم ہو رہا ہے مگر ان کے دل پر کوئی بوجھ نہ ہوتا تھا۔۔۔ دین کی حمیت ختم ہوگئی۔۔۔ دین کے حوالے سے ان کے دل پر کوئی رنج و ملال نہ ہوتا۔۔۔ نافرمانی پر ہونے والی وحشت ختم ہوگئی اور وہ ان کے ساتھ گھل مل گئے۔۔۔ ان کی کیفیت ایک جیسی ہوگئی اور ان کے دل ایک دوسرے کے موافق ہوگئے۔۔۔ ارتکاب گناہ کرنے والوں کے دل اور خدمت و اقامت دین کا فریضہ چھوڑنے والوں کے دل اللہ نے ایک جیسے کر دیئے حالانکہ وہ گناہ نہیں کرتے تھے مگر چونکہ برائی سے روکنا چھوڑ گئے اور حق کی دعوت دینا چھوڑ گئے لہذا ان کے شامل حال ہوگئے۔ اب دونوں کے اندر معصیت بھر گئی۔۔۔ دین کی غیرت اٹھ گئی۔۔۔ اور ان کے اندر سے الحب فی اللہ والبغض فی اللہ کے ختم ہوتے ہی خیر ختم ہوگئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی قوم پر حضرت داؤد علیہ السلام کی زبان کے ذریعے لعنت بھیجی، پھر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی زبان کے ذریعے ان پر لعنت بھیجی۔ جن کا ذکر سورہ مائدہ کی آیت نمبر 78 سے 81 تک ملتا ہے اور فرمایا کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اللہ کے دین کی دعوت و اقامت کا فریضہ ترک کر کے نافرمانی کی اور حد سے بڑھ گئے یعنی گناہ کرنے والے، بے حیائی کرنے والے، دین کا مذاق اڑانے والے، دینی احکام کو نظر انداز کرنے والے، خود بھی اور وہ بھی جنہوں نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر، دعوت الی الخیر اور خدمت و اشاعت دین کا فریضہ ترک کر دیا تھا، اللہ کے ہاں حد سے گزرنے والے بنے اور ان پر اللہ کا عذاب آیا، ارشاد فرمایا:

وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِالله والنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَـكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ.

’’اور اگر وہ اللہ پر اور نبی (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس (کتاب) پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لے آتے تو ان (دشمنانِ اسلام) کو دوست نہ بناتے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں‘‘۔

(الْمَآئِدَة ، 5 : 81)

اگر صحیح معنوں میں یہ لوگ ایمان والے ہوتے تو دین کا مذاق اڑانے والوں کو دوست نہ بناتے، ان دشمنان اسلام کے ساتھ کھانا نہ کھاتے، ان کی مجلسوں میں کبھی شریک نہ ہوتے، ان سے پیار نہ ہوتا آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے بنی اسرائیل کا یہ حال بیان فرما کر پھر ارشاد فرمایا:

اللہ کی قسم! اگر تم امر بالمعروف اور برائیوں سے روکنے کا فریضہ انجام دیتے رہو گے اور ظالم کے ظلم کے لئے اٹھنے والے ہاتھ کو بساط بھر روکتے رہو گے۔۔۔ وَلَتَاطُرَنَّهُ عَلَی الْحَقِّ اَطْرًا وَ لَتَقْصُرَنَّهُ عَلَی الْحَقِّ قَصْرًا.۔۔ اور اسے ظلم سے ہٹا کر حق کی طرف لانے کی جدوجہد کرتے رہو گے۔۔۔ ظلم سے باز رکھنے اور حق کی راہ پر اس کو گامزن کرنے کی کوشش جاری رکھو گے تو اللہ کے عذاب سے بچے رہو گے اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو لَيَضْرِبَنَّ اللّٰهُ بِقُلُوْبِ بَعْضِکم عَلٰی بَعْضٍ. تو بنی اسرائیل کی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو بھی ایک جیسا کر دے گا یعنی رشوت لینے والے، کرپشن کرنے والے، شراب خوری کرنے والے، بدکاری کرنے والے، لوٹ مار کرنے والے، اللہ کے دین کا مذاق اڑانے والے، بغاوت کرنے والے، اللہ کے دین کے احکامات کو توڑنے والے الغرض ہر طرح کی نافرمانی و گناہ کرنے والے لوگ اور ان کو نہ روکنے والے، اللہ کے دین کی دعوت کو بلند نہ کرنے والے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دینے والے، چپ ہو جانے والے اور اپنی غیرت و حمیت کا گلہ دبا دینے والے بھی ان جیسے ہی کر دیئے جاؤ گے ۔۔۔ جیسے ان کے دل سیاہ ویسے تمہارے دل سیاہ ۔۔۔ جیسے ان کے مقدر سیاہ ویسے تمہارے مقدر سیاہ ۔۔۔ جو ان کا نامہ اعمال وہی تمہارا نامہ اعمال بنا دیا جائے گا ۔۔۔ پھر فرمایا : يَلْعَنَنَّکُمْ کَمَا لَعَنَهُمْ.

اللہ تبارک وتعالیٰ تم سب پر اسی طرح مشترک لعنت بھیج دے گا، تم سب کو اجتماعی طور پر، کلیتاً اپنی رحمت سے محروم کر دے گا۔ جیسے اس نے بنی اسرائیل پر لعنت بھیجی تھی اور ان کو اپنی رحمت سے محروم کیا تھا۔

اس حدیث مبارکہ سے خود اندازہ کر لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔۔؟ سوچیں! کہ قوم کہاں کھڑی ہے۔۔۔؟ معاشرہ کہاں کھڑا ہے۔۔۔؟ معاشرے کے طبقات کہاں کھڑے ہیں۔۔۔؟ کیا آج ہمیں یہ نقشہ نظر نہیں آتا کہ پوری قوم اجتماعی عذاب اور اللہ کی ناراضگی کی لپیٹ میں ہے۔ اللہ کے ناراضگی سے بچنے اور اللہ کے عذاب سے پناہ پانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خدمت و اشاعت اور اقامت دین کے فریضے کو شد و مد کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ یہ طریقہ پوری قوم کے لئے، آنے والی نسلوں کے لئے اور پورے معاشرے کے لئے کفارہ بن جائے گا۔ اس فریضے کو جتنی محنت کے ساتھ جاری رکھیں گے اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے محفوظ رہیں گے۔

طاقت اور قدرت کے باوجود عمل نہ کرنے کی سزا

سنن ابی داؤد کتاب الملاحم کی حدیث نمبر 4338 میں ہے کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا:

اِنَّ النَّاسَ اِذَا رَاَوُ الظَّالِمَ فَلَمْ يَاْخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ اَوْشَکَ اَنْ يَعُمَّهُمُ اللّٰهُ بِعِقَابٍ.

ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ دیکھیں گے کہ ظالم ظلم کر رہا ہے مگر وہ اس کو روکنے کا فریضہ انجام نہیں دیں گے تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس پوری قوم کو اپنی عمومی عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔ پھر فرمایا:

مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِيْ ثُمَّ يَقْدِرُوْنَ عَلٰی اَنْ يُغَيِرُوْا ثُمَّ لَا يُغَيِرُوْا اِلَّا يُوْشِکُ اَنْ يَعُمَّهُمُ اللّٰهُ مِنْهُ بِعِقَابٍ.

ایسی قوم جس میں گناہ کئے جا رہے ہوں، کھلی نافرمانیاں کی جا رہی ہوں، اللہ کے دین کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، کھلے عام احکام الہٰی توڑے جا رہے ہوں اور اس کو قوم کی اکثریت ناپسند بھی کرتی ہو اور ان کے پاس اکثریت میں ہونے کی وجہ سے یہ طاقت بھی ہو کہ وہ احوال کو بدل دیں مگر وہ حالات کو نہیں بدلتے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری قوم کو اپنی عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔

اس حدیث کے تناظر میں سوچیں کہ 4 / 3 سال بعد الیکشن کے دن ووٹ کے ذریعے پوری قوم کے ایک ایک فرد کو طاقت دی جاتی ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا اللہ کی نافرمانی، ظلم، کرپشن، بدکاری، ذلت و خواری، دین کے احکام کا مذاق و ٹھٹھہ کرنے اور دین سے بغاوت کے نظام کو برقرار رکھنا ہے اور ایسے کو لانا ہے جن سے دین کی خیر کی کوئی توقع نہیں۔۔۔ یا ۔۔۔ دین کی اقدار کو زندہ کرنا ہے۔۔۔ معاشرے میں خیر کو لانا ہے۔۔۔ ظلم کو مٹا کر عدل کو لانا ہے۔۔۔ شر کو مٹا کر خیر کو لانا ہے۔۔۔ برائی کو مٹا کر اچھائی کو لانا ہے۔ الغرض ہر شخص کے ہاتھ میں ایک طاقت دی جاتی ہے، حدیث مبارکہ کے الفاظ کے مطابق يَقْدِرُوْنَ عَلٰی اَنْ يُغَيِرُوْا.۔۔ ان کو ووٹ والے دن طاقت دے دی جاتی ہے کہ وہ پرچی جس رخ پر ڈالنا چاہیں ڈال دیں، یہ ان کا اپنا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ شر و ظلم اور عدل و حق جس بارے چاہیں فیصلہ کر لیں مگر ثُمَّ لَا يُغَيِرُوْا.۔۔ وہ حالات کو نہیں بدلتے۔۔۔ وہ شر ہی کو برقرار رکھتے ہیں۔۔۔ شر ہی کو ووٹ دیتے ہیں، شر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔۔۔ ظلم، کرپشن، خیانت، لوٹ مار، دین سے بغاوت ونافرمانی کی تائید کرتے ہیں۔ اگر آج ہمارا عمل یہی ہے تو ہم کیونکر اللہ کے عذاب کا شکار نہ ہوں۔

اس حدیث مبارکہ کو امام ابوداؤد ایک اور طریق سے بیان کرتے ہیں کہ جو قدرت اور طاقت رکھتے ہوئے حالات کو نہیں بدلیں گے، اس فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ مَا مِنْ قَوْمُ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِيْ هُمْ اَکَثر مِمَّنْ يَعْمَلَه. کسی قوم میں گناہ کرنے والے تھوڑے ہوں گے اور گناہ و ظلم کو ہوتا دیکھنے والے زیادہ ہوں گے یعنی عملاً گناہ نہ کرنے والے زیادہ ہوں گے۔ ان کے پاس اکثریت میں ہونے کی وجہ سے طاقت ہوگی کہ وہ حالات کو بدل دیں لیکن وہ حالات نہیں بدلیں گے۔۔۔ وہ اپنے گھروں، دکانوں، دفتروں میں بیٹھ کر ظلم اور گناہ کو ہوتا دیکھیں گے۔۔۔ اس پر اپنی مجلسوں میں طعن و تنقید بھی کریں گے۔۔۔ ناپسند بھی کریں گے۔۔۔ برا بھلا بھی کہیں گے لیکن عملی طور پر کچھ نہ کرنے کے جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ اس پوری قوم کو بلا امتیاز اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا۔

دورِ فتن کی علامات

حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سورۃ المائدہ آیت نمبر105 کا معنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

بَلِ ائْتَمِرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْکَر حَتّٰی اِذَا رَاَيْتَ شُحًا مُطَاعًا وَهَوًی مُتَّبَعًا وَالدُّنْيَا مُوْثَرَةً وَاِعْجَابَ کُلِّ ذِيْ رَاْی بِرَاْيِهِ فَعَلَيْکَ يَعْنِيْ بِنَفْسِکَ وَدَعْ عَنْکَ الْعَوَام.

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، ج 4، ص 123، رقم 4341)

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہنا، دعوت الی الخیر اور اقامت دین کے کام میں کبھی غفلت نہ کرنا، حتی کہ وہ وقت آ جائے گا کہ آپ دیکھیں گے کہ

شُحًا مُطَاعًا.۔۔ وہ لوگ جو سوسائٹی کے بخیل، مال کے حریص، مال و دولت دنیا کے طالب اور دنیا کے مال پر مرنے والے ہوں گے، دنیا کے مال کو لوٹنا اور جمع کرنا چاہتے ہوں گے، دنیا ان کا جینا مرنا ہوگا، ایسے لوگ کو حکمران بنا دیا جائے گا۔ وہ لیڈر بن جائیں گے، وہ معزز ہو جائیں گے، ان کی پیروی کی جائے گی، ان کی بات مانی جائے گی، وہ طاقتور ہو جائیں گے۔

وَهَوًی مُتَّبَعًا.۔۔ اس زمانے میں خواہشات نفس کی پیروی کی جائے گی، ایتائے حقوق نہیں ہوں گے، لوگ نفس کی خواہشوں کے پیچھے چل رہے ہوں گے۔

وَاِعْجَابَ کُلِّ ذِيْ رَاْی بِرَاْيِهِ.۔۔ اس زمانے کے Men of openion, intilectuals, openion makers، لوگوں کی رائے بنانے والے، صائب الرائے لوگ، چیزوں پر اپنا واضح نقطہ نظر رکھنے والے لوگ، نہ قرآن کو پڑھیں گے نہ حدیث و سنت کو پڑھیں گے فقط جو کچھ ان کا نفس چاہے گا، ان کے دل و دماغ میں آئے گا، اس ذاتی رائے پر فخر کریں گے، عجب کریں گے، گھمنڈ کریں گے اور دوسروں کی بات کو رد کر دیں گے کہ جو ہم کہہ رہے ہیں وہ ہی بات صحیح ہے۔

دورِ فتن میں کیا کِیا جائے؟

جب یہ تین چیزیں سوسائٹی میں ظاہر ہو جائیں:

  1. دین کو چھوڑ کر مال و دولت دنیا پر حرص کرنے اور خواہشات نفس کی پیروی کرنے والے لوگ حکمران اور لیڈر بنا دیئے جائیں۔
  2. دین اور قرآن و سنت پر دنیا ترجیح پا جائے۔
  3. صاحب رائے لوگ اپنی ذاتی رائے کو قرآن و سنت اور احکام شریعت کے مقابلے میں اونچا سمجھیں اور دوسروں کی بات سننا بھی گوارا نہ کریں۔

فرمایا:

فَعَلَيْکَ يَعْنِيْ بِنَفْسِکَ.۔۔ جب ایسا دور آ جائے تو اپنی نفوس کی اصلاح اور انہیں ہدایت پر مستحکم کرنے کی کوشش کرنا، اپنی محنتیں صرف کر دینا کہ ضرر، نقصان، شر، ہلاکت اور بربادی کا دور ہے۔

وَدَعْ عَنْکَ الْعَوَام ۔۔۔ اور عوام کی بات نہ ماننا، عوام کو چھوڑ دینا۔ اس وقت عوام حق کو سننے والے نہیں ہوں گے۔۔۔ عوام کے اندر دین کی غیرت و حمیت نہیں بچی ہوگی۔۔۔ عوام اپنے مفاد، طمع اور دو دو ٹکے کے لالچ کے لئے دنیا داروں اور حریصوں کے پیچھے پھر رہے ہوں گے۔۔۔ ان کے ہاں عزت و ذلت کا پیمانہ برقرار نہیں رہے گا۔۔۔ جدھر مال اور لالچ نظر آئے گا ادھر ہو جائیں گے۔۔۔ قرآن و حدیث کو بھول جائیں گے۔۔۔ اس دور میں عوام کی پرواہ نہ کرنا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔

ذرا سوچیں! حدیث مبارکہ کے الفاظ پر غور کریں، آج کے دن تک عوام، عوام ہو رہا ہے اور یہ اس لئے ہو رہا ہے کہ عوام سے بڑھ کر اپنا دشمن طبقہ کوئی نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی 16 کروڑ عوام ہی ہے جنہوں نے پاکستان کا مقدر اس مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ عوام خود ہی اپنی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے۔ بنگلہ دیش، افغانستان، ہندوستان اور عرب ممالک سے لوگ آ کر ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ ہم ہی لوگ ہیں جو ووٹ کی طاقت کے ذریعے اپنی تقدیر کے ایسے فیصلے کرتے ہیں۔ یہاں گلیاں، نالیاں بنوانے کے لئے اور آٹے کی تھیلیوں پر ضمیر بکتے ہیں۔۔۔ دو دو ٹکے پر۔۔۔ برادری کے نام پر، رشتہ داروں کے نام پر ۔۔۔ تھانوں کے مقدموں کے نام پر ضمیر بکتے ہیں۔۔۔ نہ کوئی خیر دیکھتا ہے نہ شر دیکھتا ہے ۔۔۔ نہ نیکی دیکھتا ہے اور نہ بدی دیکھتا ہے ۔۔۔ نہ کوئی کسی کو اللہ و رسول کا ماننے والا اور قرآن و سنت پر چلنے والا دیکھتا ہے اور نہ اللہ و رسول کا مذاق اڑانے والا دیکھتا ہے بلکہ محض اپنے دنیاوی مفادات و لالچ کی بناء پر نااہل اور کرپٹ لوگوں کو منتخب کرتا ہے۔

فرمایا: جب ایسے حالات ہوں تو اس وقت اپنا فیصلہ کرنا، اپنی اصلاح کے لئے محنت کرنا اور اس محنت کو سوسائٹی میں فروغ دینا۔ عوام کے مطالبے اور رحجان کو چھوڑ دینا، عوام کے پیچھے نہ جانا۔

دورِ فتن میں خدمتِ دین کا اجر

پھر فرمایا:

فان من ورائکم ايام الصبر الصبر فيه مثل قبض علی الجمر للعامل فيهم مثل اجر خمسين رجلا يعملون مثل عمله.

لوگو تمہارے بعد ایسا زمانہ آنے والا ہے جس زمانے میں صبر کرنا پڑے گا۔۔۔ مشکل حالات میں قائم رہنا پڑے گا۔۔۔ نامساعد حالات میں استقامت کے ساتھ رہنا پڑے گا۔۔۔ اس وقت جو دین اور اس کے احکامات کو مضبوطی سے تھامے گا اور دین کے احکامات پر عمل کرے گا، اس کو اس طرح کے امور سرانجام دینے والے 50 افراد کے برابر اجر دیا جائے گا۔

صحابہ کرام نے عرض کیا : يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اَجْرُ خَمْسِيْنَ مِنْهُمْ؟

کیا اس زمانے کے 50 آدمیوں کے اجر کے برابر وہ اجر ہوگا؟ فرمایا: نہیں، بلکہ اَجْرُ خَمْسِيْنَ مِنْکُمْ.۔۔ اے میرے صحابہ تم میں سے 50 لوگوں کے برابر اس زمانے کے ایک آدمی کو اجر ملے گا۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، رقم 4341)

دور فتن میں امت کیلئے رہنمائی

حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

کيف بکم وبزمان او يوشک ان ياتی زمان يغربل الناس فيه غربلة بتقی حثالة من الناس قد مرجت عهودهم وامانتهم.

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، رقم : 4342)

’’جب اچھے لوگ چلے جائیں گے اور گھٹیا، رذیل اور کمینے لوگ رہ جائیں گے، جو وعدے انہوں نے اللہ، رسول، دین اور قوم /  عوام سے کئے ہوں گے، جو امانتیں ان کو دی گئی ہوں گی سب میں خلط ملط ہو جائے گا، نہ وعدے برقرار رہیں گے نہ امانتوں کا تقدس برقرار رہے گا۔ جو امانتوں کے محافظ بنائیں جائیں گے وہ خائن ہو جائیں گے اور امانتوں کو کھانے اور لوٹنے والے ہو جائیں گے۔

اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بالکل آج کے پاکستان کا نقشہ تھا، آج کے پاکستان کو آقا علیہ الصلاۃ والسلام دیکھ رہے ہیں اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کچھ دیکھ رہے ہیں، یہ تو 15 صدیاں ہیں اگر پندرہ کروڑ سال بھی بیت جائیں تو اس کا بھی ایک ایک لمحہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے سامنے ہوتا۔ لگتا ہے کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام آج امت کا حال دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح لوگ وعدے توڑتے اور قوم کی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا وقت آ جائے تو پھر ہم کیا کریں؟

فرمایا: تاخذون ما تعرفون وتذرون ما تنکرون وتقبلون علی امر خاصتکم وتذرون امر عامتکم.۔۔ بھلائی اور نیکی جس کا دین میں حکم دیا گیا ہے اس کو پختگی سے لینا اور منکر، برائی اور گناہ و نافرمانی کے کام کو چھوڑ دینا، جو تمہارے خاص امر ہیں، اس کو قبول کرنا اور عوام الناس کے امر کو چھوڑ دینا۔

عوام الناس کے امر کو چھوڑ دینے سے بعضوں نے یہ مراد لیا کہ ان کی پرواہ نہ کرنا بلکہ اپنی جان بچانا، اپنی حفاظت کرنا، تنہائی و عزلت میں جا کر اپنے دین کو بچا لینا، عوام کی فکر نہ کرنا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے ارشاد گرامی، نصِ کلام میں اس مفہوم کی تصریح نہیں ہے۔ میرے نزدیک اس سے مراد خاص امر پر توجہ دینا اور اسے قبول کرنا ہے، عوام الناس کیا چاہتے ہیں؟ ان کے معاملات کیا ہیں؟ ان کے مطالبے کیا ہیں؟ ان کی خواہشات کیا ہیں؟ ان کے امر کو چھوڑ دینا، عوام کے پیچھے نہ چلنا، دیکھنا کہ تمہارے نفس اور تمہارے دین و ایمان کی حفاظت کس میں ہے۔ عوام کے خواہشات کی پیروی نہ کرنا بلکہ دین کی پیروی کرنا، اسی میں تمہاری جان اور تمہارے دین کی حفاظت ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے اردگرد مجلس میں بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں اور فتنوں کے دور کا ذکر کیا کہ

اذا رايتم الناس قد مرجت عهودهم وخفت امانتهم.

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، ج 4، ص 124م رقم 4343)

جب فساد غالب آ جائے گا، جہالت چھا جائے گی، لوگ نصیحت کو قبول نہیں کریں گے، خیر کو رد کر دیں گے، خیر کی نہ آواز بلند کریں گے اور نہ اس کی اشاعت کریں گے، معروف کی دعوت نہیں دیں گے، منکر کو نہیں روکیں گے۔ جب فتنوں کا ایسا دور آ جائے گا۔ تم لوگوں کو دیکھو کہ ان کے عہد خلط ملط ہو گئے ہیں، برقرار نہیں رہے، ان کی امانتوں میں خیانت ہوگئی ہے امانتوں کی اہمیت ختم ہوگئی، معاشرے میں امانت امانت ہی نہیں رہی۔ اسے مفت کا مال سمجھ کر لوٹا جا رہا ہے، امانت کا تصور ختم ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پیوست کر کے فرمایا کہ یوں گتھم گتھا ہو جائیں۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوگیا اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام سے عرض کی کَيْفَ اَفْعَلُ عِنْدَ ذَالک؟

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسا زمانہ آ جائے تو ہم کیا کریں؟ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

عَلَيْکَ بِاَمْرِ خَّاصَةِ نَفْسِکَ وَ دَعْ عَنْکَ اَمْرَ الْعَامَّةِ.

خاص امر پر عمل کرنا، دیکھنا کہ تیری جان اور دین و ایمان کی حفاظت کس میں ہے، اس پر عمل کرنا اور عوام الناس کے امر کو چھوڑ دینا۔ عوام الناس کی پرواہ نہ کرنا، ان کی پیروی نہ کرنا۔ جب اس حدیث کا یہ معنی کیا جائے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی سورہ المائدۃ کی آیت نمبر 105 کی تفسیر میں بیان کردہ تمام روایات سے مطابقت اور موافقت پیدا ہو جاتی ہے۔

اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَفْضَلُ الْجَهَادِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ اَوْاَمِيْرٍ جَائِرٍ.

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، ج 4 ص 124 رقم 4344)

سب سے افضل جہاد ظالم حکومت، ظالم امیر اور حکمران کے دور میں عدل و حق کا عَلم بلند کرنا اور اس کلمہ کی اشاعت کرنا ہے۔ یعنی عوام الناس کے رحجانات کی پیروی نہ کرنا بلکہ دین کی راہ پیروی کرنا، حق و عدل کے کلمہ کو ظالم حکومت کے دور میں بھی بلند کرنا، دعوت الی الخیر، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور اقامت دین کا فریضہ بغیر کسی خوف و خطر کے جاری رکھنا سب سے افضل جہاد ہے۔

(جاری ہے)