22 واں سالانہ شہر اعتکاف 2012ء

رپورٹ

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام
تزکیہ نفس، فہم دین، اصلاح احوال، توبہ اور آنسوؤں کی بستی

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین، محمد طاہر معین

ماہ رمضان المبارک کی پر نور ساعتوں میں تجدید و احیائے اسلام کی عالمی تحریک، تحریک منہاج القرآن کو حرمین شریفین کے بعد دنیا کے سب سے بڑے اجتماعی اعتکاف کے انعقاد کی سعادت حاصل ہے۔ یہ شہر اعتکاف حضور سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی قربت و معیت اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی سرپرستی میں معتکفین کے لئے تعلیم و تربیت کا سامان اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام اجتماعی اعتکاف میں دس دن منظم انداز میں پرکیف تلاوت، ذکر و اذکار، نعت خوانی، درس و تدریس کے حلقہ جات، نوافل اور اجتماعی و انفرادی وظائف کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہر اعتکاف میں ہر سطح کے تحریکی کارکنان اور عوام الناس کی کثیر تعداد شریک ہوتی ہے۔ جن کی فکری و نظریاتی، اخلاقی و روحانی اور تنظیمی و انتظامی تربیت کا بھرپور اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ وہ مزید بہتر انداز میں دین اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں۔ امسال بھی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام 22 واں سالانہ اجتماعی اعتکاف کا انعقاد کیا گیا جس میں اندرون و بیرون ملک سے ہزاروں خواتین و حضرات نے خصوصی شرکت کی۔

شہرِ اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے لندن، برطانیہ سے لائیو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے براہ راست خطابات نشر کئے گئے۔ شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام کے صاحبزادگان محترم ڈاکٹر حسن محی الدین القادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے بھی خصوصی شرکت کی۔ منہاج انٹرنیٹ بیورو اور منہاج پروڈکشنز کے باہمی تعاون سے شیخ الاسلام اور صاحبزادگان کے خطابات سمیت شہر اعتکاف کی جملہ سرگرمیاں www.minhaj.tvپر براہ راست نشر کی گئیں۔ ناظم اعلی محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینیئر نائب ناظم اعلی محترم شیخ زاہد فیاض (سربراہ اعتکاف کمیٹی)، محترم جواد حامد (سیکرٹری اعتکاف کمیٹی) اور 60 انتظامی کمیٹیوں کے سربراہان و ممبران نے اس شہر اعتکاف کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایڈوانس رجسٹریشن نہ کروانے والے سینکڑوں لوگوں کو شہر اعتکاف کے متفرق حلقہ جات میں جگہ دی گئی، لیکن آخر میں جگہ کم پڑ جانے کی وجہ سے اعتکاف کرنے کے خواہش مند سینکڑوں احباب شہر اعتکاف میں جگہ نہ حاصل کر سکے اور انہیں واپس جانا پڑا۔

٭ شہر اعتکاف میں مختلف مواقع پر زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیا ت، مشائخ عظام، علماء کرام، وکلاء، صحافی حضرات اور تحریک منہاج القرآن کی جملہ نظامتوں کے ناظمین اور مرکزی قائدین نے خصوصی شرکت کی۔ اس اعتکاف کی تفصیلی رپورٹ نذرِ قارئین ہے:

معتکفین کے معمولات

9 اگست 2012ء نماز مغرب کے بعد ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ہزاروں معتکفین کو باقاعدہ خوش آمدید کہا۔ اس موقع پر محترم صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے معتکفین سے افتتاحی نشست میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تمام معتکفین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہجرت کر کے لاہور شہر اعتکاف آئے ہیں، ان کی یہ ہجرت اس وقت کامل ہو گی، جب وہ شہر اعتکاف سے واپس جائیں تو ان کی زندگی میں عملی تبدیلی نظر آئے۔ شیخ الاسلام نے 22 سال قبل جو پودا لگایا گیا تھا، آج وہ تنآور درخت بن کر پھل دے رہا ہے۔ آپ لوگ اس تحریک کا سرمایہ ہیں، لیکن یہ سرمایہ اس وقت قیمتی ہوگا، جب آپ اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کریں گے۔ یہ ایک روحانی تربیت گاہ ہے، بندگان خدا کے لیے دھوبی گھاٹ کی مانند ہے، جہاں ان کے گناہوں کی میل کچیل اتار کر انہیں تقویٰ و طہارت کے نور سے اجلا کیا جاتا ہے۔

نماز تراویح کے بعد ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے شرکاء کو شہر اعتکاف کے شیڈول کے حوالے سے بریفنگ دی۔ اس کے مطابق معتکفین نے شہر اعتکاف میں درج ذیل معمولات میں انفرادی و اجتماعی حیثیت سے شرکت کی:

٭انفرادی معمولات:

شہر اعتکاف میں شریک معتکفین کی علمی و روحانی تربیت اور اصلاح احوال کے لئے باقاعدہ ایک نظام کی شکل میں انفرادی معمولات کو بھی منظم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں معتکفین تہجد، انفرادی و اجتماعی وظائف و تسبیحات، نماز اشراق، نماز چاشت، نماز اوابین، دیگر نوافل اور حلقہ ہائے درود کے ذریعے اپنے باطن کو منور کرنے اور اعتکاف کی برکات کے حصول میں کمر بستہ نظر آئے۔

٭ خطابات شیخ الاسلام:

معتکفین شیخ الاسلام کے خطابات کے ذریعے اپنے علمی، روحانی، تربیتی، تنظیمی امور میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ امسال شیخ الاسلام نے معتکفین کی علمی و روحانی آبیاری کے لئے ’’اصلاحِ نیت‘‘ کے موضوع پر مبنی درج ذیل عنوانات اور دیگر اہم تربیتی موضوعات پر اظہار خیال فرمایا:

  1. نیت: تعریف و تعارف
  2. نیت کا معنی و مفہوم اور اس کی اقسام
  3. نیت کا معنی و مفہوم اور اسکی اقسام
  4. نیت کا معنی و مفہوم اور اسکی اقسام
  5. اخلاص (لیلۃ القدر کے موقع پر خطاب)
  6. فضیلت درود و سلام اور صدق نیت
  7. روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی نیت

(خطابات کے خلاصہ جات اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں)

٭ علمی، فکری اور تنظیمی نشستوں کا انعقاد: معتکفین کی علمی و فکری آبیاری اور فہم دین بھی تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ اس اجتماعی اعتکاف کا اہم خاصہ ہے۔ امسال بھی معتکفین کی علمی و فکری اور ذہنی استعداد کو مزید اجاگر کرنے کے لئے شہر اعتکاف میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے درج ذیل موضوعات پر خصوصی خطابات فرمائے: (خطابات کے خلاصہ جات اگلے صفحات پر ملاحظہ فرمائیں)

  1. شان سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ (ڈاکٹر حسین محی الدین قادری)
  2. فلسفہ وحدت و اجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
  3. معارفِ سورۃ العصر اور پیغام انقلاب (ڈاکٹر حسین محی الدین قادری)
  4. فلسفہ وحدت و اجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی۔ نشست دوم (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
  5. شیخ الاسلام کون ہے؟ (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)
  6. تقویٰ اور صحبت صلحاء (ڈاکٹر حسن محی الدین قادری)

علاوہ ازیں محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی (ناظم اعلیٰ)، محترم شیخ زاہد فیاض (سینئر نائب ناظم اعلیٰ)، محترم احمدنواز انجم (امیر پنجاب)، محترم ساجد محمود بھٹی (ناظم تنظیمات) اور دیگر مرکزی قائدین نے مختلف حوالوں سے فکری، نظریاتی اور تربیتی امور پر اظہار خیال کیا۔

٭ تربیتی حلقہ جات کا انعقاد:

نظامت تربیت نے معتکفین کے لئے قرآن مجید، منتخب احادیث، عبادات و عقائد، اخلاق حسنہ اور فقہی مسائل پر مشتمل باقاعدہ اسلامی تربیتی نصاب اور ’’آئیں دین سیکھیں‘‘ کورس مرتب کیا ہے۔ شہر اعتکاف میں باقاعدہ تربیتی حلقہ جات کا انعقاد کیا گیا۔ ان تربیتی حلقہ جات میں نظامت دعوت کے ناظمین، منہاجینز اور کالج آف شریعہ منہاج یونیورسٹی کے طلبہ نے اس تربیتی نصاب کے مطابق معتکفین کی علمی و فکری تربیت کی۔

٭ فقہی مسائل کی نشست:

تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام منعقدہ اس شہر اعتکاف میں ہر روز باقاعدہ فقہی مسائل کی نشست کا اہتمام کیا گیا جس میں محترم مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی نے معتکفین کے فقہی سوالات کے جوابات مرحمت فرمائے۔

٭ محافل قرات، نعت و ذکر:

رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کا خصوصی اہتمام بھی ایمان کے نور کو جِلا بخشتا ہے۔ ان راتوں میں منہاج القرآن یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ اور دیگر نظامتوں کے زیر اہتمام محافل قرات و نعت کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ ان محافل میں ایرانی قراء، ملک کے نامور قراء محترم قاری ابرار مدنی، محترم قاری احمد ہاشمی، محترم قاری نور احمد چشتی اور ثناء خوانان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محترم محمدا فضل نوشاہی، منہاج نعت کونسل، امجد بلالی برادران، شہزاد برادران و دیگر نے خصوصی شرکت کی۔ یہ جملہ محافل www.minhaj.tv پر براہ راست نشر کی گئیں۔

٭ شیخ الاسلام کی اعتکاف کے موقع پر آنے والی نئی کتب

1۔ سلسلہ اَربعینات:

فَرْحَةُ الْقُلُوْب فِي مَوْلِدِ النَّبِيِّ الْمَحْبُوْب صلی الله عليه وآله وسلم

 (میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں)

2۔ سلسلہ اَربعینات:

تُحْفَةُ النُّبَـلَاء فِي فَضْلِ الرُّسُلِ وَالأنْبِيَاء عليهم السلام

 (اَنبیاء و رُسل علیہم السلام کی فضیلت)

3۔ سلسلہ اَربعینات:

حُسْنُ الْکَلَام مِنْ مَدَائِحِ صَحَابَةِ خَيْرِ الْأنَام صلی الله عليه وآله وسلم

 (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نعتیہ کلام سے اِنتخاب)

4۔ سلسلہ اَربعینات:

اَلْمَدَائِحُ الْحِسَان مِنْ کَلَامِ سَيِدِنَا حَسَّان رضی الله عنه

 (سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا نعتیہ کلام)

5۔ سلسلہ اَربعینات:

اَلْإِکْرَام فِي فَضْلِ شَهْرِ الصِّيَامِ

 (ماہِ رمضان کے فضائل)

6۔ سلسلہ اَربعینات:

اَلْکَشَّاف فِي فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَالْاِعْتِکَاف

 (شبِ قدر اور اِعتکاف کے فضائل)

7۔ سلسلہ اَربعینات:

اَلتَّوَرُّع فِي صِيَامِ التَّطَوُّع

 (نفلی روزوں کے فضائل)

8۔ سلسلہ اَربعینات:

نُوْرُ الْمِشْکَاة فِي فَضْلِ الزَّکَاة

 (فضائلِ زکوٰۃ)

9۔ سلسلہ اَربعینات:

اَلثَّمَرَاتُ فِي فَضَائِلِ الصَّدَقَات

 (فضائلِ صدقات و خیرات)

10۔ سلسلہ اَربعینات:

اَلْإِدْرَاک فِي فَضْلِ الْإِنْفَاقِ وَذَمِّ الْإِمْسَاکِ

 (اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت)

11۔ سلسلہ اَربعینات:

اَلنَّضْرَة فِي فَضِيْلَةِ الْحَجِّ وَالْعُمْرَة

 (فضائلِ حج و عمرہ)

12۔ سلسلہ اَربعینات:

اَللَّوَامِع فِي فَضْلِ الْجَوَامِع

 (فضیلتِ مساجد)

13۔ سلسلہ اَربعینات:

خَيْرُ الْکَلَام فِي الْجُمُعَةِ سَيِدِ الْأَيَام

 (فضائلِ جمعۃ المبارک)

14۔ سلسلہ اَربعینات:

نُزُوْلُ الْفَرْحَتَيْن فِي يَوْمِ الْعِيْدَيْن

 (فضائلِ عیدین)

15۔ بیداريِ شعور (ضرورت و اَہمیت)

16۔ نماز (مسنون طریقہ نماز اور دعاؤں کی بہترین کتاب)

{خطابات}

تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 22ویں سالانہ اجتماعی اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اصلاح احوال کے لئے مختلف پہلوؤں سے ’’نیت‘‘ کے موضوع پر خطابات فرمائے۔ علاوہ ازیں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین القادری اور محترم ڈاکٹر حسین محی الدین القادری نے بھی متعدد موضوعات پر خطابات فرمائے۔ شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام اور صاحبزادگان کے روزانہ ہونے والے سلسلہ وار خطابات کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:

٭ خطاب شیخ الاسلام۔۔۔ ’’نیت کیا ہے؟‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 9 اگست 2012ء بمطابق 20 رمضان المبارک شہر اعتکاف میں شریک ہزاروں معتکفین سے افتتاحی کلمات ارشاد فرمانے کے بعد نیت کے معنی و مفہوم پر مبنی پہلا خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’شریعت میں نیت پر بہت زور دیا گیا اس لیے کوئی بھی عمل حسن نیت نہیں بن سکتا، جب تک اس کی نیت نیک نہ ہو۔ قرآن مجید میں ہے کہ متقین کی راہ پر چلنا چاہتے ہو تو ہر عمل کو حسن نیت سے سرانجام دو۔ سورہ الماعون میں حسن نیت کا بہترین نمونہ پیش کیا گیا ہے کہ نماز ان لوگوں کو دوزخ میں لے جائے گی، جن کی نیت نیک نہ تھی، جو ریا کاری کے لیے نماز پڑھتے تھے۔ اگر نیت نیک ہو تو وہی نماز انسان کو جنت میں لے جائے گی۔ بخاری شریف میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’کوئی بھی عمل اس وقت تک درجہ اور ثواب والا نہیں بن سکتا، جب تک اس عمل صالحہ کی نیت نیک نہ کی جائے۔ عمل کی قبولیت کا سارا دارا مدار نیت پر ہے۔ نیت کی 3 قسمیں ہیں:

  1. ایسی نیت جو خالص لوجہ اللہ ہو یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے کی جائے۔
  2. ایسی نیت جو دنیا کی غرض و غایت کے لئے کی جائے یعنی جس کا مقصد فقط دنیا کمانا ہو۔
  3. ایسی نیت جس میں دونوں کیفیتیں ہوں یعنی دنیا کی غرض و غایت بھی ہو اور نیت اللہ کے لئے بھی ہو۔

ہم عملی زندگی میں بہت سے اعمال کرتے ہیں، لیکن ارادے اور نیت کے بغیر کرتے ہیں، جو رائیگاں جاتے ہیں۔ جو عمل بغیر نیت اور ارادے کے کیے جائیں وہ ’’افعال‘‘ ہیں اور جو نیت کے ساتھ کیے جائیں وہ ’’اعمال‘‘ بن جاتے ہیں۔ عمل کا اجر ہے اس لئے کہ وہ نیت کی وجہ سے عبادت بن جاتا ہے جبکہ فعل کا اجر نہیں کیونکہ وہ نیت کے بغیر سرزد ہوتا ہے۔

اگر نیت کے مفہوم کو سمجھ لیں تو ہمارا لمحہ لمحہ عبادت بن جائے۔ اس لئے کہ نیت انسان کو لوجہ اللہ کر دیتی ہے۔ نیت کا حسن جہاں اعمال کو عبادت بنا دیتا ہے وہاں نیت میں خرابی انسان کے تمام اعمال کو غارت کرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔

نیت کو خراب کرنے والی دو چیزیں ہیں:

  1. ایک شے خارج میں ہے، جو شیطان ہے
  2. دوسری شے داخل میں ہے، جو نفس امارہ ہے۔

یہ دونوں انسان کے اندر وسوسہ اندازی کر کے ہمارے نیک اعمال کے خیالات اور نیتوں کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ شیطان تین اعتبارات سے بندے کوگمراہ کرتا ہے:

  1. اعتقادی
  2. فکری
  3. یقین اور امید

اعتقادی طور پر گمراہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ شیطان نیک اور صالح آدمی کے عقائد صحیحہ کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ فکری گمراہی یہ ہے کہ شیطان انسان کے خیالات کو برائی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔ اسی طرح بعض اوقات شیطان اللہ سے یقین اور امید کی کیفیتوں کو مایوسی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

یاد رکھیں! ہم ایک عمل میں کئی نیتیں شامل کر سکتے ہیں مثلاً آپ سال بھر جس مسجد میں بھی نماز پڑھنے کے لیے جائیں تو اعتکاف کی نیت کر لیں کہ آپ اللہ کے ساتھ تنہائی میں خلوت نشینی کرنے آئے ہیں۔ اس سے آپ کو نماز کا ثواب تو ملے گا ہی مگر ساتھ ساتھ اعتکاف کا ثواب بھی ملے گا اور خلوص و للہیت بھی نصیب ہوتی رہے گی۔

بندہ اپنی نیت کو جتنا صاف کرتا چلا جائے، اسی قدر اللہ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو پہلے ہی انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر ہے، افسوس کہ دور ہم ہیں۔ ایسے دور نہیں کہ وہ ہم کو دیکھ نہ سکے، ہماری گرفت نہ کر سکے، ہماری مدد نہ کر سکے، ہماری پکار نہ سن سکے بلکہ ایسے دور ہیں کہ ہماری نیتوں میں فرق ہے جس نے ہمیں اللہ سے روحانی طور پر دور رکھا ہوا ہے۔ بندہ اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ اس کی پکار سنتا ہے لیکن افسوس جب اللہ اپنے بندے کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار نہیں سنتا۔

اعتکاف کے دوران یا کبھی بھی مسجد میں داخل ہوں تو چند نیتوں کو اپنے اندر راسخ کر لیں۔ اس اعتکاف میں ہم ہر روز انہی نیتوں کو بیان کریں گے۔

1۔ پہلی نیت:

خلوت مع اللہ: پہلی نیت یہ ہونی چاہئے اللہ کی یاد اور اس کی معیت چند لمحات اس کے ساتھ خلوت میں گزارنے کی نیت کرتا ہوں۔

2۔ دوسری نیت:

سنت مصطفی کی پیروی: دوسری نیت یہ ہونی چاہئے کہ اعتکاف بیٹھنا یا مسجد میں حاضر ہونا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے اور میں مسجد میں آ کر یا اعتکاف میں حضور کی سنت مبارکہ کو اپنانے کی نیت کرتا ہوں۔

آج ہماری زندگی میں شر پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ نیت میں خرابی ہے۔ پاکستان کی تقدیر سنوارنے کے لیے نیتوں کو درست کرنا ہو گا۔ امت مسلمہ کا حال بھی اس وقت تک بدل نہیں سکتا، جب تک نیتیں ٹھیک نہیں ہو جاتیں۔ اس لیے ہمیں ہر معاملے میں اپنی نیت درست کرنا ہوگی‘‘۔

٭خطاب ڈاکٹر حسین محی الدین القادری۔ ۔ ۔ ’’شانِ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ‘‘

شہر اعتکاف کے پہلے روز21 رمضان المبارک، 10 اگست 2012ء کو جمعۃ المبارک کا خصوصی خطاب تحریک منہاج القرآن کی فیڈرل کونسل کے صدر صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کیا۔ آپ نے یوم سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی مناسبت سے ہزاروں معتکفین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حکمت و ولایت کے شہنشاہ ہیں اور ان کے قدموں کی دھول کے صدقے حکمت و بصیرت کی خیرات بٹتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکمت کے شہر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اسکا دروازہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ سے محبت کرنا ہے۔ اہل بیت کا مرتبہ انسانی عقل سے ماورا ہے۔ قرآن حکیم میں جن کیلئے آیت تطہیر اتری ہو ان سے شدید محبت کرنا ہر اہل ایمان کیلئے خوش نصیبی کا باعث ہے۔ مقام غدیر پر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کیلئے جو کلمات کہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے والہانہ محبت کے عکاس ہیں اور پوری امت کیلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ جاننے کیلئے رہنمائی کا عظیم ذریعہ ہیں۔

خانوادہ اہل بیت کی شہادت کی ابتداء حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے ہوئی پھر امام حسین علیہ السلام تک کربلا معلی تک جاری رہا پھر بنو امیہ کی حکومت نے بھی خانوادہ اہل بیت پر ظلم ڈھائے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے کس وجہ سے اہل بیت کو اتنی سخت آزمائشوں سے گزارا۔ جب بھی کوئی درجہ مومن کو ملتا ہے اس کے دو رستے ہوتے ہیں:

  1. پہلا طریقہ محنت، ریاضت، مجاہدہ، عمل ہے۔ اس طریقے سے ہمارے اسلاف کی زندگیاں بھری پڑی ہیں۔
  2. دوسرا طریقہ آزمائش ہے۔
  3. ولنبلونکم بشئی من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات کے مصداق آزمائشوں پر ثابت قدم رہنے کی وجہ سے اللہ کی پے درپے کرم نوازی ہوتی رہتی ہے اور اس کامیابی کی بنا پر خدا اس کو ہدایت یافتہ فرماتا ہے۔ اللہ کی رضا کے حصول کے سفر میں بہت سی کٹھن منازل بھی آتی ہیں ان آزمائشوں پر استقامت اختیار کرنے والوں کیلئے بالآخر دنیا و آخرت میں آسانیاں ہوتی ہیں۔ صابر رہنے والوں کو اہل بیت اطہار کی محبت کی صورت میں انعام ملتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس آیت کریمہ کريمه قل لا اسئلکم عليه اجرا الا مودة فی القرباء. سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی، فاطمہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہم ہیں۔ ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ علی سے محبت کرے۔ خدا سے محبت کرو اس کے انعامات کی خاطر، مجھ سے محبت کرو خدا کی خاطر اور اہل بیت سے محبت کرو میری خاطر۔۔۔ ایک اور موقع پر فرمایا: اے اللہ جو علی سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض رکھ۔

ہم مادہ پرستی کی دوڑ میں ہانپ رہے ہیں جبکہ سکون اللہ کے مقرب بندوں سے محبت سے ملتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا تعلق قائم کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرنا ہے اور جنہیں ان ہستیوں کی محبت مل جاتی ہے کامرانیاں انکا مقدر ہوتی ہیں‘‘۔

٭ خطاب شیخ الاسلام۔ ۔ ۔ ’’اصلاحِ نیت کس طرح ممکن ہے؟‘‘

شہر اعتکاف میں 10 اگست 2012ء بمطابق 21 رمضان المبارک کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نماز فجر کے بعد معتکفین سے دوسرا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’انسان کی اصلاح، نیت سے شروع ہوتی ہے۔ آج جس تیز رفتاری سے معصیت، گناہ اور کفر بڑھ رہا ہے، اس سے تیز تر اور زیادہ جدوجہد سے آپ کو جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ ایمان محض عقیدت اور محبت سے نہیں بچتا۔ دنیا بھر میں میرے عقیدت مندوں کی کمی نہیں لیکن میں آپ کو محض عقیدت میں نہیں الجھانا چاہتا۔ آپ خواہ جتنے بھی اولیاء سے عقیدت رکھیں، محض خالی عقیدت اور محبت آپ کے عقیدے کی حفاظت نہیں کر سکتی، جب تک ان محبوب ہستیوں کے شب و روز کے معمولات کو اپنایا نہ جائے۔ آج بدقسمتی سے مسلک اہلسنت میں ایسے ’’رہنماؤں‘‘ کی کمی نہیں، جو محض اپنی عقیدت سے اپنے متوسلین کو دھوکے میں رکھے ہوئے ہیں۔

جمیع صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین، اولیاء و صالحین اور ائمہ جن سے لوگوں کو ہدایات ملیں اور جنہوں نے مخلوق کو گمراہی سے نکال کر روشنی دی، ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ جو میرا دامن تھام لے، اس کا بیڑا پار ہے۔ افسوس کہ مسلک اہل سنت میں یہ شر، فتنہ اور انتہاء پسندی داخل ہو چکی ہے کہ اندھی عقیدت کریں تو بیڑا پار ہے۔۔۔ شریعت محمدی کا دامن تھامیں یا نہ تھامیں، آپ کا بیڑا پار ہے۔ عمل کے بغیر ایسی اندھی عقیدت کا ہمارے مسلک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آج نذرانے حاصل کرنے اور اپنی خدمت کروانے والے کے لئے ایسی نام نہاد تعلیمات کا پرچار کیا جا رہا ہے۔ اولیاء صالحین میں سے کسی کی بھی ایسی تعلیمات نہیں۔ اولیاء طریقت کے خلاف یہ گمراہی پھیلائی جا رہی ہے۔ نئی نسل کو گمراہی کی طرف لایا جا رہا ہے، ایسا کرنے والوں کا مواخذہ اور گرفت ہوگی۔

اہلسنت کے لوگو! ایسے لوگوں سے بچو، یہ سب تصوف کے خلاف ہے۔ آج سے 12 صدیاں پہلے جب صلحاء فرماتے کہ آؤ آپ کو اللہ والوں کی باتیں سنائیں تو سننے والے پوچھتے کہ پہلے یہ بتاؤ کہ کن کی بات بتانا چاہتے ہو؟ جو چلے گئے یا جو حیات ہیں؟ اگر ان کو جواب ملتا کہ جو زندہ ہیں، ان کی بات سناتے ہیں، تو سننے والے ان کی بات کو سننے سے انکار کر دیتے اور کہتے کہ اگر کوئی بات سنانی ہے تو ان کی بات سناؤ جو قبروں میں جا چکے ہیں۔

نیتوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا غیر کی کسی گرد کا نہ رہنا، حقیقی تصوف ہے جو کتاب وسنت کی تعلیمات کے بغیر تصوف کی تعلیم دیتا ہے، وہ نہ پیر ہے اور نہ رہبر بلکہ شیطان ہے۔ آج کے رہبر اور پیران کرام (الا ماشاء اللہ) مریدوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ پیر وہ ہوتے ہیں جو خود منگتا بن کر نہیں پھرتے بلکہ مرید ان کی تلاش کرتے ہیں۔ آج کل تصوف کے نام پر میڈیا میں بھی ایک ڈھونگ رچایا جا رہا ہے۔ یہ سب سفلی عملیات ہیں۔ یہ لوگوں کی جہالت اور پاگل پن کا تماشہ ہے۔ تصوف میں سفلی عملیات کا کوئی عمل دخل نہیں۔

جن نیتوں کو ہم نے اپنے شامل حال کرنا ہے آیئے ان میں سے مزید کے متعلق جانتے ہیں:

3۔ تیسری نیت:

پانچوں نمازوں کی محافظت: جب مسجد میں داخل ہو یا اعتکاف بیٹھیں باقی نیتوں کے ساتھ ساتھ یہ نیت بھی کر لیں کہ پانچوں نمازوں کی اعتکاف میں اور بعد میں بھی محافظت کی نیت کرتا ہوں جو شخص پانچ وقت کی نماز کی محافظت کے ساتھ پڑھتا ہے قیامت کے دن پل صراط سے چمکتی ہوئی بجلی کی طرح گزر جائے گا۔

4۔ چوتھی نیت:

اتباع سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اعتکاف میں جب بیٹھیں یا مسجد میں جائیں تو یہ نیت کر لیں کہ آقا علیہ السلام کی مبارک سنتوں کی اتباع کروں گا اور ان سنتوں کو اپنانے کی کوشش کروں گا۔ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں چند خصلتیں ایسی ہیں جن سے اللہ اس بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔

1۔ العلم:

وہ علم جو علم نافع ہو جس علم کے ذریعے دوسروں کو نفع ہو یا جو علم خود نفع کا باعث بنے۔

2۔ الادب:

ادب میں سب کچھ ہے اس کے ذریعے اللہ بندے کو محبوب بنا لیتا ہے۔

3۔ الامانۃ:

امانت کی حفاظت کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔

٭خطاب شیخ الاسلام۔ ۔ ۔ ’’اخلاصِ نیت اور ہمارا طرزِ عمل‘‘

22 رمضان المبارک 11 اگست 2012ء کو شہر اعتکاف میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نماز فجر کے بعد نیت کے موضوع پر تیسرا درس تصوف دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’ایک عمل میں بہت سے نیتوں کو شامل کیا جا سکتا ہے، گویا ایک عمل کی شکل میں کثیر اعمال صالحہ کا ثواب جمع ہو جاتا ہے۔ جو ایک گنا سے لے کر سات سو گنا تک ہو جاتا ہے۔ نیت جتنی صاف اور خالص ہوتی جائے، اس میں سے دنیا کا لالچ، حسد، بغض اور طمع نکل جائے، لوجہ اللہ ہو جائے تو پھر اس نیت کا اجر وثواب بغیر حساب اور بغیر شمار کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ مسجد میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھتے وقت یا نماز کے لئے مسجد میں حاضر ہوتے وقت آپ دوسری نیتیں بھی کر لیں تو مفت میں ثواب بڑھ جاتا ہے۔ یہ نیت کے سبب اللہ تعالیٰ کی بخشش کے بہانے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ صرف ایک غیبت کی وجہ سے ہمارا سب کچھ لٹ جاتا ہے۔ حسد، بغض اور غیبت یہ وہ روئی کے پہاڑ ہیں، جن سے جتنی نیکیاں بھی ہوں، سب جل کر راکھ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی برائیوں پر خود نگاہ رکھیں اور دوسرے کی برائیاں تلاش کرنا چھوڑ دیں۔

5۔ پانچویں نیت:

گناہوں سے بچنے کی نیت: اعتکاف میں بیٹھیں یا مسجد میں جائیں تو یہ نیت کر لیں کہ جتنی دیر مسجد میں بیٹھا رہوں گا گناہوں سے بچا رہوں گا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: آقا علیہ السلام سے عرض کی یارسول اللہ غیبت کا عمل ترک کرنا زیادہ محبوب ہے یا ایک ہزار نفل رکعت ادا کرنا؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: غیبت کا عمل ترک کرنا مجھے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت ابراہیم بن ادھم کے پاس ایک شخص آیا اور کہا گناہگار ہوں، چاہتا ہوں کہ گناہ چھوڑ دوں مگر چھوڑ نہیں سکتا، وہ تعلیم دیں جو مجھے نفع دے۔ آپ نے پانچ چیزوں کا حکم ارشاد فرمایا کہ ان میں سے کسی ایک کو تھام لو:

  1. جب گناہ کا ارادہ ہو تو اتنا حیا کرو کہ اس مالک کا رزق کھانا چھوڑ دو۔
  2. جب گناہ کا ارادہ کرو تو اس مالک و مولا کی زمین سے کہیں باہر نکل کر کرو۔
  3. ایسی جگہ گناہ کرو جہاں وہ تمہیں نہ دیکھ رہا ہو۔
  4. یاد رکھو کہ گناہ کرنے کے بعد اگر موت سامنے ہوئی تو مہلت نہ ملے گی۔
  5. قیامت کے دن جب گھسیٹ کر جہنم میں لے جایا جائے گا تو چھٹکارا ممکن نہ ہوگا۔

6۔ چھٹی نیت:

مسجد میں اگلی نماز کے انتظار میں بیٹھنا: اعتکاف میں ہو یا مسجد میں اس نیت سے بیٹھیں کہ اگلی نماز تک عبادت میں ہوں۔ الغرض اللہ کی بندگی کے لئے بیٹھیں۔

7۔ ساتویں نیت:

مجالس ذکر میں بیٹھنے کی نیت: اعتکاف میں مجالس ذکر میں بیٹھیں تو اللہ رب العزت کا ذکر کریں اور عرض کریں مولا تیری چوکھٹ پر آئے ہیں۔ ہمارا بیٹھنا، مل کر ذکر کرنا قبول فرما۔

8۔ آٹھویں نیت:

مجلس علم کی نیت: امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار چیزوں میں سے کوئی ایک بن جاؤ۔

  1. عالم۔
  2. متعلم۔
  3. علم سے محبت کرنے والے۔
  4. اہل علم کی باتوں پر عمل کرنے والے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص روئے زمین پر اس سے بہتر عبادت نہیں کر سکتا جتنا علم حاصل کرنا عبادت ہے۔ پس علم حاصل کرنے اور اس کو پھیلانے کی نیت کر لیں۔

دین ہمارے ظاہر و باطن کو اتنا اجلا کرنا چاہتا ہے لیکن ہم ہیں کہ اس کی فکر ہی نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری نیتوں کا یہ حال ہو گیا ہے کہ آج کچھ لوگ دین کے نام پر منگتے بن گئے ہیں۔ دین کی خدمت کے نام پر علماء کا یہ حال ہے کہ ان سے ٹائم لیں تو وہ لاکھوں روپے لیتے ہیں۔۔۔ حضور کی سنت اور دین کا نام لینے والوں کو شرم نہیں آتی کہ وہ دین کو چند ٹکوں میں بیچ رہے ہیں۔۔۔ ٹکے ٹکے پر نماز جمعہ بیچنے والوں اور گانا بجانے والوں میں فرق کیا رہ گیا۔۔۔؟ یہ وباء ہمارے مسلک اہل سنت میں زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح نعت خوانوں کا حال بھی یہی ہے۔۔۔ قاری قرآن، قرات کا ریٹ مانگتے ہیں۔۔۔ کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو یہ تلقین کی تھی۔۔۔ کیا اولیاء، صلحاء دین کو بیچتے تھے۔۔۔؟ خدا کے لیے دین کو بیچنا چھوڑ دیں۔۔۔ پٹکے گلے میں ہیں، بڑی بڑی لمبی داڑھیاں ہیں مگر عمل یہ ہے کہ ڈالر لیے بغیر آپ دین کی خدمت نہیں کرتے۔ ان لوگوں نے مسلک اہلسنت کو برباد کر دیا اور نوجوان نسل کو دین سے بیزار کر دیا ہے۔

آج پاکستانی سوسائٹی میں اتنی بے حسی اور درندگی آ گئی ہے کہ لوگ قتل و غارت پر ٹس سے مس نہیں ہوتے جب تک کسی کا اپنا نقصان نہ ہو جائے۔ یہ اسی درندگی اور بے حسی کا نتیجہ ہے کہ ہم پر عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ حق تلف معاشرہ بن گیا ہے لیکن قوم ظلم کو روکنے کے لیے اٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔ بے حسی کا یہ عالم ہے کہ لوگ چار سال بعد بھی پھر اسی الیکشن کا انتظار کرتے ہیں۔ قوم ان لوگوں کا انتظار کرتی ہے، جنہوں نے اس قوم سے جینے کا حق چھین لیا، بجلی چھین لی، کھانا چھین لیا اور پھر قوم الٹ پلٹ کر کے ان بدمعاشوں، غنڈہ گردوں کو منتخب کر لے گی۔ اگر قوم کا یہی رویہ برقرار رہا تو اللہ کا عذاب قوم سے نہیں اٹھے گا۔

٭خطاب ڈاکٹر حسن محی الدین قادری۔۔۔ ’’فلسفہ وحدت و اجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی‘‘

شہر اعتکاف کے دوسرے روز 11 اگست 2012ء بمطابق 22 رمضان المبارک نماز عصر کے بعد صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے فلسفہ وحدت و اجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’وحدت کا فلسفہ انسان کی اصل سے متعلق ہے۔ جس طرح انسان کی ابتداء عارضی اور ناقص تھی، اسی طرح انسان کی انتہاء بھی ناقص ہے۔ ہر اِجتماعیت کی اِبتداء وحدت سے ہوئی اور ہر اِجتماعیت کی اِنتہاء بھی وحدت پر ہوگی۔ وحدت حیات کے لیے ہوتی ہے۔ اجتماعیت بقاء کے لیے ہوتی ہے۔ کائنات کی ابتداء وحدت سے ہے۔ کائنات جب عروج پر جائے گی تو وحدت پر منتج ہو گی۔

تصور تخلیق کے عناصر اربعہ میں سے پہلا عنصر یہ ہے کہ کائنات کی تخلیق کا آغاز ایک تخلیقی وحدت سے ہوا۔ قرآن مجید کا عطا کردہ تصور یہ ہے کہ کائنات کے بالائی اور زیریں حصے (زمین و آسمان) سب کچھ ایک وحدت کی طرح باہم پیوست تھے، یعنی ایک بلاک (Block) کی طرح تھے۔ بالآخر اسی تخلیقی وحدت کو پھوڑا گیا اور مختلف حصے ایک دوسرے سے جْدا جْدا ہوگئے۔ اسی طرح کائنات کا اختتام میں بھی وحدت کا تصور ہے۔

جب ہم تخلیق انسانی میں غور کرتے ہیں تو وہاں بھی وحدت واجتماعیت کا حسن نظر آتا ہے۔۔۔ ایمان کے باب میں بھی اِجتماعیت اور وحدت ہے۔۔۔ نمازوں میـں وحدت واجتماعیت کا تصور ہے۔

اسی طرح انسان کا جسم ہے جس میں ایک دل ہے، جس کی حفاظت کے لیے اس دل کے اردگرد کا نظام بنا دیا۔ یہ دل دھڑکتا رہے گا تو انسان کا جسم زندہ رہے گا۔ جب دل کی دھڑکن رک گئی تو پھر یہ جسم مردہ ہو جائے گا۔ یہ فلسفہ وحدت ہے مگر اس جسم کے اندر اجتماعیت بھی ہے کہ تمام اعضاء مل کر کام کر رہے ہیں۔

جب بچہ آنکھ کھولتا ہے تو وہ روتا آتا ہے۔ اس لیے کہ بچہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے کہ اے مولا تو نے مجھے وحدت میں رکھا تھا، اب اجتماعیت میں کیوں بھیج دیا؟ تیری وحدت میں جو مزے تھے، وہ اجتماعیت میں نہیں ہیں۔ پھر وہ بچہ اپنے والدین کے تابع ہو جاتا ہے اور بچہ والدین کا محتاج ہو جاتا ہے۔ جب بندہ کسی کا محتاج ہو جائے تو سمجھ لو کہ یہ اجتماعیت میں آ گیا۔ اجتماعیت میں محتاجی ہے، وحدت میں محتاجی نہیں ہے۔ اوپر روحیں ایک جیسی تھیں، لیکن یہاں نیچے کوئی کیسا ہے، کوئی کیسا ہے۔

انسان کو اللہ تعالی نے جتنے اعضاء انسانی عطا کئے ہیں تو اللہ رب العزت نے ہر عضو کو زوج میں یعنی جوڑے میں پیدا کیا۔ اگراجتماعیت کے اس ڈھانچے میں سے اگر ایک عضو کم ہو جائے تب بھی جسم کی بقا ہے۔ قلب ایک ایسی چیز ہے کہ اسے وحدت کا وہ حسن عطا کیا کہ اگر اس کی ایک شریان بھی متاثر ہو جائے تو زندگی بھی ختم ہو جائے پتہ چلا کہ وحدت نے اس اجتماعیت کو حیات دی تھی اس اجتماعیت نے وحدت کو سنبھال کے رکھا تھا تو پورا جسم جو اس اجتماعیت کا مجموعہ ہے وہ اس وحدت کو بھانپتا ہے سنبھالتا ہے اس کو خوبصورت بناتا ہے۔ اور اس کی بقا ء اجتماعیت میں ہے کیونکہ اجتماعیت اس وحدت کی حفاظت کر رہی ہے اور وحدت میں حیات ہے کہ اگر وحدت کو نقصان پہنچ گیا تو اسی وقت حیات بھی خـتم۔

اللہ نے اپنے حق کے لیے دل کا انتخاب کیا۔ اس لیے رات کی تاریکی اور اندھیرے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تہجد پڑھنے کا حکم دیا۔ سارا دن جسم کی مدد سے حقوق العباد ادا کرو، جب رات کے اندھیرے چھا جائیں تو قلب کی حقیقت سے، نماز تہجد سے مجھے مناؤ۔ دل خالص ہے، اس سے مولا کو مناؤ۔ لوگو! للہیت اسی میں ہے کہ دل سے عبادت کر کے اللہ کو مناؤ کیونکہ جب مولا خوش نہیں ہوگا تو پھر حقوق العباد کی ادائیگی بھی نصیب نہیں ہوگی۔ بس یہی نقطہ وحدت ہے، جو اجتماعیت میں منتقل ہوتا رہتا ہے‘‘۔

٭ خطاب شیخ الاسلام۔ ۔ ۔ ’’نیت اور صحبتِ صلحاء‘‘

23 رمضان المبارک بمطابق 12 اگست شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے نیت کے موضوع پر معتکفین کو چوتھا درس تصوف دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

جب آپ اعتکاف بیٹھیں تو یہ نیت کریں کہ میں مسجد میں اس لیے جا رہے ہوں کہ شاید وہاں مجھے اللہ سے محبت کرنے والی کوئی سنگت مل جائے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جس کی برکتیں دنیا اور آخرت دونوں میں ہیں۔

اللہ والوں سے محبت کی شرط نیکی، پاکیزگی، طہارت اور الحب لِلّٰہ ہے۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ جب کسی سے دوستی کرنی ہو تو یہ پہلے یہ سوچو کہ اس کی دوستی قیامت کے دن بھی کام آئے گی یا نہیں۔ کیونکہ قیامت کے دن ہر شخص نفسا نفسی میں ہوگا۔ کوئی کسی کا پرسان حال اور خیر خیریت پوچھنے والا نہیں ہوگا، سب خونی رشتے جواب دیجائیں گے۔ سوائے متقی لوگوں کے۔ اولیاء صالحین کو اپنی فکر نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کی سفارش کرتے اور انہیں جنت میں داخل کر رہے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بندے آپس میں میری وجہ سے محبت کرتے ہیں تو میں اس سے محبت کرنا اپنے اوپر لازم کر لیتا ہوں۔ اس لیے لوگو! اللہ سے بیوفائی چھوڑ دیں، وہ آپ کو شناسائی دے دے گا۔ بیوفائی کا مطلب ہے کہ اس کے احکام کی نافرمانی نہ کریں اور ان نیتوں کو اپنے شامل حال کریں۔

9۔ نویں نیت:

اللہ کیلئے دوست بنائیں: دوستی کا پیمانہ صرف اللہ کی محبت ہونا چاہئے۔ حضرت مالک بن دینار نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو فرمایا: اگر کسی کی دوستی سے تیرے دین کو فائدہ نہ پہنچے اور جس سے تیری آخرت کا سامان پیدا نہ ہو۔ ایسی دوستی کو ٹھوکر مار اور اس سے بچ تاکہ تیرا دین محفوظ رہے۔ دوستی کا اصول یہ ہے جب ایک دوسرے سے ملیں تو صرف اللہ کے لئے۔۔۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر اللہ کو یاد کریں۔۔۔ مولا سے لو لگانے کی باتیں کریں۔۔۔ جب دوستی اللہ کے لئے ہوگی اور مخلص دوست سے ہوگی تو دوستی دنیا و آخرت میں فائدہ دے گی۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رازی فرماتے ہیں وہ دوست نہایت برا دوست ہے، ایسے سے دوستی کا کوئی فائدہ نہیں۔ جو یہ کہے مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔ جو آپ کو دعاؤں میں یاد نہ رکھے وہ دوست ہی نہیں۔ جب دوستی اللہ کی خاطر ہو تو ہر چیز کو اپنے سے مقدم رکھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر شخص جس سے دوستی کرے وہ دیکھا کرے کہ دوستی کس سے کر رہا ہے۔ ایک شخص خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے کہہ رہا تھا: اللہم اصلح اخوانی میرے مولا میرے دوستوں کو نیک کر دے تاکہ واپس پلٹ کر جاؤں تو نیک سنگت نصیب ہو۔

10۔ دسویں نیت:

اللہ کے بندوں کی زیارت کی نیت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص اپنے بھائی کی زیار ت کے لئے جا رہا تھا کہ اللہ پاک نے راستے میں فرشتے کو بھیجا فرشتے نے پوچھا کہاں جا رہے ہو۔ اس نے کہا میں صرف اللہ کی محبت میں اس سے ملنے جا رہا ہوں۔ اللہ پاک فرماتا ہے فرشتو اس سے کہہ دو جس طرح تو میری وجہ سے میرے بندے سے محبت کرتا ہے میں تجھ سے محبت کرتا ہوں۔ اللہ کے لئے ایک دوسرے سے دوستی، محبت اور اولیاء کی زیارت کو جانا دین کو مضبوط کرتا ہے۔ ایمان کو تقویت دیتا ہے۔ اعتکاف کی دس راتوں میں اس نیت سے آیا کریں کہ اللہ والوں کی زیارت کروں گا، ان کی صحبت میں بیٹھوں گا، جس سے میرا مولا مجھ سے راضی ہو جائے گا۔ اللہ والوں کی زیارت کو جایا کریں صرف اللہ کی رضا کی خاطر، دوستی کا معیار صرف باری تعالیٰ کی رضا ہونا چاہئے۔

٭خطاب ڈاکٹر حسین محی الدین قادری۔ ۔ ۔ ’’معارف سورۃ العصر اور پیغام انقلاب‘‘

23 رمضان المبارک 12 اگست 2012ء کو نماز عصر کے بعد صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے سورۃ العصر کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

امام شافعی فرماتے ہیں کہ لوگ اگر اسی سورۃ کے معانی و مفاہیم کے بارے میں غور و فکر کر لیتے تو یہی سورۃ ان کے لئے کافی ہو جاتی۔ امام قشیری فرماتے ہیں کہ جب خدا نے زمانہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ اس سورۃ سے کیا مراد ہے؟ اس پر آقا نے فرمایا کہ ان الانسان لفی خسر سے مراد ابوجہل ہے۔۔۔ الا الذین امنوا سے مراد صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔۔۔ وعملوا الصلحت سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔۔۔ وتواصوا بالحق سے مراد عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہیں۔۔۔ اور وتواصوا بالصبر سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے۔ ایک طرح سے یہ محبوب مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم ہے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر زمانہ، زمانہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ زمانے میں 3 ادوار ہوتے ہیں ماضی، حال، مستقبل۔ زمانے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا ہر ہر لمحہ گزرتا رہتا ہے۔ ماضی میں ہمارے لئے سبق ہے۔۔۔ حال میں ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ اس نے گزر جانا ہے۔ مستقبل میں یہ سبق ہے کہ حال اور ماضی کو ملائیں تو جو صورت ہو، وہی مستقبل ہے۔ زمانے تین ہیں، ماضی، حال اور مستقبل۔ انسان اور اس کے عجائب اب تینوں زمانوں کے گرد گھومتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہ شایان شان نہیں کہ وہ کسی ادنیٰ چیز کی قسم کھائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھائی، کیونکہ ہر زمانے میں رفعت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پائی جاتی ہے۔

زمانے کی قسم کھاکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان خسارے میں ہے، اس میں کسی ایک خسارہ کا ذکر نہیں کیا، بلکہ انسان کے تمام خساروں کا ذکر ہے۔ اس میں حکومت و اقتدار سے لے کر انسان کے ذاتی اموال و حیات تک کا خسارہ ہے اور جب انسان کی ہر شے کا خسارہ ہو تو اس کو فناء کہتے ہیں۔

دوسری جانب وہ چار چیزیں بھی بتا دیں کہ جن سے انسان کی بقاء ہے کہ

  1. وہ جو ایمان لایا
  2. عمل صالح کرتا رہا
  3. حق بات کی تلقین کرتا رہا
  4. صبر کرتا رہا۔

محبت اور عمل صالح انسان کی ذات سے منسلک ہیں اور حق کی تلقین اور صبر کی تلقین مخلوق سے تعلق رکھتی ہے، اگر ذات کی اصلاح کرلی جائے اور مخلوق کی اصلاح نہ کی جائے تو منزل حاصل نہیں ہوتی۔ پہلے انسان ایسا بنے کہ جس سے خدا راضی ہو پھر وہ انسان ایسا معاشرہ تشکیل دے کہ وہ معاشرہ معاشرہ مرتضیٰ بن جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہتر زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہے۔ صحابہ کے بعد تابعین اور پھر ان کے بعد تبع تابعین کا زمانہ ہے۔ زمانہ خود سے کچھ نہیں ہے بلکہ جو اس زمانے میں رہتے ہیں زمانہ ان سے اعلیٰ ہوتا ہے۔ اللہ ہر اس زمانے کی قسم کھا رہا ہے کہ جو نیک اشخاص کی وجہ سے اعلیٰ ہوتا ہے۔ پس جو شخص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لا کر ان سے محبت کرتا ہے، عمل صالح کرتا ہے، حق بات کی تعلیم دیتا ہے تو بس ایسا کرنے والا شخص ہی کائنات میں بقاء پائے گا۔

٭ خطاب ڈاکٹر حسن محی الدین قادری۔ ۔ ۔ ’’فلسفہ وحدت و اجتماعیت اور ہماری تحریکی زندگی‘‘

شہر اعتکاف میں چوتھے روز 13 اگست 2012 بمطابق 24 رمضان المبارک کو نماز عصر کے بعد صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے فلسفہ وحدت و اجتماعیت کے موضوع پر دوسرا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

دنیا میں ہر شے نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت اور مرہون منت ہے۔ اگر اللہ نے نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور نہ کرنا ہوتا تو پھر یہ کائنات ہست وبود نہ ہوتی۔ نہ کن فیکون ہوتا، نہ انسان ہوتا اور نہ ہی دیگر مخلوقات ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے نور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرتو کی بدولت ہی وحدت کو اجتماعیت میں ڈھالا۔ جب اجتماعیت ہوتی ہے تو ہر چیز بکھیر دی جاتی ہے، جب وحدت ہوتی ہے تو ہر شے یکجا کر دی جاتی ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جب نور سے تخلیق ہوئی تو اُس وقت پوری کائنات ایک اکائی تھی۔ ’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا: میں نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا: یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! مجھے بتائیں کہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس شے کو پیدا فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! بے شک اﷲ تعالیٰ نے تمام مخلوق (کو پیدا کرنے) سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض ) سے پیدا فرمایا، یہ نور اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جہاں اس نے چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم، نہ جنت تھی نہ دوزخ، نہ (کوئی) فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا نہ زمین، نہ سورج تھا نہ چاند، نہ جن تھے اور نہ انسان، جب اﷲ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوق کو پیدا کرے تو اس نے اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصہ سے قلم بنایا، دوسرے حصہ سے لوح اور تیسرے حصہ سے عرش بنایا۔ پھر چوتھے حصہ کو (مزید) چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے اور دوسرے حصہ سے کرسی اور تیسرے حصہ سے باقی فرشتے پیدا کیے۔ پھر چوتھے حصے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کیا تو پہلے حصہ سے آسمان بنائے، دوسرے حصہ سے زمین اور تیسرے حصہ سے جنت اور دوزخ بنائی۔‘‘

روز محشر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجتماعیت کو اللہ تعالی پھر وحدت میں بدلے گا۔ روز محشر اجتماعیت انبیاء ہوگی جو وحدت مصطفی کی طرف لوگوں کو بھیج رہی ہوگی۔ حیساکہ حدیث شفاعت سے واضح ہوتا ہے۔

حسن اجتماعیت انبیاء کو مقام محمود پر رکھی ہوئی کرسئ پر بٹھا کر اللہ تعالی اسے پھر وحدت میں ضم فرمائے گا۔ پس جس طرح کائتات کی ابتدا وحدت نور مصطفی سے ہوئی تھی اسی طرح کائنات کی انتہاء بھی وحدت مصطفی پر ہوگی۔ جب مقام محمود پر کرسئ شقاعت مصطفی رکھی جائے گی۔ یعنی اجتماعیت انبیاء میں تقسیم ہو گئی، پھر ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جمع کیا گیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصل کائنات ہیں۔

تِلْکَ الرُّسُلُ اجتماعیت ہے اور فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْض میں وحدت ہے۔ جو شے آپ کو انفرادیت کا حسن عطا کرے وہ آپ کی وحدت ہے۔ اور جو آپ کو اجتماعیت میں ضم کر دے وہ آپ کی اجتماعیت ہے۔ لہذا ہر شخص کے اندر اس کی انفرادیت بھی ہے اور کچھ اجتماعیت بھی ہے۔ تمام انبیاء کا ایک جیسا ہونا یعنی رسالت اجتماعیت کا حسن دیتی ہے اور فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْض وحدت کا حسن دیتی ہے۔

٭ اسی طرح ہر کارکن اپنی ذات میں وحدت کا حسن بھی رکھتا ہے مگر جب منہاج کی اجتماعیت میں جمع ہوتا ہے تو اور پھر وحدت قائد اور شیخ الاسلام اور منہاج کی وحدت اور اجتماعیت میں جڑ جاتا ہے تو پھر اپنی وحدت کو ضم کر کے اجتماعیت منہاج میں آتا ہے۔ تو پھر ذاتی پہچان وحدت ہوتی ہے اور منہاجین کہنا یہ اجتماعیت ہے۔ پھر وہ ساری اجتماعیت پھر وحدت شیخ اور وحدت قائد میں جمع ہو رہی ہے۔ پھر یہ منہاج کا بہار اس وقت تک ہے جب اس کا تعلق اپنے قائد اور شیخ کے ساتھ منسلک ہے۔ گویا وحدت شیخ نے اس اجتماعیت کو حیات دے دی۔ جب تک وہ جڑے ہوئے ہیں تو حیات ان کو مل رہی ہے، ان کی بقا اس اجتماعیت میں رہ کر ہے اور حیات قائد کے ساتھ جڑ کر ہے اس تعلق کے ساتھ جڑ کر ہے جو قائد سے ملا ہے۔

جب ہم اپنے وحدت سے منتقل ہو کر اجتماعیت میں آتے ہیں توپھر ہمیں انفرادیت کے خوبیوں کو بھلا کر اجتماعیت کو لینا پڑتا ہے، جو پہلے تھے ملک تھے، چوہدری تھے جو تھے جب منہاج کی اجتماعیت میں آ گئے شیخ الاسلام کی چھتری کے نیچے آ گئے تو اب نئی خوبیوں کو یاد کریں پچھلی کو بھول جائیں یہ سنت الہیہ ہے اس کا ثبوت انسانی تخلیق کے مرحلہ وار ترتیب سے ملتا ہے۔

سالانہ عالمی روحانی اجتماع (لیلۃ القدر) 2012ء

تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 22 ویں سالانہ شہر اعتکاف میں ستائیسویں شب کا عالمی روحانی اجتماع 15 اگست 2012ء کی شب بغداد ٹاون میں جامع المنہاج سے متصل وسیع و عریض گراؤنڈ میں منعقد ہوا۔ عالمی روحانی اجتماع میں لاکھوں عاشقان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور فرزندان اسلام نے شرکت کی، جس میں ہزاروں خواتین بھی شامل تھیں۔ عظیم الشان عالمی روحانی اجتماع کی صدارت صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور صاحبزادہ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کی جبکہ آستانہ عالیہ بھیرہ شریف کے محترم المقام صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ مہمان خصوصی تھے۔ امیر تحریک محترم مسکین فیض الرحمن درانی، محترم پیر سید خلیل الرحمن چشتی (سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ آباد شریف، کامونکی)، ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض اور جملہ مرکزی قائدین نے بھی عالمی روحانی اجتماع میں خصوصی شرکت کی۔

عالمی روحانی اجتماع کو Q ٹی وی پر براہ راست پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ہمدانی برادران، شہزاد برادران، منہاج نعت کونسل، قاری عنصر علی قادری، منہاج نعت کونسل اور محمد افضل نوشاہی نے ثناء خوانی کی۔ نقابت کے فرائض محترم علامہ ارشاد حسین سعیدی اور محترم وقاص علی قادری نے انجام دیئے۔

اس موقع پر محترم المقام صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ (سجادہ نشین آستانہ عالیہ بھیرہ شریف) نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تحریک منہاج القرآن کا یہ عالمی روحانی اجتماع دور حاضر میں روحانی اقدار کو زندہ کیے ہوئے ہے۔ ستائیسویں شب کے عالمی روحانی اجتماع میں ہر سال خوشی سے شرکت کرتا ہوں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں منہاج القرآن اور شیخ الاسلام سے انتہائی خوش ہوں۔ شیخ الاسلام اس دور کا سرمایہ ہیں۔ میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام کے صاحبزادگان کو بھی ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا کرے۔

بعد ازاں صاحبزادہ ڈاکٹر حسن محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ستائیسویں شب کی یہ رات توبہ کی رات ہے۔ آج رقت اور گریہ زاری کی رات ہے۔ اس رات میں ہمیں اپنے مولا کے حضور ندامت اور توبہ کے آنسووں کے ساتھ پیش ہونا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو توبہ بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس رات جو لوگ اپنی جھولیاں پھیلا کر مجھے منانے کے لیے بیٹھ جاتے ہیں اور میری طرف رجوع کر رہے ہوتے ہیں، میں بھی ان کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ آج کی رات میں اپنی رحمت کو تمہاری طرف خود ہی بھیج دیتا ہوں۔ جو بندہ توبہ کے آنسوؤں سے اللہ تعالیٰ کو مناتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کی منتظر کھڑی ہوتی ہے۔ آج امت پر زوال کا وقت ہے۔ تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اس امت کو دوبارہ عروج و بلندی کی طرف گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ہم گناہوں کی دلدل میں ہیں، ہمیں یقین ہے اس رات کی نسبت سے اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیں گے۔

٭خطاب شیخ الاسلام۔۔۔۔ ’’اخلاص‘‘

عالمی روحانی اجتماع میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب سے قبل ملکی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:

’’پاکستان میں سیاست نہیں ہو رہی بلکہ پاکستان کے ساتھ سیاست ہو رہی ہے۔ ملک میں سیاست کا نام انتخابات ہیں، میں نے عہد کیا ہوا ہے کہ میں اس غلیظ، نام نہاد، کرپٹ سیاسی نظام میں داخل نہیں ہوں گا۔ آج ملک کے حالات یہ ہیں کہ پاکستان میں دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے۔ یہاں جمہوریت کے نام پر دھوکہ ہے۔۔۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر دھوکہ ہے۔۔۔ تبدیلی کے نام پر دھوکہ ہے۔۔۔ اگر نظام نہ بدلا تو اس طرح کے 100 الیکشنز سے بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔۔۔ یہ چند بڑوں کا نظام ہے۔۔۔ اس میں غریبوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔۔۔ یہ اشرافیہ کا نظام ہے، جس کو پارلیمنٹ اور جمہوریت کا نام دے رکھا ہے۔۔۔ اس نظام سے کوئی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ میں آج بھی آپ کے دلوں کی دھڑکن سنتا ہوں۔ ملک کے حالات دیکھ کر رونا آتا ہے۔ میرا جینا مرنا آپ کے ساتھ ہے۔ میں پاکستان چھوڑ کر نہیں گیا۔ میں اپنے ملک، اپنے وطن سے جدا نہیں ہوں، لیکن میں اس نظام میں شریک نہیں ہو سکتا، جس نظام نے اس ملک کے کروڑوں غریبوں کو کچھ نہیں دیا۔۔۔ جو انسانی حقوق نہیں دے سکا۔۔۔ جو روتے ہوئے لوگوں کے آنسو نہیں پونچھ سکا۔۔۔ جو نظام غریبوں کے پیٹ کی آگ نہیں بجھا سکا۔

میں ان شاء اللہ عنقریب اس ظالمانہ نظام کے خلاف حل پیش کروں گا۔ آپ کو روشنی کا راستہ دکھاؤں گا، امید دوں گا۔ اگر قوم نے اس نظام کو قبول کر لیا تو ممکن ہے کہ ملک میں یہی تبدیلی کا نقطہ آغاز بن جائے۔

بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے لیلۃ القدر کی مناسبت سے ’’اخلاص‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ. اِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ.

(ص: 82، 83)

’’اس (شیطان) نے کہا: سو تیری عزّت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا۔ سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و برگزیدہ ہیں‘‘۔

آج کی رات اللہ کے بندوں کی رات ہے جس میں وہ اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ یہ اخلاص کی رات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اخلاص یہ ہے کہ جب بندہ کہے کہ میرا رب اللہ ہے تو پھر اس کی ظاہری و باطنی زندگی میں اللہ کے ساتھ تابعداری کا تعلق قائم ہو جائے۔ اگر دل اخلاص کے نور سے منور نہیں ہوا، اس دل کے اندر طلب دنیا ہے، رغبت دنیا ہے اور ہر اس شے کی رغبت ہے جو اللہ سے دور کرنے والی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ چیز ایمان کا دھوکہ ہے۔

اخلاص کا معنی یہ ہے کہ دل کا چہرہ مولا کے سواء کسی اور کی طرف نہ رہے۔ ہر نیک کام میں نیت اخلاص کی ہو صرف مولا کے لئے کام کیا جائے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصیحت فرمائی اپنے عمل کو اپنے دین کو صرف اللہ کے لئے خالص کر لو اس کے سواء تیرا کوئی مقصود و مطلوب نہ رہے۔ نیت میں جتنا خلوص ہوگا اتنا ہی درجہ بڑھتا جائے گا اور عمل مضبوط ہوتا چلا جائے گا۔ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں جب تم اللہ کے ساتھ معاملہ کرو تو مخلوق کو نکال دو جب مخلوق کے ساتھ معاملہ کرو تو نفس کو درمیان سے نکال دو۔ یہ ہی اصل اخلاص ہے۔

حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! جس شخص نے میرے لیے کوئی عمل کیا اور پھر اس نیت میں کسی اور کو بھی شریک کر لیا یعنی اس میں دنیا داری بھی ڈال دی کہ لوگ مجھے بہت پرہیزگار اور تقویٰ شعار کہیں تو میں سارا عمل اس غیر کے لیے چھوڑ کر خود الگ ہو جاتا ہوں۔ اس کے بعد نہ میرا اس عمل سے تعلق رہا اور نہ اس عمل کا میرے ساتھ کوئی تعلق رہا۔

لوگو! کم از کم رتی بھر اخلاص اللہ کی بارگاہ میں لے جاؤ، جو لوگ اللہ کے حضور سلامتی والے دل، قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ ان کے دل اللہ کے ساتھ غیر کی شراکت سے پاک ہوں گے۔۔۔ ان کے دل شہوات نفس سے پاک ہوں گے۔۔۔ ان کے دل ریاکاری اور دکھلاوے سے پاک ہوں گے۔۔۔ ان کے دل اللہ کے سوا ہر غیر سے پاک ہوں گے۔

حضرت بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ مجھ سے اللہ نے پوچھا کہ بتا تو کیا چاہتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ باری تعالیٰ میں فقط وہی کچھ چاہوں جو تو چاہتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: اے بایزید اگر تیری یہ رضا ہے تو بس میں بھی وہ چاہتا ہوں جو تو چاہتا ہے۔

جب ایسی صورتحال ہو جائے تو پھر ایسے بندہ کا کلام رب کا کلام بن جاتا ہے۔ کاش آج ہمیں وہ حال نصیب ہو جائے۔ حضرت سلطان ابراہیم بن ادھم سے ایک شخص سوال کرتا ہے کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کے پاس ’’اسم اعظم‘‘ ہے، مجھے بھی سکھا دیں۔ ابراہیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ اللہ کے اسم اعظم کی کوئی حد نہیں۔ اے بندے جب تیرا دل خالصتا اللہ کی خلوت گاہ بن جائے گا تو اللہ کو جس نام سے بھی پکارے گا، وہی نام اسم اعظم ہے‘‘۔

پروگرام کا اختتام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رقت آمیز دعا سے ہوا۔

٭ بعد ازاں شیخ الاسلام نے عالمی روحانی اجتماع 2012ء کو انتظامی اعتبار سے انتہائی کامیاب قرار دیتے ہوئے اسے "توبہ کانفرنس" قرار دیا اور کامیاب انعقاد پر ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، سینئر نائب ناظم اعلیٰ شیخ زاہد فیاض اور ان کی تمام انتظامی ٹیم کو مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا۔

٭ خطاب شیخ الاسلام۔۔۔ ’’فضیلتِ درود و سلام اور صدقِ نیت‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 17 اگست 2012ء (28 رمضان المبارک) کو نماز فجر کے بعد پانچویں تربیتی نشست میں ’’فضیلت درود و سلام اور صدق نیت‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، آپ کا ہر لمحہ گزشتہ لمحے سے بہتر ہوگا۔ کائنات میں جب اللہ تعالیٰ نے روح مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک لمحے کے لیے جسد اطہر سے نکالا تو روح نے عرض کی کہ مولا تو نے وعدہ کیا ہے کہ ہر لمحہ، گزشتہ لمحے سے بہتر ہوگا، اب میں تیرے پاس ہوں، اگر جسد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی بہتر اور ارفع جگہ ہے تو مجھے وہاں رکھ، لیکن اگر نہیں تو پھر مجھے جسم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں واپس لوٹا دے۔ پس اللہ تعالیٰ نے روح مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پھر واپس لوٹا دیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی حیات ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف حیات ظاہری سے پردہ فرمایا ہے۔ جس کی نظر ابوبکر و صدیق رضی اللہ عنہما جیسی ہو تو وہ آج بھی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں، جن کی نظر ابوجہل جیسی ہے تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظر نہیں آتے۔ اپنوں کو نظر آتے ہیں اور غیروں سے اوجھل ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کی بات ہو تو نابینا لوگوں کی باتوں میں نہ آیا کریں، کیونکہ اس نے تو وہ سورج دیکھا ہی نہیں۔ بہرے کو آواز ہی نہیں سنائی دے گی تو وہ کیا سنے گا۔ جس کی حس ذائقہ نہیں، تو وہ کیا لذت اور حلاوت محسوس کرے گا۔ بس یہ لوگ بھی انوار و تجلیات سے محروم ہیں۔

صدق اور نیت سے باطن کی آنکھ کھلتی ہے، نیت عمل کا باطن ہے۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی رضا کے لئے ہجرت کی نیت کرتے ہوئے گھر سے نکلے تو اس کو اس کا ثواب ملتا ہے۔ اب اگر کوئی گھر سے پڑھنے نکلا ہے تو وہ اپنی نیت میں شامل کر لے کہ میں پڑھنے اس لیے جا رہا ہوں کہ اس سے دین کی خدمت کر سکوں تو وہ چاہے دنیا میں جہاں بھی جائے، جتنا عرصہ گزارے، اس کا یہ سارے کا سارا عمل عبادت بن گیا۔ بشرطیکہ اس دوران وہ حرام سے بچا رہے۔

اس طرح نوکری پر جا رہے ہیں تو نیت کر لیں کہ حلال رزق کمانے کی توفیق ہو، اس نیت کے ساتھ جو بھی بزنس کریں، اس میں برکت آ گئی اور سارا عمل عبادت بن گیا۔ اس طرح آپ دنیا کا کوئی حلال عمل کریں، بس اس عمل کی نیت نیک کر لیں، اس نیت کا رخ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مدینہ کی طرف کر لیں تو وہ عمل بابرکت ہو جائے گا۔

اگر کسی نے ہجرت الی اللہ کی نیت کی لیکن وہ منزل تک نہیں پہنچ سکا اور راستے میں اس کو موت آ گئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس کو اس عمل کا پورا اجر دوں گا، جس کی اس بندے نے نیت کی تھی۔ اس طرح نیت بہت بڑی طاقت ہے، نیت سے عمل خالص ہو جاتا ہے۔ عمل کا ظاہر حسین کرنے سے بہتر ہے کہ نیت اچھی کر کے اس عمل کا باطن حسین کر لو، جس سے تمہیں زیادہ اجر ملے گا۔ اگر نیت کا رخ خالص اللہ کی طرف ہے تو وہ تقوی بن جاتا ہے لیکن اگر نیت خالص نہ ہو تو اس وقت قول اور عمل بھی قبول نہیں ہوتا۔ اس لیے اولیاء نے فرمایا کہ بندے پر لازم ہے کہ بندہ ہر قول اور عمل کی ایک نیت کر لے اور اس کی ہر نیت اور ہر عمل لوجہ اللہ ہو۔

٭ خطاب شیخ الاسلام۔۔۔ ’’روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی نیت‘‘

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 18 اگست 2012ء (29 رمضان المبارک) کو نماز فجر کے بعد چھٹی تربیتی نشست میں ’’روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کی نیت‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم یوں فرمایا ہے:

وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُؤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo

اس آیتِ کریمہ کو فقط سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات پر محمول کرنا، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، نصِ قرآنی کا غلط اِطلاق اور قرآن فہمی سے ناآشنائی کی دلیل ہے۔ لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بعد اَز وصال اُمت کے لئے اِستغفار فرمانا ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمت کے حق میں انتہائی شفیق و رحیم ہونا نصوصِ قرآن و سنت سے ثابت اور متحقق ہے تو یہ امر قطعًا و حتماً معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال بھی روضہ مبارک پر حاضرِ خدمت ہونے والوں کو محروم نہیں فرماتے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اقدس ہے:

مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعَدَ وَفَاتِي، فَکَأَنَّمَا زَارَنِي فِيْ حَيَاتِي.

’’جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘

جو لوگ اپنے باطل عقیدے کی بناء پر حدیث ’’لا تشدّ الرّحال‘‘ سے غلط استدلال کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضری کی نیت سے جانے کے ساتھ ساتھ انبیاء و صالحین کے مزارات کی زیارت سے منع کرتے ہیں اور اسے (معاذ اللہ) سفر معصیت و گناہ اور شرک قرار دیتے ہیں وہ بلاشبہ صریح غلطی پر ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اقدس کی حاضری بلند درجہ باعث ثواب اعمال میں سے ہے۔ نیز قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہلِ اسلام کا یہ معمول ہے کہ وہ ذوق و شوق سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے لئے جاتے ہیں اور اسے دنیاو ما فیہا سے بڑھ کر عظیم سعادت و خوش بختی سمجھتے ہیں۔

شیخ عبد الحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’ما ثبت من السنۃ (ص: 114۔ 116)‘‘ میں زیارتِ قبرِ اَنور کے آداب بالتفصیل ذکر کئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

’’زائر کو چاہئے کہ گھر سے روانہ ہوتے وقت مدینہ منورہ کی جانب متوجہ ہو اور راستہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود شریف پڑھے، کیونکہ اس راہ کے مسافر کے لئے فرض عبادات کے بعد درود شریف پڑھنا ہی افضل ترین عبادت ہے۔ جب زائر مدینہ منورہ کا کوئی درخت دیکھے یا اُسے حرم پاک نظر آئے تو بے اِنتہا درود شریف پڑھے، دِل میں اﷲ تعالیٰ سے دُعا مانگے کہ روضہ انور کی زیارت بابرکت سے اُسے فائدہ ہو اور دُنیا و آخرت میں سعادت مندی حاصل ہو۔ اُسے چاہئے کہ زبان سے یہ کہے:

اَللّٰهُمَّ! إِنَّ هٰذا حَرَمَ رَسُوْلِکَ، فَاجْعَلْهُ لِی وِقَايَةً مِّنَ النَّارِ وَ اَمَاناً مِّنَ الْعَذَابِ وَ سُوءِ الْحِسَابِ.

’’اے اللہ! یہ تیرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حرم محترم ہے، اِسے میرے لئے آتشِ دوزخ سے پناہ گاہ بنا دے، عذابِ آخرت اور برے حساب سے محفوظ رکھنے والا اور جائے اَمن بنا دے۔‘‘

بعد اَز وِصال بھی صحابہ کرام سے لے کر لمحہ موجود تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ اَطہر مرجعِ خلائق بنا ہوا ہے، درِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر لمحہ صلِ علیٰ کے سرمدی پھولوں کی بہار دِلوں کے غنچے کھلاتی رہتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا در آج بھی کھلا ہے اور قیامت تک کُھلا رہے گا۔ اگر آج کا انسان امن، سکون اور عافیت کی تلاش میں ہے اور اُفقِ عالم پر دائمی امن کی بشارتیں تحریر کرنے کا داعی ہے تو اُسے دہلیزِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک جانا ہو گا، اس لئے کہ گنبدِ خضرا کو اپنی سوچوں کا مرکز و محور بنائے بغیر باغِ طیبہ کے شاداب موسموں اور مخمور ساعتوں کو اپنے ویران آنگن کا مقدر نہیں بنایا جا سکتا، امن کی خیرات اسی در سے ملے گی، اس لئے کہ ذہنوں کی تہذیب و تطہیر کا شعور اُسی دَرِ پاک کی عطائے دلنواز ہے۔