دور فتن میں خدمت دین کے تقاضے

خطاب : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین

گذشتہ سے پیوستہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کے تارک کو اس گناہ میں شریک قرار دیا جو اس نے کیا ہی نہیں، فرمایا :

اِذَا عُمِّلَتْ الْخَطِيْئَةُ فِی الْاَرْضِ

 جب زمین پر کثرت کے ساتھ خطائیں، نافرمانیاں اور گناہ ہونے لگیں۔۔۔

کَانَ مَنْ شَهِدَهَا فَکَرِهَا وَاَنْکَرَهَا کَانَ کَمَنْ غَابَ عَنْهَا.

 جو شخص ان گناہوں کو دیکھے اور ان سے نفرت کرتے ہوئے اس کے ارتکاب سے دوسروں کو روکے اور انہیں ببانگِ دہل رد کرے تو اس کو گناہ سے دور رہنے والوں میں لکھا جائے گا۔۔۔

وَمَنْ غَابَ عَنْهَا فَرَضِيَهَا کَانَ کَمَنْ شَهِدَهَا.

 جو شخص گناہ سے دور رہا، مگر نہ اس سے نفرت کرتا ہے اور نہ اعلانیہ اس کو رد کرتا ہے، گویا یہ خاموشی اس کی رضا مندی ہے، لہذا اس کی مثال گناہ نہ کر کے بھی ایسی ہے جیسے وہ گناہگاروں کے ساتھ گناہ میں شریک ہوا۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، حديث 4345 )

حضرت ابو البختری روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَنْ يَهْلِکَ النَّاسُ حَتّٰی يَعْذِرُوْا اَوْ يَعْذِرُوْا مِنْ اَنْفُسِهِمْ.

’’لوگ اس وقت تک ہلاک نہیں ہوں گے جب تک وہ (برائی) کو روکتے ہیں یا اپنے آپ کو (برائی کے ارتکاب سے) روکتے ہیں۔‘‘

امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور دعوت الی الخیر کی آوازجب ختم ہو جائے تو پھر ہلاکت افراد اور معاشرہ کا مقدر بن جاتی ہے۔

عدم قبولیتِ دعا کی وجہ

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ قَبْلَ اَنْ تَدْعُوْا فَلَا يُسْتَجَابَ لَکُمْ.

(سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، ج 2، ص : 1327، رقم 4004)

’’ نیکی کا حکم دو، برائی سے روکو، اس سے قبل کہ تم دعا کرو اور تمہاری دعاؤں کا جواب نہ دیا جائے‘‘

گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ ایسا وقت نہ آنے دو۔ اس فریضہ اقامت دین کو جتنی محنت و جدوجہد سے جاری رکھ سکتے ہو جاری رکھو، کہیں ایسا نہ کہ وہ وقت آ جائے کہ جب تمہاری دعاؤں کی قبولیت معطل ہو جائے، تمہارا مدد مانگنا بے کار رہ جائے اور تمہاری پکار نہ سنا جائے۔ تم اللہ سے مانگو اور وہ تمہیں عطا نہ کرے، تم اس سے مدد طلب کرو اور وہ تمہاری مدد نہ کرے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَتَاْمُرَنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اللّٰهُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمْ ثُمَّ يَدْعُوْکُمْ خِيَارَکُمْ فَلاَ يُسْتَجَابَ لَکُمْ.

(طبرانی، المجعم الاوسط، ج 2، ص 99 رقم : 1379)

’’تم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے رہو وگرنہ اللہ تعالیٰ تم پر تمہارے شریر لوگوں کو مسلط کر دے گا پھر تم میں سے بہترین لوگ تمہارے حق میں دعا کریں گے مگر ان کی دعائیں تمہارے حق میں قبول نہ کی جائیں گی۔‘‘

یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شکل میں خدمت و اقامت دین کا فریضہ بڑی لگن و محنت سے جاری رکھو، اگر نہیں کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر تم میں سے سب سے زیادہ اشرار یعنی گھٹیا، کمینے بد کردار، بدمعاش لوگوں کو مسلط کر دے گا، وہ تمہارے حکمران اور لیڈر بن جائیں گے اور وہ تمہیں انتہائی اذیت ناک عذاب دیں گے، جو نظام وہ لائیں گے وہ تمہارے لئے بڑی اذیت ناک سزا ہوگی۔ پھر تم چیخ و پکار کرو گے مگر یہ سب اکارت جائے گا کیونکہ تمہارے ہی کرتوت، غفلت، خدمت و اقامت دین ترک کرنے، شر کو رد نہ کرنے اور خیر کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے وہ اللہ کا عذاب بن کے آئیں گے اور تمہیں اذیت دیں گے۔ اس وقت اہل اللہ، صالحین اور اللہ والوں کی دعا بھی تمہارے حق میں نہیں سنی جائے گی۔ کہا جائے گا : نہیں۔۔۔ بس حد ہوگئی، انہوں نے شر، بدی، برائی، ظلم اور لوٹ مار کو خود طلب کیا ہے۔۔۔ انہوں نے عدل اور خیر کو خود رد کیا ہے۔۔۔ ان حالات کو، حکمرانوں کو یہ لوگ بدل سکتے تھے مگر بدلنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ لہذا اللہ والوں کی دعائیں تمہارے حق میں قبول نہیں کی جائیں گی۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لَا يَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ مَخَافَةُ النَّاس اَنْ يَتَکَلَّمْ بِحَقٍّ اِذَا عَلِمَه.

(بيهقی، السنن الکبریٰ، ج : 10، ص 90، رقم : 19967)

’’تم میں سے کوئی ایسا شخص نہ ہو کہ لوگوں کا ڈر اسے حق کا کلمہ بلند کرنے سے روک دے‘‘

کسی کی ناراضگی کے ڈر کی وجہ سے حق کلمہ کہنے سے نہ رُکو کہ فلاں ناراض ہو جائے گا، فلاں خفا ہو جائے گا، میرے فلاں مفاد کو نقصان پہنچ جائے گا۔ یعنی مفاد پرستی اور اس مفاد پرستی کی وجہ سے طاقتور لوگوں، حکمرانوں اور اپنے نمائندگان کا خوف اس کو کلمہ حق کہنے سے نہ روکے۔

فریضہ خدمت دین کی ادائیگی مقدم ہے

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ عَزَّوَجَلَّ لَيَسْئَلَ الْعَبْد يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰی اِنَّهُ لَيَقُوْلَ مَا مَنَعَکَ اِذْرَاَيْتَ الْمُنْکَرْ اَنْ تُنْکِرَهُ قَالَ يَارَبّ رَجَوْتُکَ وَفَرِقْتُ مِنَ النَّاسِ.

(سنن ابن ماجه، کتاب الفتن، ج : 2، ص 1322، رقم : 4017)

’’قیامت کے دن اللہ رب العزت بندے سے سوال کرے گا یہاں تک کہ یہ بھی پوچھے گا کہ جب تو نے برائی کو ہوتا دیکھا تو تجھے کس نے اس برائی کو روکنے سے باز رکھا، وہ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب میں نے تجھ سے امید رکھی اور لوگوں سے ڈر گیا‘‘

یعنی اے بندے بتا تو دیکھ رہا تھا کہ سوسائٹی میں فحاشی، بے حیائی، گناہ ہورہے ہیں دین سے بغاوت ہو رہی ہے، اللہ کے احکام کو توڑا جا رہا ہے مگر اس کے باوجود تو کلمہ حق بلند نہیں کرتا تھا۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اقامت دین کا فریضہ انجام نہیں دیتا تھا۔

دنیا میں ہم کبھی وقت کا بہانہ اور کبھی کاروبار کی مصروفیت، کبھی بچے اور کبھی گھر میں دیگر کام کاج کا بہانہ بنا کر اس فریضہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن اس فریضہ کی غفلت پر بھی باز پرس کریں گے۔۔۔ اللہ پاک فرمائے گا میں تمہارے وقت کی خبر آج لیتا ہوں۔

سوچئے کہ آج تو ہم دنیاوی رشتوں کو وقت دے رہے ہیں، دنیاوی تقاضے پورے کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، کل قیامت والے دن کس وقت کی بات کریں گے۔ یاد رکھیں! جس طرح کھانا کھانا ہمارے لئے واجب ہے اس سے بڑھ کر اللہ کے دین کی حفاظت کے لئے جدوجہد کرنا ہم پر واجب ہے۔۔۔ جہاں جسم کو نیند کے ذریعے آرام دیتے ہیں کہ زندگی برقرار رہے، اس سے بڑھ کر دین کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے خدمت دین اور اقامت کی جدوجہد کرنا ہم پر واجب ہے۔۔۔ جہاں ہم بچوں کی دنیا سنوارنے کے لئے سارا وقت صرف کرتے ہیں وہاں ان کے دین اور ایمان کی حفاظت کرنے کی جدوجہد اس دنیاوی جدوجہد پر اللہ پاک نے مقدم کی ہے۔ اس بارے قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔

اولاد نافرمان کیونکر نہ ہو۔۔۔

ہماری روزمرہ ذاتی زندگی سے متعلق بڑی خوبصورت بات حضرت ابو عبدالرحمن العمری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

مَنْ تَرَکَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهْیِ عَنِ الْمُنْکَر مَخَافَةِ الْمَخْلُوْقِيْن فَلَوْ اَمر ولده او بعضَ مواليه لَا يَسْتَحِقّ بَه.

(ابو نعيم، حلية الاولياء، ج 8، ص 284)

یعنی جو شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی مخلوق کے ڈر سے ادا نہ کرے تو اس شخص کی زندگی سے اس کے حکم کی ہیبت ختم کر دی جاتی ہے، اس کی اولاد بھی نافرمان ہو جاتی ہے، اس کے گھر والے بھی نافرمان ہو جاتے ہیں، وہ اولاد کو حکم دیتا ہے تو اولاد اس کی بات نہیں سنتی، گھر والوں کو کوئی بات کہتا ہے تو وہ اس کی بات کو گھٹیا اور چھوٹا سمجھتے ہیں، پھر یہ لوگ بچوں کے نافرمان ہونے پر روتے پیٹتے پریشان ہوتے اور دعاؤں کے لئے آتے جاتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اولاد کے نافرمان ہونے کی وجہ پہلے ہی بتا دی کہ بچے والدین کی بات اس لئے نہیں سنیں گے کہ انہوں نے اللہ کی بات نہیں سنی تھی۔۔۔ جو اللہ کی بات نہیں سنتا، بچے اس کی بات نہیں سنتے۔۔۔ اہل اللہ، صحابہ، تابعین، سلف صالحین بیان کرتے ہیں جس شخص کے دل میں اللہ کی بات کی قدر کم ہوگئی، اس کی بات کی قدر اس کی اولاد کے دل میں کم ہوگئی، وہ اس کی بات بھی نہیں سنے گی۔

فاسق و فاجر حکمران اللہ کے عذاب کی ایک صورت

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

لَتَاْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْ لَتَقْتِلُنَّ بینکم فليظهرون شرارکم علی خيارکم فليقتلنهم حتّٰی لا يبقی احد يامر بمعروف ولا ينهٰی عن منکر ثُمَّ تَدْعُوْنَ اللّٰه عزوجل فلا يجيبکم بمقتکم.

(ابو نعيم، حلية الاولياء، ج 1، ص : 279)

یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتے رہو اگر خدمت و اقامت دین کا یہ کام چھوڑ دو گے تو اللہ پاک تمہارے اندر قتل انگیزی پیدا کر دے گا، دہشتگردی آ جائے گی، قتال آئے گا، خون خرابہ ہوگا، پھر تمہارے شریر لوگ، اہل خیر پر غالب کر دیئے جائیں گے، اہل خیر کی بجائے اہل شر کوحکومت دے دی جائے گی، پھر حکومت میں آ کر وہ تمہیں قتل کریں گے، وہ قتل جسمانی قتل بھی ہے، معاشی قتل بھی ہے، پانی و بجلی سے محروم کرنے کی صورت میں قتل ہے، آٹا و چینی سے محروم کرنے کی صورت میں قتل ہے، زندگی کی آسائشوں کو ختم کرنے کی صورت میں قتل ہے، جینے کی ضروریات پوری نہ ہونے کی صورت میں قتل ہے۔ الغرض وہ ہر طریقے سے قتل کریں گے، ان کا دور جان لیوا ہوگا حتی کہ وہ چاہیں گے کہ کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا علمبردار اور دین کا نام لینے والا نہ بچے، فرمایا : اگر تم نے یہ وقت گوارہ کر لیا اور یہاں تک حالات کو پہنچنے دیا تو سن لو! تم اللہ کو پکارو گے مگر وہ تمہیں جواب نہیں دے گا۔

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

يَاْتِيْ عَلَی النَّاسِ زَمَانَ يَذُوْبُ قَلْبُ الْمُوْمِن کَمَا يَذُوْبُ الْمِلْحُ فِی الْمَاء مما يری من المنکر فلا يستطيع تغيره.

(الفردوس بماثور الخطاب، ج 5، ص 440، رقم : 8677)

ایسا زمانے آئے گا جس میں مومن کا دل اس طرح پگھل کے ختم ہو جائے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل کر ختم ہو جاتا ہے کیونکہ وہ لوگ اپنے معاشرے میں منکر (بے حیائی، دین کی خلاف ورزی، بدی اور برائی) کو دیکھیں گے مگر اس کو بدلیں گے نہیں یعنی اقامت دین کا فریضہ سرانجام نہیں دیں گے۔

الاستذکار، ج : 3، ص373 پر امام قرطبی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ فتنوں، اللہ کے عذاب اور ہلاکتوں کا دور وہ دور ہوگا جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض بھی چھوڑ دیا جائے گا۔ پوچھا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ کب ہوگا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نشانیاں بیان کیں ان کا مفہوم درج ذیل ہے :

1۔ وہ لوگ جو سوسائٹی میں معزز تصور ہوتے ہیں وہ بخیل و حریص اور مال و دولتِ دنیا کے لالچی بن جائیں گے۔

2۔ علم، چھوٹے لوگوں کی طرف منتقل ہو جائے گا، بڑے ایک ایک کر کے اٹھ جائیں گے اور جو اس منصب و مسند کے اہل نہ تھے، لوگ ان کو اہل علم سمجھ کر پوچھیں گے۔ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ گھٹیا ذہنیت، سوچ، کردار اور گھٹیا عمل رکھنے والے لوگوں کے پاس علم چلا جائے گا۔ علم بابرکت اور نافع نہیں ہوگا۔

3۔ قرآن پڑھنے اور قرآن کا وعظ کرنے والے حق کو دل سے مانتے ہوں گے مگر اپنے مفاد کے لئے حق کو چھپائیں گے اور جھوٹ بولیں گے۔

4۔ حکومت چھوٹے ظرف کے حامل لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ پھر وہ عوام کا وہ حشر کریں گے جو چھوٹوں کے پاس طاقت آ جائے تو وہ کرتے ہیں۔

(موسوعة ابن ابی دنيا، کتاب الامر بالمعروف نهی عن المنکر، ج : 2، ص : 201، رقم : 27)

عورتوں کی سرکشی اور جوانوں کے فسق سے بھی بڑا جرم

حضرت ابوامامہ الباہلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : :

کَيْفَ بِکُمْ اَيُهَا النَّاس اِذَا طَغٰی نِسَاءُ کُمْ وَفَسَقَ فَتَيَانُکُمْ.

(ابو يعلیٰ، المسند، ج : 11، ص304، رقم6420)

لوگو اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے معاشرے کی عورتیں باغی و خود سر ہو جائیں گی، (شوہروں کے خلاف یا سوسائٹی میں بغاوت کریں گے) اور تمہارے جوان گناہ (عیاشی، بے حیائی اور فسق و فجور) میں مبتلا ہو جائیں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :

اِنْ هٰذَا لَکَائِنٌ يَارَسُوْلَ اللّٰهُ؟

کیا واقعی اس طرح ہوگا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟

انہوں نے سمجھا کہ شاید حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک تمثیل بیان فرما رہے ہیں اس لئے سوال کیا کہ کیا واقعتا اس طرح ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وَاَشَدُّ مِنْہ۔ یہ کیا بلکہ اس سے بھی شدید تر ہوگا۔

وَکَيْفَ بِکُمْ اِذَا تَرَکْتُمْ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ والنهی عَنِ الْمُنْکَرِ.

اس سے شدید تر یہ ہوگا کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ چھوڑ دو گے۔ بھلائی کی دعوت دینا، خیر کی طرف لوگوں کو بلانا، برائی اور بدی سے روکنا اور اس صورت میں خدمت و اقامت دین اور فروغ و اشاعت دین کے کام کو چھوڑ دو گے۔ یہ عورتوں کے باغی ہو جانے، جوانوں کے فاسق ہو جانے سے بھی زیادہ بدتر صورت ہوگی۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :

وَاِنْ هٰذَا لَکَائِنٌ يَارَسُوْلَ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم.

’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا حقیقتاً ایسا دور بھی آئے گا کہ لوگ امر بالمعروف ونہی عن المنکر، دین کی خدمت و اقامت کا فریضہ بھی ترک کر دیں گے؟

فرمایا : نَعَم وَاَشَدُّ مِنْہ۔ ہاں، اس سے بھی زیادہ شدید تر اور بدتر حالات ہوں گے۔

کَيْفَ بِکُمْ اِذَا رَأَيْتُمْْ الْمَعْرُوْفَ مُنْکَرًا وَرَأَيْتُمُ الْمُنْکَرَ مَعْرُوْفًا.

’’اس سے بڑھ کر زمانہ وہ آئے گا کہ معاشرہ میں نیکی کو برائی سمجھا جانے لگے گا اور برائی کو اچھائی تصور کیا جائے گا۔‘‘

برے لوگ عزت والے تصور کئے جائیں گے، نیک لوگ کمزور اورگھٹیا تصور کئے جائیں گے۔۔۔ بدکار لوگوں کی عزت ہوگی، وہ معزز کہلائیں گے۔۔۔ گھٹیا، بڑے ہو جائیں گے اور بڑے، گھٹیا تصور ہوں گے۔۔۔ مجرم نیک تصور ہوں گے اور نیک چھپتے پھریں گے، لوگ انہیں بے وقوف کہیں گے۔۔۔ جو حلال کھائے گا وہ پاگل کہلائے گا۔۔۔ جو نیکی و عبادت کرے گا وہ ناکارہ کہلائے گا۔۔۔ جو دین کا علم رکھے گا وہ گھٹیا و بے کار کہلائے گا، اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔۔۔ جو جتنا حرام خور، بد دیانت، لٹیرا، خائن، دھوکہ و فریب کرنے والا ہوگا وہ اتنا ہی بڑا، طاقتور، معزز، عوام کا نمائندہ اور امیر و کبیر ہوگا۔ الغرض پیمانے بدل جائیں گے۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے :

لوگو! امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعے دین کی خدمت کر لو، کہیں وہ وقت نہ آ جائے کہ تم دعائیں کرو اور اللہ تمہاری دعاؤں کا جواب نہ دے، تم اللہ سے مغفرت مانگو اور اللہ تمہیں معاف نہ کرے، تم طلب کرو اور اللہ تمہیں عطا نہ کرے، تم سوال کرو اور اللہ تمہاری بات کو نہ سنے۔

پھر فرمایا :

اِنَّ الْاَحْبَارَ مِنَ الْيَهُوْدِ وَالرهْبَانَ مِنَ النصَارٰی لَمَّا َترَکُوْا الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْف والنهی عَنِ الْمُنْکَرِ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ عَلٰی لِسَانِ اَنْبِيَائِهِمْ ثُمَّ عُمُّهُمُ الْبلاء.

(طبرانی، المعجم الاوسط، ج : 2، ص : 96، رقم : 1367)

یہودیوں کے احبار اور نصاریٰ کے رحبان نے جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام معاشرے میں کرنا ترک کر دیا (اور اپنے دین کی خدمت و اقامت کا فریضہ چھوڑ دیا) تب اللہ نے ان کے انبیاء کی زبانوں کے ذریعے ان پر لعنت بھیجی ( ان کو اپنی رحمت سے محروم کرنے کا اعلان کیا اور پھر اللہ نے انہیں مصیبتوں، آفتوں) اور انہیں بلاؤں کے عذاب کے ذریعے گھیر لیا گیا۔ فرمایا : ڈرو اس وقت سے کہ وہ حال تمہارا نہ ہو جائے۔

دین کی تجدید کیلئے مجدد کی ضرورت

ان تمام احادیث کو آج کے معاشرے کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ ہم من حیث القوم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو ترک کر چکے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں جہاں اس فریضہ کے ترک کرنے پر فتنوں اور آزمائشوں کا ذکر آیا وہاں اس حوالے سے ایک خوشخبری بھی سنائی گئی۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اِنَّ اللّٰهَ يَبْعَثُ لِهٰذِهِ الْاُمَّةِ عَلٰی رَاْسِ کُلِّ مِائَةٍ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُلَهَا دِيْنَهَا.

(سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، ج 4، ص 109، رقم : 4291)

’’اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے آخر میں کسی ایسے شخص (یا اشخاص) کو پیدا فرمائے گا جو (امت) کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا‘‘

جہاں فتنوں کے دور ہونگے، جہالت، ظلم نافرمانی کی کثرت ہوگی، وہاں اللہ رب العزت نے امت کے بچاؤ کے لئے، دین کی حفاظت، اقامت، دعوت، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، دین کی مٹتی ہوئی اقدار کو دوبارہ بحال کرنے، بدعقیدگی کو دوبارہ درست عقیدے پر ڈالنے، برے اعمال کو درست اعمال کا رنگ دینے، برے احوال کو درست احوال میں بدلنے، دین کی حمیت کو پھر سے زندہ کرنے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ٹوٹی ہوئی نسبت کو پھر سے بحال کرنے، اللہ سے ٹوٹا ہوا تعلق پھر سے جوڑنے، مرجھائے ہوئے دلوں کے اندر پھر سے نور ایمان اور نورِ محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا کرنے کے لئے یہ بندوبست بھی کر دیا ہے کہ ہر صدی کے شروع میں دین کے احیاء و تجدید کے لئے کسی شخصیت کو بھیجا جائے گا جو دین کو زندہ کرے گی، تجدید کرے گی۔۔۔ اور مٹتی ہوئی اقدار کو زندہ کر دے گی۔۔۔ یہ شخص دین کے بھولے ہوئے سبق کو پھر سے یاد دلادے گا۔۔۔ دین کی راہ سے ہٹتی ہوئی روحوں کو پھر سے دین کی راہ پر گامزن کر دے گا۔۔۔ پژمردہ روحوں کے اندر تازگی ڈال دے گا۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کٹے ہوئے تعلق کو پھر سے جوڑ دے گا۔۔۔ اور اللہ کی بندگی کے بھولے ہوئے سبق کو پھر سے یاد دلادے گا۔

علماء کرام نے کہا کہ ہر صدی کے شروع میں دین کی تجدید دو طریق سے ہوسکتی ہے :

1۔ مجدد ایک ذات اور ایک فرد بھی ہوسکتا ہے۔

2۔ ایک جماعت بھی مجدد ہوسکتی ہے جس کے ذریعے فریضہ تجدید پورا کرایا جائے گا۔ اس جماعت کے سارے کارکن جو اس تجدید دین کے عظیم کام میں شریک ہونگے ان کو تجدید کا ثواب ملے گا کیونکہ اس کے اپنے ایمان کی حفاظت بھی ہوگی، اس کے ذریعے امت کو بھی خیرو برکت ملے گی اور اللہ رب العزت کے عذاب کے ٹل جانے کی سبیل بھی پیدا ہوگی۔

تحریک منہاج القرآن کی تجدیدی خدمات

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تحریک منہاج القرآن اس صدی کی تجدیدی تحریک ہے۔ ذرا سوچئے! ماضی میں معاشرے میں بدعقیدگی کا کتنا غلبہ تھا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ پر گستاخانہ حملے جاری تھے۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کا نام لینا، میلاد منانا، بدعت اور شخصیت پرستی تصور ہوتا تھا۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھنا، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کا طریق و سنتیں بدعت بن گیا تھا۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعرے بلند کرنے کی کسی میں جرات نہیں تھی۔۔۔ عقائد میں شرک اور بدعت کی تہمتیں تھیں۔۔۔ صحیح العقیدہ لوگ علم و عمل میں کمزور اور دب گئے تھے۔ طعنہ دینے والے چھاگئے تھے اور طاقت ور ہوگئے تھے۔۔۔ صحیح العقیدہ مگر علمی طور پر کمزور لوگوں سے جواب بن نہ پڑتا نتیجتاً چھپتے پھرتے تھے اور دفاع کی جرات نہ تھی۔۔۔ قرآن کا علم کم ہوگیا تھا، صرف کرامتوں اور حکایتوں پر زور تھا۔۔۔ قرآن اور حدیث و سنت کی دلیل صحیح العقیدہ لوگوں کے پاس کم ہوگئی تھی۔۔۔ دوسرے لوگ سمجھتے تھے کہ ہم قرآن و سنت کے وارث ہیں۔۔۔ اہل سنت کو علمی کمزوریوں کی وجہ سے قرآن و سنت سے دور اور جاہل تصور کیا جانے لگا تھا۔

آج الحمدللہ تحریک منہاج القرآن کی شرق تا غرب 30 سال کی جدوجہد کے نتیجے میں میلاد کو بدعت کہنے والے اب خود میلاد کے عنوان سے ربیع الاول کے پروگرام اور کانفرنسز کرتے ہیں۔۔۔ جو نعرہ رسالت کو بدعت کہتے آج خود نعرہ رسالت لگاتے ہیں۔۔۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت خوانی کو بدعت کہتے تھے آج سٹیج پر نعت خوانی کرتے ہیں۔۔۔ آج ہم عقائد کے باب میں Defence کے بجائے Progress پر چلے گئے ہیں اور دوسرے Defensive ہوگئے ہیں۔

الحمدللہ تحریک منہاج القرآن کی اس سمت تجدیدی خدمات کی وجہ سے عقیدہ صحیحہ کو اتنا عروج، قوت، عظمت اور فروغ ملا کہ اب دوسرے سر چھپاتے پھرتے ہیں، ان کے پاس سوائے تہمت لگانے کے جواب دینے کے لئے عرب و عجم میں کوئی نہیں۔ اب گلی گلی، کوچے کوچے میں نعت کی محفلیں ہیں، ہزاروں لاکھوں لوگ شرق تا غرب شریک ہوتے ہیں۔ اب طعنہ کوئی نہیں دیتا، علمی طور پر حملہ آور کوئی نہیں ہوتا، رد کوئی نہیں کرتا، ہر طرف خاموشی ہوگئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت کی اس نسبت کو قوت مل گئی۔

اسی طرح اصلاح احوال امت کا کام منہاج القرآن کے ذریعے ہوا۔ کتب کے ذریعے قوت ملی، ہر ایک شخص کے ہاتھ میں تمام موضوعات پر قرآن و حدیث پر مبنی سینکڑوں کتب ہیں جنہیں دنیا کا کوئی شخص رد نہیں کر سکتا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی امت کو عقیدہ صحیحہ کے لئے علم صحیح میسر آ گیا۔

تحریک منہاج القرآن کے ذریعے روحانی ذوق کی تجدید ہوئی۔ ہزاروں کی تعداد میں اجتماعی اعتکاف کا کوئی تصور بھی نہ کرتا تھا۔ تحریک کے دنیا بھر کے مراکز پر کثرت سے خواتین وحضرات اعتکاف بیٹھتے ہیں، روئے زمین پر کسی اور کے ہاں اس کی مثال نہیں ہے۔ روحانیت، خلوت و عزلت کا ذوق زندہ ہوگیا۔۔۔ اللہ سے تعلق جوڑنے کے زمانے اور سہانے موسم پھر آ گئے۔۔۔ اللہ سے عشق و محبت کے ترانے ہر لب پر آ گئے۔۔۔ تصوف اور سلوک کی تعلیم اپنی اصل روح کے ساتھ عام ہونے لگی۔۔۔ لوگوں کا شعور بیدار ہونے لگا۔

اسی طرح توحید کا تصور نکھرا، شرک و بدعت کے جھوٹے الزام رد ہوئے۔۔۔ عظمت رسالت اور تصوف و سلوک کا تصور نکھرا۔۔۔ تحریک منہاج القرآن نے ادب و محبت صحابہ اور ادب و محبت اہل بیت کو یکجا کیا۔۔۔ خارجیت کے اثرات کی وجہ سے اہل بیت اور ان کی محبت کا نام لینے سے لوگ ڈر گئے تھے۔ تحریک منہاج القرآن نے اس خوف و خطر کے سائبان کو پھاڑ دیا اور دوبارہ ایمانی جرات کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلبیت سے تعلق کو پھر زندہ کر دیا مگر اس طرح کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفاء راشدین کی عزت بھی اُسی طرح اجاگر رہے اور پہلے سے بلند تر رہے۔ اولیاء کی تعلیمات کو اصل روح کے ساتھ پھر سے زندہ کیا۔

نوجوان نسل کے حالات بدلے۔ تحریک منہاج القرآن نے ان کے ذہنی، قلبی، روحانی، اخلاقی اور عملی تقاضے پورے کئے۔ اسلام کی Scientific، Spirtual اورPractical Presentation دی۔ اسلام کے نفسیاتی و فلسفیانہ اور معاشرتی و ثقافتی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ قدیم اور جدید علوم کو یکجا کیا۔ جس طرح کا طالب اس دستر خوان پر آیا، اسے اس دستر خوان پر وہی ڈش مل گئی۔ جو عقل کے راستے سے دین سمجھنا چاہتا تھا اس کے لئے عقل کی نہریں رواں ہیں۔۔۔ جو دل کے راستے سے دین کی طرف آنا چاہتا تھا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے دل کے چشمے کھول دیئے۔۔۔ جو عملی طریق سے دین کو سمجھنا چاہتا تھا اس کے لئے عملی نمونے دیئے۔۔۔ جو ذوق و شوق کے طریق سے سمجھنا چاہتا تھا اس کے لئے ذوق و شوق کے منہاج قائم کر دیئے۔

دعوت الی القرآن کے مرکز بن گئے، مرد و خواتین کے سینکڑوں الگ الگ حلقاتِ درس قرآن پورے ملک میں بیک وقت ہو رہے ہیں۔۔۔ گوشہ درود اور حلقات درود قائم ہیں، جہاں 24 گھنٹے ایک منٹ کے انقطاع کے بغیر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھا جا رہا ہے، ملائکہ کی سنت زمین کے اوپر عام کر دی گئی۔

کارکنان سجدہ شکر بجا لائیں

یہ سب کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا، ہم نہ کسی کام کے تھے، نہ کسی کام کے ہیں، بس نوکر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سگ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو چاہا کام لیا، مولا نے اپنے عاجز، گناہگار، بے کار بندوں سے جو کام چاہا، لے لیا۔۔۔ کام لینے والا اور کام کرنے والا سب وہ ہے۔۔۔ مگر تحریک منہاج القرآن کے کارکنو آپ کو مبارک ہو کہ آپ کو اس کام کے لئے منتخب کیا گیا۔ یہ شرف آپ کے حصے میں آیا کہ اس صدی میں دین کی تجدید آپ کے ذریعے پورے خطے میں ہو اور اس کا فیض صرف پاکستان تک نہیں بلکہ برصغیر، عرب و عجم، اور مغربی دنیا تک جاری و ساری ہے۔ مغربی دنیا کے نوجوانوں کے عقائد و احوال بدل گئے۔ مشرق سے مغرب تک اور عرب سے عجم تک ہر طرف اس تحریک کے تجدیدی فیض نے الحمدللہ اپنے اثرات دکھائے۔ اللہ تعالیٰ نے کارکنان تحریک منہاج القرآن کو اس کام کے لئے منتخب کیا۔ اس پر کارکنان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ تحریک منہاج القرآن کا ہر کارکن نئے جذبے اور نئی روح کے ساتھ مرتے دم تک خدمت و اقامت دین کا ایک عظیم کارکن بننے کا عہد کرے۔ کارکنوں کی زندگی میں چین و سکون اس وقت تک حرام ہو جائے جب تک خدمت و اقامت دین کا فریضہ ادا نہ کریں۔

ہر کارکن اللہ کی بارگاہ میں شکرانے، عزم و ہمت اور نیت و ارادے کے دو نفل ادا کرے کہ باری تعالیٰ ہمیں اپنی بارگاہ میں اپنے دین کی خدمت، نوکری، حفاظت اور اقامت کے لئے بطور نوکر قبول کر لے اور مرتے دم تک یہ نوکری قائم رکھ۔ اس نیت و ارادے سے اللہ سے مدد طلب کریں۔

فریضہ خدمت دین کی ادائیگی کا لائحہ عمل

1۔ فریضہ خدمتِ دین کی ادائیگی کا پہلا تقاضا اور طریقہ یہ ہے کہ آپ میں سے ہر شخص کو کم از کم دین کا ضروری علم ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ جہالت کے ساتھ دین کی دعوت نہیں دی جا سکتی۔

منہاج القرآن نے علم کا ایک ایسا سمندر امت کو اللہ کی توفیق اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین کے صدقے دیا ہے کہ دین کے وہ گوشے بھی منظر عام پر آئے ہیں جن کو دنیا مانتی نہ تھی، انکار کرتی تھی۔ اسلامی تعلیمات پر مختلف پہلوؤں سے ہونے والے اعتراضات جو 1200 سال سے امت پر علمی قرض کی صورت میں موجود تھے، الحمدللہ اس قرض کو منہاج القرآن نے ادا کر دیا۔

کتب کا مطالعہ کریں، اپنے اندر پڑھنے کا کلچر پیدا کریں۔ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتب اور خطابات کے ذریعے علم کا ایک سمندر عطا فرمایا ہے۔ علم کے طریق سے ہی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام ہوگا، اسی طریق سے خیرات آئے گی۔

1971ء سے 1975ء تک کے زمانے میں جب میں ایم اے اور لاء کر رہا تھا اور ہاسٹل میں رہتا تھا، اللہ گواہ ہے کہ کتب خریدنے کے لئے تین تین دن تک فاقہ کرتا تھا۔ گھر سے جو خرچ آتا تھا اور مجھے جو سکالر شپ ملتا تھا، اس سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد اپنی کلاس میں موجود غریب طلبہ میں تقسیم کر دیا کرتا تھا اور اپنے کھانے کے لئے بھی پیسے رکھے بغیر بقیہ رقم سے کتب خریدتا تھا۔ حتی کہ بعض اوقات اپنے پاس کرائے کے لئے بھی کچھ رقم نہ رکھتا اور سائیکل پر نیو کیمپس سے اولڈ کیمپس آتا جاتا تھا۔ آج بھی دنیا کے جس ملک میں جاؤں تکلیف کے باوجود 10 / 8 گھنٹے کھڑے ہوکر محنت اور کوشش سے کثیر تعداد میں منتخب کتابیں خریدتا ہوں۔ کتابوں کی خریداری کا عمل نوجوانی کے دور سے شروع کیا اور آج کے دن تک ختم نہیں ہوا۔ اس میں زندگی ہے، راحت ہے، لذت ہے۔ کتابوں کو پڑھنے سے ان اصحابِ کتب کی صحبت ملتی ہے۔ ان کی باتوں کو پڑھ کر آپ ان کی مجلسوں اور صحبتوں میں چلے جاتے ہیں۔ کتاب ہر فتنے سے بچا دیتی ہے۔ قرآن پڑھ رہے ہیں تو اس کے سبب فتنوں سے محفوظ ہوگئے۔۔۔ حدیث پڑھ رہے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں چلے گئے۔۔۔ صحابہ، تابعین، سلف صالحین کے آثار پڑھ رہے ہیں تو ان کی پاکیزہ مجلسوں میں چلے گئے اور ناپاکیوں سے بچ گئے۔

کتب سے علم ملتا ہے، اس علم کے ذریعے دعوت کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔ جس طرح مرتے دم تک کھانا ختم نہیں کیا جا سکتا اسی طرح مرتے دم تک کتاب سے تعلق توڑا نہیں جا سکتا۔ ہر شخص طالب علم بن جائے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمہ وقت رَبِّيْ زِدْنِيْ عِلْمًا کے ذریعے طلب علم میں رہے۔ اللہ انہیں علم دیتا رہا اور وہ اللہ سے علم لیتے رہے۔ وہ کیسا مسلمان ہے جو پڑھنے سے دلچسپی نہیں رکھتا۔ قرآن کی پہلی وحی کا پہلا لفظ اقراء ہے۔ جو مسلمان ہو کر نہیں پڑھتا اس کا قرآن سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ گویا سارا دین ہی پڑھنے اور پڑھانے سے متعلق ہے۔ پس ہر کارکن اپنے گھر میں کتابوں کی لائبریری بنائے۔

2۔ فریضہ خدمتِ دین کی ادائیگی کا دوسرا تقاضا اور طریقہ یہ ہے کہ فروغ دعوت کے لئے حلقاتِ قرآن و حلقاتِ درود قائم کریں۔ ہر شخص حلقہ درود قائم کرے۔ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کی تحریک کو ساتوں سمندروں کے کنارے تک پہنچانا ہے۔ کرہ ارضی کے کونے کونے تک آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے درود کے حلقوں کو پہنچانا ہے۔ وہ وقت آئے کہ ہر گھر، ہر محلہ اور ہر گلی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود کے لئے حلقات قائم ہوں اور درود پڑھا جا رہا ہو۔ اس طریق سے اقامت دین کا فریضہ سرانجام دینا ہے۔

3۔ کارکن اس مشن، قافلے اور علم و حکمت کے چشمے کے ساتھ لوگوں کو وابستہ کریں تاکہ نہ صرف ان کی بلکہ ان کے گھر والوں اور ان کی نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت کا بھی سامان ہو۔ اس کا اجر نہ صرف آپ کو عمر بھر ملتا رہے گا بلکہ قبر و حشر میں بھی اس کا اجر ملے گا۔

4۔ حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہمیشہ کمربستہ رہیں۔ اخوت و محبت کو فروغ دیں۔ جس جس کی حق تلفی کی ہے، خواہ وہ رشتہ دار ہے یا دوست، پڑوسی ہے یا کوئی اور اس سے حق تلفی پر معافی مانگیں۔ حقوق العباد کو ترک کرنے والے کے حقوق اللہ بھی قبول نہ ہوں گے۔۔۔ معاملات میں خیانت کرنے والے کی عبادات بھی قبول نہ ہوں گی۔۔۔ جس کسی کو گزند پہنچائی، بے عزتی کی، تکلیف پہنچائی، حق کھایا، گالی دی، اس سے معافی مانگیں تاکہ آئندہ گناہ، ظلم، نافرمانی اور عصیان سے بچ جائیں۔ دنیا کو پتہ چلے کہ آپ کو اس تحریک کا فیض ملا ہے اور آپ تربیت یافتہ لوگ ہیں۔

اللہ تعالیٰ، آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے صدقے ہم سب کو دین اور امت کا خادم بنائے۔۔۔ مشن کا خادم بنائے۔۔۔ انسانیت کا خدمت گزار بنائے۔۔۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اپنی خصوصی برکتوں، رحمتوں سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔۔۔ اس تحریک کے مرکز کو آباد و شاد رکھے اور ابدالآباد تک اس پر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انعامات رہیں اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے خصوصی فیوضات میسر رہیں۔۔۔ لوگ یہاں سے سیراب ہوتے رہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہمیں استقامت کے ساتھ دین پر قائم رکھے۔۔۔ ہم ہمیشہ اللہ رب العزت کی بندگی، وفاداری اور تابعداری میں رہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و ادب اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی حضوری و نوکری میں رہیں اور اللہ تعالیٰ ہم سب پر لطف و کرم فرمائے۔