حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فقہی اجتہادات و تفردات

ڈاکٹر تبسم منہاس

حضرت عثمان غنی ر ضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم ہی کی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طویل فیض صحبت پایا تھا اور وہ ان چند خوش قسمت لوگوں میں شامل تھے، جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی دعوت پر ابتدائی دنوں میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جزئیات کو پرکھنے اور ان سے نتائج کا استخراج کرنے کی بھرپور صلاحیت عطا کی تھی۔ قرآن مجید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نجی اور عوامی دونوں طرح کی مجالس میں انہیں شرکت کے مواقع ملتے رہے۔ علم و عرفان طلب صادق اور ذوق سلیم کا جو حصہ انہیں ملا تھا وہ بھی فقیدالمثال تھا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمات اور ان کے مناقب کا باب بہت طویل ہے تاہم چند نمایاں خدمات اور فقہی تفردات کا تذکرہ درج ذیل ہے۔

عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خدمات

  1. حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تمام غزوات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ شرکت کی۔ یہ شرف اگرچہ کئی دیگر صحابہ کو بھی حاصل ہوا مگر آپ کا منفرد شرف یہ ہے کہ غزوہ بدر میں اپنی اہلیہ کی بیماری کی بنا پر مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی بنا پر رک گئے اور غزوہ بدر میں عملاً شرکت نہ کر سکے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نہ صرف یہ کہ غزوہ بدر کے مجاہدین میں شمار فرمایا بلکہ انہیں مال غنیمت میں بھی حصہ عطا کیا اسی بناء پر ان کا نام بدری صحابہ کرام کی فہرست میں شامل ہے۔
  2. حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حبشہ اور مدینہ منورہ کی دونوں ہجرتوں میں شامل ہوئے، بہت کم صحابہ کرام کو دونوں ہجرتوں میں شرکت کا شرف حاصل ہوا۔
  3. انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوہری دامادی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ یہ اعزاز بھی امت میں کسی دوسرے فرد کو حاصل نہیں ہوسکا۔
  4. بیعت رضوان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے بیعت فرمائی۔
  5. انہوں نے مدینہ منورہ میں جب لوگوں کو پانی کی تنگی میں مبتلا دیکھا، تو بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں جنت کی بشارت سنائی۔
  6. انہوں نے ’’جیش عسرت‘‘ (غزوہ تبوک) کے موقع پر تین سو اونٹ سازو سامان سمیت اور ایک ہزار طلائی دینار راہ اسلام میں صدقہ کئے جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’آج کے بعد اگر عثمان کوئی اور (نیکی کا) کام نہ (بھی) کرے تو اسے کوئی نقصان نہیں‘‘۔

(الترمذی، الجامع السنن، کتاب المناقب، باب فی مناقب عثمان رضی الله عنه)

علامہ جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تاریخ الخلفاء‘‘ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اپنی زبانی ان کے درج ذیل مناقب روایت کئے ہیں :

  1. میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص ہوں۔
  2. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کا مجھ سے نکاح فرمایا۔
  3. میں کبھی گانے بجانے کی مجلس میں شریک نہیں ہوا۔
  4. میں کبھی کھیل کود میں مشغول و منہمک نہیں ہوا۔
  5. میں نے کبھی برائی کی تمنا تک نہیں کی۔
  6. اسلام لانے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کیا اگر اس وقت موجود نہ ہوا تو بعد میں آزاد کیا۔
  7. زمانہ اسلام یا زمانہ جاہلیت میں کبھی حرام کاری نہیں کی۔
  8. کبھی چوری نہیں کی۔
  9. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں قرآن مجید جمع کیا۔
  10. میں نے اپنے ستر کو کبھی نہیں دیکھا۔

خلافت اور شہادت

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت (یکم محرم الحرام 24ھ) کے بعد مسند خلافت سنبھالی اور 11 سال 11 ماہ اور 18 دن مسند خلافت کو زینت بخشنے کے بعد 18 ذوالحجہ 35ھ کو مظلومانہ حالت میں اپنے گھر میں شہادت پائی اور ہفتہ کے دن مغرب اور عشاء کے درمیان آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 82 یا 81 برس تھی۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے یا حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہما نے پڑھائی۔ آپ رضی اللہ عنہ کو ہفتہ کے روز رات کی خاموشی میں دفن کیا گیا مگر ان کی شہادت سے سوئے ہوئے فتنے جاگ اٹھے جو اب تک دن بدن مضبوط اور توانا ہوتے جا رہے ہیں۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اجتہادی کارنامے

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارہ سالہ دور خلافت میں اگرچہ ہر سطح پر بڑے انقلابی کارنامے انجام دیئے گئے جن میں ایشیا اور براعظم افریقہ میں بہت سی فتوحات کے علاوہ جمع و تدوین قرآن بھی شامل ہے۔ تاہم علمی دنیا میں ان کے اجتہادی کارنامے ان کی اہم ترین یادگاریں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے :

1۔ بطور قاضی اور مفتی خدمات

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شمار عہد نبوی اور عہد صحابہ کے ممتاز اور نامور فقہاء میں ہوتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوتا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طویل عرصے تک فیض صحبت پایا تھا اور انہیں خلوت و جلوت میں ’’منبع علم و عرفان ذات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استفادے کا وسیع موقع حاصل ہوا تھا۔

جہاں تک حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ کے علمی اور فکری پائے کا تعلق ہے تو ان کے فتاویٰ کا علمی درجہ کسی طرح بھی حضرت عائشہ، حضرت عمر، حضرت علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علمی اور فکری فتاویٰ سے کم نہیں ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ہر رائے ٹھوس اور وزنی دلائل پر مبنی ہوتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے بیان کردہ مسائل سے، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سمیت تمام ائمہ کرام نے استفادہ کیا ہے اور ان کا مخصوص انداز فکر صحابہ کرام کے علاوہ تابعین اور تبع تابعین کے مابین ہمیشہ مقبول رہا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے علمی اور فقہی رتبے کا یہ عالم تھا کہ ازواج مطہرات تک جو علم حدیث اور علم الفقہ میں بہت اونچا مقام رکھتی تھیں مختلف مسائل میں انہی کی طرف رجوع کرتی تھیں۔

2۔ قرآن کریم کی قرات اور جمع و تدوین

اسلامی تاریخ کے تمام ادوار میں اس بات پر تمام فقہاء اور علماء کا اتفاق رہا ہے کہ قرآن کریم فقہ و اجتہاد کا سب سے اہم اور سب سے مقدم مآخذ ہے اور بحیثیت مجموعی اس کی تلاوت اور اس کی حفاظت و صیانت امت پر فرض ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شخصیت، صحابہ کرام میں قرآن مجید کی خدمت اور اس کی حفاظت و صیانت کے لئے خصوصی امتیاز رکھتی ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اَفْضَلُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.

’’تم میں سب سے افضل وہ ہے جس نے قرآن مجید کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا‘‘۔

(مسند احمد بن حنبل)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا شمار عہد نبوی کے حفاظ قرآن میں ہوتا تھا، انہوں نے عہد نبوی ہی میں پورے قرآن مجید کو جمع کیا تھا اور پھر چونکہ وہ کاتبین قرآن میں سے تھے اس لئے قرآن مجید کی ہر آیت کے شان نزول اور اس کے حقیقی مفہوم سے بھی واقف تھے۔

قرآن مجید کی قرات متواترہ میں سے، حضرت عاصم بن ابی النجود تابعی (م127ھ یا 128ھ) کی قرات، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابی اور حضرت زید رضی اللہ عنہم سے ماخوذ ہے۔ علاوہ ازیں جمع و تدوین قرآن کریم کے سلسلے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کاوشوں کو امت میں ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔

اہل علم پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں جب قرآن مجید کو ایک جلد میں مدون کیا جانے لگا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس پر شروع میں آمادہ نہ تھے ان کا کہنا تھا کہ جو کام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا وہ کام میں بھلا کیسے کر سکتا ہوں۔ مگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اصرار جاری رکھا اور بالآخر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس پر قائل ہوگئے اور انہوں نے حضرت زید بن ثابت کو اس اہم ترین خدمت پر مامور فرما دیا۔ قرآن مجید جمع ہونے کے بعد یہ نسخہ پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا پھر ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب مختلف قبائل کے عربی لب و لہجہ کی وجہ سے قرآن مجید کی قرات میں اختلاف پیدا ہونے لگا اور یہ خدشہ پیدا ہوا کہ اگر اس کا سد باب نہ کیا گیا تو یہ اختلاف بڑھ کر اختلاف مصاحف کی شکل اختیار کر لے گا تو اس پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مذکورہ قرآن مجید کا نسخہ حاصل کیا اور اس کی سات نقول تیار کروائیں اور اسلامی ممالک کے تمام مراکز کو اس کی ایک ایک نقل پہنچا دی اور حکم دیا کہ قرآن مجید اسی کے مطابق لکھا اور پڑھا جائے اور باقی نسخوں کو تلف کر دیا جائے، اس طرح انہوں نے اس فتنے کا مکمل طور پر سد باب کر دیا۔

بظاہر تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس کام میں اجتہاد و تفقہ کی ضرورت پیش نہ آئی ہوگی لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ کام بھی اجتہاد و تفقہ سے خالی نہ تھا اس میں کئی مقامات پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کاتبین وحی نے اجتہاد سے بھی کام لیا۔

’’جمع و تدوین قرآن مجید‘‘ کے موقع پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کوئی ہدایت نہ ملی تھی، وہاں انہوں نے ذاتی بصیرت اور اجتہاد سے کام لیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف سے قرآن مجید کو قریش کے لہجے کے مطابق لکھنے اور باقی نسخہ جات کو تلف کرنے کا ’’حکم نامہ‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے وسیع فقہی اور علمی بصیرت کو واضح کرتی ہے۔

علاوہ ازیں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے یادگار اور علمی کارناموں میں سے ایک یہ کارنامہ بھی ہے کہ انہوں نے امت کو ایک قرآن پر جمع کیا۔ اس سے قبل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ’’معوذتین‘‘ کو مصحف قرآن میں شامل نہ سمجھتے اور اس کو قرآن حکیم کے متن سے نکالنے کا حکم دیتے تھے مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سورتوں کے قرآن مجید میں شامل کرنے پر حضرت ابن مسعود سمیت صحابہ کرام کا اتفاق حاصل کیا اور چھوٹے موٹے اختلافات کو ختم کیا۔

(السيوطی، تاريخ الخلفاء)

حضرت عثمان فقہی انتظامی اور علمی معاملات میں قرآن مجید کو جو اہمیت دیتے تھے اس کا اندازہ اس روایت سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

ان وجدتم فی کتاب الله ان تضعوا رجلی فی القيد فضعوها.

(احمد بن حنبل، مسند، رقم : 544)

’’اگر تم اللہ کی کتاب میں یہ بات پاؤ کہ تم میرے پاؤں کو بیڑیاں پہنا دو، تو تم ضرور ایسا کرو‘‘۔

ان کا اس سے مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم سب سے مقدم ہے اور اس کے سامنے سرنیاز خم ہے۔

3۔ حج و عمرہ

جن شعبوں میں خصوصی طور پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فقہی اجتہادات کا اظہار ہوا ان میں حج و عمرہ کا شعبہ بھی شامل ہے۔ اس کے درج ذیل مسائل میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا مسلک دوسروں سے منفرد ہے۔

(الف) منیٰ میں نماز قصر کا مسئلہ

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ منیٰ میں چار رکعات پڑھا کرتے، اس پر لوگوں نے اعتراض کیا تو انہوں نے جواباً فرمایا :

يايها الناس انی تاهلت بمکة منذ قدمت وانی سمعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يقول من تاهل فی بلد فليصل صلوة المقيم.

اے لوگو! میں مکہ مکرمہ میں جب سے آیا ہوں، اقامت کی نیت کر لی ہے اور میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس شخص نے کسی شہر میں اقامت کی نیت کر لی ہو وہ مقیم والی نماز پڑھا کرے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ کے اسی مسلک کو حنفی مسلک میں اختیار کیا گیا ہے چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ میں چودہ دن یا اس سے زیادہ دنوں کے لئے اقامت کی نیت کر لے تو وہ مقیم ہو جاتا ہے اور اسے منیٰ میں پوری نماز پڑھنی چاہئے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے اس طرز عمل نے اس امر کو واضح کیا ہے کہ منیٰ میں نماز قصر کی ادائیگی اعمال و فرائض حج کا حصہ نہیں ہے بلکہ مسافر ہونے کا نتیجہ ہے۔

(ب) حج تمتع کی ممانعت

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فقہی اجتہادات میں ایک اہم ترین اجتہاد ’’حج تمتع‘‘ کی ممانعت سے متعلق ہے۔ حج تمتع سے مراد یہ ہے کہ حج کے دنوں میں پہلے عمرہ کیا جائے اور احرام کھول دیا جائے پھر حج کے دن قریب آجانے پر حرم کے اندر سے حج کا احرام باندھا جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر حجۃ الوداع میں ان صحابہ کرام نے، جن کے پاس قربانی کے جانور (ھدی) نہ تھے انہوں نے اسی طریقے کے مطابق حج کیا تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ قربانی کے جانور اپنے ہمراہ لائے تھے اس لئے آپ نے بذات خود قران کیا تھا۔

عبداللہ بن شقیق تابعی بیان کرتے ہیں کہ ’’حضرت عثمان تمتع سے منع کیا کرتے تھے‘‘ جب کہ حضرت علی اس طریقے سے حج کرنے پر زور دیتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی سے کوئی بات کہی تو حضرت علی نے کہا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہے کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تمتع کیا تھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں لیکن ہمیں اس وقت (دشمنوں کا) خوف تھا۔

(احمد بن حنبل، مسند، ج 1، رقم : 535)

اس روایت سے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے طریقہ ہائے استدلال میں جو فرق ہے اس کا اظہار ہوتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ ایک رخصت تھی اور ایسی رخصتیں تاقیامت باقی رہیں گی، جس طرح سفر کے دوران قصر کا اور روزہ نہ رکھنے کا مسئلہ ہے کہ یہ دونوں رخصتیں تا قیامت رہیں گی مگر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمتع کیا تھا اس وقت راستے پر خطر تھے اور لوگوں کے سروں پر خطرات منڈلاتے رہتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔

(ج) دوران احرام نکاح کی ممانعت

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے فقہی اجتہادات میں ایک اجتہاد دوران احرام نکاح کی حرمت سے متعلق ہے۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خصوصاً حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ مسلک تھا کہ دوران احرام نکاح کرنا جائز ہے البتہ اپنی بیوی سے ملاقات جائز نہیں۔ اس سلسلے میں ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نکاح کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس اور جمہور صحابہ کرام کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے حالت احرام میں نکاح کیا تھا اور ان کی رخصتی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمرہ سے فراغت کے بعد عمل میں آئی تھی لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم خیال علماء کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احرام کھولنے کے بعد حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا۔ (مسند احمد بن حنبل، رقم : 644) اس بارے میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاں جو سختی تھی اس کا اندازہ درج ذیل روایات سے ہوتا ہے :

حضرت ابان اپنے والد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے : ’’محرم نہ تو نکاح کرے نہ بیوی سے ملاقات کرے اور نہ ہی پیغام نکاح دے‘‘۔

(الامام الشافعی، موسوعة، رقم : 2673)

یہ مسئلہ بھی، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے منفرد فقہی انداز فکر کا مظہر ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ احرام کی حالت میں قرآن مجید میں ’’رفث‘‘ سے منع کیا گیا ہے چونکہ ایسے افعال میں بھی ’’رفث‘‘ پایا جاتا ہے جو اس کے دواعی اور اس کے اسباب بن سکتے ہیں اور محرم کا نکاح کرنا یا کسی خاتون کو نکاح کا پیغام دینا اس کا سبب اور داعیہ بن سکتا ہے لہذا محرم کو اس سے بھی احتراز کرنا چاہئے۔

4۔ عام معاملات میں سہولت کا پہلو

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے زندگی کے عمومی معاملات میں توسیع کا پہلو اختیار کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردوں کے لئے سونے کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سونے کا دانت بنوایا تھا۔ (ابن الاثیر، اکامل فی التاریخ) اپنے اس طرز عمل کے ذریعے گویا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلام میں مردوں کے لئے سونے کی بطور زیور استعمال کی ممانعت ہے۔ ضرورت مند اور مجبور شخص کے لئے اسلام سونے کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔

5۔ عدت میں خاوند کی وفات پر وراثت کا مسئلہ

صحابہ کرام کے زمانے میں اس مسئلے میں بھی اختلاف پایا جاتا تھا کہ اگر خاوند بیمار ہو اور وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے پھر اس سے قبل کہ اس کی عدت گزرے۔ اسکا اسی بیماری سے انتقال ہو جائے تو آیا اس کی بیوی اس کی وراثت میں شریک ہوگی یا نہیں۔

چنانچہ مروی ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنی بیوی تماضر بنت الاصبغ الکلبیہ کو طلاق بائن دی پھر ابھی وہ عدت میں تھی کہ ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کو وراثت میں حصہ دیا جبکہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت کی۔ (موسوعہ الامام الشافعی : رقم : 1419)چنانچہ احناف اور شوافع کے ہاں اسی پر عمل ہے۔

6۔ وصولی زکوٰۃ

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جن لوگوں پر زکوٰۃ فرض ہوتی اور وہ اس کا اقرار کرتے تو ان کے سرکاری عطیات میں سے اس کو وضع کر لیتے اور جن پر زکوٰۃ فرض نہ ہوتی تو ان کا عطیہ پورے کا پورا انہیں دے دیتے۔

(کتاب المسند، رقم : 407)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اختیار کردہ یہ طریقہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ دور حاضر میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں یا ٹھیکیداروں کے واجبات سے ان پر ضروری ادائیگیوں کی وصولی کے لئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ ایک اہم سند تصور کیا جا سکتا ہے۔

7۔ جمعۃ المبارک سے متعلقہ مسائل

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو جن مسائل میں انفرادیت حاصل ہے ان میں سے ایک کا تعلق جمعۃ المبارک کے دن سے ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جمعۃ المبارک کے دن جب خطبہ دیتے تو درج ذیل جملے کا ضرور اعادہ فرماتے :

’’جب امام جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لئے کھڑا ہوجائے تو خاموش ہوجایا کرو اور متوجہ ہو کر سنا کرو، اس لئے کہ جو شخص خاموش ہو کر بیٹھا ہو اور اسے خطیب کی آواز سنائی نہ بھی دیتی ہو تو اسے ویسا ہی اجر ہے جیسا کہ خطبے کے اس سامع کے لئے جو آواز سنتا ہو۔ پھر جب نماز کھڑی ہوجائے تو صفیں سیدھی کر لو اور کندھے برابر کر لو، اس لئے کہ صفوں کو سیدھا کرنا، نماز باجماعت کا حصہ ہے‘‘۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اس وقت تک تکبیر تحریمہ نہ کہتے جب تک وہ لوگ جنہیں صفوں کی درستگی کے لئے انہوں نے مامور کر رکھا تھا، آ نہ جاتے اور یہ نہ بتا دیتے کہ صفیں سیدھی ہوگئی ہیں پھر وہ تکبیر تحریمہ کہتے۔

(موسوعه الامام الشافعی، رقم : 394)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اولیات

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی فقاہت اور ان کے مرتبہ اجتہاد کا اندازہ ان امور سے بخوبی کیا جا سکتا ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اولیات کہلاتے ہیں۔ علامہ جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ الخلفاء میں حسب ذیل امور کو اولیات عثمان قرار دیا ہے :

  1. انہوں نے سب سے پہلے لوگوں کو جاگیریں دیں اور حمیٰ (سرکاری چراگاہ) قائم کی۔
  2. انہوں نے نماز میں (جھکتے ہوئے) آہستہ آواز میں تکبیر کہنا شروع کیا۔
  3. انہوں نے جمعہ کے دن پہلی اذان شروع کی۔
  4. انہوں نے مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔
  5. وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے زکوٰۃ نکالنے کی ذمہ داری خود عوام پر ڈالی۔
  6. انہوں نے سب سے پہلے صاحب شرطہ (پولیس آفیسر) مقرر کیا۔
  7. مسجد میں مقصورہ بنایا (تاکہ ان کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے واقعے کا اعادہ نہ ہو)
  8. انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ راہ اسلام میں سب سے پہلے ہجرت کی۔
  9. انہوں نے لوگوں کو ایک قرات پر جمع کیا۔