ڈاکٹر حسین محی الدین القادری

تحریک منہاج القرآن دنیا میں اپنے کام کی نوعیت، اعلیٰ مقاصد، اعلیٰ قیادت اور جداگانہ تشخص کی بناء پر منفرد و ممتاز مقام کی حامل ہے۔ احیاء اسلام اور تجدید دین کے جس عظیم مقصد کا عَلم تحریک منہاج القرآن نے بلند کر رکھا ہے اس مشن کی تکمیل کے لئے معمول کی کاوشیں، تحرک اور نظام و لائحہ عمل کافی نہیں ہے۔

ہم نظام کی تبدیلی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں لہذا اس کے لئے مرکز سے لے کر یونٹ لیول تک اندرون و بیرون ملک تحریک منہاج القرآن کے جملہ ناظمین، ذمہ داران اور کارکنان کو غیر معمولی کاوشیں کرنا ہوں گی۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ

Ordinary efforts always gets ordinary results & extra- ordinary efforts always get extra- ordinary results. Ordinary organizations always achieve ordinary goals & extra-ordinary organizations always achieve extra-ordinary goals.

یہ بات ذہن نشین رہے کہ جہاں تحریک منہاج القرآن کا مقصد احیائے اسلام، تجدید دین اور اصلاح احوال ہے وہاں یہ تحریک ایک پروفیشنل تنظیم بھی ہے۔ جس کے کام کا انداز، رفتار، ذرائع موجودہ دور کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ لہذا تحریک منہاج القرآن کو اپنے عظیم مقاصد کی طرح ہر سطح پر اپنے تنظیمی ڈھانچے کو بھی پہلے سے بڑھ کر زمانے کے تقاضوں کے مطابق مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔ ہمارے مقاصد عظیم ہیں اور ہم نے اپنے طریقہ کار کو بھی عظیم کرنا ہے تاکہ ترقی کی منازل طے کی جا سکیں۔ ہم آج پروفیشنل زمانے میں داخل ہوچکے ہیں جہاں چھوٹے سے چھوٹا عمل اور چھوٹے سے چھوٹا مقصد بھی بغیر پروفیشنل سوچ اور ہنر کے حاصل کرنا مشکل ہے۔

تحریک منہاج القرآن کے جملہ ناظمین، قائدین اور کارکنان اپنے تحریکی و تنظیمی امور کو بجا لانے کے طریقہ کار کو کس طرح عظیم اور اعلیٰ بنا سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں تنظیم، اس کے قیام کی ضرورت اور اس کے تقاضوں و عناصر کو سمجھنا ہوگا۔

تنظیم کیا ہے؟

تنظیم کی تعریف اسلامی و مغربی مفکرین یہ کرتے ہیں کہ ’’چند لوگوں کا کسی ایک خاص مقصد کے لئے، کسی ایک پلیٹ فارم پر ایک ہی طریقہ کار سے چلنے کے عزم کے ساتھ جمع ہو جانا تنظیم کہلاتا ہے‘‘۔

اس تعریف سے تنظیم میں اختلافات اور دو الگ نوعیت کی سوچوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی تنظیم میں موجود ناظمین، قائدین اور کارکنان کی سوچ میں فکری و نظریاتی اختلافات پائے جائیں اور ایک سوچ پر سب متفق نہ ہوں تو تنظیم کا ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی طرف سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مقصد و منزل کے تعین کے ساتھ ساتھ راستے کے تعین پر بھی متفق ہونا ضروری ہے تاکہ اس منزل کو بطریق احسن حاصل کیا جا سکے۔

یاد رکھیں! منزل کے حصول کے لئے کسی ایک تنظیم میں قائدین اور کارکنان میں ہم آہنگی ہونا اشد ضروری ہے۔ مختلف نظریات کے حامل لوگ کبھی کسی ایک منزل کے حصول کے لئے متفق نہیں ہو سکتے۔ اسی لئے جب کوئی کسی تنظیم کا حصہ بنتا ہے تو اسے اپنے نظریات سے دستبردار ہو کر اس تنظیم کے مقاصد اور نظریات کو اچھی طرح سمجھ کر اس کا حصہ بننا پڑتا ہے کیونکہ اگر ایک طرف وہ ایک بڑے نظام کا حصہ بھی ہو اور الگ نظریہ کا حامل بھی تو اس کا یہ عمل تنظیم کے مقصد کے حصول میں بھی رکاوٹ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے اور وہ شخص اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈالتا ہے۔ یہاں اپنے نظریات سے دستبردار ہونے کا مطلب تنظیم کی بنیادی فکر سے عدم تصادم ہے وگرنہ تنظیم کے اندر رہتے ہوئے اصول و ضوابط کے مطابق راستے کے تعین اور حکمت عملی میں تبدیلی کی رائے دینا نظریات سے انحراف نہیں کہلاتا بلکہ تنظیمی مشاورت کا حصہ ہے۔

تنظیم کیوں قائم کی جاتی ہے؟

تنظیم کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ دنیا میں بعض ایسے بڑے مقاصد ہوتے ہیں جن کو ایک فرد اپنی کاوشوں سے حاصل نہیں کر سکتا۔ ایک شخص فکر و نظریہ تو دے دیتا ہے مگر اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک نظام اور ایک تنظیمی ڈھانچہ درکار ہوتا ہے۔ تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل کے بعد بانی تنظیم کے دیئے ہوئے بنیادی اصولوں کے ساتھ وہ ڈھانچہ کام کرتا ہے اور اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔

تنظیمی کامیابی کا راز

وہ کونسے عناصر ہیں جو کسی تنظیم کو بقیہ دیگر تنظیمات سے ممتاز کرتے ہیں اور اسے بہتر مستقبل کی طرف لے جا سکتے ہیں، آیئے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ تنظیم کے 3 بنیادی ستون ہیں اور یہی وہ تین عناصر ہیں جن پر کماحقہ عمل پیرا ہونا تنظیم کو کامیابی کی طرف گامزن کرتا ہے۔ کوئی بھی تنظیم ان 3 ستونوں کو جتنا مستحکم ومضبوط کرے گی وہ اتنی ہی مضبوط ہوتی چلی جائے گی۔

  1. اختیار (Authority)
  2. ذمہ داری (Responsibility)
  3. جوابدہی (Accountability)

1۔ اتھارٹی (Authority)

اتھارٹی سے مراد کسی کو کام کرنے کا اختیار دینا ہے۔ اس سے مراد تنظیم کی Top midle & lower management یا اول، دوم اور سوم درجہ کی انتظامیہ و قیادت ہے۔ یعنی وہ احباب جن کو کوئی بھی کام دیا جاتا ہے اور وہ اپنے کارکنان سے تنظیم کے مقاصد کے حصول کے لئے کام لیتے ہیں۔

2۔ ذمہ داری (Responsibility)

جب کسی کو کسی کام کا اختیار دیا جاتا ہے تو وہ اس کام کا ذمہ دار بن جاتا ہے۔ جس تنظیم کے ناظم، قائد اور کارکن اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کریں تو یہ رویہ تنظیم کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اختیار / اتھارٹی رکھنا کافی نہیں ہے بلکہ اس اتھارٹی /  اختیار کے بعد ملنے والی ذمہ داری محسوس کرنا بھی ضروری ہے۔

3۔ جوابدہی /  Accountability

جو شخص ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو تفویض کردہ کاموں کا ذمہ دار سمجھے گا تو پھر اُسے تنظیم کے تیسرے ستون جوابدہی /  Accountability کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ جو اختیار اس ناظم، قائد یا کارکن کو دیا گیا اب وہ اس کا جوابدہ ہے کہ تفویض کردہ کام ہوگیا؟ یا نہیں ہوا؟ یا دیر سے ہوا؟ ان تمام باتوں کا وہ جوابدہ ہے۔ اسلام میں جوابدہی کا تصور صرف اپنے نگران تک ہی محدود نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں بھی جوابدہی کا عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔

تنظیمی کلچر اور اس کے اہم عناصر

اسلامی اور مغربی سکالرز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی تنظیم کی ترقی کا انحصار اور بنیاد اس تنظیم کے کلچر پر ہے۔ یہاں کلچر سے مراد ثقافت نہیں بلکہ اس تنظیم کا انتظامی رویہ ہے۔ کسی بھی تنظیم کا کلچر دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوگی یا نہیں؟ تنظیمی کلچر انہی تین ستونوں اختیار /  اتھارٹی، ذمہ داری اور جوابدہی پر قائم ہوتا ہے۔

ایک مغربی مفکر کہتے ہیں کہ کسی بھی تنظیم کی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کا اندازہ اس تنظیم کے طریقہ کار، حکمت عملی، انتظامی ڈھانچے اور کارکنوں کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات سے مت لگایا جائے یہ چیزیں تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے کام ضرور آتی ہیں، کارکنان کا تنظیم پر اعتماد بڑھاتی ہیں لیکن یہ چیزیں تنظیم کی ترقی اور مقاصد کے حصول کی ضمانت نہیں دیتیں بلکہ کسی بھی تنظیم کی ترقی اور کامیابی کا اندازہ اس تنظیم کے کلچر سے لگایا جا سکتا ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تنظیمی کلچر جو اتھارٹی / اختیار /  ذمہ داری اور جوابدہی پر مشتمل ہے، یہ کیسے وجود میں آتا ہے؟ ذیل میں تنظیمی کلچر کے اہم عناصر درج کئے جا رہے ہیں جن کو Improve کر کے کوئی بھی تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کے راستے پر گامزن ہوسکتی ہے۔

1۔ مرکزی قیادت کا رویہ

اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین رہے کہ کسی بھی تنظیم کا کلچر اس کی مرکزی انتظامیہ اور مرکزی قیادت پر منحصر ہوتا ہے اس لئے کہ یہ اس تنظیم کے کلچر کو طاقت فراہم کرتی ہے اور اس کلچر کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ قائم رکھنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مرکزی انتظامیہ اور مرکزی قیادت کا عمل، معمولات اور سیرت جس طرح کی ہوگی پوری تنظیم اور تحریک کے کلچر پر اس کا عکس ہوگا۔ جیسا تنظیم اور تحریک کے مرکز اور اس سے متعلقہ احباب کا کلچر، طریقہ کار اور تشخص ہوگا ویسا ہی کلچر، فیلڈ اور کارکنان میں نظر آئے گا۔

ہم لوگ بعض اوقات اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ مرکزی انتظامیہ و قیادت کا رویہ اور کلچر پوری تنظیم کے کلچر پر اثر انداز ہوتا ہے جو لوگ کسی تحریک اور تنظیم میں اتھارٹی ہیں، بااختیار ہیں، امور کے ذمہ دار اور جوابدہ ہیں ان کا ایک ایک عمل کارکنان کی سوچ، طریقہ کار اور روزمرہ کے معمولات پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ با اختیار اور ذمہ دار لوگوں کا عمل اور طریقہ کار کبھی انفرادی نفع و نقصان کا حامل نہیں ہوتا بلکہ وہ اجتماعی نفع و نقصان کا سبب بنتا ہے۔ اگر تنظیم میں کلچر کی تبدیلی مقصود ہو تو اس کا آغاز High level management کو اپنے رویے سے کرنا پڑتا ہے تاکہ ان کو دیکھ کر کارکنان اپنا کلچر بدل سکیں۔

ہم اوائل زمانے میں مسلمانوں کے عروج سے واقف ہیں اور ہر جگہ اس زمانے کا حوالہ بھی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ مسلمان پوری دنیا کی ہر حوالے سے قیادت کر رہے تھے۔ مگر ہم نے کبھی اس عروج و بلندی کا راز جاننے کی کوشش نہیں کی۔ اس عروج اور کامیابی کا راز مسلمانوں کا کلچر تھا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عطا فرمایا تھا۔ اس کلچر سے مراد اسلامی ثقافت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد انتظامی عمل تھا۔ اس کلچر کا اطلاق اس زمانے میں کیسے کیا جاتا تھا اس کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان نبوت کے بعد سب سے پہلے کفار مکہ کو توحید کا درس دیا۔ توحید ہمارے لئے عقیدہ و ایمان کا معاملہ ہے مگر اس درس توحید کے اندر انتظامی پہلو بھی مضمر ہے۔ توحید ایمان کے ساتھ ساتھ انتظامی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے بھی اشد ضروری ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں توحید کی Natural outcome کی طرف غور کرنا ہوگا۔

جب ہم اللہ کو ایک مانتے ہوئے اسی پر توکل کرتے اور اپنے ہر حال و عمل کو اللہ کے سامنے ظاہر تسلیم کرتے ہیں تو یہ توحید خود بخود زندگی کے کسی بھی شعبہ کے انتظامی نظام میں بہتری کا باعث بن جاتی ہے۔ توحید کی Natural outcome غلامی سے نجات اور آزادی ہے یعنی دنیا کی ہر شے کی غلامی کو ترک کر کے اللہ رب العزت کی غلامی و بندگی اختیار کر لی جائے، صرف اسی پر توکل کیا جائے اور دنیا کے تمام وسائل سے امید ختم کرتے ہوئے صرف اللہ رب العزت سے امید کا رشتہ قائم کر لیا جائے۔

جب کوئی شخص کسی تنظیمی ڈھانچہ کا حصہ بنتا ہے اور اسے اللہ رب العزت کی توحید پر کامل یقین ہے اور اسی توحید کی وجہ سے وہ نظریاتی غلامی سے نجات حاصل کر چکا ہے تو پھر اسے دنیا کے کسی مفاد اور فائدے کی فکر نہیں رہتی۔ وہ انتظامی نظریہ سے جو کام بھی کرے گا اس کا ہر عمل اس کو یہ بات یاد دلاتا رہے گا کہ اس کا عمل اللہ رب العزت کی نگاہ میں ہے۔ جب اس نے دنیا سے ہر قسم کی امید ختم کر لی تو پھر وہ کسی سے کوئی مفاد نہیں رکھتا۔ اس بات کو وہ ذہن میں بٹھا لیتا ہے کہ رزق کا تعین اللہ رب العزت نے کر دیا ہے۔ ارشاد فرمایا :

وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الأَرْضِ إِلاَّ عَلَى اللّهِ رِزْقُهَا.

(هُوْد ، 11 : 6)

’’اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمہ کرم) پر ہے‘‘۔

لہذا اگر وہ اس تنظیم میں رہا رزق پھر بھی ملے گا اور اگر نکالا گیا تب بھی ملے گا پھر خوف و خطرہ کس بات کا۔ یہ سوچ اس کی انتظامی سرگرمیوں اور کارکردگی کو بڑھا دیتی ہے۔ وہ مشن اور تنظیم کے وسیع تر مفاد کو دیکھتے ہوئے بلاخوف وخطر، امانت و دیانت اور حق گوئی کے ساتھ مشن کی خدمت جاری رکھتا ہے۔

اوائل زمانے میں مسلمانوں کی ترقی کا راز یہ تھا کہ انہوں نے اس کلچر کو اپنی زبانوں تک محدود نہ رکھا بلکہ اپنی زندگی کا حصہ بنایا تھا۔ ہم نے حقیقی طور پر عقیدہ توحید کو اپنی زندگی میں راسخ ہی نہیں کیا۔ اگر انسان صرف توحید پر ہی کامل ایمان لے آئے تو اس سے بہتر انسان اور سچا مسلمان دنیا میں کوئی نہ ہوگا۔ اس عقیدہ توحید پر ایمان لاتے ہوئے ہر غلامی سے آزادی اور صرف اللہ پر امید و توکل کا دامن تھام لیا جائے تو پھر کوئی مشکل باقی نہیں رہتی اور نہ کوئی مسئلہ ناقابل حل رہتا ہے۔ انسان، اللہ رب العزت کو اپنی نگاہوں میں رکھ کر اپنے ایمان و ضمیر کے مطابق بغیر کسی خطرہ اور مفادات کے پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی دوران کسی بھی قسم کی غلط چیز کو فوراً روکتا ہے، اجتناب کرتا ہے اور حق کا ساتھ دیتے ہوئے ہر کام کو بہتر سے بہتر انداز میں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی تصور توحید کے تناظر میں وہ اپنے اعمال پر ہر لمحے اللہ کی نظر ہونے کے عقیدہ کے پیش نظر اپنے معاملات و ذمہ داریوں کو بروقت سرانجام نہ دینے اور سستی و غفلت سے بھی اجتناب کرتا ہے۔ اس طرح کے رویے کلچر کہلاتے ہیں، انہی رویوں کو اپنے اندر پیدا کیا جائے تو عروج و بلندی نصیب ہوتی ہے۔

2۔ ذمہ داری و جوابدہی

تنظیمی کلچر کا دوسرا عنصر ذمہ داری و جوابدہی ہے۔ جب کسی شخص کو کوئی ذمہ داری سونپی جاتی ہے اور اسے اس کام کے لئے بااختیار بنایا جاتا ہے تو عموماً یہ رویہ اور کلچر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر وہ کام اچھے طریقے سے ہو جائے تو اس کا سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کرتا ہے اور اگر وہ کام نہ ہوسکا یا تاخیر کا شکار ہوگیا تو اس کی تمام ذمہ داری اپنے ماتحت افراد پر ڈال دیتا ہے۔ جب کلیدی ذمہ داریوں پر فائز احباب ایسا عمل کریں گے تو لامحالہ کارکنان بھی ایسا عمل کریں گے۔ ناکامی کی صورت میں کوئی بھی کسی کام کا ذمہ دار بننے کو تیار نہیں ہوتا۔ اس کلچر کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ جس کو جس بھی سطح پر کوئی بھی ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے اور اس معاملہ کی تکمیل کے لئے بااختیار بنایا جاتا ہے تو ہر شخص کو جو کسی بھی سطح پر اس معاملہ سے متعلق ہے اس کی ناکامی کی ذمہ داری بھی لینا ہوگی۔ جب کوئی شخص ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرے گا تو اس سے اس میں قصور وار ہونے کا خیال پیدا ہوگا کہ اس کام میں ناکامی میری وجہ سے ہے لہذا قصور وار ہونے کا یہ خیال اسے اپنے محاسبہ کی طرف لے جائے گا اور جب Top Management محاسبہ کے اس کلچر کو اپنے اندر پیدا کرے گی تو کارکنان بھی اپنے محاسبہ کی طرف متوجہ ہوں گے کہ قائدین و ناظمین اپنی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں اور اپنا محاسبہ کر رہے ہیں تو وہ بھی ذمہ داری قبول کرنے اور غلطی کا اقرار کرتے ہوئے اپنا محاسبہ کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کریں گے۔

جب کوئی ذمہ دار اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو جوابدہ بناتا ہے تو غلطی کا اقرار اور احساس کرنے کے بعد ہی اس غلطی سے سبق سیکھنے کے عمل کا آغاز ہوگا کیونکہ اگر غلطی کا اقرار ہی نہیں کیا اور نہ ہی اپنی کسی غلطی کو تسلیم کیا تو اس غلطی سے سبق سیکھنا کس طرح ممکن ہوگا۔ نتیجتاً وہ خود بھی وہاں کھڑا رہا اور جس تنظیم کا وہ حصہ ہے وہ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔ جب ناظمین سے لے کر کارکنان تک ہر شخص جو جس بھی حیثیت میں ہے اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائے گا تو پھر آئندہ ان غلطیوں کا اعادہ نہ ہوگا اور مقاصد حاصل ہوتے چلے جائیں گے۔

3۔ اعتماد

تنظیمی کلچر کا تیسرا اہم عنصر ’’اعتماد‘‘ ہے۔ اس ’’اعتماد‘‘ کی کئی سطحیں ہیں :

  1. ناظمین و قائدین کا باہمی اعتماد
  2. ناظمین اور کارکنان کے مابین اعتماد
  3. کارکنان کا باہمی اعتماد

جہاں اعتماد کھو جائے وہاں کام رک جاتے ہیں جب آپس میں اعتماد ہی نہ ہو، شک موجود ہو اور کسی کے کام کو صرف اس نگاہ سے دیکھنا کہ یہ بدنیتی سے کر رہا ہے، اس سوچ کے ساتھ تنظیمات آگے نہیں چلا کرتیں۔ باہمی اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ایک شخص دوسرے کے کام پر شک کر رہا ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اس کے کام پر شک کر رہا ہو۔ اس صورت حال میں ان مقاصد، قیادت پر اعتماد، سمت، کارکردگی کا کیا بنا جس کے لئے تنظیم سے وابستہ ہوئے تھے۔

پس ہر سطح پر اعتماد کا کلچر اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے گروپ بندی، لابنگ اور اپنے آپ کو برتر و فائق تصور کرنے کے رجحان کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس کلچر کا آغاز Top Management سے کرنا ہوگا کیونکہ ان ہی کا کلچر Lower Management کا کلچر بنتا ہے۔ قرآن پاک بھی ہمیں اس حوالے سے رہنمائی فرماتا ہے :

يٰاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ.

(الحجرات : 12)

’’اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے)‘‘۔

پس بدگمان ہونا چھوڑ دیں اور باہمی اعتماد کا لیول بڑھائیں۔

4۔ کفایت شعاری

تنظیمی کلچر کا چوتھا اہم عنصر Cost Efficiency کفایت شعاری ہے۔ آج کے دور میں دنیا بھر کی تنظیمات کفایت شعاری کی طرف جا رہی ہیں کہ کم سے کم وسائل کا استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ مقاصد حاصل کئے جائیں۔ آج کے دور میں مادی وسائل محفوظ کرنے سے کسی بھی تنظیم کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی ہمیں کفایت شعاری ہی کا درس دیتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ارشاد فرماتے ہیں کہ بے شک تمہارے پاس دریا ہی کیوں نہ موجود ہو مگر پھر بھی پانی کم سے کم اور ضرورت کے مطابق استعمال کرو۔ یعنی آسائشات سے اجتناب کا درس دیا۔ دریا میں پانی کی کمی نہیں مگر اس کے باوجود جتنی ضرورت ہے اتنا ہی استعمال کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ عمومی زندگی میں ہمارا طرز عمل اس کے برعکس ہے جب کسی تنظیم کا دائرہ کار بڑھتا چلا جاتا ہے تو ہماری سوچ یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ ضروریات، بجٹ، تقاضے بڑھ گئے ہیں لہذا لامحالہ Management، لیڈرز اور کارکنان پرآسائش سہولیات کی طرف بڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ تنظیم نے ابھی طویل سفر طے کرنا ہے، اپنے مقاصد کو حاصل کرنا ہے اگر ابھی سے اس آسائشی نظام کے اندر زیادہ سے زیادہ خرچ بڑھانے کی طرف توجہ ہوجائے تو پھر اصل مقاصد کیسے حاصل ہوں گے۔ بے شک تنظیم کے وسائل ہوں مگر اس کے باوجود کفایت شعاری کا کلچر پیدا کرنا ہوگا۔ جس کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راہنمائی فرمائی کہ دریا کا زیادہ پانی بھی تمہیں حد سے زیادہ پانی خرچ کرنے کی طرف مائل نہ کرے۔

لہذا وسائل کو صرف ضرورت کے مطابق خرچ کیا جائے اور بقیہ وسائل کو قوم اور کارکنان کی امانت سمجھتے ہوئے اس کے محافظ بنیں۔ حد سے زیادہ خرچ کرنے اور کفایت شعاری کا دامن چھوڑنے سے اللہ کی پکڑ اور گرفت کا خیال ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے۔ جس چیز سے کام چل سکتا ہے اس سے کام چلانے کی سوچ اور عمل پیدا ہو تاکہ اس کفایت شعاری کے ذریعے تنظیم کی کارکردگی کو دوام دیا جا سکے۔ تنظیم کے معاملات کو اپنے گھر کے معاملات کی طرح اپنا سمجھ کر نہایت سمجھ بوجھ، حکمت عملی اور کفایت شعاری کے ساتھ چلانا چاہئے۔ جس طرح گھر میں کھانے پینے، بجلی کے استعمال اور دیگر لوازمات کے لئے حد درجہ احتیاط برتی جاتی ہے اسی طرح تنظیم کے معاملات کو بھی چلانا چاہئے۔ اس لئے کہ تنظیم کے مقاصد کے حصول کے لئے وسائل اللہ کی مخلوق دیتی ہے لہذا بااختیار احباب اس ضمن میں اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہیں کہ آیا وسائل درست جگہ پر کفایت شعاری کی سوچ کے ساتھ خرچ کئے یا مالِ مفت سمجھ کر بے دریغ خرچ کیا گیا۔

یاد رکھیں کہ دنیا میں آج اس سوچ کو اپنایا جا رہا ہے کہ تنظیم کو Cost Efficient کرنا ہوگا تاکہ ترقی کی طرف گامزن رہا جا سکے۔ آج معاشرے میں ہم اس حوالے سے ایک اور مغالطے کا شکار ہیں کہ کام ہونا چاہئے خواہ کسی بھی قیمت پر ہو۔ تنظیمی ڈھانچہ کی جدید سوچ یہ ہرگز نہیں ہے کہ ’’کام ہونا چاہئے‘‘ بلکہ جدید طریقہ کار اور سوچ یہ ہے کہ ’’کام Efficiently ہونا چاہئے‘‘۔ اس کے اندر 2 چیزیں شامل ہیں :

  1. رفتار
  2. کفایت شعاری

یعنی کم خرچ میں اچھا کام ہونا چاہئے۔ ہم بعض اوقات اس طرف توجہ دیتے ہیں کہ جلد کام ہونا چاہئے خواہ پیسہ جتنا بھی لگے۔ یہ ماڈرن اور ترقی کرنے والی تنظیمات کی سوچ نہیں ہوا کرتی۔ پس ہمیں Cost Efficiency کو تنظیمی کلچر میں پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہر ذمہ دار کی اس بات پر حوصلہ افزائی کی جائے کہ اس نے کم سے کم وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کام کیا نہ کہ اس بات پر حوصلہ افزائی کی جائے کہ اس نے کام کو جلد پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ حوصلہ افزائی کا معیار ’’کم خرچ میں اچھا کام‘‘ ہونا چاہئے اس لئے کہ ذمہ داران کو اللہ کی بارگاہ سے جو اختیار ملتا ہے وہ اس امانت کے امین ہوتے ہیں اور وہ اس حوالے سے اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہیں۔

6۔ وقت کا درست استعمال

وقت کے ضیاع سے اجتناب تنظیمی کلچر کا اہم عنصر ہے۔ مغرب میں Time Mean Money ہے جبکہ اسلام میں Time Mean life ہے کیونکہ جو وقت بیت گیا اس نے واپس نہیں آنا، وہ ایک زندگی تھی جو چلی گئی۔ ’’وقت‘‘ کا بھی ہم نے اللہ کی بارگاہ میں جواب دینا ہے۔ تنظیمی ڈھانچہ میں اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے باقاعدگی سے اور بروقت آئیں۔ یہ کلچر بھی اعلیٰ ذمہ داریوں پر فائز احباب کو اپنے سے شروع کرنا ہوگا اور پھر کارکنان اور ماتحت افراد بھی وقت کی پابندی کو اپنائیں گے وگرنہ وہ اپنے سینئرز میں وقت کی پابندی کا خیال نہ رکھنے اور وقت کے ضیاع کو دیکھتے ہوئے خود بھی انہی کے رنگ میں رنگے جائیں گے۔

7۔ خیال رکھیں اور ہاتھ بٹائیں

تنظیمی کلچر کا ایک اور اہم عنصر Caring & Sharing ہے۔ ہمارے ہاں اس عنصر کی بہت کمی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ

1۔ جو شخص کسی رہنمائی کے لئے یا کام کے لئے آپ کے پاس آتا ہے تو اس کی بات مکمل توجہ سے سنتے ہوئے اس کی رہنمائی کی جائے۔ بالفرض اس کا کام آپ کے متعلقہ نہیں بھی ہے تب بھی اس کو متعلقہ فرد / دفتر تک خوش اسلوبی و خوش اخلاقی سے پہنچائیں۔

2۔ اعلیٰ ذمہ داریوں پر فائز احباب اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی رہنمائی و مدد کریں کیونکہ یہ اس شخص کی مدد و رہنمائی نہیں بلکہ تنظیم کی مدد ہے اس لئے کہ وہ بھی تنظیم ہی کے لئے کام کر رہا ہے۔

3۔ اگر تنظیم میں موجود کسی دوسرے شخص سے ذہنی اختلاف بھی ہو تب بھی اس کے ساتھ تنظیمی امور میں مکمل معاونت کی جائے، اس کو حکام بالا کی نگاہوں میں گرانے کے لئے اس کے کام میں خوامخواہ کی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ اس لئے کہ تنظیمی ڈھانچہ میں آ جانے کے بعد اب دونوں ایک ہی گھر کے افراد ہیں۔ کسی ایک کے کام میں تعاون نہ کرنا یا کام میں رکاوٹ ڈالنا اپنے ہی گھر کے معاملات کو خراب کرنے اور اس گھر کی بنیادیں تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ پس اپنی ذاتی لڑائی میں تنظیم کا نقصان نہ ہو۔ پس Caring & Sharing کو کلچر کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم ان عناصر کو اپنے تنظیمی کلچر کا حصہ بنا لیں تو مجھے امید ہے کہ تحریک منہاج القرآن جہاں احیائے اسلام، تجدید دین کے لئے اور دعوت و تربیت میں نمایاں کام سرانجام دے رہی ہے وہاں وہ تحریکی و تنظیمی امور سرانجام دینے کے لئے انتظامی ڈھانچہ اور طریقہ کار رکھنے میں بھی بے مثال ہو جائے گی۔