توہین آمیز فلم بنانے والے امن اور انسانیت کے دشمن ہیں

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

تاجدارِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف گستاخانہ فلم کا بنایا جانا صرف ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کا ہی اِقدام نہیں بلکہ پوری دنیا کا سکون اور اَمن عالم کو تباہ کرنے کی گھناؤنی سازش ہے۔ دنیا کے تینوں اِلہامی مذاہب - اِسلام، مسیحیت اور یہودیت - کا انحصار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ذوات مقدسہ پر ہے اور بائبل اور قرآن دونوں ایسے اقدامات کی نہ صرف مذمت کرتے ہیں بلکہ اسے انسانی کائنات کا سب سے بڑا جرم قرار دیتے ہیں۔ ایسا کرنے والے انسانیت کے دشمن دہشت گرد ہیں۔ آزادی رائے کی چھتری تلے ایسے گھناؤنے جرائم کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ انبیاء کرام علیہم السلام، مقدس ہستیوں اور مذاہب کا احترام عالمی ضابطہ ہے جسے یقینی بنانا ہر ملک کی ذمہ داری ہے۔ کسی فرد، ادارے یا ملک کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اربوں انسانوں کی دل آزاری کا باعث بنے۔

مغربی دنیا انتہا پسندی کے خاتمے میں مخلص ہے اُسے ایسے اقدامات کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر پہلے سے موجود قوانین پر عمل درآمد کرانا ہی دنیا میں شدت پسندی کے رجحان میں کمی لا سکتا ہے۔ ایسی فلمیں اور مواد ریلیز اور شائع کرنے کے حوالے سے مزید سخت قوانین بنانے کی بھی شدید ضرورت ہے تا کہ اظہار رائے کے نام پر ایسے مذموم اقدامات کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو سکے۔

انبیاء کرام علیہم السلام اور مقدس آسمانی کتب کی توہین صرف دین اسلام میں ممنوع نہیں ہے بلکہ سب سے پہلے اس کی ممانعت اور مذمت بائبل میں آئی ہے :

  • عہدنامہ قدیم میں کتاب Leviticus کے باب نمبر 24 کی آیت نمبر 13 تا 16 اور 23 میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام کی توہین کی سزا categorically موت ہے یعنی گستاخی کی سزا بائبل میں punishment capital بیان کی گئی ہے اور موسی علیہ السلام نے گستاخوں کو stoning کروائی تھی۔
  • کتاب 2 Samuel کے باب نمبر 12 کی آیت نمبر 14 میں بھی گستاخی کی سزا کا ذکر ہے۔
  • اسی طرح عہد نامہ جدید کی کتاب Matthew کے باب نمبر 12 کی آیت نمبر 32،
  • Mark کے باب نمبر 3 کی آیت نمبر 29 اور
  • کتاب Luke کے باب نمبر 12 کی آیت نمبر 10 میں بھی توہین کی سزاؤں کا ذکر ہے۔

افسوس آج ٹی وی چینلز اس جرم کی سنگینی اور اس کے گھناؤنے پن پر گفتگو کے بجائے اس بات پر الجھے ہوئے ہیں کہ غم و غصہ کا اظہار کیسے کیا جائے؟ عالم اسلام کے میڈیا کا یہ فرض ہے کہ وہ مغرب کے دانش وروں کو یہ باور کروائے کہ

1۔ یہ تمام اِلہامی مذاہب کا مشترکہ مسئلہ ہے اور تمام اَدیانِ اِبراہیمی کا ایک ہی اْصول ہے جسے بائبل میں بیان کیا گیا ہے۔ اور یہی قرآن کا موقف بھی ہے۔

2۔ اس طرح کے اقدامات کرنے والے اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیتے ہیں۔ ان کے ہاں توہین رسالت پر سزا کا قانون ہی نہیں ہے، اس تناظر میں ہمارا ان سے یہ مطالبہ ہو سکتا ہے کہ اگر قانون نہیں تو کم سے کم اس بات کو تو ملحوظ رکھا جائے کہ اس سے دنیا میں تشدد پیدا ہوا یا نہیں؟ کم از کم دنیا کے امن ہی کی خاطر اس طرح کے اقدامات کو جرم قرار دیتے ہوئے سزا کا تعین کیا جائے۔

3۔ افغانستان میں مہاتما بدھ کے مجسمہ توڑنے پر ہماری طرف سے بھی اور عالم اسلام کی طرف سے بھی بھرپور مذمت کی گئی تھی مگر اس کے باوجود عالمی طاقتیں سراپا احتجاج بن گئی تھیں، اگر مجسمہ توڑنے کے عمل کو دہشت گردی و انتہا پسندی کی طرف لے جانے والا عمل تصور کرتے ہوئے وہ سراپا احتجاج تھے تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اتنی توہین آمیز فلم بنانے والوں کے اس عمل کو بھی دہشت گردی و انتہا پسندی کی طرف لے جانے والا عمل تسلیم کرتے ہوئے قابل سزا قرار دیا جائے۔

4۔ مغربی دنیا سے توہین رسالت کے قانون کی شکل میں بات نہ کی جائے کیونکہ ان کے ہاں تو یہ قانون موجود ہی نہیں ہے بلکہ ُان سے اُن کی زبان میں بات کی جائے۔ امریکہ کے آئین کی آٹھویں ترمیم کے الفاظ ہیں کہ ’’ایسی سزا کسی جرم میں نہیں دی جائے گی جو انسانی تقدس اور وقار کے خلاف ہو۔‘‘ اگر امریکہ کا آئین ایک عام انسان کی عظمت اور عزت کے خلاف سزا کی اجازت نہیں دیتا تو سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب انسانوں کی عظمت و وقار جس بات سے مجروح ہوں، اس کو وہ کس طرح گوارا کرتے ہیں؟

پوری دنیا کے آئین اور قوانین تسلیم کرتے ہیں کہ کوئی بھی توہین عدالت، توہین پارلیمنٹ اور توہین آئین نہیں کر سکتا۔ اس کے لئے باقاعدہ سزائیں مقرر ہیں۔ یہاں تک کہ آسٹریا، فن لینڈ، جرمنی، نیدر لینڈ، سپین، آئرلینڈ، کینیڈا اور نیوزی لینڈ میں مذہب اور مذہبی رہنماؤں کی توہین اور تنقیص کو قانوناً ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ مغربی جمہوری دنیا اپنے آئینوں میں یہ بات تسلیم کرتی ہے۔

پس جب مغربی دنیا کے تمام جمہوری ممالک اپنے constitutions میں یہ تسلیم کرتے ہیں تو اْمتِ مسلمہ کا آئینی و جمہوری اور انسانی حق ہے (جسے اقوام متحدہ کے Charter of Human Rights میں بھی تسلیم کیا گیا ہے) کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین پر احتجاج کریں اور اپنا غم و غصہ ریکارڈ کرائیں اور اقوام عالم کو یہ باور کرائیں کہ یہ اِقدام صریحاً دہشت گردی کو support کرنے کے مترادف ہے۔ اس سے درحقیقت دہشت گردوں کے ہاتھ مضبوط ہو رہے ہیں۔ ایسی گستاخانہ فلمیں بنا کر پُراَمن اِنسانیت اور پُرامن اْمت مسلمہ کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اِس طرح کے اقدام آئندہ نسل کے لیے بھی ایک بھیانک مثال بنیں گے۔ امریکہ جیسے ذمہ دار ملک جہاں یہ سب ہوا کی طرف سے صرف ایک آدھ جملہ کہہ دینا کافی نہیں بلکہ اس شرانگیزی کے پیچھے کار فرما تمام عوامل سے اسے disconnect ہونا چاہیے کیونکہ اس سے عالمی اَمن کو خطرہ لاحق ہے۔

اس فلم کے پروموٹر، ڈسٹری بیوٹر، سپورٹر اور تمام ذمہ داران کو terrorism اور promotion of global terrorism کے جرم میں گرفتار کیا جانا چاہیے۔ امریکہ نے 1992ء سے لے کر 2011ء تک national security کے ایشو پر 744 افراد کو ڈی پورٹ کیا ہے، دہشت گردی کے ایشو پر 125 افراد کو اپنے ملک سے نکالا ہے اور ان کی nationality ختم کی ہے۔ یہ مسئلہ پوری دنیا کی national security کا مسئلہ ہے کیونکہ امن عالم تباہ ہو رہا ہے۔ مذاہب اور اقوام کے مابین نفرتیں فروغ پا رہی ہیں۔ اس بنیاد پر امریکہ کو چاہیے کہ اِس فلم کے ذمہ داران کی nationality ختم کرے اور terrorism کو فروغ دینے کے جرم میں انہیں ڈی پورٹ کر کے ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجے جہاں اُس ملک کے قانون کے مطابق ان افراد پر مقدمہ چلایا جائے۔

اِس وقت اِس حوالے سے بین الاقوامی قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستانی حکومت اور دیگر مسلمان حکومتیں مؤثر اقدام نہیں کریں گی، ان شرانگیز اقدامات کو آئندہ رکوانے کے لئے مؤثر قانون سازی اور چند بنیادی اصولوں کی تعریفِ نو نہیں کروائیں گی اور ان اقدامات کو قابلِ سزا نہیں بنوائیں گی تو محض تلقین کے ذریعے عامۃ الناس کو پرتشدد احتجاج سے نہیں روک سکتے، لیکن پرتشدد احتجاج بھی کوئی مستحسن اِقدام نہیں ہے۔

اَمن عالم کو تباہ کرنے کی اِس گھناؤنی سازش کے خلاف مسلمانوں کو اپنے دین و مذہب اور حضور نبی اکرم علیہ السلام کی ناموس کے تحفظ کے لیے پْراَمن احتجاج کرنا چاہیے۔ اس کے ردّ عمل میں گھیراؤ، جلاؤ اور قتل و غارت گری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ Violence اچھا عمل نہیں ہے۔ دہشت گردی کا جواب دہشت گردی نہیں۔ صرف پُراَمن احتجاج کریں کیونکہ پُراَمن احتجاج ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔

عالم اِسلام کے مسلمانوں کی نمائندہ مسلمان حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ اَقوامِ متحدہ میں جائیں۔ اَقوامِ متحدہ کے چارٹر میں آرٹیکل نمبر 1 کی شق نمبر 3 میں درج ہے کہ تمام انسانی حقوق کی عزت و تکریم ہوگی اور بنیادی آزادی کی تکریم ہوگی جس میں کوئی مذہبی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ لیکن آرٹیکل نمبر 1 کی تیسری شق مبہم ہے۔ لہٰذا OIC کی جانب سے اَقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرار داد پیش کی جائے کہ اِس شق میں اِحترامِ مذہب بھی واضح انداز میں شامل کیا جائے۔ نیز یہ بھی واضح کیا جائے کہ ایسے گستاخانہ اقدامات کسی بھی لحاظ سے freedom of speech یا freedom of expression کے زُمرے میں ہرگز نہیں آتے۔ لہٰذا جب تک ان شرانگیز اقدامات کو روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی نہیں کی جائے گی اور redefining of basic principles کا عمل نہیں ہوگا اُس وقت تک دہشت گردی کا قلع قمع اور پائیدار اَمنِ عالم کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔