پاکستان میں تبدیلی کیوں ضروری ہے؟

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

پاکستان کی اساس

انبیائے کرام مذہب اور سیاست دونوں کے مصلح بن کر آتے رہے اور انفرادی بگاڑ سے لے کر معاشرتی بگاڑ کو درست کرتے رہے۔ اس سلسلے کی آخری کڑی محسن انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے جو ایک خوبصورت نظام مذہب و سیاست لے کر مبعوث فرمائے گئے۔ خالق کائنات نے آپ کو انسان اور معاشرے کی دنیوی اور اخروی ضرورتوں کی تکمیل کا ابدی حتمی اور غیر متغیر دستور قرآن کی صورت میں عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا جس پر خود عمل نہ فرمایا ہو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاست کو بھی نئے اسلوب اور اصول دیئے اور ان پر عمل بھی کرکے دکھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دنیا کو جس انقلاب سے نوازا وہ بیک وقت روحانی اور سیاسی انقلاب تھا۔ یعنی اس میں انسان کی باطنی اصلاح سے لے کر معاشرے اور ریاست کی اصلاح مضمر ہے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس معاشرے میں غلاموں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے حقوق کی آواز بلند فرمائی جہاں ان طبقات سے بے رحمانہ سلوک روزمرہ کا معمول تھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست قائم کرکے جن حالات میں ایک فلاحی مملکت کا تصور اجاگر کیا، ان حالات میں قیصر و کسریٰ کے استبداد کا سکہ رائج الوقت تھا۔ اسی طرح پہلی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مطلق العنان بادشاہت سے انسان کو نجات دلائی اور ایک شورائی نظام حکومت و ریاست کی بنیاد رکھی۔ حکمران کو عوام کے سامنے جواب دہی کا پابند بنایا جس کی مثالیں خلفائے راشدین نے عملاً پیش کیں۔ اسی طرح حاکم کو رعایا کا خادم بنادیا جس کا تصور بھی اس سے قبل محال تھا۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیاست کو خدمت خلق میں تبدیل کردیا اور اس کے بہترین نمونے ابوبکر وعمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم نے پیش کئے اور اسلامی معاشرہ کئی صدیوں تک مساوات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نمونہ پیش کرتا رہا۔

اسلامیان ہند نے برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لئے جو طویل اور صبر آزما جدوجہد کی اس کا مقصد بھی ریاست مدینہ کی طرح ایک آزاد، خودمختار اسلامی ریاست کا قیام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ لاکھوں لوگوں نے اس کے لئے جان و مال اور عزت آبرو کی قربانیاں دیں۔ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی باکردار قیادت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم اسلامی مملکت عطا فرمائی۔

شومئی قسمت کہ پاکستان کے بانی قائدین کی آنکھیں بند ہونے کی دیر تھی کہ طالع آزما حکمرانوں کا ایک طبقہ اس پر مسلط ہوگیا جس نے اس خداداد مملکت کو حرص و ہوس کا دستر خوان بنادیا۔

بدترین جمہوری تماشا

ہمارے ہاں کہنے کو توجمہوریت ہے اور ہم حکمرانوں پر تنقید بھی کرسکتے ہیں مگر بے اصولی، ہوس پرستی، لالچ اور خودغرضی کی انتہاء ہوگئی ہے۔ ہمارے سیاستدان عام آدمی کے اخلاقی معیار سے بھی گرچکے ہیں۔ سیاسی وابستگیاں اور وفاداریاں تبدیل کرلینا تو اب معمول کی بات بن چکی ہے۔ ہماری قوم معصوم اور ناسمجھ ہے۔ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے ان لوگوں کو ملکی سلامتی کی ذمہ داری پر براجمان کردیتے ہیں جو عام شخص کی دیانتداری اور اصول پسندی سے بھی عاری ہوتے ہیں۔ کجا یہ کہ ہم شاندار قرآنی اور نبوی تعلیمات کو اپنے سامنے رکھ کر قیادت کا انتخاب کرے تاکہ اس نظریاتی مملکت کے اعلیٰ مقاصد کا حصول ممکن ہوتا۔ ہم نے جمہوریت اور آمریت کا کھیل شروع کردیا۔ تعلیم، اہلیت اور شعور کے بغیر ہم محض انتخابات کے عمل کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔ شعور مقصدیت کے بغیر کوئی کام بھی نتائج نہیں دے سکتا۔ لہذا ہم بھی مقاصد کے تعین کے بغیر جمہوری تماشے کا حصہ بنتے چلے آرہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مخصوص خاندان جماعتوں کا نام بدل بدل کر ملک لوٹنے کے لئے منتخب ہوکر قانون ساز اداروں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ملک دن بدن کمزور ہوتا گیا مگر یہ کرپٹ قیادتیں ملک اور بیرون ملک میں اپنے اثاثے بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان حکمرانوں کی بزدلی عاقبت نااندیشی اور کرپشن کو دیکھتے ہوئے ملک دشمن استعماری قوتوں نے سازشوں کا جال بچھادیا اور وطن عزیز کا چپہ چپہ غیر ملکی ایجنسیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ فاٹا سے بلوچستان اور کراچی سے سوات تک ہر روز بے گناہ لوگ موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ خصوصاً ان حالات میں تو ہمیں عقل و خرد سے کام ضرور لینا چاہئے جب ملک کی سلامتی انہی جھوٹے کرپٹ اور بددیانت حکمرانوں کے ہاتھوں رسک پر ہے۔

ہم کب بیدار ہوں گے؟

پاکستان کی موجودہ مایوس کن سیاسی، معاشی اور متصادم مذہبی صورت حال کو دیکھتے ہوئے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر ہمارے ہاں وہ کونسی رکاوٹیں ہیں جو اس ملک کی خوشحالی کے راستے میں رکاوٹ ہیں؟

ہر قوم میں اچھے برے لوگ ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ پاکستان کے خمیر میں جانثاری، قربانی اور دین پروری کی خصوصیات موجود ہیں مگر ان خوبیوں کے حامل افراد دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ دھڑے سیاسی بھی ہیں اور مذہبی بھی۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں محب وطن اور اہل اخلاص لوگوں کی کمی نہیں لیکن ان جماعتوں کے مجموعی نتائج پاکستان کو اس لئے خوشحالی نہیں دے سکتے کہ مقتدر لوگوں کی اکثریت خود پسندی اور ہوس اقتدار اور حب جاہ سے لتھڑی ہوئی ہے۔ خدمت اور ترقی کے لئے اقتدار میں آنا اور بات ہے جبکہ لوٹ مار اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے کے لئے اقتدار سنبھالنا بالکل دوسری بات ہے۔ ان دونوں خواہشات کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔

ہم نے بطور قوم، برصغیر میں اسلامی تشخص قائم کرنے کے لئے بے مثال قربانیاں دیں۔ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت سے گزرے، لاکھوں کلمہ گو معصوم لوگوں نے اپنے خون سے شہادتوں کی فصل بوکر پاکستان کا خطہ حاصل کیا مگر وہ نظریہ، وہ نعرہ، وہ جذبہ اور وہ خواب پس پشت ڈال دیئے گئے۔ شہیدوں کے خون سے غداری کے مرتکب ہوچکے ہیں حتی کہ ہم نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کئے ہوئے وعدے بھی بھلادیئے۔ پاکستان کو ہم نے خود توڑا اور بقیہ خطہ زمین کو اسلام کی دھرتی بنانے کی بجائے ہم نے استعماری طاقتوں کا میدان جنگ بنالیا۔ آج ہر صوبہ کئی کئی حصوں میں بٹنے کے لئے تو تیار ہے مگر قوم متحد نہیں ہوسکی۔ ملٹری رجیم اور سیاسی شعبدے بازوں نے عوام کو اپنے مسائل میں اس طرح الجھادیا ہے کہ حصول پاکستان کے مقاصد ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

پاکستان کی غریب عوام پر بیرونی قرضوں کا بوجھ کئی گنا ہوچکا ہے۔ قومی اداروں کو تباہ کردیا گیا ہے اور ملک تاریکیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس تباہی کے بڑے ذمہ دار اب پھر اگلی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ نئے سرے سے قوم کو بے وقوف بنانے کے لئے نئے نعرے گھڑ رہے ہیں۔ تو کیا ہم اس مرتبہ پھر ان سیاسی بازی گروں کے ہاتھوں کھلونا بننے کے لئے تیار ہیں؟ کیا یہ سب کچھ اب بھی ہمیں احساس دلانے میں ناکام رہا ہے۔۔۔؟ اگر ایسا ہے تو سوچنا پڑے گا کہ ہم بحیثیت قوم کب بیدار ہوں گے۔۔۔؟

پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے عوام لمحہ بہ لمحہ غربت اور بے روزگاری کی سونامی میں غرق ہو رہے ہیں لیکن اتنے ظلم ستم نا انصافیاں اور تلخیاں بھی اس قوم کو کسی واضح اور مثبت تبدیلی کی طرف متوجہ نہیں کر پارہیں تو مقام تعجب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو اس قوم میں صبر بہت زیادہ ہے کہ ہر ستم کو وہ آخری ستم سمجھ کر سہہ رہے ہیں لیکن خود کشیوں کی روز افزوں تعداد صبر و تحمل کی علامت تو نہیں۔ البتہ ہم بطور قوم بے شعور، بے جہت اور بے ضمیر ہوچکے ہیں، شاید ہمارے اندر باقی اقوام کی طرح کا احساس زیاں موجود نہیں ورنہ اس نام نہاد جمہوریت کے ہاتھوں جس قدر مسائل جنم لے چکے ہیں اور ان مسائل نے ہماری انفرادی اور قومی زندگی کو جتنا مشکل بنا دیا ہے یہ حالات کسی بھی قوم کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہوتے ہیں اور ہر قوم ان سے گلو خلاصی کے لئے مناسب جدوجہد کرتی ہے۔

اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہم اپنے مذہب کے ساتھ، اپنے ملک کے ساتھ اپنی آئندہ نسل کے ساتھ حتیٰ کہ اپنے رب کریم کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہیں اور اسی کو منافقت کہتے ہیں۔ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ یہ منافقت کفر کے قریب بلکہ بعض اوقات اس سے بدتر ہوجاتی ہے۔

دیہی علاقوں کا المیہ

وطن عزیز کے دیہی علاقوں میں جس جاگیردارانہ نظام کی جڑیں مستحکم ہیں اس کے ہوتے ہوئے بڑی سے بڑی جمہوریت بھی مثبت کردار ادا نہیں کرسکتی۔ یہاں نسل درنسل غلامانہ ذہنیت اور وڈیرہ پن منتقل ہورہا ہے۔ یہی تمیز بندہ و آقا ہمارے ملک میں فساد آدمیت کا باعث بن رہا ہے۔ اس دیرینہ مرض کا علاج تعلیم اور شعور سے ہی ممکن ہے جس کی رفتار ہمارے ہاں اس برق رفتار زمانے میں بھی بہت سست ہے۔ لوگ اگر پڑھ لکھ بھی جائیں مگر ضمیر زندہ و بیدار نہ ہوں تو تعلیم بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ان کی معاشی مجبوریاں بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کے استاد، پٹواری اور پولیس والے انہی وڈیروں کے اشاروں پر پتلی کی طرح ناچتے ہیں۔ ان کی نہ اپنی سوچ ہے نہ کوئی پروگرام۔ وہ کل بھی اپنے سردار، مخدوم اور سائیں کے غلام تھے آج بھی ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جس وقت تک اس ابلیسی جاگیردارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہیں دیا جاتا۔ ظاہر ہے اسے ختم کرنا اتنا آسان نہیں خصوصاً موجودہ نظام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی یکے بعد دیگرے حکومتوں کی موجودگی میں تو یہ خواب ہی لگتا ہے۔ اس لئے کہ ہمارا بیورو کریٹ، ہمارا سرمایہ دار اور ہمارا حاکم سب اسی ظالمانہ نظام کی پیداوار ہیں۔

قصور وار کون!

وطن عزیز میں ان تمام حالات کو اس سطح تک پہنچانے میں عوام بھی برابر کی شریک ہے۔ یہ عوام چند جاہل اور موقع پرست لوگوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر سمجھتے ہیں ہم نے جمہوریت کی خدمت کا حق ادا کردیا۔ پھر جب قانون سازی کرنے والے ہمارے یہی نمائندے بولیوں پر بکتے اور قومی مفادات کا کاروبار کرتے ہیں تو ہم انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں جو کچھ بھی ہورہا ہے یہ ایک طرف کی غفلت کی وجہ سے نہیں بلکہ حالات کو اس نہج پر لانے کے خود عوام بھی ذمہ دار ہیں۔ جمہوریت تو کہتے ہی اس کو ہیں کہ عوام اپنی مرضی سے حکومت بناتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہاں عوام کو محض استعمال کیا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عوام مسلسل چھ دہائیوں سے کیوں استعمال ہورہی ہے؟ دنیا میں جہاں جہاں بھی مثبت تبدیلیاں اور انقلابات آتے ہیں وہاں عوام نے خود بنیادی رول ادا کیا ہے۔ ہمارے سامنے ملائیشیا، بنگلہ دیش، ایران، انڈونیشیا اور ترکی جیسے مسلمان ممالک کی مثالیں موجود ہیں۔ وہاں ہم سے بھی برے حال تھے مگر عوام بیدار ہوئے تو ماحول تبدیل ہوگیا۔ میں نے ترکی میں تبدیلی کے محرکات پر قارئین کے گوش گزار کیا تھا کہ طیب اردگان نے اگر گذشتہ دس سال میں قوم کی تقدیر تبدیل کردی ہے تو اس میں کریڈٹ ترکی قوم کو بھی جاتا ہے۔ صرف اور صرف عوام کے صحیح انتخاب اور قیادت کے اخلاص عمل کے سبب ہی قدرت مہربان ہوا کرتی ہے۔

قوم ہوش مندی کا مظاہرہ کرے مخلص اور کرپٹ قیادت کے درمیان فرق کو سامنے رکھے تو ہم بھی سب کچھ کرسکتے ہیں۔ یاد رکھیں! یہ خوشحالی باہر سے لاکر کسی نے تحفے میں نہیں دینی اور نہ آسمان سے ٹپکنی ہے۔ قرآن کا فیصلہ ہے کہ اس کے ذمہ دار اس قوم کے افراد ہیں ہم اپنے ساتھ وفادار اور اللہ تعالیٰ کے سامنے مخلص بن جائیں تو چند سالوں میں ہم بھی دنیا کے نقشے پر غیرت مند خوشحال قوم کے طور پر ابھر سکتے ہیں:

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

نظام انتخاب کے خلاف بغاوت کیوں؟

وطن عزیز کی فضائیں آج کل ایک مرتبہ پھر سیاسی طوفان کی زد میں ہیں۔ ایک طرف میڈیا، حکومت، اپوزیشن اور تجزیہ کار مصروف عمل ہیں تو دوسری طرف ملک بھر کی چھوٹی بڑی مذہبی و سیاسی جماعتیں اور سماجی تحریکیں اپنا وجود منوانے کے لئے میدان میں اتر رہی ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی جلسے یا ریلی کا فیصلہ ہورہا ہے۔ سڑکوں اور میدانوں میں اجتماعات کی فصل اگ رہی ہے۔ مسائل کے ہاتھوں نیم مردہ قوم ایک بار پھر سیاسی سطح پر تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پرانی سیاسی قوتوں کے خلاف موجود جذبات نئے قالب میں ڈھل کر منظم ہورہے ہیں۔ کراچی سے پشاور اور کشمیر سے گوادر تک لوگ ’’تبدیلی‘‘ کی خواہش لئے کسی معجزے کا انتظار کررہے ہیں۔ فرینڈلی اپوزیشن اب حقیقی اپوزیشن بننے کا تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے۔ لیلائے اقتدار کے مجنوں الگ الگ سیاسی ایجنڈوں اور جھنڈوں کے باوجود کسی ایک چھتری تلے جمع ہوکر اپنے مفادات کو محفوظ کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ بیرونی خطرات ہمیشہ کی طرح پھن پھیلائے ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کھڑے ہیں۔

ایسے میں ایک آواز ایسی بھی سنائی دے رہی ہے جو قوم کو تبدیلی کے لئے سیاسی نظام انتخاب سے بغاوت پر اکسا رہی ہے۔ اس صدائے احتجاج نے درد و آلام سے بلبلاتی قوم کے خودکشیوں پر آمادہ نوجوانوں کو پیغام دیا ہے کہ وہ دکھوں میں گھل گھل کر گھروں میں مرنے کی بجائے سڑکوں پر نکل آئیں اور سراپا احتجاج بن کر کرپٹ نظام انتخاب کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں۔نظام جبر کے خلاف یہ منفرد آواز شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بلند کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور سماجی و تعلیمی میدان میں پے درپے ناکامیوں کا سبب موجودہ نظام حکومت و سیاست کو قرار دیا ہے جب تک ہمارے ملک کا جانبدارانہ نظام انتخاب تبدیل نہیں ہوگا کوئی جماعت، کوئی تحریک یا کوئی قیادت مثبت تبدیلی نہیں لاسکتی۔ موجودہ نظام انتخاب اور نام نہاد جمہوریت ظالمانہ اور غریب کش نظام ہے۔ شیخ الاسلام کی اس فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ

  • ہمارے ملک میں مقتدر طبقہ خواہ وہ جمہوری سیاسی نظام کی پیداوار ہو یا ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے حکومت میں آئے، کم و بیش انہی خاندانوں پر مشتمل ہوتا ہے جو انگریزوں کے دور سے حکومتوں میں تسلسل کے ساتھ شامل ہیں۔
  • دیہاتوں میں جاگیردار اور شہری آبادیوں میں سرمایہ دار لوگ ہی اقتدار کی نورا کشتی میں شریک رہتے ہیں اور ہر بار معمولی تبدیلی کے ساتھ وہی لوگ براجمان ہوتے ہیں جو بھاری سرمایہ لگا کر منتخب ہوتے ہیں اور آخر دم تک کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنی ’’سرمایہ کاری‘‘ کو کئی گنا بڑھائیں جس کا نتیجہ کرپشن اور چور بازاری کی صورت میں نکلتا ہے۔

  • انتخابات صرف بھاری سرمائے اور دھونس دھاندلی کے بل بوتے پر لڑے جاسکتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بالعموم کوئی باصلاحیت شخص، شرافت، اہلیت اور خدمت کے بے پناہ جذبات کے باوجود قانون سازی کے عمل میں شریک نہیں ہوسکتا۔ الیکشن کمیشن بوجوہ نابینا اور جانبدار رہتا ہے، سیاسی خریدو فروخت سے حالیہ عدالتی فیصلوں کے بعد پردے اٹھنے شروع ہوئے ہیں۔ اس حمام میں سبھی ننگے نظر آتے ہیں۔ تاہم ابھی کسی کی گرفت نہیں ہوسکی۔

  • عوام میں چار پانچ سال بغاوت، مخالفت اور انتقام کے جو جذبات پروان چڑھتے ہیں وہ نئے نعرے کے تحت ووٹ کی پرچی کے استعمال کے ذریعے ختم ہوجاتے ہیں اور لوگ اگلے پانچ سالہ عرصے کے لئے دوبارہ پھنس جاتے ہیں۔ گذشتہ چھ دہائیوں سے ہمارے ساتھ یہی کچھ ہورہا ہے۔

  • چونکہ مقصد صرف اور صرف اقتدار اور اس کے ذریعے لوٹ مار ہوتی ہے اس لئے سیاسی جماعتوں میں اصول اور نظریات کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ اب تو بڑی جماعتوں میں بھی چھوٹے چھوٹے دھڑے بن چکے ہیں جو قیادت کو بلیک میل کرتے ہیں اور من پسند وزارتیں طلب کرتے ہیں۔ نتیجتاً حکومت قائم رکھنے کے لئے ہر بار ضرورت سے کئی گنا زیادہ وزارتیں بناکر وزیروں، مشیروں اور چمچوں کی ایک فوج ظفر موج سامنے آجاتی ہے جو بجٹ کا بے رحمانہ استعمال کرتی چلی جاتی ہے۔

  • تبدیلی کے لئے نظام جمہوریت بلاشبہ آئیڈیل ہے مگر ہمارے ہاں جمہوری ادارے ابھی بلوغت اور سنجیدگی کے مطلوبہ معیار سے کوسوں دور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ رائے دہندگان کی اکثریت ان پڑھ اور ناسمجھ ہے۔

  • موجودہ انتخابی نظام جمہوری نہیں خونی بن چکا ہے۔ ہر سیاست دان اپنے حلقے میں تین چار قتل کرواتا ہے تاکہ اس کا رعب بیٹھ جائے۔ کراچی میں گذشتہ دہائی سے جو خونی کھیل کھیلا جارہا ہے وہ اس کی واضح مثال ہے۔
  • قائد اور اقبال کے پاکستان میں جو نظام رائج ہوچکا ہے وہی اس عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہی ظالمانہ، جانبدارانہ اور غریب کش نظام اس وقت ہمارا، رضا شاہ پہلوی، حسنی مبارک اور قذافی ہے۔ عوام جب تک اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ایران، مصر، تیونس اور لیبیا کی طرح سڑکوں پر سربکف نہیں آئیں گے تب تک کوئی مثبت تبدیلی ہرگز نہیں آئے گی۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں مورچہ بند سیاسی اداکار اسی نظام کی پیداوار ہیں اور وہی اس کے محافظ ہیں اس لئے ہر بار اس کے تحفظ کے لئے کار بند رہتے ہیں۔

افسوس! ہم چھ دہائیاں ضائع کرنے کے بعد بھی اس نظام کو انتخابی نتائج کے ذریعے تبدیل کرنے کی خوش فہمی میں مبتلاء ہیں۔ اگر یہی نظام برقرار رہتا ہے تو آئندہ قومی انتخابات بھی اسی طرح دھونس، دھاندلی، دولت، اسلحہ اور سرکاری وسائل کے غلط استعمال کا شاخسانہ ہوں گے۔ اس قوم کی قسمت میں تبدیلی اس نام نہاد جمہوریت کے ذریعے ممکن نہیں۔ ہمیں اس ملک کے حالات خطے کی نفسیات اور مذہبی و تاریخی پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اس جانبدارانہ اور منافقانہ جمہوریت کے چنگل سے نکلنا ہوگا لیکن اگر سیاستدانوں کی طرح عوام بھی اس فرسودہ اور کرپٹ انتخابی نظام کے ذریعے ہی تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں کہ ووٹ کے ذریعے انقلاب آسکتا ہے؟ تو یاد رکھیں!

ایں خیال است و محال است و جنوں

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ذاتی تجربے اور طویل سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں اس کرپٹ نظام انتخابات سے بغاوت کے لئے قوم کو سب سے پہلے ناصر باغ میں یوتھ کنونشن میں کال دی۔ اب وہ 23 دسمبر مینار پاکستان کو تاریخ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر تاریخی دن بنانے کا عزم لے کر وہ وطن واپس آرہے ہیں اور ان شاء اللہ اگر پاکستانی قوم نے اپنی تقدیر بدلنے کے لئے ان کا ساتھ دیا تو 23مارچ 1940ء یوم قرار داد پاکستان کے بعد 23 دسمبر2012ء یوم استحکام پاکستان کے طور پر منایا جائے گا۔

دیکھا گیا ہے کہ ہمارا میڈیا بالعموم ایسے درد مندانہ افکار و نظریات کو در خور اعتنا نہیں سمجھتا کیونکہ ان تعمیری خیالات میں اسے خبریت اور گہماگہمی نہیں ملتی۔ ورنہ حالات جس تباہ کن سمت جار ہے ہیں اس میں علماء، طلباء، و کلاء، اساتذہ اور بالخصوص میڈیا کے لوگ سب سے زیادہ ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ ان نمائندہ طبقات کو اس ملک کی سلامتی اور اس میں بسنے والوں کی عافیت عزیز ہے تو انہیں ابھی سے کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے اور آئندہ قومی انتخابات پر زیادہ امیدیں لگا کر مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور آج قوم کو متحد ہوکر موجودہ نظام کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا اور کسی قیادت کے انتظار میں وقت ضائع کرنے کی بجائے خود اپنی تقدیر بدلنے کے لئے شیخ الاسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے باہر نکلنا ہوگا۔