اداریہ: صبحِ انقلاب سے۔۔۔ دورِ زوال تک

ڈاکٹر علی اکبر الازہری

ربیع الاول کا دامن ان سعید ساعتوں کا امین ہے جو ماہ و سال کی لاکھوں گردشوں کی نقیب ٹھہریں۔ قدرت ان تقدس مآب لمحات پر آج تک رشک کناں ہے جو آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وقف تھیں۔ خالق ارض و سما کو بھی وہ صبح بہاراں یقینا محبوب ہوگی جب اس کا شاہکار تخلیق حسن مطلق کے جلوؤں کا مظہر بن کر رونق بزم جہاں ہورہا تھا۔ جس طرح زمین کا کوئی حصہ انوار و تجلیات الہٰیہ کی بارش کے لئے حرمین کا مقابلہ نہیں کرسکتا اسی طرح وقت کا وہ لمحہ تقدس اور احترام میں صدیوں پر محیط ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل زمین کے درمیان مبعوث فرمایا۔ اسی وجہ سے اہل عشق و محبت ہمیشہ سے 12 ربیع الاول کے دن میلاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن ذوق و شوق سے مناتے آتے ہیں کہ یہ دراصل اللہ جل مجدہ کے اس احسان عظیم پر اظہار شکر و سپاس ہے جو اس نے اہل ایمان پر بعثت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں فرمایا۔ لاکھوں سلام ہوں اس ساعت دل افروز پر جب وادی مکہ میں سیدہ آمنہ کی گود کو بطحا کے چاند نے منور فرمایا۔

نبی محتشم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت جس طرح غیر معمولی واقعہ تھی اسی طرح وہ معاشرہ اور وقت بھی غیر معمولی نوعیت کا حامل تھا۔ اس لئے نہیں کہ اس میں اعلیٰ انسانی اقدار کی پامالی ہورہی تھی بلکہ اس لئے غیر معمولی تھا کہ انسانیت سرے سے ناپید ہوچکی تھی۔ وہ کونسی برائی تھی جو اس وقت کے عربوں کی عادت میں شامل نہ تھی۔ عصمت فروشی سے لے کر انسان فروشی تک کے بازار لگتے تھے۔ غلامی کے پھندوں میں جکڑے ہوئے انسانوں کے ساتھ حیوانوں سے بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ عورتوں سے اس قدر نفرت بڑھ گئی تھی کہ بچیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ انسانی حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ’’حق‘‘ اسی کے پاس تھا جو طاقتور تھا۔ زیادہ معزز وہی تھا جس کی دھونس زیادہ تھی۔ گویا دنیا میں ظلم و جبر ہی قانون تھا اور یہی دستور حیات۔ اسی شب تاریک کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے اس نور سرمدی کو ظہور بخشا۔۔۔ جسے ہم صبحِ میلاد کہتے ہیں۔

صبحِ میلاد دراصل صبحِ انقلاب تھی کیونکہ یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ نہ صرف مکہ میں رہنے والوں کے لئے بلکہ پورے عرب و عجم کے سب انسانوں کے لئے۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت دنیا میں نئے نظام کا آغاز تھا۔ انسانیت نواز اور حق و انصاف پر مبنی نظامِ سیاست و معیشت اور شاہکارِ ربوبیت کے شایانِ شان نظامِ تعلیم و تربیت کا آغاز۔ اس الوہی نظام کے خدوخال قرآنی آیات اور اسوہءِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے مکہ مکرمہ میں واضح ہونا شروع ہوگئے تھے۔ قرآن حکیم کی پہلی وحی سے تعلیم و تفکیر کی دعوت کا آغاز ہوگیا تھا۔ جوں جوں قرآن اترتا گیا توں توں روشنی پھیلتی چلی گئی۔ علم کی روشنی، عقائدِ حقہ کی روشنی اور عملِ صالح کی روشنی۔۔۔ توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان کی دعوت دی گئی تو صاف ظاہر ہے صدیوں سے بت پرستی کرنے والوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اسلام کو ابتداء میں رد کردیا لیکن اسلام کی تعلیمات اور پیغمبرِ اسلام کی سیرت و کردار میں جو کشش اور اپنائیت تھی، اس کے اثرات معاشرے میں سرائیت کررہے تھے۔ ان اثرات کو مظلوم طبقات نے زیادہ تیزی سے قبول کیا۔ ان طبقات میں غلام، بے آسرا اور کمزور لوگ پیش پیش تھے۔ کیونکہ انہیں پہلی مرتبہ معلوم ہورہا تھا کہ کوئی مسیحا ایسا بھی آیا ہے جسے ان کمزوروں کے مسائل اور مصائب کی فکر ہے۔ اس کی نظر میں امیر و غریب، حاکم و محکوم، مردو عورت، کالا اور گورا حتی کہ آقا اور غلام کی حیثیت برابر ہے۔ انسانی مساوات اور کمزوروں کے حقوق کا احترام اس معاشرے میں چونکہ ایک اجنبی تصور تھا اس لئے یہی چیز اس کا پہلا تعارف ثابت ہوئی۔ پسے ہوئے لوگوں نے اسلام کے دامن سے وابستگی اختیار کرنا شروع کی تو ان کے آقاؤں کو فکر لاحق ہوئی اور انہوں نے مصطفوی مشن کی شدید مخالفت شروع کردی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعثت سے ہجرت تک پورے 13 سال اس مخالفت، مخاصمت اور اہانت کا جرات، استقامت اور حکمت سے مقابلہ کیا حتی کہ آپ نے مادر وطن چھوڑ کر یثرب جانے کا فیصلہ کرلیا اور اسے اسلامی تحریک کا اگلا مرکز بنانے کا فیصلہ فرمایا۔

محبوبِ خدا کے قدم چوم کر خاکِ یثرب رشکِ فلک بن گئی۔ یہ شہر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوؤں سے مدینہ المنورہ ہوگیا اور اس کے رہنے والوں پر اللہ پاک نے بے پایاں رحمتوں کا نزول فرمایا۔ ان خوش بخت لوگوں نے اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اہل مکہ کے برعکس کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے اسلام کے لئے بھی جلد کھول دیئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیات طیبہ کا بقیہ حصہ اسی شہر دلربا میں گزارا حتی کہ فتح مکہ کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اہل مدینہ کے ساتھ ہی رہنے کو ترجیح دی۔ مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس سیاسی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور روحانی انقلاب کو منظم فرمایا اسے اب ساری دنیا تک پھیلنا تھا۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس الوہی مشن کو دنیا کے کونے کونے میں پہچانے کا عزم کرلیا۔ اقوام و ملل کی تاریخ میں یہ انوکھا واقعہ ہے کہ چند سالوں کے اندر اندر تین براعظموں میں اسلام کا پرچم لہرا دیا گیا۔

اسلامی تحریک اور مصطفوی مشن کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ کا پیغامِ حق تھا جس میں انسان کی دنیوی اور اخروی نجات اور کامیابی کی ضمانت تھی۔ جس کے مطابق کوئی انسان دوسرے انسان کا خدا بننے کا دعویدار نہیں بن سکتا۔ کسی کو رنگ، نسل، زبان یا قبیلے کی بنیاد پر امتیاز حاصل نہیں۔ دنیا میں تمام انسان برابر ہیں۔ عزت و عظمت کا تاج اسی کے سر سجتا ہے جو زیادہ متقی اور پرہیزگار ہوتا ہے۔ گویا اسلام نے ہر اس اختیار اور طاقت کو چیلنج کردیا جو مخلوق خدا کے حقوق کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال واقعہ کربلا ہے جو اقتدار اور کردار کے درمیان ایک تاریخ ساز معرکہ ہے۔ نواسہ رسول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ مصطفوی کردار کے نمائندے تھے اور چاہتے تھے کہ جس نظام ریاست کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جگر کا خون دے کر قائم کیا وہ پوری نسل انسانی تک من و عن پہنچ جائے مگر یزید روائتی ملوکیت و روائتی شہنشاہیت کا نمائندہ بن کر دھونس اور دھاندلی سے حکومت مسلط کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اور عملاً شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ذریعے اس نے نظام خلافت کو ٹھکرا کر قیصر و کسریٰ کی بادشاہتوں کو اپنا آئیڈیل بنالیا تھا۔ یہ وہ بنیادی نقصان تھا جو اس کی ہوس پرستی سے اسلامی تاریخ کو پہنچ رہا تھا اور فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جگر گوشہ بتول رضی اللہ عنہ اس کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اور اپنے اہل و عیال کی معصوم جانوں کی بھی قربانی دی اور کربلا کے ریگزاروں میں اپنا مقدس خون بہا کر شجر اسلام کی آبیاری بھی فرمائی۔ بقول اقبال ’’موج خون او چمن ایجاد کرد‘‘

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلامی تاریخ کے تمام قابل ذکر ادوار ملوکیت کے زیر اثر رہے تاہم ان بادشاہوں میں اچھے برے لوگ موجود رہے۔ نیک اور عادل بادشاہوں نے اسلام کی خدمت بھی کی اور ہوس پرستوں نے اسلام کو بازیچہ اطفال بھی بنایا۔ مگر اس ایک سیاسی نقص اور عیب کے ساتھ ساتھ چونکہ اسلام کا نظام تعلیم و تربیت، نظام عدل و انصاف، نظام معاشرت و معیشت اہل افراد کے ہاتھوں میں رہا، اس لئے بادشاہت کی خرابیاں براہ راست عوام تک نہیں پہنچ پاتی تھیں۔

یورپ میں صنعتی، سیاسی اور معاشی انقلابات کے بعد اسلامی دنیا کے حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام اور ممالک میں اب انسانی حقوق اور جمہوری نظام ریاست سے انحراف ممکن نہیں چنانچہ گذشتہ کئی سالوں سے پورے مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی لہر جاری ہے جس کے نتیجے میں تیونس، مصر اور لیبیا میں آمریت کا تختہ الٹا جاچکا ہے اور بقیہ ممالک میں بادشاہتوں اور آمروں کو سخت عوامی دباؤ کا سامنا ہے۔

23 مارچ 1940ء سے 23 دسمبر 2012ء تک

ڈاکٹر علی اکبر قادری

بیسویں صدی میں عالمی جنگوں کے بعد جب عالمی طاقتیں اپنے توسیعی منصوبوں کو حتمی شکل دے رہی تھیں۔ قدرت نے مسلمانان برصغیر کو یہ توفیق دی کہ انہوں نے پاکستان کے نام سے ایک نظریاتی ریاست قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اقبال جیسا آفاقی مفکر اور محمد علی جناح جیسا مضبوط کردار کا حامل بیدار مغز قائد، تحریک پاکستان کا طرہ امتیاز تھا۔ اقبال نے جس علیحدوطن کا تصور دیا تھا قائداعظم نے اپنے مخلص ساتھیوں کی مدد سے اسے حقیقت کا روپ دے دیا۔ 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں جو تاریخی اجتماع منعقد ہوا اس میں قائداعظم نے قرار داد پاکستان پیش کی تھی۔ یہ تحریک پاکستان کا فیصلہ کن دن تھا۔ مسلم لیگ کے سرکردہ قائدین نے ایک واضح نصب العین کے تحت اپنی کاوشوں کو مجتمع کیا اور چشم فلک نے دیکھا کہ ٹھیک سات سالوں میں مسلمانوں نے جمہوری عمل کے ذریعے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت کی مسلم دنیا میں یہ واقعہ ایک سیاسی معجزے سے کم نہیں تھا۔

پھر کیا ہوا؟ پاکستان تو بن گیا مگر بانیان پاکستان کی موت کے بعد یہ ملک لٹیروں اور سیاسی شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ ان کی ہوس نے 24 سال بعد اسے دولخت کردیا اور اب بقیہ وطن عزیز میں چند خاندان، چہرے اور پارٹیاں بدل بدل کر ملک کے اقتدار پر قابض ہوتے آرہے ہیں۔ پوری دنیا میں تبدیلی کے مثبت ثمرات شہریوں کو مل رہے ہیں مگر پاکستان وہ بدقسمت خطہ زمین ہے جہاں دن بدن حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے ہیں۔ ملک میں صوبائیت، لسانیت، مذہبی فرقہ پرستی، کرپشن، لوٹ مار اور بدامنی کی انتہاء ہوچکی ہے۔ اس ایٹمی ملک کی فوج بیک وقت اندرونی اور بیرونی محاذوں پر جنگ میں مصروف ہے۔ حکمران مافیا کو عوام کے دکھوں کا احساس تک نہیں۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ توانائی کا بحران ہے کہ تھمنے میں نہیں آتا، کارخانے بند ہورہے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ ہمارے سرمایہ کار بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال جیسے پڑوسی ممالک میں جاکر پناہ لینے پر مجبور ہورہے ہیں۔ ملک میں تخریب کاری ایک کھیل بن چکا ہے۔ بلوچستان، کراچی، فاٹا اور وزیرستان سمیت بیشتر خطوں میں ٹارگٹ کلنگ ہورہی ہے۔ یہاں کے شہری چیونٹیوں کی طرح ہر روز حادثات کا شکار ہوکر مررہے ہیں۔ الغرض ایک کہرام اور کربلا بپا ہے ہر طرف شام غریباں کا منظر ہے، مگر مظلوموں کی چیخیں سننے والا کوئی نہیں۔ وقت کے یزیدوں کے کان میں جوں بھی نہیں رینگتی۔ آج بھی اسلام آباد، لاہور اور کراچی کے ایوان ہائے اقتدار میں لاشوں پر سیاست ہورہی ہے۔

یہ وہ شرمناک اور المناک مناظر تھے جنہوں نے قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو مجبور کیا کہ ’’وہ سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کا نعرہ لگاکر میدان عمل میں آجائیں۔ چنانچہ انہوں نے پرسکون علمی، فکری کاوشوں سے بھرپور زندگی چھوڑ کر پاکستان کی خون آشام فضاؤں میں قدم رکھا۔ وہ خارزار سیاست کو کانٹوں سے پاک کرنے اور مصطفوی اصولوں کی خوشبو بکھیرنے کے لئے وطن واپس آگئے ہیں۔ ان کی سیاست ملک بچانے، غریب عوام کو ان کے حقوق دلانے اور نظریاتی مملکت کو حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت میں ڈھالنے کے لئے ہوگی۔ انہوں نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھالی ہے اور گھر کے سارے اثاثے فروخت کرکے کارکنوں کے لئے نئی مثال قائم کی ہے۔

پاکستان کو سازشوں سے نجات دلانے اور اس کے مکینوں کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے عزم کا اظہار انہوں نے 23 دسمبر کے عظیم الشان تاریخی اجتماع میں فرمادیا ہے۔ (ہم نے قارئین کی سہولت کے لئے اس خطاب کی تلخیص شامل اشاعت کردی ہے) یہ اجتماع اپنی نوعیت اور پاکستانی قوم کی بے پناہ دلچسپی کے باعث تاریخ پاکستان کا دوسرا اہم سنگ میل سمجھا جارہا ہے۔ 1940ء میں اس ملک کی قرارداد منظور ہوئی تھی جبکہ 23 دسمبر 2012ء کو اس ملک کو بچانے اور اسے مصطفوی انقلاب سے ہمکنار کرنے کی قرار داد منظور ہوئی ہے۔ ’’جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے‘‘

محتاط اندازوں کے مطابق کم از کم 2 ملین افراد کا یہ متموج سمندر کیوں امڈ آیا۔۔۔ حالانکہ ملک میں خودکش دھماکے بھی ہورہے ہیں اور جسم کو شل کردینے والی سردی بھی عروج پر ہے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو ایوان اقتدار میں بیٹھے بیوپاریوں اور سیاسی بازی گروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ الاسلام کو یہ سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت ہے وہ سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو انتخابات میں حصہ لیں۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ نظام انتخاب ہی تو اس سارے کرپٹ نظام کی جڑ ہے۔ یہاں ووٹر آزاد ہے ہی نہیں۔ برادریوں، دھڑوں اور قبضہ گروپوں کی سیاست نے پہلے ہی ہمیں اس حال تک پہنچادیا ہے۔ موجودہ حکومتیں بھی تو جمہوری انتخابی نظام کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آئی ہیں، انہوں نے ملک کو جس تباہ کن حالات تک پہنچادیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ کرپٹ انتخابی نظام میں فوری طور پر قابل عمل اصلاحات کی جائیں۔ نسل در نسل سیاسی مہروں کی جگہ پڑھے لکھے، دیانتدار اور مخلص لوگوں کو قانون سازی کا موقع ملنا چاہئے، باری باری کی سیاست اور اقتدار کا کھیل اب ختم کئے بغیر تبدیلی ممکن ہی نہیں۔

بعض بدخواہ اپنے تبصروں اور تجزیوں میں یہ گمراہی پھیلارہے ہیں کہ قائد تحریک منہاج القرآن کسی غیر ملکی ایجنڈے پر اچانک وارد ہوئے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ شیخ الاسلام اور تحریک منہاج القرآن کو ملک اور بیرون ملک کام کرتے ہوئے تین دھائیاں مکمل ہوچکی ہیں۔ یہ تحریک پہلے دن سے اسلام کے احیاء اور پاکستان کو فلاحی اسلامی مملکت بنانے کی جدوجہد کررہی ہے۔ انہوں نے باقاعدہ سیاسی جماعت ’’پاکستان عوامی تحریک‘‘ بناکر دو مرتبہ قومی انتخابات کے معرکوں میں شرکت بھی کی ہے لہذا نہ تو وہ اچانک اس میدان میں آئے ہیں اور نہ ان کے سامنے کوئی غیر جمہوری ایجنڈا ہے۔ وہ آئین اور قانون کے استاد رہے ہیں اس لئے آئینی تقاضوں اور قانونی حکمتوں سے خوب واقف ہیں۔ پاکستان کے دگرگوں حالات میں اگر قوم ان کی کال پر لبیک کہہ رہی ہے تو اسے شیخ الاسلام کی قابلیت، دیانت اور خلوص پر اعتماد ہے۔

شیخ الاسلام نے مینار پاکستان کے تاریخی اجتماع میں مقتدر قوتوں کو جو مہلت دی ہے وہ اسی لئے دی گئی ہے تاکہ نظامِ انتخابات میں اصلاحات کی غرض سے عدلیہ، فوج، جملہ سیاسی جماعتوں اور عوام کی مشاورت سے حقیقی نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ورنہ 40 لاکھ لوگوں کا پرامن منظم قافلہ اپنی منزل کے حصول کے لئے جب دارالحکومت کی طرف لانگ مارچ کرے گا تو اپنے مطالبات کی منظوری تک ہرگز نہ ٹلے گا۔ لہذا حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت فوج اور عدلیہ کو چاہئے کہ وہ عوام کی آواز پر کان دھریں اور انتخابی نظام کی اصلاح کے لئے شیخ الاسلام کی طرف سے کئے گئے مطالبات پر فوری عمل درآمد کریں۔ بصورت دیگر ہم اس قوم و ملک کے وقار کی بحالی کی منزل کے لئے خود ہی راستوں کا انتخاب کریں گے۔

ہم خود تراشتے ہیں منزل کی سنگِ راہ
ہم وہ نہیں کہ جنہیں زمانہ بناگیا