الفقہ: آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور اہل بیت عظام کے مقام و مرتبہ کو واضح فرمادیں؟ بعض لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے گستاخی کرتے ہیں، ان کے بارے کیا حکم ہے؟

جواب: جس طرح اللہ تعالی کی شان الوہیت میں گستاخی کرنا کفر ہے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس و شان نبوت میں بھی ذرہ بھر گستاخی کرنا کفر ہے۔ اسی طرح جن نفوس قدسیہ کا سرکار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غلامی کا نیاز مندانہ رشتہ ہے ان میں سے کسی کی گستاخی کرنا بھی کفر ہے خواہ وہ ازواج مطہرات امہات المومنین ہوں، خواہ آل و اولاد ہو، خواہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہوں، لہذا ان کی فضیلت کا مسئلہ اس طرح نہ لیا جائے کہ ایک کی تعریف سے دوسرے کی تنقیص ہو۔ تعظیم و تکریم میں سب برابر ہیں، ہاں رتبہ فضیلت میں فرق ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جس طرح پہلے خلیفہ راشد ہیں اسی طرح مرتبہ و فضیلت میں بھی پہلے نمبر پر ہیں۔ دوسرے نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، تیسرے پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، چوتھے نمبر پر خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔

کچھ فضائل وہ ہیں جن میں تمام صحابہ کرام شریک ہیں۔ بعض فضائل خصوصی ہیں کہ ایک میں ہیں دوسروں میں نہیں۔ تاہم عزت و تکریم میں، جنتی ہونے میں، ادب و احترام میں سب برابر ہیں۔ کسی کی ادنیٰ سی گستاخی سے بھی انسان شیطان بن جاتا ہے۔قرآن پاک میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گردو غبار کی اللہ قسمیں کھاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:

وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًا. فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًا. فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًا. فَاَثَرْنَ بِه نَقْعًا.

(العاديات:1 تا 4)

’’(میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں‘‘۔

جن شہسواروں سے گھوڑوں کو، گھوڑوں سے گردو غبار کو یہ مقام ملا، ان شہسواروں کی اپنی شان کیا ہوگی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کے متعلق امت کو خیر خواہی، دعائے خیر اور ان کا اچھا ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی۔ فرمایا:

الله الله فی اصحابی، الله الله فی اصحابی، لا تتخذوهم غرضا من بعدی فمن احبهم فبحبی احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم ومن اذا هم فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی الله ومن اذی الله فيوشک ان ياخذه.

(ترمذی، بحواله مشکوٰة، 554)

’’میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ میرے صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ بعد انہیں (طعن و تشنیع کا) نشانہ نہ بنانا۔ سو جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے ساتھ بغض رکھنے کی بنا پر ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو تکلیف دی اس نے یقینا مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے یقینا اللہ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ کو تکلیف دی تو عنقریب اسے اللہ پکڑے گا‘‘۔

اسی طرح ارشاد فرمایا:

اصحابی کالنجوم فبايهم اقتديتم اهتديتم.

’’میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی پیروی کرو گے راہ پاؤ گے‘‘۔

(مشکوٰة، 554)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے اللہ راضی ہوچکا اور وہ حضرات اپنے رب سے راضی ہوچکے۔ قرآن کریم میں ہے:

رَّضِیَ اﷲُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ.

(التوبة:100)

’’اللہ ان (سب) سے راضی ہوگیا اور وہ (سب) اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار فرما رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہی زبردست کامیابی ہے‘‘۔

پس ہر شخص کو آگاہ ہونا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا، ان کے راستے پر چلنا، ان کے باہمی تنازعات میں پڑے بغیر ان کے لئے دعائے خیر کرنا، امت پر فرض ہے۔ ان سے بغض رکھنا، ان کی بے ادبی کرنا، ان کی شان و شوکت سے جلنا طریقِ کفار و منافقین ہے۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی ہیں، کاتب وحی ہیں۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے تمام اہل اسلام کے قابل صد تکریم روحانی ماموں ہیں۔ لہذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا کیونکہ مسلمانوں کی پہچان قرآن میں یہ بتلائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان کے لئے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتے ہیں۔

يَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.

(مومن:7)

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان صرف دو مرتبہ جنگ ہوئی۔

  • جنگ صفین
  • جنگ جمل

ان جنگوں کا سبب جیسا کہ معلوم ہے بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال اور معلومات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا اس زمانہ میں ممکن نہ تھا جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مسلم عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہوجانا باعث تعجب نہیں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں:

  • باہمی جنگیں ہوئیں جس میں مسلمانوں کا ناقابل بیان جانی و مالی نقصان ہوا۔
  • ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی۔
  • وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جارہے تھے، یکدم رک گئے۔

تاہم یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے۔ کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا نہ صحیح ہے نہ انصاف۔ اس مسئلہ میں ناصبی، خارجی بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور رافضی بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان عظمت میں گستاخی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ گستاخی کی لعنت سے ہر مسلمان کو محفوظ فرمائے۔

صحیح صورت حال وہی ہے جس کی نشاندہی ہم نے کردی ہے۔ اللہ تعالیٰ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہ ائمہ و اولیاء و علماء اور عام اہل اسلام کا ادب و احترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔

سوال: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد مطہرہ کی تفصیلات بیان فرمائیں؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار صاحبزادیاں تھیں۔

  1. حضرت زینب رضی اللہ عنہ
  2. حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ
  3. حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ
  4. حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ

حضرت زینب سلام اللہ علیہا سب سے بڑی اور حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادوں کے نام یہ ہیں:

  1. حضرت قاسم سلام اللہ علیہ
  2. حضرت طیب سلام اللہ علیہ
  3. حضرت طاہر سلام اللہ علیہ
  4. حضرت مطہر سلام اللہ علیہ
  5. حضرت ابراہیم سلام اللہ علیہ
  6. حضرت مطیب سلام اللہ علیہ

(بعض نے حضرت طاہر و طیب کو ایک ہی (عبداللہ) قرار دیا ہے۔

 (البداية والنهاية، 5:307 طبع بيروت)

صاحبزادوں کی تعداد میں اختلاف ہے مگر صاحبزادیوں کی تعداد میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ چار ہی تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’سب سے بڑے بیٹے حضرت قاسم، پھر زینب، پھر عبداللہ، پھر ام کلثوم، پھر فاطمہ، پھر رقیہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین۔

(ايضاً)

ان میں سے صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ام المومنین ماریہ قبطیہ سے تھے۔ باقی تمام اولاد امجاد حضرت خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کے بطن سے تھی۔ تمام نرینہ اولاد بچپن میں اللہ کو پیاری ہوگئی تھی۔

سب سے بڑی صاحبزادی حضرت زینب سلام اللہ علیہا سے ابوالعاص بن الربیع کی شادی ہوئی۔ اس سے دو بچے علی اور امامہ ہوئے۔ حضرت ابوالعاص رضی اللہ عنہ اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ بعد میں مسلمان ہوگئے۔ ابتدائے سلام میں غیر مسلموں سے مسلمانوں کی شادیاں جائز تھیں کیونکہ ابھی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہ 9ھ میں فوت ہوئیں۔

حضرت رقیہ کی پہلی شادی عتبہ بن ابی لہب سے ہوئی تھی۔

حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ کی شادی عتبہ کے بھائی عتیبہ بن ابی لہب سے ہوئی۔ جب سورہ لہب نازل ہوئی تو ان دونوں بھائیوں نے دونوں صاحبزادیوں کو رخصتی سے پہلے ہی دشمنیءِ رسول کی بنا پر طلاق دے دی تھی۔

سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا۔ ان سے حضرت عثمان کا ایک بیٹا عبداللہ ہوئے جو چھ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔ آپ غزوہ بدر کے دن فوت ہوئیں۔

ان کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی بہن سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شادی کردی جو شعبان 9 ھ میں فوت ہوئیں۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

حضرت سیدہ فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا 3 ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ جن سے حسن رضی اللہ عنہ، حسین رضی اللہ عنہ، محسن رضی اللہ عنہ، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہ ہوئیں۔

سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ بنت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شادی ہوئی۔ (بخاری) سیدنا زید بن علی انہی سے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ نے حضرت عون بن جعفر رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے نکاح کیا اور ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی محمد سے ان کی شادی ہوئی پھر ان کی وفات کے بعد عبداللہ بن جعفر سے ان کی شادی ہوئی۔