محمدمصطفیٰ (ص) ذات: اطمینان و سکون کا باعث، پیغام: امن و آشتی کا سرچشمہ

محمد فتح اللہ گولن

جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے مقامات مقدسہ کی خاک سے اپنی پیشانی آلودہ کرنے کے لئے ان کی زیارت سے نوازا تو مجھ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کے انوارات کا اس قدر ظہور ہوا کہ میں ناقابل بیان روحانی خوشی محسوس کرنے لگا یہاں تک کہ میں سوچنے لگا کہ اگر بالفرض اس وقت میرے لئے جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے اور مجھے ان میں داخل ہونے کی پیشکش کی جاتی تو سچ جانیے میں اعلیٰ ترین جنت میں داخلے پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر میں قیام کو ترجیح دیتا۔

دنیا پر ہر طرف ظلم و جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی جو اپنے آغوش میں متوقع روشنی اور نئے نبی کے ظہور کی صداؤں کو سمیٹے ہوئے تھی۔ اس خوشخبری کی صدائے بازگشت ہر سو پھیل کر انسانیت کے دلوں اور کانوں پر دستک دے رہی تھی یہاں تک کہ مکہ کے باسی اکثر اس نبی منتظر کے بارے میں آپس میں گفتگو کرتے اور ایک دوسرے کو وصیت کرتے کہ جیسے ہی اس نبی کا ظہور ہو تم لازماً اس کی دعوت قبول کرکے اس پر ایمان لانا۔

(السيرة النبوية، ابن هشام، ج1، ص203)

دل بے چین تھے سب کی امیدیں آخری نجات دہندہ سے وابستہ تھیں۔ ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ نبی اس کی نسل سے ہو، یہی وجہ تھی کہ کئی لوگ اپنے بیٹوں کا نام ’’محمد‘‘ رکھنے لگے تھے۔ لیکن نبی منتظر نے تو اس عالی نسب سے ہونا تھا، جس کی ابتدا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام سے ہوئی تھی اور اختتام حضرت عبدالمطلب اور حضرت عبداللہ پر ہونا تھا۔ لوگوں کو بھی اسی سلسلہءِ نسب سے نور نبوت کے ظہور کا انتظار تھا۔ واقعات کا تسلسل اس کے ظہور کے قریب ہونے کا عندیہ دے رہا تھا اور رات کی تاریکی سپیدہءِ صبح کی نوید سنارہی تھی۔

یہ وہ دور تھا جس میں انسان اپنا مقصد زیست کھوچکا تھا۔ اس دور کے لوگوں کے اعمال کی منظر کشی قرآن کریم نے ایک مثال کے ذریعے یوں کی ہے:

وَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا اَعْمَالُهُمْ کَسَرَابٍ بِقِيْعَةٍ يَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءً حَتّٰی اِذَا جَآئَه لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا.

’’اور کافروں کے اعمال چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں جس کو پیاسا پانی سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو اسے کچھ (بھی) نہیں پاتا‘‘۔

(النور:39)

اس دور کا نام دورِ جاہلیت تھا لیکن یہاں جاہلیت سے مراد علم کا متضاد معنی نہیں بلکہ کفر کا مترادف مراد ہے جو ایمان اور اعتقاد کی ضد ہے۔ اس دور کو سمجھنے کے لئے اس کی بعض رسوم و عادات کی طرف اشارہ کرنا ناگزیر ہے تاکہ فخر کائنات سیدالمرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اہل دنیا پر انعام و احسان کو یاد رکھنا ہمارے لئے ممکن ہوسکے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اہل جہاں کے لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت اور احسان ہے، جس کی طرف قرآن مجید نے درج ذیل الفاظ میں اشارہ کیا:

لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُوْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰـتِه وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ.

(آل عمران:164)

’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم اور رحمت و احسان کا اندازہ لگایئے کہ لوگوں میں سے ہی ایک شخص کو ان کی طرف رسول اور راہ حق کا رہبر و راہنما بناکر بھیجا جو دوسرے انسانوں کی طرح تمام بشری تقاضوں اور احساسات کا حامل ہے۔ اگر انہیں رہبر و رہنما کی ضرورت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے رہبر و راہنما ہیں۔۔۔ اگر انہیں ممبر پر خطبہ دینے والے خطیب کی ضرورت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فصیح و بلیغ خطیب ہیں۔۔۔ اگر انہیں حکمران کی ضرورت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے حکمران ہیں جو سلاطین کے نام خطوط لکھتے اور ان کے ساتھ معاہدات کرتے ہیں۔۔۔ اور اگر انہیں سپہ سالار کی ضرورت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہترین سپہ سالار ہیں۔۔۔ غرض زندگی کے جس شعبے کو بھی لیجئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسانیت کی طرف اس لئے بھیجا گیا تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر سنائیں، اپنے معجزات انسانیت کے سامنے پیش کریں اور انسانیت کو اس کی حقیقت سے روشناس کرائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت ہی انسانیت مادی نجاستوں سے پاک صاف ہوکر روحانی زندگی کے اعلیٰ مراتب کو حاصل کرسکتی ہے اور انسانیت نے عملاً یہ مقصد حاصل کربھی لیا۔

مسلمانوں کے ہاں کچھ ایام خوشی اور احترام کے دن سمجھے جاتے ہیں، جن میں سے بعض دن بطور عید کے منائے جاتے ہیں۔ مثلاً ہر ہفتے جمعہ کے دن مسلمان خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہی خوشی کسی قدر بڑے پیمانے پر عیدالفطر اور عیدالاضحی کے موقع پر منائی جاتی ہے۔ عیدالاضحی کے دنوں میں مسلمان جانوروں کی قربانی کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اپنی عاجزی و انکساری ظاہر کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔ بعض مسلمان اس مقصد کے لئے حج کی نیت سے بیت اللہ کا رخ کرتے ہیں اور غلاف کعبہ سے لپٹ کر اور میدان عرفات میں کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور آہ و زاری کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے بخشش مانگتے ہیں۔

عیدالفطر بہت ہی بابرکت اور لاتعداد مقاصد کا حامل خوشی کا دن ہے کیونکہ یہ اس خوشی کا نام ہے جسے ایک مسلمان پورے ایک ماہ کے روزوں کے بعد اپنے پروردگار کی طرف سے حاصل ہونے والی خوشنودی کے موقع پر محسوس کرتا ہے۔

عیدالفطر اور عیدالاضحی کے علاوہ ایک اور خوشی کا دن بھی ہے جو درحقیقت نہ صرف انسانیت بلکہ پوری کائنات کے لئے باعث مسرت ہے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کا دن ہے یعنی جس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ جس دن اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آسمان انسانیت میں نور محمدی کی قندیل کو درخشاں آفتاب کی طرح معلق کیا جس سے جاہلیت کا اندھیرا چھٹ گیا اور روشنی نے ساری کائنات کو ڈھانپ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری جن و انس سب کے لئے عظیم ترین نعمت خداوندی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تمام انسانیت کے لئے باعث افتخار ہے، یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال سے ہر دور کے بڑے بڑے عظیم مفکرین اور دنیائے فکر کو اپنے افکار سے مزین کرنے والی نامور و باکمال شخصیات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دست بستہ کھڑے یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں:

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ انسان ہیں جن کے ساتھ انتساب کو ہم اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں‘‘۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا اندازہ لگانے کے لئے یہی کافی ہے کہ دور حاضر میں گمراہی و بربادی کے تمام اسباب کے پائے جانے کے باوجود ہم مسجد کے میناروں سے مسلسل ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ کی صدائیں سن رہے ہیں اور مسلسل اس بات کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ کیسے ’’روح محمدی‘‘ ہر جگہ رفعت و بلندی کے نئے نئے آفاق کھولتی ہے، جس کے نتیجے میں ہم روزانہ پانچ مرتبہ عالم روحانی میں شوق و اشتیاق کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی دلیل کے طور پر ہم یہ بات بھی پیش کرسکتے ہیں کہ گمراہی پھیلانے اور فتنے برپا کرنے کے لئے دشمنان اسلام کی مسلسل ہر قسم کی داخلی اور خارجی تدبیروں اور سازشوں کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پوری طرح آگاہی نہ رکھنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوکر پروانوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ یہ ایسی منفرد بات ہے جس کی نظیر دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ زمانہ ہمارے دل و دماغ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے منسوب کسی بھی حقیقت کے آثار کو نہ مٹاسکتا ہے اور نہ ہی دھندلاسکتا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ترو تازہ اور شگفتہ رہتے ہیں۔ میں اکثر اپنے دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ جب میں مدینہ منورہ جاتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو اپنے اردگرد اتنی شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اگلے ہی لمحے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے والا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی حیات بخش اور پرسوز آواز سے مجھے اھلاً و سھلاً مرحبا کہہ رہے ہیں۔

بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہمارے دلوں میں اسی طرح ترو تازہ اور زندہ ہے اور مرور زمانہ سے ہمارے دلوں میں اس کی تروتازگی اور زندگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

زمانہ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ تنزل کا شکار ہوتا ہے جس سے بعض اصول و نظریات شکست و ریخت کا شکار ہوکر اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت دلوں میں خوشبو دار پھولوں کے شگوفوں کی مانند ہمیشہ تروتازہ اور قائم و دائم رہے گی۔

اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو اجاگر کرنے کا ویسا ہی اہتمام کرتے جیسا کہ دوسری اقوام اپنی بہادر اور عظیم شخصیات کو اجاگر کرنے کے لئے کرتی ہیں اور اس مقصد کے لئے اپنے تمام علمی اور معاشرتی اداروں کو وقف کردیتے تو ممکن نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کوئی اور شخصیت انسانیت کے دلوں میں بسیرا کرسکتی یا جگہ پاسکتی۔

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو اجاگر کرنے کے لئے صحیح اہتمام کے نہ ہونے کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ مشرق و مغرب سے ہر ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے صاف و پاکیزہ چشمہءِ سخاوت کی طرف دستِ حاجت پھیلائے دوڑا چلا آرہا ہے اور محبت و عشق اسے آپ کے روضہ انور کی طرف کھنچے چلے جارہی ہے، ایک ایسے انسان کے روضہءِ انور کی طرف جو آفتابوں کے سروں پر تاج رکھ دیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہم تمام اطراف عالم خصوصاً امریکہ، برطانیہ، فرانس اورجرمنی میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ ہدایت پر چلنے کے لئے نئے جذبے اور ولولے کا مشاہدہ کررہے ہیں، وہیں مسلمانوں کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو خوبصورت دلکش اور متوازن انداز میں پیش کرنے کی مسلسل جدوجہد بھی دیکھ رہے ہیں، جسے دیکھ کر زمانہءِ نبوت کی یاد تازہ ہونے لگتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے ساتھ محبت و لگن کا جو منظر غیر مسلم دنیا میں دکھائی دے رہا ہے۔ یہی حال مسلم ممالک کا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ صدی دو صدی پہلے اگرچہ بہت سے لوگ اسلام کے ساتھ صدق دل سے تعلق رکھتے تھے لیکن اس کے بارے میں ان کی معلومات سطحی نوعیت کی ہوتی تھیں لیکن آج وہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں اور جانتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا ہے؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کیوں کرتے ہیں؟ کیونکہ انہوں نے امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا علمی انداز میں دقت نظری سے تجزیہ کرنا شروع کردیا ہے۔

لیکن کیا ہم لوگوں کے دلوں میں بسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو مکمل طور پر سمجھ کر اس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں؟ مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں دوسروں کی بات کروں؟ میں خود کہاں کھڑا ہوں؟ کیا میرے بس میں ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کے پہلوؤں کو کماحقہ بیان کرسکوں؟ یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایان شان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کو اجاگر کرسکوں؟ میں تو پانچ سال کی عمر سے نماز کے لئے پیشانی ٹیکنے لگا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قطمیر (اصحاب کہف کے کتے کا نام) کا مقام حاصل کرنے کے لئے اپنی گردن میں رسی ڈال چکا ہوں؟ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت سے متعلق اپنے دلی جذبات کا آپ کو کماحقہ احساس دلاسکا ہوں؟ میں تو خود اپنے آپ سے اور دعوت و تبلیغ سے منسلک تمام احباب سے کہتا ہوں کہ کیا ہم دور حاضر کے انسان کے دل کو سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت سے لبریز اور آپ کی عظمت سے معمور کرسکے ہیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔

اگر انسانیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کماحقہ پہچان اور سمجھ لیتی تو عشق و محبت میں اپنے حواس کھوبیٹھتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت یادیں روحوں پر چھا جاتیں تو ان کے شوق کے جذبات بھڑک اٹھتے، آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ نبوت کے عالم کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے بدن کانپ اٹھتے اور روحیں اپنے آپ کو ہوا کے سامنے ڈال دیتیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آتش عشق میں جلنے والے دلوں کی چنگاری خاک ہوجانے کے بعد پھر سے بھڑک اٹھے اور وہ ہوا اسے اڑا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے جائے۔ چونکہ انسان اپنی فہم و ادراک کے بقدر ہی محبت کرتا اور نامانوس چیز سے دور بھاگتا ہے، اس لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو نقطہ ہمیشہ سے ہمارے دشمنوں کی تمام تر کوششوں اور سازشوں کا محور رہا ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت لوگوں کے دلوں سے نکالنے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے کو بے وقعت بنانے، نئی نسلوں کے دل و دماغ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغض و عداوت کو پروان چڑھانے اور اس کے مطابق ان کی تعلیم و تربیت کرنے کی جدوجہد ہے۔

لیکن اللہ تعالیٰ کی غیبی نصرت کو دیکھئے کہ وہ تمام رکاوٹیں اور تدبیریں جنہیں ہمارے دشمنوں نے ہمارے دلوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نکالنے اور ہمارے ذہنوں سے آپ کی یاد مٹانے کے لئے اختیار کیا تھا، سب کی سب اکارت اور رائیگاں گئیں اور انسانیت نے انہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ نوجوان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف خوشی سے دوڑنے لگے ہیں۔ وہ اس پیاسے آدمی کی طرح خوش ہیں، جو ویران صحراء میں کئی دن کی پیاس شدت و تکلیف جھیلنے کے بعد اپنے قریب ٹھنڈا اور خوشگوار پانی پالے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کی طرح کی رحمدل ذات اپنی طرف اس قدر اشتیاق و محبت اور عشق کے ساتھ متوجہ ہونے والے شخص کو کبھی مسترد نہیں فرمائے گی بلکہ محبت و شفقت کے ساتھ اسے اپنے سینے سے لگالے گی۔

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابرکت و دلکش قوت ہے جس کے سبب دنیا آج متوجہ ہورہی ہے۔ ہماری عقلیں اس حقیقت کو سمجھیں اور اس کا احاطہ کریں یا نہ کریں، ہمارے دل ہمیشہ اسی شمع کے گرد اڑتے اور اسی آفتاب کے گرد چکر کاٹتے ہیں اور عنقریب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رجوع نہ کرنے اور آپ کے بارے میں لاپرواہی برتنے والے ندامت کے آنسو بہائیں گے اور رنج و الم کے کڑوے گھونٹ پئیں گے۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہ کی اور بھاگا اور موسم سرما کی مکھی کی طرح علیحدہ اور تنہا رہا، وہ عنقریب تکلیف سے کراہتے اور پشیمانی و حسرت سے کف دست ملتے ہوئے کہے گا: ’’میں کیوں نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوا اور کیوں نہ پروانوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوما‘‘۔ لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی اور بہت سے لوگوں کے ہاتھ سے وقت نکل چکا ہوگا۔

عنقریب تمام اہل جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لپکیں گے، علمی حلقے آپ پر ہر اعتبار سے تحقیق کریں گے، میدان فکر کے شاہسوار آپ کے پیچھے چلنے لگیں گے اور آپ کے بہت سے دشمن سچے دوست بن کر آپ کی پناہ حاصل کرنے کے لئے آپ کی طرف دوڑیں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبے کا پلڑا مدمقابل کے ترازو میں اس کے اپنے پیمانوں اور معیاروں کے مطابق بھی بھاری ہونے لگا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن حلقے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا اعتراف اور گواہی دینے لگے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزن آپ کی امت کے دس آدمیوں کے ساتھ کیا گیا تو آپ کا پلڑا جھک گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزن سو آدمیوں کے ساتھ کیا گیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پلڑا جھک گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وزن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ کیا گیا تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وزن میں ان سے بڑھ گئے۔ اس پر فرشتے نے اپنے ساتھی سے کہا:

’’ان کا وزن کرنے کو رہنے دو، کیونکہ اگر تم ان کا وزن ان کی پوری امت سے کرو گے پھر بھی ان کا پلڑا بھاری رہے گا‘‘۔

(مسند امام احمد بن حنبل، ج 4، ص180)

جی ہاں، اگر صحابہ، تابعین، تبع تابعین، قیامت تک کے مشاہیر عالم، تمام صوفیاء، اتقیاء، اولیاء اور نیکو کار جنہوں نے لوگوں کے دلوں کو وا کرکے ان تک رسائی حاصل کی ان کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے تو یہ دوسرا پلڑا جھک جائے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی تمام موجودات کے وجود کا سبب ہے۔ آپ کی ہی خاطر ساری کائنات کو پیدا کیا گیا۔ یہ مقولہ تو زبان زد عام ہے:

لولاک ماخلقت الافلاک.

’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا‘‘۔

(کشف الخفاء، العجلونی، ج2، ص164)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تمام قابل محبت چیزوں سے زیادہ محبوب اور ہم سے قریب تر ہے۔ میں صرف اس نقطہ سے اپنے احساسات کا آپ سے تبادلہ کرنا چاہتا ہوں، وگرنہ ادب کا تقاضا تو یہ ہے کہ میں آپ لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار نہ کروں۔

جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے مقامات مقدسہ کی خاک سے اپنی پیشانی آلودہ کرنے کے لئے ان کی زیارت سے نوازا تو مجھ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر کے انوارات کا اس قدر ظہور ہوا کہ میں ناقابل بیان روحانی خوشی محسوس کرنے لگا یہاں تک کہ میں سوچنے لگا کہ اگر بالفرض اس وقت میرے لئے جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے اور مجھے ان میں داخل ہونے کی پیشکش کی جاتی تو سچ جانیے میں اعلیٰ ترین جنت میں داخلے پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر میں قیام کو ترجیح دیتا۔

اس موضوع پر گفتگو کے دوران میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک اور واقعہ بھی بیان کرتا چلوں:

ایک دفعہ ہم حج کے سفر میں تھے میرے ساتھ موجود ایک دوست نے یہ نذر مان رکھی تھی کہ مدینہ منورہ پہنچ کر اس کی خاک میں لوٹیں گے۔ چنانچہ ہم جیسے ہی مدینہ منورہ پہنچے، انہوں نے اپنے آپ کو زمین پر ڈال دیا اور مٹی میں لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ مجھے جب بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میری آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں۔

چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لئے اسوہ حسنہ بننا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تمام انسانی صفات کے اعلیٰ ترین مراتب کی جامع تھی۔ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان کے مثالی سربراہ تھے اور جس گھر میں دوائے نبوت قطرہ قطرہ ٹپکتی تھی اگر اس میں تربیت پانے والے افراد میں سے ہر ایک کو مختلف ادوار میں تقسیم کردیا جاتا تو ان میں ایسے مجتہدین اور مجددین پیدا ہوتے جن میں سے ہر ایک سے زمانہ بھر منور ہوجاتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے سپہ سالار تھے، جس کے لئے جنگ کی گرمی کوئی دشواری پیدا نہ کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ذریعے جو چاند کے ہالے کی مانند آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد حلقہ ڈالے ہوتی تھی، ایسے ظالم اور سرکش بادشاہوں کے تخت الٹ دیئے جو پوری دنیا کے خلاف اعلان جنگ کرچکے تھے اور بڑے بڑے بادشاہ آپ کی محبت میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اس سے رہائی کی خواہش ان کے دلوں میں کبھی پیدا نہ ہوئی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فنون حرب کی تعلیم کسی سے حاصل نہ کی تھی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام علوم کی انتہا ہوجاتی ہے، گویا آپ ایک اسکرین کے سامنے بیٹھے قیامت تک کے واقعات کا مشاہدہ کرکے ہمیں بتارہے ہیں۔

(صحيح بخاری، کتاب القدر، 4)

اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وصال فرمائے کئی صدیاں بیت چکی ہیں لیکن اس آخری دور میں بھی تمام تر تحقیقات اور جدید ٹیکنالوجی کے تمام تر وسائل کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو پرچم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو برس پہلے گاڑھا تھا وہ اب بھی سب سے اونچا لہرا رہا ہے۔ ہم ایسے بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی دولت سے نوازا اور وہ قافلہ اسلام میں ایک روشن جماعت بن کر شامل ہوگئے۔ اس قسم کے بے شمار واقعات میں سے ایک واقعہ قارئین کی دلچسپی کے لئے آئندہ سطور میں پیش کیا جارہا ہے:

میں نے ٹورنٹو (Toronto) یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں سرجری کے کینیڈین پروفیسر کیتھ مور (Keith Moore) جو علم جینیات کے بھی اسپیشلسٹ ہیں کو ایک ویڈیو فلم میں دیکھا کہ وہ ماں کے پیٹ میں جنین کی نشوونما کے مختلف مراحل کے بارے میں قرآنی تعلیمات پر حیرت کا اظہار کررہے تھے کہ ان مراحل کا دور حاضر کی ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے بغیر انکشاف کیونکر ممکن ہوا۔ اسی طرح میں نے ایک جاپانی عالم طبیعات کو دیکھا کہ وہ کلمہ شہادت پڑھ رہے تھے اور اپنے علمی میدان سے متعلق قرآنی آیات کی صداقتوں کا مشاہدہ کرکے پورے اطمینان کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہورہے تھے۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ جب بھی سائنس کے راستے بند ہونے لگتے ہیں تو قرآن کریم سائنس کے سامنے نئے آفاق کھول دیتا ہے۔ جہاں سائنس کے علم کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کی ابتدا ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سارے علوم کس نے سکھائے؟ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات علیم و خبیر ہے، جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سارے علوم سیکھئے چونکہ ان علوم کے پس پردہ ازلی معلم موجود ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ان علوم میں پرانا پن آیا اور نہ ہی بوسیدگی، بلکہ مرور زمانہ سے ان میں مزید نکھار، حیات اور تروتازگی پیدا ہوتی گئی اور جب تک زمین وآسمان قائم رہیں گے، اس وقت تک ان کی نئی نئی جہتیں سامنے آتی رہیں گی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے صحابہ اور ساتھیوں میں محبوبیت کا ایسا مقام حاصل تھا جو کسی اور کے حصے میں نہ آیا۔ مثال کے طور پر جب کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ (جنہیں غزوہ ماء الرجیع میں قید کرلیا گیا تھا) کو قتل کرنے کے لئے لائے تو انہوں نے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو پھانسی دینے سے پہلے پوچھا: ’’کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہاری جگہ ہوتے اور تم اطمینان و سکون سے اپنے گھر ہوتے؟‘‘ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب میں ارشاد فرمایا:

’’نہیں، اللہ کی قسم! مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک میں کانٹا چبھے‘‘۔

اس بہادرانہ جواب کے بعد آپ نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے اور دعا کی: ’’اے اللہ ہم نے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچادیا تو بھی ہمارے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی اطلاع اسی وقت اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچادے۔ اس کے بعد کافروں کے بارے میں بددعا کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے اللہ ان کو چن چن کر مار، انہیں بکھیر کر ہلاک کر اور ان میں سے کسی ایک کو زندہ نہ چھوڑ‘‘۔ اس کے ساتھ ہی کافروں نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔

(صحيح بخاری، کتاب المغازی، 10)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہ کا یہ سلام مل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حزن و ملال کے ساتھ اپنے صحابہ کرام کو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع دی۔ موسی بن عقبہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق خبیب اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہما ایک ہی دن میں شہید کئے گئے اور اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا گیاـ: ’’اور تم پر بھی اللہ کی طرف سے سلامتی ہو۔ قریش نے خبیب کو قتل کردیا‘‘۔

(البداية والنهاية، ابن کثير، ج 4، ص76)

ایک اور واقعہ سنئے جو آج بھی ہر مومن کے دل کو تروتازگی بخشتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحابیہ حضرت سمیرا رضی اللہ عنہما نے جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی خبر سنی تو وہ جبل احد کے دامن کی طرف دوڑ پڑی، جہاں لوگوں نے اسے اس کے والد، شوہر اور بیٹوں کی لاشیں دکھائیں لیکن اس نے ان کی ذرا پرواہ نہ کی بلکہ مسلسل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلاش کرتی اور آپ کے بارے میں پوچھتی رہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اور آخر کار جب لوگوں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پتہ بتایا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف تیزی سے لپکی اور کہنے لگی: ’’اگر آپ خیریت سے ہیں تو پھر ہر مصیبت ہیچ ہے‘‘۔

 (ايضاً، ج6، ص115)

اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نے لوگوں کے دلوں اور سینوں میں بسیرا کرلیا تھا۔ صحابہ کرام کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کی ایک دوسری مثال بھی پڑھئے:

فخر دو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رفیق اعلیٰ سے ملاقات کے وقت کے آپہنچنے کی اطلاع مل چکی تھی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آسمانوں سے ملاقات کی دعوت موصول ہوچکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنے ان پیارے صحابہ کرام سے جدا ہونے کا وقت آچکا تھا، جنہوں نے تئیس برس تک آپ کے ساتھ جہاد کیا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی کے آخری ایام میں غمگین حالت میں اپنے صحابہ کرام سے ملنے کے لئے نکلتے اور صحابہ کرام بھی آپ کی اس حالت سے پریشان اور غمگین ہوجاتے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر میں داخل ہوتے دیکھتے تو ان کے سینے غم اور افسوس سے پھٹنے لگتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنے پیغامات، احکام اور تعلیمات پہنچانے کے لئے یمن روانہ فرماتے اور جب آپ رضی اللہ عنہ یمن سے لوٹتے تو چشم دید معاملات و واقعات اور پیش آمدہ مشکلات سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگاہ کرتے۔ یمن کی طرف اپنے آخری سفر پر روانہ ہونے سے پہلے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ دعا کی غرض سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

’’اے معاذ! ہوسکتا ہے کہ اس سال کے بعد تم مجھ سے نہ مل سکو اور شاید آئندہ تمہارا گزر میری مسجد اور قبر کے پاس سے ہو‘‘۔

 یہ ارشاد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ پر بجلی بن کر گرا۔ انہوں نے اپنے آپ کو بے بال و پر پرندے کی طرح محسوس کیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشکل ترین معاشرتی مسائل کو بڑی آسانی سے حل فرمالیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشریف لے جانے کے تیرہ سو سال بعد جارج برنارڈ شا (George Bernard Shaw) نے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’دور حاضر کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح کی ہستی کی ضرورت ہے جو چٹکیوں میں مشکلات کا حل تلاش کرلیتی ہو‘‘۔

یہ بڑی اہم بات ہے کیونکہ کمال تو وہی ہے جس کی دشمن بھی گواہی دیں۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ انسانیت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو اطمینان و سکون محسوس کرتی ہے، درخشاں و پرنور آفاق تک رسائی اور ذلت و جہالت سے چھٹکارا حاصل کرلیتی ہے، زمانے کے ہاتھوں کھیل تماشا بننے کی بجائے دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے سرفراز ہوتی ہے اور اپنے شایان شان بلند و برتر مرتبہ تک پہنچ جاتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر قسم کی مخالفتوں اور رکاوٹوں کے باوجود تمام آثار اور اشارے نئے سرے سے ترقی کی نوید سنارہے ہیں۔ جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہے:

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اﷲِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاﷲُ مُتِمُّ نُوْرِه. وَلَوْ کَرِهَ الْکٰفِرُوْنَ. هُوَ الَّذِيْ اَرْسَلَ رَسُوْلَه. بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَه عَلَی الدِّيْنِ کُلِّه وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَ.

’’یہ (منکرینِ حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے نور کواپنے منہ(کی پھونکوں) سے بجھادیں، جب کہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کردے خواہ مشرک کتنا ہی ناپسند کریں‘‘۔

(الصف:8-9)

اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جلد ہی اپنے دین کو غالب اور اپنے نور کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے اور پیاسی انسانیت اطمینان و سکون کی تلاش میں اس دین کی وسعتوں کی طرف دوڑنے لگے گی جس کے نتیجے میں دنیا میں ہی جنت کی زندگی کا مزا آنے لگے گا اور جلد ہی وہ صبح بھی طلوع ہوگی جب تمام انسانیت کے دل و دماغ کے دریچے خاتم الانبیاء اور سیدالاولیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے لئے کھل جائیں گے، جن کے مبارک نام کو ہم ہر روز پانچ مرتبہ علی الاعلان پکارتے ہیں، اگرچہ غفلت کے شکار مسلمانوں اور دشمنان اسلام کو یہ بات پسند نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس اطمینان و سکون کا باعث ہے۔ ہمارا پختہ ایمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لایا ہوا پیغام امن و آشتی کا سرچشمہ ہے۔ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ اس امن کو دوبارہ حاصل کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ انسانیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت سے راہنمائی حاصل کرے کیونکہ انسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے جس قدر متعارف ہوتا ہے، اسی قدر اس کے دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں خوشگوار تبدیلی آتی ہے۔