عوام غیر آئنی انتخابات قبول نہیں کریں گے

رپورٹ 23 دسمبر

’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے بامقصد اور حقیقت پر مبنی نعرہ کے ساتھ 23 دسمبر کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی وطن واپسی جہاں ایک طرف کارکنان تحریک کے لئے خوشی کا باعث تھی وہاں پاکستانی قوم کے لاکھوں افراد کے لئے بھی ہمت، حوصلہ اور جرات مندی کی نوید ثابت ہوئی۔ شیخ الاسلام کی وطن واپسی ان حالات میں ہوئی کہ کرپشن، بدعنوانی، بے روزگاری، مہنگائی، بیڈ گورننس، دہشت گردی، انتہا پسندی، معاشی زبوں حالی، سیاسی انتشار، اداروں کی باہم چپقلش اور دیگر عوامل نے 19 کروڑ عوام کے امن و سکون کو تہہ و بالا کررکھا ہے۔ ہر ایک اپنی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو کر دوسرے کو پچھاڑنے کی فکر میں ہے۔ عوام الناس اور قوم و ملک کے مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دیا جارہا ہے۔ ان حالات میں شیخ الاسلام کے انقلابی پیغام نے مایوس قوم کو صرف امید نہیں بلکہ یقین کی روشنی عطا کی۔

شیخ الاسلام کی وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی کارکنان تحریک اور ملک پاکستان کے درد مند افراد نے اپنی اپنی سطح پر اپنے عظیم قائد کی وطن واپسی کے لئے اپنی استطاعت سے بھی بڑھ کر استقبال کی تیاریاں شروع کردیں۔ شیخ الاسلام کی ہدایات کے مطابق ملک پاکستان کی مجبور و مقہور عوام کی داد رسی کے لئے اور انہیں موجود سیاسی، انتخابی اور معاشی استحصال سے نجات دلانے کے لئے اس استقبال کو صرف استقبال تک ہی محدود نہ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا بلکہ اسے 19 کروڑ عوام کے حقوق کی حفاظت اور انہیں سیاسی و معاشی استبداد سے نجات دلانے کے لئے ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے بامقصد سلوگن کا عنوان دے دیا گیا۔

ملک پاکستان کے چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کارکنان تحریک حقیقی تبدیلی کے آغاز کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ یونٹ، یونین کونسل، تحصیل، ضلع، ڈویژن اور صوبوں کی سطح پر موجود ہر کارکن کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے آنے والے رفقاء و کارکنان تحریک اپنی اپنی علاقائی تنظیمات کے ساتھ اس عظیم پروگرام کی کامیابی کے لئے ہر لحاظ سے شامل رہے۔ ملک بھر میں موجود کارکنان کی محنت اور کاوشوں کے نتیجے کے طور پر 23 دسمبر کو چشم فلک نے وہ نظارا دیکھا جب اندرون و بیرون ملک موجود لاکھوں کارکنان تحریک اور ہر درد مند پاکستانی نے شب و روز ایسی ہمہ جہتی جدوجہد کی کہ 65 سالوں سے ملک و قوم کی تقدیر پر قابض افراد کی نیندیں حرام ہونے لگیں اور بالآخر 23 دسمبر کو ایک ایسا عظیم الشان عوامی اجتماع منعقد ہوا جس نے ایک طرف 23 مارچ 1940ء کے تاریخی اجتماع کی یاد تازہ کردی اور دوسری طرف ایوان اقتدار میں ایک زلزلہ بپا کردیا۔ یہ اجتماع نہ صرف منہاج القرآن کی تاریخ کا بلکہ ملک پاکستان کا سب سے عظیم اجتماع قرار پایا۔ اس اجتماع میں 20 لاکھ افراد نے شرکت کرکے موجودہ فرسودہ، سیاسی و انتخابی نظام کے خلاف اعلان بغاوت کردیا۔اس عوامی اجتماع رپورٹ نذرِ قارئین ہے:

عوامی استقبال کے پروگرام کو ہر سطح پر کامیاب بنانے کے لئے انتظامی اعتبار سے محترم نائب امیر تحریک بریگیڈیئر (ر) اقبال احمد خان، ناظم اعلیٰ محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی اور سینئر نائب ناظم اعلیٰ محترم شیخ زاہد فیاض کی سربراہی میں قائم درجنوں کمیٹیاں اور ان کے سربراہان، سیکرٹریز و ممبران اور سٹاف مرکزی سیکرٹریٹ ہر ایک اپنے ٹارگٹ کے حصول اور تفویض کردہ امور کو احسن انداز سے نبھانے میں 2 ماہ تک مسلسل مصروف عمل رہے۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے استقبال اور ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘  کے نعرہ پر لبیک کہتے ہوئے ملک پاکستان کے ہر علاقے سے ہزاروں شرکاء کی آمد 20 دسمبر کی رات سے ہی شروع ہوگئی تھی جو 23 دسمبر شیخ الاسلام کے خطاب کے دوران تک جاری و ساری رہی۔ منہاج القرآن کے ہزاروں مرد و خواتین رضا کار اس پروگرام کے لئے تفویض کردہ ذمہ داریاں نبھارہے تھے۔ مینار پاکستان کے سبزہ زار میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ وسیع و عریض پنڈال بنایا گیا تھا جسے تین مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ مینار پاکستان کے سائے تلے مرکزی اسٹیج بنایا گیا ہے، جبکہ معزز مہمانوں کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اسٹیج تیار کیا گیا جہاں مہمانوں کے لئے ہزاروں کرسیاں لگائی گئی تھیں۔

عوامی اجتماع کے لیے مینار پاکستان آنے والے شرکاء کا جوش و خروش انتہائی دیدنی تھا۔ شرکاء میں نوجوانوں کی بڑی تعداد سمیت خواتین اور بڑی عمر کے لوگ بھی پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے، نعرے لگاتے ہوئے گروپس کی صورت میں پنڈال تک پہنچ رہے تھے۔ عوامی استقبال کے لئے آنے والے شرکاء میں ہر ایک کا جذبہ اپنی مثال آپ تھا مگر راولپنڈی سے پیدل سفر کر کے لاہور آنے والے بزرگ غلام حیدر بٹ، سیالکوٹ سے پیدل کارواں کے ساتھ آنے والے محترم بزرگ اور کئی شہروں سے اس جوش و جذبہ اور منفرد طریق سے آنے والے لوگ نوجوانوں کے حوصلوں کو بلند رکھنے اور پروگرام سے پہلے ہی زبان حال سے کامیابی کی نوید سنارہے تھے۔

3 دن قبل آنے والے لاکھوں شرکاء کے لیے بادشاہی مسجد کے سامنے عتیق اسٹیڈیم میں رہائش اور کھانے کے انتظامات کیے گئے تھے۔ لاکھوں لوگوں کی رہائش اور کھانے کے انتظامات کے حوالے سے یہ پاکستان کی تاریخ کا منفرد پروگرام تھا جو اپنے تنظیمی اور انتظامی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوارہا تھا۔

عوام کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، موسمی حالات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے محبوب قائد ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے تاب تھا۔ ان شرکاء کے جذبات اور عقیدت و محبت کے پیش نظر 21 اور 22 دسمبر کو بھی مینار پاکستان پر تلاوت قرآن، نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، محفل سماع، خطابات اور ملی و تحریکی نغموں کا ایک سلسلہ جاری رہا۔ مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے ہزاروں نوجوانوں نے پنڈال میں کھڑے ہو کر change کا لفظ لکھا۔ منہاج یوتھ لیگ کے نوجوانوں نے عظیم الشان محفل سماع کا اہتمام کیا جس میں نامور نعت خواں اور قوال حضرات نے نعتیں اور قوالیاں پیش کیں۔

23 دسمبر کے دن کے آغاز پر سورج نے مینار پاکستان اور اس کے گردو نواح ہر طرف انسانوں کا سمندر دیکھا جو عظیم اجتماع 23 مارچ 1940ء کی یاد دلا رہا تھا۔ پنڈال میں لاکھوں سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے، اسٹیج پر ملی ترانوں کی گونج تھی۔ شاہدرہ، اسٹیشن، سیکرٹریٹ سمیت تمام مین سٹرکوں پر ساونڈ سسٹم نصب تھا۔ پروگرام میں دوسرے شہروں سے آنے والوں کی بسوں کی قطاریں راوی پار تک لگی ہوئی تھیں۔ مینار پاکستان گراؤنڈ کو جانے والے تمام راستوں پر کئی کئی میل تک بسوں اور گاڑیوں کی پارکنگ تھی۔

مرکزی سٹیج کے پیچھے آویزاں ’’تصور، تخلیق اور تعمیر‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ’’علامہ محمد اقبال، قائد اعظم اور شیخ الاسلام‘‘ کی تصاویر ایک طرف شرکاء اجتماع کو قائدانہ اوصاف کی طرف متوجہ کررہے تھے تو دوسری طرف سٹیج کے دونوں جانب مہمانوں کے لئے موجود سٹیج پر تحریک پاکستان کے قائدین کی تصاویر تحریک پاکستان کے لئے قربانیاں دینے والوں اور جدوجہد کرنے والوں کی یاد دلارہے تھے کہ تعمیر پاکستان کے لئے نئے سرے سے سفر شروع کرنا ہوگا۔

سٹیج پر محترم امیر تحریک، نائب امراء تحریک، ناظم اعلیٰ، سینئر نائب ناظم اعلیٰ، نائب ناظمین اعلیٰ، منہاج القرآن علماء کونسل، یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، منہاج القرآن ویمن لیگ اور جملہ مرکزی قائدین اور فورمز کے سربراہان بھی مہمانان گرامی کے ساتھ موجود تھے۔ علماء و مشائخ، ڈاکٹرز، وکلاء، انجینئرز، صحافی، کاشتکار، صنعتکار، دیگر طبقات کے لئے درجہ بندی کے لحاظ سے بیٹھنے کے الگ الگ انتظامات کئے گئے تھے۔ جملہ TV چینلز کے نمائندگان، اخبارات کے سینئر رپورٹرز اور دیگر میڈیا شخصیات کے لئے باقاعدہ جگہ مخصوص تھی جہاں سے وہ اس پروگرام کو دنیا بھر میں براہ راست نشرکررہے تھے۔ منہاج TV، منہاج انٹرنیٹ بیورو اور منہاج میڈیا کے احباب بھی مکمل یکسوئی اور لگن کے ساتھ نہ صرف اپنی ذمہ داریاں نبھارہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ باہر سے آنے والے میڈیا پرسنز کو بھی مکمل معاونت فراہم کررہے تھے۔

محترم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے اجتماع میں خصوصی شرکت کے لئے ایک وفد اور ایم کیو ایم کا سینئر افراد پر مشتمل 50 رکنی وفد بھی ڈپٹی کنوئنر محترم فاروق ستار کی قیادت میں سٹیج پر موجود تھا۔ اس عوامی اجتماع کا آغاز تلاوت و نعت سے کیا گیا، بعد ازاں ملی و تحریکی نغمے پیش کیے گئے۔ اس موقع پر پنجاب، خیبر پختوانخواہ، سندھ، بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان، سرائیکی خطے اور ہزارہ کے نمائندگان نے بھی اپنا پیغام شرکاء تک پہنچایا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیراہتمام پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے قومی پرچم کی نمائش بھی کی گئی۔ اس اجتماع میں استقبالیہ کلمات نائب امیر تحریک محترم علامہ صادق قریشی اور محترم ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے ادا کئے جبکہ نقابت محترم انوار المصطفی ہمدمی، محترم محمد وقاص قادری اور یوتھ لیگ و MSM کے احباب نے کی۔ نامور علماء کرام اور پاکستان بھر سے تمام بڑی خانقاہوں کے سجادہ نشینان اور مشائخ عظام کی ایک بہت تعداد سٹیج پر موجود تھی۔ علاوہ ازیں تاجر، سیاستدان، وکلاء، ماہرین تعلیم، بیوروکریٹ، اسکالرز، مزدور رہنماء، ڈاکٹرز، انجینئرز، شوبز شخصیات اور کھلاڑیوں سمیت زندگی کے ہر طبقہءِ فکر سے معزز مہمان تاریخی اجتماع میں شامل تھے اور شیخ الاسلام کو اپنی حمایت کا یقین دلارہے تھے۔ یہ پروگرام اس حوالے سے اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد تھا کہ سکھ، مسیحی، ہندو اور دیگر مذاہب کے نمائندوں نے بھی پروگرام میں خصوصی شرکت کی اور پاکستان کو ہمہ جہتی استحکام دینے کے لئے شیخ الاسلام کے ایجنڈے اور موقف کی تائید کرتے ہوئے مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جونہی مینار پاکستان پہنچے تو لاکھوں لوگوں نے آپ کا فقید المثال استقبال کیا۔ فضا خیر مقدمی نعروں اور ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ شرکاء کے محبت و جذبات کے ان نعروں کا شیخ الاسلام نے ہاتھ ہلا کر اور وکٹری کا نشان بنا کر جواب دیا۔ بعد ازاں آپ نے 2 گھنٹے کی تقریر میں پاکستان کے مسائل و بحرانوں کا آئینی حل پیش کیا۔ ذیل میں شیخ الاسلام کے اس تاریخی خطاب کا خلاصہ اور اہم نکات درج کئے جارہے ہیں۔

شیخ الاسلام کا تاریخی خطاب

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب کے آغاز میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما محترم بشیر احمد بلور اور خودکش حملوں میں شہید ہونے والے جملہ افراد کے لئے فاتحہ خوانی کی۔ بعد ازاں آپ نے پاکستان کے مسائل اور درپیش حالات پر آئینی حل پیش کرنے سے قبل اپنی آمد، ایجنڈے اور اجتماع پر آنے والے اخراجات کے متعلق شکوک و شبہات اور اعتراضات کو رد کیا۔ آیئے یہ سب انہی کے الفاظ میں جانتے ہیں۔

یہ عوامی اجتماع کیوں اور کیسے منعقد ہوا؟

ہماری سوسائٹی کی بدقسمتی ہے کہ ہم کسی بھی بات کو جب سوچتے ہیں تو سوچ کی ابتداء بدگمانی سے کرتے ہیں۔ کاش! ہمارا کلچر مثبت قدروں پر استوار ہو جائے۔ لہذا میں گفتگو کی ابتداء تین حلفوں سے کررہا ہوں۔ اس لئے کہ آج اٹھارہ کروڑ عوام کے نمائندہ اجتماع کی عدالت اور نمائندہ پارلیمنٹ کا اجلاس ہے۔ حلف دینے کی ضرورت اس لئے پیش آرہی ہے کہ میں اپنے خطاب سے قبل غلط فہمیاں اور بدگمانیاں ختم کرنا چاہتا ہوں تاکہ لوگ میرے ایجنڈے، میرے منشور اور میری بات کو سنیں اور اس سے میرٹ پر اتفاق کریں یا اختلاف۔ میری بات سے اگر اختلاف ہے تو اس سے دلیل کے ساتھ اختلاف کریں لیکن میری نیت پر شک و شبہ نہ کریں۔

  • پہلا حلف: میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر، اللہ کے حضور قرآن کا حلف دے رہا ہوں اور شفاعتِ محمدی کا حلف دے رہا ہوں کہ اس اجتماع کے منعقد کرنے کے پیچھے دنیا کا کوئی ملک، کوئی ادارہ، کوئی اندرونی یا بیرونی ایجنسی کا عمل دخل نہیں ہے۔ نہ کسی کی خواہش ہے، نہ کسی کا ارادہ ہے اور نہ کسی کو خبر تھی۔ میرا آج کا پروگرام کسی ملک کی خارجی اور داخلی ایجنسی کا ایجنڈا نہیں ہے۔ مسلمان کلمہ گو کے لیے میرا یہ حلف بحیثیت مسلمان ہی کافی ہے۔
  • دوسرا حلف: میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر اس کے حضور اس کی مقدس کتاب قرآن مجید کا حلف دے رہا ہوں کہ اس پورے اجتماع - جس میں آپ کے کروڑوں روپے لگے ہوئے ہیں- کے جملہ انتظامات، لوگوں کا بسوں اور ریل گاڑیوں پر آنا، اس پروگرام کی دنیا بھر میں تشہیر اور دیگر مدات پر کیے گئے جتنے اخراجات بھی ہوئے ان میں دنیا کے کسی ملک کا، کسی ادارے کا، کسی بیرونی یا اندرونی ایجنسی کا، یا کسی کے نمائندے کا بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی بھی شکل میں ایک پیسہ بھی شامل نہیں۔ تمام انتظامات کی مالی قربانی سو فیصد تحریک منہاج القرآن کے کارکنان نے کی ہے اور ان کے ساتھ پاکستان کے عوام، تاجر، علماء، عامۃ الناس جو اس ملک کی تقدیر کو بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں انہوں نے حسب توفیق ان کارکنان کے ساتھ معاونت کی ہے۔ اس کے سوا روئے زمین کی کسی طاقت کا ایک پیسہ اس پورے انتظام میں شامل نہیں۔ اس پر میرا اللہ گواہ ہے۔
  • تیسرا حلف: اللہ کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ اس اجتماع کی غرض و غایت ہر گز ہر گز آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں ہے، نہ جمہوریت کا خاتمہ ہے۔ ان ساری بدگمانیوں کو ذہن سے نکال دیں اور مسلمان ہو کر مسلمان بھائی کی بات کو میرٹ پر سنیں، دلیل سے قبول کریں اور دلیل سے رد کریں۔ اس پوری struggle، آج کے اجتماع اور اس تحریک کے مقصد میں اللہ رب العزت گواہ ہے کہ کسی مارشل لاء کا راستہ ہموار کرنا ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے۔ اگر آرمی نے take over کرنے کی کوشش کی تو میں سیاسی لیڈروں سے پہلے اس دھرتی میں اس take over کو روکنے کے لیے آگے بڑھوں گا۔

آج کے اس اجتماع کا مقصد اس ملک میں سیاسی عمل کی بساط کو لپیٹنا بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مقصد ملک کو جمہوریت سے ہٹانا ہے بلکہ اس اجتماع کا مقصود سیاست کو غلاظت سے پاک کرنا ہے۔ سیاست کو اجارہ داریوں سے پاک کرنا ہے۔ سیاست کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، ظالموں اور جابروں کے ظلم سے نظام سے پاک کرنا ہے۔ سیاست میں اٹھارہ کروڑ غریبوں کو ان کا حق دلانا ہے۔ نظام انتخاب اور نظام سیاست کی درستگی ہے۔ اس ملک سے سیاسی اور معاشی استحصال کا خاتمہ ہے اور ریاست پاکستان جن خطرات میں گھری ہوئی ہے اسے ان خطرات اور گرداب سے نکال کر محفوظ و مامون کرنا ہے۔

میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ آج کا اجتماع ممبران اسمبلی، سرکاری ملازمین، پٹواری اور پولیس والے نہیں لائے۔ اسکولز، کالجز، یونی ورسٹیاں بند کر کے بچوں کو نہیں لایا گیا، اس پر سرکار کے، ریاستوں کے یا حکومتوں کے پیسے خرچ نہیں ہوئے۔ یہ لوگ اپنے گھروں کے زیور، موٹرسائیکل، گاڑیاں، اپنے پلاٹ بیچ کے آئے ہیں۔ یہ غریب لوگ جن کے پاس کھانے کا لقمہ نہ تھا، انہوں نے بھوک برداشت کی ہے مگر اس وطن سے بھوک کو ختم کرنے کے لیے قربانیاں دے کر آئے ہیں۔ میں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو سلام کرتا ہوں۔ لاکھوں کی تعداد میں آج کے اتنے بڑے اجتماع نے بتادیا کہ اٹھارہ کروڑ عوام ریاست کو بچانا چاہتے ہیں، لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی کی سیاست کو نہیں بچانا چاہتے۔

ہم سیاستِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قائل ہیں

میں یہ بھی واضح کر دوں کہ بعض لوگوں کو ’’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ کے نعرہ سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ شاید میری جدوجد سیاست کے خاتمے کے لیے ہے۔ نہیں، ہر گز نہیں، میں سیاست پر ایمان رکھتا ہوں، ریاست مدینہ کا قیام سیاستِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔ یہود اور مسلمانوں کو ملا کر مدینہ کا آئین تیار کرنا سیاستِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی۔ خلافتِ راشدہ تاریخ اسلام کا سب سے بڑا سیاست کا دور تھا۔ میں ہر قسم کی آمریت و بادشاہت کے خلاف ہوں خواہ وہ فوجی ہو یا سیاسی، خاندانی ہو یا انتخابی ہر غیر جمہوری اور آمرانہ طرز حکومت کو اسلام کے خلاف سمجھتا ہوں۔ میں اول تا آخر صاف ستھرے سیاسی عمل اور حقیقی جمہوریت اور جمہوری نظام کا قائل ہوں اور اسی کی بحالی کی جنگ لڑ رہا ہوں۔

ہم جس سیاست کو اس مقدس سرزمین پاکستان میں رواج دینا چاہتے ہیں وہ سیاست اسلام کے زریں اصولوں پر قائم خلافتِ راشدہ سے راہنمائی پر مبنی ہوگی۔ جس سے معاشرے میں عدل و انصاف، معاشی و معاشرتی برابری اور اعلیٰ اخلاقی اقدار پروان چڑھیں۔ اگر ہمارا نظام سیاست اور نظام انتخاب اعلیٰ اصولی و اخلاقی اقدار پر قائم ہو جائے تو یہ سیاست ریاست کو بچا سکتی ہے۔ مگر جس لوٹ مار، کرپشن، اجارہ داری، دھن، دھونس اور دھاندلی کا نام ہم نے سیاست بنا رکھا ہے، اس سیاست سے ریاست کو نہیں بچایا جا سکتا۔ کیا سیاست اس عمل کا نام ہے کہ اس ملک کے کروڑوں غریب بھوک، غربت اور افلاس کی آگ میں جلیں اور پانچ پانچ سال تک پارلیمنٹ میں بیٹھنے والی سیاسی حکومتیں ان کی غربت و افلاس کے خاتمے کا ایجنڈا تیار نہ کر سکیں۔ کیا یہ سیاست ہے؟ کیا یہ سیاست ہے کہ خود تو سیاسی لیڈر سینکڑوں کنال پر مشتمل گھروں اور محلات میں رہیں اور اربوں کھربوں روپے روزانہ ان کے محلات پر خرچ ہوں اور کروڑوں غریبوں کو اس ملک میں کھانے کے لیے لقمہ نہ ملے۔ تن ڈھانپنے کے لیے لباس نہ ملے اور سر چھپانے کے لیے گھر نہ ملے، کیا اس کا نام سیاست ہے؟ میں اس کو مسترد کرتا ہوں۔ ہم اُس سیاست کو مسترد کرتے ہیں جس میں ملک پاکستان کی ترقی و استحکام کا کوئی منصوبہ ہم نے نہیں دیکھا۔ ہم اُس سیاست کو مسترد کرتے ہیں جس میں ملک کی سالمیت، آزادی اور خودمختاری کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی، جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پانچ سال تک پارلیمنٹ میں کوئی قانوں نہیں بنایا جا سکا۔ ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جو ملک پاکستان کو امن نہ دے سکے۔

ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جس میں قتل و غارت گری ہو۔ جس میں اغوا ہو، دہشت گردی ہو اور لوگ خود تاوان دے کر اغواء کاروں سے چھوٹ کر آئیں اور انہیں ملک میں کوئی تحفظ دینے والا نہ ہو۔ ہم اِس سیاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جس میں کروڑوں لوگوں کو پانی، بجلی، سوئی گیس کی فراہمی کا بندوبست نہ کیا جا سکے۔ ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جس میں بھوک کے مارے ہوئے لوگوں کو خود کُشیوں اور تن سوزیوں سے روکنے کی گنجائش نہ ہو۔ ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جس میں نوجوان نسل کا مستقبل تاریک ہو رہا ہو۔

’سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘ سے میری مراد سیاست کے نام پر یہ گھناؤنا کھیل ہے جو اٹھارہ کروڑ غریبوں کی غربت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ میں اس سیاست کو بچانا چاہتا ہوں جو ریاست کو بچاتی ہے اور وہ سیاست قائد اعظم کی سیاست ہے جو اتحاد کی سیاست ہے، جو یقین کی سیاست ہے، جو تنظیم کی سیاست ہے، جو محبت کی سیاست ہے، جو اخوت کی سیاست ہے، جو وحدت کی سیاست ہے۔ میں اُس سیاست کو بچانا چاہتا ہوں جو ملک سے نفرتوں کو ختم کر دے اور جو ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بجائے اسے ایک اکائی بنا کے رکھ دے۔

میرا مقصد کیا ہے؟

یاد رکھیں! میرا ایجنڈا پاکستان سے انتخابات کو ختم کروانا نہیں ہے۔ اس مغالطہ کو دور کرلیں اور میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میرا ایجنڈا انتخابات ختم کروانا نہیں بلکہ انتخابات کو درست کروانا ہے۔ نظام انتخابات میں اصلاح کروانا ہے تا کہ انتخابات اس ملک کو صحیح قیادت دے سکیں۔ وہ انتخابات لانا ہے جس میں پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ پارٹیاں ٹکٹ نہ بیچ سکیں۔ اِس نظام سیاست میں اور نظام انتخاب میں آئینیت اور دستوریت کا فقدان ہو چکا ہے، ہم اُس کو بحال کروانا چاہتے ہیں۔ اِس ملک سے Rule of Law ختم ہو چکا ہے، ہم اُس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں کا نفاذ ختم ہو گیا ہے، ہم اُس کی بحالی آئین کے مطابق کرانا چاہتے ہیں۔ اِس ملک کا طرزِ حکمرانی کرپشن پر مبنی ہو گیا ہے، governance مایوس کُن حد تک معطل ہے، ہم اُسے good governance میں بدلنا چاہتے ہیں۔ ہماری معیشت پگھل رہی ہے، ہم معیشت کو سنبھالا دینا چاہتے ہیں۔ ہر سطح سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میں اِس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہوں۔ ہم نہ صرف خود غیر محفوظ ہو گئے بلکہ ہم دہشت گردی کے exporter بن گئے اور دنیا کو ہم سے threat ہوگیا ہے۔

اِس ملک کی سیاسی جماعتوں، عدالتوں، افواج پاکستان، پارلیمنٹ، میڈیا اور اٹھارہ کروڑ عوام سے میرا سوال ہے کہ اگر حکومتیں منتخب ہو کر اپنے ملک کے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ نہیں دے سکتیں، اگر اپنے ملک کے شہروں کا امن بحال نہیں کر سکتیں، اُن کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج، صحت، تعلیم، روزگار مہیا نہیں کر سکتیں، تو کیا یہ سیاست ہے اور کیا یہ آئین و قانونی حکومت ہے؟ نہیں، یہ حکومتیں اور نظام غیر آئینی بھی ہے، غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی ہے۔ ہم ایسے نظام کو ہرگز قبول کرنے کو تیار نہیں۔

خیبر پختونخواہ کے بالائی سرحدی علاقوں پر حکومت پاکستان کی رِٹ ختم ہو چکی ہے۔ بلوچستان کے حالات سنبھالنے میں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ ان حالات میں آپ کا اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟

پوری امت مسلمہ کی واحد نیوکلئیر پاور ہم ہیں۔ اس حوالے سے ہم دنیائے اسلام کا فخر تھے، مگر اب ہم ہر جگہ اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ دنیا ہمیں کرپٹ اور ناکام ریاست کے طور پر دیکھتی ہے۔ ہمارا طرزِ حکمرانی ناکام، ہماری سیاست ناکام، معیشت ناکام، ملکی استحکام کمزور، تعلیم پسماندہ، صحت ناکام، سالمیت خطرے میں، آزادی خطرے میں، خود مختاری خطرے میں، عوام کی اخلاقی، سماجی حالت تباہ کُن، نظام کے اندر شفافیت ختم، میرٹ کا نظام ختم، انسانی حقوق ختم، امن و سلامتی ختم، لوگوں کی بنیادی ضروریات ختم، جان و مال کی حفاظت ختم، مستقبل ہمارا ختم، علم اور ہنر مندی کا مستقبل ختم۔ مجھے کوئی ایک شعبہ بتائیں جس کا پہلو قابل تعریف ہو، حوصلہ افزاء اور رُوبہ ترقی ہو؟ الغرض ہم totally collapse ہو رہے ہیں، سسٹم تباہ ہو رہا ہے۔ ہماری سیاست صرف جوڑ توڑ، گالی گلوچ، اگلا الیکشن جیتنے، سازشی منصوبہ بندی کا نام ہے۔ اس کے سوا ہماری کوئی ترجیح قومی سطح پر نہیں رہی۔

اگر سیاسی لیڈر اور حکمران اپنے مفادات کے تحفظ اور ریاست کو زوال میں دھکیلنے والے ہر کام میں مصروف ہیں اور اٹھارہ کروڑ عوام کی مدد کرنے اور ان کو حق پہنچانے کی فرصت اُن کے پاس نہیں تو سن لو! اب اٹھارہ کروڑ عوام اپنا حق لینے کے لیے خود اٹھیں گے۔ میرا پیغام ہے کہ

زندگی بھیک سے نہیں ملتی
زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے

کیا کبھی کسی نے فکر کیا؟ جاؤ کراچی کی چھوٹی آبادیوں میں دیکھو، ایک چھوٹے گھر میں درجنوں لوگ جانوروں کی طرح رہ رہے ہیں۔ سندھ کے حالات دیکھیں، بلوچستان میں جا کر دیکھئے، صرف لاہور کی بڑی شاہراہیں نہ دیکھیں۔ جنوبی پنجاب میں جائیے، خیبرپختونخواہ میں جائیے، غربت کی آگ میں لوگ جل رہے ہیں، عزتیں بیچ رہے ہیں، ایمان بیچ رہے ہیں، ضمیر بیچ رہے ہیں، ووٹ بیچ رہے ہیں۔ کیا اس حالت میں ہونے والے انتخابات آزادی رائے ہے؟ کیا یہ جمہوریت ہے؟ کیا یہ آئینی انتخاب ہے؟

پانچ سال لُوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے، ادارے ٹکراتے ہیں، لاشیں گرتی ہیں، خون بہتا ہے، لوگ جلتے مرتے ہیں، کوئی کسی کا پرسان حال نہیں۔ جب پانچ سال ختم ہونے کو آتے ہیں تو پھر ایک نیا سیاست کا بازار گرم کرنے کا شور مچتا ہے کہ نہیں اس ٹائم کے اندر پھر الیکشن ہونے چاہییں۔

غور سے سنیں! اب Action replay نہیں ہو گا۔ استحصال، کرپشن اور دھاندلی کا الیکشن نہیں ہو گا۔ الیکشن ہوگا، ضرور ہوگا مگر عدل و انصاف کا، آزادیِ رائے کا، ہر شعبہ کو استحصال سے پاک کرنے کے بعد الیکشن ہوگا۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ نظام deliver نہیں کر رہا، کرپشن تیزی سے بڑھ رہی ہے، شفافیت ختم ہے، خود احتسابی نظام میں موجود نہیں، آئین کی پاس داری نہیں، دستوریت کا وجود نہیں، حکومت کی کارکردگی گرتی جا رہی ہے، پاکستان کی بقاء خطرے میں ہے۔ اگر یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج مداخلت نہ کرے؟ ہم بھی فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ فوج کا یہ کام نہیں، اس کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے لیکن اگر ہمیں فوج کی مداخلت کو روکنا ہے تو ہمیں اپنی حکومت آئین کے مطابق چلانا ہوگی۔ فوج کی مداخلت کو روکنا ہے تو ہمیں قانون کی حکمرانی لانی ہوگی، ہمیں پارلیمنٹ کو صحیح مؤثر بنانا ہوگا۔ انتخابی نظام کو صاف و شفاف بنانا ہوگا، حکومت کی کارکردگی کو improve کرنا ہو گا، جمہوریت کا صحیح کلچر لانا ہوگا، عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا۔ اگر نظام از خود صحیح چلے تو اس ملک میں فوج کبھی مداخلت کی جرات نہیں کرسکتی لیکن اگر ہمارا نظام total collapse ہوچکا ہو تو پھر آپ مداخلت کو روک نہیں سکتے۔

میرا ایجنڈا آئین پاکستان کے مطابق ہے

میں جو ایجنڈا، تجویز اور منصوبہ دے رہا ہوں وہ آئین پاکستان کے مطابق ہے اور پاکستان کے آئین کی ایک شق بھی اس سے الگ نہیں۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ آئین پاکستان کس طرح کے انتخابات چاہتا ہے؟ میں پاکستان کے آئین کا پابند ہوں۔ اب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس آئین کے خلاف کسی کو چلنے نہیں دیں گے۔ اب ملک کی سیاست کو اس آئین کے تابع کریں گے، ملک کے نظام انتخاب کو اس آئین کے تابع کریں گے۔ اس آئین کو حکمران بنائیں گے۔

انتخابات کے لئے آئین کا تقاضا

آئین پاکستان کا آرٹیکل 3 کہتا ہے کہ

The State shall ensure the elimination of all forms of exploitation

’’ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر قسم کا استحصال ختم کرے‘‘۔

میں عدالت عظمیٰ، افواج پاکستان، چیف الیکشن کمشنر، پاکستان کی سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور عوام پاکستان سے پوچھتا ہوں کہ ملک میں نئے انتخابات ہونے جا رہے ہیں کیا انتخابی عمل میں غریبوں کا جو استحصال ہوتا ہے، تھانے، کچہری، دھن، دھونس، دھاندلی کا استعمال ہوتا ہے، پوری برادریوں کا سودا ہوتا ہے۔ جھوٹے مقدمے، غنڈہ گردی، دہشت گردی، یہ سارے استحصال، کیا آپ نے الیکشن سے پہلے ختم کرنے کی ضمانت حاصل کر لی ہے؟ ایک طرف نہتا غریب، ہاری، مزارع اور دوسری طرف اس کا جاگیردار۔ وہ الیکشن استحصال کا الیکشن ہوگا یا آزادیِ رائے کا ہوگا؟

آئین کا آرٹیکل 9 افراد کے تحفظ کے بارے میں کہتا ہے کہ

’’کسی شخص کی جان اور آزادی کو کوئی خطرہ نہ ہو گا‘‘۔

مجھے بتائیے! کیا الیکشن میں کمزور مخالف امیدوار اور ان کے سپوٹرز کی جان اور آزادی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا؟ کیا انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا؟ ان پر مقدمے نہیں ہوں گے؟ الیکشن کمشنر کے پاس قانون سازی کی اتھارٹی ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو آزاد بنا دیا اور چیف الیکشن کمشنر ایک دیانت دار شخص مقرر کیا۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ بڑا قابل سرجن متعین کر دیں اور آپریشن تھیٹر میں اس کے پاس آپریشن کا سرے سے سامان ہی کوئی نہ ہو، تو وہ سرجری کیا کرے گا؟ ہسپتال کا MS لگا دیں اور عملے کو ردّ و بدل کرنے کا اس کے پاس قانونی اختیار بھی نہ ہو۔ قانون بنانے کا اختیار پارلیمنٹ میں ہے اور چیف الیکشن کمشنر ایماندار بندہ تنہا بٹھا دیا ہے۔ بے بس، بے یار و مددگار۔ ان کے پاس اپنا عملہ بھی کوئی نہیں۔ وہ کس طرح لوگوں کی جان و مال اور آزادی رائے کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے گا۔ ایسے ماحول میں جہاں بھتے بھی چل رہے ہوں، تاوان بھی چل رہے ہوں اور مقدمے بھی چل رہے ہوں۔

آئین کا آرٹیکل 37 کہتا ہے:

’’ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو معاشرتی انصاف مہیا کرے اور ہر قسم کی برائیاں جو آزادیءِ رائے پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، جو الیکشن میں لوگوں کے فیصلے کو متاثر کر سکتی ہیں، ان ساری خرابیوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے‘‘۔

میں قومی اداروں اور سیاسی جماعتوں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ان برائیوں کے خاتمے کی سو فیصد ضمانت مہیا کر لی گئی ہے؟ نہیں۔ جب یہ مہیا نہیں کی گئی تو وہ الیکشن کس اعتبار سے آئین پاکستان کے مطابق ہے؟ ان میں سے کسی ایک شق پر بھی عمل نہیں ہو رہا تو کیا یہ حکومت آئینی ہے؟ آئین کا صرف ایک آرٹیکل سب کو یاد ہے کہ صرف 90 دن کے اندر الیکشن ہونا چاہیے۔ جب کہ آئین کے دیگر پچاس آرٹیکل بھی اتنے ہی محترم ہیں لیکن وہ کسی کو یاد نہیں۔

آئین کا آرٹیکل 38 کہتا ہے:

The State shall secure the well-being of the people

’’ریاست پر لازم ہے کہ لوگوں کی زندگی اور معاشی حالات کو بہتر بنائے‘‘

تاکہ طاقت ور لوگ ان کا استحصال نہ کر سکیں اور وہ بغیر خوف اور ڈر کے اپنی رائے کو آزادانہ استعمال کر سکیں۔ کیا یہ well-being لوگوں کو مہیا کر دی گئی ہے؟ میرا سوال سب سے ہے کہ کیا آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت یہ ضمانت مہیا کر دی گئی ہے کہ غریب و امیر کے اس فرق کو اتنا مٹا دیا جائے کہ کوئی امیر اور طاقت ور غریب اور کمزور کی رائے لینے میں اس پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

آرٹیکل 38 (a)کہتا ہے:

زمیندار اور کسانوں کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ سرمایہ دار اور مزدور کی آمدن کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔

اس دھرتی پرکیا توازن نظر آ رہا ہے؟ فیکٹری کا مالک کھڑا ہو تو کیا مزدور آزادی رائے سے ووٹ دے سکے گا؟ جاگیردار کا بیٹا کھڑا ہو تو کیا وہاں ہاری اور کسان آزادیءِ رائے سے ووٹ دے گا؟

آرٹیکل 38 (d) کہتا ہے:

provide basic necessities of life, such as food, clothing, housing, education and medical relief, for all such citizens

’’ہر شہری کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں، جیسے خوراک، کپڑے، مکان، تعلیم، طبی سہولیات‘‘

کیا یہاں ہر شہری کو خوراک، لباس، مکان، تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات حاصل ہیں؟ آئین کہتا ہے کہ اگر وہ بے روزگار ہے، بیمار ہے یا کمزور ہے تو اسے اتنا بہتر کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں کوئی اس پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ یاد رکھیں! اگر یہ شرائط پوری کی جائیں تو انتخابات آئینی ہوں گے اور اگر یہ شرائط پوری نہ کی جائیں تو ہونے والا الیکشن کبھی آئینی نہیں ہو گا اور یہ قوم غیر آئینی الیکشن کو مسترد کر دے گی۔

آئین کے آرٹیکل 38 (e) کے الفاظ یہ ہیں:

To reduce disparity in the income and earnings of individuals

’’لوگوں کی آمدنی، ذرائع اور وسائل میں غیر معمولی فرق کو ختم کیا جائے‘‘۔

کیوں ختم کیا جائے؟ اس لیے کہ اگر بے پناہ غربت گی اور بے پناہ جہالت ہو گی تو اس صورت میں لوگ آزادانہ ووٹ کا استعمال نہیں کرسکیں گے اور ان پر طاقت ور لوگ اثر انداز ہوں گے۔

یہ بات درست ہے کہ چند مہینوں میں اور تھوڑے عرصے میں یہ سارے حالات نہیں بدل سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ کمزور ہوں اور خود اگر اپنے گھر کی حفاظت نہ کر سکیں تو کم سے کم قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے انہیں ڈاکوؤں اور چوروں سے تو بچا سکتے ہیں۔ اگر لوگ خود اتنے طاقتور نہیں تو الیکشن سے پہلے یہ نظام وضع کیا جائے کہ کوئی جاگیردار اور کوئی زمیندار اپنے مزارع کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کے اپنے حق میں ووٹ نہ ڈلوا سکے۔ کوئی سرمایہ دار اور کوئی غنڈہ اور کوئی طاقتور غریب لوگوں کو اور برادریوں کو ہانک کے ووٹ نہ ڈلوا سکے۔ یاد رکھیں! پولیس کے ذریعے، فوج کے ذریعے، law enforcing agencies کے ذریعے، جب تک لوگوں کو کامل تحفظ اور ان کی آزادیِ رائے کے تحفظ کی ضمانت نہ ہو وہ الیکشن غیر آئینی الیکشن ہوگا۔ اس کے لیے legal arrangments کرنے ہوں گے اور وہ چند مہینوں کی بات ہے۔ اگر غربت اور تعلیم کے مسائل کا حل کئی سالوں کا تقاضا کرتا ہے مگر عوام کے حقوق کو تحفظ حکومت کی طرف سے فراہم ہونا ہے تاکہ انہیں تھانہ اور کچہری پریشان نہ کرے، انہیں تحصیل دار اور پٹواری پریشان نہ کرے۔ دھن دھونس دھاندلی پریشان نہ کرے۔ پولیس اور فوج انہیں کامل تحفظ دے، غیر جانبدارانہ ماحول کی ضمانت ہو۔ اس عمل کے لیے چند مہینے کافی ہیں مگر اس کا کوئی اہتمام نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ دو پارٹیاں صرف اکیلے بیٹھ کر مک مکا کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ آپس میں دھاندلی نہ کر سکیں۔ وہ اپنی دھاندلی کو بچا رہی ہیں مگر اٹھارہ کروڑ عوام سے جو دھاندلی ہو رہی ہے اس کو کون بچائے گا۔

آرٹیکل 218 (III) یہ ہے کہ:

آئین نے الیکشن کے لیے پانچ شرائط لگائی ہیں :

  • الیکشن دیانت دارانہ ہوں۔
  • الیکشن منصفانہ ہوں۔
  • شفاف ہوں (کرپشن سے پاک ہوں)
  • قانون کے مطابق ہوں
  • کرپشن کے تمام طریقوں کا سد باب کردیا جائے۔

یہ پانچ شرائط اگر پوری ہوں تو الیکشن آئین پاکستان کے مطابق ہوں گے۔ اب تک ان پانچوں شرائط میں سے کسی ایک شرط کے پورا کرنے کی ضمانت فراہم نہیں کی گئی۔ آئین چیخ رہا ہے، مگر قانون بنانے والے اپنے مفادات کی وجہ سے اس طرح کا الیکشن نہیں کروانا چاہتے۔ وہ صرف دھن دھونس دھاندلی سے پرچیاں ڈلوانا چاہتے ہیں، وہ ووٹ خریدنا چاہتے ہیں اور دوبارہ منتخب ہو کر جلدی اسمبلیوں میں پہنچنا چاہتے ہیں تا کہ لوٹ مار کا بازار جلد ہی گرم کیا جا سکے۔

ہم لوٹ مار کا بازار گرم نہیں ہونے دیں گے اور وہ الیکشن قبول کریں گے جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 218 کی کلاز 3 کے تحت ہوں گے۔ میرا مطالبہ صرف آئین پاکستان ہے۔ ہم آئین پر عملدرآمد چاہتے ہیں اور جو آئین کے خلاف الیکشن کروانا چاہے گا، آئین کو پامال کرکے گا، اٹھارہ کروڑ عوام اس کے راستے میں رکاوٹ بن جائیں گے۔

(اس موقع پر لاکھوں شرکاء نے کھڑے ہوکر شیخ الاسلام کے اس اعلان کی حمایت میں We Want Change کے فلک شگاف نعرے بلند کئے)

حکمرانوں کا عدلیہ کے آئینی احکامات کی حکم عدولی

گذشتہ دنوں میں سپریم کورٹ نے بلوچستان کی حکومت کو غیر آئینی قرار دیا، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کیس پر صوبائی و وفاقی حکومت کی ناکامی کا اعلان کیا، اصغر خان کیس میں صدر پاکستان کے اختیارات و حدود کو واضح کیا۔ سپریم کورٹ کے یہ سارے فیصلے آپ کے سامنے ہیں، میں سوال کرتا ہوں کہ کیا ان پر عملدرآمد ہوا ہے؟ نہیں ہوا، جب عملدرآمد نہیں ہوا تو کیا اس ملک میں آئین کی حکمرانی ہے؟ کیا نظام حکومت آئین کے مطابق چل رہا ہے؟

حکومت کے اپنے ادارے NAB کی رپورٹ کے مطابق ہر روز دس سے بارہ ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ نیشنل اسمبلی کے 342 اراکین میں سے صرف 90 افراد نے ٹیکس ادا کیا جبکہ قانون یہ ہے کہ آمدنی اگر 42,000 یا اس سے زیادہ ہو یا پانچ لاکھ سالانہ ہو تو انکم ٹیکس ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ انکم ٹیکس کے قوانین کے مطابق جو آدمی اپنی income چھپائے اور بیان نہ کرے اسے دو سال تک کی سزائے قید ہے۔ میرا سوال ہے کہ جب یہ ٹیکس جمع نہیں کروائیں گے تو کیا انہیں حق پہنچتا ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا ممبر بنیں؟ کیا یہ کھلی کرپشن اور جرم نہیں ہے؟

آرٹیکل 63، (ون o) کہتا ہے کہ

وہ شخص MNA یا سینیٹر اور ممبر پارلیمنٹ بننے کا اہل نہیں ہے جس نے چھ ماہ کے یوٹیلٹی بلز (پانی، بجلی، گیس) ادا نہ کئے ہوں اور یہ واجب الادا رقم اگر دس ہزار روپے سے بڑھ جائے تو وہ شخص پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے۔

میں قومی اداروں سے سوال کرتا ہوں کہ آئین تو یہ کہے کہ اگر چھ ماہ تک پانی، بجلی، سوئی گیس کا بل ادا نہ کیا ہو تو وہ ایم۔این۔اے کا الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے جبکہ یہاں تو اکثریت ممبران اسمبلی اس پاکستان کا ٹیکس ہی ادا نہیں کرتے، کیا یہ الیکشن لڑنے کے اہل ہیں؟ اگر 18 کروڑ عوام کی آواز اور امید جسے میں بیان کررہا ہوں پر عمل کئے بغیر انتخابی نظام کو بدلے بغیر اور آئین پاکستان پر عمل کئے بغیر، الیکشن کرائے گئے تو یہ اقدام آئین کی خلاف ورزی ہو گی، اٹھارہ کروڑ عوام ا س کو مسترد کر دیں گے اور ہم ایسے لٹیروں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 91 ایسے ممبر پارلیمنٹ پکڑے جنہوں نے مختلف مدرسوں سے جعلی ڈگریاں بنوائی تھیں جن کو الحمد پڑھنا نہیں آتی تھی وہ دورہءِ حدیث کی ڈگریاں لے کے MNA بنے۔ سپریم کورٹ نے ان کو برطرف کر دیا، بعد ازاں BA کی ڈگری والی شرط پارلیمنٹ نے ختم کر دی۔ اس لئے کہ پارلیمنٹ ہر وہ کام کرتی ہے جو ان کے مفاد میں ہے اور ہر وہ کام نہیں کرتی جو اٹھارہ کروڑ عوام کے مفاد میں ہو۔ جن کو پارلیمنٹ نے بددیانتی اور جھوٹی جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر خائن اور بددیانت ثابت کر کے نکال دیا وہ تین مہینے کے اندر ضمنی الیکشن لڑ کے پھر پاکستان کی اسمبلی میں آگئے۔ میں سوال کرتا ہوں کہ تسلیم کرتے ہیں کہ نئی پارلیمنٹ نے BA کی شرط ختم کر دی تھی، لہٰذا اب پابندی نہیں تھی۔ لیکن کیا پابندی کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی خیانت بھی ختم ہو گئی؟ میرا سوال پابندی کے ہونے یا نہ ہونے پر نہیں ہے میرا سوال یہ ہے کہ جو شخص اَن پڑھ ہے، تعلیم پوری نہیں اور جھوٹی ڈگری لے کر خیانت کر کےMNA بنتا ہے، اس خائن اور بددیانت شخص کو پاکستان کا آئین MNA بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ کیا اٹھارہ کروڑ عوام کی تقدیر کے ساتھ اسی طرح مذاق چلتا رہے گا؟ آپ لوگوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا خائن، بددیانت لوگوں اور کرپٹ لٹیروں سے اس ملک کی جان چھڑانی ہے یا انہی کے ہاتھ میں ملک گروی رکھنا ہے؟

آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 (f) میںMNA بننے کی 5 شرائط موجود ہیں۔

اگر یہ پانچ شرائط پوری نہ ہوں تو کوئی شخص پاکستان کی اسمبلی اور سینٹ کا ممبر نہیں بن سکتا۔

  • پہلی شرط دانا اور قابل ہو۔
  • دوسری شرط: نیک سیرت ہو۔
  • تیسری شرط ہے: فضول خرچ نہ ہو، عیاش اور کرپٹ نہ ہو۔
  • چوتھی ایماندار ہو۔
  • پانچویں شرط ہے کہ امانتدار ہو۔

کیا پارلیمنٹ میں اکثریت ان ممبران پر مشتمل نہیں جو ان شرائط پر پورا نہیں اترتے؟ اگر یہی لٹیرے پلٹ کر نظام انتخاب کی تبدیلی کے بغیر اسمبلی میں آگئے تو کیا اس سے آئین ٹوٹے گا کہ نہیں؟

صرف 90 دن میں الیکشن کروانے کا نام ہی آئین پاکستان نہیں

لہٰذا میرا مطالبہ فقط یہ ہے الیکشن ہوں مگر آئین کی شرائط کے مطابق ہوں۔ سن لو! لوگوں کو مغالطہ تھا کہ میں الیکشن ملتوی کروانے آ رہا ہوں، نہیں! میں الیکشن کو پاکستان کے آئین کے تابع کرانے آیا ہوں۔ الیکشن ہوں مگر ان سے پہلے جتنا وقت لگے اس سے پہلے آئین کی شرائط پوری کی جائیں اور شرائط کو پورا کرنے کے لیے بھلے آپ 90 دنوں میں کرلیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ اگر 90 دنوں سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو آئین کہتا ہے تب بھی کوئی اعتراض نہیں۔ خالی 90 دن کا نام سارا آئین پاکستان نہیں۔ اس میں اور بھی شرائط ہیں۔ میرا مطالبہ الیکشن ملتوی کروانا نہیں ہے، الیکشن کو آئین کے مطابق کروانا ہے، الیکشن کو غنڈہ گردی سے پاک کروانا ہے۔ الیکشن کو دھاندلی سے پاک کرانا ہے، الیکشن سے لٹیروں کو نکلوانا اور نیک سیرت، آئین کی شرائط کے مطابق اہل لوگوں کو لانا ہے۔

اگر آئین کی ان ساری شرائط کو پورا کرنے اور ان پر عملدرآمد کی خاطر 90 دن سے کچھ عرصہ زائد بھی لگ جائے تو آئین اس کی بھی اجازت دیتا ہے۔ اب جو آئین پاکستان کا آرٹیکل بیان کرنے لگا ہوں، آج تک اس کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔

یہ آرٹیکل 254 ہے جس کے الفاظ ہیں کہ

When any act or thing is required by the Constitution to be done within a particular period and it is not done within that period, the doing of the act or thing shall not be invalid or otherwise ineffective by reason only that it was not done within that period.

اگر کوئی کام اور کوئی چیز آئین تقاضا کرے کہ اسے اتنی مدت کے اندر اندر ہونا چاہئے اور کسی وجہ سے وہ اس period کے اندر نہ ہو سکیں تو آئین کہتا ہے کہ تب بھی وہ عمل خلافِ قانون اور خلافِ آئین نہیں ہو گا۔

یعنی اگر وہ period بڑھ بھی جائے آئین کی خاطر، آئین کی شرائط کو پورا کرنے کی خاطر، انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے اگر اس پیریڈ سے زیادہ عرصہ بھی لگ جائے اور 90 دن سے ٹائم گزر جائے، تب بھی وہ کام غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں ہوگا۔

میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ، میڈیا، سیاسی پارٹیوں، پارلیمنٹ سے سوال کرتا ہوں کہ جب آئین ایک جگہ 90 دن کا عرصہ مقرر کرتا ہے اور دوسری جگہ خود کہتا ہے کہ اگر بوجوہ اس عرصے میں وہ کام نہ ہوسکے جس کے لئے ٹائم فریم مقرر کیا ہے تب بھی وہ کام آئینی اور قانونی ہے۔ اب کیا فقط 90 دن کی رٹ لگانا ضروری ہے یا پورے آئین کی شرائط پر عمل کرنا ضروری ہے؟

عالمی برادری متوجہ ہو! ممکن ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی بعض قوتیں غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ میں شاید جمہوریت کے خلاف بات کر رہا ہوں اور میرا ایجنڈا آئین اور جمہوریت کے منافی ہے۔ اس لئے میں پوری بین الاقوامی برادری کا ذہن بھی کلئیر کرنا چاہتا ہوں کہ

I would like to make it clear that where we stand? Pakistan is a sinking ship now and we want to save it. I am not here to derail Pakistan from the democracy. In order to save our state, in order to save democracy, in order to save our political process from collapse, we need world class structural renewel and we need Change. It is too late for patch work and peace reforms. Our country, our democracy, our state, our economy, our entire political and govermental system has become derailed. We need a legal hightest to bring about electroral reforms according to the demands of the Constitution of Pakistan. We want to bring substantial reforms and Change and through reforms we need to create an environment condusive to sastainable economic growth and socail development. Through change and reforms we need to remove the opportunities for corruption to occur in electroral process and political process of our state. Through reforms and change we need to empower and enable the people to become true democratic citizens and through change and reforms we need to fight against terrorism and extremism and we want to bring back peace and scurity. And through change and reforms we need to create an atmosphere of safety, stability and prosperity and through change and reforms we need to restrucure our political and electroral system for the sake of true democracy. Now is the true time to change and now is the true real time for reforms. Otherwise nothing would be left to change

We are living a life of anguish. We are living a life of misery. We are living a life of deprivation. We want to come out of the state of fear and terror. We want to develope our future sustainable, peaceful, progessive, developmental and peaceful and democratic. We want to eliminate terrorism from our country. We want to provide the protection to the citizens of Pakistan. There is no protection, no life, no liberty, no business, no job. nobody is safe in this country. And the govt is totally failed to provide protection to the life of their people, to the job of their people, to the freedom of their people, to the liberties of their people. They have failed to provide them job opportunities. They have failed to eliminate the opportunities of corruption from the society. They are just looting Pakistan. Poors becoming poorer and riche becoming richer. In this stage and in this condition is absolutely impossible to sustaine. I want to tell international community right from west to east. They should know what is our position and what is our conditions. There is no political will to eliminate and minimize this situation. We want real democracy

حقیقی جمہوریت کیا ہے؟

حقیقی جمہوریت جن ملکوں میں ہے وہاں ایک MNA اور MPA اگر کرائے کا غلط فارم پُر کر کے دے تو اس کی seat ختم کر دی جاتی ہے اور اٹھارہ مہینے جیل جاتا ہے۔ جمہوریت اس نظام کا نام ہے کہ اگر کوئی ممبر پارلیمنٹ سٹیشنری، قلم اور کاپیوں کا بل غلط جمع کروا دے تو سولہ مہینے قید کر دیا جاتا ہے اور سیٹ ختم ہو جاتی ہے۔ جمہوریت اس نظام کا نام ہے کہ کوئی شخص چالیس پیسے اگر غلط دعویٰ کر دے تو گورنمنٹ پکڑ کر اس سے چالیس پیسے واپس لے۔ جمہوری ملکوں میں لوگ طاقتور ہیں، وہاں institutions ہیں۔ اگر کوئی ممبر پارلیمنٹ ہے تو ہر ایک کی ویب سائٹ پر اس کے سارے نامہ اعمال درج ہوتے ہیں، ہر شخص کو پتہ ہے کہ میرا منتخب ممبر کیا کر رہا ہے۔ پاکستان میں کچھ نہیں ہے، لوگ جل جائیں، مر جائیں، خود سوزی کر لیں یا زہر کھا لیں، قتل ہو جائیں، غصے سے باہر نکل آئیں، ٹائر جلائیں، سینہ کوبی کریں، یہاں کوئی شخص استعفیٰ نہیں دیتا۔ Millions روپے ہڑپ ہو جاتے ہیں، لوگ اپنے نمائندے کو تبدیل کرنے میں بے بس ہیں۔ لاکھوں ووٹ جعلی ڈالے جاتے ہیں، بلیک میلنگ، کلنگ، غنڈہ گردی، فائرنگ، فیملی پریشر، غربت وہ عوامل ہیں جن کی بناء پر کوئی شخص آزادانہ اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ حقیقی جمہوریت لانی ہے اور حقیقی تبدیلی لانی ہے تو الیکشن کے ذریعے کریں، میں سوال کرتا ہوں کہ کون سے الیکشن؟کونسی پارلیمنٹ؟ یہاں تو لوٹ مار مچی ہے۔ کسی غریب کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنے MNA کا محاسبہ کر سکے۔ ایران میں لوگ اٹھے تھے وہاں ایک شہنشاہ تھا۔ مصر میں لوگ اٹھے تھے وہاں ایک فوجی آمر تھا۔ لیبیا میں لوگ اٹھے تھے ایک آمر تھا، یہاں تو ہر حلقے میں الا ما شاء اللہ ہر شخص بادشاہ ہے، شہنشاہ ہے، غریب لوگوں کی جان کا مالک ہے، وہ ان کی عزت لوٹ لے، گھر مسمار کر دے، جو چاہے کرے۔ یہاں غریب کے پاس آزادی سے طاقتور کے خلاف رائے دینے کا اختیار کب ہے؟نظام بدلو تب پاکستان کی تقدیر بدلے گی۔

یہ سب ممکن ہے!

پاکستان میں اگر کرپشن کی نذر ہونے والے پانچ ہزار ارب بچا لیں تو پاکستانی عوام کو ان کی جملہ بنیادی ضروریات خوراک، لباس، مکان، تعلیم، صحت، عدل و انصاف مہیا کیا جاسکتا ہے۔ میں ذمہ داری سے بتا رہا ہوں خدا کی قسم یہ سب کچھ ممکن ہے۔ اس ملک میں بیس بیس سال تک لوگوں کے مقدموں کے فیصلے نہیں ہوتے۔ میں وہ نظام چاہتا ہوں کہ دیوانی مقدمات کا فیصلہ صرف ایک سے دو مہینے میں ہو جائے اور فوجداری مقدموں کا فیصلہ پندرہ دن سے ایک مہینے میں ہوجائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق جو مردہ زمین آباد کرے وہی اس کا مالک ہے، ہم غرباء میں اراضی کی تقسیم چاہتے ہیں، دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں، ڈرون حملوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، آئین اور جمہوریت اور اسلامی اخلاق و روایات کا فروع چاہتے ہیں۔ تمام طبقات مسلمان ہوں یا غیر مسلم انہیں یکساں تحفظ دینا چاہتے ہیں اور پاکستان کے سارے بیرونی قرضے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

دنیا نے دیکھا کہ آج لاکھوں لوگ کسی ایک جگہ سے پیسہ لئے بغیر خود قربانی دیکر آئے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں پاکستانی قوم کو اگر اپیل کروں اور بیرون ملک جاپان سے امریکہ تک تو پاکستانی قوم اتنی غیور، اتنی جانثار، اتنی قربانی دینے والی ہے کہ اس اپیل پر تین مہینے یا چھ مہینے محنت کریں تو IMF اور ورلڈ بینک کا سارا قرضہ پاکستان کا پاکستانی قوم کے ذریعے ادا کروا سکتا ہوں۔ پاکستان قدموں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ ہم بے غیرتی کی زندگی نہیں چاہتے ، ہم غیرت و حمیت کی زندگی چاہتے ہیں۔ نظام انتخاب کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ پارٹی لسٹ سسٹم لانا چاہتے ہیں تا کہ غلط کردار کے لوگوں کے لیے موقع نہ رہے۔ صنعتکاروں، تاجروں، زمیندراوں، کسانوں، قانون دانوں، ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافی ہر ایک کے لیے کوٹہ مقرر کرنا چاہتے ہیں تا کہ کسان بھی خود منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں بیٹھے۔ مزدور بھی پارلیمنٹ میں بیٹھے، زمیندار، تاجر، پارلیمنٹ میں بیٹھے، صحافی، قانون دان بھی پارلیمنٹ میں بیٹھے۔ میری قوم کے پڑھے لکھے جوانوں کا جرم کیا ہے، یہ کیوں نہ پارلیمنٹ میں جائیں؟ اعلیٰ ذہن کیوں نہ جائیں؟

طریقہ کار کیا ہے؟

یہ سب ممکن ہے اس کی مثال اٹلی کی ہے، یورپ جمہوریت کا گڑھ ہے مگر یورپین کونسل کے اہم ملک اٹلی اور یورپین عدالت عظمیٰ نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے حالات بہتر ہوگئے۔ European Court of Justice نے اٹلی میں کرپشن اور بیڈ گورننس کے پیش نظر اٹلی کی منتخب حکومت کو بر طرف کر دیا اور یورپ کی کورٹ آف جسٹس نے ایسے لوگوں کو حکومت دی کہ جو ملک کو خسارے سے نکالے، کرپشن ختم کریں۔ انہوں نے دو سال کا وقت دیا مگر انہوں نے تمام اصلاحات کا کام ایک سال میں مکمل کرلیا اور اب انہوں نے نئے الیکشن کے عمل کا آغاز کیا ہے۔

یورپ جمہوریت کا گڑھ ہے۔ اگر وہ اپنے احوال کو درست کرنے کے لیے یہ اقدامات کر سکتا ہے تو ہم اپنے احوال کو درست کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیوں نہ کریں۔ ہم نے تو آج تک اپنے الیکشن process میں تبدیلیاں نہیں کیں۔

سن لیں! میرا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ الیکشن منسوخ کئے جائیں۔ مجھے اس سے غرض نہیں، مجھے تو غرض آئین پاکستان کے ساتھ ہے۔ میری غرض ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں اس آئین کے مطابق ہوں۔ آئین کی ساری شرائط پر عمل ہو اور آئین پاکستان کے مطابق نمائندے منتخب کیے جائیں اور آئین پاکستان کے مطابق انتخابی نظام کا ماحول دیا جائے اور آئین پاکستان کے مطابق دیانتدرانہ، genuine elections کی ضمانت مہیا کی جائے۔ مجھے آئین پاکستان سے غرض ہے، اس کے تحت اگلے انتخابات اگر نظام انتخاب کو بدلے بغیر اور electoral reforms کے بغیر کرا دئیے گئے تو عوام ان غیر آئینی انتخابات کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ انتخابات آئین کے خلاف ہوں گے۔ اگر وہی خائن، جعلی ڈگریوں والے لوگ آئین کو پامال کرنے والے لوگ پھر الیکشن میں ڈالے گئے تو قوم اس الیکشن کو قبول نہیں کرے گی۔ قوم فوجی مارشل لاء کے خلاف لڑتی رہی ہے تو قوم سیاسی مارشل لاء کے خلاف بھی لڑے گی۔ ہم ڈرائنگ رومز کے اندر دو پارٹیوں کا آپس کا مک مکا قبول نہیں کریں گے۔ جو بھی نگران حکومت بنانی ہے دو پارٹیاں بیٹھ کر فیصلہ نہیں کر سکتیں۔ آئین کی بیسویں ترمیم کے مطابق وہ بیٹھیں اور معاہدہ کریں مگر آئین یہ تو منع نہیں کرتا کہ اور نہ بیٹھیں۔

اس میں پاکستان کی عدلیہ بھی بیٹھے، اس میں افواج پاکستان بھی بیٹھے، جنہوں نے عدل فراہم کرنا ہے، جنہوں نے امن وا مان کی ضمانت فراہم کرنی ہے اور اندر و باہر پارلیمنٹ کے سارے سٹیک ہولڈرز بیٹھیں اور باہم مشاورت سے ایسے لوگوں کو مقرر کریں جو انتخابات صرف کروائیں ہی نہیں بلکہ پہلے نظام آئین کے مطابق درست کریں اور پھر آئین کے مطابق انتخابات کرائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عوام ایسی سازش کو مسترد کر دے گی اور ایسے الیکشن کو غیر آئینی سمجھا جائے گا۔

آئندہ کا لائحہ عمل

میں نے پوری قوم کی آواز میڈیا، مقتدر حلقوں، عدلیہ، اٹھارہ کروڑ عوام اور پوری دنیا کی عالمی برادری کو بھی سنا دی کہ ہم الیکشن صرف آئین کے مطابق ان شرائط کے تحت چاہتے ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی کا الیکشن قبول نہیں ہو گا۔ اس نظام کو درست کرنے کے لیے میں اسلام آباد کو صرف 10 جنوری بروز جمعرات تک تین ہفتوں کی مہلت دے رہا ہوں۔ 10 جنوری جمعرات کو مہلت ختم ہو جائے گی۔ اگر 10 جنوری سے پہلے آئین کے مطابق اس سارے نظام کو درست نہ کیا گیا اور دو پارٹیوں کے مک مکا کو روک کر تمام stake holders کو ملا کر ایک متفقہ طریقے سے اچھے لوگوں کو نہ لایا گیا، جن کے اندر یہ جرات ہو، طاقت ہو، قابلیت ہو، political will ہو، ability ہو کہ وہ اس نظام کو آئین کے مطابق بنا سکیں؛ اگر نہ لایا گیا تو 14 جنوری پیر کے دن اسلام آباد میں 40 لاکھ لوگوں کا اجتماع ہوگا۔

14 جنوری کو ملک پاکستان کی عوام اسلام آباد پہنچیں گے۔ مارچ، جمعہ کے دن 10 جنوری کو شروع ہو جائے گا۔ زندگی تمہیں بھیک میں کوئی نہیں دے گا۔ ہم خون خرابہ نہیں چاہتے، ہم بدامنی نہیں چاہتے یہ اجتماع بھی پر امن ہے اور 14 جنوری پیر کے دن اسلام آباد کی طرف مارچ بھی پر امن ہو گا۔ یہ اسلام آباد میں عوام پاکستان کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا۔ فیصلے پھر اسلام آباد میں 14 جنوری کو ہوں گے۔ مہلت دے دی، اس سے پہلے اس ملک کی اٹھارہ کروڑ لوگوں کی بہتری کا سامان کر لیا جائے۔ اللہ آپ کا، ہمارا، پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔