انتخابی اصلاحات کے لیے اسلام آباد کی طرف پُرامن لانگ مارچ

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین

انتخابی نظام میں اصلاحات اور آئندہ انتخابات قانونی و آئینی تقاضوں کے مطابق کروانے کے لئے تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام 13 جنوری 2013ء کو اسلام آباد کی طرف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی زیر قیادت لاکھوں افراد پر مشتمل ’’عوامی لانگ مارچ‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اس لانگ مارچ کا پس منظر یہ تھا کہ 23 دسمبر 2012ء کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی وطن واپسی پر مینار پاکستان کے سبزہ زار میں لاکھوں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ انتخابی نظام میں آئین و قانون کے مطابق اصلاحات کی جائیں، ملک میں حقیقی جمہوریت کو قائم کیا جائے اور 18 کروڑ عوام کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ نیز موجودہ کرپٹ و فرسودہ ’’انتخابی نظام‘‘ کو تبدیل کیا جائے۔ مقتدر حلقوں سے مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے 10 جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی مگر ان 18 دنوں میں حکومت کی طرف سے آئین و قانون کے تقاضوں سے ہم آہنگ ان مطالبات پر کوئی سنجیدگی دیکھنے میں نظر نہ آئی بلکہ اس کے برعکس لانگ مارچ روکنے کے لئے حکومت پنجاب اور وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے بعض افراد نے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال شروع کردیا۔ زرد صحافت نے بھی اپنا کام دکھایا اور میڈیا کے بعض نام نہاد اینکر پرسنز بھی اس فرسودہ نظام کے محافظین کی زبان بولنے لگے۔ شیخ الاسلام کی کردار کشی شروع کردی گئی۔ اصل ایجنڈے پر بات کرنے کے بجائے ذاتیات پر رکیک حملے شروع کردیئے گئے، دہشت گردی، سخت موسم اور جنگلوں سے سانپ نکلنے کے ساتھ عوام الناس اور تحریک کے کارکنان کو حد درجہ خوفزدہ کرنے کے لئے مضحکہ خیز حربے استعمال کرنا شروع کردیئے۔

اس دوران وزارت داخلہ اور حکومتی اتحاد میں شامل احباب ایجنڈے پر بات کرنے کی بجائے لانگ مارچ ملتوی کرانے آتے رہے حتی کہ رئیل اسٹیٹ کے حوالے سے ملک پاکستان کے ایک ’’مشہور زمانہ سوداگر‘‘ بھی لانگ مارچ کو اپنے ’’بریف کیس‘‘ کے زعم پر ملتوی کرانے آئے۔ مگر کمال استقامت، بہادری اور استغناء کے ساتھ شیخ الاسلام قومی مفادات کے ایجنڈے پر ڈٹے رہے اور اس ’’سوداگر‘‘ کو بات چیت سے بھی قبل میڈیا ہی کے سامنے واپس جانا پڑا۔

مختصر یہ کہ ہر اوچھا ہتھکنڈہ، خوفزدہ کرنے والا حربہ اور میڈیا وار کے بدترین Tools استعمال کئے گئے مگر شیخ الاسلام کے پائے استقامت میں ذرا بھر بھی لغزش نہ آئی۔ قلم اور زبانیں بکیں۔۔۔ جملہ سیاسی و مذہبی رہنما تمام سیاسی، نظریاتی اور مسلکی اختلافات کو شیخ الاسلام کی مخالفت میں بالائے طاق رکھ کر اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ایک ہوگئے۔۔۔ کاش کہ وہ اسی طرح قومی مفادات اور 18 کروڑ عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے اکٹھے ہوجاتے مگر شاید یہ ان کی فطرت میں ہی نہیں ہے۔ تاہم بعض رہنماؤں اور ان کی جماعتوں نے بھرپور اخلاقی حمایت بھی کی۔

بہر حال پاکستانی عوام کی اکثریت نے شیخ الاسلام کے اس اصلاحی نعرہ پر لبیک کہا اور ہر درد دل رکھنے والا پاکستانی اس انقلابی و اصلاحی آواز کی طرف نہ صرف متوجہ ہوا بلکہ اسے اپنی آواز قرار دیا۔ ہر آئے دن صوبائی و وفاقی حکومتی کی بوکھلاہٹ مزید عیاں ہورہی تھی۔ اپنے مفادات پر ضرب پڑتے دیکھ کر صوبائی ووفاقی حکومتوں کے نام نہاد ترجمانوں کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ آنے والے دنوں میں اپنے آپ کو ایوان ہائے اقتدار سے باہر نکلتا اور اپنے گریبانوں پر مظلوموں کے ہاتھ پڑتے دیکھ کر ان کی فلک شگاف چیخ و چنگاڑ کو ہر باشعور شخص محسوس کررہا تھا۔

شیخ الاسلام جب ان کے کسی بھی دباؤ کو خاطر میں نہ لائے تو انہوں نے ملک بھر میں موجود تحریک کے کارکنان اور عہدیداران کو ہراساں کرنا شروع کردیا۔ گھروں پر چھاپے، لانگ مارچ میں عملی شرکت نہ کرنے کے لئے دباؤ اور تفتیش کرنا شروع کردی بلکہ لانگ مارچ کے لئے پہلے سے کرائے پر بک کی گئی گاڑیوں کے مالکان، ڈرائیورز پر بھی دباؤ ڈالا حتی کہ کہا گیا کہ اگر دھماکہ ہوا تو اس گاڑی کا مالک، ڈرائیور اور کنڈیکٹر ذمہ دار ہوں گے۔ نتیجتاً سینکڑوں گاڑیوں کے مالکان نے ایڈوانس میں لی گئی رقوم واپس کردیں اور حکومتی دباؤ کے باعث اسلام آباد جانے سے انکار کردیا۔ ان تمام حالات کے باوجود عوام الناس کی اکثریت اور کارکنان تحریک کے حوصلے بلند رہے اور لانگ مارچ کی تیاریاں بھی زور و شور اور جذبات کے ساتھ جاری و ساری رہیں۔

اس دوران مرکزی سیکرٹریٹ پر ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے نمائندہ وفود کی آمد اور لانگ مارچ کی حمایت کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا۔ علماء، مشائخ، تاجر، صنعت کار، طلباء، اساتذہ، وکلاء، ٹریڈ یونینز اور این جی اوز وغیرہ کے نمائندگان لانگ مارچ کی تائید کرتے رہے اور مطالبات کی حمایت کرتے رہے۔

اس عظیم اور تاریخی لانگ مارچ کے لئے مالی وسائل کی فراہمی میں کارکنان تحریک نے 23 دسمبر 2012ء سے بھی بڑھ کر ایثار و قربانی کی مثالیں پیش کی۔ مخالفین اور معاندین کی طرف سے ان عظیم اجتماعات کے لئے وسائل کے حوالے سے منفی پراپیگنڈے کا جواب کارکنان تحریک نے 30 دسمبر 2012ء کو ہونے والے عالمی ورکرز کنونشن میں عملی طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس کنونشن میں مرکزی سیکرٹریٹ لاہور کے علاوہ پاکستان بھر کے شہروں اور بیرونی دنیا کے 90 ممالک سے لاکھوں لوگ نے شرکت کی۔ کنونشن کو مین سٹریم میڈیا اور چینل 92 کے ذریعے دنیا بھر میں براہ راست پیش کیا گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے عالمی ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’23 دسمبر سے آج تک جن جگہوں پر زلزلہ برپا ہوا، اور اپنی اخلاقی پستی کی وجہ سے کردار کشی کی مہم چلانے والے بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا۔ جو پروگرام اور ایجنڈا میں نے دیا اس پر کوئی ایک شخص ایک جملہ بھی نہیں لکھ سکا کہ یہ ملکی یا عالمی قوانین کے خلاف ہے۔ میں باقی دنیا کے خزانوں پہ لعنت بھیجتا ہوں، مجھے گنبدِ خضراء کا خزانہ کافی ہے، اور کارکنوں کا ایثار و قربانی کافی ہے۔ اب ہم اقتدار کے ایوانوں میں پیسے اور طاقت کے بل بوتے کسی کو داخل نہیں ہونے دیں گے۔ ملک کے وسائل چند شہزادوں کے نہیں بلکہ 18کروڑ عوام کے لیے ہونگے‘‘۔

اس کنونشن میں منہاج القرآن کے کارکنوں کی ایثارِ و قربانی نے پروگرامز کے وسائل پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دے دیا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے گھر کا تمام زیور 14 جنوری کے مارچ کے لیے پیش کر دیا۔ یہ موقع دیدنی تھا، لوگوں نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی اور دنیا بھر کے کارکنوں نے چند لمحوں میں کروڑوں روپے اور زیورات شیخ الاسلام کے قدموں میں پیش کردیئے۔

’’لانگ مارچ‘‘ کے اعلان کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (ق) نے نہ صرف اس لانگ مارچ کی اخلاقی حمایت کا اعلان کیا بلکہ ان کی عملی شرکت کے اعلان نے بھی ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کردی۔ پاکستان مسلم لیگ (ق) کے احباب حکومتی اتحاد کا حصہ ہونے کی وجہ سے زیادہ حکومتی دباؤ برداشت نہ کرسکے لہذا انہوں نے عملی شرکت سے معذرت کرتے ہوئے شیخ الاسلام کے اس تبدیلی کے ایجنڈے کی اخلاقی حمایت کا اعلان کیا۔

دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ نے اس لانگ مارچ میں عملی شرکت کا اعلان کیا اور اس ضمن میں باقاعدہ شیخ الاسلام کو نائن زیرو تشریف لانے کی دعوت بھی دی۔ اس دعوت پر شیخ الاسلام کراچی گئے اور یکم جنوری 2013ء کو جناح گراؤنڈ عزیز آباد میں متحدہ قومی موومنٹ کے زیر اہتمام ’’سفر انقلاب‘‘ کے عنوان سے جلسے میں شرکت کی اور خصوصی خطاب کیا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’بھوک و افلاس کی آگ میں کروڑوں افراد جل رہے ہیں، بیماردوا کو ترس رہے ہیں۔ ماؤں کی گودیں دودھ نہ ملنے کی وجہ سے اپنے معصوم بچوں سے محروم ہوگئیں۔18کروڑ مظلوم عوام کیلئے آزادی کا علم بلند ہوگیا ہے، میرا مشن قائد اعظم محمد علی جناح کی جمہوریت ہے، میرا مشن وہ ضابطہ ہے جسے آئین پاکستان نے ہمیں عمل پیرا ہونے کیلئے دیا۔ ہمارا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں، ہمارا ایجنڈا حقیقی جمہوریت کے قیام اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا ہے، ہم لٹیروں سے جمہوریت چھیننا چاہتے ہیں اور غریبوں کے ہاتھوں میں اقتدار دینا چاہتے ہیں۔ ملک میں آئین پاکستان کی بحالی چاہتے ہیں، ملک میں معاشی ترقی و استحکام کیلئے حکومتیں بنتی ہیں، ہم اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھ کر اپنے حقوق نہیں مانگیں گے، اپنے حقوق آئین اور جمہوریت کی طاقت سے چھینیں گے، آج کراچی اور سندھ کے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اس بات کا ریفرنڈم ہوگیا ہے کہ قوم ظلم کے راج کو مسترد کرتی ہے‘‘۔

شیخ الاسلام کے خطاب کے بعد MQM کے قائد محترم الطاف حسین نے بھی خطاب کیا مگر بعد ازاں نیز وزارت داخلہ کی جانب سے ممکنہ دہشت گردی کے خطرات اور امن و امان خراب ہونے کے خدشات کے پیش نظر آخری لمحات میں لانگ مارچ میں عملی شرکت سے معذرت کرتے ہوئے ایجنڈے کی اخلاقی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

شیخ الاسلام کے مطالبات

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی شیخ الاسلام کے مطالبات غیر آئینی و غیر قانونی تھے کہ بعض نام نہاد تجزیہ کار، سیاسی و مذہبی جماعتیں اور حکومت و اپوزیشن شیخ الاسلام کی مخالف بن گئیں اور اختلاف کو مخالفت میں تبدیل کردیا؟ آیئے شیخ الاسلام کے مطالبات کا جائزہ لیتے ہیں:

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مطالبہ کیا کہ آئین کی شق 62، 63 اور 218 (3)کا حقیقی معنوں میں نفاذ کیا جائے اور کوئی بھی انتخابی امیدوار ان شقوں کے معیار پر پورا اترے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔

آئین کا آرٹیکل 62: کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہوگا اگر

(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔

(و) وہ سمجھدار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو۔

(ز) کسی اخلاقی پستی میںملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔

شیخ الاسلام نے آرٹیکل 62 کی انہی شقوں پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا اور اس پر ملک و قوم کی تقدیر پر مسلط بدمست ہاتھی ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے اخلاقیات کی حدوں کو بھی پامال کرتے ہوئے کردار کشی پر اتر آئے۔

آئین کا آرٹیکل 63: کوئی شخص مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے اور رکن رہنے کے لئے نااہل ہوگا، اگر۔۔۔

(ف) اس نے کسی بنک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا کوآپریٹو ادارے سے اپنے نام سے یا اپنے خاوند یا بیوی یا اپنے زیر کفالت کسی شخص کے نام سے دو ملین روپے یا اس سے زیادہ رقم کا قرضہ حاصل کیا ہو جو مقررہ تاریخ سے ایک سال سے زیادہ عرصے کے لئے غیر ادا شدہ رہے یا اس نے مذکورہ قرضہ معاف کرالیا ہو یا

(ص) اس نے یا اس کے خاوند یا بیوی نے یا اس کے زیر کفالت کسی شخص نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرتے وقت چھ ماہ سے زیادہ کے لئے سرکاری واجبات اور یوٹیلٹی اخراجات بشمول ٹیلیفون، بجلی، گیس اور پانی کے اخراجات ادا نہ کئے ہوں۔

شیخ الاسلام نے الیکشن لڑنے والے افراد کے لئے ملکی و قومی دولت اور مالیاتی حوالے سے درج بالا شقوں پر عملدرآمد کا کہا تو قوم کا پیسہ جونک کی طرح چوسنے والے اپنی گردن پر پڑنے والے ہاتھوں کے خوف کی وجہ سے چیخنے چلانے شروع ہوگئے۔

آئین کا آرٹیکل 218(3) کسی انتخاب کے سلسلے میں تشکیل کردہ الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہوگا کہ وہ انتخاب کا انتظام کرے اور اسے منعقد کرائے اور ایسے انتظامات کرے جو اس امر کے اطمینان کے لئے ضروری ہوں کہ انتخاب ایمانداری، حق اور انصاف کے ساتھ اور قانون کے مطابق منعقد ہو اور یہ کہ بدعنوانیوں کا سدباب ہوسکے۔

شیخ الاسلام نے صرف یہ کہا کہ انتخابات سے پہلے اور ان کے دوران انتخابات پر اثر انداز ہونے والی بدعنوانیوں کا قلع قمع کیا جائے تاکہ صاف و شفاف ماحول میں انتخابات منعقد ہوں لیکن اس پر بھی 65 سالوں سے مسلط یہ سیاسی مداری اپنے مفادات پر ضرب پڑتا دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔

عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے مطالبات میں اس بات کو بھی شامل کیا کہ انتخابات کو شفاف اور آزادانہ بنانے کے لئے 1976ء کے عوامی نمائندگی ایکٹ کی متعلقہ شقوں بالخصوص درج ذیل آرٹیکلز کا اطلاق کیا جائے۔

آرٹیکل نمبر 77: حکم بابت ادائیگی لاگت

  1. شق نمبر 67 کے تحت حکم جاری کرتے ہوئے ٹریبونل اپنی صوابدید کے مطابق لاگت پر اٹھنے والے اخراجات کا تعین بھی کرے گا اور ان افراد کی تصریح کرے گا جنہیں یہ اخراجات ادا کرنا ہوں گے اور جو یہ اخراجات ادا کریں گے۔
  2. اگر ذیلی شق (1) کے تحت کسی پارٹی کی طرف سے کسی شخص کو ادائیگی کی ہدایت دی گئی ہو تو لاگت پیشگی ادا نہ کئے جانے کی صورت میںاس کی پوری ادائیگی کرنا ہوگی۔ اس حوالے سے ٹریبونل کو تحریری درخواست دئیے جانے کی صورت میں، حکمِ ادائیگی کی تاریخ اجراء سے 6 ماہ کے اندر، ٹریبونل کو یہ ادائیگی، جہاں تک ہوسکے، ادائیگی کرنے والی پارٹی کی طرف سے جمع کرائے گئے زر ضمانت میں سے کی جائے گی۔
  3. لاگت کی ادائیگی کے لئے زر ضمانت جمع کرانے والی پارٹی کو ادائیگی کا حکم نہ دیئے جانے کی صورت میں، یا حکم کے اجراء کے بعد چھ ماہ کے اندر ادائیگی کے لئے کوئی درخواست نہ دیئے جانے کی صورت میں، یا زر ضمانت سے لاگت ادا کئے جانے کے بعد ضمانت کی رقم باقی بچ جانے کی صورت میں، یا پورے زر ضمانت کی موجودگی کی صورت میں، اگر زر ضمانت جمع کرانے والے شخص یا اس کے قانونی نمائندے کی طرف سے درخواست موصول ہو تو ضمانت کی رقم درخواست دہندہ کو واپس ادا کردی جائیگی۔
  4. جس شخص سے لاگت کی وصولی درکار ہو اگر اس کے ضلع یا حلقہ انتخاب یا حلقہ انتخاب کے کسی حصے میں، جہاں انتخاب متنازع ہو گیا ہو، تو وہاں کے پرنسپل سول کورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی اور لاگت کی ادائیگی کا حکم نافذ العمل ہوگا اوراسے ہیئت مجاز کا حتمی فرمان تصور کیا جائے گا۔

باب ہشتم: جرم، سزا اور اس کا طریقہءِ کار

آرٹیکل نمبر 78: بدعنوانی

یہ بدعنوانی کا ارتکاب ہوگا اگر کوئی شخص

  1. [جیسا کہ شق نمبر 33 میں ہے] شق 49 میں دیئے گئے ضابطوں کی خلاف ورزی کرے،
  2. رشوت ستانی، بہروپ بدلنے یا ناجائز اثر و رسوخ کے استعمال کا ارتکاب کرے،
  3. جھوٹا بیان دے یا شائع کرے [جیسا کہ شق 34 میں درج ہے[ کسی مخصوص مواد،مسوّدے یا دستاویز میں غلط یا جھوٹا بیان شامل کرے۔

  1. کسی امیدوار یا اس کے کسی رشتہ دار کی کردارکشی کے لئے تاکہ اس کے انتخابی عمل پر منفی اثرات مرتب ہوں یا جس سے کسی اور امیدوار کی شہرت اور انتخاب میں کامیابی مقصود ہو، اِلاّ یہ کہ وہ بیان کو معقول وجوہات پر مبنی اور برحق ثابت کرسکے۔
  2. جس کا تعلق کسی امیدوار کے انتخابی نشان سے ہو خواہ وہ نشان اسے الاٹ کیا جا چکا ہو یا ابھی نہ کیا گیا ہو۔
  3. جو کسی امیدوار کے انتخابات میںحصہ نہ لینے کے لئے کاغذات واپس لینے کے بارے میں ہو۔
  4. یا امیدوار کی تعلیمی قابلیت، اس کے اثاثہ جات اور مالی واجبات کے بارے میں ہو یا ایسے واجبات جن کا تعلق کسی قرضے کی ادائیگی سے ہو یا شق 12 کی ذیلی شق (2) کے مطابق کسی پارٹی کے ساتھ الحاق کے متعلق ہو۔

  1. کسی امیدوار کے مذہب، صوبے، طبقے، قبیلے، نسل، ذات، برادری یا مذہبی فرقے کی بنیاد پر کسی شخص کو اسے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے یا نہ کرنے کے لئے کہے یا اسے قائل کرے۔
  2. کسی امیدوار کی دانستہ حمایت یا مخالفت کے لئے، اپنی ذات یا اپنے بیوی بچوں کے سوا، کسی ووٹر کو پولنگ سٹیشن تک لے جانے اور واپس لانے کے لئے ذرائع نقل و حرکت،کوئی موٹر گاڑی یا کشتی، کرائے پر دے یا لے یا اجرتاً یا عاریتاً حاصل کرے۔
  3. کسی بھی شخص کو پولنگ سٹیشن سے بغیر اپنا ووٹ دیئے چلے جانے کی وجہ بن جائے یا ایسی کوشش کرے۔

آرٹیکل نمبر 79: رشوت ستانی

یہ رشوت ستانی کا ارتکاب ہوگا اگر کوئی شخص، بلا واسطہ یا بالواسطہ، خود یا اس کی طرف سے کوئی اور:

(1) حق رائے دہی استعمال کرنے یا نہ کرنے، امیدوار بننے یا امیدوار نہ بننے یا انتخابات میں حصہ نہ لینے کے لئے اپنے کاغذات واپس لینے کے عوض کوئی فائدہ، سہولت یا معاوضہ حاصل کرے یا لینے پر آمادگی ظاہر کرے، یا اس کے لئے معاہدہ کرے۔

(2) کوئی فائدہ، سہولت یا معاوضہ فراہم کرے یااس کی پیشکش کرے یا اس کا وعدہ کرے:

(a) رغبت دلانے کے لئے

(i) کہ کوئی شخص الیکشن میں امیدوار کھڑا ہو یا امیدوار بننے سے باز رہے

(ii) کہ کوئی ووٹر الیکشن میں حق رائے دہی استعمال کرے یا نہ کرے۔

(iii) کہ کوئی امیدوار الیکشن میں حصہ نہ لے۔

(b) معاوضہ دینے کے لئے

(i) اس بات کا کہ کوئی شخص انتخاب میں امیدوار بنا یا امیدوار بننے سے باز رہا

(ii) اس بات کا کہ کسی شخص نے حق رائے دہی استعمال کیا یا نہ کیا۔

(iii) اس بات کا کہ کوئی امیدوار الیکشن سے دستبردار ہوگیا۔

آرٹیکل نمبر 80: بہروپ بدلنا (Personation)

اگر کوئی شخص حق رائے دہی استعمال کرنے کے لئے یا بیلٹ پیپر حاصل کرنے کے لئے کسی اورشخص کا روپ دھارے خواہ وہ زندہ ہو یا انتقال کرچکا ہو یا جعلی یا خیالی ہو۔

شق نمبر 80A: کسی امیدوار کے مفادات پر منفی اثرات مرتب کرنے کی سزا

جو کوئی مجوزّ کے طور پر یا جعلی مجوزّ بن کر دانستہ ایسے کام کا ارتکاب کرے جس سے قانون نے ممانعت کی ہو، یا وہ کام کرنے سے صرفِ نظر کرے جس کے لئے قانونی حکم موجود ہو، یا جو کسی نامزدگی فارم میں کسی غلط بات کا اندراج کرے یا اس پر جعلی دستخط کرے اور اس طرح کسی امیدوار یا کسی شخص کے مفادات پر منفی اثرات مرتب کرے، اسے اس جرم کی پاداش میں چھ ماہ تک قید یا پانچ ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکیں گی۔

آرٹیکل نمبر 81: نا جائز اثر و رسوخ

کوئی بھی شخص درج ذیل صورتوں میں ناجائز اثر و رسوخ کے استعمال کا مرتکب متصور ہوگا:

(1) بلاواسطہ یا بالواسطہ کسی کو حق رائے دہی استعمال کرنے یا نہ کرنے پر اکسانے یا مجبور کرنے کے لئے، یا اپنے آپ کو بطور امیدوار پیش کرنے کے لئے، یا الیکشن میں حصہ نہ لینے کی غرض سے اپنے کاغذات واپس لینے کے لئے:

(a) مزاحمت، تشدد یا طاقت استعمال کرنے کی دھمکی دے،

(b) نقصان پہنچائے، زخمی کرے یا ایسا کرنے کی دھمکی دے،

(c) اللہ کی لعنت بھیجے یا ایسا کرنے کی دھمکی دے، یا کسی پیر یا روحانی پیشوا کی ناراضگی اور ناپسندیدگی کا سامان پیدا کرے، یا ایسا کرنے کی دھمکی دے،

(d) کوئی مذہبی سزا دے یا دینے کی دھمکی دے،

(e) حکومتی یا سرکاری اثر و رسوخ استعمال کرے،

(f) پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کرے۔

(2) کسی شخص کے حق رائے دہی کے استعمال کرنے یا نہ کرنے پر، یا کسی امیدوار کی طرف سے خود کو بطور امیدوار پیش کرنے یا الیکشن میں حصہ نہ لینے کے لئے اپنے کاغذات واپس لینے پر اوپر دی گئی ذیلی شق نمبر (1)کے تحت دیئے گئے کسی بھی اقدام کا ارتکاب کرے۔

(3) بلا واسطہ یا بالواسطہ، خود، یا اپنی طرف سے کسی اور کے ذریعے

(a) کسی عبادت گاہ یا مذہبی رسومات ادا کرنے کے لئے مختص کی گئی کسی بھی جگہ کو ووٹنگ کے لئے لوگوں کو آمادہ کرنے، ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے یا ووٹ نہ دینے یا کسی خاص امیدوار یا الیکشن کے لئے استعمال کرے۔

(b) یا ان مقاصد کے لئے جو اوپر ذیلی شق (a) میں بیان کئے گئے ہیں، انہیں زبانی یا تحریری طور پر، علامتی یا واضح نمائندگی کے ذریعے، کوئی چیز شائع کر کے اسلام کی سربلندی اور ترویج و تکمیل یا دفاع و استحکام پاکستان کے منافی کوئی اقدام کرے۔

(4) اغواء، حبسِ بے جا، یا جعلسازی، دھوکے اور فریب کے ذریعے :

(a) کسی ووٹر کے حق رائے دہی کے استعمال میں رکاوٹ ڈالے،

(b) کسی ووٹر پر ووٹ دینے یا نہ دینے کے لئے اثر انداز ہو، اسے مجبور کرے یا اکسائے۔

وضاحت: اس شق میں "harm" سے مراد سوشل بائیکاٹ، مذہب سے اخراج اور ذات برادری سے خارج کردینے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔

آرٹیکل نمبر 82: بدعنوانی کی سزا

بدعنوانی کے مرتکب شخص کو تین سال تک سزائے قید، پانچ ہزار روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکتی ہیں۔

شق نمبر 82A: پولنگ سٹیشن اور پولنگ پر قابض ہوجانا

جو کوئی بھی:

(a) پولنگ سٹیشن پر قبضہ کرلے، یا اس مقصد کے لئے متعین کی گئی جگہ پر قبضہ کرلے اور پولنگ حکام کو بیلٹ پیپرز اور بیلٹ بکس اس کے حوالے کرنے پر مجبور کردے، یا ایسے اقدامات کرے جس سے انتخابات کے انعقاد میں خلل اندازی ہو۔

(b) پولنگ سٹیشن یا پولنگ کے لئے متعین کردہ جگہ کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے حامی ووٹرز سے حق رائے دہی استعمال کرائے اور دوسروں کو اس سے محروم کردے۔

(c) کسی ووٹر پر بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر جبر کرے، اسے ڈرائے اور دھمکائے اور اسے پولنگ سٹیشن یا اس کے لئے مختص کی گئی جگہ پر ووٹ ڈالنے کے لئے جانے سے روکے۔

(d) سرکاری ملازم، یا سرکاری اتھارٹی کے زیر اثر کام کرنے والے محکموں، اداروں اور کارپوریشنوں کا ملازم ہوتے ہوئے، کسی امیدوار کے حق میں یا اس کے خلاف درج بالا اقدامات کا ارتکاب کرے، ایسا شخص کم سے کم 3 سال قید جسے پانچ سال تک بڑھایا جاسکتا ہے اور 50 ہزار روپے جرمانہ جسے ایک لاکھ روپے تک بڑھایا جاسکتا ہے، کی سزا کا مستحق ہوگا۔

محترم قارئین! شیخ الاسلام کے مطالبات کی روشنی میں انتخابات کو درج بالا حدود و قیود کے ساتھ منعقد کروانے کو اگر غیر آئینی و غیر قانونی کہا جائے تو ایسے لوگوں کی عقلوں پر صرف ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

8 جون 2012ء کو سپریم کورٹ کا فیصلہ

شیخ الاسلام نے اپنے مطالبات میں ان نکات کو بھی شامل کیا جنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے جون 2012ء کے فیصلے میں آئین کی ان شقوں سے متعلق امور پر شد و مد کے ساتھ بیان کیا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا کہ:

ہم درجِ ذیل قرار دیتے اور حکم دیتے ہیں:

a۔ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری آئین کے آرٹیکل 218 (3) کے تحت تمام الیکشن قوانین عوامی نمائندگی کے ایکٹ، عوامی نمائندگی اور دوسرے قوانین / قواعد وغیرہ پر سختی سے عمل کروائے۔

b۔ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ نہ صرف الیکشن سے متعلق غیر قانونی کاموں پر نظر رکھے (انتخابی مہم میں مالی حدود کی خلاف ورزی وغیرہ) یا بد عنوانیاں (رشوت وغیرہ) بلکہ اُسے یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ الیکشن کی سرگرمیوں پر نظرِ ثانی کرے بشمول جلسے، جلوس، لاؤڈ اسپیکرز کااستعمال وغیرہ؛ شفافیت کے معیار پر ان کے اثرات، انصاف اور دیانت داری پر الیکشن کو پورا کرانا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ جمہوریت کی روح، شفافیت، منصفانہ الیکشن کروانے کے لیے حفاظتی اقدامات کرسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کو حکم دیا جاتا ہے کہ اس کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کرے۔

c۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے اعلان کے دن سے ہی انتخابی اخراجات کا جائزہ لینا چاہیے۔ ایک امیدوار کو انتخابات کے اختتام کے فوری بعد اپنے اخراجات کا حساب دینا چاہیے۔ ڈکلیریشن فارم میں درج ذیل مندرجہ جات ہونے چاہیں:

(i) انتخابی اخراجات پورے کرنے کے لیے میں نے اکاؤنٹ نمبر بینک میں (جس میں شیڈولڈ بنک کا نام معہ برانچ ہوگا) کھلوایا ہے اور اس میں انتخابی اخراجات کے لیے مجوزہ رقم جمع کروا دی ہے۔

(ii) تمام انتخابی اخراجات مندرجہ بالا اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم سے کیے جائیں گے۔

(iii) انتخابی اخراجات کے لیے مندرجہ بالا اکاؤنٹ کے علاوہ کسی بھی دوسرے اکاؤنٹ سے اخراجات نہیں کیے جائیں گے۔ (بینک سٹیٹمنٹ کی کاپی ریٹرن کے ساتھ منسلک کی جائے گی)۔

d۔ الیکشن کمیشن امیدواروں کے ساتھ میٹنگز کرے اور انہیں متعلقہ قوانین اور قواعد کے بارے میں آگاہ کرے اور انتخابی عملے کا تعین کرکے ان امیدواروں سے ہفتہ وار انتخابی اخراجات کی فہرست حاصل کرنے کا کہے اور وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں کا معائنہ بھی کرے۔ انتخابی اخراجات سے متعلق تمام امور جی ایس ٹی، رجسٹرڈ فرمز / اشخاص کے ساتھ ہونے چاہییں۔

e۔ رائے دہندگان کی سہولت کے لیے پورے ملک میں پولنگ اسٹیشنز کی تعداد کو مناسب حد تک بڑھایا جائے تاکہ پولنگ اسٹیشنز رائے دہندگان کی رہائش سے دو کلومیٹر سے زائد فاصلے پر نہ ہوں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو دی گئی تجاویز کو مد نظر رکھنا چاہیے جس میں رائے دہندگان کو سرکاری ٹرانسپورٹ مہیا کرنا ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں امیدواروں کو انتخابات کے دن کے لیے کرایہ کی یا پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی اجازت نہ دی جائے۔ جہاں ٹرانسپورٹ کے انتظامات الیکشن کمیشن نے کیے ہوں تو ان کے راستوں کی تشہیر عوام کی اطلاع کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر وسیع پیمانے پر کی جائے۔

f۔ جہاں تک رائے دہندگان کو پرچی حوالے کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان رائے دہندگان کو مطلوبہ معلومات مہیا کرنے کے لیے دوسرے ذرائع استعمال کرے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے ROPA (یعنی عوامی نمائندگی ایکٹ) کی دفعہ 84 پہ سختی سے عمل درآمد یقینی بناتے ہوئے پولنگ اسٹیشنز کے نزدیک انتخابی دفاتر کے قیام پر فی الفور پابندی لگائی جانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان رائے دہندگان کو ان کے ووٹ کا اقتباس ووٹر لسٹ سے الیکشن کے انعقاد سے کم از کم سات دن قبل بذریعہ ڈاک ایک گھر میں رہنے والے ایک یازیادہ اشخاص کے نام روانہ کرنے کا انتظام کرے یا ڈاک کے اخراجات بچانے کے لیے وہ اقتباسات یوٹیلٹی بلوں کے ساتھ منسلک کرے۔

g۔ کس طرح کی انتخابی مہم کی سرگرمیوں کی اجازت دی جانی چاہیے جو کہ ایک طرف تو انتخابی مہم کا مقصد پورا کریں اور دوسری طرف عام آدمی کی پہنچ میں بھی ہوں؟ اس سلسلے میںدرخواست دہندگان نے کچھ سرگرمیاں تجویز کی ہیں جیسا کہ گھر گھر جا کر campaign کرنا، منشور کی تشہیر، ریاستی ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر راغب کرنا، امیدواروں اور ووٹرز کا بحث مباحثہ وغیرہ شامل ہیں۔ ROPA اور دوسرے متعلقہ قوانین نے ان سرگرمیوں کی اجازت قانون کی نظر میں دی ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان سرگرمیوں کی میرٹ کے مطابق حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

h۔ صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے صوبائی حکومت کے ملازمین کی بجائے وفاقی حکومت، خود مختار تنظیموں/ اداروں کے ملازمین کو پولنگ اسٹیشنز پر تعینات کیا جائے۔

i۔ جہاں تک کمپیوٹرائزڈ بیلٹنگ (ballotting) کو متعارف کروانے کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں بتایا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن پہلے سے ہی اس پر کام کر رہا ہے۔ اس لیے ہم توقع کرتے ہیں کہ مناسب وقت پر اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔

j۔ صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات کے مقصد کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن کو فی الفور قابل بھروسہ اور آزادانہ اداروں کے ذریعے ووٹر لسٹوں کی درست تیاری اور نگرانی کو یقینی بنانا چاہیے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکسان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ رائے دہندگان کی فہرستوں کا گھر گھر جاکر جانچ کرے اور اس تجدید اور نگرانی کے کام کی شفافیت سے تکمیل کے لیے، اگر ضروری ہو تو فوج اور فرنٹیر کور کو بھی تعینات کیا جاسکتا ہے۔

k۔ انتخابی تنازعات کو فی الفور حل کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کے لیے تصحیحی اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان حکومتی اخراجات پر الیکشن قوانین سے مکمل آگاہی رکھنے والے وکلاء کا پینل بنانے پر غور کرے جو کہ معاشرے کے مظلوم طبقہ کو مفت قانونی خدمات فراہم کرے۔

l۔ الیکشن کمیشن کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام رائے دہندگان کی انتخابات میں شرکت ہو اور اس سلسلہ میں پاکستان میں ووٹ ڈالنے کو لازمی بنانے کے لیے جتنی جلدی ممکن ہو تمام ضروری اقدامات کیے جائیں۔

m۔ First past the post طریقہ انتخاب کے تحت ضروری نہیں کہ جیتنے والے امیدوار کو ڈالے گئے ووٹوں کی مکمل اکثریت حاصل ہو اور اس طرح ایسا امیدوار ڈالے گئے ووٹوں کی اکثریت کی حمایت نہ رکھتا ہو۔ اس طرح FPTP طریقہ انتخاب اکثریت کے اصول کی نفی کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن ایسے طریقے اور ذرائع دریافت کرے اور انتخابات کا مناسب طریقہ سے تعارف کروائے جس میں Run off Election اور None of the above options جیسی تجاویز بھی شامل ہوں۔ درج بالا بحث کی روشنی میں لوگوں کی صحیح نمائندگی ہو اور اکثریت کا اصول اپنایا جائے۔

n۔ الیکشن کمیشن کو قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ الیکشن شفاف، دیانتدارانہ، منصفانہ اور قانون کے مطابق ہوں اور بدعنوانی کی حوصلہ شکنی ہو۔ درج بالا مختلف تجاویز پر نقطہ نظر میں اتفاق ہے۔ اس لیے ہم الیکشن کمیشن کو حکم دیتے ہیں کہ قوانین مرتب کرے اور ہدایات جاری کرے تاکہ ان اقدامات کو قانونی تحفظ ہوں، ان پر عمل در آمد ہو تاکہ شفاف، آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا حتمی مقصد حاصل ہوسکے۔

کوئی بھی ذی شعور اور غیر جانبدار شخص شیخ الاسلام کے ان مطالبات کو غیر آئینی قرار نہیں دے سکتا۔ صرف وہی شور شرابہ کریں گے جو آئین و قانون کی شقوں پر عملدرآمد سے گریزاں ہوں گے اور آئین و قانون میں بیان کردہ معیارات پر پورا نہیں اترتے ہوں گے۔

محترم قارئین! آئین و قانون میں موجود ان مطالبات کو نہ صرف ماننے اور ان کے نفاذ سے انکار کردیا گیا بلکہ ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ کے مصداق الزامات و اتہامات کا ایک بازار گرم کردیا گیا جس کے بارے مختصراً آپ گذشتہ صفحات میں پڑھ چکے۔ مزید تفصیلات کے لئے 23 دسمبر سے لے کر لانگ مارچ بلکہ اس کے بعد تک کے اخبارات کا مطالعہ غیر جانبداری سے کریں تو حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ کون کون، کس کس طرح بے نقاب ہوا۔ اب تک ہم نے 23 دسمبر 2012ء تا 12 جنوری 2013ء کے 17 دنوں میں پیش آنے والے حالات و واقعات اور ملکی سیاست میں آنے والے مدوجزر پر مبنی مختصر رپورٹ پیش کی ہے۔ آیئے اب 13 جنوری 2013ء سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کی رپورٹ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

13 جنوری 2013ء (آغاز لانگ مارچ)

13 جنوری2013ء کو تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ لاہور پر اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ کے لئے روانہ ہونے والوں کا ایک جم غفیر موجود تھا۔ حکومتی رکاوٹوں کی وجہ سے ہزاروں لوگ لاہور آنے والے راستوں میں پھنسے ہوئے تھے اور ہر لمحہ کی صورت حال سے مرکز کو آگاہ کررہے تھے۔ منہاج القرآن کا مرکزی سیکرٹریٹ کئی دنوں سے مسلسل کھلا ہوا تھا جہاں ملک بھر سے کارکنان لانگ مارچ میں شرکت کے لئے پہنچ رہے تھے۔ اس لانگ مارچ کا سب سے بڑا امتیاز ننھے بچوں اور خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد میں بھی شامل ہونا تھا۔ نوجوان شرکاء نے پاکستان کے پرچم اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور روایتی جوش و خروش کا مظاہرہ جاری تھا۔ تحریک منہاج القرآن کے بغداد ٹاؤن، ٹاؤن شپ مرکز میں ہزاروں شرکاء لانگ مارچ میں شرکت کے لئے 2 دن قبل ہی پہنچ چکے تھے۔ جہاں ہزاروں شرکاء کی رہائش اور کھانا کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔

موبائل فونز پر مسلسل کالز اور پیغامات موصول ہورہے تھے کہ لاہور کے داخلی راستوں سمیت مختلف مقامات پر صوبائی حکومت نے لانگ مارچ کے ہزاروں شرکاء کی بسوں کو روک رکھا ہے۔ ایڈوانس ادائیگی کر کے مرکز نے 500 گاڑیاں بک کرائی تھی، جن میں سے صرف 12گاڑیاں مرکز آئیں، باقی پنجاب حکومت نے روک دی۔ مرکزی سیکرٹریٹ کے اردگرد لانگ مارچ کی کوریج کے لیے ملکی و غیر ملکی میڈیا کے درجنوں نمائندے موجود تھے۔ میڈیا کے نمائندوں میں رپورٹرز کے علاوہ نیوز کاسٹرز اور اینکر پرسنز بھی خصوصی کوریج کے لیے آئے تھے۔ میڈیا پر لانگ مارچ کی بھرپور لائیو کوریج جاری تھی۔

دوپہر ایک بجے شیخ الاسلام کی رہائش گاہ سے 1 لاکھ افراد پر مشتمل گاڑیوں کا قافلہ اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا۔ آغاز میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ ’’لانگ مارچ نے صبح روانہ ہونا تھا مگر انتظامیہ کی رکاوٹیں التواء کا باعث بنیں جنہوں نے ہماری سینکڑوں گاڑیاں چھین لی ہیں۔ حتی کہ میڈیا کے لئے اور میری سیکیورٹی کے لئے انتظام کردہ گاڑیاں بھی چھین لی گئی ہیں لیکن ہم نے متبادل انتظامات کرلئے ہیں۔ حکمران جو مرضی کرلیں لانگ مارچ روانہ ہورہا ہے۔ ہم کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ عوام کے حقوق کی بحالی تک ہماری کاوشیں جاری رہیں گی‘‘۔

شیخ الاسلام کی ابتدائی پریس بریفنگ کے بعد لانگ مارچ کا یہ پرعزم قافلہ ماڈل ٹاؤن سے روانہ ہوا، ابھی یہ قافلہ ریلوے اسٹیشن لاہور بھی نہ پہنچ پایا تھا کہ ربیع الاول کا چاند نظر آگیا اور شرکاء قافلہ اس مبارک و سعید مہینہ کی برکات کو سمیٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ جی ٹی روڈ پر لانگ مارچ کے راستے میں تمام پٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشن بند تھے۔ لانگ مارچ 7 گھنٹوں میں لاہور سے مرید کے پہنچا۔

جی ٹی روڈ پر جشن کا سامان تھا۔ مریدکے شہر سے جی ٹی روڈ کی اسلام آباد سے لاہور آنے والی سٹرک بھی شرکاء کے لیے کھول دی گئی۔ شرکاء پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔ مریدکے چوک میں سٹرک کے دونوں اطراف ہزاروں استقبالی شرکاء موجود تھے۔ جو سبز ہلالی پرچم اٹھا کر نعروں سے لانگ مارچ کے شرکاء کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔

مریدکے، کامونکی، موڑ ایمن آباد اور دیگر علاقوں سے گزرتے ہوئے یہ لانگ مارچ 11 گھنٹوں بعد گوجرانوالہ پہنچا۔ سردی کی شدت کے باوجود عوام الناس کی کثیر تعداد نے سٹرک کنارے کھڑے ہو کر مارچ کی آمد کا رات 12 بجے تک انتظار کیا۔

لاکھوں لوگوں کے ہمراہ گوجرانوالہ سے گجرات تک کا سفر 4 گھنٹے میں طے ہوا اور صبح 4 بجے مارچ گجرات پہنچا جہاں ہزاروں لوگ شدید سردی میں استقبال کے لیے پہلے ہی سے موجود تھے۔

مارچ صبح 5 بجے گجرات، لالہ موسیٰ سے ہوتا ہوا چک پیرانہ کھاریاں پہنچا۔ چک پیرانہ کھاریاں میں مردوں کے علاوہ منہاج القرآن ویمن لیگ کی سینکڑوں خواتین بھی استقبال کے لیے موجود تھیں۔ یہاں شرکاء کے لئے مقامی احباب نے کھانے اور مختصر پڑاؤ کا انتظام کررکھا تھا۔ نماز فجر چک پیرانہ میں ادا کرکے مارچ اپنی منزل کی جانب روانہ ہوا۔

14 جنوری 2013 ء

لانگ مارچ کے دوسرے دن کا آغاز چک پیرانہ کھاریاں سے ہوا جہاں گزشتہ رات علی الصبح نماز فجر اور کچھ دیر آرام کے لیے قافلہ روکا گیا تھا۔ کھاریاں سے روانگی سے قبل شیخ الاسلام نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا :

’’ہم حقیقی جمہوریت کی بحالی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہم غربت میں پسنے والوں کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہماری جنگ نسل در نسل انگریزوں کے ان وفاداروں سے ہے جن کی چوتھی نسل ہم پر مسلط چلی آرہی ہے اور سرمائے کے بل بوتے پر ہماری حکمران بنی بیٹھی ہے۔ انہوں نے غریبوں، کسانوں، مزدوروں اور ملازموں کو انسان تک نہیں سمجھا۔ ہم اس ظالمانہ فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو تبدیل کرکے حقیقی معنوں میں جمہوریت قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘۔

میڈیا کے نمائندگان سے گفتگو کے بعد یہ لانگ مارچ جہلم شہر کی طرف بڑھنے لگا۔ اہلیان جہلم نے لانگ مارچ کے شرکاء کا پرتپاک استقبال کیا اور شرکاء کو کھانا فراہم کیا۔ لاہور سے جہلم تک کا سفر ساڑھے 23 گھنٹوں پر محیط تھا۔

جہلم کے علاقے کالا گوجراں اور بعد ازاں دینہ میں بھی پرتپاک استقبال کیا گیا۔ شرکاء لانگ مارچ تقریباً شام 4 بجے سوہاوہ پہنچنے جہاں ہزاروں لوگوں نے شاندار استقبال کیا۔ لانگ مارچ جوں جوں روالپنڈی اسلام آباد کے قریب پہنچتا چلا گیا، سینکڑوں گاڑیاں قافلے میں شامل ہوتی گئیں۔ اس دوران ملکی و بین الاقومی میڈیا کے نمائندوں کی ایک بڑی تعداد لانگ مارچ کی کوریج میں مصروف دکھائی دی۔

27 گھنٹوں میں لاہور سے سوہاوہ تک کا سفر طے کرتے ہوئے شام 6 بجے مارچ کے شرکاء گوجر خان سٹی پہنچے، جہاں ہزاروں افراد نے مارچ کا استقبال کیا۔

بعد ازاں مندرہ سے سو سے زائد گاڑیوں کے قافلہ نے لانگ مارچ میں شرکت کی اور یہ قافلہ رات 9 بجے روات پہنچا اور ہزارہا لوگوں کے خیر مقدمی نعروں اور عملی شرکت کے ساتھ لاکھوں افراد کا یہ قافلہ رات گیارہ بجے راولپنڈی پہنچ گیا۔ راولپنڈی میں ہزاروں افراد نے لانگ مارچ کا تاریخی استقبال کیا اور لاکھوں افراد کا یہ سمندر اسلام آباد کی طرف بڑھنے لگا۔

عوامی ملین مارچ کے شرکاء 36 گھنٹوں کا سفر طے کر کے رات تقریباً ایک بجے حکومت کی طرف سے جلسہ کے لیے مختص جگہ جناح ایونیو پہنچنا شروع ہوگئے۔ جلسہ گاہ میں ملین مارچ کے لاکھوں شرکاء کی آمد سے پہلے ہی لاکھوں لوگ موجود تھے۔

یہ مارچ دورانیہ کے اعتبار سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور تا اسلام آباد جانے والا دورانیہ کے اعتبار سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سفری قافلہ بن گیا۔ اس سے پہلے عدلیہ بحالی تحریک کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا قافلہ 26 گھنٹے سفر کر کے اسلام آباد سے لاہور پہنچا تھا۔

شرکاء لانگ مارچ کی آمد کے کچھ دیر بعد رات 2 بجے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملین مارچ کے شرکاء سے پہلا خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’حکومت نے ان سے ڈی چوک میں جلسہ کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اب انہیں روکا جارہا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے انتظامیہ کو ہدایت کروں گا کہ میری گفتگو کے فوری بعد اسٹیج، پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک منتقل کردیں۔ عوام انقلاب اور تبدیلی کا عزم لے کرآئے ہیں۔ میرا وعدہ ہے کہ ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹے گا اور ہم امن کی طاقت کے ذریعے اپنے مطالبات منوائیں گے۔ یہ حکومت اپنی آئینی و قانونی حیثیت کھوچکی ہے۔ اس لئے کہ لاکھوں عوام کا لانگ مارچ میں حکومتی دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود شرکت کرنا حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ لہذا حکومت ہمارے راستے کی رکاوٹ نہ بنے اور ہمارے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ان پر فوری عملدرآمد کو ممکن بنائے‘‘۔

خطاب کے فوری بعد رات تین بجے شرکاء جلسہ نے ڈی چوک کی طرف جانے والے راستوں پر لگے کنٹیرز اور خاردار تاروں کو ہٹانا شروع کردیا اور پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک کو پنڈال ڈیکلیئر کردیا گیا۔ جملہ شرکاء نے ڈی چوک پر جاکر پڑاؤ ڈالنا شروع کردیا۔

15 جنوری 2013ء

13جنوری 2013ء دوپہر 1 بجے شروع ہونے والا لانگ مارچ 14جنوری 2013 رات 4 بجے 36 گھنٹے کی مسافت طے کرکے عالمی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکا تھا۔ دنیا بھر کا میڈیا اس لانگ مارچ کے ایک ایک قدم، استقبال، شرکاء کے جوش و خروش اور تاریخ مرتب کرنے کے حامل ان جذبات کو براہ راست نشر کررہا تھا۔ 15 جنوری کو لانگ مارچ اپنے تیسرے دن میں داخل ہوکر عوامی انقلابی دھرنے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ حکمرانوں کی نیندیں اڑ چکی تھیں، جو قافلہ 36 گھنٹے کے سفر کے دوران اپنے عظیم قائد کی ہدایات پر ایک روپے کا بھی نقصان کئے بغیر پرامن ڈی چوک میں دھرنا دیئے ہوئے تھا۔ افسوس! اسی قائد کو صبح تقریباً 8 بجے حکومتی دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

پولیس نے حکومتی ایماء پر نہتے لوگوں اور معصوم شہریوں پر ہلہ بول دیااور کلثوم پلازا ڈی چوک کے پاس موجود شیخ الاسلام کے کنٹینر پر فائرنگ کی گئی اور انہیں گرفتار کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ موقع پر موجود کارکنان اور مصطفوی مشن کی عظیم مجاہد خواتین اس حکومتی حملہ کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئیں۔ حکومتی مسلح افراد، تحریک کے نہتے اور پرامن لوگوں کی شدید مزاحمت کی بناء پر بالآخر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ اس واقعہ نے شرکاء مارچ کے حوصلوں اور ہمت کو مزید بڑھادیا اور کرپٹ اور فرسودہ نظام کی تبدیلی کا عزم لئے ملین مارچ کے شرکاء عظیم قائد کے زیر قیادت یقین کی دولت لئے استقامت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ فائرنگ کے اس واقعہ کے بعد ہیلی کاپٹر کی انتہائی نچلی سطح تک پرواز کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ معصوم بچوں، عمررسیدہ بزرگوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے مظاہرین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں پرامن بیٹھے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ڈٹے رہنے کا اظہار کرتے رہے۔

اسلام آباد میں لانگ مارچ کے لاکھوں شرکا کی موجودگی میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک پر اپنا افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’ملین مارچ کا یہ اجتماع امن پسند ہے۔ پورا مارچ انسانیت پسند ہے۔ ان شرکاء کا پر امن رہنے کا انحصار مجھ پر ہے۔ اگر میں ان کو حکم دوں کہ یہ پارلیمنٹ اور ایوان صدر پر قبضہ کر لیں تو ایک گھنٹے میں لاکھوں لوگ یہ کام کر دیں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی۔ لیکن کوئی یہ خدشہ نہ کرے کہ میں آج اپنے خطاب کے بعد پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کا حکم دوں گا۔ میں یہ غیر جمہوری کام نہیں کروں گا کیونکہ ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں۔ البتہ یہ حکومت غیر آئینی اور غیر جمہوری اور نا اہل ہے۔ اس حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں پاکستان کی سلامتی کے لیے کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا۔ یہ پارلیمنٹ مکمل طور پر کاغذی کارروائی بن کر رہ گئی ہے۔ آج ملک میں عوام کے بنیادی حقوق تک معطل ہیں۔ ملک میں عوام کے کھانے کے لیے روٹی ہے نہ پینے کے لیے صاف پانی ہے۔ امن ہے نہ انصاف ہے اور نہ انہیں زندگی کی کوئی بنیادی سہولت میسر ہے۔ ایسے میں ملک پاکستان کے عوام سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ ہم ملک میں انار کی اور بدامنی نہیں پھیلانا چاہتے۔ ہماری جدوجہد جمہوریت کی بحالی کے لیے ہے۔ ہماری جدوجہد عوام کو اقتدار منتقل کرنے کے لئے ہے۔ ہماری جدوجہد قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے ہے۔ ہماری جدوجہد عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینے کی ہے۔ ہم جمہوری نظام اور ایک آزادانہ نظام انتخاب میں رہ کر یہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ہم اس ملک میں جمہوریت کا استحکام اور عدل و انصاف چاہتے ہیں۔

آج ملکی میڈیا پر یہ بحث چل رہی ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیچھے کون ہے۔ ایک ماہ سے تمہیں پتہ نہیں چل سکا کہ میرے پیچھے کون ہے، کبھی کہتے ہو کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے۔ جبکہ فوج نے واشگاف الفاظ میں اس کی تردید کردی ہے۔ تم اپنی اوقات بھول گئے، جب تم خود رات کے اندھیروں میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ملتے ہو۔ تم نے میرا تعلق امریکا اور برطانیہ سے جوڑا، خدا کا شکر ہے کہ انہوں نے خود اس کی تردید کردی۔ تم نے ایک مہینہ برباد کیا، تم ایک سال بھی برباد کرو گے تو تمہیں پتہ نہیں چل سکے گا کہ میرے پیچھے کون ہے۔ آؤ آج میں خود بتاتا ہوں کہ میرے پیچھے کون ہے۔ میرے پیچھے وہ ذات ہے جو نظر نہیں آتی ہے۔ وہ رب ذوالجلا ل ہے، میرے پیچھے خدا اور مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ میرے پیچھے اٹھارہ کروڑ عوام ہے۔ میرے پیچھے قوم کے جوان، قوم کی بیٹیاں اور 18 کروڑ عوام کی طاقت ہے۔

یہ تحریک عدلیہ کی آزادی کی تحریک ہے۔ ہم عدلیہ کے فیصلوں پر عمل کرانا چاہتے ہیں۔ محترم نواز شریف کے دور میں محترمہ بے نظیر بھٹو مارچ کے لیے نکلیں تو وہ جائز تھا اور اگر محترم نواز شریف عدلیہ بحالی کے لئے لانگ مارچ کریں تو وہ بھی جائز اور آج ڈاکٹر طاہرالقادری عوام کے حقوق کی خاطر تاریخ کا سب سے بڑا مارچ کر رہا ہے تو یہ ناجائز کس طرح ہوگیا؟

میں گولی، بندوق اور غیر جمہوری و غیر آئینی طریقہ سے جنگ کرنے نہیں آیا۔ میرے پاس صرف امن کا اسلحہ ہے۔ آج صرف ایک فیصد لوگ سارے ملکی وسائل پر قابض ہیں، ننانوے فیصد لوگ وسائل سے محروم اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا یہ جمہوریت ہے۔ اللہ کی عزت کی قسم! میں خود کوئی اختیار لینے نہیں آیا، بلکہ میں عوام کو اختیار دلوانے آیا ہوں۔ میں غریبوں کی خوشحالی اور انہیں حق دلانے کے لیے آیا ہوں۔ میری پارٹی اور کسی شخصیت سے کوئی دشمنی نہیں، بلکہ میری دشمنی ظالم نظام کے خلاف ہے‘‘۔

شیخ الاسلام نے اس موقع پر عالمی میڈیا اور انٹرنیشنل کمیونٹی کو بھی اپنے آئینی و قانونی ایجنڈے کے حوالے سے انگلش زبان میں خطاب کیا۔ شیخ الاسلام کو خطاب کے دوران میں وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف کی رینٹل پاور کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے گرفتاری کے احکامات کے متعلق مطلع کیا گیا تو شیخ الاسلام اور جملہ شرکاء نے عدلیہ کی جرات، استقامت اور حق گوئی کو زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔

شیخ الاسلام کے خطاب کے بعد جملہ شرکاء عزم و استقامت کی تصویر بنے سرد موسم کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے ڈی چوک میں قیام پذیر رہے۔ نمازوں کے اوقات میں نمازیں جاری رہیں۔ شرکاء کی مہمان نوازی کے حوالے سے ایثار و قربانی کی متعدد مثالیں سامنے آئیں۔ شرکاء کے طعام و رہائش اور طبی امداد کے لئے باقاعدہ ایک منظم ڈھانچہ تشکیل دیا گیا تھا۔ ڈی چوک پر تاحد نگاہ خیموں کا ایک شہر آباد تھا۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے اراکین درجنوں موبائل ڈسپنسریز کے ساتھ پنڈال میں متعدد مقامات پر موجود تھے۔ شرکاء اپنے طور پر بھی کئی دنوں کا راشن ساتھ لائے تھے، علاوہ ازیں مرکز کی طرف سے خشک خوراک اور دیگر سہولیات مہیا کی جارہی تھیں۔

15 جنوری کا سورج ان عظیم متوالوں کے پرامن ہونے، اپنے ایجنڈے پر ثابت قدم رہنے اور اپنے عظیم قائد اور ملک و قوم کے ساتھ وفاداری کے حیران کن مناظر دیکھتا ہوا غروب ہوا اور ربیع الاول کا تیسرا چاند ان مناظر کو اپنی چاندنی سے روشن کرنے کے لئے طلوع ہوگیا۔ ملی و قومی نغمے اور انقلابی ترانوں کی دھنیں ان تبدیلی و انقلاب کے چاہنے والوں کے جذبات کے لئے مہمیز کا کام دے رہی تھیں۔ رات بھر شرکاء انفرادی طور پر تسبیح و تہلیل میں مصروف رہے۔ سیکورٹی خدشات اور حکومت کی جانب سے ممکنہ اقدام کے پیش نظر سیکورٹی پر مامور احباب اور جملہ شرکاء بالخصوص منہاج القرآن یوتھ لیگ اور مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ کے جوان الرٹ رہے۔

16 جنوری 2013 ء

لانگ مارچ کے چوتھے روز پارلیمنٹ کے سامنے سورج نے طلوع ہوتے وقت اس منظر سے بھی بڑھ کر شرکاء کے جذبات اور حوصلہ و ہمت کو دیکھا جس کا نظارا وہ کل غروب ہوتے وقت کررہا تھا۔ نماز اور ناشتہ سے فارغ ہونے کے بعد رات بھر سخت سردی کا مقابلہ کرنے کے باوجود ہر شخص تبدیلی اور انتخابی نظام میں اصلاحات کے لئے شیخ الاسلام کے احکامات کی روشنی میں دھرنے میں بیٹھے رہنے کا عزم صمیم لئے ہوئے تھا۔ لانگ مارچ کے چوتھے دن شرکاء شیخ الاسلام کا خطاب اور آئندہ کی حکمت عملی جاننے کے لئے بے تاب تھے۔ لہذا وہ خطاب شروع ہونے سے کئی گھنٹے قبل پنڈال میں مقررہ جگہ پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔ راولپنڈی، گوجر خان، اسلام آباد اور گردو نواح سے ہزاروں لوگ بھی صبح سویرے ہی شیخ الاسلام کی کال پر لبیک کہتے ہوئے اس تاریخی اور قومی ایجنڈے کی تائید کے لئے پنڈال میں گروہ درگروہ پہنچ رہے تھے۔ شیخ الاسلام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’ہمارے وہی مطالبات ہیں جو 23 دسمبر کے مینار پاکستان کے جلسہ میں کیے تھے۔ سات نکاتی ایجنڈے میں حکومت سے بنیادی طور پر چار مطالبات ہیں، باقی تین نکات، پہلے چار نکات پر عملدرآمد کا میکنزم ہے۔ جو لوگ مسائل پیدا کرنے والے ہوتے ہیں، وہ کبھی مسائل حل نہیں کر سکتے، اس لیے جنہوں نے اس ملک میں مسائل کو جنم دیا ہے وہ کیسے ہمارے مسائل حل کر سکتے ہیں؟ دنیا میں کبھی کوئی ایسا ملک دیکھا، جس کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو گرفتاری کے احکامات سنا دیئے ہوں، اور وہ پھر یہ کہے کہ میں وزیراعظم ہوں؟ یہ لوگ عدالتوں پر حملہ کرنے والے ہیں لیکن آج کی عدلیہ جرات مند اور طاقتور ہے۔ اگر ان کے بس میں ہوتا تو یہ آزاد اور خودمختار عدلیہ کو کب کے فارغ کر چکے ہوتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ٹیکس چوری کرنے والے اس ملک کے ممبر ہوں۔ آئین کہتا ہے کہ بجلی چور، پانی، سوئی گیس اور ٹیلی فون بل کے چور اسمبلی کے ممبر نہیں بن سکتے تو اس ملک میں سینکڑوں چور ممبران پارلیمنٹ بنے بیٹھے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ جس شخص کی سالانہ انکم پانچ لاکھ روپے ہو اور ماہانہ اکتالیس ہزار روپے ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹیکس ادا کرے۔ لیکن ممبران اسمبلی نے قانون شکنی کی انتہاء کر دی۔ آرٹیکل 62، 63 اور 218 کانفاذ کر دیا جائے تو اسمبلی سے 90 فیصد نااہل لوگ فارغ ہوجائیں گے۔ آئین کہتا ہے کہ اگر کسی ممبر پارلیمنٹ یا اس کی بیوی نے بیس لاکھ روپے یا اس سے زیادہ کا قرض لیا ہو اور اس نے ایک سال بعد ادائیگی نہ کی ہو تو وہ ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔

پچھلے سال میں دورہ آسٹریلیا پر تھا۔ وہاں پر ایک سابق آسٹریلین وزیراعظم سے ملاقات ہوئی جو مجھے ملنے کے لئے میلبورن سڈنی آئے۔ انہوں نے خود مجھے اپنی زبان سے بتایا کہ جب میں وزیراعظم تھا تو میں پاکستان گیا۔ آسٹریلیا پاکستان کے ساتھ اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا تھا۔ اسلام آباد میں جب مذاکرات ہوگئے تو مذاکرات کرنے والوں میں سے ایک حکمران شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ یہ جو سرمایہ کاری کامعاہدہ ہوا ہے، اس پر تیس فیصد اضافی رقم میرے ذاتی غیر ملکی اکاونٹ میں جائے گی جو بیرون ملک آپ میرے بنک میں منتقل کریں گے۔ اس پر میں نے انکار کردیا اور معاہدہ نہ کیا۔

ایک طرف کرپشن کے لارڈ اور دوسری طرف غریب عوام ہیں، جو نہتے، سادہ اور کمزور ہیں۔ ہم جمہوری اصلاحات کے لیے الیکشن ریفارمز کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم اس ملک میں پرامن، آئینی اور قانونی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کا نفاذ چاہتے ہیں۔

حکومتی بے حیائی اور ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ بلوچستان میں تین روز تک سوا سو لاشیں بے گورو کفن پڑی رہیں مگر کسی کو کوئی اثر نہ ہوا۔ آج زمین پر حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، زمین پر حکومت نہیں بدامنی اورتباہی ہے، دھاندلی ہے، دہشت گردی ہے۔ زمین پر حکومت نہیں بلکہ مک مکا اور اندھیر نگری ہے۔ ہمارے مطالبات ہیں کہ

  • آئین کے آرٹیکلز 62، 63 اور 218 کے مطابق اصلاحات کے بعد الیکشن کرائے جائیں۔ الیکشن کمیشن ایک ماہ میں سکروٹنی کرے۔ جو امیدوار اس معیار پر پورا اترے، اس کو اہل قرار دے، باقی سب کو نا اہل قرار دیا جائے۔
  • عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے انتخابی اصلاحات والے 6 سیکشنز 77 تا 82 پر عمل درآمد کرایا جائے۔
  • انتخابی اصلاحات کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلہ 8 جون 2012ء پر عمل درآمداور سو فیصد نفاذ کرایا جائے۔
  • موجودہ الیکشن کمیشن کو ختم کر کے آئینی و قانونی طریقہ کار کے مطابق ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے اور قومی اسمبلی سمیت تمام صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں۔

آئین و قانون میں ترمیم کرنے والے حکمران عوام کے حق میں کوئی ترمیم نہیں کرتے، یہ اپنے مفاد کے لیے ترامیم کر کے آئین کو اپنے تابع بنانا چاہتے ہیں‘‘۔

شیخ الاسلام کے خطاب کے بعد شرکاء کا جوش و جذبہ دیدنی تھا، ہر گزرتے لمحات کے ساتھ ان کا عزم ولولہ مزید تروتازہ ہوتا جارہا تھا۔ موت سے بے خوف، حکومتی حربوں اور سازشوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہر عورت، مرد، بچہ، بوڑھا آنے والے کل کو محفوظ بنانے کے لئے اپنا آج قربان کرنے کے لئے تیار تھا۔ اس سخت سرد موسم میں بالخصوص خواتین و بچوں کی جرات و استقامت قابل دید تھی۔ بنیادی ضروریات کی قلت اور سخت مشکل حالات میں ان کے جذبات اور ملک و قوم کے ساتھ وفاداری تاریخ کی ناقابل فراموش مثال بن کر دنیا کے سامنے موجود تھی۔ قومی و بین الاقوامی میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہوچکا تھا کہ طاقت کے زور پر حکومت بظاہر اس پرامن مارچ کو منتشر کرنے کے بارے میں تو شاید سوچ سکتی ہے مگر وہ ان جذبات، جرات، بہادری اور عزم صمیم کو قطعاً شکست نہیں دے سکتی جو اس عوامی دھرنے میں موجود ہر شخص کے چہرے سے عیاں ہے کہ یہ جرات مند خواتین و حضرات اور بچے و بوڑھے اپنے قائد کے حکم پر ہر قربانی دینے کے لئے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔

شرکاء اپنے انفرادی و اجتماعی معمولات میں مصروف عمل تھے کہ رات کو کسی بھی لمحے انہیں منتشر کرنے کے لئے حکومتی طاقت کے استعمال کی خبر ہر سو پھیل گئی۔ شیخ الاسلام نے رات کی نشست میں پونے نو بجے شب مختصر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ

’’حکمران طبقہ آج ہم سے اتناڈر گیا ہے کہ وہ اپنی سازش میں کامیاب ہونے کے لیے روزانہ پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ آئندہ دو روز میں تین ارب روپے میرے خلاف خرچ کیے جا رہے ہیں۔ اگر وہ تین ارب تو کیا تین کھرب اور تیس کھرب بھی خرچ کرلے تو یہ جنگ نہیں جیت سکتے کیونکہ اب وہ جنگ ہار چکے ہیں۔ اگر یہ چھوٹامارچ ہے تو پھراس کے خوف سے تمہاری ٹانگیں کیوں کانپ رہی ہے۔ اگر یہ مارچ اتنا ہی چھوٹا ہے کہ تو پھر تمہاری نیندیں کیوں حرام ہو گئیں ہیں۔ تختِ لاہور والوں نے ہماری امن کی طاقت سے خوفزدہ ہوکر قومی مفادات کو یکسر بھلاکر اپنے مفادات کے حصول کے لئے سٹیٹس کو کی حامل تمام جماعتوں کو اکٹھا کرکے اپنی ذہنی شکست اور اخلاقی گراوٹ کا ثبوت دیا ہے، ان کے ایوانوں میں ایک زلزلہ بپا ہوچکا ہے‘‘۔

حکومتی طاقت کے استعمال کے مقابلے میں انتظامیہ نے مسلح جارحیت کا پرامن رہ کرمقابلہ کرنے کافیصلہ کیا، جس کے لیے سیکیورٹی کو سوفیصد بڑھا دیا گیا۔ شب سوا دو بجے جناح ایونیو سے ایوان پارلیمنٹ ہاؤس تک جانے والی تمام چھوٹی سٹرکوں پر بھی حکومتی اہلکار تعینات تھے۔

حکومتی دہشت گردی سے شرکاء مارچ کے حوصلے مزید بلند ہوگئے،بالآخر شرکاء کے عزم، حوصلہ، جرات اور پرامن ہونے کی طاقت نے حکومت کو انتہائی قدم اٹھانے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔

17 جنوری 2013 ء

پرامن، منظم، ایمان کی حرارت کو سینے میں سموئے لاکھوں شرکاء مارچ بغیر کسی ذاتی مفادات کے کھلے آسمان تلے آتے ہوئے آج پانچواں دن تھا۔ گذشتہ رات دھرنے پر طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے پیش نظر شرکاء مارچ کی سیکیورٹی انتہائی الرٹ رہی۔ آج شرکاء کی تعداد میں پہلے سے کئی گنا اضافہ دکھائی دے رہا تھا۔

وکلاء، تاجر نمائندے، طلباء سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے لوگ موسم کی شدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جوق در جوق دھرنے میں شرکت کررہے تھے۔ اسلام آباد کے باسی اپنی فیملیز کے ساتھ شریک ہورہے تھے۔ کسی چہرہ پر گھبراہٹ، پریشانی اور تھکاوٹ کے آثار تک نہ تھے۔ ہر شخص پہلے سے زیادہ Motivated اور متحرک نظر آرہا تھا۔ ساڑھے بارہ بجے شیخ الاسلام کا خطاب شروع ہوا۔ جونہی خطاب شروع ہوا شدید بارش نے شرکاء کا امتحان لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اسلام آباد کی سخت سردی، جنوری کا مہینہ، شدید بارش مگر لاکھوں شرکاء استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے اور ہمہ تن گوش ہوکر شیخ الاسلام کا خطاب سنتے رہے۔ شیخ الاسلام کہہ رہے تھے کہ

’’شدید بارش اور آندھی میں بھی لاکھوں شرکاء اپنی جگہ پر جم کر بیٹھے ہیں۔ یہ ا ن پر اللہ کی رحمت اور امتحان ہے، لیکن دوسری جانب اس ملک کے حکمران ہیں، جو عوام کے ان جذبات کوسمجھنے سے قاصر ہیں۔ عوامِ پاکستان کے مطالبات کو سمجھنا حکمرانوں کا کام نہیں رہا کیونکہ حکمران عوام کے جمہوری مزاج کوسمجھ ہی نہیں سکتے۔ اس لیے وہ اپنی ہٹ دھرمی اور بربریت پر قائم ہیں۔

آج حکمران طبقہ ملک میں دہشت گردی کو خود فروغ دے رہا ہے یاان کا سراغ لگانے میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ دونوں صورتوں میں حکمرانوں کی نااہلیت سامنے آچکی ہے۔ ان دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے اسمبلی کے فلور پر آئین و قانون کی کوئی ترمیم کیوں پیش نہیں کی گئی جبکہ حکمرانوں نے اپنے مفاد میں اٹھارہویں ترمیم سمیت بہت سی ترامیم کرالی۔ حکومتی کرپشن آسمان پر ہے۔ ہر شعبہ میں بدعنوانی شامل ہو گئی ہے۔ وزراء سمیت ہر حکومتی نمائندہ کرپشن کو اپنا حق سمجھتا ہے۔

میں نے 23 دسمبر کے جلسہ کے بعد حکومت کو تین ہفتوں کی مہلت دی تھی، لیکن کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگی۔ میں آج آخری بار حکومت کو دوپہر 3 بجے تک کی ڈیڈ لائن دے رہا ہوں اور میں حکومت کو مذاکرات کی آخری دعوت دے رہا ہوں کہ آئین اور انتخابی اصلاحات کے لئے ہمارے ایجنڈے پر مذاکرات کریں۔ پھر امن کا وقت ختم ہوجائیگا۔ میں نے دھرنے اور مارچ سے پتا نہ ٹوٹنے، گملانہ ٹوٹنے اور ایک شیشہ بھی نہ ٹوٹنے کا وعدہ کیا تھا۔ آج میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا، آج احتجاج کا آخری دن ہوگا۔ کل احتجاج اور دھرنا نہیں ہوگا۔ کیونکہ عورتوں اور بچوں سمیت شدید سرد موسم کی پرواہ کیے بغیر پانچ روز سے لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ اب میں ان کو مزید تکلیف دینا برداشت نہیں کرسکتا۔ حکمرانوں کو ان کی کوئی فکر نہیں۔ میں نے مارچ اور دھرنے میں عورتوں کو شرکت کرنے سے منع کیا تھا، لیکن تحریک منہاج القرآن میں خواتین کی نمایاں نمائندگی کے پیش نظر خواتین نے اصرار کیا کہ ہم اس مارچ میں شریک ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ اس دن کے بعد میں نے ہار مان لی اور خواتین اور بچے ہمارے ساتھ آگئے۔ آج لوگ ان کے بارے پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ہم عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا رہے ہیں۔ اب آخری موقع ہے، اگر حکمرانوں نے یہ موقع بھی گنوا دیا تو پھر ہم اپنے فائنل ایکشن کا اعلان کریں گے اور پھر امن برقرار ہنے کی ضمانت نہیں ہوگی‘‘۔

ایوان ہائے اقتدار میں زلزلہ

شیخ الاسلام کے اس آخری وارننگ نے حکومتی ایوانوں میں زلزلہ بپا کردیا، ہر درد مند شہری نے شرکاء لانگ مارچ کو حق بجانب قرار دیا اور قومی مفادات کے تناظر میں شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کے ایجنڈے کو غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔ نتیجتاً شیخ الاسلام کی اس وارننگ کے بعد تقریباً سہ پہر پونے چار بجے حکومتی اتحاد کا 10 رکنی وفد ڈی چوک لانگ مارچ میں مذاکرات کے لیے آیا۔ اس موقع پر لاکھوں شرکاء مارچ انتہائی پرجوش انداز میں شیخ الاسلام کے حق میں اور تبدیلی کے لئے نعرے لگاتے رہے۔ مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم میں وفاقی وزیر اطلاعات قمرالزمان کائرہ، مخدوم امین فہیم، چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، ڈاکٹر فاروق ستار، بابر غوری، خورشید شاہ، افراسیاب خٹک، عباس آفریدی اور فاروق ایچ نائیک شامل تھے۔

شیخ الاسلام کے خطاب میں حکومت کو آخری وارننگ کا اعلان سن کر ہزاروں لوگوں نے ڈی اسکوائر کا رخ کیا اور مذاکراتی ٹیم کی آمد کے وقت عوامی دھرنا مارچ میں ہزاروں شرکاء کی تعداد بڑھ چکی تھی۔ جن میں زیادہ تر راولپنڈی اور اسلام آباد کے لوگ شامل تھے۔

بالآخر حکومت کو اس پرامن اجتماع اور اس کے جذبات کے ساتھ گھٹنے ٹیکنے پڑے اور حکومت کے 10رکنی وفد اور شیخ الاسلام کے درمیان عوامی لانگ مارچ ڈی اسکوائر میں مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔ یہ بھی دنیا کی تاریخ کا پہلا اور عجیب ترین واقعہ ہے کہ جملہ حکومتی اتحاد کے اعلیٰ سطحی نمائندے بالآخر عوام اور حق کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے شرکاء مظاہرہ کے سامنے دھرنے کے اندر مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ مذاکرات کے دوران قومی میڈیا تو ایک طرف انٹرنیشنل میڈیا اور عالمی حکومتیں بھی اس سارے معاملے کو براہ راست دیکھ رہی تھیں اور شیخ الاسلام اور منہاج القرآن کی امن کی طاقت کا چرچا زبان زد عام تھا۔ شرکاء کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ 4 گھنٹے کے طویل مذاکرات کے بعد شیخ الاسلام نے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کیا۔

اس اعلامیہ پر صدر پاکستان کی توثیق، وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور حکومتی نمائندگان اور شیخ الاسلام کے دستخط ثبت ہونے کے بعد شیخ الاسلام نے باضابطہ طور پر مذاکرات کی تفصیلات اور اعلامیہ شرکاء اور میڈیا کے سامنے بیان فرمایا۔

پریس کانفرنس - اسلام آباد لانگ مارچ ڈکلیریشن

شیخ الاسلام نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو فتح پر مبارکباد دیتا ہوں۔ پاکستان اور دنیا کے کونے کونے سے آئین کی بالا دستی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لیے عوام نے جو کوششیں کیں، وہ پاکستانی تاریخ کا ایک سنہری باب بن گئیں۔ اس میں شامل عوام نے صبرواستقامت کا جو مظاہرہ کیا، اس پر انہیں صد ہا بار مبارکباد دی جاتی ہے۔ آ ج حکومت اور اس کی تمام اتحادی سیاسی جماعتیں بھی عظیم مبارکباد کی مستحق ہیں، جنہو ں نے دانشمندی اور جمہوری انداز میں اچھے اور خوشگوار ماحول میں اس سارے عمل کو آگے بڑھایا۔

بعد ازاں اس پریس کانفرنس میں شیخ الاسلام نے مذاکرات میں شریک تمام رہنماؤں کے نام لے کر انہیں اسلام آباد لانگ مارچ ڈکلیریشن پر مبارکباد پیش کی اور انہیں اظہار خیال کی دعوت دی:

محترم چوہدری شجاعت حسین (مسلم لیگ ق): اتنا بڑا لانگ مارچ نہ کسی نے دیکھا تھا اور نہ کسی نے سنا تھا۔ نہ آئندہ کبھی ایسا مارچ ہوگا۔ اس لانگ مارچ کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس پر میں ڈاکٹر صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے بڑی بصیرت سے یہ کام کیا ہے۔ اس لانگ مارچ کے مطالبات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کر لیا گیا ہے۔

محترم فاروق ایچ نائیک (وفاقی وزیر قانون): لانگ مارچ میں شریک معصوم بچوں، خواتین اور جوانوں کو اس سخت سردی میں ٹھنڈی سٹرک پر لیٹتے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ کے جائز حق پر سب لوگ متفق ہو گئے ہیں۔ اتنا بڑا مارچ کہ جس میں ایک گملہ بھی نہیں ٹوٹا، جس کا ڈاکٹر صاحب نے وعدہ کیاتھا، وہ انہوں نے کر دکھایا ہے۔ آج جمہوریت کی بحالی کے لیے ڈاکٹر صاحب نے جو جدوجہد کی ہے، اس پر انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

محترم فاروق ستار (ایم کیو ایم): میں لانگ مارچ کے شرکاء کو ان کی استقامت اور حوصلے کا مظاہرہ کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس لانگ مارچ کا مقصد پاکستان میں استحکام قائم کرنا، ملک میں بہتر ستھری اور جمہوریت قائم کرنا اور انتخابات کی اصلاحات کرنا ہے۔ پرامن لانگ مارچ کرنے پر آپ کو داد تحسین پیش کرتا ہوں۔

محترم افراسیاب خٹک (اے این پی): میں سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے جمہوریت کو تحفظ دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ جو کررہے ہیں، اس کے نتیجے میں پاکستان میں ایک مکمل جمہوری نظام فروغ پائے گا۔ پاکستان کے امیج کو بہتر کرنے میں بھی ہم آپ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ ہم آج یہ عہد کرتے ہیں کہ اپنے ملک اور جمہوریت کو بچائیں گے۔ میں اس کامیاب معاہدہ پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

محترم عباس آفریدی (فاٹا): میں آپ کو پرامن لانگ مارچ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آج ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اب جمہوریت دن بدن مضبوط ہوگی۔ ہم سب فخر سے سر اونچا کر کے کہہ سکیں گے یہ وہ پاکستان ہے، جس کے لیے ہم نے جدوجہد کی تھی۔

محترم بابر غوری (ایم کیو ایم): اس لانگ مارچ میں آپ لوگوں نے جس مقصدکے لیے جدوجہد کی، اس میں آپ نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ہم قائد تحریک ڈاکٹر طاہرالقادری کو مبارکباد پیش کرتے ہیں جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کے ایک پرامن ملک کا نقشہ پیش کیا ہے۔ اس لانگ مارچ سے پہلے انہوں نے جس کا وعدہ کیا تھا کہ ایک پتا بھی نہیں ٹوٹے گا تو انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ ہم ملک میں دہشت گردوں کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

محترم قمر زمان کائرہ (وفاقی وزیر اطلاعات): میں پاکستان کے تمام جمہوریت پسندوں، شرکاء لانگ مارچ اور بالخصوص خواتین کو جمہوریت کی فتح پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کی اس فتح سے پاکستان میں جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہوئی ہیں۔ آج پاکستان کی اصل جمہوریت یہ لوگ ہیں جو اس لانگ مارچ میں اپنے حمہوری حق کی جنگ لڑتے رہے۔ مجھ سے اور میرے دوستوں سے غلطیاں بھی ہوئی ہے۔ لیکن آج پاکستان اور عوام کی جمہوریت کی فتح پر ہم سب خوش ہیں۔ آج ہم دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ اس منظم احتجاج پر ڈاکٹر صاحب اور پوری پاکستانی قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ آپ کے اس پرامن احتجاج پر آپ کی کوئی مثال نہیں ہے اور یہ پرامن اجتماع اور آپ پرامن لوگ ہی پاکستان کا حقیقی چہرہ ہیں۔

محترم سید خورشید شاہ (وفاقی وزیر مذہبی امور): آج میں سمجھتا ہوں کہ یہ عوام کی فتح ہے، میرے بہن، بھائی اور بچے ملک کے کونے کونے سے تشریف لائے اور اس لانگ مارچ میں ایک پرامن احتجاج کیا۔ ہم اس جمہوریت کو ہی عوام کی طاقت سمجھتے ہیں۔ آج اسی جمہوریت کی فتح کا دن ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خیر وعافیت کے ساتھ رکھے۔ آج جس جدوجہد کے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے، وہ ان شاء اللہ اس طرح ہی اپنی منزل تک پہنچے گا۔ ایک بار پھر ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

محترم مشاہد حسین سید (مسلم لیگ ق): اس لانگ مارچ میں خاص طور پر خواتین نے حصہ لیا، یہ پاکستان کا خود مختار اور آزادانہ ملک ہونے کا تشخص ہے۔ آج ڈاکٹر صاحب نے قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کا ویژن تازہ کردیا ہے۔ میں اس پر آپ سب کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔

محترم شیخ الاسلام

جس طبقہ کو سب سے زیادہ مبارکباد کا مستحق سمجھتا ہوں، وہ اس ملک کا آزاد میڈیا ہے۔ تمام ٹی وی چینلز، تمام اخبارات، تمام فوٹو گرافرز، جرنلسٹ اور تمام عملہ، جنہوں نے لانگ مارچ میں 36 گھنٹے تک میرے ساتھ لاہور سے اسلام آباد کا سفر کیا۔ جو یہاں اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنے کے تمام پانچوں دن میرے ساتھ کوریج کے لیے موجود رہے۔ جنہوں نے لمحہ لمحہ قوم کو میرے پیغام سے آگاہ رکھا، میرے پیغام کو اٹھارہ کروڑ عوام اور دنیا تک پہنچایا۔ میں ایک بار پھر ملکی اور غیر ملکی میڈیا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

آج کا معاہدہ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک عظیم معاہدہ ہے۔ اس معاہدہ میں تمام فیصلے متفقہ طور پر کیے گئے ہیں۔ یہ آج 17 جنوری 2013 کو سائن ہوا ہے اور اس کا نام ’’اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن‘‘ ہے۔ اس کے شرکاء میں حکومت اور اتحادی جماعتوں کے دس نمائندے شامل ہیں، جو یہاں میرے ساتھ موجود ہیں۔ حکومت کا تین رکنی وفد پی ایم ہاؤس جا کر وزیراعظم سے دستخط کرا کے لایا، جس کے بعد اس معاہدے پر میرے دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے مطابق یہ فیصلہ ہوا ہے کہ

  • قومی اسمبلی 16 مارچ سے پہلے کسی وقت بھی تحلیل کردی جائے گی، تاکہ انتخابات 90 دنوں میں منعقد ہوسکیں۔ 90 دنوں کے معاملے پر مذاکرات نے بہت ٹائم لیا۔ تمام شرکاء نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا، لیکن الحمداللہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات کے انعقاد پر اتفاق ہو گیا ہے۔

٭ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ 90 دنوں میں ایک مہینہ یعنی پورے 30 دن تک سکروٹنی کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ اس پر تمام جماعتیں پابند ہوں گی اور امیدوار سکروٹنی کے عمل میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 سے گزریں گے۔ جو امیدوار اس پر پورا نہیں اتریں گے، وہ الیکشن سے باہر ہو جائیں گے۔

٭ یہ بھی طے پا گیا ہے کہ کسی امیدوار کی سکروٹنی کے عمل میں جب تک Pre-clearance نہیں ہو جاتی، اس وقت تک اسے الیکشن مہم شرو ع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

  • معاہدہ میں طے پا گیا ہے کہ پاکستان عوامی تحریک اور حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتیں ملکر نگران وزیراعظم فائنل کریں گے۔ اب صرف حکمران جماعت نگران وزیراعظم کے لیے کوئی نام پیش نہیں کر سکتی۔ نگران وزیراعظم پر فریقین کا اتفاق ہوگا، وہی نام آگے پیش کئے جائیں گے۔
  • الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے معاملے پر کچھ آئینی مشکلات ہیں۔ اس پر آئینی ماہرین کی مزید مشاورت کی ضرورت ہے۔ لہذا الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا مسئلہ اگلی میٹنگ میں ڈسکس ہوگا۔ یہ میٹنگ 27 جنوری کو منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ میں ہوگی۔ اس سلسلہ میں جتنے بھی اجلاس ہوں گے، وہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ہوں گے۔

٭ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے غوروحوض کے ذریعے کوئی راستہ نکالیں گے، اس کے لیے ہم وزیرقانون سمیت کچھ آئینی ماہرین اور نامور ماہرین قانون کے ساتھ یہ مسئلہ ڈسکس کریں گے۔ فاروق ایچ نائیک ان کے ساتھ مشاورت کر کے آئندہ اجلاس میں اس کا مناسب حل نکالیں گے۔

  • آنے والے الیکشن میں مکمل طور پر ان اصلاحات کو نافذ کیا جائے گا۔

i۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 62، 63 اور 218 کے مطابق امیدواروں کی چھانٹی ہوگی اور پورا انتخاب اس کے تابع ہوگا۔

ii۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء متعلقہ دفعات کے ساتھ نافذ کیا جائے گا اور تمام دھن، دھونس اور دھاندلی والے عناصر کو نکالا جائے گا۔

iii۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی انتخابی اصلاحات 8 جون 2012ء پر سو فیصد اس کی روح کے مطابق نفاذ ہوگا، اور الیکشن اس کے مطابق ہوگا۔

  • لانگ مارچ میں جتنے مقدمے ایک دوسرے کے خلاف درج ہوئے، وہ فوری طور پر واپس لیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں مارچ انتظامیہ اور مارچ کے شرکاء کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوگی۔

مذاکرات کے دوران حکومتی وفد کو صدر پاکستان کا بھی ٹیلی فون آیا تھا۔ انہیں بھی یہ معاہدہ پڑھ کر سنایا گیا، پھر صدر پاکستان کی توثیق کے ساتھ وزیراعظم نے اس معاہدہ پر دستخط کر دیئے۔

یہ آئین اور قانون کی فتح ہے، اس پر میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں جمہوریت کے لیے محترمہ کی قربانی کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا۔ محترمہ شہید وہ رہنماء ہیں جو منہاج القرآن کی لائف ممبر بھی تھیں۔

٭ آخر میں فاروق ایچ نائیک نے معاہدہ کو انگریزی زبان میں پڑھ کر سنایا۔

اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلیریشن(17 جنوری 2013 ء)

  • قومی اسمبلی کو (اپنی مقررہ میعاد) 16 مارچ سے قبل کسی بھی وقت تحلیل کر دیا جائے گا، تاکہ اس کے بعد نوے دن کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد کروایا جا سکے۔ کاغذات کی جانچ پڑتال اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کی Pre-clearance کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کا یقین کرسکے۔ کسی بھی امیدوار کو اپنی انتخابی مہم کے آغاز کی اجازت نہیں دی جائے گی جب تک ان کی یہ چھانٹی نہیں ہو جاتی اور الیکشن کمیشن ان کی اہلیت کا فیصلہ نہیں کرتا۔
  • حکومتی اتحاد اور پاکستان عوامی تحریک دونوں مکمل اتفاق رائے سے دو دیانت دار اور غیر جانبدار امیدواروں کے نام نگران وزیر اعظم کے طور پر تجویز کریں گے۔
  • الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے بارے میں ایک اجلاس اگلے ہفتے اتوار 27جنوری 2013ء کو بارہ بجے منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ لاہور میں منعقد ہوگا۔ اس کے بعد ہونے والے تمام اجلاس بھی منہاج القرآن کے سیکرٹریٹ میں ہی ہوں گے۔ آج کے فیصلے کی پیروی میں وزیر قانون مندرجہ ذیل وکلاء کو ایک اجلاس میں ان معاملات پر غور کے لیے بلائیں گے : ایس ایم ظفر، وسیم سجاد، اعتزاز احسن، فروغ نسیم، لطیف آفریدی، ڈاکٹر خالد رانجھا اور ہمایوں احسان۔ وزیر قانون فاروق ایچ نائیک ستائیس جنوری کے اجلاس میں قانونی صلاح و مشورے کے بارے میں رپورٹ پیش کریں گے۔
  • انتخابی اصلاحات کے بارے میں اتفاق کیا گیا کہ انتخابات سے پہلے آئین کے مندرجہ ذیل شقوں پر عملدرآمد پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔

i۔ آئین کی شق 62، 63 اور 218(3)

ii۔ عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976ء کے سیکشن 77 تا 82 اور دوسرے سیکشنز جو انتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایماندارنہ بنیادوں پر انعقاد اور ہر قسم کے بدعنوان معمولات کے تدارک سے متعلق ہیں۔

iii۔ سپریم کورٹ کے انتخابی اصلاحات پر 8 جون 2012ء کو صادر ہونے والے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کروایا جائے گا۔

iv۔ لانگ مارچ کے اختتام کے بعد جانبین کے ایک دوسرے کے خلاف تمام قسم کے مقدمات ختم کردیئے جائیں گے اور دونوں جانب سے ایک دوسرے اور مارچ میں شریک کسی فرد یا تنظیم کے خلاف کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے۔

اس اعلامیے پر خوش اسلوبی اور مفاہمت کی رو سے عمل درآمد کیا جائے گا۔

شیخ الاسلام اور حکومتی وفد کے مابین ہونے والے اس ڈیکلریشن پر شرکاء نے خوشی کا اظہار کیا کہ بالآخر فتح عوام، جمہوریت اور امن کی ہوئی اور شیخ الاسلام و منہاج القرآن نے دنیا کی تاریخ میں ایک عظیم مثال قائم کی جس کی نظیر مغربی دنیا میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

لانگ مارچ کے بعد حکومت اور شیخ الاسلام کے مابین پہلے باضابطہ مذاکرات

17جنوری 2013ء لانگ مارچ کے اختتام پر حکومت پاکستان نے شیخ الاسلام کے تمام مطالبات منظور کئے اور آئندہ الیکشن میں ان پر عملدرآمد کا یقین دلایا۔ تاہم الیکشن کمیشن کی تحلیل اور نگران حکومتوں پر آئینی و قانونی مشاورت کے بعد 27 جنوری 2013ء کو منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں میٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس فیصلہ کی روشنی میں 27 جنوری 2013ء کو شیخ الاسلام کے ساتھ حکومتی ٹیم کے منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں مذاکرات ہوئے۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے مذاکرات میں چوہدری شجاعت حسین، مشاہد حسین سید، مخدوم امین فہیم، قمر الزمان کائرہ، خورشید شاہ، ڈاکٹر فاروق ستار اور بابر غوری شریک ہوئے۔ مذاکرات کے بعد مشترکہ پریس کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ اسلام آباد ڈیکلریشن پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ آج کے اجلاس میں ہمارا حکومتی وفد سے اتفاق پایا گیا ہے کہ 16مارچ سے پہلے اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی جبکہ آئندہ 7سے 10دن میں اسمبلیوں کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخوں کا اعلان بھی کر دیا جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے مطابق امیدواروں کی سکروٹنی کے لئے 30دن مقرر کر دئیے جائیں گے اور اس اعلامیہ کو قانونی حیثیت دی جائے گی تاکہ تشویش پیدا کرنیوالوں کی زبانوں کو بند کیا جا سکے۔ نگران وزیراعظم اور صوبوں کے وزراء اعلی کا انتحاب حکومتی وفد اور پاکستان عوامی تحریک کی مشاورت سے کرنے پر مکمل اتفاق ہے۔ الیکشن کمیشن کی تحلیل کے موضوع پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ چیف الیکشن کمیشنر کی ایمانداری پر کسی کو شک نہیں لیکن باقی 4ارکان کی تعیناتی آئین کے مطابق نہیں ہوئی اور وہ غیر آئینی ہیں، آئین کے آرٹیکل 213کے مطابق ان ارکان کا انتحاب نہیں کیا گیا اور ان کی تعیناتی غیر قانونی ہے۔ ہم اس موقف پر قائم ہیں کہ آئینی طور پر الیکشن کمیشن تشکیل ہی نہیں پایا لہذا ہم اپنے اس موقف کے حوالے سے کوئی بھی ایکشن لے سکتے ہیں اور اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے پاس بھی جاسکتے ہیں۔ حکومتی وفد کی جانب سے عوامی نمائندگی ایکٹ اور الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 8 جون 2012ء کے فیصلے پر عملدرآمد کا یقین دلایا گیا ہے اور اس نقطہ پر مکمل اتفاق ہو گیا ہے۔ حکومتی وفد سے مطالبہ کیا گیا ہے الیکشن کو شفاف بنانے کے لئے وزیراعظم اور صوبوں کے وزراء اعلی کو دئیے جانیوالے صوابدیدی فنڈز کا استعمال فوری طور پر روکا جائے اور اس فنڈز کا 50فیصد استعمال بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے پر خرچ کیا جائے جبکہ باقی 50فیصد فنڈز آٹے، چینی، دال،گھی، چاول پر سبسڈی دینے پر خرچ کئے جائیں تاکہ غریبوں کو جینے کا موقع مل سکے اور زندگی انھیں بوجھ نہ لگے۔ اس ایشو پر حکومتی وفد نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ وہ صوابدیدی فنڈز کے متعلق یہ فیصلہ نہیں کرتے۔ لہذا پاکستان عوامی تحریک اس موقف کو منوانے کے لئے کسی بھی ایکشن کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

اس موقع پر محترم قمر الزمان کائرہ نے کہا تمام معاملات پر تفصیلی غور کیا گیا ہے اسمبلیوں کو وقت سے پہلے تحلیل کیا جائے گا اور7سے 10دن کے اندر الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ نگران حکومت کا قیام بھی پاکستان عوامی تحریک کی مشاورت سے ہو گا۔ آرٹیکل 62اور 63پر عملدرآمد الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی ذمہ داری ہے جس پر امید ہے وہ مکمل عملدرآمد کرائیں گے۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کے نفاذ پر مکمل اتفاق پایا گیا ہے ا سکے ساتھ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کے حوالے سے فیصلے پر عملدرآمد یقینی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے فنڈز کا استعمال روکنے کے مطالبہ پر عمل ابھی ممکن نہیں۔ بہت سے پراجیکٹ ابھی جاری ہیں انہیں نامکمل نہیں چھوڑا جا سکتا۔ فیڈرل حکومت کے پاس 350ارب جبکہ صوبوں کے پاس 650ارب کے فنڈز استعمال ہو رہے ہیںاور صوبوں کے فنڈز پر ہمارا کنٹرول نہیں لیکن میں یقین دلاتا ہوں جب الیکشن کمیشن کا کام شروع ہوجائے گا ہم ملکر ان فنڈز کا استعمال روکیں گے۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ حکومت اور شیخ الاسلام کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور کا اعلان 31 جنوری کو کیا جائیگا۔ مرکزی سیکرٹریٹ میں پانچ گھنٹے سے زائد تک اسلام آباد ڈیکلریشن پر مذاکرات ہوئے۔ اس موقع پر دونوں طرف سے آئینی و قانونی ماہرین نے شرکاء کو نکات پر تفصیلی بریفنگ دی۔