کرپٹ نظام سے لڑنا ہوگا۔۔۔

ڈاکٹر علی اکبر قادری

سرزمین پاکستان میں آج کل چار سو بہار کے رنگ بکھر رہے ہیں مگر جب ماحول زندگی کش بن جائے تو انسان تمام بہاروں سے بے نیاز ہوکر اپنی بقاء کی فکر میں خود غرض بن جاتا ہے۔ اندر بہار ہو تو باہر کی شدید موسمی تلخیاں برداشت ہوجاتی ہیں لیکن اندر گھٹن ہو، اعصاب پر مسائل کے پربت گررہے ہوں اور ذہن میں گزر اوقات کے چیلنجز کروٹیں لے رہے ہوں تو کوئی بہار، کوئی بانکپن اور کوئی دلکشی انسان کو بھلی نہیں لگتی۔ اس کے لئے سال کے سب موسم خزاں رسیدہ رہتے ہیں۔ اس کے لئے نہ علم و ہنر فیض رساں رہتا ہے اور نہ عبادت و ریاضت میں دل لگتا ہے۔ ایسے حالات میں عموماً نفسا نفسی، حرس و ہوس، لاقانونیت مار دھاڑ حتی کہ قتل و غارت گری جیسے حیات کش رجحانات سر اٹھالیتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب انسانوں کا معاشرہ خوں خوار درندوں کا نقشہ پیش کررہا ہوتا ہے اور یہ کسی بھی قوم کی بدترین حالت ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک شخص جسے اللہ تعالیٰ نے تھوڑی بہت حساس طبیعت اور فطرت سلیمہ سے نواز رکھا ہے وہ جانتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ گذشتہ کئی دھائیوں سے اس افسوسناک تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے اور آہستہ آہستہ گہری کھائیوں کی طرف سرک رہا ہے۔ یہ حالات راتوں رات پیدا نہیں ہوئے انہیں اس موڑ تک لانے میں ’’اہل فکر و تدبر‘‘  کی سالہا سال کی منصوبہ بندی شامل ہے۔

فطرت کرتی ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

پاکستان جس جذبے، جس تڑپ اور جس آرزو کے ساتھ بنایا گیا تھا آج نہ وہ جذبے ہیں نہ تڑپ ہے اور نہ وہ حسن آرزو ہی باقی رہی ہے جو ہر قوم کو سہارا دے کر کھڑا کردیتی ہے۔ اس قوم نے پے درپے دھوکے کھائے ہیں، اسے اتنا لوٹا اتنا توڑا اور اس قدر زخمی کیا کہ اس کی چیخیں مشرق و مغرب میں سنائی دیتی ہیں۔ اب یہ ملک دنیا کے خطرناک ترین خطوں میں شامل ہوچکا ہے۔ جہاں زندگی سسک سسک کر جی رہی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خطہ خداداد کو اس قدر بدحال کرنے والوں کا اتہ پتہ بھی معلوم ہے یا اسے بھی خفیہ ہاتھوں کی کارستانی کہہ کر آنکھیں بند کرلی جائیں۔ جی ہاں اسے اس کے چوکیداروں نے لوٹا اور اس کے رہبروں نے نوچا۔ عوام اور ملکی ادارے تباہی کے گھاٹ اتر گئے اور لٹیروں کے اکؤنٹ، جائیدادیں اور عشرت کدے ملک اور بیرون ملک خود بہ خود چغلی کھارہے ہیں۔ آج وہی لٹیرے، بازی گر اور چرب زبان سیاستدان تھوڑی بہت انتخابی تبدیلیوں کے ساتھ میدان عمل میں کود رہے ہیں۔ ان کے مزاج اور کردار میں آج بھی فرعونیت آمریت اور خود پسندی کے بت سجے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بار بار اقتدار کے دستر خوان پر اس لئے بھی منڈلا رہے ہیں کیونکہ انہیں کوئی قانون، کوئی طاقت روکنے والی نہیں۔ دیکھنے کو یہاں عدلیہ بھی آزاد ہے اور میڈیا بھی لیکن نہ عدلیہ کرپشن کی سونامی کو روک سکی ہے اور نہ میڈیا کوئی رکاوٹ ڈال سکا۔ وجہ یہ ہے کہ عدلیہ اور میڈیا دونوں نے خود نظام کا سفید ہاتھی پال کر رکھا ہوا ہے جو انہیں بھی نواز رہا ہے اور لوٹ مار کرنے والوں کو بھی۔ اس نظام لوٹ مار کے خلاف اگرچہ کہیں کہیں سے آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں، بغاوتیں کروٹیں لے رہی ہیں اور تبدیلی کے نعرے بھی سنائی دیتے ہیں مگر یہ آوازیں ابھی موثر نہیں ہورہیں۔ سبب صرف ایک ہے کہ متاثرہ فریق یعنی عوام مکمل طور پر تبدیلی کا حصہ نہیں بن پارہے۔ ہر پانچ سال کے بعد یہاں جمہوریت کے نام پر انتخابات کی مشق ہوتی ہے لوگ پرچی کے ذریعے اپنا انتقامی جذبہ وقتی طور پر ٹھنڈا کرلیتے ہیں اور پھر اگلا پانچ سالہ عرصہ اپنی تقدیر انہی لوگوں کے ہاتھوں میں دے کر واپس مسائل و مشکلات کی دلدل میں اتر جاتے ہیں۔

مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو مصائب و آلام کی بھاری سلوں کے نیچے کراہتی ہوئی خون میں لت پت قوم سے اس جمہوریت نے کون کون سے انتقام نہیں لئے؟ اندھیروں کا انتقام، دہشت گردی کا انتقام، مہنگائی کا انتقام، ریکارڈ توڑ کرپشن کا انتقام اور فاٹا سے لے کر بلوچستان اور کراچی کی شاہراہوں پر بے موت مرنے والے 40 ہزار پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کا انتقام۔ یہ سارے انتقام دراصل پاکستانی قوم کے اس بھولپن کا انتقام ہے جس کے تحت یہ ہر بار چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھیجتی ہے۔

پاکستانی عوام کی غفلت، لاعلمی اور عاقبت نااندیشی کو دیکھیں تو اس قوم کے عقل و شعور پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اسے لوٹنے والوں کی نسلیں بدل رہی ہیں، دادا کی جگہ اب پوتے اور نانا کی جگہ نواسے میدان سیاست میں اتر چکے ہیں، جو کمپیوٹرائزڈ نقب زنی میں اپنے باپ دادا سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ادھر نعرے لگانے اور ووٹوں کا ہدیہ دینے والوں کی نسلیں بھی بدل چکی ہیں مگر مجبوریوں اور مفادات کے پھندوں نے ان کے ہاتھ پؤں جکڑ رکھے ہیں۔ پاکستانی قوم میں نسلی، لسانی، صوبائی اور مذہبی انتشار کی شدت اور کثرت نے مزید ظلم یہ ڈھا رکھا ہے کہ یہ طبقات اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ان تعصبات کا فائدہ بھی یہی سیاسی لٹیرے اٹھا لیتے ہیں اور عوام ایک مرتبہ پھر اگلے پانچ سالوں کے لئے اپنے زخموں کو چاٹتی رہ جاتی ہے۔ پہلے تو ہم نے انفرادی اور قومی مال، عزت اور زندگی کو دؤ پر لگائے رکھا مگر مکار دشمن نے اس مرتبہ ملکی سلامتی کو دؤ پر لگوانے کا اہتمام کررکھا ہے۔ اس لئے اہل بصیرت اس مرتبہ زیادہ فکر مندی کا شکار ہیں۔ اس مرتبہ منظر نامہ خاصی حد تک خون آلود نظر آرہا ہے۔

انہی حالات و واقعات کے تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’سیاست نہیں ریاست بچؤ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ انہوں نے ان تمام مسائل کی جڑ کرپٹ نظام انتخابات کو قرار دیا اور آئین و قوانین کی روشنی میں انتخابی اصلاحات کی طرف پوری قوم کی توجہ مبذول کروائی مگر مقتدر طبقات نے ہٹ دھرمی، تعصب اور اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر ان پر کوئی توجہ نہ دی مگر آج قوم کے سامنے ’’مک مکا‘‘ پر مبنی باری کی منافقانہ سیاست کے پردے آہستہ آہستہ چاک ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ مفاداتی سیاست کا رواج عام ہے اور دھڑے بندیوں کے علاوہ قومی صحافتی اداروں میں ذاتی پسند و ناپسند کا عمل دخل بھی بہت زیادہ ہے اس لئے ہمارے بعض تبصرہ نگار اور تجزیہ کار ان کے پیچھے کسی خفیہ ہاتھ کی تلاش کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ حالانکہ انہوں نے جن مسائل اور خطرات کا ذکر کیا ہے ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس سے اصولی طور پر اختلاف کیا جاسکے۔ مگر اس ملک کی سیاست، شرافت اور عدالت کے کیا کہنے کہ اتنا غبن، کرپشن، لوٹ مار، اداروں کی بربادی اور ملکی سلامتی کے خلاف اقدامات کرنے والے پھر بھی ملک قوم اور آئین کے وفادار ہیں اور جو شخص اس لوٹ مار اور انتخابی دھاندلی کو روکنے کے لئے الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت پر اعتراض لے کر عدالت جاتا ہے اسے غیر ملکی قرار دے کر اس کی نیت پر شک کیا جاتا ہے۔

وہ سیاسی بازی گر جنہوں نے پورا ملک لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرلی ہیں اور ایک مرتبہ پھر لوٹ مار کا میدان سجانے کے لئے مکاریوں اور عیاریوں کا جال بچھارہے ہیں۔ اس انتخابی نظام میں تبدیلی نہ آئی تو لوٹ مار کے کھیل کو قانونی اور آئینی تائید ملتی رہے گی اور ملک کی سلامتی مزید خطروں میں گھرتی چلی جائے گی۔ ان تمام حقائق سے قوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مطلع کرنے کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری جیسے اہل علم و بصیرت شخص نے ’’سیاست نہیں ریاست بچؤ‘‘ کے مقصد کے تحت ساری خرابیوں کی جڑ ’’پاکستان کے کرپٹ نظام انتخاب‘‘ کو مسترد کرتے ہوئے پولنگ ڈے پر اس عوام دشمن نظام کے خلاف ملک بھر میں پرامن دھرنوں کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ جمہوریت سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کے لئے اس کرپٹ و فرسودہ سیاسی نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا اور اس کی جگہ ایسا صاف شفاف اور بااختیار جمہوری نظام تشکیل دینا ہوگا جو ایک طرف پاکستان کے کلچر، روایات، ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ہو اور دوسری طرف پاکستان کی اندرونی و بیرونی سالمیت اور اس کے شہریوں کے حقوق کا محافظ بھی بن سکے۔

پولنگ ڈے پر دھرنے دراصل VOTE FOR NONE کا اظہار ہیں یعنی موجودہ کرپٹ نظام انتخابات میں حصہ لینے والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارے ووٹ کا آئینی و قانونی حقدار قرار پائے کیونکہ یہ سب اسی کرپٹ نظام کی پیداوار اور اسی کے محافظ ہیں۔ 60 فیصد لوگ پہلے ہی ان امیدواروں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال ہی نہیں کرتے مگر ان کا یہ اظہار کسی بھی سطح کے فورم کے نوٹس اور ریکارڈ میں نہیں آتا۔ پاکستان عوامی تحریک نے بالخصوص انہی لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے پولنگ ڈے پر ملک گیر دھرنوں کا فیصلہ کیا ہے۔ لہذا گھروں میں خاموشی سے بیٹھ رہنے کے بجائے اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لئے VOTE FOR NONE کے سلوگن کے ساتھ اپنے اپنے شہروں میں ہونے والے دھرنوں میں بھرپور شرکت کو یقینی بنائیں۔

شیخ الاسلام اور پاکستان عوامی تحریک کے مخاطب وہ لوگ بھی ہیں جو اپنے وقتی و سطحی مفادات، کسی مجبوری و تعلق داری اور خوف و لالچ کی وجہ سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ ان مجبور و بے کس لوگوں کو بھی ملکی و قومی مفاد کے پیش نظر اس نظام کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پہ لبیک کہنا ہوگا اور عزم مصمم لئے پولنگ ڈے دھرنوں میں شریک ہوکر ’’کرپٹ نظام سے لڑنا ہوگا‘‘۔