باطل کے اقتدار میں تقویٰ کی آرزو؟

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین : محمد یوسف منہاجین معاون : محمد طاہر معین

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

يايُهَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَاَنْذِرْ. وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ. وَ ثِيَابَکَ فَطَهِرْ.

 (المدثر،1-4)

"اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)o اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیںo اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیںo اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں"۔

سورہ المدثر کی یہ پانچ آیات پیغام رسالت پر مشتمل ہیں۔ وہ احباب جو دین کو سمجھنا چاہتے ہیں، ان کے لئے ان آیات میں راہنمائی موجود ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منصب رسالت پر فائز کرتے ہوئے ان پانچ آیات پر مشتمل ذمہ داریاں عطا فرمائیں۔ اگر امت مسلمہ فیضان و انوار رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے ظاہرو باطن کو روشن کرنا چاہتی ہے اور اپنا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت سے قائم کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی اتباع و پیروی کرنے والی بننا چاہتی ہے تو پھر زندگی کے تمام گوشوں اور نظام کی اسی طرح اصلاح کرنا ہوگا جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم تک حکم پہنچایا۔

ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منصب رسالت کی ذمہ داریوں سے آگاہ فرمایا کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے سرکش، باغی اور نافرمان ہوگئے ہیں، دین کے خلاف عداوت اور عناد پر اترتے ہوئے انسانیت پر ظلم اور اللہ کی واضح نافرمانی کا ارتکاب کررہے ہیں ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت کے ذلت ناک عذاب کا ڈر سنادیں۔ جھوٹے، باطل، طاغوتی نظاموں کے تسلط اور جھوٹے خدؤں کی بالا دستی کے بتوں کو پاش پاش کرتے ہوئے اپنے سچے رب کی کبریائی کا ڈنکا بجا دیجئے۔ وہ سارے نظام اور وہ ساری بالادستی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے خلاف ہیں، ان کو ماننے اور ان کی بڑائی و بالا دستی کو تسلیم کرنے کے بجائے فقط اپنے رب کے نظام کی بالادستی کا علم بلند کریں اور وہ سارے لوگ اور نظام جو بڑائی کے لائق نہیں ان کو مسترد کردیں۔

معاشرے کے لباس کی تطہیر کا حکم

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نےوَثِيَابَکَ فَطَهِرکے الفاظ کے ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ظاہرو باطن کے لباس کو پہلے کی طرح ہمیشہ پاک رکھنے کا حکم دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لباس تو پہلے ہی پاک تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں کس لباس کو پاک رکھنے کا حکم دیا؟

یاد رکھیں! ہماری معاشرتی زندگی میں مختلف نظام کارفرما ہیں مثلاً معاشرت کا نظام، گھریلو زندگی کا نظام، سیاست کا نظام، تہذیب و ثقافت کا نظام، کاروبار و تجارت کا نظام۔ یہ تمام نظام جس سے پورے معاشرے کی زندگی عبارت ہے درحقیقت معاشرے کا لباس ہیں۔ ہمارے ملک کا سیاسی نظام ہمارا لباس ہے۔۔۔ تہذیب و ثقافتی نظام ہمارا لباس ہے۔۔۔ معاشی نظام ہمارا لباس ہے۔۔۔ تعلیمی و تربیتی نظام ہمارا لباس ہے۔۔۔ لہذاوَثِيَابَکَ فَطَهِرسے مراد یہ ہے کہ

یہ مختلف نظام جن میں یہ معاشرہ زندگی بسر کررہا ہے جب دین کی سربلندی کا نعرہ بلند کردیا جائے اور باطل کے بتوں کو توڑ دیا جائے تو پھر ان تمام کو بھی طاغوت کی آلائشوں سے پاک رکھنا ہوگا۔ جب اللہ کی کبریائی کا ڈنکا بجانا ہے تو خالی مسجدوں میں ہی اللہ کا دین نہ رہے، صرف پانچ وقت کے لئے ہی زندگی پاک نہ ہو بلکہ جیسے اللہ کے حضور سجدہ ریزی کے وقت بدن کا لباس پاک ہوتا ہے، اسی طرح گھریلو زندگی کا لباس بھی پاک ہو۔۔۔ اقتصادی زندگی کا لباس بھی پاک ہو۔۔۔ معاشی، معاشرتی اور سماجی زندگی کا لباس بھی پاک ہو۔۔۔ سیاسی زندگی کا لباس بھی پاک ہو۔۔۔ تہذیب اور ثقافت کا لباس بھی پاک ہو۔۔۔ تاکہ معاشرے کے جتنے نظام ہیں وہ سارے اللہ کے دین کے ساتھ پاک ہوجائیں اور باطل، کفر، طاغوت کی جملہ پالیدیاں مٹ جائیں۔

افسوس! ہمارا معاشرتی طرز عمل اس فکر کے برعکس ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مسجد کا نظام اچھا ہوجائے۔۔۔ مذہبی معاملات اچھے ہوجائیں۔۔۔ عقیدہ اچھا ہوجائے۔۔۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کے احکامات ادا ہوجائیں۔۔۔ نماز، جمعہ، عیدین کے موقع پر پہنے جانے والے لباس پاک صاف ہوجائیں۔۔۔ نکاح، طلاق، وراثت، لین دین نجی حد تک درست ہوجائیں۔۔۔ لیکن زندگی کے دیگر اجتماعی نظام اسی طرح چلتے رہیں جس طرح چل رہے ہیں۔ معاشی و اقتصادی معاملات، سیاسی و سماجی معاملات، تعلیمی و ثقافتی معاملات الغرض جملہ نظام ہائے زندگی اور معاشرے کے بقیہ تمام لباس مفاداتی، طاغوتی اور لادینی قوتوں کے زیر اثر ہی پروان چڑھتے رہیں۔ ہم نے اس طرز فکر و عمل سے سمجھوتہ کرلیا ہے۔ دین کے صرف ایک جز یعنی مذہبی معاملات کو اچھا کرنا چاہتے ہیں جبکہ دین کے بقیہ اجزاء جس میں معیشت، سیاست، تعلیم، ثقافت الغرض زندگی کا ہر شعبہ شامل ہے ان تمام کو اپنی خواہشات و مفادات کے مطابق دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہمہ جہتی تبدیلی کس طرح ممکن ہے؟

ان حالات میں ہمیں اپنے طرز عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشرے میں ایسی ہمہ جہتی تبدیلی کس طرح ممکن ہوگی کہ معاشرے کے تمام لباس پاک ہوجائیں۔ اس کے لئے ایک اصول ذہن نشین رہے کہ پورے معاشرے میں کوئی نظام اس وقت تک سنور نہیں سکتا جب تک اس معاشرے کا سیاسی نظام پاکیزہ نہیں ہے۔ ملک کی معیشت، اقتصاد، کاروبار، تجارت، ٹیکس، دفتروں کا نظام، لین دین، کاروبار، تجارت المختصر جو بھی نظام ملک میں ہیں، ان کے کماحقہ فوائد سے عوام مستفید نہیں ہوسکتے اگر ملک کا سیاسی نظام اور اقتدار بددیانت لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ خالی مسجدوں میں سو سال وعظ و تقریر سنتے رہیں، قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہیں، توبہ کرتے رہیں اور آنسو بہاتے رہیں، اس سے ملک کا نظام خودبخود درست نہ ہوگا۔ از خود کسی بھی معاشرے کے اندر کوئی نظام درست نہیں ہوسکتا جب تک اس کی اصلاح اوپر سے نہ ہو۔ تہذیب و ثقافت کی ہی صورت حال پر غور کرلیں، آج میڈیا کی بے لگام آزادی اس قوم کے بچوں، بچیوں کو مسلسل بے دین بنارہی ہے، فحاشی و عریانی سکھارہی ہے۔ کیا وعظ سننے اور وعظ کرنے سے یہ فحاشی و عریانی بند ہوجائے گی۔ وعظ تو مسجدوں میں ہورہا ہے جبکہ ٹی وی تو گھروں میں چل رہا ہے۔ ہماری زندگی دو رخ پر چل رہی ہے، مسجدوں میں آئیں تو اللہ کی بات سن کر تھوڑی دیر توبہ کرلیں، اللہ کا خوف دل میں پیدا کرلیں اور جب گھر میں جائیں تو وہاں فیملی اور بچوں کا نظام ہی الگ ہے۔ جب دن رات تسلسل کے ساتھ حکومتی سطح پر سیاسی دبؤ کے تحت فحاشی پھیلائی جائے گی، بدمعاشی پھیلائے جائے گی، ڈاکہ زنی کے غیر اخلاقی طریقے سکھائے جائیں گے تو دودھ پیتے بچوں کے ذہن پر بھی آہستہ آہستہ یہی چیزیں ثبت ہونا شروع ہوجائیں گی۔ بالآخر یہی اس کی سوچ و فکر اور تصورات ہوں گے جنہیں وہ بعد ازاں اپنے دوستوں کے ساتھ Share کریں گے۔ یاد رکھیں! یہ خرافات اور فرسودہ روایات و نظام محض وعظ و نصیحت اور خطابات سے ختم نہیں ہوں گے۔ نظام کی اصلاح کے لئے قرآن مجید کا فلسفہ بھی یہ نہیں ہے۔

برائیاں دو قسم کی ہوتی ہیں :

  • کچھ برائیاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی حکومتی، مقتدرہ کے دبؤ کے بغیر پیدا ہوتی ہیں۔ یہ انسان کے ذاتی گناہ ہیں۔ اس کے پیچھے نظام کا دبؤ نہیں۔ ایسے گناہ نیک مجلس میں آنے سے دھل جاتے ہیں۔ اولیاء اللہ و صلحاء کی نیک مجلس میں آئیں گے، خطاب سنیں گے، تربیت پائیں گے، قرآن مجید پڑھیں گے تو ان چیزوں سے کسی حد تک کچھ لوگوں کی اصلاح ہوجاتی ہے۔
  • برائیوں اور گناہوں کی دوسری قسم یہ ہے کہ کچھ گناہ و برائیاں ملک میں رائج نظام کی وجہ سے فروغ پاتے ہیں اور نظام ان گناہوں اور برائیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ مثلاً فحاشی و عریانی کا فروغ، معاشی عدم استحکام، رشوت و سفارش، کرپشن، بددیانتی، معاشرتی استحصال وغیرہ۔ ان منظم اور گھنؤنے جرائم کی بناء پر تسلسل سے لوگوں کا اللہ پر سے اعتقاد بھی اٹھ رہا ہے، ایمان متزلزل ہورہا ہے، دین اور ایمان کی قدریں ختم ہورہی ہیں، امت بے حس و بے ضمیر بن رہی ہے، اسے بے ضمیر و بے غیرت کیا جارہا ہے۔ ان تمام سازشوں کے پیچھے باطل نظام کا دبؤ ہے، سیاسی قوتوں کا دبؤ ہے جن کے مفادات اور کاروبار اس نظام سے منسلک ہیں۔ اسی بناء پر اوپر سے نیچے تک ہمارا گھر اور اولاد بھی نظام کے دبؤ میں ہے۔ جب پورا نظام ہی باطل ہے فحاشی، عریانی بے دینی کا مرقع ہے تو ایسے نظام کے اندر خالی تبلیغ، روحانی مجلسیں، صحبتیں، وعظ و تربیت کیا کام کریں گے۔

قرآنی فلسفہ انقلاب

قرآن مجید نے موسیٰ علیہ السلام کے تذکرہ کو بیان کرتے ہوئے یہی فلسفہ بیان فرمایا :

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰی اِلاَّ ذُرِّيَةٌ مِّنْ قَوْمِهِ.

"پس موسیٰ (ں) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا (کوئی) ایمان نہ لایا "۔

(يونس : 83)

موسیٰ علیہ السلام نے معجزات دکھائے، اپنے عصا کو اژدھا بنایا جو جادوگروں کے سانپوں کو کھاگیا، بغل مبارک میں دست اقدس ڈالا روشن سورج کی طرح چمکنے لگا۔ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے جادوگر اور فرعون عاجز آگئے، اللہ کے پیغمبر کا کوئی مقابلہ نہ کرسکا، ان کی سچائی اور حقانیت ہر ایک پر واضح ہوگئی، ان کے کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ یہ ساری چیزیں ایک طرف تھیں جبکہ باطل نظام اور فرعون کے کافرانہ نظام کا دبؤ ایک طرف تھا، جس میں قتل کروادینا، اغواء کروادینا، لوٹ مار کروادینا، جھوٹے مقدمے میں پھنسانا سب ہتھکنڈے شامل تھے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے معجزات اور فرعون کی شکست کو دیکھنے کے باوجود قوم کی اکثریت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہ لائی بلکہ چند لوگ ایمان لائے۔ اس لئے کہ وہ فرعون کے دبؤ اور ظلم و تشدد سے ڈرگئے۔ جب موسیٰ علیہ السلام کی رسالت، تمام تر معجزات اور تبلیغ سے بھی اکثریت فرعون کے سیاسی دبؤ کی وجہ سے آپ پر ایمان نہ لائی تو ہم جیسے یا کوئی اور اگر کروڑ بھی پیدا ہوجائیں کہ اس امت میں وہ اپنی تبلیغ، روحانیت، دلائل، خطاب اور قیادت سے اس فرسودہ نظام کے دباؤ کے مقابلے میں بھاری اکثریت کو حق کی راہ پر چلانے کے قابل ہوجائیں تو ممکن نہیں ہوگا۔ اس صورت حال میں حقیقی تبدیلی کے لئے قرآن مجید ہماری رہنمائی کرتا ہے۔

جب موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ اور وعظ و نصیحت کے باوجود فرعون کے جبرو استبداد کا پنجہ نہ ٹوٹا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا :

اِذْهَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّهُ طَغٰی.

(طه : 24)

"تم فرعون کے پاس جاؤ وہ (نافرمانی و سرکشی میں) حد سے بڑھ گیا ہے"۔

یعنی فرعون سے ٹکر لیں، اس لئے کہ جہاں سے سرکشی اور بغاوت جنم لے رہی ہے۔۔۔ جہاں سے کفر پیدا ہورہا ہے۔۔۔ جہاں سے ظالمانہ دبؤ پورے معاشرے کو پامال کررہا ہے۔۔۔ اگر اسے ختم نہیں کرو گے تو ظلم و جبر سے دبے ہوئے لوگوں کو تبلیغ کرکے کیسے اٹھؤ گے؟ دبے ہوئے لوگوں پر تبلیغ کا اثر اسی وقت کار گر ہوگا جب اس جڑ کو کاٹو جہاں سے برائی جنم لے رہی ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

فَاْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰـلَمِيْنَo اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْ اِسْرَآئِيْلَ.

"پس تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور کہو : ہم سارے جہانوں کے پروردگار کے (بھیجے ہوئے) رسول ہیں۔ (ہمارا مدعا یہ ہے) کہ تو بنی اسرائیل کو (آزادی دے کر) ہمارے ساتھ بھیج دے"۔

(الشعراء : 16۔17)

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو منصب رسالت عطا فرماتے ہی بنی اسرائیل کی آزادی کا مشن سونپا کہ بنی اسرائیل کی آزادی کی جنگ لڑو تاکہ اس قوم کو ظلم سے نجات ملے تب جاکر ایمان پھلے پھولے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے تبلیغ بھی کی، روحانیت کی تعلیم بھی دی۔ وعظ بھی کیا اور معجزات بھی دکھائے الغرض سب کچھ جاری رکھا مگر فرعون کے نظام کے خلاف جدوجہد بھی کی جس کے نتیجے میں ہی بنی اسرائیل کو آزادی ملی۔

اس طریقہ کار پر اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی مشن سپرد فرمایا۔ کائنات کے وجود سے بھی کہیں پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش اور بعد ازاں 40 سال کی عمر مبارک تک نبوت کے بعد اگلا مرحلہ بعثت کا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بعثت کا اعلان فرمایا۔

بعثت کے اعلان کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت عطا فرمائی گئی۔ رسالت ایک مشن سونپنے سے عبارت ہوتی ہے جبکہ نبوت وحی سے عبارت ہوتی ہے۔ اگر اللہ نے اپنے بندے سے کلام کرلیا، فرشتے کے ذریعے کلام کرلیا، وحی آگئی تو وہ نبی ہوگیا جبکہ رسول کو ایک قوم کے حوالے سے جیسے بھی اس زمانے کے حالات ہوں مشن دیا جاتا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب مشن سونپا گیا تو سورۃ المدثر کی انہی ابتداء میں مذکورہ آیات کریمہ کے ذریعہ آپ کو مخاطب فرمایا گیا۔ نتیجتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری جھوٹی طاقتوں کے بت پاش پاش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بالادستی قائم کرنے کا علم بلند کیا اور منصب رسالت کی ذمہ داریوں پر عملدرآمد کا آغاز فرماتے ہوئے معاشرے کے جملہ نظاموں کی تطہیر کے لئے سیاسی و ریاستی اقدامات کو مقدم رکھا۔

تحریک منہاج القرآن دعوت، تنظیم، تربیت کے امور کو سرانجام دینے کے علاوہ سیاسی نظام کی تطہیر کیلئے بھی سرگرم ہے۔ اس لئے کہ ان تمام ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کے لئے جدوجہد ہوگی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیضان رسالت کی پوری اتباع ہوگی۔

صحابہ کرام کا مشن اور پہچان

معاشرے اور ریاست کے جملہ امور کو راہ راست پر رکھنے اور مصطفوی فکر کے مطابق ڈھالنے کے لئے سیاسی نظام کی اصلاح کی غرض سے جدوجہد کرنا صحابہ کرام کی زندگیوں سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے تعارف میں فرمایا :

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ وَالَّذِيْنَ مَعَهُ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰهُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اﷲِ وَرِضْوَانًا.

(الفتح : 29)

"محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں"۔

جو جماعت براہ راست حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں پروان چڑھی اور جن کا نام صحابہ کرام رکھا گیا۔ ان کے انفرادی و اجتماعی کردار کا پہلا نکتہ و عنصر محمد رسول اللہ تھا، اس جماعت کے عقیدہ، نظریہ اور ایمان کا خمیر محمدرسول اللہ سے تشکیل پایا تھا۔ "میری ابتداء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، میری انتہاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم " کے مصداق ان کی ابتداء نسبت محمدی تھی اور ان کی انتہاء محمدیت میں فنا سے عبارت تھی۔ صحابہ کرام کے درمیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مثل شمع تھے۔ جیسے پروانے کی ساری زندگی شمع کے گرد طواف کرنے سے ہی عبارت ہے۔ اس طرح صحابہ کرام کے ایمان کی پوری زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک، محبت، نسبت، اتباع اور نسبت میں فنائیت کے تصور کے گرد طواف کرتے رہنے سے عبارت تھی۔ پروانہ جوں جوں شمع کے گرد چکر لگاتا ہے، ہر چکر میں پچھلے چکر سے قریب تر ہوجاتا ہے۔ اس طرح ساری رات وہ شمع کے گرد چکر لگاتاہے اور بالآخر وہ شمع کے شعلے میں خود کو فنا کردیتا ہے۔ صحابہ کرام کی ایمانی زندگی ہر وقت آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد گھومتے رہنا اور آپ سے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جانا کے مصداق تھی۔

عشق کی ایک جست نے طے کردیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں

اس کے بعد صحابہ کرام کی تحریکی، تنظیمی، نظریاتی جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پہلا دائرہ ان کے نظریے اور ذاتی زندگی کی ابتداء اور انتہاء کا تھا، پھر ان کی جدوجہد شروع ہوتی ہے کہ کس مقصد اور مشن کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے بنے؟کس منزل کی خاطر وہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جان دینے والے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں فنا تھے؟ اشدآء علی الکفار کے الفاظ اس حقیقت کو بیان کررہے ہیں کہ دین کے دشمنوں سے لڑنا، ان سے معرکہ آراء ہونا اور دین کی بقاء و سربلندی کے لئے باطل و طاغوتی طاقتوں سے ٹکرانا ان کی جدوجہد تھی۔ جس کے ذریعے بالآخر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں مصطفوی انقلاب کا سویرا طلوع ہوا۔

مقصد اسلام کی آفاقیت

دینِ اسلام میں سے اگر معاشرے میں ہمہ جہتی تبدیلی اور انقلاب کے تصور کو نکال دیا جائے تو بقیہ "اسلام" رہ جاتا ہے اور اسلام کا تعلق صرف نماز پنجگانہ، رمضان کے روزے، حج اور عمرہ، زکوٰۃ، جنازہ، نجی مسائل، قل خوانی وغیرہ تک رہ جاتا ہے جبکہ اسلام کا مقصود ہرگز یہ نہیں ہے۔ دین اسلام کی حقیقی روح سے بے خبر نام نہاد مسلمان یا غیر مسلم اسلام کے اس کردار کو پس پشت رکھ کر درحقیقت اسلام کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے بے ضرر دیکھنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھ لیں! اسلام کے نام نہاد نام لیوا اور اغیار نمازیں نہیں مٹانا چاہتے، دنیا کی کوئی طاقت یہ نہیں چاہتی کہ مسلمان نماز چھوڑ دیں۔ دنیا کے ہر ملک کے اندر مسلمان بستے ہیں اور وہاں مساجد بھی قائم ہیں اگر اسلام کی ان بنیادی تعلیمات کو روکنا مقصود ہوتا تو ان ممالک میں نماز، روزہ، حج، جمعہ، عید پر پابندی ہوتی مگر ایسا نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسلام سے خوفزدہ طاقتیں کیا مٹانا چاہتی ہیں؟ کاش رب وہ دن لائے کہ اس قوم کو میرے اس سوال کی سمجھ آجائے۔

طاغوتی طاقتیں نماز، روزہ اور عقیدہ نہیں مٹانا چاہتیں بلکہ ان کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمان سیاسی قوت بن کر نہ ابھریں۔ یہ لوگ ہر سطح پر اسلام کے سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی نظام سے خائف نظر آتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے مفادات پر ایک کاری ضرب لگتی ہے۔ وہ لوگ جو عدل و انصاف، معاشی مساوات، امانت و دیانت اور تقویٰ و پرہیزگاری سے عاری ہوتے ہیں وہ کسی بھی طور کسی بھی معاشرے میں سیاسی نظام کی اصلاح نہیں چاہتے بلکہ اسے بہر طور اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر اپنے ہی پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کو مدارس، مساجد، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تبلیغی اجتماعات، شب بیداریوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ ان اجتماعات میں حکمران، وزراء، سود خور سبھی شریک ہوتے ہیں۔ کلمہ گو جیسا بھی ہو بخشش، دعؤں، ہاتھ چومنے اور فقیروں کے پاس آتا جاتا رہتا ہے۔ ہر کوئی جاتا ہے، مسلمان تو مسلمان ہندو اور سکھ بھی خواجہ اجمیر کے مزار پر جاتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے یہاں مقیم ہندو بھی اولیاء اللہ کے مزاروں کی تکریم کیا کرتے تھے۔

بتانا یہ مقصود ہے کہ دین اسلام کی حقیقی روح صرف ان تعلیمات پر عمل ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے صحابہ کرام کی حیات کے دستور کے پہلے باب اشدآء علی الکفار کی عملی تصویر بن کر اس وراثتی، فرسودہ سیاسی نظام کے خلاف ڈٹ جانا ہوگا۔ آج کے دور میں دین کی غیرت کا جنازہ نکالا جارہا ہے، ہمیں اسی راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے اگر یہ راستہ ترک کردیا گیا تو اس کے اثرات ہماری دینی زندگی اور مذہبی معمولات پر بھی مترتب ہوں گے۔ اس راہ پر چلنا دشوار ہوتا ہے اس لئے کہ دنیا کے مفادات آڑے آجاتے ہیں، مخالفتیں آڑے آجاتی ہیں، طوفان اٹھتے ہیں، کردار کشی کی جاتی ہے، الزامات و تہمات کا ایک بازار گرم ہوجاتا ہے۔ اتنی مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے چھٹتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو طوفانوں سے لڑنے، تہمتیں لگوانے، گالیاں برداشت کرنے کا شوق نہیں ہوتا۔ یاد رکھیں جس شخص کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اگر میں نے دین کی بقاء کے لئے جنگ نہ لڑی، ملکی سالمیت، ریاستی استحکام کے لئے قدم نہ اٹھایا، قوم کے حقوق کی بحالی کی آواز بلند نہ کی تو تاریخ ہمیں معاف نہ کرے گی اور کل قیامت والے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بھی شرمندگی و رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا، وہ یہ راستہ کبھی ترک نہ کرے گا اور جس کو یہ سمجھ نہ آئی وہ اس راہ پر نہیں چل سکتا۔

لوگ تقسیم ہند سے پہلے کہتے تھے کہ سب ایک ہی قوم ہیں لہذا الگ ملک بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہاں نماز روزہ کی کوئی پابندی نہیں، لہذا اکٹھے رہو۔ علامہ نے اس تصور قومیت پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا تھا :

ملَّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

وہ سمجھتا ہے اسلام آزاد تو ہے، کیا رکاوٹ ہے؟ اس نے سمجھا ہی نہیں کہ اسلام کیا ہے؟ یہ بات صحابہ کرام سے پوچھنے والی تھی۔ ہجرت مدینہ سے قبل یثرب سے وفد آتے اور حضورعلیہ السلام کی بارگاہ میں اسلام قبول کرتے۔ نبوت کے بعد گیارہویں سال 82 افراد کا ایک وفد آیا۔ اس میں حضرت عباس بن عبادہ انصاری بھی تھے۔ وفد نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا :

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ہم مسلمان ہونا چاہتے ہیں۔ حضرت عباس بن عبادہ انصاری کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے میرے ساتھ آنے والے یثرب کے لوگو جو مسلمان ہونے کی درخواست کررہے ہو کیا تمہیں بیعت کا مفہوم معلوم ہے؟ لوگوں نے کہا : بتادیں، آپ نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں بیعت کرنے کا مطلب فقط یہ ہے کہ آج کے بعد ہر باطل کے خلاف تمہاری جنگ چھڑگئی۔

(تاريخ طبری، ج1، ص563)

جو ظالم لوگ جابر ہیں ان کے خلاف تمہارا اعلان جنگ ہوگا، پھر تمہیں لڑنا مرنا ہوگا۔ اگر یہ سمجھتے ہو تو اب بھی فیصلہ کرلو۔ انہوں نے سن کر کہا : ہم سمجھ گئے، ہمیں یہ قبول ہے۔ اس پر اُس وفد نے اسلام قبول کرلیا اور بعد ازاں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدینہ تشریف لانے کی درخواست کی۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے جو دعوت دی ہے قبول کرتا ہوں مگر ایک شرط ہے، فرمایا : اگر مجھے لے جاتے ہو تو میرے لے جانے کے بدلے میں تمہیں اپنی گردنیں دینی ہونگی، مال قربان کرنے ہوں گے، اپنی عزت کی پرواہ نہ کرنا ہوگی، خون بہے گا، جانیں جائیں گی، بولو مجھے لے جانے کی خاطر جان، مال، عزت و آبرو سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہو؟

آج کے دور کا کوئی شخص ہوتا تو وہ کہتا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد نماز، روزہ، حج وغیرہ ادا کریں گے، آپ کو لے جانے سے مزید برکت ہوگی،گردنیں کیسے کٹیں گی؟ مگر انہوں نے یہ سوال نہ کیا، عرض کیا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں یہ سب کچھ منظور ہے، آپ آجائیں ہم جانیں دیں گے، عزت دیں گے، مال دیں گے جس شے کی ضرورت ہوگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے حکم پر سب کچھ آپ پر لٹادیں گے۔ جب انہوں نے یہ سوال قبول کرلیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان کی دعوت قبول فرمالی اور بعد ازاں اللہ تعالیٰ کے حکم پر مدینہ ہجرت فرمائی۔ وہ لوگ جانوں کا سودا کرکے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے گئے۔ انقلابیت اور باطل سے ٹکرا جانے کے اس عنصر کو قرآن نے اشداء علی الکفار کے ذریعے بیان فرمایا۔

آج ہمارا دو طرح کے دشمن سے سامنا ہے :

  • واضح دشمن
  • چھپا دشمن

واضح دشمن اسلام مخالف قوتیں ہیں، جو اعلانیہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا نشانہ بناتی ہیں۔ جیسے کوئی درندہ سامنے آکر حملہ کرتا ہے۔ چھپا دشمن سانپ اور بچھو کی طرح حملہ کرتا ہے، جس طرح یہ سوراخ میں چھپ کر رہتے ہیں، کسی بھی وقت آکر ڈس لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے اندر دین سے منافقت کرنے والے اندر کے سانپ اور بچھو ہیں۔ یہ دین کو سانپ اور بچھو کی طرح ڈس رہے ہیں۔ آج ملک وقوم پر ان سانپ بچھوؤں نے بصورت کرپٹ سیاسی نظام اور اس نظام کے محافظین کی صورت قبضہ کررکھا ہے۔ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے 18 کروڑ عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کررکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک و قوم کے تحفظ اور دین اسلام کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے یکسو و یکجاں ہوجائیں اور آئینی و قانونی تقاضوں کے مطابق ان تمام قوتوں کا قلع قمع کرنے کے لئے نعرہ مستانہ بلند کریں۔ کردارِ صحابہ کرام سے روشنی و خیرات لیتے ہوئے حقیقی معنوں میں اسلام کے احیاء اور تجدید دین کا فریضہ سرانجام دیں۔ اس کے لئے سیاسی نظام کی اصلاح کرنا ہوگی۔۔۔ مروجہ غیر آئینی و غیر قانونی ضابطوں کو رد کرنا ہوگا۔۔۔ اوروَثِيَابَکَ فَطَهِرْ کو حقیقی معنی دیتے ہوئے معاشرے کے جملہ لباسوں کی تطہیر کا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔