الحدیث: ایمان، یقین اور اطمینان قلب

علامہ محمد معراج الاسلام

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا :

مَنْ رَای مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَاِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَالِکَ اَضْعَفُ الاِ يْمَانِ.

(مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب بيان کون النهی عن المنکر من الايمان، 1 : 69، رقم : 49)

’’تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ (یعنی عملی جدوجہد) سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان سے (تنقید و مذمت کے ذریعے) روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو (کم از کم اس برائی کو) اپنے دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔

شرح و تفصیل

ایمان، نورِ یقین کی اس حسین و دلنشین کیفیت کا نام ہے جو اگر دل کے ویرانے میں جلوہ گر ہوجائے تو اسے اجالوں سے معمور کردیتی ہے اور اگر سینے کے سونے بن میں مہک اٹھے تو چنبے کی بوٹی کی طرح اسے شگفتہ اور بہار آفرین گلستانوں میں تبدیل کردیتی ہے۔ دل کے چمن میں کھلنے والے یقین کے یہ سدا بہار، عنبر بار پھول اتنے دلآویز ہوتے ہیں کہ شکوک و شبہات کے کانٹے ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتے اور اگر ان کی شاخوں کے ساتھ چمٹنے کی کوشش بھی کریں تو ان کے نزدیک آتے ہی اپنا تیکھا پن کھودیتے ہیں اور خونخوار جارحانہ انداز بھول کر حریر بن جاتے ہیں۔

یہ ایمان کا وہ اعجاز ہے جو انسان کو عزم و یقین کی لازوال دولت سے مالا مال کردیتا ہے اور ایماندار شخص یہ محسوس کرنے لگ جاتا ہے کہ اس کے ننھے سے دل میں قوت و طاقت کی ایسی زبردست رو پیدا ہوگئی ہے جس نے اسے ناقابل تسخیر بنادیا ہے اور ایسا آہنی عزم عطا کردیا ہے کہ وہ کسی کی شوکت و حشمت کو خاطر میں لائے بغیر اس سے ٹکرا سکتا ہے۔ چٹانوں کا غرور توڑ سکتا ہے، طوفانوں کا رخ موڑ سکتا ہے اور سمندروں کے سینے پر اپنی راہیں بناسکتا ہے۔ اسے یہ راز معلوم ہوجاتا ہے کہ رفعتیں اس کے لئے مقدر کردی گئی ہیں۔ ارشاد فرمایا :

وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّوْمِنِيْنَ.

’’اور تم ہی غالب ؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو‘‘۔

(آل عمران : 139)

مذکورہ حدیث مبارکہ میں جرات و رفعت عطا کرنے والے اس ایمان کے تین درجات بیان کئے گئے ہیں۔ جس درجے کا کوئی شخص ہو اسی کے مطابق اسے روحانی مقام و مرتبہ نصیب ہوتا ہے۔

مضمون حدیث یہ ہے کہ ایمان کے تین درجات ہیں اور مومن کے دل میں کسی برائی کے خلاف پیدا ہونے والے رد عمل کی کیفیت سے ان کا تعین ہوتا ہے مثلاً

  • بدی کی حکمرانی، شر کی قوت اور منکرات کو پھلتا پھولتا دیکھ کر اگر مومن کے دل میں رد عمل (Reaction) کے طور پر حق کی حمایت میں غیظ و غضب پیدا ہو اور وہ طاغوتی قوتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے میدان میں آجائے اور باطل پرستوں کی بے پناہ طاقت، ان کی شر انگیزی اور منظم غنڈہ گردی سے مرعوب نہ ہو تو یہ اعلیٰ درجے کے ایمان کی علامت ہے۔
  • اور اگر شر کو غالب دیکھ کر اسے مسلح جدوجہد کرنے اور برائی کو قوتِ بازو سے مٹانے کی جرات نہیں ہوتی یا اسے اس مقصد کے لئے صورت حال موزوں نظر نہیں آتی اس صورتِ حال میں وہ اپنی جدوجہد کو صرف باطل کے خلاف آواز اٹھانے، اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے اور ظالموں کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کا فریضہ انجام دینے تک ہی محدود رکھتا ہے تو یہ دوسرے درجے کے ایمان کی علامت ہے۔
  • اور اگر صورت حال اتنی ابتر ہے اور شر و فساد اس حد تک غالب ہے کہ مومن کے لئے اس کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ممکن نہیں اور زبانی جہاد کے مواقع بھی معدوم ہیں، منکرات اور برائیوں کی طویل ریل پیل دیکھ کر دل میں کڑھنے اور ان سے نفرت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو یہ تیسرے درجے کے ایمان کی علامت ہے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

ایمان کے تین درجات کے نام

ایمان کے ان درجات کے درج ذیل نام ہیں :

  • علم الیقین
  • عین الیقین
  • حق الیقین

جب تک انسان علم الیقین کے درجے میں ہو تو اس کے ایمان کی کیفیت مستحکم نہیں ہوتی۔ اس کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اہل باطل اسے اپنی چکنی چپڑی باتوں، پُر فریب و من گھڑت دلیلوں اور خود ساختہ تاویلوں سے ورغلا سکتے ہیں۔ وہ جعلسازوں کے بچھائے ہوئے دام ہمرنگ زمین میں آسانی سے پھنس کر ان کا اثر قبول کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے۔

عین الیقین کے درجے میں اس کے ایمان میں مضبوطی اور قوت آجاتی ہے وہ لازوال حقائق کو اپنی آنکھوں کے سامنے بے حجاب دیکھ کر اور سربستہ اسرار کا مشاہدہ کرکے، شکوک و شبہات کی بدولت بے یقینی کی دلدل میں پھنسنے کے خطرے سے محفوظ ہوجاتا ہے اور اہل زیغ کے لئے ممکن نہیں رہتا کہ اسے بھٹکاسکیں اور مشاہدے کی بدولت حاصل ہونے والی ایمان کی قوت زائل کرسکیں۔

حق الیقین کے درجے میں خود اس کی ذات پر واردات طاری ہوتی ہیں۔ وہ صرف مشاہدہ ہی نہیں کرتا بلکہ آزماتا بھی ہے بذات خود اس مرحلے (Process) سے گزرتا ہے، اسے اطمینان کی وہ کیفیت نصیب ہوتی ہے جہاں کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ تمام وساوس و خطرات اور شکوک و شبہات اس منزل سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور مومن اسرار کی اس دنیا میں داخل ہوجاتا ہے جہاں حقائق خود بولتے ہیں۔ چند مثالوں سے ان درجات و کیفیات کی وضاحت کی جاتی ہیں۔

1۔ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جسے سب سے آخر میں، دوزخ سے نکالا جائے گا وہ باہر آکر دوزخ سے کہے گا، رب کا شکر ہے کہ اس نے مجھے تجھ سے نجات دی۔

پھر عرض کرے گا :  یااللہ! دوزخ کا منظر بہت خوفناک ہے، اسے میری نظروں سے اوجھل کردے اور جنت کا منظر دکھادے۔

چنانچہ دوزخ اوٹ میں چلی جائے گی اور جنت اپنی تمام تر رعنائیوں اور دائمی بہاروں کے ساتھ اس کی آنکھوں کے سامنے آجائے گی۔ وہ باغ جنت کا شاندار منظر دیکھ کر باغ باغ ہوجائے گا۔ پھر ایک موقعہ پر عرض کرے گا :  یااللہ! مجھے اس جنت کے قریب کردے تاکہ میں اس کے مناظر دیکھ سکوں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا :  اے بندے تو اس کے بعد اور سوال داغ دے گا؟ بندہ عرض کرے گا میرے پاک معبود! نہیں، میں اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ پکے عہد و پیمان کرکے جنت کے قریب چلا جائے گا۔ ایک موقعہ پر پھر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے گا اور عرض کرے گا۔ یا اللہ! مجھے جنت کے دروازے تک پہنچادے، اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا۔

ارشاد ہوگا :  تو نے پہلے وعدہ کیا تھا کہ مزید سوال نہیں کروں گا۔ وہ عرض کرے گا :  مالک! بس یہ سوال پورا کردے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ از سر نو، عہد و پیماں کرے گا اور اسے جنت کے دروازے کے قریب کردیا جائے گا۔ وہ جنت کے لہلہاتے درخت، چہکتے پرندے، بہتی نہریں، خوش رنگ پھول، خوشبو کے جھونکے، زمردیں سبزہ، لٹکتے ہوئے پھل، دودھ و شہد کی نہریں، نفیس کھانے، خوبصورت مکین اور حسین ترین ماحول دیکھ کر پھر بے قرار ہوجائے گا اور عرض کرے گا :  یا اللہ! مجھے جنت میں داخل کردے۔ ارشاد ہوگا :  بندے تو نے تو کچھ اور نہ مانگنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔

بندہ اپنے رب کی رحمت پر ناز کرتے ہوئے عرض کرے گا :  میرے اللہ! جنت میں داخل نہ ہونا تو بڑے بدبختی ہے۔ ان نعمتوں کو دیکھ لینے کے بعد ان سے محروم رہنا نہیں چاہتا۔ لہذا میری ذات سے بدبختی کے آثار مٹادے اور مجھے اس میں داخل کردے۔ اپنے بندے کی اس گذارش اور حسن طلب پر، مالکِ حقیقی خوش ہوگا، بندے کے لاڈ پیار اور عاجزانہ اصرار پر ہنسے گا (اپنی شان کے لائق) اور محبت سے فرمائے گا : 

اے ابن آدم! تجھے صبر نہیں آئے گا، آ، ہم تجھے نوازتے ہیں۔ پھر اسے جنت میں داخل کردیا جائے گا اور حکم ہوگا کہ جس جس چیز کی خواہش ہے مانگ لو! وہ اپنی بساط کے مطابق مانگے گا مگر اسے دنیا سے بھی دگنی یا دس گنا جنت عطا کردی جائے گی اور وہ اس میں سکونت پذیر ہوجائے گا۔

جنت، ایمان کے تینوں درجات کی مثال اس طرح بنتی ہے کہ پہلے اس شخص کا علم جنت کے بارے میں صرف علم الیقین کی حد تک تھا، جب اس نے مناظرِ جنت کو دیکھ لیا تو اسے عین الیقین حاصل ہوگیا اور جب وہ اس میں چلا گیا تو اسے حق الیقین حاصل ہوگیا۔

2۔ ایمان کے ان درجات کی دوسری مثال مرنے کے بعد جینے کی ہے۔

  • سر دست، سب کا علم، علم الیقین کی حد تک ہے کہ ہم میں سے ہر ایک نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا۔
  • حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک مقتول کو زندہ کیا گیا تھا جس نے اپنے قاتل کی نشان دہی کی تھی۔ جن لوگوں نے اسے اپنی آنکھوں سے زندہ ہوتے دیکھا تھا انہیں عین الیقین حاصل ہوگیا۔
  • جب لوگ خود مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے تو انہیں حق الیقین حاصل ہوجائے گا۔

عین الیقین اور حق الیقین کی برکت سے انسانوں کو اطمینان قلب نصیب ہوجاتا ہے۔ وہ سینے میں سکون و قرار محسوس کرنے لگ جاتے ہیں اور ان کے دل میں نور کی ایک ایسی شمع روشن ہوجاتی ہے جو انہیں شکوک و شبہات کی تاریکیوں سے نکال کر، صدق و یقین کے اجالوں میں لے آتی ہے اور عزم نو عطا کرتی ہے۔

اطمینان قلب کی اہمیت

چونکہ اطمینانِ قلب، عالمِ قدس کا نور ہے جو ذوقِ یقین پیدا کرتا اور ایمان کو تازگی بخشتا ہے۔ اس لئے اہل اللہ اسے بہت اہمیت دیتے ہیں اور ایسے عجیب و غریب، حیرت انگیز اور مظہرِ قدرت کرشموں کے مشاہدے کی تلاش میں رہتے ہیں جو ان کے اس ذوق کی تسکین کریں۔ ایک دفعہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے قلب اطہر میں اسی قسم کا خیال پیدا ہوا۔

ہوا یوں کہ آپ ساحل سمندر کے قریب سے گزر رہے تھے کہ ایک حیرت انگیز منظر نے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ ایک بہت بڑی چٹان نما مردہ مچھلی وہاں ریت میں دھنسی ہوئی تھی۔ ممکن ہے وہیل یا شارک ہو۔ سمندر میں مدو جزر کے موقعہ پر عموماً ایسا ہوتا ہے کہ بڑی بڑی مچھلیاں پانی کی لہروں کے ساتھ واپس نہیں جاسکتیں اور ریت میں پھنس کر مرجاتی ہیں، کچھ ایسا ہی واقعہ اس مچھلی کے ساتھ پیش آیا تھا، اب اس مردہ مچھلی کے اردگرد، فضائی مردار خور پرندے اور زمینی درندے، منڈلا رہے تھے اور نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ اتنے میں پھر پانی کی لہر آئی اور سمندر کی مچھلیاں بھی اس مردہ مچھلی کے گوشت پر ٹوٹ پڑیں اور پھر پانی کے ساتھ واپس چلی گئیں۔ صورت حال یہ بن گئی کہ وہ مردہ مچھلی ہزاروں پیٹوں میں چلی گئی اور ہوؤں، فضؤں پانیوں اور میدانوں میں بکھر گئی، اسے زمینی درندوں نے بھی کھایا، سمندر کی مچھلیوں نے بھی نوچا اور ہوائی پرندوں نے بھی اس کے گوشت سے پیٹ بھرا۔

یہ عجوبہ روزگار منظر دیکھ کر حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جب مرنے کے بعد صور پھونکا جائے گا اور نئی زندگی کا آغاز ہوگا تو اس مچھلی کے زندہ ہونے کا منظر بڑا عجیب ہوگا۔ حکم ربانی سے اس کے تقسیم شدہ اعضاء مختلف پیٹوں اور جگہوں سے نکل کر، فضا میں پرواز کرتے ہوئے آئیں گے اور اس کے ڈھانچے کے ساتھ پیوست ہوجائیں گے۔ اس تصور نے آپ کے دل میں یہ شوق پیدا کردیا کہ دنیا ہی میںیہ منظر دیکھنا چاہئے، چنانچہ بارگاہ خداوندی میں عرض کی :

اے میرے رب! مجھے یہ منظر دکھا کہ تو مردوں کوکیسے زندہ کرے گا؟ رب تعالیٰ کا فرمان ہوا :

اَوَلَمْ تُوْمِنْ؟ ’’کیا تجھے یقین نہیں‘‘؟

عرض کی :  مجھے یقین تو ہے میں تو صرف اطمینان قلب کے حصول کے لئے یہ عرض کررہا ہوں۔

حکم ہوا، اے ابراہیم! چار پرندے لے کر پالو، انہیں عرصہ تک اپنے پاس رکھو تاکہ وہ مانوس ہوجائیں اور آپ بھی انہیں پہچاننے لگ جائیں۔ پھر آپ انہیں ذبح کرکے گوشت کا قیمہ بنائیں۔ سب کی ہڈیاں تک پیس ڈالیں، پھر قیمہ اور ہڈیاں آپس میں اس طرح ملادیں کہ سارا آمیزہ یکجان ہوجائے، اس کے بعد قیمے کے اس ڈھیر کے کئی حصے کرلیں اور ہر حصہ الگ الگ پہاڑ پر رکھ دیں۔ پھر ان پرندوں کو آواز دیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ جب آپ نے انہیں پکارا تو آپ کی آنکھوں کے سامنے ہر پہاڑ سے قیمے کے ڈھیر بلند ہوئے اور فضؤں میں پرواز کرتے ہوئے آپ کے قریب پہنچے، اور آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے الگ الگ ہوئے ہر پرندے کے اجزا اس کے ساتھ جڑے، ہڈیاں بنیں، ان پر گوشت چڑھا، پھر پر نمودار ہوئے اور آن کی آن میں وہ زندہ ہوکر محو پرواز ہوگئے۔

رب قدیر کی قدرت کا یہ شاندار نظارا دیکھ کر حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا ایمان تازہ ہوگیا اور اطمینان قلب کا وہ حسین و جمیل مقصد پورا ہوا جس کے لئے آپ نے یہ درخواست کی تھی۔

ایمان کا پھیلاؤ

یہ ایک نظر آنے والی حقیقت ہے کہ عبادت کا نور چھپا نہیں رہتا بلکہ اجالا بن کر، سپیدہ ءِ سحر کی طرح عابد کے چہرے سے جھلکنے لگتا ہے اور اس کے رخ تاباں کو اتنا دلکش بنادیتا ہے کہ جو ایماندار اسے دیکھتا ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے اور بے اختیار اس سے پیار کرنے لگتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب نورِ ایمان، حقیقت بن کر دل کے نہاں خانے میں جلوہ گر ہوتا ہے تو پھر دل کی وسعتوں تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ جسم کے دوسرے اعضاء کو بھی منور کرنا شروع کردیتا ہے۔ نفسانی خواہشات دبتی ہیں تو یہ تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے، یہاں تک کہ عارضِ تاباں اور رخِ زیبا کا ہالہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادت گزار ایماندار کے چہرے میں بے پناہ جاذبیت ہوتی ہے۔ چونکہ یہ نور رب تعالیٰ کی یاد، خلوص و محبت اور عبادت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے جو اسے دیکھتا ہے اسے بے اختیار اللہ یاد آجاتا ہے۔ اس لئے اولیاء اللہ کی ایک علامت بیان کی گئی ہے کہ جب ان کی زیارت کی جائے تو اللہ یاد آتا ہے۔

اسی نور کو شرحِ صدر بھی کہا گیا ہے۔ جب مرد مومن کو شرح صدر کی یہ دولت عظمیٰ نصیب ہوتی ہے تو وہ عام ایمانداروں سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :

اََفَمَنْ شَرَحَ اﷲُ صَدْرَهُ لِلْاِسْلَامِ فَهُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّهِ فَوَيْلٌ لِّلْقٰسِيَهِ قُلُوْبُهُمْ مِّنْ ذِکْرِ اﷲِ اُولٰـئِکَ فِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ.

 (الزمر : 22)

’’بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اُن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہوکر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میںہیں‘‘۔

یہ نور، عبادت و ریاضت، نماز، روزے کی پابندی اور صدقات و خیرات اور دوسرے نیک اعمال کی بدولت بتدریج حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی کو سال، کسی کو دس سال، کسی کو پچاس سال اور کسی کو زندگی کے آخری لمحات میں میسر آتا ہے۔ یہ اپنے اپنے نصیب اور قابلیت کی بات ہے۔ کسی اللہ کے بندے کی صحبت اور سنگت اس مقصد کے لئے تریاق ہے۔ کبھی پل بھر میں یہ نعمت عظمیٰ عطا کردیتی ہے اورصدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوجاتا ہے، اسی لئے قرآن پاک نے ان کی سنگت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کہ

يٰايُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ.

’’اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو‘‘۔

(التوبة : 119)

یک زمانہ صحبتے با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا