الفقہ : آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال : کیا بٹائی پر زمین دی جاسکتی ہے۔ اگر جائز ہے تو کن شرائط پر جائز ہے؟

جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو پسند فرمایا ہے کہ زمین کا مالک یا خود کاشت کرے یا کسی دوسرے ضرورت مند بھائی کو مفت کاشت کے لئے دیدے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے نزدیک مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینا جائز نہیں لیکن بعض صورتوں میں مجبوری ہوتی ہے اور اس کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ پس صاحبین (امام محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے نزدیک بٹائی پر زمین دی جاسکتی ہے۔ ان کے نزدیک مزارعت کے جواز کے لئے آٹھ شرائط ہیں :

  • زمین قابل کاشت ہو
  • مالک و مزارع اہل عقد ہوں
  • مدت بیان کی جائے
  • یہ بات واضح کی جائے کہ بیج کس کے ذمہ ہوگا؟
  • جس کے ذمہ بیج نہیں اس کے حصہ کی وضاحت
  • مالک زمین مزارع کے سپرد کردے اور اپنا عمل دخل یا تصرف نہ کرے
  • پیداوار حاصل ہونے پر اس میں شرکت، مقرر حصہ
  • بیج کی جنس کا تعین، کیا بوئے گا؟

(هداية، 4 : 360)

ہمارے علمائے احناف کا فتویٰ صاحبین پر ہے البتہ یہ یاد رہے کہ آج کل کی زمینداری اور جاگیرداری کی بنیاد کسی اصول عدل پر نہیں سراسر ظلم پر ہے۔ ظالم حکمرانوں نے مخالف حریت پسند عوام سے زمین چھین کر اپنے پسندیدہ لوگوں میں بطور رشوت تقسیم کی ہے۔ نہ وہ حکمران اس کے جائز مالک تھے نہ اس بندر بانٹ کے مجاز لہذا اس زمینداری و جاگیرداری کا صورت جواز سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سراسر ظالمانہ و غاصبانہ دست برد کا نتیجہ ہے۔ یہ امام صاحب کے نزدیک جائز ہے نہ صاحبین کے نزدیک۔

مسلک صاحبین کے مطابق صرف وہ مزارعت جائز ہے جو غضب و نہب سے پاک ہے اور شرعی اصولوں پر مبنی ہو۔

سوال : اگر دو افراد سرمائے سے کاروبار شروع کرتے ہیں اور ان میں سے ہر ماہ نفع و نقصان کی شراکت کی بجائے ایک فریق اگر یہ کہے کہ اتنی رقم ہر ماہ اوسطاً دے دیا کرو چاہے تمہیں فائدہ ہو یا نقصان، کیا ایسا کرنا جائز ہے یا ناجائز؟

جواب : صورت مذکورہ میں کاروبار جائز نہیں۔ سرمایہ دونوں کا برابر ہے۔ اگر ایک فریق وقت یا محنت زیادہ کرے تو اس حساب سے اسے اضافی رقم دینا جائز ہے۔ اگر دونوں نے سرمایہ بھی برابر لگایا اور وقت بھی برابر صرف کیا یا محنت بھی برابر ہے تو محض تناسب سے متعین رقم کو دینا اور اس کی شرط لگانا ہر گز شرعاً جائز نہیں۔ اس صورت میں صرف نفع و نقصان میں برابری کی بنیاد پر کاروبار کرسکتے ہیں۔ بالفرض کاروبار میں نقصان ہوجاتا ہے تو دوسرا حصے دار کس بنیاد پر مخصوص رقم لے گا؟ یہ تو خالص سود ہے اور شریک کاروبار پر ظلم لہذا ناجائز و حرام ہے۔

سوال : اسلامی تعلیمات کی رو سے خواتین کے حجاب بارے وضاحت فرمادیں؟

جواب : دونوں ہاتھ کلائیوں تک، دونوں پؤں ٹخنوں تک اور چہرہ پردہ میں داخل نہیں۔ باقی تمام جسم، عاقلہ، بالغہ عورت کا قابل ستر ہے خواہ چادر سے کرلے یا برقعہ سے یا کسی اور شے سے۔ گؤں میں ہو یا شہر میں، کام کھیتوں میں کرے یا کارخانوں میں، تعلیمی، صنعتی، تجارتی مراکز میں یا صحت کے مراکز میں، گھر میں یا باہر۔

(هداية مع فتح القدير، 225 : 1، عالمگيری، 58، شامی 4061، البحرالرائق، 26 : 1)

ہمارے ہاں دو باتیں خطرناک ہیں :

  • ہم دیور، جیٹھ اور کزنوں سے پردہ نہیں کرواتے جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
  • ہم دفاتر، تعلیمی اداروں، کارخانوں، ملوں، تجارتی، صنعتی، سماجی اور مراکز صحت وغیرہ میں مردوں اور عورتوں کو یکجا کردیتے ہیں اور اکثر و بیشتر بیچاری عورت مردوں کے ماتحت ہوتی ہے جس سے نہ اس کی عزت نفس محفوظ نہ اس کی ملازمت محفوظ۔ مشرق و مغرب کی بہت سی قومیں مادیت پر یقین رکھتی ہیں۔ انہوں نے مردو عورت ہر ایک کو اپنی معاشی مشین کا پرزہ بناکر استعمال کیا تاکہ قومی پیداوار میں اضافہ ہو اور بس۔ ان کو اس سے سروکار نہیں کہ اس سے عورت کا استحصال ہوتا ہے۔ اس کی آزادی پامال ہوتی ہے۔ اسے ہوس کے شیطانی پنجوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس کی دولت عزت و عصمت کو بیدردی سے لوٹا جاتا ہے۔

عورتیں ہر فیلڈ میں کام کریں، یہ ان کی ہمت ہے مگر عورتوں پر مردوں کو مسلط نہ کرو! عورتوں کو ان کی ہمت و خواہش کے مطابق کام کے مواقع دو۔ خواہ باغبانی ہو، زراعت ہو، ہلکی پھلکی صنعتیں ہوں، تجارت ہو، دفتر ہو، عدل و قانون ہو، تعلیم و تربیت ہو، ان کی تنخواہیں اور دیگر مراعات بھی مردوں سے کسی سطح پر کم نہ ہوں۔ اسلام نے چودہ سو سال پہلے یہ عورت کو حقوق عطا کرتے ہوئے واضح قانون دیا ہے :

لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَلِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمََّا اکْتَسَبْنَ

(النساء : 32)

’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا‘‘۔

ہمارے معاشرے میں بیچاری عورت ایسے ماحول میں مرد افسروں کے تحت اس طرح کام کرتی ہے جیسے سہمی ہوئی بکری درندے کے ساتھ۔ مادہ پرست قوموں نے عورت و مرد کا آزادانہ اختلاط کرکے عورت پر بے پناہ مظالم ڈھائے ہیں۔ اسلام اس اختلاط کی اجازت نہیں دیتا کہ نوجوان دوشیزہ میک اپ کرکے سارا وقت بحیثیت پرائیویٹ سیکرٹری، سٹینو گرافر، بطور کال گرل مالک و آفیسر کے سامنے مسکراتی اور دل بہلاتی رہے۔ اس سے عورت کی صلاحیتیں زنگ آلود اور عزت و آبرو خاک میں مل جاتی ہے۔ مزید یہ کہ بدقسمتی کے ساتھ اسے ہی عورت کی آزادی کہا جاتا ہے بقول علامہ اقبال

مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے یہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری

قرآن کریم نے اسی لئے مسلمان مردوں اور عورتوں کو نظریں جھکانے کا حکم دیا ہے :

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَهُمْ اِنَّ اﷲَ خَبِيْرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ. وَقُلْ لِّلْمُوْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُيُوْبِهِنَّ.

(النور،24 : 30.31)

’’آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔ اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دو پٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں‘‘۔

احکام پردہ بیان کرنے کے بعد آخر میں فرمایا :

وَتُوْبُوْا اِلَی اﷲِ جَمِيْعًا يُهَ الْمُوْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.

(النور،24 : 31)

’’اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ انبیاء کرام کے علاوہ انسان خواہ کتنا ہی متقی و ایماندار ہو نگاہیں بھٹک جاتی ہیں۔ کم یا زیادہ اس لئے ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہنا چاہئے کہ وہ غفور رحیم ہی سب کی خطائیں معاف فرمانے والا اور پردہ پوشی فرمانے والا ہے۔