حرف نیاز: بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں

منیر احمد ملک (مظفر گڑھ)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ ناز میں اس امید کے ساتھ کہ نجانے قلم کی کون سی کاوش، زباں کی کون سی لکنت، انکسار کا کون سا بول، دل کی کون سی آہ، آنکھ کا کون سا آنسو، عقیدت کے چہرے کا وضو اور ارادت کے پھول کی شبنم ثابت ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ ناز میں بار پا جائے۔

میرے تاجور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

تیری نذر ہیں میرے جذبِ دل کی یہ شدتیں
مرے خواب، میری بصارتیں، مری دھڑکنیں، میری چاہتیں
مرے روز و شب کے نصاب میں مرے پاس اتنا تو کچھ نہیں
ترا قرض ہے مری زندگی مرے سانس تیری امانتیں

گر قبول اُفتد۔۔

بارگہِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پیش کرنے کے لئے میرے پاس اشکِ ندامت کے سوا کچھ اور نہیں۔ نہ تو حُسنِ عمل کا زادِ راہ ہے اور نہ ہی شایانِ شان گُہرہائے عقیدت یہ گدائے بے نوا شہنشاہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کونین کے دربار میں پیش کربھی کیا سکتا ہے۔ ماسوا اس کے

شاید کوئی آنکلے خوشبو کی تمنا میں
صحرائے محبت میں کچھ پھول کھلا جاؤں

بارگاہ بیکس پناہ میں یہ حقیقت عرض کرنے کا اذن عطا ہو جس سے آپ بخوبی آشنا ہیں کہ آنسو بیانِ غمِ دل اور متاعِ تسکینِ جاں ہوا کرتے ہیں۔ آنسو محبت کے سفیر ہوتے ہیں اور محبت ہی وہ امرت ہے جو جذبے کو اظہار کا خوبصورت پیراہن عطا کرتی ہے۔ آنسو محبوب کی یاد کے کس قدر قریب ہوتے ہیں یہ کوئی دلِ عشاق سے پوچھے۔ عقیدت کی شبنم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور کیوں گوہر نواز ہونے لگتی ہے۔ یہ کوئی روح میں اُترے ہوئے ہجرکے تیکھے کانٹے کی چُبھن سے ادراک کرے آپ کے حُسنِ تصور کے آبگینوں سے باوضو ہوکر پلکیں کیوں پائے اقدس کے بوسے لینے لگتی ہیں۔ آپ کی یاد کے آنے سے آنکھوں کے جھرنے کیوں بہہ نکلتے ہیں۔ آپ کے ذکرِ جمیل کی خوشبو سے آنکھیں کیوں بے اختیار چھلک اٹھتی ہیں؟ آپ کا اسم گرامی لب پہ آتے ہی تمام جسم کا پانی نتھر کردید کی پیاسی آنکھ سے کیوں رم جھم برسنے لگتا ہے۔ میرے فکر کی نارسائی یہاں تک ہے کہ آپ کی محبت کے اس مُنہ زور سوتے کی متحمل صرف اور صرف مشتاقِ دید آنکھ ہی ہوسکتی ہے۔ آنسو جس کی صدف کے موتی ہوتے ہیں۔ ان آنسوؤں میں وہ انبساط اور جلن میں وہ ٹھنڈک ہوتی ہے کہ اک کیفِ سرمدی سا محسوس ہوتا ہے۔ جسے لفظوں میں بیاں کرنا ممکن ہی نہیں۔ یہ آنسو تشکر و امتنان کا اظہار بھی ہوتے ہیں اور تحدیثِ نعمت کا اقرار بھی

غمِ فراقِ نبی میں جو اشک بہتے ہیں
اُن آنسوؤں کو متاعِ حیات کہتے ہیں
نہ پوچھ ٹوٹے ہوئے دل کی آبرو کیا ہے
سنا یہ ہے کہ وہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹوٹے دلوں میں رہتے ہیں

آنکھیں عقیدت و ارادت کے آنسوؤں سے وضو کرنے لگتی ہیں اور دیر تلک عشق و محبت کے ستارے پلکوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر دامن میں نور بھرتے رہتے ہیں۔

یہ قلب و جگر یہ فکر و نظر کیا میں ان کی نذر کروں
پاس مرے اشکوں کے علاوہ اور کوئی سوغات نہیں

اگرچہ میرے دامن میں عقیدت کے وہ پھول اور آنکھوں میں ارادت کے وہ ستارے نہیں جو سید الکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے شایاں ہوں۔ پھر بھی

تیری رحمت سے الہٰی پا س یہ رنگ قبول
پھول کچھ میں نے چُنے ہیں اُن کے دامن کیلئے

باعثِ صد رشک ہے وہ دل۔۔۔ جوحبیبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں دھڑکتا ہو۔۔۔ باعث صد آفریں ہے وہ زباں۔۔۔ جس کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی درود کی حیثیت رکھتا ہو۔۔۔ وجہ صد افتخار ہے وہ دماغ۔۔۔ جس میں خوشبوئے فکرِ محمد بستی ہو اور عرش مقام ہے وہ قلم۔۔۔ جو سینہ ءِ قرطاس پہ مدحت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موتی بکھیرتا ہو۔

میرے لفظوں میں خوشبو بسی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میرے شعروں کی وابستگی
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں میرے احساس کی تازگی
میرے افکار کی روشنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد سے دل کو راحت ملے
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے دل کا غنچہ کھلے
آپ کا نام ہے جن کے وردِ زباں
اُن کا سرمایہ زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں

دلِ عالم کے دلنوازصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لب پہ آتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرِ کرم کے طفیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اور دامن رحمت کی طرف کِھچؤ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذرہ نوازی ہے وہاں اک ایسا احساں بھی ہے جس کے مقابلے میں دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔۔۔

جب کوئی کسی کو یاد کرتا ہے، یاد رکھتا ہے، دل میں سجاتا ہے، نگاہوں میں بساتا ہے۔ روح میں سموتا ہے۔ جان میں گُھلاتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ کوئی سبب ہوتا ہے۔ کوئی نسبت ہوتی ہے۔ کوئی تعلق ہوتا ہے۔ بات تعلق کی ہے۔ لطف و عطا کی بارش اِس کے بغیر نہیں ہوتی۔

اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے دل میں بستے ہیں۔ پھر بھی یہ آرزو ہے کہ اس کی دھڑکنوں میں امڈتے ہوئے جذب و شوق کے طوفانوں کا رخ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہرو وفا کے ساحل کی طرف موڑ دوں، اپنے قلب کی پہنائیوں میں تڑپتی ہوئی امنگوں کو عقیدت کی راہ دکھادوں، پیاسی نظروں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دید کے سلگتے ہوئے ارمانوں کو محبت کی زباں دے دوں۔ تمنا ہے کہ اپنے جذب دروں کے سارے درد کو آپ کی مئے الفت کے ایاغ میں انڈیل دوں۔

گرے تھے ہجر میں موتی جو میری آنکھوں سے
وہی تو تحفتاً دینے میں آج لایا ہوں

میرے سرور دنیا و دیں صلی اللہ علیہ وسلم!

دور رہ کر بھی ہے ہر سانس میں خوشبو تیری صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
میں مہک جؤں جو تُو پاس بلالے مجھ کو

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آستانِ کرم سے دور بہت دور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اک عصیاں شعار عجمی اپنے جذبوں کی ترجمانی کے شعور کا تمنائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی الفت کے عطر میں بسی جذبِ دل کی یہ آرزو عرض پرواز ہے کہ اپنی توصیف و ثنا میں میرے راہوارِ قلم کو الفاظ اس سلیقے سے پرونے کا ہنر عطا کیجئے کہ جیسے وفا کی نذر لئے اشکبار آنکھوں میں آپ کے دیوانے آپ کے درپہ بے قرار کھڑے ہوں اظہار محبت ہو تو اس طرح کہ چاہت کی روح کھچ کر الفاظ کے سینے میں سما جائے، ان میں اثر ہو تو ایسا کہ پئے نذرِ عقیدت ارادت کے یہ موتی آپ کی بارگاہ میں بارپا جائیں۔

وہ لکھیں حرف کہ روحوں میں اتر آئے گداز
سطریں خود بول اٹھیں ایسی کتاب کی جائے
انگلیاں لَمس پڑھیں حرف تراشیں سانسیں
اس طرح درسِ تمنا کی ریاضت کی جائے

بارگہِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عقیدت کا خراج پیش کرنا سہل نہیں۔ یہ وہ بارگاہ جلالت مآب ہے جہاں جنید و بایزید بھی دست بستہ دم سادھے نظر آتے ہیں۔

بابِ جبریل کے پہلو میں ذرا دھیرے سے
فخر کہتے ہوئے جبریل کو یوں پایا گیا
اپنی پلکوں سے درِ یار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ دستک دینا
اونچی آواز ہوئی عمر کا سرمایہ گیا

میرے نبی محترم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم!

آپ کے بارے میں ایک لفظ بھی لکھنا تو کجا، سوچنا بھی میرے فہم و ادراک سے بالا ہے۔ قلم ہے کہ سطوت رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کانپ کانپ جاتا ہے۔ دامنِ قرطاس ہے کہ ندامت کے آنسوؤں سے بھیگ بھیگ جاتا ہے۔ مشک و عنبر میں بسی اور عطر و گلاب سے دھلی زبان ہے کہ آدابِ شہنشاہی کے سبب لڑکھڑا لڑکھڑا جاتی ہے۔ سوچیں ہیں کہ وفورِ شوق میں سو سو بار طہارت کا وضو کرتی نظر آتی ہیں۔ لفظ ہیں کہ بار بار بارگہِ اقدس کے طواف کے لئے پاکیزگی کا احرام باندھتے دکھائی دیتے ہیں۔ مگر پھر بھی بارگاہِ جمال میں اظہارِ ارادت کے لئے قرطاس و قلم کا رشتہ ہے کہ پاسِ ادب کے سبب بارہا ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔

پس میں اپنے جِھلملاتے ہوئے آنسوؤں کا خراج، اپنے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں کا سکوت، اپنی لڑکھڑاتی ہوئی زبان کا عجز اور اپنے لرزتے ہوئے قلم کا نیاز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ ناز میں اس آرزو کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔

شاہا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیاز و عجز گدایاں قبول ہو
آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلامِ حلقہ بگوشاں قبول ہو
الفاظ ساتھ چھوڑ گئے گُنگ ہوگئے
بے ربطی نوائے پریشاں قبول ہو
ساری دعائیں سیلِ تجلی میں بہہ گئیں
لرزاں اک اشک ہے سرِ مژگاں قبول ہو

میرے قبلہءِ جاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کے انداز نرالے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحمت بیکراں سے سب کو نوازتے رہتے ہیں۔ کسی پہ چشمِ عنایت قرطاس قلم کے حوالے سے، کسی پہ فیضانِ نظر قلب پہ القا کی صورت، کسی پہ لطف و عطا سوچ سے ماورا جمالِ فکر کے انمول موتی کے ذریعے نکہتِ گُل سے مہکتی ہوئی رات کے ریشمی دھندلکوں میں کہیں خواب میں آکر، کہیں روح میں سماکر لذتِ آشنائی کے سبب دل کو دوعالم سے یوں بیگانہ کرتے ہیں کہ انسان خود ہی اپنے آپ سے ہمکلام رہنے لگتا ہے۔ وہ خود سے گویا ہوتا ہے۔ کوئی اس سے گویا ہوتا ہے۔ یہ سب وقت و زمانہ کی ضروریات کے تحت ہوتا ہے۔

محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سراپا نگاری ہو یا سیرت نگاری، اصل بات تو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مُنّزہ جذبوں کا اظہار ہے۔ یہ الفاظ و اشعار مقصودِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چاہنے والوں میں اپنا نام لکھانے کے قلبی تمنا کا وسیلہءِ اظہار ہوتے ہیں۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرمایہءِ ہستی ہے اور آخرت کا زادِ راہ بھی۔ پس جس لفظ لمحے یا انسان نے اِس مئے ناب کا گھونٹ پی لی، وہ امر ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح و ثنا متاعِ نگارش اور معراجِ ہنر ہے۔ اس کے سبب سب سے بڑی شادمانی اور کامرانی جو نصیب ہوتی ہے۔ وہ محبوب کے دامن پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبتِ عقیدت ہے۔ جسے یہ دولت مل گئی اُسے اور کیا چاہئے۔

جو سُرور و کیف ملتا ہے تیرے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افکار سے
وہ کسی مے میں نہ ساغر میں نہ میخانوں میں ہے
کون چھینے گا تجھے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے بدن کی روح سے
تُو تو میرے گوشہ دل کے نہاں خانوں میں ہے
میری رگ رگ میں سمایا تیری صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفقت کا سُرور
تُو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے شعروں میں پنہاں میرے افسانوں میں ہے

میرے حضورصلی اللہ علیہ وسلم!

طشتِ دل پہ سجے عقیدت کے اِن پھولوں کے ساتھ کانپتے ہونٹوں دم بخود سانسوں اور ملتجی نظروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں باریابی کا متمنی ہوں۔ میری نگاہِ شرمسار میں ندامت کے آنسو بھی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے وابستگی کا بے پایاں جذبہ بھی۔

صاحبِ لوح و قلم!

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دیدہ وری پہ عیاں ہے کہ محبت کے راہی کا زادِ راہ فقط آنسو ہی ہوتے ہیں۔ محبت حق طلب ہو یا مجاز آشنا بہر صورت آنسوؤں ہی سے عبارت ہوتی ہے۔ آنسو محبت کے سفیر ہوتے ہیں۔ ہجر کی راتوں کے امین ہوتے ہیں۔ جو برسوں کی جدائی کو پل بھر میں پلکوں کی زباں سے بیاں کردیتے ہیں۔ اشکبار آنکھوں سے ٹوٹنے والے اِن گرم گرم آنسوؤں کا گُداز آپ پہ عیاں ہے۔ اپنے گنبدِ آبگینہ رنگ پہ نچھاور ہونے والے ارادت کے آنسوؤں کی زبان آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔ اپنے ہجر میں سلگتے ہوئے دلوں کے رباب سے نکلے ہوئے مدھر نغموں کی حلاوت سے آپ بخوبی آشنا ہیں۔ اپنے فراق کے مضراب سے مرتعش دل کے تاروں کے گیت آپ کے لئے نبات و انگبیں کی سی مٹھاس رکھتا ہے۔

فخرِ عرب و عجم صلی اللہ وآلہ وسلم!

مجھ سا عصیاں شعار بھی ٹوٹے ہوئے دل اور بہتے ہوئے آنسوؤں کے سوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور اور کیا پیش کرسکتا ہے۔ ندامت کے یہ آنسو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا تو عطیہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی محبت کا اعجاز ہیں اور یہ صرف اور صرف اُن خطاکاروں کا ہی نصیب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوشِ رحمت نے جن کی زینت بننا ہے۔ آپ کے لبِ گوہر بار کے سحر آفریں الفاظ (الطالع لی الصالح للّٰہ گنہگار میرے لئے اور نیکو کار اللہ کے لئے ہے) کا آسرا نہ ہوتا تو کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ ناز میں باریابی کی جرات بھی نہ کر پاتا۔ جہاں پہ جنید و بایزید کا زُہد و اتقیٰ گوہر شبنم کی طرح آبدیدہ اور شوکتِ سنجر و سلیم قبائے گُل کی طرح دریدہ نظر آتی ہے۔

شرم سے جو نہیں اٹھتی وہ نظر لایا ہوں
اپنی بہکی ہوئی شاموں کی سحر لایا ہوں
اپنی آنکھوں کے تیرے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم در پہ گُہر رکھتا ہوں
صرف اک نظر عنایت ترے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پؤں پہ سر رکھتا ہوں

سرورِ سروراں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !

کسی بھی صاحب ایماں کے لئے اس سے بڑا اعزاز اور کوئی نہیں کہ اسے غلامانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ثنا خوانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل کرلیا جائے۔

اُن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے مجھے مل جائے غلامی کی سند
میرے معبود کوئی لفظ میں ایسا لکھوں
سایہ گستر نہ ہوگر صورت واللیل وہ زلف
ساری دنیا کو میں تپتا ہوا صحرا لکھوں
ہرنفس تازہ تغیر کا ہدف ہے دنیا
جُز ترے دہر میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسے اپنا لکھوں

یہ آرزو میرے دل کی معراج بنی کہ کاروانِ عشق و سرمستی کے سالار سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدحت نگاروں میں کفش بردار اور بازار مصر میں یوسف کے خریداروں میں بنتِ نیل کی حیثیت سے شامل کرلیں تو یہ احساں میرے جرم و خطا کے لئے بخشش و عطا اور مجھ بیکس و بے نوا کے لئے وجہ صد افتخار و ناز ہوگا۔

میں کہاں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توصیف کہاں
عرض کچھ کرتا ہوں رحمت کے بہانے کیلئے

تاجدارِ شہاںصلی اللہ علیہ وسلم!

دعائے خلیل و نوید مسیحا علیہما السلام سے لے کر اُس آخری حرف تک جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح و ثنا میں کہا گیا سرمایہ۔۔۔ اظہار عجز کی وہ دولت اور محبت و عقیدت کا وہ خراج ہے جو آپ کے نام لیوؤں کی طرف سے بارگاہ جمال میں پیش کیا گیا ’’لولاک لما‘‘ کا تاج وہ تاج ہے جو احسن الخالقین کی طرف سے آپ کے سر اقدس کی زینت بنا۔۔۔ ورفعنالک ذکر۔۔۔ وہ سہرا ہے جو شبِ اسریٰ کے دولہاصلی اللہ وآلہ وسلم!۔۔۔ آپ کے زیبِ گُلو ہوا۔

میرے محبوبِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انس و جاں!۔۔۔

انسان جس ہستی سے محبت کرتا ہے اُس کی ذات کے چمن سے وہ نہ صرف فکرو نظر کے پھول چنتا ہے۔ بلکہ اُس کے وجود سے سوز و گداز کی کلیاں بھی جن سے وہ اپنے دل کا چراغ روشن رکھتا ہے۔ جن سے وہ تنہائیوں میں بھی انجمن آرا رہتا ہے۔

میرے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!۔۔۔

میں بھی تو محتاج کرم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا اک گنہگار اُمتی ہوں۔۔۔ مجھے بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ قدسی سے نسبتِ عقیدت ہے۔ میرے نامہ اعمال کی سیاہیوں سے قطع نظر حسین کریمین کے صدقے مجھے اپنی کملی کے سائے میں لے لیجئے۔ للہ مجھے اپنے قدموں میں جگہ دے دیجئے۔۔۔

میرے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم !

آپ کی اُلفت کے اسیر۔۔۔ خواجہ غلام فرید کے الفاظ میں:

’’میں نے اپنے گھر میں کبھی ایک پل بھی قرار نہیں پایا۔ آپ کے ہجر و الم میں میری ساری عمر گزر گئی۔ آپ کا فراق و اضطراب مجھے در در لئے پھرتا ہے۔۔۔‘‘

اے خالقِ ہجر و وصال!

’’تجھے زلف صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واللیل کی قسم! کوئی ایسا وسیلہ بناکر میری باقی عمر تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درِ اقدس پہ ُان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں گزر جائے‘‘۔

میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دل کا حال میں کس سے کہوں

چپ رہوں لیکن کہاں تک اور کیسے چپ رہوں
رات کی نیندیں میسر ہیں نہ اب دل کو سکوں
اور ہوتا جا رہا ہے دردِ مہجوری فزوں
صبر کا دامن چھٹا جاتا ہے ہاتھوں سے مِرے

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود فرمائیں آخر میں کروں تو کیا کروں

صرف اتنا عرض کرنے کی اجازت ہو عطا
دور رہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں سے میں کیوں کر جیوں

مولائے کل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

کسی آنکھ نے آج تک کوئی ایسا میزبان نہیں دیکھا جس نے اپنے در پہ بلائے ہوئے مہمان کو خالی ہاتھ لوٹایا ہو اور میں بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کا گدا ہوں جہاں مانگتے تاجدار پھرتے ہیں۔ میں تو آپ کی گلی کا فقیر ہوں جہاں مجھ جیسے ان گنت سیاہ کار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جودوسخا پر پل رہے ہیں۔ میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہمان ہوں۔ نارسائی میرا نوشتہ تقدیر نہیں بلکہ آپ کی زیارت بفضلِ ایزدی میرا مقدر ہے۔

اس سے پہلے کہ بجھیں میری بصارت کے چراغ
ان میں تصویر مدینے کی سجالی جائے
یہ تو ممکن ہی نہیں رحمتوں والے آقاصلی اللہ علیہ وسلم
خالی ہاتھوں تِری چوکھٹ سے سوالی جائے

یارحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !

مہر و مہ سے تابندہ تر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ انور پہ بکھری ہوئی زلفِ واللیل کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربارِ گُہر بار سے آیا ہوا بُلاوا میری زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں ہولے سے چلتی ہوئی باد نسیم اور زیست کے اُجڑے ہوئے دیار میں چپکے سے آتی ہوئی بہار سے زیادہ جانفزا ہے۔ یہ نہ صرف بعد از وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابدی سیرت کا تحیر خیز معجزہ ہے بلکہ اللہ کا کرم بھی۔

کیسے ادا زباں سے ہو شکرِ کرد گار
جالی حرم کی اور یہ چشمِ گناہ گار

آتا نہیں یقیں کہ میں اور درِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
میں اور قدم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوچنا نہ تھا کبھی
کٹ جائے میری عمر تیرے ذکر پاک میں
مل جائے میری خاک مدینے کی خاک میں

میرے شفیع المذنبیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

یہ تمنا میری سوچ کا جھومر ہے کہ میرا انجام کرامت علی شہیدی کے دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے اس شعر کی زندہ تفسیر ہو۔

تمنا ہے درختوں پہ تیرے روضوں کے جابیٹھے
قفس جس وقت ٹوٹے طائرِ روحِ مقید کا

میری حسرت و آرزو ہے کہ مجھ سیاہ کار کا جسم اپنی سیاہ کاریوں اور عصیاں شعاریوں سمیت اپنی نگاہوں سے گنبد خضریٰ کی زیارت کرلے تاکہ یہ کہنے کا اعزاز حاصل کرسکے۔

حضورِ روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑا ہوں
تمنا ہے نہ اب کوئی طلب ہے

اور پھر بس اس قابل نہ رہے کہ انہی آلودگیوں سمیت بارگاہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں باریاب ہوسکے صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمِ کرم میں آجائے کہ اک گنہگار جو آپ کا اُمتی تھا اپنے گناہوں پہ منفعل تھا اسی لئے وہ اپنی گنہگار آنکھوں کو ہی گنبد خضریٰ پہ نچھاور کرسکا اپنے آلودہ معصیت جسم کو حدِ کوئے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہیں لایا کیونکہ اُسے اِس بارگاہ کی عظمت و جلالت کا حد درجہ احساس تھا جو بوسہ گہِ ملائک ہے جس کا درباں جبریلِ امیں ہے جہاں ہر روز ستر ہزار فرشتوں کی نورانی جماعت حاضر ہوکر درود و سلام کے بے پایاں پھول میرے آقائے کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پہ نچھاور کرتی ہے اور اپنے عنبریں پروں سے روضہ اقدس پہ غبارِ گِل کی افشاں کو اپنے چہرے کا غازہ اور آنکھوں کا سرمہ بناتی ہے جہاں روز و شب انوار و برکات کی بارش ہوتی ہے جہاں جنید و بایزید ہاتھ باندھے گم کردہ نفس نظر آتے ہیں جس کی رفعت کے سبب عرشِ اعظم بھی جھکا رہتا ہے۔

میرے آقائے بے کس نوازصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

کاسے میں اس بھیک کے ساتھ سائل کی اس صدا کے ساتھ اور عجز بیاں کی اس التجا کے ساتھ ریاض حسین چودھری کے مشک بولہجے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگہِ اقدس سے نگہِ لطف و کرم اور بخشش و عطا کا طالب ہوں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاضر ہے ایک مجرم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو معاف کردیں
اور اسکے کشکولِ آرزو کو کرم کے سکوں سے آج بھردیں
یہ ہجرتوں کے اگاکے موسم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لایا ہے کشتِ غم میں
یہ عافیت کی تلاش میں ہے، اِسے مدینہ میں ایک گھر دیں

صاحبزادہ خورشید گیلانی کے الفاظ میں

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہاری عمر کتنی ہے تو میں بلاتکلف کہوں گا صرف (40) چالیس دن، پوچھنے اور میرا سراپا دیکھنے والے کو یقینا حیرت ہوگی کہ یہ کیا؟ میں اس کی حیرت بھانپ کر وضاحت کروں گا کہ چالیس دن کا مطلب یہ ہے 16 دسمبر 2005ء سے 25 جنوری 2006ء کے وہ شب و روز میرے حاصلِ حیات ہیں جو میں نے خانہءِ خدا کے صحن اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سائے میں بسر کئے ہیں باقی کے ایام زندگی بس کٹ گئے ہیں جن کا حساب رکھنا میں ضروری نہیں سمجھتا عمرِ عزیز کے 64 سال کچھ بچپن کی نذر ہوئے کچھ لڑکپن میں صرف ہوئے کچھ عنفوانِ شباب میں کھپ گئے، کچھ کالے حرف پڑھنے میں بسر ہوئے۔ کچھ گفتار و اظہار میں ضائع ہوئے کچھ تقدیسِ قلم کے تحفظ میں استعمال ہوئے، کچھ حصولِ رزق کا حصہ بنے۔ کچھ نیند نے اُچک لئے، کچھ سفروں نے ضائع کردیئے کچھ غمِ دوراں نے چھین لئے اور کچھ غمِ جاناں نے کشید کرلئے، لے دے کے یہی 40 روز ہیں جن کی مہک روح میں رچی ہوئی اور جن کی چمک آنکھوں میں سجی ہوئی ہے جن کی یاد سے دل کو بہلاتا اور جن کے تصور سے روح کو گرماتا ہوں۔

تیری صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہت کا سفر جیسے کوئی دور تلک
سونگھتا جائے ہے مہکتے ہوئے خوش رنگ گلاب