انسانی تعلقات میں مضبوطی اور استحکام

شفاقت علی شیخ

انسانی تعلقات میں مضبوطی و استحکام کا تعلق ہمارے رویہ جات پر منحصر ہے۔ عموماً معاشرتی زندگی میں باہمی معاملات کو طے کرتے ہوئے مندرجہ ذیل پانچ قسم کے رویہ جات پائے جا سکتے ہیں:

  • جیت/ جیت
  • جیت/ ہار
  • جیت
  • ہار/ جیت
  • ہار/ ہار

(i) جیت/ جیت

یہ دل و دماغ کی ایک کیفیت یا سوچ کا ایک انداز ہے۔ جو ہر انسانی تعلق میں باہمی فائدے کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ رویہ تمام انسانی معاملات میں سب کی مشترکہ بھلائی چاہتا ہے اور باہمی معاملات میں ایسے معاہدے اور حل تلاش کرتا ہے جن سے تمام متعلقہ فریقوں کو فائدہ اور اطمینان حاصل ہو اور تمام لوگ طے شدہ فیصلے کے بارے میں اچھا محسوس کریں اور طے پاجانے والی چیزوں کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ اس نظریے کے مطابق آپ دوسرے لوگوں کا خیال رکھتے ہیں اور اپنی کامیابی کی خواہش کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی کامیاب ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق کامیابی کا دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے اور جو شخص بھی اس میں داخل ہونے کی ہمت رکھتا ہے، وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ کامیابی صرف کسی خاص شخص کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر شخص کاحق ہے۔

(ii) جیت / ہار

جیت/ جیت کا ایک متبادل نظریہ جیت/ ہار ہے۔ اس نظریے کی بنیاد اس نکتے پر ہے کہ "اگر میں جیتوں گا تو تم ہارو گے" چنانچہ اس نکتہ نظر کا حامل شخص نہ صرف خود جیتنا چاہتا ہے بلکہ دوسرے کو ہرانا بھی چاہتا ہے۔ اس مقصد کیلئے اُسے ناجائز اور پُر فریب حربے اور ہتھکنڈے بھی استعمال کرنا پڑیں تووہ گریز نہیں کرتا۔ وہ کامیابی حاصل کرنے کے لئے اپنی پوزیشن، طاقت، مرتبے اور اثرو رسوخ کو بھی غلط طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہ رویہ خودغرضی پر مشتمل ہے جو اسلامی اقدار کے سراسر منافی ہے۔ ایسا شخص کسی بھی جگہ پر قائدانہ کردار ادا کرنے کی حقیقی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔

(iii) جیت

یہ بھی ذہن کا ایک رویہ ہے جس میں کہ انسان صرف اپنی جیت کے متعلق سوچتا ہے۔ اُسے اس سے غرض نہیں ہوتی کہ دوسرے جیت رہے ہیں یا ہار رہے ہیں۔ اس رویہ کے حامل شخص کے سامنے صرف اپنے خواب اور اہداف ہوتے ہیں جن کی تکمیل کے لئے وہ تن، من، دھن سے مصروف عمل رہتا ہے۔ وہ دوسروں کی خواہشات اور اُن کا حصول اُنہی پر چھوڑ دیتا ہے۔ مہذب معاشروں میں عموماً یہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ رویہ جیت/ ہار کے رویے کی نسبت کمتر درجے میں ہوتا ہے۔ تاہم چونکہ اس نظریہ میں بھی انسان کی سوچ اپنی ذات کے اردگرد ہی گھومتی ہے اور اس میں بھی خود غرضی کا پہلو پایا جاتا ہے۔ اس لئے اسلام کی آئیڈیالوجی میں اسے کوئی مثالی رویہ (ideal behaviour) قرار نہیں دیا جا سکتا۔

(iv) ہار/ جیت

جیت/ ہار کے بالکل بر عکس ایک اور رویہ ہے جسے ہار/ جیت کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک مریضانہ رویہ ہے جس کا حامل شخص احساس کمتری کا شکار اور کمزور ذہنیت کا مالک ہوتا ہے، چنانچہ وہ ہر معاملے میں ہر شخص کے مقابلے میں آسانی سے ہار مان لیتا ہے اور اپنی دانست میں اسے امن پسندی سمجھتا ہے۔

زندگی میں بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں خاموشی اختیار کر لینا، مقابلے سے دستبردار ہو جانا اور بے مقصدبحث و تمحیص سے بچنے کی خاطر ہار مان لینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسے طبیعت اور مزاج کا حصہ بنالیاجائے تو پھر یہ رجحان خطرناک ہوتا ہے۔ ایسا شخص عزت نفس اور خود داری سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ جگہ جگہ اپنی اقدار پر سمجھوتہ کرتا ہے۔ اپنے احساسات اور سوچوں کو دباتارہتا ہے جو بعض اوقات خطرناک نفسیاتی بیماریوں کی صور ت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں انسان سے ایسی حماقتیں ہو جاتی ہیں کہ دوسروں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش کے باوجود تعلقات میں بگاڑ آ جاتا ہے۔

دراصل جیت/ ہار اور ہار/ جیت دونوں کمزور پوزیشنیں ہیں اور دونوں کی بنیاد میں ذاتی عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔ البتہ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اول الذکر میں سوچ کے ابتدائی طور پر کچھ اچھے نتائج مل جاتے ہیں لیکن موخرالذکر میں سوچ تو شروع سے ہی ایک کمزور اور بے ہنگم سوچ ہوتی ہے، جو انسان کو دوسروں کے سامنے کھلونا بنا دیتی ہے اور وہ فٹ بال کی طرح ہر سمت میں لڑھکتاچلا جاتا ہے۔

(v) ہار/ ہار

یہ مندرجہ بالا چاروں رویوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے جس کا حامل شخص ہر قیمت پر دوسرے کو ہرانا چاہتا ہے اور اُسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ خواہ اس کے نتیجے میں خود اُسے بھی ہارنا پڑے یا نقصان اُٹھانا پڑجائے۔ اس نظریے کے حامل شخص کو اپنی جیت سے اتنی غرض نہیں ہوتی جتنی دوسرے کے ہارنے سے ہوتی ہے۔ لہذا وہ اُسے ہرانے کے لئے ہر قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ یہ صورتحال عموماً اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب دوجیت/ہار کی سوچ رکھنے والے مضبوط انؤں والے ڈھیٹ قسم کے لوگ ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتے ہیں۔ جب تمام فریق صرف اپنی جیت اور دوسروں کی ہار چاہتے ہوں تو اکثر نتیجہ"سب کی ہار" کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس نظریے کی سب سے بڑی مثال جنگ ہے جس میں ہر قیمت پر جیتنے کی خواہش ہوتی ہے چناچہ زیادہ سے زیادہ لوگوں اور املاک کو تباہ کیا جاتا ہے بالآخر جو فریق جنگ جیت لیتا ہے وہ بھی اپنا بہت کچھ نقصان کر چکا ہوتا ہے۔ انتقام بھی اس نظریے کی ایک قسم ہے، انتقام لینے والا بظاہر یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ جیت رہا ہے حالانکہ حقیقت میں وہ اپنی روح کو زخمی کر رہا ہوتا ہے اور بعض اوقات بظاہر بھی اُسے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک قاتل جب دوسرے کو قتل کرکے خود پھانسی پر چڑھ جاتا ہے تو یہ بھی بدترین قسم کی ہار/ ہار کی سوچ کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔

ہار/ ہار کی سوچ ایک منفی اور تخریبی سوچ ہے جو ہر قیمت پر دوسروں کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے۔ یہ اُس شخص کی سوچ ہے کہ جس کا دوسروں پر شدید انحصار ہو، جس کے پاس اندرونی سمت کوئی نہ ہو اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہو۔ ایسا شخص اپنے کسی حقیقی یا فرضی دشمن کو اپنے سر پر سوار کر لیتا ہے اور منفی انداز میں اس سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ گویا وہ اپنے دشمن کو اپنا مرکز بنا لیتا ہے اور اُس کے رویے کو اس طرح اپنے اُوپر حاوی کر لیتا ہے کہ وہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی اندھا ہو جاتا ہے اور اُس کی ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے دشمن کو ہارتا ہوا دیکھے، چاہے اس میں وہ خود بھی ہار جائے۔ "ہار / ہار" کا فلسفہ مکمل طور پر تباہی اور بربادی کا فلسفہ ہے۔

بہترین رویہ کون سا ہے؟

انسانی زندگی کے اندر اتنی انواع و اقسام کی حالتیں اور مواقع ہیں کہ کسی بھی ایک فارمولے کو ہر جگہ پر لاگو نہیں کیا جا سکتا، مثلا ْ کھیل کے میدان میں جب دو ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہو گا تو لازماً ایک کو جیتنا اور دوسری کو ہارنا ہے۔ لہذا وہاں جیت / جیت والا اصول عمل میں نہیں لایا جائے گا، اسی طرح کاروبار کے میدان میں جب دو بڑی کمپنیوں کا آپس میں مقابلہ ہو گا تو اُن میں سے کسی ایک کے آگے بڑھنے کی صورت میں لازماْ دوسری پیچھے رہ جائے گی، تاہم یہ سب استثنائی حالتیں (Exceptional cases) ہیں۔ روزمرہ کی زندگی میں باہمی تعلقات میں جہاں ایک دوسرے پر انحصار کرنا ہوتا ہے وہاں جیت/ جیت کااصول اپنانا ہی بہترین اور خوشگوار تعلقات کو پروان چڑھانے کا سنہری اُصول ہوتا ہے۔

دوسری طرف انسانی زندگی میں کچھ مقامات ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں کسی بھی طرح کا مقابلہ ہونا ہی نہیں چاہیے، لیکن انسان وہاںبھی بعض اوقات غیر شعوری طور پر مقابلے میں اُتر آتا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ محبت اور دوستی جیسے انمول رشتے مقابلہ بازی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ رشتے ہی ایسے ہیں کہ جہاں انسان جیت کر بھی ہار جاتا ہے۔ اپنی تمام تر پائیداری کے باوجود یہ رشتے بہت نازک ہوتے ہیں، جونہی ہار اور جیت کا تصور ان میں داخل ہوتا ہے یہ کچے دھاگے کی مانند ٹوٹ جاتے ہیں۔

جیت / جیت کا اُصول نہ صرف دنیوی زندگی کے اندر تعلقات کوخوشگوار بنانے اور اُنہیں فروغ دینے کا سبب بنتا ہے، بلکہ یہ اسلام کا ایک اعلیٰ اُصول بھی ہے اور ہماری ایمانی اور روحانی زندگی کی نشوونما کا لازمی تقاضابھی ہے۔ اس کی بنیاد اس اُصول پر ہے کہ دوسروں کو اپنے جیسا سمجھتے ہوئے اُن کیلئے وہی پسند کرنا جو انسان اپنے لئے کرتا ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا يُوْمِنُ اَحَدُ کُمْ حَتّٰی يُحِبُّ لِاَ خِيْهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.

"تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے کرتا ہے۔"

اسلام نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ معاشرتی زندگی کے اس سنہری اُصول کو ایمان کا تقاضا بنا دیا ہے اور ایمان کی حقیقت اور کمال کو پانے کے لیے اس اصول کو اپنی شخصیت اور کردار کا حصہ بنانے پر زور دیا ہے۔ ہر انسان اپنے لئے خوشی، مسرت، کامیابی اور نفع وغیرہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ایمان کا مطالبہ یہ ہے کہ یہی چیزیں وہ دوسروں کے لئے بھی چاہے۔ وہ ایسی روش اور طرز عمل کوا پنانے سے گریز کرے جس کے نتیجے میں دوسرے لوگ مندرجہ بالا چیزوں سے محروم ہوتے دکھائی دے رہے ہوں۔ جس طرح وہ اپنا ہمدرد اور خیرخواہ ہوتا ہے اُسی طرح وہ دوسروں کا بھی ہمدرد اور خیر خواہ بن جائے اورمعاملات کا ایسا حل تلاش کرے جو اُس کو خوشی اور کامیابی کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ایسا محسوس کرنے کا موقع فراہم کرے۔ اسی صورت میں انسان حقیقی معنوں میں خوشی و مسرت کو حاصل کرسکتا ہے اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کو بھی پائیدار بنیادوں پر استوار کر سکتا ہے۔ بصورت دیگر صرف اپنی کامیابی اور خوشی کے متعلق سوچنے اور دوسروں کے جذبات و محسوسات کو نظر انداز کرنے سے نہ وہ صحیح خوشی اور کامیابی حاصل کر سکے گا اور نہ ہی دوسروں کے ساتھ خوشگوار، مضبوط، اور پائیدار تعلقات کو برقرار رکھ سکے گا۔

"جیت/ جیت" کا رویہ کیا ہے؟

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت سے پہلے پیش آنے والا ایک واقعہ ہر دو فریق کی جیت کے تصور کو سمجھنے کی ایک خوبصورت مثال ہے۔ تعمیر کعبہ کے دوران حجر اسود کو خانہ کعبہ کی دیوار میں نصب کرنا تھا، ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ یہ سعادت اُس کے حصے میں آئے بلاآخر طے پایا کہ کل صبح جوشخص سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہو گا وہی یہ فیصلہ کرے گا۔ حسن اتفاق سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے داخل ہوئے۔ چنانچہ طے شدہ اصول کیمطابق اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے کرنا تھا کہ یہ سعادت کس کے حصے میں آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر منگوا کر اُس پر حجر اسود کو رکھ کر ہر قبیلے کے سردار کو بلا کر اُس کے ہاتھ میں چادر کا ایک کونہ پکڑایا، اُن تمام نے مل کر حجر اسود کو اس کی متعلقہ جگہ تک پہنچایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے ہاتھوں سے نصب فرمایا۔ چنانچہ ہر فریق خوش تھا کہ یہ سعادت اُس کے حصے میں بھی آگئی۔

اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر جو معاہدہ طے پایا اُس میں اگرچہ آگے چل کر اسلام کو فائدہ پہنچنا تھا لیکن فی الوقت معاہدے کا دوسرا فریق (کفار مکہ) اس بات پر مطمئن تھا کہ یہ معاہدہ اُن کے لئے بہت فائدہ مندہے۔ چنانچہ شروع میں تو بڑی گرم جوشی کے ساتھ کفار مکہ نے اس پر عمل کیا، تاہم بعد ازاں جب کفار مکہ کو احساس ہوا کہ اس معاہدے میں عملی طور پر اُن کا نقصان ہو رہا ہے تو اُنہوں نے معاہدہ توڑ دیا۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ کسی بھی معاہدے میں فریقین اُسی وقت خوش دلی سے عمل کرتے ہیں جب اُن کو اُس میں اپنے لئے نفع محسوس ہو رہا ہو، جہاں ایک فریق محسوس کرے کہ اُسے نقصان ہو رہا ہے تو وہ معاہدہ توڑ دیتا ہے یا پھر خوش دلی سے اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا اور ایسی حالت میں خوشگوار تعلقات کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

جیت/ جیت والی سوچ کیسے اپنائی جائے؟

باہمی تعلقات میں جیت / جیت کی سوچ کو اپنانا بلند حوصلہ اور اعلیٰ ظرف لوگوں کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔ اس خوبی کو اپنی شخصیت میں پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ فطری چیزیں (خود آگاہی، تخیل، ضمیر، خود مختار ارادہ) کو بھر پور طریقے سے استعمال میں لانا پڑتا ہے۔ اس سے انسان کے اندر ایسی بصیرت اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حقائق کا کھلے دل سے اعتراف کرسکے۔ دوسروں کو اپنی جگہ اور اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ پر رکھ کر سوچ سکے۔ دوسروں کو صحیح معنوں میں سمجھ سکے اور اپنی بات موثر طریقے سے اُنہیں سمجھا سکے۔ دوسروں کے ساتھ تعاون کر سکے اور اُن سے اپنے لئے تعاون حاصل کر سکے، اور باہمی تعلقات کو سب کی بھلائی اور بہتری کے حصول کا ذریعہ بنا سکے۔ اس مقصد کیلئے جس اعلیٰ درجے کے کردار کی ضرورت ہوتی ہے اُس کے اندر مندرجہ ذیل تین چیزیں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں:

  • تشخص
  • بالغ نظری
  • کشادہ دلی

(i) تشخص

تشخص کا مطلب ہے کہ ا نسان کی سیرت و کردار میں امانت و دیانت کا پہلو اس قدر راسخ ہو چکا ہو کہ ماحول اور معاشرے کی نگاہوں میں دیانت داری اور راست بازی اُس کی پہچان بن چکی ہو۔ ایک شخص کے اندر اگر سو خوبیاں ہوں لیکن ایک دیانتداری نہ ہو تو لوگوں کی نظر میں اُس کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہو گی اور نہ ہی کوئی اُس کی بات سننے پر آمادہ ہو گا کیونکہ کسی کو اس پر اعتماد نہیںہوتا۔ ایسی صورت میں جیت / جیت کا حل سوچنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا ممکن ہی نہیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی نے اپنے باپ کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملازم رکھنے کی تجویز پیش کرتے وقت اُن کی جو دو خوبیاں بیان کی تھیں اُن میں سے ایک دیانتداری تھی۔قرآن ِمجید میں ارشاد ہے کہ:

اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِيُ الْاَمِيْنُ.

"بے شک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانتدار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)"۔

(القصص:26)

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اعلان نبوت سے پہلے کفار مکہ نے جو دو القاب عطا کر رکھے تھے وہ بھی "صادق اور امین" تھے یہ دونوں ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں اور ان دونوں کا تعلق دیانتداری سے ہی ہے۔

دیانتداری اور راست بازی کا مفہوم بہت وسیع ہے اس کا مطلب ہے کہ انسان اعلیٰ اخلاقی قدروں کو اپنے کردار میں سموئے ہوئے ہو، اُس کے ظاہر و باطن میں یکسانیت اور ہم آہنگی ہواور قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ وہ ہر کسی کا ہمدرد اور خیر خواہ ہو۔ اپنے اور دوسروں کیلئے یکساں معیار رکھتا ہو۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ خوبی اُس کی شخصیت میں رچ بس چکی ہو نہ کہ کسی خاص موقع پر کبھی کبھار اظہار ہو۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری ہر لمحہ کی حرکات و سکنات اور جملہ اعمال وافعال دوسروں کی نگاہوں سے گزر کر اُن کے ذہن کے کمپیوٹر میں جا کر ہماری ایک تصویر بناتے چلے جاتے ہیں۔ جس طرح کا طرز عمل ہم اپناتے ہیں اُسی طرح کی ہماری تصویر لوگوں کے ذہنوں میں بنتی ہے اور اُسی کے مطابق لوگوں کے ذہنوں میں ہمارے حوالے سے اعتماد کا لیول قائم ہو تاہے۔ اس تصویر کا بننا یا بگڑنا ایک دن کی بات نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک مسلسل اور متواتر عمل ہے۔ لہٰذاجب ہم مستقل طور پر اس خوبی کو اپنائے ہوں گے اور ہر موقع پر اپنے عمل سے اس کا اظہار کریں گے تو لوگوں کے ذہنوں میں ہمارے حوالے سے اعتماد کی سطح بلند سے بلند تر ہوتی چلی جائے گی۔ چنانچہ اس خوبی کی موجودگی میں ایک طرف تو ہمارے لئے جیت / جیت والے حل کے متعلق سوچنا آسان ہو گا اور دوسری طرف دوسرے لوگوں کو اس کی طرف مائل کرنا آسان ہو گا۔

(ii) بالغ نظری

عام طور پر بالغ نظری سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ انسان کی عقل میں اتنی پختگی آ جائے کہ وہ معاملات کا بہتر انداز میں جائزہ لے سکے اور درست نتائج اخذ کر سکے۔ لیکن یہاں بالغ نظری کا لفظ ایک خاص مفہوم میں استعمال کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ

انسان اپنے جذبات اور عقائد کا پوری حوصلہ مندی سے اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے جذبات اور عقائد کا بھی پورا پورا لحاظ کرے۔

اپنے اُوپر اعتماد + دوسروں کی عزت = بالغ نظری

جیت / جیت کی سوچ پر عمل پیرا ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے رویے میں ان دونوں چیزوں کے درمیان توازن ہر وقت برقرار رہے۔ اگر ایک انسان کے پاس حوصلہ مندی یا ذاتی اعتماد اعلیٰ درجے میں موجود ہو لیکن وہ دوسروں کی پرواہ کرنے میں کمزور ہو اور دوسروں کے جذبات و احساسات کی اُس کے نزدیک کوئی قدروقیمت نہ ہو تو وہ ہر وقت اپنی جیت اور دوسروں کی ہار کے چکر میںہی رہے گا۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص میں حوصلہ مندی اور ذاتی اعتماد پست درجے میں ہو لیکن وہ دوسروں کی بہت زیادہ پرواہ کرنے والا ہو اور اُن کے جذبات اور خواہشات کو بہت اہمیت دیتا ہو تو وہ اپنی ہار اور دوسروں کی جیت کیلئے آمادہ ہو جائے گا۔ جیت / جیت کی سوچ اُسی وقت معرض وجود میں آ تی ہے جب ایک انسان کے پاس ذاتی حوصلہ مندی اور دوسروں کی عزت کرنے کا جذبہ دونوں اعلیٰ درجے میں موجود ہوں اور دونوں کے درمیان توازن پایا جارہا ہو۔

(iii) کشادہ دلی

کشادہ دلی کا مطب کھلے دل و دماغ کا مالک ہونا اور معاملات کو طے کرتے وقت تنگ نظری اور تعصب کی بجائے وسیع النظری اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہے، یہاں کشادہ دلی کا لفظ جس خاص مفہوم میں استعمال کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس وجود کو بھی پیدا کیا ہے اُس کی ضرورت اور تعمیر و ترقی کے جملہ لوازمات یہاں موجود ہیں، لہٰذا یہاں ہر شخص کے لئے اس دنیا میں بہت کچھ موجود ہے۔ ایک حدیث قدسی کے الفاظ یوں ہیں:

يا عبادی لو ان اولکم و ا خرکم وجنکم و انسکم اجتمعوا فی صعيد واحد فسئلونی جميعا فا عطيت کل انسان منهم مسئلته لم ينقص ذلک مما عندی الا ينقص المخيط اذا غمس البحر.

" اے میرے بندو! اگر تمہارے سب اگلے پچھلے، جن و انسان ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور سب مجھ سے مانگیں اور میں اُن میں سے ہر ایک کا سوال پورا کر دوں تویہ دینا میرے خزانے میں کمی نہیں کرے گا۔ مگر اتنی جتنی کے سمندر میں ڈبونے سے سوئی سمندرکے پانی میں کمی کریگی۔"

" جیت/ جیت " کی سوچ کو اپنانے کیلئے بہت ضروری ہے کہ انسان اس" بہت ہے" کی ذہنیت کو اپنا چکا ہو اور اپنے دل و دماغ کی تختی پر یہ حقیقت نقش کر چکا ہو کہ یہاں ہر شخص کے پانے کیلئے ہرچیز بے حدو حساب مقدار میں موجود ہے۔ مال و دولت، علم و عقل اور عزت و شہرت میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس کی کوئی کمی ہو۔ جب انسان اس سوچ کو اپنے من میں اتار لے گا تو پھر اس کیلئے دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنا، اُنہیں نعمتیں پاتے ہوئے دیکھ کر خوش ہونا اور اُن کے فائدے کے متعلق سوچنا قطعاً مشکل نہیں ہو گا کیونکہ وہ اس بات کو جانتا ہو گا کہ دوسروں کو ملنے کا مطلب کسی بھی درجے میں یہ نہیں ہے کہ وہ اُن چیزوں سے محروم رہ جائے گا، بلکہ اُس کیلئے بھی آگے بڑھنے اورہر چیز کو پانے کے مواقع پوری طرح موجود ہیں۔

اس کے برعکس جو شخص تنگ دل اور تنگ نظر ہو گا، وہ اس وہم میں پڑ جائے گا کہ یہاںہر چیز بہت محدودمقدار اورقلیل تعداد میں موجود ہے۔لہٰذا جس طرح بھی ممکن ہو کوشش کرکے یہ محدود چیزیں اپنے لئے زیادہ سے زیادہ تعداد اور مقدار میں حاصل کر لینی چاہیئں۔ ایسے شخص کا ذہن جیت / جیت کی سوچ کو اپنانے کی طرف مائل ہی نہیں ہوگا کیونکہ اُس کے نزدیک ایک کی جیت دوسرے کی ہار کے مترادف ہو گی، چنانچہ وہ دوسروں کے اندرموجود خوبیوں کا کھلے دل سے اعتراف نہیں کر سکے گا بلکہ اُلٹا ان کے حوالے سے حسد محسوس کرے گا۔ اپنی طرف سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا تو دور کی بات ہے وہ دیگر ذرائع سے اُن کو ملنے والی کامیابیوں اور فوائد کے حوالے سے بھی اپنے دل ہی دل میں جلنے اور کڑھنے والی روش کا شکار ہوگا۔ مادی فوائد تو ایک طرف وہ کسی دوسرے کی تعریف سن کر بھی اندر سے جل بھن کر رہ جائیگا۔ جیسے روپے پیسے کی طرح تعریف بھی کوئی محدود سی چیز ہے اور اس میں سے کچھ کم ہو گیا تو شایداُس کیلئے کچھ نہ بچے گا۔ وہ دوسروں کی کامیابی، تعریف اور اعلیٰ کارکردگی کا صرف ایک مطلب لے گا کہ وہ اُن کے مقابلے میں چھوٹا ہو گیا ہے۔ چنانچہ وہ اندر ہی اندر دوسروں کی ناکامی، بدنامی اور نقصان کی اُمید لگائے رکھے گا، تاکہ دوسرے پیچھے رہ جائیں اور وہ خوداُن سے آگے نکل جائے۔ ایسا شخص کبھی بھی جیت/ جیت والی روش کو نہیں اپنا سکے گا۔ کیونکہ اس طرز عمل کو اپنانے کیلئے جس بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے اُس کے پاس وہ بنیادہی موجود نہیں ہے۔

خلاصہ کلامـ

تسخیر کائنات کا پہلا قدم جیت / جیت کی سوچ کو اپنانا ہے۔ اس کا مطلب ہے اپنی ذات کے تنگ حصار سے باہر نکل کر اپنے آپ کو انسانیت کے وسیع سمندر میں شامل کر لینا۔۔۔ محض اپنے نفع کی طرف دیکھنے کی بجائے ہر ایک کے نفع کو ملحوظ خاطر رکھنا۔۔۔ اپنی ذات کی طرح ہر ایک کاہمدرداور خیرخواہ ہونا۔۔۔ ہر کسی کی بھلائی کے متعلق سوچنا۔۔۔ اپنے آپ کو جاننے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی جاننا اور اُن کے جذبات و احساسات کا لحاظ رکھنا۔۔۔ باہمی معاملات میں ایسے طریقے اپنانا جن میں تمام متعلقہ لوگوں کیلئے فائدہ اور اطمینان کا پہلو ہو۔