اے انقلابی ساتھیو! بڑھتے چلو بڑھتے چلو

لانگ مارچ کے اثرات، آئینی و قانونی اداروں کے "کردار"، مارچ کے بعد کی صورت حال اور پاکستان کے روشن اور مستحکم انقلابی لائحہ عمل پر مشتمل خصوصی رپورٹ

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ تناظر میں ملکی مسائل کا واحد حل نظام کی تبدیلی ہے؛ یعنی ایک ایسا نظام جو معاشی و سماجی انصاف پر مبنی ہو۔۔۔ جس میں عدل و مساوات کا راج ہو۔۔۔ جس میں حکمران عوام کے خادم بن کر کام کریں نہ کہ آقا و مولا بن کررہیں۔۔۔ جس میں عوام کے حقوق ان کی دہلیز پر میسر ہوں۔۔۔ جس میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔۔۔ جس میں کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہو اور جو معاشرہ طلبیِ حقوق کی بجائے ادائیگیِ فرائض کا مثالی مظہر ہو۔ لیکن موجودہ آئینی و جمہوری ڈھانچے میں رہتے ہوئے یہ تبدیلی نظامِ انتخابات کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں انتخابات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ شفاف انتخابات کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ ماضی میں ملک میں انتخابی قوانین موجود ہونے کے باوجود نہ تو کبھی ان قوانین کو درخورِ اعتنا سمجھا گیا اور نہ ہی ان کی پابندی کا لحاظ رکھا گیا۔

انتخابی قوانین اور آئینی تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے جو بھی انتخابات ہوئے ان کے نتیجے میں ایسی اسمبلیاں وجود میں آئیںجن میں اکثر و بیشتر ایسے لوگ انتخابات جیتے کہ اگر انہیں آئین اور قانون کے معیارات کے مطابق جانچا جاتا تو وہ شاید پارلیمان میں پہنچنے کی بجائے جیل پہنچتے۔ جعلی ڈگریاں، ٹیکس چوری اور بیسیوں دیگر جرائم کا ارتکاب کرنے والے آئین اورقانون کی اسی چشم پوشی کے باعث پارلیمان میں متمکن ہونے کے قابل ہوئے۔ اس قوم نے وہ منظر بھی دیکھاکہ حکومتی وزیر سرعام میڈیا پہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ کرپشن معاشرے کا حصہ ہے۔ گویا کرپشن کو ایک کلچر کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے اور یہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔

لانگ مارچ۔۔ بیداری شعور میں اہم کردار

اندریں حالات مسائل کا حل یہ تھا کہ موجودہ قانون کو فعال بنایا جائے اور اس کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا 14 جنوری کا لانگ مارچ اس سلسلے میں ملکی تاریخ میں بہت بڑا مؤثرقدم تھا جس نے نہ صرف عوام میں شعور بیدار کیا کہ نمائندہ بننے کا اہل کون ہے بلکہ عام آدمی کو اس سے بھی آگاہ کیا کہ وہ کون سے آئینی معیارات اور تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنے کے بعد ہی کوئی شخص اس دعوی کا اہل ہو سکتا ہے کہ وہ عوامی نمائندگی کے لیے امیدوار بنے۔ اس میں کوئی شک نہیںکہ شیخ الاسلام کی قیادت میں ہونے والے لانگ مارچ اور پھر اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے پانچ روزہ دھرنا ملکی تاریخ ہی نہیں بلکہ حالیہ عالمی تاریخ کا نادر اور عدیم المثال واقعہ ہے۔ بغیر کسی تشدد اور دہشت گردی کے اتنے طویل لانگ مارچ اور دھرنا کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جہاں اس لانگ مارچ اور دھرنے سے پاکستانی قوم کا ایک منظم قوم ہونے کا image دنیا کے سامنے آیا، وہیں یہ بات بھی کھل کر سامنے آگئی کہ اگر قوم کوصحیح رہنمائی فراہم کی جائے، انہیں حقائق سے آگاہ کیا جائے، انہیں اپنی اہمیت کا احساس دلایا جائے اور قانون و آئین میں موجود ان اقدامات سے آگاہ کیا جائے جو نظام کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے ضروری ہیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا ملک بتدریج ایسے انقلاب کی طرف بڑھنے نہ لگے جو ہمیں اپنی منزل سے آشنا کرنے کا باعث ہوگا۔

یاد رکھیں کسی بھی معاشرے میں اس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی جب تک قوم تبدیلی کی ضرورت اور اس کے تقاضوں سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہو۔ مجموعی طور پر چار بنیادی اُمور تبدیلی کا تقاضا کرتے ہیں:

1۔ یہ ایک منتشر (scattered) اور پارہ پارہ قوم ہے جسے اتحاد اور یگانگت کی سخت ضرورت ہے تاکہ دوبارہ وحدت کے رشتے میں پروئی جائے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کیلئے حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

2۔ پاکستانی قوم مایوسی کے گرداب میں دھنستی جا رہی ہے، اسے یاس و ناامیدی کی دلدل سے نکال کر امید اور یقین کے نور سے بہرہ ور کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لیے بھی حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

3۔ بدقسمتی سے ہماری قوم بے مقصدیت کا شکار ہوگئی ہے۔ اِس کے سامنے ایسا کوئی نصب العین نہیں جو ٹکڑوں میں بٹ کر منتشر ہو جانے والے جتھوں کو ایک اکائی میں پرو کر متحد کرسکے؛ جو سب کو بحیثیت ایک قوم کے جینے اور ترقی کرنے کا سلیقہ سکھا سکے۔ بے مقصد قوم کو مقصد اور آگہی کا شعور دینے کے لیے حقیقی تبدیلی کی ضرورت ہے۔

4۔ ہماری قوم بے سمت ہوگئی ہے۔ کراچی سے خیبرپختونخواہ تک اور کشمیر سے چمن کی سرحدوں تک من حیث القوم اس کی کوئی سمت ہی نہیں رہی۔ اس کی سوچیں، وفاداریاں، مفادات، ترجیحات اور ایجنڈے سب متضاد ہیں۔ اٹھارہ کروڑ عوام کا بے ہنگم ہجوم ایک قوم، ایک وحدت اور اکائی بن کر ایک مقصد کے ساتھ ایک سمت کی طرف چل پڑے؛ لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کے لیے ایک ہمہ گیر تبدیلی کی ضرورت ہے۔

انتشار، مایوسی، بے مقصدیت اور بے سمتی میں مبتلا قوم مجموعی طور پر اکثر شعبہ ہائے حیات میں زوال پذیر ہوتی جا رہی ہے اگرچہ انفرادی اور گروہی طور پر اس کی کارکردگی قابلِ رشک ہے۔

تحریکِ منہاج القرآن اپنے قیام کے وقت سے ہی قوم کو مقصدیت سے رُوشناس کرانے کے لیے سرگرمِ عمل رہی ہے۔ اس کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ہر طبقہءِ فکر کو مخاطب کرتے ہوئے اپنا پیغام ان تک پہنچایا۔

موجودہ جمہوری حکومت کی گزشتہ پانچ سالہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا بڑے سے بڑا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو تمام اپوزیشن جماعتوں کا کبھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ پاکستان کی داخلی و خارجی سکیورٹی کا مسئلہ ہو، دہشت گردی کے خطرات ہوں، بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا معاملہ ہو یا سرحدوں پر ہونے والی دراندازی درپیش ہو، کسی بھی اَہم قومی ایشو پر ان کا اکٹھ نہیں ہوا۔ لیکن ان کی عوام دشمنی اور اپنے حقوق کے تحفظ کا کیا کہیے کہ ایک دوسرے کو شدید برا بھلا کہنے والی تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اُس ’جمہوریت‘ کو بچانے کے لیے جمع ہوگئیں جو عوام کی بجائے ان کے اپنے مفادات کی محافظ تھی۔ کاش! یہ مفاد پرست سیاست دان اپنی سیاست و سیادت بچانے کی بجائے ریاست کو بچانے کے لیے متحد ہوجائیں۔

اسلام آباد لانگ مارچ نے ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے سیاست دان اور پارٹی رہنما اپنے اپنے ذاتی و جماعتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں، ملک و قوم کے لیے کام نہیں کرتے۔ جب کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ملک و قوم کی بات کی ہے، انہوں نے عوام کی بات کی ہے، انہوں نے غریبوں کی نمائندگی کی ہے، انہوں نے مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے پیچھے صرف اور صرف عوام تھی؛ کوئی ایجنسی، کوئی حکومت یا غیر جمہوری طاقت ان کی پشت پناہ نہ تھی۔ اس طرح شیخ الاسلام عوامی اتحاد اور قوت کا عظیم مظہر بن کر سامنے آئے کہ جو کسی بھی لالچ اور منصب و اقتدار کی خواہش کے بغیر صرف اور صرف عوام کی خدمت کے لیے میدان عمل میں اترے۔ اُن کا عزم و ہمت، جذبہ و استقامت اور صدق و خلوص اِس اَمر کی غمازی کررہا ہے اگر انہیں خدمت کا موقع دیا گیا تو وطن عزیز ایسی ترقی کرے گا کہ دنیا اسے رشک کی نگاہ سے دیکھے گی۔

پھر کیا ہوا؟

محترم قارئین! اس لانگ مارچ کے بعد کیا ہوا؟ بڑے بڑے حکومتی ایوان، عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی نام نہاد سیاسی جماعتیں اور آئین و قانون کے محافظ ادارے کس طرح بے نقاب ہوئے؟ آیئے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ لیکن اس سے قبل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے کئے گئے مطالبات پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں تاکہ مکمل تصویر ہمارے سامنے آسکے:

1۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے 90 دن کا وقت ہو تاکہ نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن کے لیے کسی قسم کی اصلاحات کے نفاذ یا امیدواروں کی اہلیت کی جانچ پڑتال کے لیے مناسب وقت میسر آئے۔

2۔ کاغذات کی جانچ پڑتال اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لینے کے لیے سات دن کی بجائے ایک ما ہ کا وقت دیا جائے تاکہ الیکشن کمیشن امیدواروں کی اہلیت کا تعین کر سکے۔

3۔ انتخابی اصلاحات کے بارے میں اعلامیے میں اتفاق کیا گیا کہ انتخابات سے پہلے آئین کی 62، 63 اور 218 (3) پر عمل درآمد پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے آرٹیکل 77 تا 82 اور سپریم کورٹ کے انتخابی اصلاحات 8 جون 2012ء کو صادر ہونے والے فیصلے پر من و عن عمل درآمد کروایا جائے (یہ آرٹیکلزانتخابات کی آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور ایمان دارانہ بنیادوں پر انعقاد اور ہر قسم کے بدعنوانانی کے معمولات کے تدارک سے متعلق ہیں)۔

4۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے کیونکہ موجودہ الیکشن کمیشن کے ممبران کا تقرر آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے مطابق نہیں ہوا۔ (درج بالا چار مطالبات میں سے تین مطالبات کی تفصیلات کے لئے گذشتہ شمارہ فروری 2013ء ماہنامہ منہاج القرآن ملاحظہ فرمائیں)

محترم قارئین! یہ وہ مطالبات ہیں جنہیں اسلام آباد لانگ مارچ اعلامیہ کا حصہ بنایا گیا۔ ان کا مقصد ہی یہ تھا کہ آنے والے انتخابات کو شفاف اور منصفانہ بنایا جاسکے اور ان انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پارلیمان ایسے اراکین پر مشتمل ہو جو آئین اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اور آئینی معیارات پر پورا اترنے والے ہوں۔ یہ لانگ مارچ کی تاریخی کامیابی تھی کہ لانگ مارچ اعلامیہ کے ان اقدامات کو عوامی سطح پر بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی اور قوم و ملک کا درد رکھنے والے ہر ذی شعور شخص اور ادارے نے اسے اپنے دل کی آواز قرار دیا۔

اگر اِن تمام اُمور کا دیانت دارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ اَمر کماحقہ ثابت ہوجاتا ہے کہ ان قوانین اور تجاویز پر مکمل عمل درآمد کی صورت میں جو اسمبلی منتخب ہو کر آئے گی - چاہے اُس کے اراکین کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو - وہ آئین کے مطابق سمجھ دار و باصلاحیت، پارسا، غیر فاسق و نیک اور صادق و امین (sagacious, righteous and non-profligate, honest and ameen) قیادت کے طور پر ملک کو deliver کرنے کے قابل ہوں گے؛ نیز وہ حقیقی معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے کام کر سکیں گے۔ ایسی قیادت ہی ملکی وسائل کو تلاش کرنے، بڑھانے اور صرف کرنے کے لیے مثبت پیش رفت کرسکے گی۔ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، کرپشن اور دیگر مسائل کا حل بھی تبھی ممکن ہوگا جب اہل، باصلاحیت اور دیانت دار لوگ اسمبلیوں میں عوام کی نمائندگی کر رہے ہوں گے۔

الیکشن کمیشن کی غیر آئینی تشکیل

حکومتی نمائندوں نے ان تمام مطالبات کو تسلیم کیا، اس پر عملدرآمد کا یقین دلایا مگر الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لئے راضی نہ ہوئے۔ جبکہ ہمارا مطالبہ تھا کہ یہ الیکشن کمیشن غیر آئینی طور پر تشکیل پایا ہے۔ اس لئے کہ آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کے 5 ارکان کی سلیکشن 15 ناموں میں سے کی جاتی ہے۔ چاروں صوبوں سے ہر پوسٹ کے لئے بھیجے جانے والے تین ناموں کو پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی ان تینوں امیدواروں کو باقاعدہ سننے کے بعد ہر تین میں سے ایک رکن کی تقرری کرتا ہے مگر موجودہ حکومت نے آئینی تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے براہ راست تقرریاں کرکے ضابطے کو یکسر نظر انداز کردیا۔ موجودہ ارکان الیکشن کمیشن کو سنا ہی نہیں گیا بلکہ کمیٹی نے خود ہی تمام نام فائنل کئے۔

مزید یہ بھی کہ یہ کمیشن دو سیاسی جماعتوں کے آپس کے مک مکا کا نتیجہ ہے۔ لہذا اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ انتخابات کے لئے آئین و قانون میں موجود جملہ آرٹیکلز کا نفاذ الیکشن کمیشن نے ہی کرنا ہوتا ہے اور وہ ادارہ جو خود غیر آئینی و غیر قانونی طریقہ سے سیاسی جماعتوںکا احسان مند ہوکر معرض وجود میں آیا ہو وہ کس طرح قانون و آئین کی بالادستی کو یقینی بناسکتا ہے بلکہ وہ تو فطرتی طور پر اپنے "محسنوں" کو ہر قدم پر "رعایت اور مدد" فراہم کرے گا۔

حکومتی ارکان کے مطابق الیکشن کمیشن کی تحلیل میں آئینی رکاوٹ حائل ہے، ان کے اس حوالے سے کوئی بھی اقدام کرنے پر معذرت کے بعد شیخ الاسلام نے اس حوالے سے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا۔

عدالت عظمیٰ اور "عدل و انصاف"

شیخ الاسلام نے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے لئے تمام آئینی و قانونی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 33 صفحات پر مشتمل پٹیشن تیار کی۔ جس میں ا س موقف کو اختیار کیا کہ

الیکشن کمیشن کی تشکیل غیر آئینی طریقہ سے ہوئی ہے لہذا اسے ختم کرنے کے لئے کسی آئینی طریقہ کو اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ کسی حکم یا ادارہ کو ختم کرنے کا آئینی طریقہ اس وقت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جب اس کی تشکیل کے وقت بھی آئین و قانون کو مدنظر رکھا گیا ہو۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آرٹیکل 213 اور 218 کو پیش نظر رکھا ہی نہیں گیا لہذا یہ اول دن سے ہی غیر آئینی و غیر قانونی ہے لہذا سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہی اس کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔

مگر افسوس! جس ادارہ سے عدل و انصاف کی توقع تھی اس نے اس پٹیشن پر ایسا رویہ اور طریقہ اختیار کیا جو پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں ایک بدنما داغ کے طور پر ہمیشہ موجود رہے گا۔

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے حوالے سے اس درخواست کو سماعت کے لئے قبول کیا اور 11 فروری کو باقاعدہ پہلی سماعت کا وقت مقرر کیا۔ کیس کی سماعت کے لئے تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا۔ یہ سماعت تین دن تک ہوتی رہی۔ سماعت کے پہلے دن سے ہی اصل کیس کے بجائے سپریم کورٹ نے شیخ الاسلام کی کینیڈا شہریت کو وجہ بناتے ہوئے دوہری شہریت کے حوالے سے سوالات کرنا شروع کردیئے اور جب دہری شہریت کے حوالے سے بھی شیخ الاسلام نے ان کے ہر سوال کا جواب دیا تو بنچ نے ان جوابات کو نظر انداز کرتے ہوئے حق دعویٰ پر ثبوت طلب کرنا شروع کردیئے اور بالآخر "دہری شہریت والوں کی وفاداری تقسیم ہوتی ہے" اور "حق دعویٰ ثابت نہیں ہورہا" جیسے الفاظ کے ساتھ 3 دن بعد پٹیشن کو خارج کردیا۔ ان تین دنوں میںشیخ الاسلام کا جانبدارانہ عدالتی اور میڈیا ٹرائل جاری رہا اور اصل پٹیشن کا ایک لفظ بھی نہ سنا گیا اور نہ ہی پڑھنے دیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اصل پٹیشن کو سننے کے بجائے زیادہ تر بحث دہری شہریت پر ہی جاری رکھی اور ایک عام شہری کی حیثیت سے آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت بھی کسی بھی اقدام یا تقرری کو چیلنج کے حق کے تحت بھی دلائل نہ دینے دیئے گئے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے دہری شہریت کے حصول کے لئے اٹھائے گئے حلف کو بار بار موضوع بحث بنانے پر شیخ الاسلام نے جب معزز جج کی توجہ ان ہی کے ایک غیر آئینی حلف کی طرف مبذول کروائی تو "آئینہ اُن کو دکھایا تو برا مان گئے" کے مصداق وہ طیش میں آگئے۔ سماعت کے دوران جب الیکشن کو ملتوی کرانے کی نیت کا الزام شیخ الاسلام پر لگایا اور اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش کرنے سے بھی قاصر رہے تو اس معاملہ کو ہی گول مول کردیا اور وقفہ کے دوران ہی پٹیشن خارج کرنے کا فیصلہ لکھ لائے حالانکہ سماعت ابھی جاری تھی اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل وقفہ کے بعد شروع ہوئے جس میں وہ اس خطاب کا حوالہ دینے میں ناکام نظر آئے جس کے ذریعہ انہوں نے الیکشن کے التواء کا الزام شیخ الاسلام پر لگایا۔

دہری شہریت کے آئینی احکامات و ملکی قوانین

محترم قارئین! اب سپریم کورٹ کی اس منطق کا بھی جواب سن لیں جس کی رُو سے انہوں نے دہری شہریت کو باقاعدہ ایک جرم کے مترادف قرار دینے کی اپنی سی کوشش کی۔ پاکستانی آئین و قوانین کے مطابق 16 ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو سوائے پارلیمنٹ کا رکن بننے کے تمام حقوق حاصل ہیں۔ پاکستان میں 1951ء سٹیزن شپ ایکٹ بنایا گیا تھا جس کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 13 اپریل 1951ء کو منظور کیا تھا۔ اس قانون کی 23 شقیں تھیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ ترامیم کی گئیں۔ اس قانون کی شق نمبر14 میں واضح طور پر پاکستانی شہریوں کو دہری شہریت اختیار کرنے کی اجازت نہیں۔ البتہ 29 اگست 2002ء کو ایک نوٹیفیکیشن کے تحت پاکستان کے شہریوں کو کینیڈا سمیت 16 ممالک میں دہری شہریت حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

جب ملک پاکستان کا آئین ہمیں 16 ممالک سے دہری شہریت رکھنے کی اجازت دیتا ہے اور آئین کے مطابق دہری شہریت رکھنا کوئی جرم نہیں تو شیخ الاسلام کی اصل پٹیشن کو چھوڑ کر محض دہری شہریت کو موضوع بحث بنانا کس کی بدنیتی کو واضح کرتا ہے، اس کا جواب ہر ذی شعور پاکستانی جانتا ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ شیخ الاسلام نے کوئی پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لئے درخواست دائر نہیں کی تھی پھر اصل موضوع کو چھوڑ کر دہری شہریت پر سوالات کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ دہری شہریت والا بطور شہری الیکشن کمیشن کی تشکیل نو پر بھی قانون اور آئین کے مطابق سوال اٹھاسکتا ہے، یہ کوئی غیر آئینی عمل نہیں ہے۔ کم و بیش 70 سے 80 لاکھ پاکستانی غیر ممالک میں رہائش پذیر ہیں، جنہوں نے دہری شہریت کے باوجود ملک پاکستان کے لئے کیا کیا قربانیاں نہیں دیں، حتی کہ ہماری معیشت کا انحصار بھی ان پر ہے، ہم ہر بڑی قدرتی آفت میں امداد کے لئے بھی ان ہی کی طرف دیکھتے ہیں مگر ان قربانیوں کے باوجود ملک کے ایک اعلیٰ ادارے کی طرف سے ان کی وفاداری کو منقسم سمجھنا سمجھ سے بالا تر ہے۔ دوسری طرف دہری شہریت رکھنے والے کئی پاکستانی غیرممالک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن ان پر ان ممالک کی سپریم کورٹ نے کبھی دہری شہریت کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔ بلکہ کئی پاکستانی دہری شہریت رکھنے کے باوجود برطانیہ، کینیڈا، سویڈن، اٹلی وغیرہ سمیت کئی ممالک کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ان تمام ممالک میں ان کی دہری شہریت کہیں رکاوٹ نہیں بنی اور نہ ہی دہری شہریت کی وجہ سے ان پاکستانیوں کے ساتھ وہاں امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ پاکستان میں دہری شہریت رکھنے والوں کو طعنہ بنایا گیا لیکن ترقی یافتہ ممالک دہری شہریت والوں کو اہم منصب پیش کرکے ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

افسوس! ہمارے انداز ہی نرالے ہیں۔ میمو گیٹ سکینڈل پر از خود نوٹس ایک ایسے شخص کے محض خط پر لیا جاتا ہے جو دہری شہریت کا حامل ہے اور گواہ اس کو لیا جاتا ہے جو امریکن ہے جبکہ انتخابی اصلاحات کے عمل کے آغاز کے لئے الیکشن کمیشن کو غیر جانبدار، مضبوط اور سیاسی وابستگی سے پاک کرنے کی غرض سے اگر شیخ الاسلام پٹیشن دائر کریں تو "دہری شہریت" کا لیبل لگاکر پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیا جائے حالانکہ پوری دنیا میں امن، بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلام کے پیامبر کے طور پر انٹرنیشنل میڈیا شیخ الاسلام کا تعارف "پاکستانی اسلامی سکالر" کے طور پر کرواتا ہے۔

تیری قامت سے گلہ ہے سب کو ورنہ شہر کے لوگوں سے تیر ا جھگڑا کیا ہے

انتخابی اصلاحات پر الیکشن کمیشن کے اقدامات

لانگ مارچ کی اہمیت و اثرات کو نہ چاہنے اور قبول نہ کرنے کے باوجود الیکشن کمیشن بھی عوام الناس میں شیخ الاسلام کے مطالبات کی پذیرائی اور دبؤ برداشت نہ کرسکا اور اس نے بھی شروع میں ان تمام مطالبات پر مضبوط موقف اختیار کرتے ہوئے ان کے بہر طور نفاذ کا اعلان کردیا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ سیاسی جماعتوں کے دبؤ اور اپنے "محسنوں" کے احسان کے آگے دم توڑ گیا اور

  • سکروٹنی، پہلے 30 دن کا اعلان کیا، پھر 14 دن پر آیا اور پھر بالآخر 7 دن ہی کو حسب سابق برقرار رکھا۔
  • جعلی ڈگری والوں پر ہاتھ ڈالنا چاہا تو بڑوں بڑوں نے الیکشن کمیشن کو اس کی حدود یاد کروادیں۔ نتیجتاً معافی مانگ کر ڈگری چیک کرنے کے موقف سے بھی پیچھے ہٹ گیا۔
  • اور پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ شیخ الاسلام نے سچ کہا تھا۔ الیکشن کمیشن کے ارکان نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ بااختیار نہیں، ان پر سیاسی دبؤ ہے، لہذا وہ انتخابات کو شفاف نہیں بناسکتے۔

ان تمام حالات و واقعات کے دوران الیکشن کمیشن نے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ایک اور منصوبہ بنایا۔ امیدوار کے لئے 6صفحات پر مبنی نیا فارم تشکیل دیا گیا جس میں آئین و قانون کے مطابق شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے تمام نکات کا ذکر کیا۔ شیخ الاسلام کے مطالبات میں سے بھی کئی نکات کو شامل کیا گیا۔ عوام الناس، میڈیا اور غیر جانبدار حلقوں میں الیکشن کمیشن کو پذیرائی ملی کہ الیکشن کمیشن نے حکومتی دبؤ قبول کرنے سے انکار کردیا ہے اور ڈٹ گیا مگر الیکشن کمیشن کے اس منصوبہ کو جو سیاسی جماعتوں کے ساتھ مک مکا کا نتیجہ تھا، شیخ الاسلام نے بے نقاب کردیا۔

الیکشن کمیشن نے جو فارم تشکیل دیا وہ بلاشک و شبہ آئین و قانون کے مطابق ہے اور شیخ الاسلام کے مطالبات میں سے بھی اکثر و بیشتر نکات شامل ہیں مگر اس کے صفحہ2 اور صفحہ 3پر ان تمام نکات کی وضاحت کرتے ہوئے ان سے بچنے کا چور راستہ بھی درج کردیا کہ اگر کوئی شخص فارم میں موجود نکات جعلی ڈگری، قرضہ معافی، ٹیکس نادہندگی، یوٹیلٹی بلز کی عدم ادائیگی کے حوالے سے کسی بھی عدالت سے، بینک کورٹ سے یا متعلقہ ادارے سے Stay لے آتا ہے تو وہ بھی الیکشن لڑنے کے اہل ہوگا۔

محترم قارئین! حقائق آپ کے سامنے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آئین و قانون کی بالادستی کے لئے شیخ الاسلام کے مطالبات کن لوگوں اور کن اداروں کو ہضم نہ ہوئے اور کیوں نہ ہوئے؟ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوچکی ہے۔ شیخ الاسلام نے ان حقائق کو عوام تک پہنچانے اور ان کو ان کے حقوق دلانے کی کاوشیں ان کے اوچھے ہتھکنڈوں کی وجہ سے ختم نہیں کیں بلکہ سپریم کورٹ کی تاریخ کے اس بدترین فیصلہ کے بعد بھی اپنے پہلے سے اعلان کردہ عوامی انقلاب مارچ اور جلسہ ہائے عام کا سلسلہ جاری رکھا تاکہ حقیقت سے لوگوں کو آشنا کیا جائے اور سیاسی حوالے سے ان کی رہنمائی کی جائے، نیز اس بات کا تعین کیا جائے کہ خرابی کہاں ہے تاکہ اس خرابی کو ختم کرنے کے لئے پوری قوم یکسو ہوکر کاوشیں کرے۔

  • غریب دشمن نظام کے خلاف عوامی انقلاب مارچ وجلسہ ہائے عام کے سلسلہ کا پہلا جلسہ پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام گلشن اقبال گراونڈ گوجرانوالہ میں 15فروری 2013 کو منعقد ہوا۔
  • اس سلسلے کا دوسرا مارچ و جلسہ 17 فروری کو دھوبی گھاٹ گرؤنڈ فیصل آباد میں منعقد ہوا۔
  • غریب دشمن نظام کے خلاف جاری جدوجہد کے سلسلہ کا تیسرا جلسہ 22 فروری کو سپورٹس گرؤنڈ ملتان میں ہوا۔

ان تمام مارچ اور جلسوں میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قیادت کی اور خصوصی خطابات کئے۔ تمام جلسوں میں لاکھوں خواتین و حضرات نے خصوصی شرکت کی۔

پاکستان کے روشن اور مستحکم مستقبل کا انقلابی لائحہ عمل

عوامی انقلاب مارچ اور جلسہ ہائے عام کے سلسلہ کا آخری اور فیصلہ کن جلسہ لیاقت باغ راولپنڈی میں 17 مارچ کو منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں لاکھوں خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ اس جلسہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے درج ذیل نکات پر تفصیلی خطاب کیا:

  • حالات کا تجزیہ
  • امید و یقین
  • Vision of Pakistan
  • تبدیلی
  • تبدیلی کیسے؟

آیئے! اس خطاب کا مطالعہ کرتے ہیں:

1۔ تجزیہ

2004ء میں میرے اسمبلی سے مستعفی ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس نظام کو اندر سے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس پارلیمنٹ سے عوام کو کچھ نہیں ملا اور نہ کچھ ملے گا۔ یہ پارلیمنٹ جیسے ادارے، یہ ملک کا نام نہاد سیاسی عمل اور so-called democracy یا آمریت سب کچھ مخصوص طبقات اور اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ اس پورے process میں سے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کلیتاً خارج ہیں۔ 2004ء سے مستعفی ہونے کے بعد 2012ء آٹھ سال تک اس ملک کی سیاسی، انتخابی اور حکومتی استحصالی نظام کے خلاف میں نے تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک اور خواتین، نوجوانوں و طلباء کی تنظیمات کے پلیٹ فارم سے عوامی سطح پر ملک میں تبدیلی اور انقلاب کے لیے بیدارئی شعور کی ایک مہم شروع کی جو آٹھ سال تک چلتی رہی۔

آٹھ سال کی بھرپور جدوجہد کے بعد 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر اس Message کو عامۃ الناس تک عام کرنے کے لیے اور تبدیلی و انقلاب کا یہ شعور اور استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کا یہ پیغام پاکستان کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا عظیم الشان اور فقید المثال اجتماع ہوا۔

ہم نے 23 دسمبر مینار پاکستان سے اس استحصالی، ظالمانہ اور غریب دشمن نظام کے خلاف آئینی و جمہوری جدوجہد سے پر امن احتجاج کا آغاز کیا۔ انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا رکھا اور اوّل تا آخر آئین کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کرنے اور اس پاسداری کی بات کی۔ اس تصور کو آگے بڑھانے اور حکومتی حلقوں، پارلیمنٹ پر پریشر بڑھانے اور عوام کی آواز کو مزید طاقت ور بنانے کے لئے 13 جنوری سے 17 جنوری تک ملک بھر سے لانگ مارچ کا انعقاد کیا اور 17 جنوری تک ایک عظیم الشان تاریخی دھرنا ہوا جس کی مثال نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں بلکہ اقوام عالم کی تاریخ میں نہیں ملتی کہ اتنا طویل، پُرامن اور عظیم دھرنا جمہوریت، امن، تبدیلی، عوام کے حقوق اور آئین کی بالا دستی کے لیے نہ کبھی ہوا نہ ہوسکے گا۔ اس دوران امن کا یہ عالم کہ ایک پتہ بھی نہ ٹوٹا، ایک شیشہ نہ ٹوٹا، معمولی سا act of vilence نہ ہوا۔ صبر و استقامت کی لازوال داستان، امن کی لازوال مثال، نظم و نسق و جمہوری طرز عمل کی لازوال مثال اور آئینی اور قانونی رویوں کی ایسی لازوال مثال قائم کی کہ اس دھرنے نے پاکستانی قوم کا امیج پوری دنیا کے اندر بلند کر دیا۔

جس قوم کو دہشت گرد قوم تصور کیا جاتا تھا، انتہاء پسند قوم تصور کیا جاتا تھا، جہاں بات بات پر لڑائی جھگڑا، فساد، گولی اور لاشیں گرتی تھیں اس قوم نے اقوام عالم کو دکھایا کہ پاکستانی قوم کا صرف یہ رخ نہیں یہ رخ بھی ہے کہ دنیا میں پاکستانی قوم سے بڑھ کر کوئی قوم پرامن اور منظم نہیں۔ قوم نے بتا دیا کہ یہ وہ قوم ہے اگر اس کو قیادت ملے تو ساری قوم کا کردار پانچ دن کے اندر بدل سکتا ہے۔ توڑ پھوڑ کرنے والی قوم کو قیادت ملے تو نظم و نسق کی عدیم المثال پیکر بن سکتی ہے۔ قرون اولیٰ کے مسلمان حضرات و خواتین صالحین اور صالحات کی مثال قائم کر دی اور طاقت کے باوجود تصادم کا راستہ اختیار نہیں کیا۔

ہم چاہتے تو تصادم ہو سکتا تھا۔ جو چاہتے سب کچھ ہو جاتا مگر امن برباد ہوتا، جمہوریت ڈی ریل ہوتی۔ لہذا ہم نے جذبات پر قابو پانے اور امن کو کامیاب کرنے کی تاریخ میں ایک مثال قائم کی اور تاجدار کائنات سیدنا رسول اللہA کی سنت کے مطابق مذاکرات کا راستہ اختیار کیا۔

ہم نے آئین و قانون کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، عوام کے حقوق کے لیے اس نام نہاد جمہوریت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا اور امن کے طریق سے نہ ہٹے۔ مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کیا مگر اس ملک کے مزدوروں، غریب ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں، تاجروں، کسانوں، ہاریوں، پسماندہ لوگوں اور عوام کے حقوق کے لیے طاقتوروں نے پہنچنے نہ دیا۔ اس لئے کہ قانون و آئین بھی طاقت وروں کے قبضے میں ہے، نام نہاد جمہوریت بھی طاقت ور اشرافیہ کے قبضے میں ہے، انہوں نے جمہوریت کی راہ سے بھی عوام تک ان کے حقوق کو پہنچنے کی اجازت نہ دی۔ ہم نے معاہدے پر امن مارچ کا اختتام کیا۔ ساری سیاسی قوتیں ایک طرف تھیں، اپوزیشن کی ساری جماعتیں ایک طرف لاہور میں جمع تھیں، گویا کل سیاسی اور مذہبی قیادتیں عوام کے حقوق کے خلاف جمع ہو گئیں۔

اس معاہدے کے نفاذ، انتخابی اصلاحات کے نفاذ، انتخابات کو ہر قسم کی دھاندلی سے پاک کرنے کے عمل کے نفاذ، کرپٹ، لٹیرے لوگوں کو انتخابی عمل سے نکالنے کے عمل کے آغاز، ستھرے نمائندے پارلیمنٹ تک پہنچانے کے عمل۔ الغرض ان تمام امور کا انحصار اس بات پر تھا الیکشن کمیشن آف پاکستان خود آئینی ہو، قانونی ہو، شفاف طریقے سے بنا ہو، وہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کا محافظ نہ ہو۔ ایماندار ہو، غیر جانبدار ہو، منصفانہ الیکشن کروائے اور سیاسی مک مکا کے تحت الیکشن میں دھاندلی کے راستے نہ کھولے۔ لہذا ضروری تھا کہ اس الیکشن کمیشن کا خاتمہ ہو اور نیا الیکشن کمیشن آئین پاکستان کے آرٹیکل 213 کے مطابق بنایا جائے کیونکہ موجودہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق نہیں بنا تھا۔ اس کے لئے ہم نے قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا تا کہ وہاں سے عدل و انصاف عوام کو ملے گا مگر بدقسمتی کہ جس جگہ پر آئین کو شنوائی ملنی تھی وہاں آئین کو بھی سنا نہ گیا۔ جس جگہ قانون کی سماعت ہونی تھی وہاں قانون کی آواز کو بھی سننا گوارا نہ کیا گیا۔ جس جگہ عدل و انصاف کی بات ہونی تھی وہاں عدل و انصاف کی طرف جانا بھی گوارا نہ کیا گیا اور اصل موضوع پر آئے بغیر ایک غیر متعلقہ ایشو کے اوپر تین دن برباد کر کے غیر آئینی طریقے سے بنائے گئے الیکشن کمیشن کو تحفظ دیا اور اس تحفظ کے نتیجے میں انتخابات کو غیر شفاف، جانبدار اور کرپٹ بنانے کے تمام راستے ہموار کردیئے۔

الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 213 کی شرائط کے مطابق نہیں بنا۔ اس بات کو حکومتی نمائندے، آئینی و قانونی ماہرین سب تسلیم کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں۔ حتی کہ الیکشن کمیشن کے پانچوں ممبر بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ان کا تقرر غیر آئینی طریقہ سے ہوا ہے اس لئے انہوں نے بھی کبھی میری بات کو نہیں جھٹلایا۔ مزید یہ کہ میری پٹیشن کو خارج کرنے والے سپریم کورٹ کے تینوں جج صاحبان بھی جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری خلاف آئین ہوئی ہے اسی لئے انہوںنے میری اصل پٹیشن پر توجہ دینے کی بجائے دہری شہریت کے معاملات کو بے جا موضوع بحث بنادیا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل پر کہا گیا کہ پہلے آپ کہاں تھے؟ میں پوچھتا ہوں کہ ہر مسئلہ پرSuo moto action لیا جاتا ہے، کوئی خبر اخبار میں چھپ جائے یا ٹی وی پہ آجائے تب بھی طلب کر لیا جاتا ہے۔ یہ تو تین مہینے سے شور مچ رہا ہے، اس پر Suo moto action لے کر اپنے ضمیر کی آواز سے فیصلہ کیوں نہیں کرتے کہ آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق یہ مقرر ہوئے یا خلاف ورزی میں مقرر ہوئے۔

پارلیمنٹ Constitution کا ایک ادارہ ہے، اس کا بھی احترام ہے، مگر اس کے ممبران کا رویہ غلط ہو گا تو ممبران پر تنقید کا حق ہے۔۔۔ فوج بھی ادارہ ہے، بطور ادارہ اس کا احترام ہوگا۔ مگر کسی فوجی افسر کا ذاتی رویہ غلط ہو گا تو قوم کو تنقید کا حق ہے۔۔۔ عدلیہ بھی ایک آئینی ادارہ ہے، اس کا احترام ہے، مگر اس میں بیٹھنے والوں کا ذاتی رویہ غلط ہوگا، آئین اور انصاف کے خلاف تو قوم کو ان کا محاسبہ کرنے کا بھی حق ہے۔

الیکشن کمیشن غیر آئینی تھا، غیر آئینی ہے، قانونی طور پر ناجائز تھا ناجائز ہے۔ اب ایسے الیکشن کمیشن سے جائز انتخابات کی توقع کیسے کرتے ہیں؟ جس ادارے کی اپنی تشکیل، اپنا وجود شفاف طریقے سے نہیں بنا وہ پاکستانی قوم کو شفاف الیکشن کیسے دے سکتا ہے؟

ہم نے عوام کے حقوق کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ پھر میڈیا ٹرائل بھی ہوئے، عدالتی ٹرائل بھی ہوئے، تہمتوں کے بازار گرم ہوئے، الزامات کی بوچھاڑ لگی، کردار کشی کی انتہاء کی گئی۔ میں ان تمام کو معاف کرتا ہوں۔ نہ میں نے پہلے کسی کو گالی دی، نہ آج دوں گا، نہ آئندہ کبھی دوں گا۔ میں گالی کا کلچر ختم کروانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں، کردار کشی کا سیاسی کلچر ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔ سیاست میں شرافت اور تہذیب لانے کے لیے جدوجہد شروع کی ہے۔ سیاست میں انسانی آداب و احترام اور حقوق پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ آپ نے اگر سو گالیاں دیں، جھوٹی تہمتیں لگائیں، تو ہم کسی کا جواب نہیں دیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خدارا! اس قوم کو تہذیب و ثقافت اور ادب و احترام کا اچھا کلچر سکھایا جائے۔

کبھی کہا گیا کہ ان کے پیچھے امریکہ ہے، کبھی کہا گیا فوج ہے۔ میں نے پہلے دن کہا تھا کہ ہمارے پیچھے سوائے اللہ کی ذات کے اور کوئی نہیں ہے، آج بھی اللہ ہے کل بھی اللہ تھا اور آئندہ بھی اللہ ہو گا۔

قوم کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے

یہ الزام بھی لگا کہ فنڈ کہاں سے آئے؟ آپ چار جلسوں کے فنڈز کی بات کرتے ہیں، اللہ کی عزت کی قسم! اگر اس ملک کا نظام بدل جائے، ملک کی قیادت دیانتدار لوگوں کے ہاتھ آجائے، ایماندار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے، دوہری شہریتوں والے پاکستانیوں کا اعتماد قائم ہو جائے کہ پاکستان بھیجا جانے والا پیسہ کرپشن کی نذر نہیں ہو گا بلکہ جس مقصد کے لیے جائے گا وہیں خرچ ہوگا۔ اگر یہ اعتماد ایماندار، انقلابی قیادت کے ذریعے بحال ہو جائے تو تم چار جلسوں کے فنڈ پوچھتے ہو میں جواب میں کہتا ہوں کہ میں تمہیں ایک سال میں پاکستان کے بیرونی قرضے اتار کے دے سکتا ہوں۔ کیا World Bank! کیا IMF! کیا پیرس کلب! پاکستانی قوم بڑی غیرت مند قوم ہے، وہ خون کا قطرہ قطرہ پاکستان کے لیے بہادیتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان کے اعتماد کو بحال کیا جائے۔

قرضے اتارنے کی یہ بات میں سوچ سمجھ کر کر رہا ہوں۔ میں نے 32 سال پاکستانی قوم کی بے لوث خدمت کی ہے۔ ہمارے کردار میں اور باقی بہت سے اوروں کے کردار میں، فرق ہے۔ وہ لوگ جب بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کے دن اور رات کے خرچے اور رات اور دن کے دھندے، ان کے کارکن اور پاکستانی قوم اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ ایسے لیڈروں کے نام پر قوم پیسے کیوں لٹائے گی؟ جبکہ میں نے 32 سال میں اپنے کارکنان اور تنظیمات سے ایک پیسہ تحفے اور نذرانے کے نام پر نہیں بٹورا۔ پوری دنیا میری بات سن رہی ہے، اگر ایک جملہ غلط ہو تو کوئی ردّ کر سکتا ہے۔ میں نے اپنی سینکڑوں کتب اور ہزاروں خطابات کی 32 سال میں ایک روپے کی بھی رائلٹی اپنے اوپر حرام کر رکھی ہے، وہ بھی میری تحریک کے لئے ہمیشہ تک وقف ہے۔

جب یہ کردار آپ اپنے کارکنوں کو، پاکستانی قوم کو دکھائیں گے تو خدا کی قسم وہ اپنے منہ سے نوالہ بھی نکال کر پاکستان کا قرضہ اتارنے کے لیے قربان کر دیں گے۔ قیادت چاہئے، امانت چاہئے، دیانت چاہئے، کرپشن ختم ہو جائے اور لٹیرے لیڈروں کا راج ختم ہو جائے تو پاکستان آج بھی ملائشیا اور سنگاپور بن سکتا ہے۔

الحمدللہ میں چند سالوں میں پاکستان کے ہر بڑے گاؤں کو، یونین کونسل کو، ایک ایک ہسپتال، غریبوں کے مفت علاج، ہر یونین کونسل کو ایک سکول، تحصیل میں کالجز، ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی اور ہر قصبے اور یونین کونسل کو ایک انڈسٹری دے سکتا ہوں اور یہ سب کچھ پاکستان کے بجٹ پہ بوجھ ڈالے بغیر باہر موجود پاکستانیوں سے پیسہ لا کر کروں گا۔ یہ ان پاکستانیوں کی قربانیوں کے نتیجے میں ہو گا جن کے پاس دوہری شہریت ہے، جن کی دوہری شہریت کو طعن کیا جاتا ہے، جن کی وفاداری کو مشکوک کہا جا رہا ہے، جن کی وفاداری کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔

افسوس یہاں دہرے معیار قائم ہیں۔ دوہری شہریت کے ساتھ ایک شخص الیکشن کمیشن کے بارے میں درخواست لے کر تو عدالت میں نہیں جاسکتا کیونکہ وفاداری تقسیم ہے مگر الیکشن کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ دوہری شہریت کا حامل اس ملک کا نگران وزیر اعظم بن سکتا ہے۔ دوہری شہریت کے شخص پر نگران وزیر اعظم بننے پر پابندی نہیں، صرف الیکشن لڑنے کی پابندی ہے۔ اب نہ وفاداری مشکوک اور نہ وفادری تقسیم۔

دو رنگی چھوڑ دے یک رنگ ہو جا
سراسر موم یا پھر سنگ ہو جا

سپریم کورٹ نے ہماری اصل پٹیشن کو سماعت کئے بغیر اپیل خارج کردی، اس سے شاید کئی لوگوں نے سمجھا ہوگا کہ اب تبدیلی اور انقلاب کا راستہ رک جائے گا اور ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے، اب ان کی طاقت اور ہمت جواب دے جائے گی، نہیں، نہیں، نہیں۔ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ سارے ہتھکنڈے، یہ سارے غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر قانونی حربے اور ساری طاقتیں مل کر بھی اس ملک سے تبدیلی اور انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ عوام اٹھیں گے، اپنے حقوق تک پہنچیں گے اور ملک کی تقدیر کو ان شاء اللہ بدل کر دم لیں گے۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی و جمہوری صورت حال

سیاست نہیں - ریاست بچاؤ۔ میں آج بھی اسی نعرے پر قائم ہوں۔ سیاست کا مطلقاً رد نہیں کرتا۔ جو سیاست پاکستان میں رائج الوقت ہے یہ سیاست نہیں، خباثت ہے، یہ سیاست نہیں غلاظت ہے، اس کو رد کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی سیاست کو سلام کرتے ہیں۔ خلافت راشدہ کی اسلامی سیاست ہے۔ مدینہ کی ریاست کا قیام بھی مصطفوی سیاست ہے۔ سیاست دین کا حصہ ہے مگر جس سیاست کے ذریعے ریاست پاکستان بنی اور بچے گی وہ یہ سیاست نہیں جو آپ دیکھتے ہیں، جس کا نقشہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اس سیاست اور اس نام نہاد جمہوریت میں ستھرا پن نہیں، کرپٹ کلچر ہے۔

غیر جمہوری رویوں کے حامل "لیڈر"

لیڈروں کے رویے غیر جمہوری ہیں۔ یہاں تو اسمبلیوں کے آخری دن بھی ممبران اسمبلی کرپشن کے بہتے ہوئے دریا میں نہاتے رہے اور ہر MPA نے آخری دن یکم جولائی 2011ء سے یعنی پونے دو سال پیچھے کی تاریخ سے اپنی تنخواہیں ساٹھ فیصد بڑھا لیں۔ اب وہ کروڑوں روپے بقایا جات لے گا، یہ جمہوریت ہے۔۔۔ ایک اسمبلی کے وزیر اعلیٰ نے ستر فیصد تنخواہ اور الاؤنس بڑھا کر مرتے دم تک تاحیات منظور کروا لیا۔ اب اس اسمبلی کا ہر وزیر اعلیٰ مرتے دم تک، ریٹائر ہو کر بھی ستر فیصد مراعات لے گا۔ سات بل منظور کیے۔ سات بلوں میں ایک بل بھی عوام کے لیے منظور نہیں کیا کہ عوام کو روٹی دی جائے، عوام کو ستھرا پانی دیا جائے، عوام کو روزگار دیا جائے، عوام کو بجلی اور گیس دی جائے، عوام کو انصاف دیا جائے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی اسمبلی ان پانچوں کو توفیق نہیں ہوئی کہ عوام کے حق میں ایک بل منظور کرتے۔ اب سابق وزیر اعلیٰ مرتے دم تک پرائیوٹ سیکرٹری بھی رکھ سکتے ہیں۔ بغیر وزیر اعلیٰ بنے کلرک، ڈرائیور، سکیورٹی، مالی، دس ہزار روپے موبائل فون کے لیے بل، ساری سہولتیں جنازہ اٹھنے تک ان کی بارگاہ میں رہیں گی۔ یہ جمہوریت ہے۔

اب اسی جمہوریت کا نقشہ ایک اور صوبائی اسمبلی ہے، اگر میری بات غلط ہو تو صدر پاکستان خود اس کی تردید کر دیں۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ہر ایک MPA کو اس پورے عرصے میں سو کروڑ روپے سے لے کر ڈیڑھ سو کروڑ روپے تک development fund کے نام پر رشوت دی گئی ہے۔ یعنی ایک ارب سے لے کر ڈیڑھ ارب روپیہ۔ اب لاکھوں کی بات نہیں رہی، millions کی بات نہیں رہی، چند کروڑوں کی بات نہیں، ڈیڑھ ڈیڑھ سو کروڑ روپے تک ہر ایک MPA کو پانچ سالوں میں development fund کے نام پر رشوت دی گئی۔ میں چیلنج کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ مجھے بلوچستان اسمبلی کے ایک MPA نے خود بتایا ہے، جنہوں نے یہ پیسے لئے ہیں۔ یہ جمہوریت ہے، عوام کہاں گئے؟ میں پوچھتا ہوں: اس جمہوریت میں عوام کا حصہ کہاں ہے؟ وہ ڈیڑھ ڈیڑھ ارب جو ایک ایک MPA کی نذر کیا جا رہا ہے اگر وہ عوام کے اندھیرے گھروں کو روشنی دینے پر خرچ ہوتا۔۔۔ بھوکوں کو لقمہ کھلانے پر خرچ ہوتا۔۔۔ پریشان حالوں کی بیٹیوں کی شادی پہ خرچ ہوتا۔۔۔ انہیں چھوٹے گھر بنا دینے پر خرچ ہوتا۔۔۔ ان کے روزگار پر خرچ ہوتا۔۔۔ تو ہم کہتے کہ یہ نظام جمہوریت ہے۔ یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے اور غریب عوام کے لیے مجبوریت ہے۔

اب پنجاب کی اسمبلی کی طرف آجائیں یہاں لوگ skilful ہیں، کرپشن کرنے کی technical مہارت ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں، پورے پانچ سال کے اندر پنجاب اسمبلی کی جو کابینہ ہے ایک وزیر کو چھوڑ کر باقی کسی ایک وزیر کا بھی کسی کو نام معلوم نہیں ہے کہ فلاں وزیر فلاں محکمے کا ہے؟ پانچ سال گزرے ہیں، صرف ایک صاحب ہیں جن کا نام دنیا جانتی ہے، اس لئے کہ تمام اختیارات تمام وزارتیں اسی ایک صاحب کے پاس تھیں۔ اس سے زیادہ بدترین آمریت تاریخ میں کبھی ہو سکتی ہے؟ اٹھارہ وزارتیں اور اٹھارہ محکمے صرف وزیر اعلیٰ کے پاس ہیں اور جس ملک میں ایک سپاہی اور پٹواری بھی محکمہ خود بھرتی نہ کر سکے اس ملک میں کیا قانون، کیا آئین، کیا جمہوریت، کیا انصاف؟ وہاں جنگلا بس کے پراجیکٹ ہیں، لیپ ٹاپ پروجیکٹ ہیں، سولر پینل کے پروجیکٹ ہیں۔ ارے جنگلا بس جو دو تین سال میں بالکل بند ہو کر کھڑی ہو جائے گی، ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اس سے غریبوں کو روٹی ملی؟ وہ ارب ہا روپے غریبوں کی روٹی پہ لگائے ہوتے، یہ اربوں روپے بچا کر غریبوں کے لیے ادائیگی کرکے energy crisis ختم کیا ہوتا۔ لوگوں کو بجلی، گیس دی ہوتی، جوانوں کو روزگار دیا ہوتا، مہنگائی کنڑول کی ہوتی تو ہم کہتے کہ یہ نظام جمہوری نظام ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور لیڈروں کو عوام کے حقوق کا کوئی concept نہیں ہے۔

اسی طرح وفاقی حکومت نے بھی اپنی حکومت کے آخری دن ہفتے کی چھٹی ہونے کے باوجود تاریخ میں پہلی بار حکم دیا کہ بینک کھلے رہیں گے، ہم نے بڑے بڑے کام آخری دن کرنے ہیں۔ بینکوں پر ڈاکے ڈالے جانے ہیں، لوٹ مار ہونی ہے۔ افسوس آخری دن اسمبلیاں ختم ہونے سے بھی پہلے بینکوں پہ ڈاکہ زنی کو روکا نہیں گیا۔ لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ سیاسی لیڈروں نے تو لوٹ مار کرنی تھی، دکھ کی بات یہ ہے اس الیکشن کمیشن نے جس نے قوم کو شفاف الیکشن دینا ہے اس نے آخری دن کی ساری لوٹ مار کے لیے لیٹر جاری کر دیا کہ جائز ہیں۔ یہ ترقیاتی فنڈز ہیں جتنے چاہو اور نکالو، الیکشن کمیشن نے اجازت دی۔ الیکشن کمیشن کا فرض تھا کہ بینک بند کر دیتے، بینکوں کو حکم دیتے کہ پیسہ جاری نہ کیا جائے۔ حکومتیں جا رہی ہیں، کابینہ جا رہی ہے، اسمبلیاں جا رہی ہیں، بجائے خزانہ بچانے کے انہیں لیٹر دے دیا، جائز کر دیا۔ جو لوگ قوم کا خزانہ آخری ایک دن بھی بچا نہ سکے وہ ملک کے انتخاب کو لوٹ مار سے کیسے بچائیں گے۔ یہ اس میں شریک ہیں، یہ فریق ہیں۔

وزیر اعظم صاحب 8 ماہ میں 37 ارب روپے صرف اپنے حلقے میں خرچ کر چکے ہیں۔۔۔ اور اسی ماہ مارچ میں گریڈ 22 کے اسلام آباد کے 100 افسروں کو ایک ایک کنال کا پلاٹ عطا کیا گیا۔ یہ نظام ہے، اسے آـپ جمہوریت کا نام دیتے ہیں؟ یہ رویے غیر جمہوری ہیں، رویوں میں کرپشن ہے، رویوں میں بددیانتی ہے، رویوں میں شفافیت نہیں ہے، اداروں میں دھاندلی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیز اپنے سیاسی مفادات کو دیکھتی ہیں۔

لوٹ مار کا بازار گرم رہے گا۔ الیکشن کمیشن اندھا بھی ہے، بہرا بھی ہے، گونگا بھی ہے اور ساری کرپشن میں برابر کا شریک بھی ہے۔ نگران وزیراعظم کے انتخاب پر اتنی تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ اس لئے کہ کوئی جماعت شفاف الیکشن نہیں چاہتی، ہر جماعت الیکشن میں جیتنا چاہتی ہے، دھاندلی چاہتی ہے، وہ چاہتی ہے ایسے caretakers آئیں جن کے ذریعے ان کی دھاندلی کو تحفظ مل سکے۔ Transparency نہ ہو، impartiality نہ ہو، honesty نہ ہو۔ اس کے لیے یہ سارا مک مکا ہو رہا ہے۔

نگران حکومت کا قیام۔۔ ایک ڈرامہ

ایک اہم بات سے پوری قوم کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ نگران گورنمنٹ کا ڈھونگ، ڈرامہ صرف پاکستان میں ہے۔ دنیا کی کسی بڑی democracy میں caretakers نہیں ہوتے، وہاں نظام ہوتے ہیں، شفافیت ہوتی ہے، institutions ہوتے ہیں۔ مدت ختم ہونے پر وہ صدر یا وزیراعظم خود الیکشن کرواتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، ملائشیا، ترکی، جرمنی، انڈیا، ایران کسی بھی جگہ نگران حکومت قائم نہیں ہوتی۔ Caretaker کبھی نہیں آتے، انہوں نے نظام کے اندر اتنی مضبوطی، استحکام، شفافیت، اتنی آئینیت پیدا کر لی ہے کہ وہ کوئی بھی جماعت ہو پاور میں ہو وہ الیکشن میں دھاندلی نہیں کرواتی، ان کا اعتماد ہوتا ہے۔

امریکہ سے جا کے اقتدار کی بھیک مانگنے والو، ان کے طور طریقے بھی سیکھو۔ ہر فیصلے کے لیے لندن جانے والو! ان کے شفاف نظام کے طور طریقے بھی سیکھو۔ یہ حکومتیں خود الیکشن کراتی ہیں مگر الیکشن کمیشن اتنا مضبوط، خودمختار اور powerful ہے کہ حکومت کی مجال نہیں ہوتی کہ مداخلت کر سکے۔ جمہوریت اس نظام کا نام ہے۔ ایسے نظام پاکستان میں لاؤ جس سے دھاندلی کا خاتمہ ہو جائے، شفافیت آجائے، امانت و دیانت آجائے، اداروں پر اعتماد ہو اور سیاسی لیڈر دھاندلی کا نہ سوچیں پھر ہم کہیں گے کہ اس ملک میں جمہوریت ہے اور یہ صحیح سیاست ہے۔ دنیا میں نگران حکومتوں کے قیام کے حوالے سے چار ملکوں کا نام بھی آتا ہے۔ ان ممالک کے نام سن کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان کرپٹ، نااہل اور نالائق سیاسی لیڈروں نے پاکستان کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔ ان ممالک میں کوسووا ، پولینڈ، روانڈا اور نیپال شامل ہیں۔

اس لیے کہ ہم نے اپنے اداروں کو مضبوط نہیں کیا، عدل و انصاف کو طاقتور نہیں بنایا، transparency and accountability کو شفافیت نہیں دی۔ قانون کو مضبوط نہیں کیا۔ ہر طرف بدنیتی ہے، کرپشن ہے، دھاندلی ہے۔ ہر جماعت by hook or crook الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ افسوس اس پر ادارے خاموش ہیں اور اس کو سیاسی عمل کا نام دیا جا رہا ہے۔ جو اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ خاص ایک ایجنڈے کے ساتھ آیا ہے۔ جو ظلم اور اندھیر نگری کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے آیا ہے۔ ظالمو! مجھے دکھاؤ تو سہی کہ جمہوریت ہے کہاں، کون سی جمہوریت؟ دنیا تمہارا مذاق اڑا رہی ہے۔

مہنگائی اور دہشت گردی کا گراف

2008ء سے 2013تک ان جمہوری حکومتوں نے پانچ سال میں کیا دیا؟ 2008ء میں پٹرول 56 روپے تھا آج 106 روپے فی لیٹر ہے۔۔۔ ڈیزل 39 روپے لیٹر تھا آج 110 ہے۔۔۔ سی این جی 30 روپے تھی آج 75 روپے ہے۔۔۔ امریکی ڈالر پاکستانی روپے کی قدر میں 68 روپے کا تھا آج 100 روپے کا ہے۔۔۔ آٹا 12 روپے کا تھا آج 38 سے 42 روپے کا ہے۔۔۔ چینی 27 روپے کی تھی آج 55 روپے ہے۔۔۔ دودھ 23 روپے کا تھا آج 70 روپے ہے۔۔۔ کوکنگ آئل 70 روپے کا تھا آج 190 روپے فی کلو ہے۔۔۔ یوریا کھاد 700 روپے تھی آج 1810 ہے۔۔۔ چائے 65 روپے تھی آج 145 روپے ہے۔۔۔ مرغی 71 روپے تھی کلو آج 145 روپے ہے۔۔۔ بڑا گوشت 120 روپے تھا آج 280 ہے۔۔۔ چھوٹا گوشت 330 تھا آج 580 ہے۔۔۔ دالیں 70 روپے کی تھیں آج 110 ہیں، کچھ دالیں 50 روپے کی تھیں آج 105 ہیں۔۔۔ بجلی کا یونٹ 3.13 پیسے تھا آج 9 روپے 38 پیسے ہے۔۔۔

سب سے بڑا یہ تحفہ اس قوم کو جمہوریت نے دیا کہ 5 سالوں میں اوسطاً روزانہ 12 ہلاکتیں ہوئیں۔ پانچ سالوں میں دہشت گردی کے نتیجے میں چالیس ہزار شہید ہوگئے۔ کراچی میں ہر روز درجنوں لوگ ٹارگٹ کلنگ سے شہید ہوتے رہے ہیں، بلوچستان بدامنی اور بغاوت کا شکار ہے وہاں ایک مکتبہ فکر سو سو لاشیں لے کر چار دن بیٹھتا ہے کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ خیبر پختونخواہ میں خون کی ہولی ہے، ہر شخص خوفزدہ ہے۔ اور 200 کے قریب گھر ہماری مسیحی بھائیوں اور بہنوں کے گھر جلا دئیے گئے، کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ظالمو! قائد اعظم نے پاکستان ان مقاصد کے لیے بنایا تھا؟ ان کی روح تڑپتی ہو گی۔

کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے

قائداعظم نے جو نشیمن بنا کے دیا تھا ہم اس نشیمن کو آگ لگا رہے ہیں اور سب ادارے تماشا دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ ہو گا ہم سب اس ظلم اور جرم کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہ تو آج کا نقشہ تھا، مگر عزیزو، ماؤں، بہنو، بیٹیو، بزرگو، بھائیو، بیٹو مایوس نہیں ہونا، مایوس نہیں جانا، میں تمہیں امید کا چراغ تھما کر گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔ تمہارے دلوں میں یقین کا چراغ جلا کر بھیجنا چاہتا ہوں، مایوس نہیں ہونا، پاکستان میں بڑا potential ہے، پاکستان بنا تھا اللہ کی مدد سے اور ان شاء اللہ قائم رہے گا، لٹیروں کا خاتمہ ہوگا، ایک دن آئے گا آپ جیتیں گے۔

آئین میں درج عوام کے حقوق

ہمارے آئین میں قوم کے ساتھ کچھ وعدے کئے گئے، میں وہ وعدے پڑھ کے سنانا چاہتا ہوں جس کی وفا نہ کی گئی۔

  • آئین کے Preamble (پیش لفظ) میں ہے کہ پاکستان اسلامی اصولوں پر مبنی سماجی عدل و انصاف کا معاشرہ فراہم کرے گا، یہ وعدہ پورا ہوا۔۔۔؟
  • اس آئین کے آرٹیکل 3 میں ایک وعدہ دیا تھا کہ لوگوں سے ہر قسم کا استحصال اور نا انصافی اس ملک میں سے ختم کر دی جائے گی اور جس میں جتنی صلاحیت ہے اس کو اتنا ملے گا۔ کیا انجینئر کو صلاحیت کے مطابق ملتا ہے؟ کیا ڈاکٹر کو اس کا روزگار ملتا ہے؟ کیا پی ایچ ڈی کو روزگار ملتا ہے؟ پی ایچ ڈی دھکے کھاتے ہیں اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے ملک کے وزیر بنتے ہیں۔
  • ہمارے بزرگوں نے اس آئین کے آرٹیکل 9 کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ اس ملک کے ہر شخص کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
  • اس آئین کے آرٹیکل 25 کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ تمام امیر اور غریب چھوٹے بڑے شہریوں کو برابری دی جائے گی اور قانون کا تحفظ ہر ایک کے لیے یکساں ہو گا ،غریب اور امیر، طاقتور اور کمزور کا فرق اس ملک میں نہیں ہو گا۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
  • آرٹیکل 25 کے کلاز A میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس دھرتی پر پیدا ہونے والے ہر بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا، کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
  • اس آئین کے آرٹیکل 38 میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے ہر ایک شخص اور ہر ایک کنبے کی معاشی اور سماجی زندگی کو بہترین کیا جائے گا اور پیسے کی تقسیم منصفانہ ہو گی تاکہ امیر امیر تر نہ بنے، غریب غریب تر نہ بنے۔ مزدور اور مالک میں بھی فرق مٹایا جائے گا اور زمیندار اور کسان کا فرق بھی مٹایا جائے گا۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
  • اسی آرٹیکل 38 کی کلاز D میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر شخص کو عزت کے ساتھ کھانا ملے گا، لباس ملے گا، گھر ملے گا، کپڑا، مکان ملے گا، تعلیم ملے گی، علاج ملے گا، انصاف ملے گا، روزگار ملے گا۔ بلا تمیز ہر شخص کو یہ حقوق ملیں گے، کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
  • آئین پاکستان میں کُل 280 آرٹیکلز ہیں ان میں سے پہلے 40 آرٹیکلز وہ ہیں جو عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر مشتمل ہیں۔ پہلے 40 آرٹیکلز میں پاکستانی عوام کے حقوق اور وعدے ہیں، اس کے بعد 240 آرٹیکل پھر حکومت سے متعلق ہیں۔ 65 سال گزرے اس ملک کی پانچوں اسمبلیوں نے آج کے دن تک ان 40 کے 40 آرٹیکلز میںموجود وعدوں میں سے ایک وعدہ پورا نہیں کیا اور ایک وعدے کو بھی پورا کرنے کے لیے آئین کا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ کیا ان حکومتوں کو اور اس سیاسی عمل کو اور اس نام نہاد جھوٹی جمہوریت کو آئینی جمہوریت کہا جائے؟ کیا یہ حکومتیں آئینی حکومتیں ہیں؟ اگر ان کے خلاف آپ علم بغاوت بلند کرتے ہیں تو یہ آپ کے خلاف کیوں نہیں اٹھیں گے ؟

غریب کو جو وعدہ ملا وہ تو یہ تھا کہ غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں ہو گا مگر یہ وعدہ آئین کے کاغذوں پر لکھا ہوا ہے۔ آئینی وعدہ جب غریب کے ہاتھ میں آیا تو غریب شہری پاکستان کے خزانے کے پاس گیا۔۔۔ پاکستان کی پارلیمنٹ کے پاس گیا۔۔۔ پاکستان کی عدالتوں کے پاس گیا۔۔۔ پاکستان کے حکمرانوں کے پاس گیا۔۔۔ لیڈروں کے پاس گیا کہ آئین میں درج وعدے کے مطابق میرا حق مجھے دو۔۔۔ تو سارے اداروں نے کہا کہ funds are insufficient کہ خزانے میں فنڈ نہیں ہیں۔

غریب کو کچھ نہیں مل سکتا، MPA کو ڈیڑھ ارب ہر ایک کو مل سکتا ہے، وزیروں کو پانچ پانچ اور 35، 35 ارب مل سکتے ہیں۔ غریب کے لیے کہا کہ خزانہ خالی ہے۔ ہم انکار کرتے ہیں کہ پاکستان دیوالیہ ہو گیا ہے خزانہ ختم ہوگیا ہے۔ پاکستان میں قومی وسائل ختم نہیں ہوئے، مگر ان وسائل پر ظالم قابض ہو گئے ہیں، ہمیں بڑھ کر انہیں چھیننا ہو گا۔ ہمارے حقوق لٹیرے چھین کے لے گئے، تمہیں بڑھ کے ان سے لینا ہو گا۔

لوگو! امید دلا رہا ہوں، یہ وقت ہے اٹھنے کا، اندھیری وادیوں سے اٹھو۔۔۔ ظلم اور ناانصافی کی وادیوں سے اٹھو۔۔۔ برابری، عدل و انصاف اور حقوق کی پہاڑیوں کی چٹانوں تک پہنچو۔ اللہ تمہیں سربلند کر دے گا۔۔۔ نفرتوں اور انتہاء پسندی کے ریتلے صحراؤں سے نکلو۔۔۔ محبت، رواداری، برداشت اور اعتدال کی عظمتوں تک پہنچو۔۔۔ جو سسٹم خدا نے دیا ہے اس کی بنیاد محبت ہے۔۔۔ اس کی بنیاد امید ہے۔۔۔ اس کی بنیاد برابری ہے۔۔۔ اس کی بنیاد عدل و انصاف ہے۔۔۔ اس کی بنیاد اعتدال ہے۔۔۔ اس کی بنیاد نفرت نہیں۔۔۔ لوٹ گھسوٹ نہیں۔۔۔ کرپشن نہیں۔۔۔ انتہاء پسندی نہیں۔۔۔ دہشت گردی نہیں۔۔۔ یہ دو الگ کلچر ہیں ایک کلچر خدا نے دیا ہے۔ ایک کلچر شیطان نے دیا ہے خدا والے بنو اور شیطان والوں سے جنگ کا آغاز کر دو۔ یہ 17 مارچ 2013ء ہماری جدوجہد کا آخری دن نہیں۔ 23 دسمبر سے آج 17 مارچ تک جدوجہد کا شعور بیدار کیا، اصل جدوجہد کا آج سے آغاز ہو رہا ہے۔

2۔ امید (hope)

اس نظام کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھنا ہے۔ اٹھو اور ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کر دو۔۔۔ اٹھو پوری قوم کو کھڑا کرو اس وقت تک جب تک عدل و انصاف کا سورج طلوع نہ ہو جائے۔۔۔ آگے ایک وقت بڑی جلدی آنے والا ہے، پورا میڈیا آپ کو اس میں لگا دے گا۔ ٹی وی، اخبارات اس میں الجھا دیں گے۔ پوری قوم ایک مکر اور فریب میں مبتلا ہو جائے گی۔ یاد رکھ لینا! کرپشن، ظلم اور دھاندلی کے گلاس سے گدلا اور گندا پانی پی کر اپنی پیاس کبھی نہ بجھانا۔۔۔ میری نصیحت یاد رکھ لو! انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے دسترخوان سے حرام کھا کر اپنی بھوک کبھی نہ مٹانا، بھوکے مر جانا مگر دہشت گردی کے دسترخوان سے حرام نہ کھانا۔

مکار سیاسی لیڈروں کے غلط وعدوں اور دھوکوں کی چمک خرید کر، جھوٹے وعدوں کی چمک لے کر اندھیروں میں نہ بھٹکنا۔۔۔ ریاست دشمن سیاست اور غریب دشمن نظام انتخاب کا حصہ بن کر جرم و گناہ کو مزید طاقتور نہ بنانا۔۔۔ اس غریب دشمن نظام - جو مئی میں آرہا ہے - کا حصہ بن کر اس جرم، دھاندلی، کرپشن کے نظام کو طاقتور نہ بنانا۔ یاد رکھ لیں اگر مقصد فوری طور پر نہ ملے تو کوئی حرج نہیں مگر گدھوں کی طرح حرام پر نہ جھپٹنا۔

اے طائر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

گدھ نہ بننا اور گدھوں کی طرح نیچے اتر کر مردار کھا کر اپنے پیٹ نہ بھرنا بلکہ شہباز بنے رہنا اور شہبازوں کی طرح اپنی پرواز بلند رکھنا۔ منزل ایک دن تمہارے قدم چومے گی۔

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

لوگو ! جو لوگ اس فرسودہ نظام کا حصہ بنیں گے وہ مایوسی کی وجہ سے بنیں گے کہ شاید اور کوئی راستہ نہیں۔ نہیں، ایک راہ بند سو راہ کھل جائیں گے۔ یاد رکھ لیں جس نظام سیاست نے، جس نظام انتخاب نے آپ کو 65 سال سے محروم رکھا ہے اور آپ کے ملک کو کمزور اور تباہ حال کر دیا ہے اور کرپشن کا راج کر دیا ہے اگر اسی نظام کو آپ دوبارہ ووٹ دے کر، انہی لٹیروں کو پھر طاقت دیں، پھر حکومت میں لائیں تو آپ مجرم ہوں گے۔ جو لوگ کرپٹ اور ظالم نظام میں ووٹ دیں گے وہ دراصل اس نظام کو قوت دیں گے، اس نظام کو سہارا دیں گے۔ اس دھن دھونس اور دھاندلی، کرپشن کے نظام کو ملک میں تبدیلی کے لیے جرات کرکے ٹھکرانا ہوگا، حصہ نہیں بننا، ٹھکرانا ہوگا، ٹھکراؤ گے تو ان شاء اللہ رب کی مدد ملے گی۔

یہ جدوجہد کب تک جاری رہے گی؟

میں دنوں، مہینوں، ہفتوں اور سالوں کی بات نہیں کر سکتا۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک غریبوں کے گھروں کو اجالا نہیں مل جاتا۔۔۔ جب تک بھوکوں کو باعزت طریقے سے نوالہ نہیں مل جاتا۔۔۔ جب تک کسان اپنی اگائی ہوئی زمین کا خود مالک نہیں بن جاتا۔۔۔ جب تک مزدور اپنی تخلیق کا پھل خود نہیں کھاتا اور مل کے منافع کے پچاس فیصد کا حصہ دار خود نہیں بن جاتا۔۔۔ جب تک عدل و انصاف پانی کی طرح ہماری سوسائٹی کو سیراب نہ کر دے۔۔۔ جب تک محبت اس ملک سے نفرت کا خاتمہ نہ کر دے۔۔۔ جب تک moderation اور اعتدال پسندی انتہاء پسندی سے کا خاتمہ نہ ہوجائے۔۔۔ جب تک امن اور آشتی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ نہ کر دے۔۔۔ جب تک علم و شعور ملک سے جہالت اور ناخواندگی کا خاتمہ نہ کردے۔۔۔ جب تک معاشی خوشحالی غریبوں کے چہروں پر خوشیاں واپس نہ لے آئے۔۔۔

مزدورو، محنت کشو، کسانوں، چھوٹے تاجرو، ماؤں، بہنو، بیٹیو، عظیم فرزندو! آج اس جلسے کے بعد مایوسی ختم کرکے اس یقین کے ساتھ گھر واپس لوٹو کہ نظام بالآخر ضرور بدلے گا۔ انقلابی تبدیلی بالآخر ضرور آئے گی، عوام خوشحال ہوں گے، ملک کا مستقبل روشن ہو گا مگر اس کرپٹ انتخابی نظام کے ذریعے نہیں، اس کرپٹ سیاسی کلچر کے ذریعے نہیں، ان کی دیواروں کو گرانا ہے اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور کشمیر و گلگت میں عدل وانصاف اور خوشحالی و ترقی کا سورج طلوع ہو گا مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈٹے رہو، تمہارے قدم لڑکھڑائیں نہیں۔۔۔ آنے والے وقتوں میں بدی کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرنا، اس نظام کے خلاف بغاوت پر ڈٹے رہنا ہے۔

3۔ Vision of Pakistan

میں یہ دیکھتا ہوں کہ پاکستان میں جب تک یہ تبدیلیاں نہیں آئیں گی اس کے نظام میں، کبھی عوام کی تقدیر نہیں بدلے گی۔ پاکستان کے لیے ہمارا role model مدینہ ہے۔ جب آقاA نے ہجرت فرمائی اور مدینہ کو سٹیٹ بنایا تو devolution of power دی اور participatory democracy دی۔ شراکتی جمہوریت دی اور اختیار کو نچلے درجے تک منتقل کیا۔ دس دس آدمیوں کے یونٹس پر ان کا سربراہ نقیب بنایا، دس دس نقیبوں کے اوپر پھر ان کا سربراہ عریف بنایا اور سو سو عرفاء پہ مشتمل پھر پارلیمنٹ بنائی اور تمام اختیارات آقاA نے نیچے منتقل کر دیے۔

اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم

میں اہم تبدیلیاں suggest کر رہا ہوں۔ ان کے بغیر پاکستان کا مستقبل روشن نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اس نظام کو چھوڑنا ہو گا، ترکی کو دیکھئے، ترکی کی ساڑھے سات کروڑ آبادی ہے 81 صوبے ہیں۔۔۔ ایران کے ساڑھے چھ کروڑ کے قریب آبادی 30 صوبے ہیں۔۔۔ جاپان کی ساڑھے بارہ کروڑ سے زائد آبادی میں 47 صوبے ہیں۔۔۔ چائنہ کی ایک سو پینتیس کروڑ آبادی 33 صوبے ہیں۔۔۔ ملائشیا کی 3 کروڑ کے قریب آبادی 15 صوبے ہیں۔۔۔ امریکہ کی 30 کروڑ 13 لاکھ آبادی 50 اسٹیٹس ہیں۔۔۔ ویت نام کی 9 کروڑ آبادی اور 58 سٹیٹ ہیں۔۔۔ الجیریا کی ساڑھے تین کروڑ آبادی اور 48 صوبے ہیں۔۔۔ کینیا کی 4 کروڑ کے نزدیک آبادی ہے 26 صوبے ہیں۔۔۔ فرانس کی ساڑھے 6 کروڑ آبادی 26 صوبے ہیں۔۔۔ اٹلی کی ساڑھے 6 کروڑ کے قریب آبادی 20 صوبے۔۔۔ روس کی 14 کروڑ آبادی 83 صوبے۔۔۔ اور ہماری 18 کروڑ آبادی صرف 4 صوبے۔۔۔ اختیارات کو جمع کرنے کا اتنا بڑا شرم ناک تماشا دنیا میں ہمارے سوا کہیں نہیں۔

امریکہ جیسا ملک صرف 15 وزیر، ساڑھے انیس ہزار لوکل گورنمنٹس پورا امریکہ 1900 مئیر، ناظم چلا رہے ہیں؛ اوبامہ نہیں چلا رہا۔ اوباما امریکہ کے اوپر کے معاملات کو دیکھتا ہے، عوام کے حقوق کو مئیر چلاتے ہیں۔۔۔ یہی نظام ترکی، جاپان، چائنہ، ایران، ملائشیا اور بقیہ ملکوں کا ہے۔ ہمارے چار صوبے تا کہ گردنیں اکڑی رہیں، اختیارات بڑھیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جس نے تماشا بنا رکھا ہے اور اختیارات مرکز کے پاس یا بڑے بڑے چار صوبوں کے پاس، عوام کلیتاً محروم۔

  • میرے پاکستان کے ویژن کے مطابق کم سے کم 35 صوبے ہونے چاہئے۔
  • فنڈ اس صوبے کے گورنر کو دے دیا جائے، دنیا کے کسی ملک میں انڈیا کے سوا، وزیر اعلیٰ نہیں ہوتا۔ کسی صوبے میں صوبائی وزراء نہیں ہوتے۔ پاکستان کے صوبوں سے وزیر اعلیٰ اور صوبائی وزارتوں کو ختم کرنا ہوگا تا کہ ارب ہا روپے کے فنڈ جو حرام خوری، عیاشی اور سرکاری پروٹوکول پہ جاتے ہیں وہ براہ راست غریبوں میں تقسیم ہو سکیں۔
  • صوبے کا گورنر کمشنر کی جگہ انتظامات کو چلائے گا۔ ضلع پر مئیر ہو گا اور تحصیل پر ڈپٹی میئر ہوگا۔ عوام کے منتخب نمائندے ان کے حکمران ہوں گے۔
  • مرکز کے پاس صرف پانچ محکمے ہونے چاہیے تا کہ مرکز کی عیاشی بھی ختم کی جائے: صرف سٹیٹ بینک (کرنسی)، دفاع، خارجہ پالیسی، ہائیر ایجوکیشن، اِن لینڈ سکیورٹی اور کاؤنٹر ٹیررزم اس طرح کے پانچ سے سات محکمے مرکز کے پاس، باقی سارے محکمے صوبوں کو منتقل کر دئیے جائیں۔
  • صوبوں کے بعد پھر وہ سارے محکمے ضلعی حکومتوں کو منتقل کر دئیے جائیں۔
  • ٹرانسپورٹ بھی ضلعی حکومت کے پاس، پانی، بجلی، سوئی گیس، واٹر، فوڈ، ایجوکیشن، میڈیکل، سکیورٹی، سڑکیں، پولیس سب اختیارات ضلعی حکومتوں کو دے دئیے جائیں تا کہ وہاں کے ٹیکس وہاں لگیں اور لوگوں کو براہ راست داد رسی مل سکے۔

نظام حکومت کا پاکستانی ماڈل

  • ہمارے ملک کا نظام پارلیمانی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ اس پارلیمانی نظام کو بدلو اور صدارتی بناؤ، پارلیمانی نظام رہے مگر اس میں ایک مکسچر کرنا ہوگا، صدارتی اور پارلیمانی نظام دونوں کی خوبیوں کو جمع کر کے پارلیمانی نظام کا نیا پاکستانی ماڈل تیار کرنا ہو گا۔ صدارتی اور پارلیمانی نظام دونوں کی خوبیوں کو جمع کر کے پاکستان کے سیاسی حالات کے مطابق ایک پاکستانی ماڈل تیار کرنا ہو گا۔
  • صدر تو آئین کے مطابق جیسے ہے ویسے ہی ہو مگر وزیر اعظم کو پارلیمنٹ منتخب نہ کرے بلکہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام براہ راست ووٹ سے ملک کا وزیر اعظم منتخب کریں۔ سارے لیڈروں کو ٹی وی پہ لایا جائے، ان کی صلاحیتوں کو پرکھا جائے، ان کے کردار کو پرکھا جائے، ان کے منشور پر بحث ہو۔ ان سے خارجہ پالیسی، دفاع، سکیورٹی، اکانومی، regional and geo-political policy، پاکستان، انڈیا، چائنہ relations پر debate کریں، ان کا ویژن دیکھیں۔ ساری قوم سنے اور سن کر فیصلہ کرے کہ اپنا وزیر اعظم کس کو منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ ہر شخص براہ راست ووٹ دے۔
  • اب ہمارا وزیر اعظم قائد ایوان ہوتا ہے، میرے دئیے ہوئے نظام کے تحت وہ قائد عوام ہو گا، میں وزیر اعظم کو leader of the nation بنانا چاہتا ہوں۔ ہر شخص کے ووٹ سے جیتے تاکہ ہر شخص کا اپنے وزیر اعظم کے ساتھ براہ راست تعلق ہوگا۔
  • ہمارے ہاں وہ شخص وزیر صحت بنتا ہے جس کی اپنی صحت ہی کوئی نہیں، جس کو panadol کی گولی کے شاید spelling بھی نہ آئیں۔۔۔ وہ شخص وزیر زراعت بنتا ہے جس نے کبھی دیہات کا منہ ہی نہیں دیکھا۔۔۔ وہ وزیر دفاع بنتا ہے جو ہوش میں بھی نہ جانے کب آتا ہے؟ جسے دفاع کی الف بے جیم کا نہیں معلوم۔۔۔ وہ وزیر خارجہ بنتا ہے جو اس کے متعلق جانتا ہی نہیں۔۔۔ ہم ان پڑھ کو، ناتجربہ کار کو، نااہل کو اٹھا کے وزارت پہ بیٹھا دیتے ہیں اور وہ ٹھوکریں کھا کھا کر وزارت کے دوران سیکھتا ہے اور سیکھنے سے پہلے پھر تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ کیا تماشا بنا رکھا ہے۔ میں اداروں سے پوچھتا ہوں کہ خاموش رہ کر اس تماشے کو کب تک برداشت کرو گے۔ میرا سوال ہر ادارے سے ہے، میرا حق ہے پوچھنا، عوام سے بھی پوچھتا ہوں، اداروں سے بھی پوچھتا ہوں، کیا اس طریقے سے آپ کا ملک ترقی کرے گا؟ آپ کے وزراء اپنے subject کے PhD ہونے چاہے۔۔۔ تجربہ کار لوگ ہونے چاہییں، ٹیکنوکریٹس ہونے چاہییں۔۔۔ specialists ہونے چاہییں۔۔۔ بھلے وہ پارلیمنٹ سے ہوں یا باہر سے ہوں۔ یہ طریقہ امریکہ میں رائج الوقت ہے۔
  • پارلیمنٹ کے ممبران کے ڈویلپمنٹ فنڈ بند کر دئیے جائیں، یہ فنڈ حرام خوری کے لیے نہیں ہیں۔ ان پارلیمنٹ کے ممبران کو ڈی سی، ایس پی، تھانیدار، پٹواری، تحصیلدار ان کی تقرریوں کے اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔ سوائے تنخواہوں کے ساری مراعات ان کی بند کر دی جائیں۔ پھر دیکھیں گے کہ 75 فیصد کرپٹ لوگ الیکشن لڑنا چھوڑ دیں گے۔ وہ کہیں گے جب حرام کا پیسہ نہیں ملنا تو خرچ کیوں کریں۔ تو جب وزیر خود نالائق ہوتے ہیں تو حکومت بیوروکریسی چلاتی ہے، پھر یہ نالائق لیڈر عمر بھر اسٹیبلشمنٹ کا رونا روتے ہیں کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ کرنے کچھ نہیں دیتی۔ تمہیں کیا کرنے دے، تمہیں کچھ آتا ہو تو کرنے دیں۔ تم تو ان پڑھ ہو، جاہل ہو ، جعلی ڈگریوں کے لوگ ہو، کرپٹ ہو، تمہیں تو تجربہ نہیں ہے، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ تمہیں کیا کرنے دے؟ اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو لائق لوگوں کو چن کر ملک کا وزیر بناؤ۔ دانش مند لوگوں کو لگاؤ اور ایم این اے کی موجودہ پوزیشنوں کو ختم کرو، انہیں صرف legislator بناؤ، قانون سازی کریں، تنخواہ لیں اپنے گھر جائیں۔

معاشی خوشحالی کی کلید

  • میں اپنے Vision کے پاکستان میں غریب عوام کو ان کے حقوق دینا چاہتا ہوں۔۔۔ جاگیرداریت کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور زرعی اراضی کی حد فی خاندان 50 ایکڑ مقرر کر دی جائے، اس سے زیادہ کسی کو اجازت نہ ہو۔۔۔ بے زمین کسان، مزارعین اور ہاری جتنی زمین بنجر ہے اس کو آباد کریں اور اس کے مالک ہو جائیں۔ جو زمین آباد کرے وہی مالک ہو۔
  • میرے پاکستان کے ویژن میں ہر نوجوان کو روزگار ملے ،جس کو روزگار نہ ملے اسے حکومت دس ہزار ماہانہ الاؤنس دے۔
  • ہر بے گھر خاندان کو پانچ مرلے کا پلاٹ مفت دیا جائے اور آسان قسطوں پر قرض دیں کہ گھر بنا سکیں۔ میں پاکستان میں ہر غریب خاندان کو اپنے گھر کا مالک دیکھنا چاہتا ہوں۔
  • استحصالی، سرمایہ داریت کا خاتمہ چاہتا ہوں تاکہ ملوں، فیکٹریوں کے مزدور اس کے منافع کے پچاس فیصد حصے کے مالک بن جائیں۔
  • دہشت گردی کا کلیتاً خاتمہ اور پاکستان کو مسلمانوں کے لیے بھی اور غیر مسلموں کے لیے بھی امن کا گہوارا دیکھنا چاہتا ہوں۔
  • مقامی حکومتوںکو سارے اختیارات منتقل کرنا چاہتا ہوں۔ ضلعی حکومتوں میں عوام کا منتخب نمائندہ ایس ایچ او بنے۔
  • پورے ملک میں دوہرا نظام تعلیم ختم کرنا چاہتا ہوں امیر بھی وہی پڑھے گا اور غریب بھی وہی پڑھے گا۔
  • خواتین کو برابر حقوق دینا چاہتا ہوں، معاشی تحفظ دینا چاہتا ہوں۔
  • یونین کونسل، تحصیل کی سطح پہ عدالتوں کو فروغ دینا چاہتا ہوں اور ہر ڈویژن میں ہائی کورٹس قائم کرنا چاہتا ہوں۔
  • امیروں پر ٹیکس زیادہ اور متوسط طبقے پر کم اور کل غریبوں پر ٹیکس ختم کرنا چاہتا ہوں۔
  • سرکاری اور غیر سرکاری ملازم کی تنخواہوں کا فرق مٹانا چاہتا ہوں۔
  • کرپٹ لیڈر، افسر اور جج ان ساروں کا احتساب چاہتا ہوں۔ اور لوٹی ہوئی دولت قوم کو واپس دلانا چاہتا ہوں۔
  • صدر وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی اختیارات ختم کرنا چاہتا ہوں۔
  • غریبوں کو بجلی، پانی، گیس اور فوڈ۔ ان کے بلوں میں پچاس فیصد ٹیکس ختم کر کے رعایت دینا چاہتا ہوں۔
  • متناسب نظام انتخاب رائج کرنا چاہتا ہوں۔ پارٹی لسٹ سسٹم جس میں ووٹ حلقہ کے شہنشاہ کو نہ ڈالے جائیں بلکہ پارٹی لیڈر کو، پارٹی منشور کو، قومی ایشوز کو، نیشنل پالیسیز کو ڈالے جائیں تاکہ صحیح قیادت منتخب ہونے کا موقع آجائے۔

الیکشن کمیشن کا ایک اور فریب

اس تمام situation میں ایسے پاکستان کو بنانے کے لیے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظام انتخابات میرے ویژن کا پاکستان نہیں لاسکتے۔ الیکشن کمیشن نے جو فارم چھاپے ہیں، آپ حیران ہوں گے، جس پر شور مچا ہوا ہے کہ بدعنوانوں کو نکال دیں گے، اس کے اندر ایک فراڈ ہے، ایک جھوٹ ہے، دجل ہے، فریب ہے۔ ساروں کا مک مکا ہے۔اس فارم کے صفحہ نمبر 2 پر سیکشن 4 موجود ہے۔ اس میں لکھ دیا ہے کہ جو شخص جتنا بڑا قرض لے کے کھا جائے، مگر کسی کورٹ سے stay کی پرچی لے آئے تو وہ الیکشن کے لیے اہل ہے اسمبلی میں جا سکتا ہے۔ صرف stay کی پرچی چاہئے۔۔۔اس طرح یہ بھی درج ہے کہ جس نے لاکھوںکروڑوں کا ٹیکس میں سے ایک پائی بھی نہ دیا ہو وہ صرف ٹیکس کورٹ سے ایک stay کی پرچی لے آئے تو کوئی گرفت نہیں، وہ بھی الیکشن لڑ سکتا ہے اور اسمبلی میں جا سکتا ہے۔ ۔۔ ایک stay کی پرچی لانے پر قرض خور بھی گزر گئے، ٹیکس چور بھی گزر گئے، کئی چور دروازے تھے۔۔۔ صفحہ نمبر 3 کلاز 4 یوٹیلٹی بل کی وضاحت میں ہے کہ جتنا بھی نادہندہ ہو اگر stay لے کر آ جائے، کسی عدالت کی ٹربیونل کی پرچی لے آئے تو اس کو بھی معافی ہے۔

صرف ان کو پکڑا جائے گا ، روکا جائے گا جو اربوں کے قرض بھی لیں اور اتنے بیوقوف اور گدھے ہوں کہ کسی عدالت سے stay کی پرچی بھی نہ لے سکیں۔ اسے روکا جائے گا کہ پاگل تم نے لاکھوں، کروڑوں، اربوں کا قرض کھایا مگر 5 یا دس لاکھ دے کر بینک کی کورٹ سے stay بھی نہیں لاسکے؟ تم اسمبلی میں جانے کے قابل نہیں ہو اس لئے نہیں کہ ٹیکس چوری کی بلکہ اس لئے کہ تم Stay نہ لے سکے، کیونکہ ٹیکس چوری گناہ نہیں، stay نہ لینا گناہ ہے، جو stay لے آئے وہ معاف ہے۔

الیکشن کمیشن چوروں کے stay دینے کے لیے بیٹھا ہے۔۔۔ ٹیکس چوروں کو stay دے دیا۔۔۔ قرض خوروں کو stay دے دیا۔ میں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے نامزدگی فارم کی فائل پوری قوم کو دکھا دی۔ ان کے محاسبہ کی ضرورت ہے، یہ کس قسم کا الیکشن کرائیں گے۔

میں ایمانداری سے کہتا ہوں کہ پوری قوم سن لے ایسے الیکشن کمیشن کے تحت اور ایسے نظام کے تحت ہونے والے الیکشن میں دھاندلی ہو گی، کرپشن ہو گی۔۔۔ انہی لوگوں کو پلٹا کر پھر حکومت میں لایا جائے گا۔۔۔ پھر معلق (hung) پارلیمنٹ بنے گی۔۔۔ مستحکم حکومت نہیں بنے گی۔۔۔ پھر انہی لٹیروں کا بازار لگے گا۔۔۔ میرے لفظوں کو یاد رکھنا، انہی چوروں لٹیروں کا بازار لگے گا۔۔۔ یہی کرپشن ہوگی۔۔۔ یہی hung پارلیمنٹ ہوگی۔۔۔ جمہوریت کے منہ پہ طمانچہ ہوگا۔۔۔ یہ الیکشن اس قوم کے لیے بہت بڑا جرم ہوگا۔ ظلم ہونے کو جا رہا ہے، پاکستان عوامی تحریک اس جر م میں حصہ دار بننے کے لیے تیار نہیں ہے، ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔

4۔ تبدیلی - مگر کیسے؟

پاکستان عوامی تحریک اس کرپٹ الیکشن سسٹم کا حصہ دار بننے کو تیار نہیں۔ میں نے جو نعرہ پہلے دن لگایا تھا اللہ کی عزت کی قسم! میں آج بھی اسی نعرے پر قائم ہوں۔ جو پیغام پہلے دن دیا تھا آج بھی اسی پیغام پہ کھڑا ہوں۔ دنیا بدل جائے مگر میں اپنا اصول نہیں بدلوں گا۔ میں اپنا نظریہ نہیں بدلوں گا، اپنا کردار نہیں بدلوں گا۔ لوگو! میں 23 دسمبر کو بھی تمہارے ساتھ کھڑا تھا، آج بھی تمہارے ساتھ کھڑا ہوں، ہم وفا کریں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 8 جون 2012ء کو ایک فیصلہ دیا تھا جسے لانگ مارچ ڈکلریشن کا حصہ بھی بنایا گیا تھا۔ اس کے اندر شامل ہے کہ Vote for None کا کالم بنایا جائے۔ یعنی لوگوں کو موقع دیا جائے کہ جو کسی ایک امیدوار کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے تو ووٹ کی پرچی پر اس بات کا اندراج ہو کہ میں کسی کو ووٹ نہیں دیتا تاکہ پتہ چلے کہ ان سب کو مسترد کرنے کے لیے بھی بہت سے لوگ ہیں۔ وہ کالم نہیں بنایا جا رہا، لوگوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دو یا پیپلز پارٹی کو دو، فلاں کو دو یا فلاں کو دو۔ قوم کھل کر اپنے ضمیر کا اظہار نہیں کر سکتی۔

پاکستانی قوم سنے! جس دن الیکشن ہو گا اس دن ہر شہر میں ہزاروں لاکھوں لوگ اس کرپٹ نظام کے خلاف پر امن دھرنا دیں گے۔ ہر شہر میں اس نظام کے خلاف دھرنا ہوگا اور بالآخر اس نظام کو مرنا ہوگا۔ ہم اس نظام کے خلاف پرامن احتجاج کریں گے، صبح سے شام تک بیٹھیں گے۔ہم دنیا کو بتائیں گے کہ

This is corrupt political system, and electroral reforms have not been enforced. We are protesting peacefully against the corruption.

ہم کر پشن کے خلاف دھرنا دے رہے ہیں۔ یہ Vote for None ہوگا۔ یہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہو رہا ہے۔ آج سے پولنگ ڈے کے دن کی تیاریاں شروع کرو۔۔۔ گھر گھر جائیں، مہم چلائیں۔۔۔ پارٹیاں اپنے امیدواروں کی مہم چلائیں اور آپ اس نظام کے خلاف اور کرپشن کے خلاف بغاوت کی مہم چلائیں۔۔۔ لوگو ںکو motivate کریں۔ جس دن پولنگ ہو ہر شہر میں پرامن طریقے سے دھرنا دیں۔ law and order situation create نہیں کرنی۔۔۔ پولنگ اسٹیشنوں پر دھاوا نہیں بولنا۔۔۔ حملہ نہیں کرنا، clash نہیں کرنا۔۔۔ پولنگ اسٹیشن سے ہٹ کر کسی ایک شاہراہ پر ہزار ہا لوگ ہر ہر شہر میں دھرنا دیں تا کہ دنیا اور میڈیا دیکھے کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں نے اس کرپٹ سسٹم کو مسترد کر دیا ہے۔ PAT کی تنظیم سازی کریں۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر پر نظام بدلو دھرنا دینا ہو گا اور اسی دھرنے کی شکل میں ہماری انقلاب کی جد و جہد آگے چلے گی۔ یاد رکھ لیں اس الیکشن سے بننے والی حکومتیں نہ صاف ہوں گی نہ شفاف ہوں گی اور نہ مستحکم ہوں گی۔ دہشت گردی بڑھے گی، خون خرابہ بڑھے گا، کرپشن بڑھے گی، ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالیں گے اور یہ اسمبلیاں پھر ٹوٹیں گی۔ ہم اس پورے تماشے کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ جنہوں نے ٹیکس چوری کیا ہے وہ ممبران پارلیمنٹ بنیں۔۔۔ جنہوں نے قرضے کھائے ہیں وہ ممبران پارلیمنٹ بنیں۔۔۔ چونکہ انتخابی اصلاحات پہ عمل نہیں ہوا، نظام میں وہ تبدیلیاں جن کا حکومت نے وعدہ کیا تھا اور الیکشن کمیشن نے وعدہ کیا تھا وہ سب وعدے سے پھر گئے۔ لہذا ہم پر امن طریقے سے اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے احتجاج کریں گے۔

کرپٹ نظام سے لڑنا ہو گا
11 مئی کو دھرنا ہو گا

کے سلوگن کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ہر گھر پر جھنڈے لگاؤ۔ اس تحریک کو عام کرو، میرے پیغام کو گھر گھر پہنچاؤ۔ انقلاب کی فکر کی شمعیں ہر جگہ جلا دو۔ انقلاب کا سویرا ان شاء اللہ طلوع ہوگا۔ غریبوں کے مقدر کی تاریک رات میں اِن شاء اللہ روشنی آئے گی۔ غریبوں کے مایوس چہروں پر خوشیاں آئیں گی اور ظلم و جبر اور کرپشن کے نظام کو موت آئے گی، آخری فتح پاکستان کے عوام کی ہوگی، پاکستان کی ہوگی اور اللہ رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے اس ملک کے محروموں، مظلوموں، کمزوروں کی فتح ہو گی"۔