اداریہ: مستقبل کے پاکستان میں مثبت تبدیلی کی شرط

ڈاکٹر علی اکبر قادری

وقت بے رحم واقعات کے تسلسل سے آنکھ مچولی کرتا ہوا ’’قومی انتخابات‘‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ضعیف و ناتواں نگران حکومتیں غیر آئینی الیکشن کمیشن کے ’’ضابطہ ہائے اخلاق‘‘ کی تنفیذ و تکمیل کا تکرار کرتے ہوئے قوم کو صاف و شفاف قیادت کی فراہمی کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں۔ ایک طرف کراچی، حیدر آباد، کوئٹہ، پشاور اور فاٹا میں آئے روز سیاستدانوں پر خودکش حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور دوسری طرف ہزاروں امیدواروں کے درمیان انتخابی دنگل سجنے جارہا ہے۔ قوم کو مبارک ہو کہ ان کے ’’نجات دہندہ‘‘ انتخابی نشان اور پارٹی کی معمولی تبدیلی کے ساتھ کم و بیش وہی ہوں گے جو گذشتہ کئی دھائیوں سے چلے آرہے ہیں۔ ہاں فرق یہ ہوگا کہ سابقہ حکمران اب ذرا بزرگ ہوگئے ہیں اور ان کے دائیں بائیں ان کے بیٹے، بھتیجے یا پوتے نواسے قطار در قطار کھڑے نظر آئیں گے۔ یعنی اس منافع بخش سیاسی گہما گہمی میں جہاں ایک آدھ وڈیرہ لوٹ مار میں مصروف نظر آیا کرتا تھا اب اس کے ساتھ کئی ’’تجربہ کار‘‘ معاونین بھی جلوہ افروز ہوں گے۔۔۔ یہ ہے مستقبل کا پاکستان۔۔۔

بدقسمتی سے نسل در نسل کرپشن اور لوٹ مار کے اس کھیل کو ہمارے ہاں جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے۔ اسی جمہوریت کو ہر پانچ سال بعد ’’پروان چڑھانے‘‘ کے لئے انتخابی معرکے بپا ہوتے ہیں جن میں کرپٹ نظام کے محافظ دولت، اسلحہ، دھونس، دھاندلی اور ہر ممکنہ فراڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے سادہ لوح عوام سے دھوکا کرکے اقتدارکے ایوانوں میں براجمان ہوجاتے ہیں۔ جو ایوان قانون سازی کے لئے بنائے گئے ہیں وہاں سرمایہ سازی کے لئے ساز باز کا کام کیا جاتا ہے۔ باقی قومی اداروں کی تباہی کا اندازہ آپ خود کرلیں۔

چوکفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی؟

یا اس کی تازہ مثالیں آپ کو گذشتہ حکومتی ایوانوں سے ملیں گی جہاں مدت ختم ہونے کے بعد بھی آخری لمحے تک ڈویلپمنٹ فنڈز کے نام سے دل کھول کر وزرائے اعلیٰ اور وزیراعظم نے ہر حلقے کے نمائندوں کو نوازا جو اب ان کی الیکشن مہم پر خرچ ہورہا ہے۔ حتی کہ آئندہ جون تک کے بجٹ کا پیسہ بھی یہ ’’عوام دوست‘‘ نمائندے مارچ میں لے اڑے ہیں اب خزانہ خالی ہے اور سننے میں آرہا ہے کہ حکومت کے پاس چند ہفتوں کا زر مبادلہ باقی ہے، مقصد یہ کہ ملک کے اثاثے لوٹ کر لے جانے والے ایک مرتبہ پھر عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے حکومتی ایوانوں کا رخ کررہے ہیں۔

’’جمہوریت‘‘، ’’عوامی خدمت‘‘ اور ’’ملکی خوشحالی‘‘ جیسے خوشنما الفاظ کا استعمال اب ایک بے معنی روایت کے طور پر باقی ہے ورنہ فی الحقیقت پاکستان میں ہر کہیں بدترین آمریت، عوام دشمنی اور ملکی وسائل کی لوٹ مار جاری ہے۔ جن عرب ریاستوں میں بادشاہت اور شہنشاہیت جاری ہے یا جہاں آمریت کا تختہ الٹ دیا گیا ہے وہاں تو ایک حکمران یا اس کا خاندان وسائل کی لوٹ مار کے جرم میں ملوث ہیں لیکن ہمارے ہاں نام نہاد جمہوریت کے پردے میں چند ہزار افراد اور ان کے خاندان لوٹ مار اور کرپشن کے حصہ دار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ سال شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پہلی بار ناصر باغ کے جلسہ عام میں اس نظام کی خرابیوں اور اس کے محافظ کرداروں کا پردہ چاک کیا تھا۔ تب سے تحریک کی اندرون و بیرون تنظیمات بیداری شعور مہم کے ذریعے اس نظام انتخاب کی سیاہ کاریوں کے خلاف سینہ سپر ہوچکے ہیں۔ 23 دسمبر 2012ء مینار پاکستان کا عدیم المثال عوامی اجتماع اور اس کے بعد لاہور سے اسلام آباد کا پانچ روزہ عوامی لانگ مارچ اسی کرپٹ نظام کے خلاف پرامن احتجاج تھا۔ اس عوامی اجتماع اور لانگ مارچ کے دوران شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ نے عالمی میڈیا سمیت پاکستانی خواص و عوام کو آئین پاکستان کی ان شقوں کی طرف متوجہ کروایا جن میں منتخب نمائندوں کا صادق اور امین ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ موجودہ صورت حال اس سے قطعاً برعکس ہے۔ ماسوا چند لوگوں کے اکثریت ٹیکس چور، رسہ گیر، کرپشن میں ملوث اور راشی لوگوں پر مشتمل ہے جن سے ہمارے قومی اور صوبائی ایوان بھرے پڑے ہیں۔ ایسے لوگوں کی موجودگی میں اگر سو سال بھی انتخابات ہوتے رہیں تو حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔ لوگ اسی طرح اپنی بنیادی ضروریات کو ترستے رہیں گے اور یہ جدی پشتی چور اچکے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنی تجوریاں بھرتے رہیں گے۔ چنانچہ تحریک کی طرف سے اس ملک گیر احتجاج کے بعد پہلی بار عدلیہ اور الیکشن کمیشن نے 62، 63 کی شرائط پر عمل کرنے کا ڈھنڈورا پیٹا مگر چونکہ نیت میں کھوٹ تھا اور الیکشن کمیشن کی تشکیل ہی بدنیتی پر مبنی تھی اس لئے یہ محض شور ہی رہا۔ بلکہ امیدواروں سے اس مرتبہ سکروٹنی کے نام پر جو مضحکہ خیز سوالات کئے گئے وہ پوری دنیا میں پاکستان کے عدالتی نظام کو بدنام کرچکے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ موجودہ حالات میں ’’الیکٹ ایبل‘‘ لوگ ہر طرح کی مالی کرپشن میں ملوث ہیں مگر کسی ریٹرننگ افسر نے کسی رشوت خور بنک کرپٹ، جعلی ڈگری ہولڈر یا نادہندہ کو نااہل قرار نہیں دیا۔ قائد تحریک اسی لئے اس کمزور جانبدار اور بدنیت الیکشن کمیشن کو عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے گئے تھے مگر اعلیٰ عدلیہ خود جانبدار نکلی اور پورے تین روز ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ’’نیت‘‘ کی ’’صداقت‘‘ کا کھوج لگاتی رہی۔ اب جب کہ تقریباً سب بڑی چھوٹی مچھلیاں اپیلیں کرکے واپس آچکی ہیں تو لوگوں کو سمجھ آرہا ہے کہ الیکشن کمیشن دراصل آنکھیں بند کرکے پرانے چہروں کو قومی سیاسی دھارے میں رکھنے پر مصر ہے۔ حالانکہ ان امیدواروں میں کروڑوں اربوں کے قرض معاف کروانے اور ملک کا سرمایہ لوٹ کر اپنی جائیدادیں بنانے والے افراد بدستور شامل ہیں۔ اب وہ لوگ جو تحریک کے احتجاج پر تنقید کررہے تھے، برملا ان کے موقف کی تائید کرتے نظر آتے ہیں، مگر یہ بے وقت کی راگنی ہے۔ اس نظام زر کے تمام نمائندگان خواہ ان کا تعلق انتخابی معرکوں سے ہے یا وہ ان کے تائید کنندگان اینکر پرسن اور کالم نگار ہیں یا پھر کسی اور شعبے سے وابستہ سب کے سب پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ اب تو وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈ کے حصہ دار ’’معزز صحافیوں‘‘ کے چہروں سے بھی شرافت اور دیانت کے پردے چاک ہوچکے ہیں۔ آہستہ آہستہ تمام طبقات طشت از بام تو ہوں گے مگر اس وقت تک شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

مملکت خداداد کے خلاف سنگین سازش پنپ رہی ہے جس کا ایک پہلو دہشت گردی سے پروان چڑھ رہا ہے اور دوسرا سیاسی اور معاشی کرپشن سے۔ تحریک منہاج القرآن کے کارکنان، تنظیمات اور نوجوان خواتین و حضرات نے شیخ الاسلام کی جرات مندانہ قیادت کے زیر سرپرستی اس کھلی سازش کے خلاف اعلانِ بغاوت کردیا ہے۔ اب ہر صورت ان لٹیروں کو ناکام بنانا ہے اور ان میں سے ہر ایک کو دنیا کے سامنے نشانِ عبرت بنانا ہے۔ لہذا ہم جس طرح پہلے الیکشن کمیشن کو غیر آئینی سمجھتے ہوئے الیکشن کی مشق کو قومی وسائل کا ضیاع سمجھتے تھے، اسی طرح اب بھی سمجھتے ہیں۔ تحریک نے 11 مئی کو یوم جمہوریت کے بجائے یوم احتجاج کے طور پر منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ احتجاج ہر سطح پر ہر ممکن طریقے سے موثر ہونا چاہئے تاکہ باشعور عوام کو اس کرپٹ نظام انتخاب سے دور رکھتے ہوئے حقیقی تبدیلی کے لئے آمادہ کیا جائے۔ موجودہ نظام انتخاب میں جب تک مثبت تبدیلیاں نہیں آجاتیں اس میں شمولیت برائی کا حصہ بننے کے مترادف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ’’مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاسکتا‘‘ مگر ہم کیسے اہل ایمان ہیں جو ملک و ملت کی تقدیر بدلنے کے لئے پرعزم ہیں مگر اسی نظام سے گذشتہ 65سالوں سے ڈستے چلے آرہے ہیں۔ مستقبل کے پاکستان میں مثبت تبدیلی اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک اس کرپٹ نظام کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک نہ دیا جائے۔