پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ موجودہ کرپٹ نظام انتخاب

علامہ اقبا ل رحمۃ اللہ علیہ کی فکری کاوشوں اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی قائدانہ عملی جدوجہد سمیت بر صغیر کے ہزاروں علماء، مشائخ، خواتین، طلباء اور عام لوگوں کی کئی عشروں پر مشتمل تحریک کے نتیجے میں اللہ تبارک تعالیٰ نے ہمیں یہ خطہ پاک عطا کیا تھا۔ لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں۔ مقصد یہ تھا کہ ہماری آئندہ نسلیں آزاد اور ترقی یافتہ فلاحی اسلامی معاشرے میں پر سکون زندگی گزار سکیں۔ لیکن افسوس ……کہ یہ خواب محض خواب ہی رہا۔ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد پاکستان جاگیرداروں،وڈیروں، لٹیروں، سرمایہ داروں،مفا د پرست سیاست دانوں اور فوجی ڈکٹیٹروں کے دستِ تسلط میں آگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا نظام قائم ہو گیا جس کے تحت اسلامی جمہوری ریاست کے خدوخال آغاز سفر میں ہی دھندلا گئے۔ وہ لوگ عنانِ حکومت پر قابض ہو گئے جو اس ساری خون آشام جدوجہد ِ آزادی میں شریک ہی نہیں تھے۔ چنانچہ اس قبضہ گروپ نے نوزائیدہ ملک کو نوچنا شروع کیا اور ٹھیک 24سال بعد اسے دولخت کردیا۔

جو خطہءِ زمین پاکستان کے نام سے بچ گیا اسے گزشتہ 41 برسوں سے باری باری اسی ظالمانہ اور باطل پرست نظام کے زیرِ سایہ سیاسی طالع آزمائوں اور فوجی ڈکٹیٹروں نے تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ اس دوران ان ہوس پرست طبقات میں عدلیہ، انتظامیہ کی چند کالی بھیڑوں سمیت بعض موقع پرست سیاسی اور مذہبی قائدین بھی شامل اقتدار ہوتے رہے لیکن اس پورے عرصہ میں جو طبقہ مکمل طور پر نظر انداز ہوا وہ اس ملک کے سفید پوش اور غریب عوام تھے۔

ہر دفعہ پارلیمنٹ پر اٹھنے والے اربوں روپے کے اخراجات غیر معمولی لیکن اس پارلیمنٹ کے ذریعے ملک اور عوام کو کیا فائدہ ہوا۔۔۔ ؟ پاکستان کو در پیش حقیقی مسائل معیشت،، معاشرت، تعلیم، صحت کے اداروں کی بہتری، کرپشن، لوٹ مار، طبقاتی تقسیم،صوبائی، لسانی اور مذہبی منافرت جیسے بنیادی مسائل کو ختم کرنے کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ قوم پر غیر ملکی مالیاتی اداروں کا قرض ہر روز بڑھتا جارہا ہے۔ مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی مگر اس کی روک تھام کے لیے کوئی قدم نہ اٹھایا گیا بلکہ پارلیمنٹ اور کابینہ کے فاضل ممبران براہ راست چینی،آٹے چاول، گھی، پٹرول، آلو اور پیاز جیسے بحرانوں کا سبب بنتے رہے۔ اندرونی و داخلی مسائل کی طرح خارجہ پالیسی کی واضح راہوں کا تعین بھی نہ کیا گیا۔

سیاسی پنڈتوں نے کرپشن کا بازار گرم رکھا اور مل بانٹ کر کھانے کے عمل کو ’’ مفاہمت‘‘کا نام دے کر قوم کے ساتھ مذاق کیا گیا۔ نام نہاد مفاہمت کے نتیجہ میں باری باری حکومت کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ ملک میں کوئی قانون نہیں، لوگ مر رہے ہیں، مہنگائی کا بازار گرم ہے۔ روزانہ بے گناہ شہریوں کا قتل عام، لاقانونیت، خود کش حملے، ڈرون حملے، الغرض ملی اور قومی غیرت و حمیت کا جنازہ نکال دیا گیا قومی غیرت اور حمیت کو بیچ کر اسکی تقدیر کے فیصلے کا اختیار غیر ملکی طاقتوں اور ان کے ایجنٹوں کو دیا گیا اور ہر کوئی ان کے سامنے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

پوری قوم کے لئے سوال

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی عوام کب تک اس نظام ِجبر میں پستی رہے گی۔۔۔ ؟ کیا65سال بعد بھی ہم اس نظام کا حصہ بن کر اپنی آئندہ نسلوں کے ساتھ بددیانتی کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔۔۔ ؟کیا پاکستانی قوم ترقی یافتہ اقوام کے درمیان اسی طرح معاشی، سیاسی، سماجی،قانونی اور تعلیمی طور پر پسماندہ قوم کے طور پر پہچانی جاتی رہے گی۔۔۔ ؟کیا بھارتی اور مغربی دانشوروں کے بقول پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا جائے۔۔۔ ؟ کیا اسلامی تشخص کے قیام کے لئے خطہ زمین کا حصول ایک بے معنی مشق تھی۔۔۔ ؟یہ وہ سوال ہیں جو آج ہر شخص کے ذہن میں ابھر رہے ہیں لیکن ماحول پر چھائی ہوئی مایوسی، افسردگی اور خوف و ہراس کی وجہ سے کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔

موجودہ نظام ِ انتخابات کی خامیاں

آیئے! اس امر کا جائزہ لیں کہ ہمارے موجودہ جمہوریت میں وہ کیا کیا خامیاں اور بنیادی نقائص ہیں جن کے پیشِ نظر ملکی معاملات خرابی کا شکار ہورہے ہیں۔ پاکستان میں رائج موجودہ نظام انتخابات جسے سادہ اکثریتی نظام کہا جاتا ہے کسی بھی لحاظ سے عوام کی حقیقی نمائندگی اور حقیقی جمہوریت کا عکاس نہیں۔ ذیل میں مختلف جہات سے پاکستان کے موجودہ نظام انتخابات کی خامیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ اسلامی تصور ِ نمائندگی سے تصادم

اسلام میں خلافت و نیابت کے سنہری اصول اور شوریٰ اور اولی الامر کی اہلیت کا معیار دیا گیا ہے۔ اکثریت کی نمائندہ حکومت کے قیام کے واضح اصول بھی موجود ہیں جبکہ موجودہ نظام کے تحت اکثریت کی نا پسندیدہ حکومت تشکیل پاتی ہے۔ اسے عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیںہوتی۔ اس لئے ایسی شوریٰ( پارلیمنٹ) اسلامی شوریٰ نہیں کہلا سکتی اور نہ ہی ایسے نمائندوں کو اقتدار سونپا جا سکتا ہے جو اپنی جیت کے لئے اپنی انتخابی مہم کو میلے یا سرکس کے انداز میں چلاتے ہیں اور اپنے آپ کو منتخب کروانے کے لئے ہر جائز وناجائز ذریعہ استعمال کرتے ہیں۔ اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ذاتی مفادات کی جنگ ہے، اس میں عوام کی خیر خواہی اور خدمت کا کوئی جذبہ کار فرما نہیں ہوتا۔

پاکستان کی فیڈرل شریعت کورٹ میں 1988ء کے انتخابات کے بعد بہت سی درخواستیں موجودہ نظام انتخابات اور انتخابی قوانین کو کالعدم قرار دینے کے لئے دائر کی گئیں اور ان درخواستوں کے دلائل کی بنیاد پر فیڈرل شریعت کورٹ نے بھی موجودہ نظام انتخاب کو قرآن و سنت کے اصولوں کے خلاف قرار دیا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران سب سے بڑی دلیل یہی پیش کی گئی تھی کہ موجودہ نظام انتخاب میں انتخابی مہم ایک میلے یا سرکس کے انداز میں چلائی جاتی ہے۔ ہر امید وار کی اولین ترجیح اپنی ذات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا اور اپنے حریف امیدوار کی کردار کشی ہوتی ہے۔ امیدوار منافقت اور فریب کا لبادہ اوڑھے ہوئے لالچ،دہونس،دھمکی اور جھوٹے وعدوں کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے حتی الامکان زیادہ سے ز یادہ ووٹوں کے حصول کی خاطر ایک ایک دروازے پر پہنچ کر ووٹروں کا تعاقب کرتا ہے۔ وہ تنخواہ یافتہ کارکنوں کی فوج حتی کہ بعض اوقات انتخابی مہم کے حربوں میں خصوصی طور پرتربیت یافتہ بیرونی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرتا ہے۔ امیدوار کی بینروں،پوسٹروں اور پلے کارڈوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر جھوٹی تشہیر کی جاتی ہے۔ مہنگی گاڑیوں اور ٹرکوں پر سوار کرائے کے رضا کاروں کے جلوس سڑکوں محلے محلے گائوں گائوں نعرے لگاتے ہوئے گشت کرتے اور ووٹروں کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ امیدوارکی اپنی خواہش اور اس کے بھاری خرچ پر ہوتا ہے۔ حمایت حاصل کرنے کے لیے علاقائی، فرقہ وارانہ،قبائلی اور اس طرح کے دوسرے تعصبات کو استعمال کیا جاتا ہے، بوگس اور جعلی ووٹ بھگتنا معمول کی بات ہے۔ بالآخر جو سب سے اونچے دائو لگا کر یہ کھیل کھیلتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔

2۔ اکثریت کی نمائندگی سے محروم حکومت

موجودہ نظام انتخاب کے تحت جو بھی حکومت بنتی ہے صحیح معنوں میں اقلیتی حکومت ہوتی ہے۔ چونکہ اس نظام کے تحت ایک امید وار کل رجسٹرڈ ووٹوں کا بہت تھوڑا حصہ لے کر بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ حتی کہ اپنے حریف امیدواروں سے محض ایک ووٹ کی سبقت ہی کامیابی کے لئے کافی ہے۔ اس نمائندگی کی حقیقت اس تجزیے سے سامنے آتی ہے:

فرض کیجئے ایک حلقہ انتخاب میں ایک لاکھ رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔ ان میں سے 50,000افراد نے اپنا حق رائے دہی اپنے پسندیدہ امیدواروں کے حق میں استعمال کیا۔ کل5امیدواروںنے انتخاب میں حصہ لیا۔ ایک امیدوار نے 12,000 ووٹ حاصل کیے۔۔۔ دوسرے نے 11,500ووٹ حاصل کیے۔۔۔ تیسرے نے 11,000ووٹ حاصل کیے۔۔۔ چوتھے نے 9,500اور پانچویں نے 8,000ووٹ حاصل کئے۔ اس طرح موجودہ نظام کے تحت 12,000ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار اس حلقے کا نمائندہ قرار دے دیا جائے گاحالانکہ 38,000افراد اسے نمائندہ نہیں بنانا چاہتے اور50,000 افراد نے ان تمام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اور ان کے ذریعے تبدیلی نہ آنے کے یقین کے ساتھ اپنا رائے حق دہی استعمال ہی نہیں کیا۔ مگر 12 ہزار ووٹ لینے والا صرف اس لئے کامیاب قرار دیا گیا کہ اس نے اپنے حریف امیدوار کے مقابلے میں500ووٹ زیادہ لئے ہیں اور اب وہ ایک لاکھ افراد کے حلقہ انتخاب کا نمائندہ تصور کیا جائے گا۔

موجودہ نظام میں نمائندگی کا تناسب

مندرجہ بالا تجزیے کوسامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں 1970،1977، 1985، 1988، 1990،1997،2002 اور2008کے انتخابات کا جائزہ لیں تو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی جہاں امیدوار محض چند ووٹوںکی اکثریت سے کامیاب ہوئے اور پورے حلقہ انتخاب کے نمائندے قرار دیے گئے اور مجموعی طور پر برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتوںنے بھی بہت کم ووٹ حاصل کیے۔ مثلاََ1970ء کے انتخابات میں برسر اقتدار جماعت کو صرف38.9 فیصد ووٹروںکی تائید حاصل تھی۔۔۔ 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے37.63فیصد ووٹ اور 45فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ اسلامی جمہوی اتحاد نے29.56فیصد ووٹ حاصل کیے اور28فیصد نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت پیپلز پارٹی نے ووٹوں کے تناسب سے زیادہ نشستیںحاصل کیںاور اسلام جمہوری اتحاد نے تناسب سے کم نشستیں حاصل کیں۔

1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کو 37.37فیصد ووٹ ملے اور 106نشستیںملیں یعنی 52.8 فیصد۔۔۔ جبکہ پی ڈی اے کو36.65فیصد ووٹ ملے اور نشستیں 44یعنی 22.7فیصد۔۔۔ اس طرح اس نظام انتخاب کے تحت ووٹوںمیں صرف ایک فیصد کے فرق سے 62نشستوں کا فرق پڑگیا۔ اس کے بعد نصف سے بھی کم نشستیںحاصل کرنے والی جماعت نے حکومت سازی کے مرحلہ پر در پردہ دھاندلی اور اراکین اسمبلی کو ہارس ٹریڈنگ کے عمل سے خرید کر حکومت بنا لی اور وہ حکومت ملک بھر کے عوام کی نمائندہ حکومت کہلائی۔

اسی طرح مجموعی ٹرن آئوٹ کے اعتبار سے ان انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو1977ء کے عام انتخابات میں ڈالے ہونے والے ووٹوں کی شرح کا تناسب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباََ 63فیصد تھا، جو کہ بعد ازا ں آنیوالے انتخابات میں بتدریج کم ہوتا رہا۔۔۔ 1988ء کے عام انتخابات میںٹرن آئوٹ 43.07فیصد ہوا۔۔۔ 1990ء کے عام انتخابات میں45.46فیصد تک پہنچ گیا۔۔۔ 1993ء کے عام انتخابات میں40.28فیصد پر آگیا۔۔۔ 1997ء کے عام انتخابات میں35.42فیصد کی نچلی سطح پر آگیا۔۔۔ 2002ء کے عام انتخابات میں41.26فیصد کی سطح پر پہنچایا گیا۔۔۔ 2005ء میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹوں کا ٹرن آئوٹ 30فیصد کی انتہائی نچلی سطح تک کر گیا حالانکہ یہ الیکشن لوکل سطح پر منعقد ہوئے اور ان میں لوگوںنے زیادہ بڑھ چڑھ کر مقامی نمائندوں کو ووٹ دیئے۔۔۔ 2008ء کے عام انتخابات میں ٹرن آئوٹ تقریباً 44فیصد رہا۔ اس تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام موجودہ مہنگے اور بد عنوان انتخابی نظام سے مایو س ہو چکے ہیں اور انہیں موجودہ نظام انتخابات کے ذریعے ملک میں کوئی مثبت تبدیلی آنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔

اسی طرح اگر ہم ان انتخابات میں انفرادی امیدواروں کی جیت کا تناسب دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی توازن نہیں اور کوئی بھی امیدوار اپنے مدمقابل امیدواروںسے محض ایک ووٹ کی برتری لے کر کامیاب ہو سکتا ہے، چاہے اسے رائے دہندگان کی اکثریتی تعداد نا پسند کرتی ہو۔

موجودہ نظام انتخابات کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات اور ان سے بننے والی حکومتوں کو حاصل کردہ ووٹوں اور نشستوںکے جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس نظام انتخاب کے تحت نہ تو کوئی رکن پارلیمنٹ عوام کی اکثریت کا نمائندہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان نمائندوں کے ذریعے بننے والی حکومت عوام کی اکثریت کی نمائندہ حکومت ہوتی ہے جبکہ ایک جمہوری نظام کی لازمی شرط یہ ہے کہ جمہور (عوام کی اکثریت)کو منتخب اداروں میں واضح نمائندگی ملے جو کہ موجودہ نظام میں کسی شکل میں بھی پوری نہیں ہوتی۔

3- سرمایہ دار و جاگیردارکا محافظ نظام

موجودہ نظام انتخابات صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروںکے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس نظام کے تحت صرف سرمایہ دار اور جاگیر دار ہی منتخب ہو سکتے ہیں۔ یہ ایسا نظام ہے جس میں پولیس کی موجودگی میںلیڈی پولنگ سٹاف کی تھپڑوں سے پٹائی پر قانون کسی جاگیردارنی خاتون کو روکنے سے معذور ہے اور الیکشن کمیشن اُسے نااہل کرنے کے بجائے اسے دوبارہ انتخابات کے لئے اہل قرار دیتا ہے۔ اس نظام میں عوام کو دہشت زدہ کر دیا گیا ہے اور ان کی ذاتی پسندکو محدود کر دیا جاتا ہے ان سے جبراََ ووٹ لیے جاتے ہیں۔ جب اقتدار ان طبقات کے ہاتھ میں آتا ہے تو یہ صرف ایسے قوانین وضع کرتے ہیں اور دستور اور قانون میںایسی ترمیم کرتے ہیںجن سے صرف ان کے اعلیٰ سطحی مفادات کا تحفظ ہو سکے۔ عوام کے مفاد میں کوئی فیصلہ نہیںہوتا اور نہ ہی کوئی پالیسی بنتی ہے۔ اس کی مثال آئندہ آنے والے انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نامزدگی فارم ہیں جن میں ڈیفالٹرز، قرض خوروں، ٹیکس چوروں اور یوٹیلٹی بلز کی عدم ادائیگی بلز کی عدم ادائیگی کرنے والوں کو ایک طرف نااہل قرار دیا جارہا ہے اور دوسری طرف اس قانون سے بچنے کے لئے کسی بھی کورٹ سے Stay لینے کی صورت میں چور دروازہ فراہم کرتے ہوئے اہل بھی قرار دیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک غریب عوام کی بہتری کے لئے ان بالادست طبقات کے ہاتھوںکوئی اصلاحات نافذ نہیں ہو سکیں اور نہ ہی اسلامی قوانین اور شریعت محمدیAکا نفاذ ہو سکا ہے۔ چونکہ شریعت کا نفاذ ان بالادست طبقات کے مفاد میں نہیں اس لئے ان طبقات کے ہوتے ہوئے عوامی مفادات و حقوق کا تحفظ ہو سکتا ہے اور نہ شریعت کا نفاذ ممکن ہے۔ اس کی عملی مثا ل سابقہ حکومت کے آخری دن میں جب عوامی مسائل کے بارے میں کوئی بل منظور نہیں ہوا جبکہ ذاتی مفادات اور سیاسی خلیفوں کو خوش کرنے کے لیے راتوں رات بل منظور کیے گئے۔۔۔ ذاتی تنخواہیں بڑھانے کے لیے متفقہ قرار دادیں منظور کی گئیں۔ اسی سوچ نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ شہروں میں سرمایہ دار جبکہ دیہاتی علاقوں میں جاگیر دار اوروڈیرے اس نظام پر مسلط ہیں۔

4- دھن، دھونس اور دھاندلی کا آزادانہ استعمال

اس نظام میں امیدوار چونکہ محض ایک ووٹ کی برتری سے بھی کامیاب ہو سکتا ہے اس لیے ناجائز ذارئع اور سرکاری پشت پناہی کے حامل امیدوار اپنے مدمقابل کو شکست دینے اور خوفزدہ کرنے کے لئے دھن، دھونس اور دھاندلی کے تمام ممکنہ طریقوں کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہر انتخاب میں بر سر اقتدار حکومتوں اور بالا دست طبقات نے دھن، دھونس اور دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کے بعد بھی اپنے مدمقابل کو ذلیل ورسوا کرنے اور اسے ہر ممکن انتقام لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسے انتہائی بہیمانہ اور غیر شریفانہ طریقوں سے نقصان پہنچاتے رہے۔ ان بالادست طبقات کو ہمیشہ یہ اطمینان رہتا ہے کہ ہمارے حلقے محفوظ ہیں اور ہمارے سوا کوئی دوسرا شخص ہمارے حلقے سے منتخب نہیں ہو سکتااس لئے وہ اس نظام انتخاب کے تحت اپنے استحصالی، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ مفادات کے لئے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے اور ان کی اجارہ داریاں ہمیشہ برقرار رہتی ہیں۔ ان اجارہ داریوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کے موجودہ سماجی و سیاسی حالات میں تبدیلی کی توقع قطعاََ نہیں کی جا سکتی۔

5- مفاد پرست افراد کا چنائو

موجودہ نظام نے ہمیشہ اسمبلیوںمیں بیشتر نا اہل اور مفاد پرست افراد کو بھجوایا ہے جنہوں نے ملک و قو م کی خدمت کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا۔ ہارس ٹریڈنگ، رشوت، غبن لوٹ مار، خیانت اور ناجائز طریقوں پر کروڑوں اربوں روپے کے قرضے لینا اور دھوکہ دہی سے ان قرضوں کو معاف کروانا ان اراکین کا معمول رہا ہے۔ پارلیمنٹ ممبران میں اپنی طاقت اور اثرو رسوخ کے بل بوتے پر حکومتی اداروں کے نادہندہ ہوئے ہیں، اپنے عزیزوں کے نام پر اربوں روپے معاف کرواتے ہیں۔ یہ قرض پاکستانی عوام پر مہنگائی اور بدحالی کی صورت میں اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ لیکن ہمارے غریب عوام اس حقیقت سے واقف نہیں اور ہر بار اپنے پیٹ کاٹ کاٹ کرسرمایہ اور اختیار انہی لٹیروں کو دیتے رہے۔

اسی طرح عوام کی خدمت اور علاقہ کی بہتری کے نام پر کروڑں روپے کے منصوبے منظور کروائے مگر انہیں اپنے ذاتی مفاد ات کے لئے استعمال کیا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے جتنی بھی مراعات ملیں سب اپنی ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیں۔ کارخانوں کے لائسنس اور پرمٹ، پلاٹوں اور جاگیروں کا حصول ان اراکین کا شیوہ رہا۔ یہ نااہل اور مفاد پرست افراد ایک بالا دست طبقے کی حیثیت سے عوام کا استحصال کرتے رہے اور کر رہے ہیں، یہ لوگ ہمیشہ انتخابات کے موقع پر عوام کے خادم اور غریبوں کے ہمدرد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ پہلے انتخابات جیتنے کے لئے لاکھوں کروڑوں روپے دائو پر لگاتے ہیں اور پھر اسمبلی میں بیٹھتے ہی پہلے چند روز میں وہ ساراخرچہ(اصل ِ زر) وصول کر لیتے ہیں اور بقیہ سال سارے منافع کے ہوتے ہیں۔

6- علاقائی اور فرقہ وارانہ تقسیم کا موجب

پاکستان کے چاروں صوبوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں اور مختلف مسالک کے لوگ آباد ہیں مگر بدقسمتی سے اس نظام انتخابات کے تحت ہمیشہ علاقائی، گروہی، لسانی اور فرقہ وارانہ مسائل کو انتخابی نعروں کے طور پر استعمال کیا گیا اور انتخابات میں نشستوں کے حصول کے لیے مختلف سیاستدانوںنے رائے دہندگان کے جذبات کو مشتعل کر کے اپنے لیے تائید حاصل کی۔ سندھ ایک عرصہ سے لسانی کشیدگی اور فسادات میںجل رہا ہے۔ ہزاروں گھرانے برباد ہو چکے ہیں اور ہزاروں لوگ اس آگ میں جل چکے ہیں۔ پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ایک عرصہ سے مذہبی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور کئی لوگ اس کشیدگی کے باعث قتل ہو چکے ہیں اور سینکڑوں بے گناہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان سب فسادات کے پیچھے نام نہاد لیڈروں کے سیاسی مفادات کار فرما ہیں اور یہ مفادات محض اس نظام انتخاب کی وجہ سے ہیں جن میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور یہ قوم مزید تقسیم سے تقسیم تر ہوتی جا رہی ہے۔

7۔ کمزور حکومتوں کی تشکیل

اس نظام انتخابات کے ذریعے جتنی بھی حکومتیں بنیں کمزور ثابت ہوئیں اور حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج اور بیوروکریسی کو اپنا پیشہ وارانہ کردار چھوڑ کر سیاسی کردار ادا کرنا پڑا۔ نتیجتاً سیاسی نظام میں عدم استحکام رہا۔۔۔ حکومتیں اپنی کمزوری کے باعث جلد ٹوٹتی رہیں۔۔۔ اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔۔۔ ملک سیاسی، اقتصادی اورمعاشرتی انحطاط کا شکار ہو گیا۔۔۔ سیاسی جماعتوں کو اب اس نظام میں نہ تو کسی ٹھوس پروگرام کے پیش کرنے کی ضرورت رہی اور نہ کسی دستور ومنشور کی۔۔۔ انہیں نہ کوئی جانتا ہے اور نہ پڑھتا ہے۔ ہر جماعت کو جیتنے والے امیدواروں (Winning Horses)کی ضرورت ہوتی ہے اور انہی کے ذریعے انتخاب جیتا جاتا ہے اس میں عوام کا کردار محض نمائشی اور رسمی رہ گیا ہے۔ اس نظام میں یہی پہلو حکومتوں کو کمزور اور سیاسی نظام کو غیر مستحکم رکھتا ہے۔ اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر فوجی آمریت بار بار جمہوری بساط لپیٹتی ہے اور پھر ملک اندھیروں کی نظر ہو جاتا ہے۔

8۔ نمائندوں کا احتساب ناممکن

موجودہ نظام انتخاب کے تحت نمائندے منتخب ہونے کے بعد بالعموم ہر قسم کے احتساب سے بالاتر رہتے ہیں۔ رائے دہندگان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے نمائندوں کا احتساب کر سکیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے نمائندوں کی گرفت کر سکیںیا پانچ سال سے پہلے ان نام نہاد نمائندگان کو تبدیل ہی کیا جاسکے۔ اس طرح یہ نمائندے نہ صرف اپنی پارٹی کے منشور اور پروگرام سے انحراف کرتے ہیں بلکہ رائے دہندگان سے کئے گئے وعدوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اور اگلے انتخابات پر دھن، دھونس اور دھاندلی کی بدولت دوبارہ منتخب ہوجاتے ہیں اور مسلسل اپنے ہی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ بدنام زمانہ ’’ قومی مفاہمتی آرڈیننس NRO‘‘ اس کی ایک مثال ہے جس کے ذریعے سیاست دانوں کو مقدس گائے قرار دے کر انہیں ہر طرح کے احتساب سے بالاتر قرار دے دیا گیا۔

9- عوام کی عدم دلچسپی میں اضافہ کا باعث

پاکستان میں اس نظام کے تحت جتنے بھی انتخابات منعقد ہوئے ان میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق زیادہ سے زیادہ 45فیصد افراد نے رائے دہی میں حصہ لیا۔ دوتہائی رائے دہندگان نے انتخابات سے عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ اس تناسب میں سے ووٹرز کو جبراََ گاڑیوں میں بھر بھر کر ووٹ ڈلوانے کے عمل کو نکال دیں تو اپنی مرضی سے ووٹ دینے والے لوگوں کا تناسب شاید 15%سے زیادہ نہ ہو گا۔

  • (1) رائے دہندگان نے ہمیشہ ان انتخابات سے بیزاری کا اظہار کیا اور عدم دلچسپی کی وجہ نظام انتخابات سے اعتبار اٹھ جانے کو بتایا اور اس نظام سے مایوسی کا اظہار کیا۔
  • (2) اس نظام انتخابات میں جس طرح کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں سنجیدہ اور تعلیم یافتہ طبقہ اسے کماحقہ اہل نہیں سمجھتا ان کی مجبوری ہے کہ جو افراد کھڑے ہیںانہی میں سے کسی ایک کے حق میں ووٹ ڈالیں۔
  • (3) اس نظام انتخابات کے تحت امیدواروں کی مہم کے دوران جو ماحول بنتا ہے اور اس مہم کے نتیجہ میں پولنگ کے بعد آنے والے نتائج عوام کی توقعات کے برعکس ہوتے ہیںاور رائے دہند گان کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ ان کا ووٹ بے معنی ہے، ملکی تقدیر کے فیصلہ خفیہ قوتوںکے ہاتھ میں ہے۔ لہذا اس کا ووٹ دینا نہ دینا برابر ہے۔
  • (4) پولنگ کے دن سیاسی دھڑے بندیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ پرچی بنوانا،پولنگ سٹیشن تک جانا اور مختلف کیمپوں میں بیٹھنا، بعض شرفا ء اس کشمکش میں اپنے آپ کو فریق نہیں بنانا چاہتے چنانچہ وہ رائے دہی کیلئے اپنا حق استعمال ہی نہیں کرتے۔

10۔ قومی مسائل حل کرنے میں ناکام نظام

اس نظام انتخابات کے تحت جتنی بھی حکومتیں بنیں ان کی اولین ترجیح اپنے اقتدار کو دوام دینا،اپنے مفادات کا تحفظ کرنا،حزب اختلاف کو ملک دشمن عناصر قرار دے کر انتقامی کاروائیاں کرنا اور اگلے انتخابات کے لئے ملکی حالات کو اپنے لئے ساز گار بنانے پر مرتکز رہی ہے۔ اس طرح ان حکومتوں کو کبھی بھی قومی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے65سال بعد بھی قومی مسائل حل نہیں ہو سکے بلکہ ہر اسمبلی پہلے سے موجود مسائل کے انبار میں اضافہ کر کے رخصت ہوتی جا تی ہے۔

11۔ ظلم اور اندھیر نگری پر مبنی نظام انتخابات

اس ملک میں ایک چپڑاسی کی تقرری کے لئے بھی میرٹ شرط ہے اور ایک کلرک کی تقرری کے لئے بھی تعلیمی قابلیت مقرر ہے، حتی کہ تحریری امتحان اور انٹرویو بھی لازمی ہے۔ ایک ڈرائیور کی تقرری کیلئے بھی ٹیسٹ اور انٹرویوضروری ہے۔ الغرض کسی چھوٹی تقرری سے لے کر بڑی تقرری تک سکول، کالج،یونیورسٹی کے اساتذہ، ڈپٹی کمشنر، کمشنر، سیکرٹری وغیرہ کی سطح تک بغیر مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ کے کسی شخص کی تقرری عمل میں نہیں آتی۔

موجودہ نظام انتخابات کے تحت صرف پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں ایسے ادارے ہیں جہاں ایم این اے اور ایم پی اے بننے کے لئے کسی قسم کی قابلیت، تجربہ، مہارت کردار اور ذہانت جیسی خصوصیات کی ضرورت نہیں رہی۔ بمشکل 2002ء کے انتخابات میں ارکان کی اہلیت کے لیے بی -اے کی شرط رکھی گئی تھی،مگر مفاد پرست سیاست دانوں کے مفادات پر ضرب پڑتی تھی، نئے چہرے سامنے آرہے تھے، لہذا اس کو بھی تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں صرف سرمایہ ودولت، غنڈوں اور رسہ گیروں کی فوج، ناجائز اور غیر قانونی اسلحہ اور حکومتی پارٹی کا ٹکٹ کی شرائط کو پورا کرنے والا شخص جیسا بھی ہو قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن ہو سکتا ہے۔

12۔ مہنگا ترین نظام انتخاب

موجودہ نظام انتخاب میں ٹکٹ کی خریداری سے لے کر تشہیر، گاڑیوں کے استعمال، انتخابی دفاتر کے قیام،دفاتر میں پر تعیش کھانے، ٹینٹ، سپورٹرز کے لیے ٹرانسپورٹ اور دیگر اخراجات، ووٹوں کی خریداری، انتخابی عملہ کی تعیناتی اور اپنی حمایت کے لیے رشوت، پولنگ والے دن سینکڑوں گاڑیوں، ہزاروں لوگوں کے کھانے،ٹینٹ وغیرہ پر اور بعد ازاں رزلٹ کو اپنے حق میں کر وانے کے لیے رشوت کی ادائیگی پر اٹھنے والے کروڑوں روپے درکار ہیں۔ کوئی قابل اور لائق فرد محض اس قدر خطیر رقم نہ ہونے کی وجہ سے اس سے باہر ہے۔ موجودہ نظام کے تحت کسی امیدوار کو قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے 10سے 20کروڑ جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے 10سے 15کروڑ روپے درکار ہیں۔

13۔ خاندانی اجارہ داری کا ذریعہ

موجودہ نظام انتخاب میں کیونکہ سرمایہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس لیے پورے آسمان سیاست پر چند خاندان ہی مسلط نظر آتے ہیں۔ آج پاکستانی سیاست پر لغاری، مزاری، کھوسے، چوہدری، خان، کاکڑ، میاں، زرداری، کاہرے، رئیسانی اور کھر وغیرہ اور اسی طرح کے خاندان چھائے ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ سلسلہ ان کی اگلی نسلوں تک جاری ہے۔ گزشتہ 65سالوں سے ہر جماعت کا سربراہ، اسکا بھائی، بیوی، بیٹی، بیٹا اور دیگر رشتہ دارہماری نسلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں۔

اس سے بڑھ کر یہ کہ اس قوم پر مسلط رہنے کے لیے ایک ہی خاندان میں سے ایک فرد ایک جماعت جبکہ دوسرا فرد دوسری جماعت کی طرف سے الیکشن لڑتا ہے۔ عوام کو ظاہر کیا جاتا ہے کہ دونوں مدمقابل ہیں اور ہماری عوام کی یہ سادگی ہے کہ ان میں سے ایک کو جتوا دیتی ہے جبکہ کھیل اصلاََ یہ ہے کہ کوئی بھی جیتے، سیٹ تو خاندان میں رہے گی۔ 65سال سے اس قوم کے ساتھ یہ ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

14- اکثریت پر اقلیت کی حکمرانی

اس ملک کی98%عوام غریب، محنت کش اور لاچار ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان جذبہ، ولولہ اور بیدار مغز ہونے کے باوجود نظام انتخاب کی وجہ سے آگے بڑھ نہیں سکتے جبکہ اس نظام کے ذریعے 98%عوام کی تقدیروں کے فیصلے وہ2%خواص کرتے ہیں جن میں اکثریت کو نہ تو غریب عوام کے مسائل کا علم ہے اور نہ ہی وہ خود کبھی بھوک، کسمپرسی اور تکلیف کی کیفیت سے گزرے ہیں۔ وہ کیا جانیں کے غریب کا دکھ کیا ہے ؟…غریب کے حالات اسی وقت بدلیں گے جب ایسا نظام انتخاب رائج ہو کہ غریبوں کا نمائندہ غریبوں میں سے منتخب ہو کر اسمبلی میں جائے۔

15- ارکان اسمبلی کی خریدو فروخت کا ذریعہ

حکومت کی تشکیل کے وقت منشور اور ملی جذبے کے بغیر محض مفادات کے لیے الیکشن لڑنے والے کامیاب امیدواروں کی خریدوفروخت کے لیے منڈی لگائی جاتی ہے۔ اور اس منڈی میں ہر کوئی زیادہ سے زیادہ داموں بکنے کے لیے اپنے دام بڑھاتا ہے۔ تجزیہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی فرد کے پاس مطلوبہ تعداد میں ارکان اسمبلی خریدنے کے لیے پیسے ہوں تو وہ بغیر پروگرام اور منشور کے خریدی ہوئی اسمبلی کے ذریعے اسلامی جمہویہ پاکستان کاحکمران بن سکتا ہے۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسی اسمبلی اور ممبران کس طرح غریب عوام کے حقوق کی ادائیگی کے حق میں فیصلہ کر سکتے ہیں اور عوامی فلاح کے لیے فیصلے کیسے ممکن ہیں۔

16- منافع بخش کاروبار اور کرپشن کا ذریعہ

موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے ٹکٹ کی خریداری سے لے کر اسمبلی تک پہنچنے کے لیے کروڑوں روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ ممبر اسمبلی جب اس قدر خطیر رقم خرچ کرتا ہے وہ اسمبلی میں پہنچ کراپنی سابقہ انویسٹمنٹ پوری کرنے، آئندہ الیکشن اخراجات اور منافع کے حصول کے لیے کل اخراجات سے تین گنا رقم بٹورنے کے لیے کرپشن کرتا ہے اور ضمیر تک فروخت کرنے کو تیار ہوتا ہے، ناجائز ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ خصوصی پرمٹ اور وزارتیں سب اسی مال بنانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے لوگ قومی سوچ، ملکی مفادات، عوامی فلاح کے جذبے سے عاری ہوتے ہیںاور غریب عوام اور پاکستان وہاں کے وہاں کھڑے ہیں۔ ریلوے،سٹیل مل، پی آئی اے اور دیگر ادارے اسی سوچ کی بھینٹ چڑھے ہیں۔

17- منشور کمزور لیکن امیدوارطاقتور

موجودہ نظام انتخاب میںہر پارٹی کوطاقتورامیدوار (Winning Hourses)کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے صلاحیت، کردار، نظریہ، پارٹی منشور کو بالائے طاق رکھ کر پارٹی قیادت ا ن امیدواروں کے حصول کے لیے اصولوںپر بھی سمجھوتہ کر لیتی ہے۔ اسی بنا پر حکومت سازی کے بعد بھی پارٹی قیادت پروگرام کے مطابق حکومت چلانے کی بجائے ان ارکان کی خوشامدوں میں مصروف رہتی ہے اور اکثر ان کے مفادات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ اسی طرح عوامی پروگرام اور بڑے بڑے نعرے سالوں کی حکمرانی کے بعد بھی ادھورے رہتے ہیں اور قوم کو پھر ایک نیا نعرہ دے کر بے وقوف بنایا جاتا ہے۔

18- گونگوں اور بہروں کی پارلیمنٹ کی تشکیل

موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے آنے والے اراکین اسمبلی کا مقصد عوامی فلاح اور قومی مفاد کا تحفظ نہیں ہے۔ اس لیے اسمبلی کے اجلاس کے دوران اراکین اسمبلی کی حاضری مکمل نہ ہونا معمول ہے۔ اخبارات کا ریکارڈ اس کا گواہ ہے۔ کئی اراکین اسمبلی میں وہ ہیں جنہوں نے ایک مرتبہ بھی اپنا مائیک آن نہیں کیا اور نہ ہی اسمبلی میں بحث، نقطہ اعتراض یا ایک لفظ بھی بولا ہوبلکہ میڈیا گواہ ہے ہے کہ ہمارے اراکین پارلیمنٹ دوران اجلاس بھی خواب خرگوش کے مزے لیتے رہتے ہیں۔ ملک کے اس قدر اعلیٰ ادارے میں جہاں قوم کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں، قوانین بنتے ہیں اس طرح کا غیر سنجیدہ عمل فیصلہ سازی کے عمل کو مشکوک بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی فلاح اور قومی ترقی کے حوالے سے قانون سازی نہیں ہو پاتی۔ اگر کوئی فیصلہ ہو بھی جائے تو اس پر عملدرآمد کے اثرات عوام تک نہیں پہنچتے۔

19- بے وقعت و بے اختیار پارلیمنٹ

تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں حکمرانوں نے ذاتی مفادات اور حکومت کو طول دینے کے لیے راتوں رات قانون سازی کروائی اور اراکین اسمبلی نے بھر پور تائید کی۔ پارلیمنٹ فیصلے کرتی ہے مگر اس کی قدر نہ ہونے کی وجہ سے عملدرآمد نہیں کرواسکتی۔ یہ پارلیمنٹ اس وقت تک طاقتور نہیںہو سکتی جب تک اس کی تشکیل کے لیے نمائندگان کے چنائوکے نظام(نتخابی نظام) میں تبدیلی نہ کی جائے۔

20- قانون شکن ہی قانون ساز

موجودہ نظام انتخاب کا عجیب تماشہ ہے کہ اس ملک میں قانون سازی کے لیے ان افراد کو منتخب کرنا پڑتا ہے جو خود قانون شکن ہوں اور دن دیہاڑے سر عام قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔ بلکہ اب تو پاکستان میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ اس ملک میں کوئی جتنا بڑا قانون شکن ہو گا اسی قدر بڑے عہدے پر فائز کیا جاتا ہے۔

ہمارا نقطہ نظر

پاکستان عوامی تحریک کی تشکیل ایک با مقصد اور تعمیری سیاست کے لئے ہوئی ہے اور پاکستان عوامی تحریک نے اپنے قیام سے لے کر آج تک تعمیری سیاست پر ہی کاربند ہے۔ 25مئی 1989ء کو موچی دروازہ کے جلسہ عام میں اعلان لاہور کے مطابق پاکستان عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے اس نظام کے تحت انتخابات میں ایک یا دو بار حصہ لینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ چنانچہ دوسری مرتبہ 2002ء کے انتخابات میں بھر پور محنت کے ساتھ حصہ لیا۔ پاکستان عوامی تحریک نے1990ء اور2002ء کے انتخابات میں حصہ لے کر عملی تجربہ کیا او ر نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس نظامِ انتخابات کے تحت اہل اور با صلاحیت قیادت کا انتخاب ہر گز نہیں ہو سکتا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی قیادت میں پاکستان عوامی تحریک پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے مگر ہم ملک اور قوم کو تباہی کے گڑھے تک پہنچانے کی سازشوں کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھنا گوارا نہیں کر سکتے۔ اس لیے موجودہ نظام انتخابات اور اس سے وجود میں آنے والے استحصالی نظام کو بدلنا نا گزیر ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام کے مشاورتی اور جمہوری ضابطوں کے تحت نمائندگی کا ایک ایسا سیاسی ماڈل جو پاکستان کے حالات، ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ہو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے اور اس نظام انتخاب کے تحت بننے والی حکومت ہی عوام کی حقیقی نمائندہ اور صحیح جمہوری حکومت کہلا سکتی ہے۔ لہذا پاکستان عوامی تحریک ملک و قوم کے بہترین مفاد میں یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ نظام انتخابات کو ختم کر کے ’’ حقیقی عوامی نمائندگی کا حامل نیا نظام انتخاب‘‘ تشکیل دیا جائے تاکہ صحیح معنوں میں اسلامی، انقلابی، جمہوری اور فلاحی حکومت تشکیل پائے۔

جملہ مسائل کی جڑ

مندرجہ بالا تجزیے سے ثابت ہوا کہ ملک کے تمام سنگین مسائل کی جڑ کرپٹ نظام انتخاب ہے۔ اس کرپٹ نظام انتخاب نے قوم کو اس کی حقیقی نمائندگی سے محروم کردیا ہے۔ عوام کے98فیصدغریب و متوسط طبقات سے کسی امیدوار کا منتخب ہوناعملاََنا ممکن ہو چکا ہے کیونکہ موجودہ نظام انتخاب کی خامیوں کی وجہ سے انتخابی حلقہ جات پر کرپٹ، سرمایہ دار، جاگیر دار، وڈیروں، مافیا، بااثر اور حکومتی امیدواروںکا کنٹرول ہو چکا ہے۔ حتی کہ کسی حلقہ میں کوئی بڑی پارٹی اپنے انتہائی دیرینہ نظریاتی ورکر کو محض اس لئے ٹکٹ نہیں دیتی کہ وہ کروڑوں روپے خرچ نہیں کر سکتا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ :

  • ٭ نظام انتخاب شفاف اور سستا ہو۔
  • ٭ نظام انتخاب حکومتی، بااثرطبقات، سرمایہ داروں اور الیکشن کمشن کے ناجائز اثرو رسوخ سے آزاد ہو۔
  • ٭ نظام انتخاب جعلی شناختی کارڈ سازی اور جعلی ووٹس، جانبدارانہ حلقہ بندیوںو پولنگ سکیم، الیکشن عملہ کی ملی بھگت اور پولیس انتظامیہ و غنڈہ عناصر کی ناجائز مداخلت سے پاک ہو۔
  • ٭ تشہیر، جلسوں، ٹرانسپورٹ، الیکشن کیمپوں کے اخراجات اور سرمایہ کے ذریعے ووٹرز کی رائے پر اثر انداز ہونے جیسی انتخابی دھاندلیوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
  • ٭ نظام انتخاب عبوری حکومتوں، لوکل باڈیز اداروں اور الیکشن کمیشن کے ناجائز اثر ورسوخ سے آزاد ہوتا کہ سیاسی جماعتیں تمام تر مصلحتوں سے بالاتر ہو کر غریب و متوسط با صلاحیت کارکنان کو میرٹ پر اسمبلیوں میں نمائندگی کے لیے نامز د کر سکیں۔
  • ٭ تا کہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے حصول کے لئے کوئی ڈیل نہ کرنا پڑے اور نہ ہی انہیں اسکے لئے غیر فطری اتحاد بنانا پڑیں بلکہ سیاسی جماعتیں عوامی ایشوز پر اپنا حقیقی کردار ادا کر سکیں۔

موجودہ کرپٹ اور مہنگے انتخابی نظام کی وجہ سے تقریباََ 70فیصد قوم انتخابات سے کلیتاََ لاتعلق ہوگئی ہے اور قوم اپنے بنیادی آئینی و انسانی حقو ق سے محروم ہو گئی ہے۔ لہذا یہ ملک و قوم کے ریاستی و مقتدر اداروں بشمول عدلیہ، قانون سازا داروں، سیاسی پارٹیز و اراکین پارلیمنٹ، میڈیا سیاسی جماعتوں، دانشوروں و وکلاء طبقات کی آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس انتہائی اہم قومی حساس مسئلہ کے حل پر توجہ دیں اور ملک و قوم کو موجودہ کرپٹ انتخابی نظام سے چھٹکارا دلا کر شفاف نظام انتخاب مہیا کریں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری انتخابی اصلاحات کا ایک مکمل قابل عمل پیکج قوم کو دے چکے ہیں کہ آئندہ الیکشن آئین و قوانین پاکستان کے مطابق کرائیں جائیں مگر شومئی قسمت کہ حکومتی ایوانوں سے لے کر آئین و قوانین کے محافظ اداروں تک تمام اس ایجنڈے سے متفق ہونے کے باوجود اپنے اپنے مفادات کے پیش نظر اس اہمیت کے حامل قومی مفاد کے ایجنڈا کے اطلاق سے گریزاں دکھائی دیتا ہے۔

PATحقیقی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے

پاکستان عوامی تحریک انتخابات کے خلاف نہیں بلکہ موجودہ بد عنوان اور مہنگے انتخابی نظام کے خلاف ہے۔۔۔ پاکستان عوامی تحریک جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور جمہوری نظام کے خلاف نہیں۔۔۔ پاکستان عوامی تحریک یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ نظام انتخاب ملک و قوم کو حقیقی جمہوریت کی طرف نہیںبلکہ تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے لہذا اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ نظام کا متوقع انجام

ہم نے پوری دیانتداری اور خلوص کے ساتھ موجودہ نظام انتخاب کا تجزیہ پیش کر دیا ہے اورہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگرملک میں جاری نظام انتخاب پر مطلوبہ تبدیلیاں نہ لائی گئیں توآئندہ سالوں میں ہونے والے عام انتخابات اور ان کے نتیجے میں قائم ہونے والی مرکزی اور صوبائی حکومتیں نہایت کمزور اور غیر مئوثر ہوں گی۔

  • غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا جائے گا اور معاشی بدحالی مزید بھیا نک صورت اختیار کر لے گی۔
  • مذہبی منافرت، سیاسی انتشار، صوبائی عصبیت اور طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہو گا۔
  • انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ذریعے مزید تباہی پھیلے گی۔
  • اسلامی شعائر جو معاشرے سے پہلے ہی مٹ رہے ہیں مزید ناپید ہو جائیں گے۔ نتیجتاََ بے حیائی، عریانی، فحاشی اور اخلاقی بے راہ روی عام ہو جائے گی۔
  • ریاستی ادارے مزید کمزور ہوتے چلے جائیں گے۔ حکومت اور طاقت کے مرکز و محور ’’ خفیہ ‘‘ اور سازشی عناصر رہیں گے۔
  • پاکستان نہ صرف عالم اسلام کی توقعات پر پورا اترنے سے قاصر ہو گا بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک ناکام ریاست کے طور پر جانا جائے گا۔

یہ سارے حالات ملک و قوم کو ایک بھیانک انجام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان عوامی تحریک ایسے عمل میں کیسے شریک ہو سکتی ہے جس کے نتائج کا تصور کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔

دعوتِ عمل

موجودہ نظام انتخاب ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے یہ نظام انتخاب عوام دشمن مقتدر طبقات کا محافظ ہے اور اسکی موجودگی میں پاکستان میں کسی قسم کی مثبت یا حقیقی تبدیلی آنا ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے جملہ مسائل کی تشخیص کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے متعدد عو امی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ موجودہ نظام انتخاب صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی عیاشیوں کا ذریعہ ہے۔ اور غریب عوام کو اپنے مسائل میں الجھاکرمایوسی کے گڑھوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے گزشتہ 65 سالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور آئندہ 100سالوں تک بھی اس نظام کے تحت انتخابات ہوتے رہیں تب بھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس لیے قوم کو موجودہ غاصبانہ اور کرپٹ نظام کے خلاف منظم جدوجہد کرنا ہو گی۔ اس کے بغیر عوامی تقدیر بدلنا ممکن نہیں۔ آج ہمیں سیاست یا ریاست میں سے کسی ایک کاچناؤ کرنا ہو گا۔ ‘‘

موجودہ نظام انتخاب کے خلاف قدم اٹھانا ہوگا۔ اسی سے روشن مستقبل، ملی غیرت، قومی وقار،بنیادی حقوق، مساوات اورعوامی مسائل کا حل ممکن ہے۔ ورنہ ہماری آنے والی نسلیں بھی اسی ظلم اور جبر پر مبنی نظام کے ہاتھوں پستی رہیں گی۔