نگاہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نگاہے

منیر احمد ملک۔ مظفر گڑھ

مومن کا زادِ راہ تو فقط محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔ اور یہی محبت۔۔۔ زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ۔۔۔

ان کی محبت ہے سلامت ہم بھی
ان کی محبت کے سوا کچھ نہ خدارا مانگو
محبت؟۔۔۔ زندگی ہے۔
زندگی کا خوبصورت استعارہ ہے
فضائے دہر میں کوئی بھی موسم ہو
کوئی کتنا ہی برہم ہو
دل و جاں نے بہت صدمات جھیلے ہوں
محبت نے ہمیشہ حسن کا چہرہ نکھارا ہے
ہر اک ویران آنگن میں
ہمیشہ زندگی کرنے کے جذبے کو ابھارا ہے
اور اگر یہ کہا جائے تو وادی جاں مہک مہک جائے کہ
مسافر نیم جاں ہوکر۔۔۔ اجل کی راہ تکتا ہو
سلگتی ریت کے ذرے۔۔۔ بدن کو چاک کرتے ہوں
لہو زخموں سے رس رس کر۔۔۔ زمیں پر خاک ہوتا ہو
تو ایسے میں مرے ہمدم۔۔۔ محبت زخم بھرتی ہے
محبت چھاؤں کرتی ہے۔۔۔ محبت ابرِ باراں ہے
اصل حیات تیری محبت ہے جان جاں
ہے تیرا عشق اصل میں سرمایہ حیات

محبوب خدا آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام زمان و مکاں کی سرحدوں سے بہت بلند ہے۔ پانچوں وقت شرق سے غرب روئے زمین کے ہر خطے میں اذانوں میں مسجدوں کے فلک بوس میناروں سے شب و روز محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسیں نام کی منادی ہوتی ہے۔ صدیاں بیت گئیں مگر اس آواز کا سحر آج بھی گردش لیل و نہار کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔۔۔ یہ حسن آرا نام تسکینِ قلب و جاں ہی نہیں بلکہ وہ مینارہ نور بھی ہے جس کی روشنی میں بھولی بھٹکی انسانیت آج بھی منزل کا نشاں پاتی نظر آتی ہے۔

آوازِ سحر سُن اور خموشی سے غور کر
یہ کس کا نام لینے، ہوتی ہے سحر پیدا

قدسی مقال اقبال نے اپنی عقیدت کے عطر کو اِن خوبصورت الفاظ کی سُندرتا میں سمویا ہے۔

در جہاںِ ذکر و فکر و انسِ و جاں
تُو صلوۃ صبح تو بانگِ اذاں

جہاں تک محبوبِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمالِ جہاں آرا کا تعلق ہے تو اِس حُسنِ تصور کی پاسداری کے لئے سینے میں دھڑکتے ہوئے دلوں کے بطن سے جگر ہائے لَخت لَخت جمع کئے جاتے ہیں۔۔۔ ڈوبے ہوئے مہر و مہ کی چھنتی ہوئی روشنی میں عقیدتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چمکتے ہوئے کواکب کو چُنا جاتا ہے۔۔۔ بیتی ساعتوں کی ڈولتی چاندنی میں اِرادتِ مرتضیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زرتار کرنوں سے ریشم و کمخواب بُنا جاتا ہے۔۔۔ تب جاکر محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِن کے اطلسی پردوں میں جھروکے سے جھانکتے ہوئے چاند کی طرح سینہ قرطاس پہ ہشت پہلو میں جلوہ گر ہوتی ہے۔۔۔ اور فکرو عمل، تحریر و تقریر محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معمور ہوتے ہیں۔

ماتھا ہے جیسے چاند کی کشتی پہ آفتاب
اَبروہیں جیسے جھیل پہ سوئی ہوئی ہو رات
اُس موہنے سے مُکھ پہ آنکھیں خد دراز
اُس کے لباں ہیں مُشک سے لکھے ہوئے گلاب
یا ایھا المزمل! سورج بھی ماند ہیں
یا ایھا المدثر! کملی میں چاند ہیں

میرے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حُسن بلاشبہ نظروں کو خیرہ کردینے والی روشنی ہے اللہ کسی کو توفیق دے تو دیکھے کہ روشنی لفظوں میں کیسے گوندھی جاتی ہے۔۔۔ چاند آنکھوں میں کیسے اُتارے جاتے ہیں۔۔۔ اور جان اُن پہ کیسے واری جاتی ہے۔

گہر وہ لفظ کتنے محترم ہیں
جو کام آجائیں آقا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ثنا میں

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر ارشاد قولِ فیصل ہے اور ہر عمل زندگی کے لئے نشانِ منزل۔ اسی لئے فرمایا گیا:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔

(الاحزاب:21)

’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہ (حیات) ہے ‘‘۔

یہ رہنمائی قدم قدم پہ ملتی ہے، بات بات میں بھی اور اشارات و کنایات میں بھی، اِس مہہ تاباں کی چاندنی اعجازِ تکلم میں بھی نکھرتی ہے اور حُسنِ گفتار میں بھی۔ اس جمالِ جہاں آرا کی روشنی پھولوں کی طرح کھِلتے لبوں میں بھی ملتی ہے اور خامشی و سکوت کی منہ بند کلیوں میں بھی۔

غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراسر رُشد و ہدایت، سراپا روشنی، سرتا بقدم مجسمہ حُسن و کمال اور مینارہ نور ہیں جن سے پوری انسانیت قیامت تک رہنمائی اور صراطِ مستقیم کا نشاں پاتی رہے گی۔

پردہ اِس چہرہ انور سے اٹھا کر اِک بار
اپنا آئینہ بنادے مہهِ تاباں ہم کو

بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ قافلہ سالارِ عشق سیدنا صدیق اکبر کے دردِ فراق اور سوزِ عشق کا رنگ امتِ مرحومہ میں پیدا کیا جائے۔ امتِ مرحومہ کا ہر فرد اس خزانہ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں اپنے انگ انگ میں بسائے ہوئے ہو کہ ہجر کے گیت اس کے لب پر ہوں۔۔۔ عقیدت کے آنسو لئے ہوئے ہو۔۔۔ جدائی کی کسک موجود ہو۔۔۔ ملن کی تڑپ ہو۔۔۔ ہجر و فراق میں سلگتے دلوں میں محبت بھری داستاں ہو۔۔۔ محبت بھی وہ جو پھول کی طرح مُنزہ اور چاند کی طرح بیداغ ہو۔۔۔ خالقِ کائنات نے جسے معراج کی رات اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں ترتیب دیا۔ الغرض ہر فرد بارگاہ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچنے کی تڑپ اور ان کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاضری کی تمنا لئے ہوئے ہو۔ مہرو وفا کے اس لالہ زار میں کھِلے ہوئے ہر پھول کی خوشبو روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مُشک بو ہو تو تب جاکر محبتِ فکرو عمل پر بھی اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ بقول انوارالمصطفی ہمدمی

احساس میں مہکی ہوئی خوشبو تری باتیں
الفاظ میں اُترا ہوا جادو تری باتیں
تُو حُسن مرے دن کے اجالوں کی دھنک کا
راتوں کو چمکتے ہوئے جگنو تری باتیں
تُو ہی تو دلاسا ہے مرا شامِ الم میں
بہنے نہیں دیتی مرے آنسو تری باتیں
اُڑ جائے اگر نیند غمِ دہر سے میری
سہلا کے سُلا دیتی ہیں گیسو تری باتیں
چلتا ہوں تو دامن بھی چمک اٹھتا ہے میرا
پھیلی ہیں گُہر بن کے ہر اک سو تری باتیں
سنتا ہوں جو بہتے ہوئے جھرنوں کا ترنم
محسوس ہوا کرتا ہے بس تُو تری باتیں
سرمایہ ہیں انوار کی اس عمرِ رواں کا
جاناں تری آنکھیں ترے اُبرو تری باتیں

گویا

اُن کی باتیں امرت جیسی کانوں میں رس گھولیں
وہ بولیں ہم سنتے جائیں جیون بھر نہ بولیں

حُسنِ یوسف (علیہ السلام) کے پرستاروں میں ایک خوش بخت بوڑھی عورت کا ذکر ملتاہے جو سوت کی ایک اَٹی لے کر بازارِ مصر میں جانکلی تھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اُس کا راس المال اُس کی بے مائیگی کا اشتہار ہے لیکن اُس کی جراتِ رندانہ نے اُس کے نام کو جریدہ عشاق کی پیشانی کا جھومر بنادیا۔ وہاں معاملہ منصبِ نبوت کے لاتعداد حاملین میں سے صرف ایک نبی کا تھا اس کے مقابلے میں ہماری عقیدت کا مرجع، ہمارے ایمان کا منبع، ہمارے وجدان کا منتہا، ہمارے احساس کا ملجا اور ہمارے شعور کا مدعا وہ ذات پاک ہے جو خاتم المرسلیں، رحمت اللعالمیں، محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات اور محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امتیازی صفات سے مُتصف ہے۔

اِس دُرِیتیم کی سیرتِ طیبہ کے بے شمار پہلوؤں کو اجاگر کرنے والے ان گنت اہلِ قلم روزِ اول سے ہی مصروفِ کار ہیں اور ’’ہر گُلے رارنگ و بوئے دیگر است‘‘ کی تفسیر رقم ہوتی جارہی ہے۔ اصحابِ فکرو نظر اپنی بساط اور ظرف کے مطابق قافلہ در قافلہ زمان و مکان کی حدود قیود سے بے نیاز پروانہ وار اس آخری شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاهِ ناز میں ہدیہ نیاز پیش کرنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں کوشاں رہتے ہیں اور یہ سلسلہ ابد تک یونہی چلتا رہے گا لیکن اُس خیرالبشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ بیان ہوسکے ہیں نہ ہوسکیں گے۔ ذوقِ سلیم کی تشنگی آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔ اظہارِ بیاں کا عجز اور فکرِ رسا کی نارسائی روز بروز نمایاں ہوتی جارہی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ خود خالقِ کون ومکاں اور اس کے مقربین ملائکہ ہمارے آقا نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح و ثنا میں رطب اللساں رہتے ہوں اور اہل ایماں کے نام فرمان جاری ہوچکا ہو کہ وہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے رہیں۔ ان حالات میں ہمارا عزمِ مدحت نگاری سوائے خیالِ خام کے اور کیا ہوسکتا ہے جہاں لعل و گہر کے خزانے لٹانے والوں کو ختم نہ ہونے والی قطاریں لگی ہوئی ہوں وہاں ہماری سوت کی اَٹی کی کیا حیثیت ہے لیکن پھر بھی اِس جسارت کے پیچھے اظہارِ عقیدت کا جذبہ کارفرما ہے شاید بارگاهِ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بار پا جائے۔

تُو رنگ ہے خوشبو ہے حلاوت ہے نمو ہے
تُو حُسنِ چمن بن کے مری آنکھ میں لہرائے
کجلائے نہ سورج تری رحمت کا ابد تک
تاحشر تِرے پیار کا مہتاب نہ گہنائے
جو عہد بھی آئے تری سیرت پہ ہو نازاں
جو دور بھی آئے ترے کردار پہ اِترائے

ہماری ہر کاوش کا منتہا و مقصد یہ ہونا چاہئے کہ کاش ہم ناتمام دلوں میں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُس والہانہ محبت کے ٹوٹے ہوئے تار کو پھر سے جوڑ سکیں جوہر صاحبِ ایماں کا سرمایہ دل و جاں ہے۔۔۔ دلوں کے اجڑے ہوئے چمن میں باد سحر گاہی کا نم جگہ پائے۔۔۔ قلب کے لق و دق صحرا میں حُبِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدا گونجے۔۔۔ اگر اس طرح ہوجائے تو سمجھیں بخشش کا سامان ہوگیا۔۔۔ اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رِدائے رحمت میں جگہ پالی۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سایہ عاطفت میں پناہ مل گئی۔

اِس سوچ میں ڈوبا ہوں ندامت میں گڑا ہوں
ہر چند گناہگار و سیاہ کار بڑا ہوں
گٹھڑی تھی گناہوں کی کہیں گر گئی سر سے
دربارِ رسالت میں تہی دست کھڑا ہوں

محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روحِ ایماں بھی ہے اور تسکینِ قلب و جاں بھی۔۔۔ یہ آبروئے ملت بھی ہے اور وقارِ زندگی بھی۔۔۔ جس نام کے صدقے میں ملی دولتِ کونین۔۔۔ وہ نام تو ہر وقت مرے وردِ زباں ہے۔

ہے گرمئی بازارِ محبت ترے دم تک
اے عشقِ نبی تو عظمتِ آدم کا نشاں ہے

ایمان کی عمارت خواہ کتنی ہی بلند و بالا کیوں نہ ہو اگر بنیادوں میں حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمیزش نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ وہ تمام بلندی پستی کا اک ڈھیر ہے اور اس ڈھیر پہ کھڑے ہوکر خوشنودی خدا کا ایک ذرہ بھی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

صرف توحید کا شیطاں بھی ہے قائل یوں تو
شرط ایماں ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی یہ نہ بھول
اُن سے نسبت نہ ہو تو محاسن بھی گناہ
وہ شفاعت پہ ہو مائل تو جرائم بھی قبول

ہم بے ننگ و نام کیوں؟

گاہے گاہے جبینِ خیال پہ یہ سوال بے ساختہ اُبھر آتے ہیں کہ من حیث القوم ہم بے ننگ و نام کیوں ہیں۔۔۔؟ ہماری پستی وادبار عسرت و نکبت، محکومی و غلامی کی وجہ کیا ہے۔۔۔؟ ہماری ملتِ بیضا عظمتِ رفتہ سے محروم کیوں ہے۔۔۔؟ ہماری امتِ مسلمہ قحط الرجال کا شکار کیوں ہے۔۔۔؟ ذلت و رسوائی، جبرو استبداد اور ٹھوکریں قومِ رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیوں مقدر بن چکی ہیں۔۔۔؟

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

ان سوالوں کا جواب حکیم الامت علامہ اقبال کی بصیرت اور دور رس نگاہ میں کچھ اس طرح ہے کہ

شبے پیشِ خدا بگریستم من زار
مسلماناں چر ازا رند و خوارند
نِدا آمدنمی دانی کہ ایں قوم
دلے دارند و محبوبے نہ دارند

’’میں ایک رات مناجات میں بارگاهِ الهٰی میں زار و قطار رودیا اور سوال کیا کہ مسلمان اتنے زار و نزار اور عاجزو خوار کیوں ہیں۔۔۔؟ جواب آیا کہ یہ قوم دل تو رکھتی ہے مگر دل بر نہیں رکھتی۔ یعنی ان لوگوں کے پاس دل تو ہے مگر اس دل میں بسنے والا کوئی محبوب نہیں‘‘۔

ہتھیلی پر ہے دل دلبر نہیں ہے
اثاثہ ہے تو غارت گر نہیں ہے

باالفاظِ دگر

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں خاک کا ڈھیر ہے

قُدسی مقال اقبال نے اپنی اِس پر سوز آہ کو باندازِ دگر اِن حروف و معانی کا پیرہن پہنایا ہے۔

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغامِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تمہیں پاس نہیں

پروفیسر محمد اقبال جاوید کے الفاظ میں ’’حکیم الامت کی نظر میں ملتِ بیضا کا دل ایک ایسا پھول ہے جو خوشبو سے محروم ہے۔ دل تمنائے محبوب سے زندہ ہوتے اور تابندہ رہتے ہیں۔ اگر آرزو کی یہ لطافت اور یاد کی یہ چاہت چھن جائے تو نخلِ دل کے برگ و بار مُرجھا جاتے ہیں اور زندگی ویرانیوں کا مرکز بن جاتی ہے۔ گویا دل کی بہار گُل ہائے آرزو کے مہکنے سے ہے۔ اسی لئے دل کو شہرِ آرزو کہتے ہیں۔ شہرِ آرزو محبوب کے تصور سے ہی بستا ہے اور محبوب کے تصور کے بغیر دل محض گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اور اس دل سے نکلنے والی آواز محض بے کیف الفاظ کا مجموعہ تو ہوسکتی ہے مگر اس میں اثر آفرینی کی نشتریت پیدا نہیں ہوسکتی۔ عقل سے لے کر حکمت تک، علم سے لے کر نظر تک اور خودی سے لے کر بے خودی تک جتنی منزلیں ہیں ان تک پہنچنے کے لئے علامہ اقبال کے نزدیک اسوہ حسنہ ہی واحد راستہ ہے۔ یہی وہ تعلق ہے جسے اپناکر انسانی زندگی پہ مہرو ماہ رشک کرتے ہیں اور اس نسبت سے ہٹ کر زندگی بے آبروئی اور رسوائی کو اپنا مقدر بنالیتی ہے علامہ اقبال ایک اور جگہ سخن سرا ہیں۔

اے تہی از ذوق و شوق و سوز و درد
می شناسی عصرِ مارابہ ماچہ کرد
عصرِ ما مارا زِما بیگانہ کرد
از جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیگانہ کرد

’’اے کہ تُو ذوق و شوق، سوزِ عشق اور دردِ محبت سے خالی ہے تو کیا جانے کہ ہمارے زمانے نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے؟ زمانے نے تو ہمیں اپنے آپ سے بے نیاز کرکے جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی بیگانہ کردیا ہے‘‘۔

کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب ہم نے صلہ دیا
جو ہمارے غم میں بہت گھلا اسے ہم نے دل سے بھلادیا
جو جمالِ روئے حیات تھا جو دلیلِ راهِ نجات تھا
اُسی راہرو کے نقوشِ پا کو مسافروں نے مٹادیا
جو ترا خیال تھا ہم عناں تو غبارِ راہ تھی کہکشاں
تُو بچھڑ گیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرادیا

ایک اور شاعر نے کہا:

تجھ سے مل کر زندگی مسجودِ مہر و مہ تھی
تجھ سے کٹ کر دربدر بے آبرو ہونے لگی

کسی نے کیا خوب لکھا ہے کہ ’’زمانے کے دردو آشوب اور مصائب و آلام کے حوالے سے ملت اسلامیہ اپنے ادیبوں اور شاعروں کے وسیلے سے بارگاهِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنا فسانہ غم سناتی اور نگاهِ کرم کی طلب گار ہوتی رہی ہے۔ رومی و جامی، عرفی و خاقانی، سعدی و سینائی، قدسی و بوصیری، حالی و مینائی ایک ہی نگاہ کے تمنائی اور ایک ہی زلف کے اسیر ہیں ان کے کفِ دست تمنا پہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاهِ التفات کے چراغ اب بھی جل رہے ہیں۔۔۔ ’’چشم رحمت بکشا سوئے من انداز نظر‘‘۔۔۔ ’’اے خاصہ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے‘‘ کی صدائے دلنواز اب بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے۔۔۔ ملتِ بیضا کے آشفتہ لبوں پہ استغاثے کا رنگ اب بھی نمایاں ہے۔۔۔ کربلائے عصر کی تشنہ لبی ساقی کوثر کے درِ اقدس کی اب بھی تمنائی ہے یہی وجہ ہے کہ حکیم الامت علامہ اقبال ہمارے قومی انحطاط اور دینی زوال کا سبب جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیگانگی قرار دیتے ہیں اور قوم کے اس مرضِ کہن کا چارہ بھی بالآخر مولائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ چارہ ساز ہی میں ڈھونڈتے ہیں وہ ملت کے زخمِ بیکسی کا مرہم اور دردِ عاجزی کا دارو اُن کی نظرِ کرم ہی میں تلاش کرتے ہیں‘‘۔

مسلماں آں فقیرے کج کلا ہے
رمیدا ز سینہ او سوز آہے
دلش نالد! چرا نالد؟ نداند
نگاہے یارسول اللہ۔۔۔ نگاہے

مسلماں وہ فقیرِ کج کلاہ ہے جس کے سینے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا سوز رخصت ہوگیا ہے۔ اسی لئے اس کا دل محو گریہ ہے، وہ کیوں گریہ کناں ہے، وہ یہ نہیں جانتا۔۔۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اس کے حالِ زار پہ نگاہ کرم فرمایئے، اس پہ نظر عنایت کیجئے۔

پھر کوئی صدیقِ اکبر دورِ حاضر سے اٹھا
پھر کوئی فاروقِ اعظم کو بنا مہرِ مبیں
کوئی عثمانِ غنی جودو سخا میں بے مثال
کوئی حیدر فقر و درویشی کی صبح اولیں
یارسول اللہ! ہماری عاجزی کی لاج رکھ
ہم گنہگاروں پہ اپنی رحمت کا تاج رکھ

(شورش کاشمیری)

مادیت کے اِس پُرفتن دور میں دیں کا اثاثہ ہم سے لُٹتا اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث ہم سے چھنتی جارہی ہے لیکن خاکسترِ دل میں شعلہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری دبی ہے ابھی بجھی نہیں۔۔۔ نامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری رگِ جان پہ رقم ہے۔ کوششِ اغیار کے باوجود زمانے کے ہاتھوں چھپا ہے ابھی تک مٹا نہیں۔۔۔ عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آبرو۔۔۔ عاشقانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم سے قائم ہے۔۔۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی فکر کرنے، اسلام کے احیاء اور تجدید دین کے لئے کاوشیں کرنے والوں اور عزت و ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی معنوں میں حفاظت کرنے والوں سے ابھی دنیائے رنگ و بو خالی نہیں ہوئی۔۔۔ دورِ حاضر میں عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نغموں سے مردہ قلوب و ارواح کو حقیقی زندگی سے روشناس کرانے والوں کی صدائیں امت میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیئے کی ٹمٹماتی ہوئی لَو میں چراغاں کا باعث ہیں۔ جس کی روشنی میں عشاق کا قافلہ سخت جاں فکرِ سود و زیاں سے بے نیاز سر گرمِ سفر رہتا ہے۔

ہستی مسلم کا ساماں ہے فقط عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ہاں یہی ہے ہستی مسلم کا ساماں آج بھی

وہ فاقہ کش مسلمان جو صدیوں پہ محیط عہدِ ناروا کے صدمات جھیلتا چلا آرہا ہے۔۔۔ محرومیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کی دستاویز جس کے دونوں ہاتھوں میں تھمادی گئی ہے۔۔۔ جسکا جسم ہی نہیں روح بھی زخموں سے چور چور ہے۔۔۔ بے توقیری کی فصلیں کاٹنا جس کی جواں نسلوں کا مقدر بنادیا گیا ہے۔۔۔ عظمت و تمکنت اور وقار جیسے الفاظ جس کی لغتِ عمل سے حذف کردیئے گئے ہیں۔۔۔ جو آئینہ خانہ میں خود اپنے آپ کو شناخت کرنے سے قاصر ہے۔۔۔ عظمت رفتہ کی بازیابی کی آرزو بھی جس کے سینے میں دم توڑ چکی ہے۔۔۔ جو سوکھے ہوئے پتوں کی طرح تیز و تُند ہواؤں کے رحم و کرم پر ہے۔۔۔ وہ مسلماں جس کی سوچوں کے تمام کواڑ مقفل کردیئے گئے ہیں۔۔۔ بے عملی و بے حمیتی کا زہر جس کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے۔۔۔ جو اپنی عظیم روایات سے رشتہ توڑ کر گمرہی کے گہرے اندھیروں میں گُم ہوتا جارہا ہے۔۔۔ وہ مسلماں جس کے سارے ثقافتی اثاثے لُٹ چکے ہیں۔۔۔ اور جو سر اٹھا کر چلنے کی خُوئے دلنواز کو جمودِ مسلسل کے برف زاروں میں دفن کرچکا ہے۔۔۔ وہ مسلماں اپنی تمام تر محرومیوں کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود ایک جذبے کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہے اور ابلیسی سازشوں کے اژدہام میں اُس نے جس چنگاری کو بجھنے نہیں دیا وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چنگاری ہے۔ جو ازل سے اس کے سینے میں سُلگ رہی ہے۔ اقبال اسے روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ دشمنانِ اسلام اپنی تمام تر علمی خیانتوں تحقیقی لغزشوں اور فکری مغالطوں کے باوجود اس فاقہ کش مسلماں کے جسم سے روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکالنے میں ناکام رہے ہیں۔

دوری کا یہ عالم کہ ورائے حدِ ادراک
قُربت کی یہ حالت کہ قریبِ رگِ جاں آپ

بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہمارے دلوں میں سانس بن کر دھڑک رہی ہے اور رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ بلکہ اقبال کے الفاظ میں:

در دلِ مسلم مقامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم است
آبروئے مازِ نامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم است

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت اور ثنائے رسول اسی روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمالیاتی اظہار اور شعری پیکر کا نام ہے۔ آخرِ شب تصورِ محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آنکھیں جن موتیوں سے لبریز ہوجاتی ہیں، دامنِ آرزو جن آنسوؤں سے بھیگ جاتا ہے اور پلکوں پہ ستاروں کے جھرمٹ سے اتر آتے ہیں وہی موتی وہی آنسو اور وہی ستارے اس منظر کی عکس بندی کی داستاں ہیں۔ یہ وہ کہانی ہے جو ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہوکر ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ ختم ہوتی ہے۔

منزلیں گم ہوئیں راستے کھوگئے زندگی ریت کی جیسے دیوار ہے
خود ہی روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو کر فیصلہ آج کتنی مدد تیری درکار ہے

بعینہ قدسی مقال اقبال اپنی ملت کا درد و الم بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عقیدت کے آنسوؤں کے ساتھ اجمالاً اِن الفاظ میں پیش کرتا ہے۔ اے روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !

شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تُو ہی بتا تیرا مسلماں کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمد
آیاتِ الہی کا نگہبان کدھر جائے