مِلت کی کشتیوں کو گرداب ِ اِبتلاء میں
طیبہ کے ساحلوں کا رستہ دکھا رہا ہے

حالیہ ایام میں بالخصوص اور گذشتہ ایک عشرے سے بالعموم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں خانہ جنگی کا ماحول پورے منظر پر ابھرتا نظر آرہا ہے۔ وطن عزیز کے طول و عرض میں خودکش حملے، قاتلانہ کاروائیاں اور دہشت گردی پر مبنی واقعات کا تسلسل ہر ذی شعور شخص کے لئے پریشانی کا سبب بن چکا ہے۔ تیل کی قدرتی دولت سے مالا مال خلیجی ممالک سمیت مصر، لیبیا، شام، عراق، لبنان، یمن اور بحرین وغیرہ ہر جگہ یا تو حکومت مخالف تحریکیں خون بہارہی ہیں یا پھر وہاں کے مسلکی گروہوں کے درمیان خونی جنگیں جاری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے۔

مسلمانوں کی اس خانہ جنگی کا پہلا اور افسوسناک ٹارگٹ خود اسلام ہے۔ کیونکہ اسلام امن و سلامتی اور محبت و مروت کا دین ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ ایمان، جو ہر مسلمان کا مطلوب و مقصود ہے اس کا مادہ بھی ’’امن‘‘ ہے۔ گویا دین اسلام کا پہلا تعارف ہی سلامتی اور امن ہے۔ باہمی محبت و بھائی چارہ اسلامی معاشرے کی ایسی خصوصیات ہیں جن کے طفیل یہ دین ربع صدی سے کم عرصے میں ریاست مدینہ سے نکل کر تین براعظموں تک پھیل گیا اور آج بھی دنیا بھر کی آبادی کا چوتھائی حصہ امت مسلمہ پر مشتمل ہے۔

اس دہشت گردی کا دوسرا ٹارگٹ مسلمانوں کی اجتماعی قوت و طاقت ہے۔ اسلام نے جس طرح کے پرامن معاشرے کی تشکیل کا تصور دیا ہے اس کا پہلا تقاضا ہی پرامن بقائے باہمی ہے۔ فی زمانہ بعض اسلامی تحریکیں اپنے اپنے ممالک میں جس خود ساختہ فلسفہ جہاد پر گامزن ہیں اس نے اسلام کو دور رس نقصانات زیادہ پہنچائے ہیں۔ مثلاً یہی خانہ جنگی ہے جس کی آگ میں اس وقت شام، لیبیا، عراق، افغانستان اور اب پاکستان جل رہے ہیں۔ اس آگ نے ان اسلامی ممالک کے تمام ذرائع معیشت سمیت نظام معاشرت و سیاست کو بھسم کرکے رکھ دیا ہے۔

اس دہشت گردی کا تیسرا ٹارگٹ مرنے والے مسلمان خود ہیں۔ بے قصور بچے، عورتیں اور مرد وزن جو خود کش حملوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ گھر برباد ہو رہے ہیں اور خاندان تباہ ہو رہے ہیں۔ اسی طرح اس دہشت گرد کاروائیوں کا چوتھا ہدف غیر مسلم آبادیاں، سفارتخانے اور املاک ہیں۔ اس کے ردعمل میں استعماری قوتیں جدید ترین اور وافر وسائل کے ساتھ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے خلاف منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ انہیں جنگیں لڑنے کی اب ضرورت ہی نہیں رہی۔ انہوں نے مسلمانوں کی باہمی لڑائیوں کے ذریعے حالیہ عشروں میں جو مقاصد حاصل کرلئے ہیں وہ ماضی کے بڑے سے بڑے معرکہ میں بھی حاصل نہیں ہوسکے تھے۔ آپ مسلمانوں کا جانی نقصان ہی دیکھ لیں، ایران، عراق جنگ اور کویت عراق جنگ کے بعد افغانستان اور عراق میں جتنے مسلمان لقمہ اجل بنے ہیں اور اب شام کی طرح جو جنگ پاکستان میں منتقل ہورہی ہے اس سے مزید غیر معمولی ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ دو عشروں سے جاری اس خانہ جنگی نے تقریباً 20 لاکھ مسلمان صفہ ہستی سے ختم کردیئے ہیں اور ان کی املاک اور جذبات و احساسات کا جو نقصان ہوا ہے وہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ موت کے اس خونی کھیل سے غیر مسلموں کو بڑی آسانی کے ساتھ اسلام مخالف پروپیگنڈے کا موقع مل رہا ہے۔ چنانچہ اس اسلام مخالف پروپیگنڈے سے عالمی سطح پر اسلام کے امیج کو جو نقصان پہنچ چکا ہے وہ بھی اس نقصان سے کہیں بڑھ کر ہے جو ماضی کے متعدد عسکری معرکوں میں مسلمانوں کا مقدر بنا تھا۔

یہ حقیقت اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ عثمانی سلطنت کی عظیم الشان اسلامی حکومت کے زوال کے بعد چونکہ بالعموم مسلمان ممالک میں مغرب کے خلاف معاندانہ ردعمل ایک فطری امر تھا اس لئے اکثر شخصیات اور ان کی اجتماعی کاوشیں اسی ردعمل کا حصہ بنتی رہی ہیں۔ اس کے برعکس بعض مفکرین اور کچھ اسلامی تحریکیں احیائے اسلام کا مشن علمی، تربیتی اور تعلیماتی محاذوں پر استوار کرنے میں مصروف رہیں۔ دو سو سال کے تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ مثبت اور تعمیری کاوشوں کا نتیجہ ہر جگہ مثبت پیش رفت کی صورت میں سامنے آیا۔ جبکہ گولی، کلاشنکوف اور جنگی کاوشوں کا نتیجہ آج بھی تباہی بربادی اور باہمی دشمنیوں کی صورت میں پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ان نام نہاد جہادی تحریکوں کے بطن سے خوفناک دہشت گردی جنم لے چکی ہے جو مشرق سے مغرب تک بے گناہوں کا ناحق خون بہارہی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ دہشت گردی کے قومی علاقائی اور بین الاقوامی اسباب بھی موجود ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر دوسرے ہمیں نقصان پہنچارہے ہیں تو ہم بھی اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے پائوں کاٹنا شروع کردیں۔ اس صورت حال میں مزید تشویش اس وقت بڑھ جاتی ہے جب اسلامی تحریکوں اور تنظیموں کے ذمہ دار لوگ اور قائدین ہی دہشت گردی کی کاروائیوں کو سند جواز فراہم کر رہے ہوں۔ پاکستان میں آج یہی کچھ ہورہا ہے۔ دہشت گردوں نے مذہبی لبادے میں خون کی ندیاں بہانا شروع کررکھی ہیں لیکن ہمارے بعض مذہبی قائدین ان کو اب بھی معصوم مخلوق گردانتے ہوئے ان کے سروں پر تغمہ شہادت سجارہے ہیں۔ ان کے خلاف آپریشن کے نقصانات تو گنواتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کی شدت کو محسوس نہیں کررہے۔ اس کے برعکس اس کھلی دہشت گردی اور زیادتی سے ان لوگوں کو باز رکھنے والی پاکستانی فوج ان لوگوں کے نزدیک ’’امریکی ایجنٹ‘‘ کا کردار ادا کررہی ہے۔ یہی صورت حال عالم اسلام کے بقیہ ممالک میں بھی ہے اور اس کا مظاہرہ یورپ اور امریکہ میں بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہا ہے۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالی شان کے مطابق فتنہ گری میں یہی نام نہاد مذہبی لوگ ہی ’’اشرار الناس‘‘ کا کردار ادا کررہے ہیں اور انہی سے یہ ’’فساد فی الارض‘‘ کی وبا پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔

موجودہ دور کا یہ فتنہ و فساد چونکہ وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کا سبب بن چکا ہے اور اس کے نتائج نہایت ہی خطرناک شکل میں سامنے آرہے ہیں اس لئے اس کا تدارک بھی علمی، فکری، تحقیقی اور ثقافتی سطح پر ہی ممکن تھا۔ چنانچہ تحریک منہاج القرآن کو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں اسی فریضے کی انجام دہی کے لئے منتخب کیا۔ قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ پورے احساس، شعور اور بھرپور صلاحیت کے ساتھ اس محاذ پر مصروف جہاد ہیں۔ انہوں نے اس حساس موضوع پر خصوصی فتویٰ کے علاوہ درجنوں کتب تحریر کیں، سینکڑوں خطابات کئے اور متعدد عالمی سطح کے سیمینارز کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات سے نوجوان نسل سمیت غیر مسلموں کو بھی روشناس کرادیا۔ اس وقت بلاشبہ وہ واحد شخصیت ہیں جو عالمی سطح پر اسلام کی صحیح معنوں میں سفارت کاری اور نمائندگی کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے اسباب اور علامات کو پہلی بار منظر عام پر لانے میں ان کے تاریخی فتویٰ نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرور کائنات کی شان رحمت و شفقت کو نئے انداز سے علمی اور تاریخی واقعات کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھا ہے۔ ان کا ترجمہ عرفان القرآن تفسیر کے بغیر بھی ان تمام غلط فہمیوں کا رد پیش کررہا ہے جو مستشرقین اور معاندین نے قرآن حکیم سے متعلق پھیلا رکھی تھیں انہوں نے اپنے تنظیمی اور تعلیمی نیٹ ورک میں بین المسالک ہم آہنگی کی فضاء کو بھی عملاً قائم کرکے دکھایا ہے اور بین المذاہب بقائے باہمی کو بھی پوری دنیا میں متعارف کروایا ہے۔ ان کی ان خدمات کا اعتراف نہ صرف ہر صاحبِ علم و فکر نے کیا ہے بلکہ UNO جیسا عالمی ادارہ بھی کھلا اعتراف کرچکا ہے۔

قرآن کی آیتوں سے خیرات لینے والا
دامانِ شہرِ شب میں سورج اُگا رہا ہے

مِلت کی کشتیوں کو گرداب ِ اِبتلاء میں
طیبہ کے ساحلوں کا رستہ دکھا رہا ہے

ڈاکٹر علی اکبر قادری