بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں

بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں
روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد

زیر نظر تحریر علامہ اقبال کے شعری مجموعے ’’ارمغان حجاز‘‘ میں شامل نظم بعنوان ’’عالمِ برزخ‘‘ کی نثر ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے قبر، مردے اور غیبی آواز کے درمیان ایک تمثیلی مکالمہ بیان فرمایا ہے۔ اس مکالمہ کا ماحصل یہ ہے کہ جو لوگ زندگی میں غلامی کی لعنت میں گرفتار اور اس پر راضی ہوتے ہیں گویا وہ اپنی خودی کو ذلیل کر کے ایک طرح سے مار ڈالتے ہیں۔ وہ بظاہر زندہ ہونے کے باوجود مُردہ ہوتے ہیں اور ایسے لوگ مر کر دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتے۔ غلامی کی زندگی، مرنے کے بعد زندہ ہونے کی صلاحیتوں کو فنا کر ڈالتی ہے۔ اقبال کے نزدیک غلامی اتنی بڑی لعنت ہے کہ قبر بھی غلام کی میت سے نفرت کرتی ہے اور اس کے ناپاک وجود سے پناہ مانگتی ہے۔ آج پاکستانی معاشرہ بھی فکری غلامی سے دوچار ہے، بے شعوری اپنی انتہاء پر ہے حتی کہ حکمرانوں کے ہاتھوں لٹنے کا احساس بھی مرچکا ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم نے اس فکری غلامی کو اختیار کئے رکھنا ہے یا آگے بڑھ کر اپنے حقوق خود حاصل کرنے ہیں۔ نظم ’’عالمِ برزخ‘‘ کی ذیل میں بیان کردہ نثر ’’حکایاتِ اقبال‘‘ (از محمد یونس حسرت) کے نام سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظموں کو نثری قالب میں ڈھالے گئے مجموعہ سے ماخوذ ہے۔

ایک مُردے نے اپنی قبر سے سوال کیا:

’’اے میری قبر! ذرا یہ تو بتا قیامت کیا چیز ہے؟ یہ کس آج کی کل ہے؟ تو ذرا مجھے قیامت کی حقیقت سے آگاہ تو کر‘‘۔

مُردے کا سوال سن کر قبر نے حیرانی سے جواب دیا:

’’اے صد سالہ مُردے! کیا تجھے اتنا بھی معلوم نہیں کہ قیامت کیا چیز ہے؟ یہ تو میرے لئے بڑی تعجب کی بات ہے کہ تو قیامت کی حقیقت سے بے خبر ہے۔ سن اور جان لے کہ قیامت دوبارہ جی اٹھنے کو کہتے ہیں اور ہر شخص مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوگا کیونکہ یہ تو اس کی موت کا تقاضا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لے کہ قیامت موت کا لازمی نتیجہ ہے‘‘۔

قبر کی یہ بات سن کر مُردے نے کہا:

’’اے میری قبر! میں تو اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں ہوا، جس موت کا پوشیدہ تقاضا قیامت یعنی دوبارہ زندگی ہے۔ اگرچہ مجھے اس قبر میں پڑے ہوئے سو سال ہوگئے ہیں لیکن صد سالہ مُردہ ہونے کے باوجود میں اپنی قبر کی تاریکیوں سے بیزار نہیں ہوں۔ مٹی کے اس ظلمت کدے میں سو سال سے پڑے ہونے کے باوجود میرے اندر دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی آرزو پیدا نہیں ہوئی۔ اگر قیامت اسی کا نام ہے کہ میرا نحیف ونزار بدن ایک بار پھر میری روح کی سواری بنے تو میں ایسی قیامت کا طلبگار نہیں ہوں‘‘۔

مُردے کی یہ باتیں سن کر قبر سخت حیران ہوئی کہ یہ کیسا مُردہ ہے جو دوبارہ زندہ نہیں ہونا چاہتا۔ آخر اسے کس قسم کی موت آئی تھی کہ اس موت کے بعد زندگی کی طلب نہیں ہے۔ قبر ان حیرانیوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ غیب سے ایک آواز آئی اور اس آواز نے قبر کی حیرانی کو دور کیا۔ غیب سے آنے والی آواز نے کہا:

’’وہ موت جس کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے، نہ سانپ، بچھو اور دیگر کیڑے مکوڑوں کا نصیب ہے اور نہ ایسی موت چوپایوں اور درندوں کی قسمت میں لکھی ہے۔ ہمیشہ کی یہ موت صرف اور صرف غلام قوموں کا مقدر ہے۔ جو لوگ زندگی میں غلام تھے اور زندگی کے جوش اور ولولے سے محروم تھے اور جن کی زندگی ایسی زندگی تھی جو زندگی کی حقیقی حرارت سے محروم تھی۔ بھلا ایسے لوگ جن کا بدن زندگی میں بھی روح سے خالی تھا۔ مرنے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہوسکتے ہیں؟ انہیں تو بانگ اسرافیل بھی زندہ نہیں کرسکتی۔ قیامت کے دن جب اسرافیل اپنا صور پھونکے گا تو اس کی آواز سے صرف وہ لوگ زندہ ہوسکیں گے جو مرنے سے پہلے آزاد مرد تھے، گویا صحیح معنوں میں زندہ تھے۔ غلام قومیں تو زندگی ہی میں زندگی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ غلام قوموں کے افراد تو زندگی ہی میں مرجاتے ہیں، اس لئے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتے۔ یہ صحیح ہے کہ اس دنیا کے ہر ذی روح کی منزل قبر کی آغوش ہے لیکن مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنا صرف آزاد مَردوں کا کام ہے۔ آزاد مرد تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے لیکن غلام مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ وہ تو دوبارہ زندہ ہونے کی صلاحیت ہی سے محروم ہوچکا ہے۔ غلام تو ایک طرح سے زندگی ہی میں مرچکا ہوتا ہے، مرنے کے بعد بھلا کیا زندہ ہوگا‘‘۔

غیب کی یہ آواز سن کر قبر کی حیرانی دور ہوئی اور وہ مردے سے کہنے لگی:

’’او کم بخت! اب میں سمجھی کہ میری مٹی میں اس قدر سوزش اور جلن کی کیفیت کیوں پیدا ہوگئی ہے؟ آہ ظلم! اب مجھے معلوم ہوا کہ تو دنیا میں غلامی کی لعنت میں گرفتار تھا۔ تو آزاد نہیں، محکوم تھا۔ اسی وجہ سے میری مٹی کی تاریکیاں اور زیادہ تاریک ہوگئی ہیں، تیری میت سے زمین کی شدید توہین ہوئی ہے۔ تیرے وجود نے زمین کا پردہِ ناموس چاک کر ڈالا ہے۔ میں دعا کرتی ہوں کہ خدا محکوم اور غلام کی میت سے مجھے سو بار بچائے۔ اے اسرافیل! جلد اپنا صور پھونک تاکہ زمین تہ و بالا ہوجائے اور مجھے اس ناپاک مُردے کے وجود سے نجات ملے۔ اے خدائے کائنات! میں تیری بارگاہ میں فریاد کرتی ہوں کہ اس محکوم اور غلام مُردے کے نجس و ناپاک وجود سے جلد میری خلاصی فرما‘‘۔

قبر کی اس فریاد کے جواب میں غیب سے پھر ایک آواز آئی۔ اس آواز نے کہا:

’’اے قبر اطمینان رکھ۔ قیامت اپنے مقررہ وقت پر ضرور آئے گی۔ اگرچہ قیامت برپا ہونے پر اس کائنات کے سارے نظام کا درہم برہم ہونا ایک لازمی امر ہے لیکن یہ ہنگامہ اپنی جگہ بے حد ضروری ہے کیونکہ اسی ہنگامے کی بدولت وجود کے بھید ظاہر ہوں گے۔ دنیا میں ہر شخص نے جو کام کئے ہیں، ان کے نتائج قیامت کے ہنگامے کے ذریعے ہی ظاہر ہوں گے۔ جس طرح زلزے سے پہاڑ اور ٹیلے بادلوں کے ٹکڑوں اور روئی کے گالوں کی طرح اڑ جاتے ہیں اور وادیوں میں نئے چشمے نمودار ہوجاتے ہیں، اسی طرح قیامت بھی ایک طرح کا زلزلہ ہے، جس کی بدولت ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔ تعمیر کے لئے تخریب لازم ہے۔ ہر نئی تعمیر سے پہلے پرانی عمارت کو بالکل مسمار کرنا پڑتا ہے۔ پرانی عمارت کو منہدم کئے بغیر نئی عمارت تعمیر ہوہی نہیں سکتی۔ اسی تخریب میں زندگانی کی تمام مشکلات کا حل پوشیدہ ہے۔ جب قیامت کے بعد زندگی کو نئی بنیادوں پر استوار کیا جائے گا تو زندگی کی وہ تمام مشکلات دور ہوجائیں گی جن سے اسے موجودہ صورت میں واسطہ پڑتا ہے‘‘۔

اپنے مردے سے سوال و جواب اور پھر غیب کی آواز سننے کے بعد قبر یوں گویا ہوئی:

’’آہ! یہ غلامی اور محکومی جو ہمیشہ ہمیشہ کی موت کی حیثیت رکھتی ہے، اس دنیا میں سب سے بڑی لعنت ہے۔ مرگ دوام اسی غلامی کا نتیجہ ہے اور یہ غلامی اس وجہ سے ہے کہ دنیا میں طاقت ور اور کمزور، قوی اور ضعیف، حاکم اور محکوم ، قوموں کے درمیان ایک کشمکش جاری ہے۔ طاقت ور قومیں کمزور اور ضعیف قوموں کو اپنا غلام بناکر رکھنا اور ان پر حکومت کرنا چاہتی ہیں۔ عقل نے طرح طرح کے بت تراش رکھے ہیں اور خدا سے منہ موڑ کر ان بتوں کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔ حاکم قومیں طرح طرح کے حیلوں سے غلام قوموں کا استحصال کرتی ہیں اور قسم قسم کے فریبوں سے انہیں اپنی غلامی پر راضی رکھتی ہیں۔

چنانچہ عقل مند ہوں یا بے وقوف، خواص ہوں یا عوام، عالم ہو یا جاہل، سب اپنی اپنی ذاتی خواہشات کے بتوں کی پرستش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دنیا میں جسے بھی دیکھو، وہ اپنی ہی خواہشات کا بندہ ہے اور خدائی قوانین کی بجائے اپنی خواہشات ہی کی پرستش کرتا ہے۔ وہ انسان جو خدائی صفات کا حامل تھا، جسے خالق کائنات نے اشرف المخلوقات ٹھہرایا تھا، اس دنیا میں کس قدر ذلیل و خوار ہورہا ہے۔ ایسے جہان کا قائم رہنا قلب و نظر پر گراں گزرتا ہے، جس میں انسان، انسان کا غلام ہو۔ کیونکہ غلامی سے بڑھ کر اور کوئی لعنت نہیں۔ انسانی مقدر کی یہ تاریک رات ختم کیوں نہیں ہوتی۔ یہ تاریک رات ختم ہوکر صبح کا اجالا کیوں نمودار نہیں ہوتا؟‘‘۔