شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا دورہِ ایران

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کو ایران کے بہت سے ممتاز علماء اور مرکزی شخصیات کی طرف سے کئی برسوں سے دورہ کی دعوت دی جا رہی تھی مگر قومی اور بین الاقوامی مصروفیات کے باعث یہ دورہ موخر ہوتا رہا۔ گذشتہ ماہ 14 فروری 2014ء کو شیخ الاسلام نے ان کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ ایران کا دورہ کیا۔ وفد میں محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترمہ غزالہ حسن قادری، محترم آغاز مرتضیٰ پویا، محترم ڈاکٹر اعجاز، محترم دائود حسین مشہدی اور دیگر احباب شامل تھے۔ ایران کے دورہ کے دوران آپ نے خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات، قیام امن، علمی و فلاحی سرگرمیوں کے فروغ، جنوبی ایشیاء میں قیام امن پاکستان و ایران کے مابین غلط فہمیوں کا ازالہ اور بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لئے متعدد اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورہ کے دوران ایران کی معتبر علمی شخصیات نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تجدیدی خدمات کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا اور انہیں عالم اسلام کا فخر اور سرمایہ قرار دیا۔

٭ حکومت ایران کے ممتاز راہنما آیت اللہ العظمی محسن الاراکی نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا تہران ائیر پورٹ پر پُرتپاک استقبال کیا۔ آیت اللہ محسن الاراکی ایران کے اہم مذہبی ادارے ’’مجمع تقریب مذاہب اسلامی‘‘ کے سربراہ ہیں۔ نیز ان کے پاس ایران کا تعلیمی اور ثقافتی پالیسی ساز ادارہ ’’شوری عالی دفاع فرہنگی‘‘ بھی ہے۔ ان سے شیخ الاسلام کی باقاعدہ ملاقات ’’قم‘‘ میں ہوئی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے دوران امت مسلمہ کے اتحادکو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا گیا۔

٭ اس دورہ کے دوران ایران کی متعدد دیگر ممتاز مذہبی اور علمی شخصیات سے بھی شیخ الاسلام کی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس ضمن میں ایران میں ’’مرجع‘‘ کی حیثیت رکھنے والے 95 سال کے آیت اللہ عظمی محترم لطف اللہ صافی گولپائیگانی نے بھی شیخ الاسلام سے خصوصی ملاقات کی۔ انہوں نے شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کی احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار کی عظمت پر کی جانے والی علمی اور تحقیقی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا اور ان کی جملہ علمی، فکری، تعلیمی، سماجی خدمات کو بے حد سراہا۔

٭ دورے کے دوران ایک اہم نشست آیت اللہ محترم تسخیری صاحب سے بھی ہوئی جو ’’تقریب بین المذاہب‘‘ جیسے اہم شعبہ کے سابق سربراہ رہے ہیں جہاں وہ ایران میں مذہبی ہم آہنگی کے لئے غیر معمولی خدمات سرانجام دے چکے ہیں اور کئی بار پاکستان کے دورے کے دوران بالخصوص لاہور میں تحریک کے مرکز پر تشریف لاچکے ہیں۔

٭ شیخ الاسلام نے وفد کے ہمراہ ایران کی قدیم لائبریری مکتبہ المراشی کا بھی دورہ کیا جسے اسلامی تاریخ کے قدیم ترین کتب خانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس لائبریری میں چالیس ہزار سے زائد نادر کتب اور قلمی نسخے موجود ہیں۔ لائبریری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں تیرہ سو سال پرانا قرآن حکیم کا نسخہ بھی موجود ہے۔

٭ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے اس دورہ کے دوران ملاقات کرنے والوں میں ایک مرکزی شخصیت آیت اللہ ہاشم حسینی بوشہری بھی شامل ہیں۔ تہران، مشہد، شیراز اور قم میں ان کے دینی مراکز کی کثیر تعداد ہے۔ ملاقات کے دوران انہوں نے شیخ الاسلام کی تصانیف بالخصوص دہشت گردی کے خلاف فتویٰ، میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور Muhammad the Merciful کے معیار، علمی دلائل، اسلوب کو بے حد سراہا۔ بعد ازاں انہوں نے دیگر آیت اللہ حضرات اور ایرانی سکالرز کی موجودگی میں شیخ الاسلام کی تجدیدی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شخصیت اسلامی دنیا کا سرمایہ افتخار اور چھپا ہوا خزانہ ہے۔ اس موقع پر انہوں نے علمی و فکری استفادہ اور طلبہ کی رہنمائی کے لئے شیخ الاسلام کی جملہ تصانیف بھی اپنی یونیورسٹی اور مدارس کے طلباء کے لئے ڈیمانڈ کیں۔

٭ شیخ الاسلام نے وفد کے ہمراہ جامعہ المصطفیٰ عالمیہ کا دورہ بھی کیا جس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے 30 ہزار طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اس یونیورسٹی کے 50 شعبہ جات ہیں۔ جامعہ المصطفی عالمیہ کے دورہ کے دوران شیخ الاسلام نے وہاں کے اساتذہ، سکالرز اور طلباء سے خطاب بھی کیا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے چانسلر آیت اللہ اعرافی کے ساتھ تفصیلی نشست بھی ہوئی اور انہوں نے شیخ الاسلام کی خدمات کے اعتراف میں انہیں اعزازی شیلڈ بھی دی۔

اس عالمی ادارے کے طلباء کے لئے شیخ الاسلام ہر دلعزیز شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی لئے یہاں شیخ الاسلام پر اب تک دو تحقیقی مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں۔ اس سلسلے میں آیت اللہ محترم فدا حسین عابدی نے حال ہی میں المصطفی یونیورسٹی قم سے ’’مرجعیتِ علمی اہلبیت اطہار پر ڈاکٹر طاہرالقادری کا ’’نقطہ نظر‘‘ پر پی ایچ ڈی کی تکمیل کی ہے۔ یاد رہے کہ محترم علامہ فدا حسین عابدی کے نگران بورڈ میں محترم ڈاکٹر علی اکبر الازہری بطور Co-supervisor شامل ہیں جن کی کاوشوں سے اسی یونیورسٹی میں محترم یونس حیدری دو سال قبل شیخ الاسلام کی فکری اور دینی کاوشوں پر ایم فل کی ڈگری بھی لے چکے ہیں۔

٭ شیخ الاسلام سے مذکورہ شخصیات کے علاوہ آیت اللہ عظمی حسین نوری ہمدانی، قم اسلامک ریسرچ کے سربراہ آیت اللہ ڈاکٹر مصباح الیزدی، ایران کی مجلس ’’خبرگان‘‘ (اسمبلی آف ایکسپرسٹس جو صدر سمیت تمام اعلیٰ عہدوں کا تعین کرتی ہے) کے ممبرز اور ایران کی دیگر ممتاز سیاسی و مذہبی شخصیات نے بھی ملاقاتیں کیں۔

٭ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری وفد کے ہمراہ مشہد میں تشریف لائے تو رہبر کبیر آیت اللہ خامنی کے خصوصی نمائندے محترم آیت اللہ واعظ الطبسی نے مشہد میں آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے واعظ الطبسی سے باہمی دلچسپی کے علمی، دعوتی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔

٭ مشہد مقدس میں ان حضرات سے ملاقاتوں کے علاوہ شیخ الاسلام نے دو مقدس مقامات پر حاضری کی سعادت بھی حاصل کی۔ جن کے مشاہدات و احوال ناقابل بیان ہیں۔ ان میں سے ایک مقام تو سیدہ معصومہ قم کا مزار مبارک ہے اور دوسرا حرم امام علی الرضا علیہ السلام ہے جن کا شمار ائمہ اہلبیت اطہار کے بارہ ائمہ کبار میں ہوتا ہے۔ ان کے آستانہ عالیہ پر 24گھنٹے جاہ وجلال کا منظر ہوتا ہے۔ یہاں پر شیخ الاسلام پر عجیب رقت اور جذب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ وفد کے ارکان سمیت مہمان ارکان بھی رقت اور گریہ کی کیفیات میں ڈوبے ہوئے تھے۔ شیخ الاسلام نے حرم امام میں جو دعا بار بار مانگی وہ پاکستان کی سلامتی اور یہاں مصطفوی انقلاب کی دعا تھی۔

٭ اس دورہ کے دوران شیخ الاسلام سے ایرانی نیوز ایجنسی ’’فارس‘‘ نے بھی تفصیلی انٹرویو کیا جسے وہاں کے اخبارات نے نمایاں کوریج دی۔ یہ انٹرویو دہشت گردی و انتہاء پسندی کے اسباب و مسلکی اختلافات کی وجوہات اور اسلام کی تعلیماتِ امن سے متعلق تھا۔ ان اہم موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے کہا کہ

’’اسلام کے اندر موجود تمام مکاتب فکر کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہئے۔ مذہبی انتہاء پسندی کی تمام اقسام کی بیخ کنی کے لئے اعتدال اور امن کا راستہ اختیار کرتے ہوئے امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ افسوس کہ آج بعض ممالک میں دینی مدارس اتحاد کی تعلیم نہیں دے رہے اور نہ ہی وہاں طلباء کو یہ سکھایا جارہا ہے کہ دین کے اندر فروعی اختلافات نہ صرف قابل قبول ہیں بلکہ یہ دین اسلام کے خوبصورت رنگ ہیں۔ عدم برداشت کے رویوں کو پروان چڑھانے میں ان مراکز کا کردار افسوس ناک ہے جہاں فروعی اختلافات پر دوسروں کو کافر قرار دینے کی ذہنیت کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔

فی زمانہ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکاتب فکر اور اُن کے ادارے ایک دوسرے کی کتب کو پڑھیں اور ان کتب میں موجود مختلف فیہ تعلیمات و مسائل کے بجائے مشترک و متفق علیہ تعلیمات و عقائد پر توجہ مرکوز کریں۔ ہمیں اپنے عقائد کی بنیاد پر دوسرے کے عقیدہ کی توہین اور بے عزتی نہیں کرنی چاہئے اور نہ ہی دوسروں کو اسلام سے باہر دھکیلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین بھی فروعی مسائل، قرآنی آیات کی تفاسیر اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطلاق پر متعدد جگہوں پر اختلافات ہوئے لیکن یہ اختلافات ان کی باہمی ناراضگی و خفگی کا باعث ہرگز نہ بنے۔

ہمیں باہمی تعلق کو اچھا اور مضبوط بنانے اور ایک دوسرے کے قریب ہونے کے لئے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں علماء اور طلباء کے درمیان اچھے ماحول میں علمی مذاکروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ براہ راست ایک دوسرے کے مؤقف کو سننے کا یہ عمل انتہاء پسندی کو ختم کرنے اور اعتدال و توازن کی راہ اپنانے میں ان کا معاون ہوسکے۔ نوجوان نسل اسلام سے آئے روز دور ہوتی جارہی ہے اس کی بڑی وجہ مسالک کے مابین موجود فروعی اختلافات پر دوسروں کو غلط قرار دینے کی روش ہے۔ اس لئے کہ جب وہ ان مسالک کو ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اس طرز فکر اور سوچ سے نفرت کے باعث اسلام سے دوری اختیار کرلیتے ہیں۔ ہماری توجہ کا مرکزی نقطہ نوجوان نسل کو اسوہِ حسنہ اور اسلام کی اعتدال پر مبنی تعلیمات کی طرف راہنمائی ہونا چاہئے۔ یہی منہاج القرآن کا مشن ہے۔ منہاج القرآن کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جہاں تمام مسلمان اعتدال اور ترقی پسندانہ خیالات کے ساتھ اکٹھے ہوسکیں‘‘۔

اس انٹرویو میں شیخ الاسلام نے پاک ایران تعلقات پر بھی سیر حاصل گفتگو فرمائی آپ نے فرمایا:

’’میں اہلیان پاکستان کی طرف سے امن اور اتحاد کا پیغام لے کر ایران آیا ہوں۔ اگرچہ پاکستان میں دہشت گردی و انتہاء پسندی کے مسائل موجود ہیں مگر پاکستانی قوم کی اکثریت معتدل ہے اور امن و اتحاد کی متمنی ہے۔ پاکستان اور ایران دونوں پڑوسی مسلمان ممالک ہیں انہیں باہمی تعلقات کو پروان چڑھاتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں سے غربت کے خاتمہ، قانون کی حکمرانی، عوام کی خوشحالی اور اعلیٰ تعلیمی و سماجی اداروں کے قیام اور استحکام کو ممکن بنانا ہوگا۔ اگر قوم اپنی حکومت، ملک میں موجود انصاف و مساوات پر مطمئن ہو اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں تو کوئی اندرونی و بیرونی قوت ان ممالک کو نقصان نہیں پہنچاسکتی‘‘۔

شیخ الاسلام کا یہ دورہ خطے میں امن کے قیام کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ شیخ الاسلام پوری دنیا میں قیام امن کے حوالے سے نہایت مؤثر اور معتبر ترین آواز ہیں۔ عالمی برادری میں دہشت گردی کے خلاف انکا مؤقف بڑی توجہ سے سنا جاتا ہے اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے اعتدال پسند لوگ انہیں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے معتدل مؤقف کو حقیقی اسلامی مؤقف کے طور پر سنتے اور سراہتے ہیں۔