نام نہاد JIT کی تشکیل اور انصاف کا قتل

قائد انقلاب کی بیرون ملک روانگی پر حکومتی حلقوں اور ان کے گماشتوں نے منفی پروپیگنڈا کی حد کردی۔ یہاں تک کہا گیا کہ قائد انقلاب حکومت سے کسی ڈیل کے نتیجے میں باہر چلے گئے ہیں اور اب واپس نہیں آئیں گے۔ ایک طرف اس طرح کی باتیں منصوبہ کے تحت معاشرے میں پھیلائی جارہی تھیں اور دوسری طرف قائد انقلاب کی وطن واپسی کو روکنے کے لئے مہم کا آغاز کردیا۔ عدالت کی طرف سے مختلف کیسوں میں قائد انقلاب کے نہ صرف وارنٹ گرفتاری جاری کئے گئے بلکہ انہیں اشتہاری بھی قرار دے دیا گیا۔ اسی دوران حکومت نے جسٹس باقر نجفی کے تحت بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو منظر عوام پر لانے سے یکسر انکار کرتے ہوئے اس رپورٹ کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا۔ یاد رہے کہ اس رپورٹ میں پنجاب حکومت اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ حکومت نے ایک طرف اس جوڈیشل کمیشن کی انکوائری رپورٹ کو ماننے سے انکار کیا اوردوسری طرف اپنے دوستوں پر مشتمل نام نہاد مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (JIT) کا بھی اعلان کردیا۔ اس JIT کو نہ صرف PAT نے مسترد کردیا بلکہ ان حکومتی اقدامات کی ہر عوامی، صحافتی، سیاسی اور قانونی حلقے میں شدید مذمت کی گئی کہ ایسے حکومتی اقدامات عدل و انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ قائد انقلاب نے اس صورت حال پر 14 نومبر کو بیرون ملک سے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے فرمایا:

آرمی چیف سے ملاقات کے موقع پر ہم نے تین مطالبات پیش کئے تھے،

  1. ایف آئی آر کا اندراج
  2. ایسی غیر جانبدار JIT کی تشکیل جس پر ہمیں اعتماد ہو
  3. شہباز شریف کا استعفیٰ

ہمارے تینوں مطالبات کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فیئر قرار دیا تھا اور ہمیں عدل و انصاف کا یقین دلوایا تھا۔ ایف آئی آر تو درج ہوگئی، باقی دو مطالبات پورے نہیں ہوئے۔ آرمی چیف ہمیں انصاف دلوائیں اور ہمارے بقیہ دو مطالبات کو بھی پورا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ 5 ماہ بعد پنجاب حکومت نے جو JIT بنائی ہے اس سے بہتر تھا کہ میاں شہباز شریف خود سربراہ بن جائیں اور ممبرز میں حمزہ شہباز اور خاندان کے دیگر افراد کو شامل کر لیں۔ میاں شہباز شریف جب تک استعفیٰ نہیں دیتے کوئی JIT قبول نہیں کریں گے۔ آرمی چیف سے یہ مطالبہ اس لئے کررہے ہیں کہ وہ ثالث کے ساتھ ضامن بھی بنے تھے۔ اب ہمیں انصاف نہیں مل رہا، جن عدالتوں سے انصاف چاہیے، وہ ہمارے وارنٹ نکال رہی ہیں اور اشتہاری قرار دے رہی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اب آپریشن ضرب عدل بھی ضروری ہو گیا ہے، ڈر ہے کہ اس طرح کے ناانصافی کے واقعات پرضرب عضب کا دائرہ خدانخواستہ کہیں پورے ملک تک بڑھانا نہ پڑجائے۔ ضرب عدل سے مراد عدل اور صرف عدل ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن پر پنجاب حکومت کی بنائی گئی ’’پاکٹ جنتری‘‘ JIT کو مسترد کرتے ہیں۔ سیاسی جرگہ نے بھی ہمارے اعتماد کی غیر جانبدار JIT پر اتفاق کیا تھا جس سے بعد ازاں حکمران منحرف ہو گئے۔ جب تک میاں شہباز شریف استعفیٰ نہیں دیتے، انصاف نہیں ملے گا۔ یہ دونوں بھائی قاتل اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ 5 ماہ قبل جو JIT بنائی گئی تھی اْس میں اور اس موجودہ JIT میں کیا فرق ہے؟ یہ JIT صرف قربانی کے بکرے تلاش کرنے کیلئے بنائی گئی ہے۔ 6 رکنی JIT میں حکومت نے 5 ممبرز اپنی پسند کے لئے ہیں۔ یہ انصاف کا خون ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ میاں شہباز شریف استعفیٰ دیں اور JIT کا سربراہ KPK سے لیا جائے۔ ممبران میں سے ایک ممبر آئی ایس آئی، ایک ایم آئی اورایک ممبر آئی بی سے لیا جائے، واضح کیا تھا کہ ایسی کوئی جے آئی ٹی قبول نہیں کرینگے جس میں پنجاب کے افسر شامل ہوں گے کیونکہ قاتل کیسے انصاف دے سکتے ہیں؟۔

JIT کا سربراہ کوئٹہ سے لئے جانے کا عمل دھوکہ پر مبنی ہے کیونکہ عبدالرزاق چیمہ کوئی بلوچ افسر نہیں بلکہ ان کی ساری سروس پنجاب کی ہے اور وہ کوئٹہ ڈیپوٹیشن پر گئے ہیں۔ یہ شریف خاندان کا فیملی فرینڈ ہے۔ ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد ریاستی دہشت گردی کے مناظر پوری قوم نے براہ راست دیکھے۔ مزید کن ثبوتوں کی ضرورت ہے؟حکومتی JIT ایک سازش ہے۔

مجھ پر مقدمات بنانا اور وارنٹ جاری کروانا حکومت کا بزدلانہ اقدام ہے۔ حکومت مجھے گرفتار کرنا چاہتی ہے تو شوق پورا کر لے۔ ہم وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ کی بات پہلے دن سے کر رہے ہیں اور اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہمیں انصاف نہیں مل رہا، جن عدالتوں سے انصاف چاہئے وہ ہمارے وارنٹ نکال رہی ہیں اور اشتہاری قرار دے رہی ہیں۔ اندھیرنگری زیادہ دیر نہیں چلے گی، عدل ملے گا تو معاشرے سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا۔ میں نے پی ٹی وی کا دروازہ بھی نہیں دیکھا اور مجھ پر حملہ کا کیس بنا دیا گیا۔ ہم ماڈل ٹاؤن میں محصور تھے اور مجھ پر موٹر وے کا کیس بنا دیا گیا۔

حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح سانحہ اسلام آباد پر بھی غیر جانبدار JIT تشکیل دینے کا مطالبہ مانا تھا جس سے یہ لوگ منحرف ہوگئے۔ مجھ پر 1992ء میں ہونے والے حملہ کی فائل غائب کر دی گئی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ چھپا دی گئی، یہ سب ایک سازش کے تحت ہورہا ہے۔ ہم انصاف لے کر رہیں گے، ان حکومتی اقدامات اور میری وطن واپسی کے بعد انقلابی جدوجہد کے تسلسل کو دوبارہ بحال کرنے کے بعد اب ہم پر ڈیل اور دیت لینے کا الزام لگانے والوں کو شرم آنی چاہئے کہ انہوں نے اس طرح کے بے سروپا الزامات لگائے۔