انقلاب مارچ اور دھرنے کی لمحہ بہ لمحہ صورتحال

رپورٹ: محمد یوسف منہاجین

3 اگست تا 24 اکتوبر 2014ء
ریاستی جبر و بربریت کے مقابلے میں ِ کارکنانِ تحریک کی عزیمت و استقامت کے مظاہر

محترم قارئین! تحریک کی تاریخ میں ماہ اگست 2014ء تا اکتوبر 2014ء تک 3 ماہ کا عرصہ قربانیوں، عزم و استقلال، صبر، جہد مسلسل اور آزمائشوں کا عظیم دورانیہ ہے۔ جس میں قیادت سے لے کر نچلی سطح تک کے کارکنوں نے ایک ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال کوئی سیاسی و مذہبی جماعت پیش کرنے سے قاصر ہے۔ 17 جون 2014ء منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر ریاستی جبرو بربریت کے نتیجہ میں 14 افراد کی شہادت ہوئی، 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس پر صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے مگر شنوائی نہیں ہوتی۔ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانا تو دور کی بات ان کے خلاف مقدمہ تک درج نہیں ہوتا۔ 23 جون قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی وطن واپسی ہوتی ہے، اس موقع پر بھی بدحواس اور اپنے انجام سے خائف حکمران غلط اور غیر جمہوری طرز عمل اپناتے ہیں اور اسلام آباد میں قائد انقلاب کے استقبال کے لئے آنے والے لوگوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قائد انقلاب کے طیارہ کو اسلام آباد اترنے سے ہی روک کر اس کا رخ لاہور کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگانے کے باوجود FIR نہیں کٹتی، گرفتار کارکنان کی رہائی عمل میں نہیں آتی، ظالموں کا محاسبہ اور گرفت نہیں کی جاتی۔ اس وقت تک کے تمام واقعات آپ ماہ جولائی و اگست 2014ء کے شماروں میں ملاحظہ فرماچکے۔ زیر نظر صفحات میں ماہ اگست سے اکتوبر2014ء تک تحریک کی انقلابی جدوجہد کے شب و روز کے احوال نذرِ قارئین ہیں:

3 اگست 2014 ء (اجلاس جنرل کونسل)

حکومتی جبرو بربریت کے سامنے جب ہر قومی ادارے نے چپ سادھ لی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء اور زخمیوں کے خون نے کسی بھی حکومتی ادارے کو ٹس سے مس نہ کیا تو تحریک کے آئندہ لائحہ عمل کے فیصلہ کے لئے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے پاکستان عوامی تحریک کی جنرل کونسل کا اجلاس طلب کرلیا۔ قائد انقلاب نے جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’اس وقت ملک میں دو مقدمات چل رہے ہیں، ایک مقدمہ لاہور ہے اور دوسرا مقدمہ اسلام آباد، مقدمہ لاہور 14 شہادتوں اور 90 افراد پر اقدام قتل کا مقدمہ ہے، مقدمہ اسلام آباد 18 کروڑ عوام کے معاشی، سماجی اور سیاسی قتل کا مقدمہ ہے۔ مقدمہ لاہور کا فیصلہ قصاص اور مقدمہ اسلام آباد کا فیصلہ انقلاب ہے۔ مقدمہ لاہور کی ایف آئی آر اب تک کاٹی نہیں جاسکی، شہدا کے ورثا ایف آئی آر کٹوانے کے لئے قانون کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں، لیکن ایف آئی آر نہی کاٹی جارہی۔ اگر یہ حادثہ مغربی ممالک میں ہوتا تو حکومتیں ختم ہوچکی ہوتیں اور ظالم اپنے انجام کو پہنچ چکے ہوتے۔ 17 جون کو لاہور میں شریف برادران کے حکم پر ہمارے کارکنوں پرریاستی جبر و تشدد کیا گیا اس کی مثال پوری دنیا کی جمہوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس وقت اگر ہم چاہتے تو حکومت پنجاب کے خاتمے تک جنازوں کو دفنانے سے انکار کرتے اور ان کی حکومت کے خاتمے تک دھرنا دیتے۔ اگر چاہتے تو جاتی امرا کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے اور پوری قوم ہمارے ساتھ تھی مگر ہم نے امن کی خاطر ایسا نہیں کیا۔ ہم نے آئین اور قانون کا راستہ اپنایا، ہم نے نامزد ملزمان کے خلاف مقدمے کی درخواست کی۔ ہم نے ڈیڑھ ماہ قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر حکمرانوں نے ایف آئی آر درج نہیں ہونے دی اور وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے جو ایف آئی آر درج کی ہے ساری کارروائی اسی پر ہوگی۔ 17 جون کے مظلومین ابھی انصاف کی راہ تک رہے تھے کہ میری وطن واپسی پر 14 سو افراد پر مقدمہ درج کیا گیا اور سینکڑوں پرپولیس تشدد کیا گیا۔ اس وقت اگر ہم چاہتے تو اسلام آباد ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے مگر ہم نے آئین و قانون کو ترجیح دی۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے 10 اگست کو یوم شہدا منایا جائے گا۔ ہر آنے والا اپنے ساتھ قرآن پاک، جائے نماز اور تسبیح لائے، میں ضمانت دیتا ہوں کہ یوم شہدا انتہائی پر امن ہوگا، حکومت پنجاب یا وفاق یوم شہدا میں شرکت کے لئے آنے والے افراد کو مت روکے۔ پونے دو ماہ سے ہم صبر کررہے ہیں لیکن ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یوم شہداء پر پرامن رہنے کی ضمانت دیتا ہوں جس طرح میں نے گزشتہ سال اسلام آباد لانگ مارچ کی ضمانت دی تھی نہ پتہ ٹوٹے گا نہ گملا ٹوٹے گا۔ اگر پرامن کارکنوں کو زد و کوب کیا گیا یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو پھر دما دم مست قلندر ہو گا۔ پولیس والوں کے جسم اور کپڑے شہداء کے خون سے لت پت ہیں اگر حکومت پنجاب کے ایما پر انہوں نے قرآن خوانی کیلئے آنے والے لوگوں پر کریک ڈاؤن کیا، پر امن افراد کے گھروں میں گھس کر انہیں زد و کوب کیا، انہیں گرفتار کیا، ان کو روکا گیا تو پھر کارکنان امن کی چوڑیاں پہن کر نہیں آئیں گے۔ آج پاکستان عوامی تحریک پنڈی بھٹیاں کے صدر کو بھی شہید کر دیا گیا۔ یہ قتل بھی حکومتی ایما پر ہوا ہے ہم ان 15 شہداء کا قصاص قانون کے مطابق چاہتے ہیں جو قرآن اور قانون کا فیصلہ ہے۔ شہداء کی قرآن خوانی کیلئے بڑی تعداد میں لوگ آ رہے ہیں اور یوم شہداء تک آمد رہے گی۔ اس آمد پر کسی قسم کی رکاوٹ اگر قاتل حکمرانوں نے ڈالی تو حکمران تازیانہ عبرت بن جائیں گے۔ 4 اگست سے 9 اگست تک ہفتہ شہداء منایا جائے گا۔ روزانہ قرآن خوانی ہو گی اور لاہور کے مین چوکوں پر شمعیں روشن کی جائیں گی‘‘۔

4 اگست تا 9 اگست 2014ء

قائد انقلاب کی ہدایات کی روشنی میں ہفتہ شہداء منانے کے لئے پاکستان بھر میں تقریبات کا آغاز کردیا گیا اور عوام و کارکنان کی بہت بڑی تعداد مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن پہنچنے لگی۔ بدحواس اور بوکھلائی ہوئی حکومت نے یوم شہداء کے لئے اپنے اپنے اضلاع میں انتظامات کرنے والے کارکنان کو ڈرانے اور دھمکانے کے سلسلہ کا آغاز کردیا۔ ڈی سی اوز نے ٹرانسپورٹرز کو آرڈر کر دئیے کہ چابیاں ان کے حوالے کر دیں، ٹرانسپورٹ اڈے بند کرائے جا رہے ہیں، روٹ پرمٹ کینسل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ حکومت کے یہ غیر آئینی، غیر قانونی اوچھے ہتھکنڈے کونسی جمہوریت ہے۔ ٹیکس چور حکمران جو خود منی لانڈرنگ میں ملوث اور آئین و قانون کے باغی حکمران ہیں وہ قائد انقلاب اور PAT کی قیادت پر بد امنی اور بغاوت کے پرچے درج کررہے ہیں۔ قائد انقلاب کا کہنا ہے کہ

’’ کارکن اپنے حوصلے بلند رکھیں حکومت کفر سے چل سکتی ہیں ظلم سے نہیں، یوم شہدا بھی ہوگا اورانقلاب بھی آئے گا، انقلاب کے ذریعے خوشحالی کا سورج طلوع ہونے والا ہے، ہفتہ شہدا کے لئے آنے والوں کو روکنے کے لئے لگائے گئے ناکے اور رکاوٹیں غیرقانونی، غیرآئینی اور غیراخلاقی ہیں۔ ظالموں کا ظلم زیادہ دیر نہیں رہ سکتا۔ ہمارے کارکن و عوام جرات کے ساتھ نکل رہے ہیں وہ رکاوٹوں کو ٹھوکر مار کر یہاں تک پہنچیں گے‘‘۔

٭ رواں ہفتہ حکومت نے ماڈل ٹاؤن کو غزہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ ماڈل ٹاؤن جانے والے تمام راستے سیل کر دیئے گئے ہیں پنجاب پولیس انسانیت کھو چکی ہے۔ یوم شہدا کے لیے آنے والوں پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ پنجاب کو جیل بنا دیا گیا ہے۔ یوم شہداء پر شرکت پر لاہورآنے والے قافلوں پر پنجاب حکومت کے ایما پر بد ترین مظالم ڈھائے گئے۔ موصولہ اور تصدیق شدہ اطلاعات کے مطابق پہلے قافلوں کو روکا گیا، پھر لاٹھی چارج کیا گیا، شیلنگ کی گئی اور کارکنوں پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس سے کئی کارکنان شہید ہو گئے اور ایک ہزار سے زائد کارکنان زخمی حالت میں پڑے ہیں۔ یہ قافلے پنجاب بھر کی تمام تحصیلوں سے آ رہے تھے۔ بھیرہ، گوجرانوالہ، کامونکی، بھکر، فیصل آباد، اوکاڑہ، جنوبی پنجاب اور دیگر صوبوں سے لاہور آنیوالے تمام قافلوں پر پولیس نے براہ راست گولیاں چلائیں۔ نہتے اور پر امن کارکنوں پر لاٹھی چارج، شیلنگ اور گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے پر امن اور نہتے کارکنوں کے پاس اپنا سینہ پیش کرنے کے سواء کوئی چارہ نہیں۔ اپنے دفاع کے لئے گولیوں کا مقابلہ ڈنڈوں اور پتھروں سے کیا جا رہا ہے۔

قائد انقلاب میڈیا کے ذریعے اپنے کارکنان پر ہونے والے مظالم کو بیان کررہے ہیں کہ

’’پاکستان کی تاریخ کا یہ بد ترین ظلم ہے جو اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ بوڑھوں، ماؤں بہنوں کے گھروں میں گھس کر ان کی حرمت کو پامال کیا جا رہا ہے۔ جن سیکیورٹی اداروں کو ہم نے اپنی سیکیورٹی کیلئے ہائر کیا ہوا تھا انکے مالکان کے گھروں پر چھاپے مار کر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ حکمرانوں نے پورے پنجاب کو غزہ بنا دیا ہے، کارکنان کو گولیاں مار کر زخمی کر دیا گیا اور انہیں ہسپتال بھی لے جانے نہیں دیا جا رہا۔ بھیرہ انٹر چینج پر کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں۔ پنجاب حکومت نے بے شرمی کی انتہا کر دی ہے اور انکی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لاشیں گرائی جائیں اور پورے ملک میں انتشار اور خوف و ہراس پیدا کر دیا جائے تا کہ عوام انقلاب اور اپنے حقوق کیلئے نہ نکلیں۔ میں نے اتنے ظلم و جبر کا کوئی واقعہ تاریخ میں نہیں دیکھا، قوم اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہو۔ اس وقت حکمرانوں نے آئین کے آرٹیکل 9، 15، 16 کی دھجیاں بکھیر دیں اور آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کو معطل کر دیا ہے جس کی وجہ سے حکمرانوں پر آرٹیکل 6، سنگین بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے۔ پنجاب کی تمام سڑکوں پر خندقیں کھود دی گئی ہیں اور مختلف سڑکوں پر ہزاروں بسوں کے قافلے روکے گئے ہیں۔ تمام اطراف پر پہلے ہی کنٹینر لگا دئے گئے تھے۔یہ حکمران قوم کے دشمن ہیں۔ قومی ادارے اور قوم اس عظیم ظلم پر کیوں خاموش ہیں۔ شریف برادران نے دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے دئیے، انہیں فنڈنگ اور تحفظ دیا اور اب براہ راست عوام دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ خندقیں دشمنوں کیلئے کھودی جاتی ہیں۔ ان بد مست ظالم حکمرانوں نے عوام کوسفر کی سہولت سے محروم کر دیا ہے۔ ماڈل ٹاؤن کی موبائل سروس بند کر دی گئی ہے اور اب انٹرنیٹ بند کر کے حکمران ریاستی دہشت گردی کے ذریعے سے ماڈل ٹاؤن کو جلیانوالہ باغ میں تبدیل کر نا چاہتے ہیں‘‘۔

٭ حکومتی جبر و ستم جب حد سے بڑھا اور پنجاب بھر میں کارکنان اور عوام کو یوم شہداء میں شرکت کے لئے آنے سے جبراً روک دیا گیا تو قائد انقلاب کی طرف سے ہدایات جاری کی گئیں کہ جو قافلے جہاں پر ہیں وہیں رک جائیں اور انہی جگہوں پر قرآن خوانی کی جائے۔ ظلم و بربریت کا جو مظاہرہ حکومت نے کیا ہے کارکن اسے پوری دنیا پر آشکارا کریں اور ہر جگہ اس ظلم کے خلاف پر امن احتجاج کریں، شہیدوں کی لاشیں اٹھا کر، ذخمیوں کو سامنے بٹھا کر پر امن احتجاج کریں تاکہ دنیا ظلم کی اس نا قابل بیان مثال کو دیکھ سکے۔ پوری قوم سراپا احتجاج بنے۔

قافلے ان ہدایات کے ملنے کے بعد جہاں تھے وہیں رک گئے اور سڑکوں، چوراہوں پر فاتحہ خوانی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ قائد انقلاب نے یوم شہداء کے لئے مرکز پہنچ جانے والے افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم 18کروڑ عوام کیلئے پر امن سبزانقلاب اور غریبوں کے حقوق کی بحالی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ظالم حکمران درندگی اور دہشت گردی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم قانون، صبر اور امن کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ ہم کوئی غیر جمہوری اور غیر قانونی اقدام نہیں اٹھانا چاہتے۔ ظلم کے خلاف احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اللہ کے حکم کے مطابق جب کوئی ظلم کرے تو ان ظالموں کو ننگا ضرور کرو۔ لہذا اس ظلم کو بے نقاب کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ یوم شہداء 10 اگست کو ہر صورت میں لاہور میں منایا جائیگا اور آئندہ کی حکمت عملی بھی 10 اگست ہی کو بیان کی جائے گی۔

10 اگست 2014 ء (یوم شہداء)

حکومتی رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں لوگ آگ و خون کا دریا عبور کرتے ہوئے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن پہنچ چکے تھے۔ ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد بھی اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لئے یوم شہداء پر موجود تھے۔ پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ اس مشترکہ جدوجہد میں شریک پاکستان مسلم لیگ (ق)، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین کے کارکنان اور عہدیداران بھی محترم شجاعت حسین، محترم پرویز الہٰی، محترم صاحبزادہ حامد رضا، محترم علامہ راجہ ناصر عباس کی قیادت میں یوم شہداء پر موجود تھے۔ علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان و قائدین، صحافی، علمائ، مشائخ، طلباء الغرض تمام طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یوم شہداء پر ماڈل ٹاؤن اور شہداء ضرب عضب کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کررہے تھے۔ قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے یوم شہداء پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’18 کروڑ غریب و مظلوم عوام جو ظلم و غربت کی چکی میں پس رہے ہیں وہ جبر و بربریت کے خلاف ڈٹ جائیں۔ انقلاب پھولوں کی سیج نہیں، انقلاب پھل نہیں جو تمہاری جھولی میں ڈال دیا جائیگا اس کیلئے صبر و استقامت و استقلال کا پہاڑ بننا ہو گا۔ مملکت پاکستان بے حساب قربانیوں کے بعد آزاد ہوا لیکن پاکستان کو بچانے، 18کروڑ غریب عوام کے حقوق کی جدوجہد اور انہیں ظلم سے نجات دلانے کیلئے ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ شہداء کیلئے یہاں تین دن قرآن خوانی ہوتی رہے گی۔ دعائیں اور تقاریر ہوتی رہیں گی، لوگ جوق در جوق قرآن خوانی کیلئے آتے رہیں اور یہاں سے 14 اگست کو انقلاب مارچ تمام پارٹیوں کے رہنماؤں کی قیادت میں روانہ ہوگا۔ ہم پر امن ہیں، ہماری 33 سالہ جدوجہد پر امن ہے۔ 33سالوں میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک نے کبھی بھی امن کے دامن کو نہیں چھوڑا لیکن ان ظالموں نے آج سات دنوں سے ماڈل ٹاؤن کے ہزاروں کارکنان کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ محصور بیٹے اور بیٹیوں کو کھانے اور پانی کی کمی ہے۔ ہم اس ملک میں 18 کروڑ مظلوم عوام کے حقوق کی بحالی کیلئے پر امن جمہوری انقلاب کی طرف صبر و ایمان کی قوت سے آگے بڑھ کر جنگ لڑیں گے۔ دنیا کے بڑے بڑے سلطان حکمران مجھے نہ ڈرا سکتے ہیں نہ دبا سکتے ہیں۔ میں غریب عوام کے حقوق کی بحالی، بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے، مزدوروں اور کسانوں کو حقوق دلانے، مظلوموں کو انصاف دلانے، بے گھروں کو گھر دلانے، غریب عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت کی مفت سہولیات اور انکے بنیادی حقوق دلانے کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا۔

ہر روز مجھ پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ مجھ پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا مگر FIA نے تحقیقات کے بعد رپورٹ وزیر اعظم کو بھجوائی کہ ایک روپے کی بھی منی لانڈرنگ طاہرالقادری پر پوری دنیا میں ثابت نہیں ہوئی۔ 1985 تا 2014ء تک 30سال میں ایک سال بھی ایسا نہیں جب میں نے ٹیکس نہ دیا ہو۔ 30 سال سے ایک کنال کے گھر میں رہتا ہوں جس میں تین فیملیاں رہتی ہیں۔ نہ بینک بیلنس ہے نہ جائیداد مگر عزت سے ضروریات زندگی مل رہی ہیں۔ یہ انقلاب میری ذات کیلئے نہیں 18 کروڑ غریب عوام کیلئے ہے۔ جب میں قرآن کی تفسیر اور احادیث لکھتا ہوں تو مجھے اتنی راحت ملتی ہے کہ دنیا کے کسی بادشاہ کو بھی حاصل نہیں ہوتی۔ تمام کارکنان ظلم و جبر کے سامنے صبر، تشدد و بربریت کے سامنے استقامت کے پہاڑ بن جائیں۔17 جون کو بھی ان کے گلو بٹ تھے، 23 جون کو اسلام آباد میں بھی ان کے گلو بٹ تھے اور اب بھی انکے گلو بٹ ہیں جو پولیس پر تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کر رہے ہیں۔ ہمارے 25000 کارکنان گرفتار کر لئے گئے۔ 2000 سے زائد زخمی ہیں۔ بھیرہ انٹر چینج کو میدان جنگ بنا یاگیا۔ ہمارے کارکن انکی گولیوں اور شیلنگ کا مقابلہ ڈنڈوں سے کر رہے ہیں۔ حکومت نے ماڈل ٹاؤن کو سات دنوں سے غزہ بنایا ہوا ہے۔ ان حکمرانوں نے ظلم و بربریت کی ایسی داستان رقم کی ہے کہ دنیا کی تاریخ ان پر لعنت بھیجے گی۔

ہم ملک میں حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں، عوام کو شریک اقتدار کرنا چاہتے ہیں، ملک میں شفاف اور منصفانہ الیکشن چاہتے ہیں، ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، ملک سے ظلم و زیادتی کا نظام ختم کرکے انصاف کا نظام قائم کر کے اقلیتوں کو انکے حقوق دینا چاہتے ہیں۔ کرپشن، رشوت ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی ختم کر کے امریکہ اور دیگر یورپین ممالک کی طرح یہاں بھی حقیقی جمہوریت کاقیام چاہتے ہیں۔ ہم غریبوں کو صاف پانی دینا چاہتے ہیں اس پوری جدوجہد کا نام پر امن سبز انقلاب رکھا ہے۔ ہم مارشل لاء نہیں چاہتے ہم اپنی فوج طاقتور بنانا چاہتے ہیں اور فوج کو مثبت رول دینا چاہتے ہیں‘‘۔

یوم شہداء کے موقع پر دیگر قائدین نے بھی اپنے خطابات میں حکومتی ظلم و ستم کی شدید مذمت کی۔ دہشت گردی کا خاتمہ اور پاکستان سمیت پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں۔ یوم شہداء کے موقع پر قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے خصوصی دعا کرائی۔

11 اگست تا 13 اگست 2014ء

14 اگست کو انقلاب مارچ کی اسلام آباد روانگی کے اعلان کے ساتھ ہی حکومتی ایوان میں زلزلہ بپا ہوگیا۔ سٹیٹس کو کے محافظ اور اس فرسودہ سیاسی نظام کے مجاوروں نے اپنی بقاء اور اپنی کرپشن کو دوام دینے کے لئے راستے میں آنے والی ہر عوامی قوت کو اپنے جبرو ستم اور ظلم و بربریت سے کچلنے کا فیصلہ کرلیا۔ پنجاب حکومت نے لاہور مکمل طور پر سیل کردیا ہے، ہرطرف کنٹینرز ہی کنٹینرز نظر آرہے ہیں۔ پیٹرول پمپس بند ہیں، میٹروبس سروس بھی معطل ہے اور عوام سخت پریشان ہیں۔ لاہور میں داخلی اور خارجی راستوں پر رکاوٹوں کے باعث کئی ایمبولینس پھنسی ہیں، لوگ مریضوں کو کندھوں پر اٹھائے راستے تلاش کر رہے ہیں، کئی مریض جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رائے ونڈ روڈ اور جاتی عمرہ روڈ بھی کنٹینرز لگا کر بند کردی گئی ہے۔ پنجاب کے تمام اضلاع کے خارجی اور داخلی راستوں پر کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ موٹر وے کا داخلی راستہ بند کردیا گیا ہے جبکہ موٹروے کے تمام انٹرچینجز پر بھی کنٹینرز رکھ دئے گئے ہیں۔ تمام اضلاع سے وہ تمام راستے جو لاہور کو جاتے ہیں انہیںکنٹینر رکھ کر بند کر دیا گیا ہے۔ داخلی، خارجی راستوں پر پولیس کی نفری تعینات کر دی گئی ہے اور قافلوں کو انقلاب مارچ میں شمولیت سے زبردستی روکا جارہا ہے۔

ماڈل ٹاؤن کا منظر ہی کچھ اور ہے گذشتہ پورا ہفتہ پولیس نے نہ صرف محاصرہ جاری رکھا بلکہ آنسو گیس کا بھی بے دریغ استعمال کیا۔ لاتعداد افراد زخمی، ان گنت گرفتاریاں مگر کارکنان اپنے جذبوں، ولولوں اور جرات کے ساتھ انقلاب مارچ میں شرکت کے لئے تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ پہنچ رہے ہیں۔ خواتین کی جرات اور حوصلہ کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی۔ بزرگ افراد ضعیفی کے باوجود قائد انقلاب کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے موجود ہیں، نوجوان اور کثیر تعداد میں بچے بھی اپنے جذبات اور ولولوں کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ان جذبوں اور ولولوں کے آگے حکومتی ظالمانہ اقدامات اور تمام ہتھکنڈے ریت کی دیوار ثابت ہورہے ہیں۔

ماڈل ٹاؤن میں موجود ان محصورین کے پاس کھانا، پانی اور ادویات کی شدید کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ سول سوسائٹی اور دیگر جماعتوں کے لوگ اگرکھانے پینے کی اشیاء اور ادویات لے کر یہاں پہنچنا چاہ رہے ہیں توان کو بھی زبردستی روکا جارہا ہے۔ 14 اگست کو روانہ ہونے والے انقلاب مارچ کے لئے کئے جانے والے انتظامات میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ مگر یہاں موجود کارکنان تحریک اپنے مشن کے لئے تمام تر مشکلات برداشت کرنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔

14 اگست 2014ء

آج 14 اگست ہے، آج سے 67 سال قبل 1947ء میں بھی قوم نے اپنے حقوق کی جنگ لڑ کر آزادی حاصل کی تھی۔ آج اس آزادی کو درپیش خطرات کے پیش نظر ظالم حکمرانوں کے خلاف انقلاب مارچ نے اسلام آباد روانہ ہونا ہے۔ ایک طرف حکومتی مظالم، اوچھے ہتھکنڈے، گرفتاریاں، لاٹھی چارج، آنسو گیس، شیلنگ اپنے عروج پر ہے اور دوسری طرف 10 دن سے ماڈل ٹاؤن میں محصور بھوکے پیاسے مردو خواتین اور بچے و بوڑھے ملک و قوم کی خاطر قربانیاں دینے کے لئے تیار ہیں۔ لاہور سے ملک بھر کے شہروں کو جانے والی انٹر سٹی پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی حکومت نے بند کر رکھا ہے۔ پولیس نے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کر رکھے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن میں صبح کے وقت سے کرفیو کا سماں ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیس کی نفری تعینات ہے۔ پولیس نے فیصل ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن، کلمہ چوک، مڑیاں سٹاپ، جناح ہسپتال کے تمام راستوں کو کنٹینرز، مٹی، خاردار تاروں، لوہے کے بیریئر، منی لوڈر ٹرک لگا کر روک رکھا تھا۔ فصائی نگرانی جاری ہے۔

حکومت ابھی تک بضد ہے کہ وہ کسی بھی صورت مارچ کو اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں دے گی اور نہ ہی ان افراد کو ماڈل ٹاؤن سے نکلنے دے گی۔ مشترکہ جدوجہد کرنے والی تمام جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ق)، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین کے تمام مرکزی قائدین بھی رہائش گاہ قائد انقلاب پہنچ چکے ہیں جہاں سے انقلاب مارچ نے شروع ہونا ہے۔ کارکنان صبح سویرے سے ہی مکمل تیاری کئے بیٹھے ہیں۔ چہروں پر اطمینان اور قلوب و ارواح میں جذبات کا تلاطم لئے سفر انقلاب پر روانہ ہونے کے لئے بے تاب ہیں۔ 1:30 بجے قائد انقلاب اپنی رہائش گاہ سے دیگر قائدین کے ہمراہ باہر تشریف لاتے ہیں اور انقلاب مارچ کی روانگی کا اعلان فرماتے ہیں:

’’میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا انقلاب مکمل طور پر پرامن ہو گا اور ہم ملک میں حقیقی جمہوریت اور آئین کی مکمل بحالی کے ساتھ آرٹیکل 62 اور 63 پر عمل کروانے کیلئے انقلاب مارچ کر رہے ہیں اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہمیں اس مارچ کیلئے اللہ تعالی کی مدد اور عوام کی حمایت حاصل ہے اس لئے ہم اپنے مشن میں کامیاب ہونگے۔ ہم آئین اور قانون پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں آئین اور قانون پر مکمل عملد رآمد کیا جائے اور آئین کے تحت پاکستان کے عوام کو جو بنیادی اور آئینی حقوق ہیں وہ ان کو ہر صورت فراہم کئے جائیں گے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا انقلاب ملک میں صحیح شراکتی جمہوریت کے نفاذ کا نام ہے اور ہمارے اس سبز انقلاب سے ملک میں حقیقی جمہوریت آئے گی اور ملک میں غریب اور امیر کا فرق بھی مٹ جائے گا۔ ہمارے دس نکاتی ایجنڈے میں ملک میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور ملک میں انتخابی اصلاحات کے بعد ملک میں شفاف انتخابات کروانے کا ایجنڈا بھی شامل ہے‘‘۔

انقلاب مارچ 2 بجے قائد انقلاب کی رہائش گاہ سے روانہ ہوا۔ سینکڑوں گاڑیوں میں تحریک کے جھنڈے اٹھائے کارکن مارچ میں شامل تھے جو کہ حکومت کیخلاف نعرے بازی کرتے رہے۔ انقلاب مارچ کی روانگی سے قبل پاک افواج کے حق میں نعرے لگوائے گئے اور ضرب عضب کے شہداء کیلئے بھی دعا کروائی گئی۔ انقلاب مارچ کے شرکاء خود کرین کی مدد سے رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھتے رہے۔ شرکاء تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے تین سے چار کلومیٹر پیدل چل کر ماڈل ٹاؤن سے فیروز پور روڈ پر پہنچے۔ عوام کی غیر متوقع تعداد اور کارکنان کے حوصلے اور جذبے دیکھ کر کوئی بھی اس سیل رواں کو روکنے کی جرات نہ کر سکا۔

لاہور، مریدکے، کامونکی میں ہزاروں افراد نے انقلاب مارچ کا استقبال کیا اور مارچ میں شامل ہوئے۔ پوری رات یہ قافلہ چیونٹی کی چال چلتا ہوا، لاکھوں افراد کی محبتوں اور جذبات کو سمیٹتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہا۔ تمام شہروں اور قصبوں میں پرتپاک استقبال کیا گیا اور شرکاء پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔

15 اگست 2014ء

انقلاب مارچ قائدانقلاب کی قیادت میں اور دیگر قائدین کی رہنمائی میں پوری رات اندھیرے سے روشنی کی طرف سفر کرتا رہا اور صبح سحری کے وقت دریائے چناپ کے پل پر پہنچا۔ جہاں PAT اور دیگر جماعتوں کے قائدین و کارکنان نے انکا استقبال کیا۔ لالہ موسیٰ چک پیرانہ کے مقام پر انقلاب مارچ کے شرکاء نے نماز فجر ادا کی۔ سیاسی تجزیہ نگار انقلاب مارچ کو تحریک انصاف کے آزادی مارچ سے بڑا قرار دے رہے تھے۔ قافلہ کی لمبائی کئی کلو میٹر ہے جس میں سینکڑوں چھوٹی بڑی گاڑیاں شامل ہیں۔ غیر ملکی میڈیا بھی اپنی رپورٹ میں انقلاب مارچ کو شرکاء کی تعداد کے اعتبارسے ایک بڑا مارچ قرار دے رہا ہے۔

کھاریاں میں استقبال کے لئے آنے والوں سے گفتگو کرتے ہوئے قائد انقلاب نے کہا ہے کہ

’’پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں اتنا بڑا مارچ کبھی نہیں دیکھا ہوگا‘ کارکن پرامن رہیں ہم کسی قسم کا تصادم نہیں چاہتے‘ ہمارے کارکن خالی ہاتھ ہیں‘ خود غیر آئینی اور غیر قانونی کام کرنے والے حکمران دوسروں پر غیر آئینی کاموں کے الزامات لگارہے ہیں۔ حکمرانوں نے ملک کو لوٹ کر اپنا کاروبار بنایا اور میں نے کارکن بنائے۔ حکومت نے مجھ پر جھوٹے مقدمات بنائے۔ منی لانڈرنگ کے الزامات لگانے والے خود منی لانڈرنگ کرتے ہیں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ حکمران بتائیں کہ کیا ان کے یہ اقدامات آئینی ہیں۔ ہم پر دہشتگردی کا جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے۔ عوامی تحریک سے بڑھ کر کسی نے عوامی ہونے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ہمارا انقلاب کسی جماعت کے خلاف نہیں، نظام کے خلاف ہے۔ ہمارا مارچ پرامن تھا، پرامن ہے، پرامن رہیگا۔ عوام امن کی قوت سے حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دینگے۔ ہم مارشل لاء نہیں چاہتے، ہماری جدوجہد کے نتیجے میں مارشل لاء نہیں لگے گا‘‘۔

انقلاب مارچ آج سرائے عالمگیر، جہلم، سوہاوہ، گوجر خان اور راولپنڈی کی عوام کی محبتوں اور جذبات کو سمیٹتے ہوئے اسلام آباد کی طرف رواں دواں رہا۔ تمام شہروں میں عوامی تحریک کے ضلعی رہنماؤں سمیت ہزاروں لوگوں نے شاندار استقبال کیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں۔ لاہور سے راولپنڈی تک کے تمام شہروں کے داخلی و خارجی راستے حکومت پنجاب نے ٹریلرز اور کنٹینرز سے بند کررکھے تھے۔ حکومت نے مارچوں کو روکنے کے لئے محض ٹریلرز اور کنٹینرز کی رکاوٹیں لگانے پر ہی کروڑوں روپے پھونک دیئے۔ پنجاب حکومت 10 دن سے صرف کنٹینر حکومت بن کر رہ گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی مددو نصرت، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق اور کارکنان تحریک و عوام پاکستان کی قربانیوں، جذبات اور محبتوں کی وجہ سے انقلاب مارچ بالآخر رات 2:30 بجے کے قریب خیابان سہروردی (آبپارہ چوک) اسلام آباد پہنچ گیا۔حکومت نے PAT کی انتظامیہ کو اسلام آباد میں دیگر مقامات پر دھرنا دینے کی اجازت دی مگر PAT نے اپنی مرضی کے مقام کا چناؤ کیا۔ اسلام آباد میں جس وقت انقلاب مارچ داخل ہورہا تھا اس وقت بارش بھی اپنے زوروں پر تھی۔ کارکنان بارش میں بھیگتے سرد ہواؤں کا مقابلہ کرتے آبپارہ چوک میں خیابان سہروردی پر پڑاؤ ڈالنے کے انتظامات کو حتمی شکل دے رہے تھے۔ موسموں کی یہ شدت ان کارکنان کے جذبات کی شدت کے مقابلہ میں شاید کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی، اسی لئے ہر کوئی اس سفر میں اپنی نگاہیں منزل و مقصد پر رکھے ہوئے تھا۔

16 اگست2014ء

دو دن کے سفر اور ایک ہفتہ سے زیادہ کے محاصرہ میں گھرے رہنے والوں کا یہ قافلہ عزم و ہمت کی تصویر بنے اسلام آباد میں موجود ہے۔ ماڈل ٹاؤن اور یوم شہداء کے شہیدوں کا خون، زخمیوں کے چھلنی جسم، گرفتار کارکنان پر ہونے والے تشدد کا تصور ان تمام شرکاء کو بے چین و مضطرب کئے ہوئے تھا۔ انقلاب مارچ کے شرکاء 36 گھنٹے سفر کے بعد لاہور سے مارچ کر کے اسلام آباد پہنچے اور کارکنوں نے سڑک پر رات گزاری۔

آج انقلاب دھرنے کا پہلا دن ہے۔ دھرنا کے شرکاء سے دن 11:30 بجے قائد انقلاب نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’سانحہ ماڈل ٹاؤن پر شریف برادران کو گرفتار کیا جائے‘ قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے قومی حکومت بنائی جائے۔ موجودہ اسمبلیوں کی کوئی آئینی و قانونی حیثیت نہیں ہے۔ قومی حکومت اتفاق رائے سے بنائی جائے تمام کرپٹ لوگوں کا سخت احتساب کیا جائے۔ مڈٹرم الیکشن مسائل کا حل نہیں۔ 10، 20 حلقے کھولنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ جلسہ گاہ کے قریب تمام دکاندار دکانیں کھول دیں۔ گارنٹی دیتا ہوں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اگر ہوا تو میں اپنی جیب سے پیسے ادا کروں گا۔ انقلاب مارچ میں کوئی دہشت گرد یا غنڈہ نہیں۔ ماڈل ٹاؤن کے شہید پوچھتے ہیں کہ کیا ہمیں انصاف ملے گا۔ ماڈل ٹاؤن کا آپریشن وزیراعظم اور وزیراعلیٰ اور انکے وزراء کی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ طاقتور کا قانون اور، کمزور کا قانون اور، اب یہ ملک میں نہیں چلے گا۔ سارے ادارے آئین کے تحت اور ریاست کے مطابق چلائے جائیں۔ یہ پرامن انقلاب ہے، انقلاب مکمل طور پر جمہوری اور پرامن ہوگا۔ وہ مڈٹرم الیکشن کو مسترد کرتے ہیں، 4 یا 10 حلقے کھولنے کا کوئی فائدہ نہیں، پورے نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ کارکن پرامن رہیں میں کہیں نہیں جاؤنگا، نہ سونے اور نہ کھانا کھانے، کارکنوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑوں گا۔ میں ان لیڈروں میں سے نہیں ہوں جو اپنے کارکنوں کو مشکل میں چھوڑ کر خود آرام کرنے چلا جائے۔ مجھے (ق) لیگ کے چوہدری شجاعت حسین نے ایف ایٹ میں اپنی رہائشگاہ پر آرام کیلئے چلنے کی دعوت دی لیکن میں نے کارکنوں کو بارش میں چھوڑ کر آرام کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں ہر طرح کے حالات میں اپنے کارکنوں کے درمیان رہوں گا۔ میں نے کارکنوں کو چھوڑنا جائز نہیں سمجھا اور ایک منٹ کیلئے بھی انقلاب مارچ سے باہر نہیں گیا۔ میرا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے۔ ہم اپنی زندگیاں قربان کر دیں گے مگر تشدد کا راستہ نہیں اپنائیں گے، ہمارا عقیدہ امن ہے‘‘۔

قائد انقلاب کے خطاب کے بعد کارکنان صبرو استقامت کے ساتھ وہیں ڈیرے ڈالے رہے۔ علاقائی و سماجی شخصیات بھی وقتاً فوقتاً دھرنے میں شریک ہوتی رہیں اور ہمارے موقف کی تائید کرتی رہیں۔ محترم پرویز الہٰی اور محترم شجاعت حسین، مجلس وحدت مسلمین کے سربراہ علامہ ناصر عباس، آل مسلم لیگ کے مرکزی رہنما احمد رضا قصوری، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا، صاحبزادہ عامر فرید کوریجہ، کنوینر ورلڈ منیارٹی الائنس جے سالک، عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق عباسی، سیکرٹری جنرل خرم نوازگنڈاپور اور دیگر مرکزی قائدین خطابات سے شرکاء کے جذبات میں مزید اضافہ کرتے رہے۔

٭ آج ایڈیشنل سیشن جج راجہ محمد اجمل خان نے وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ شہبازشریف، وزیر داخلہ چودھری نثار، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر اطلاعات پرویز رشید، سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور گلو بٹ سمیت 21 شخصیات کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ مدعی کی درخواست کے مطابق درج کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے وکلاء سے دلائل سننے کے بعد چار صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی پہلی ایف آئی آر کی بظاہر کوئی حیثیت نہیں ہے کیونکہ اس میں سانحہ کے دوران جاں بحق یا زخمی ہونے والے کسی شخص کا ذکر نہیں ہے تحریری فیصلے کے مطابق تھانہ ایس ایچ او فیصل ٹاؤن کو حکم دیا گیا ہے کہ ادارہ منہاج القرآن کی درخواست کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کیا جائے اور پھر قانون کے مطابق اس کی تفتیش کی جائے۔ حکومت نے وزیراعظم اور وزیر اعلی سمیت 22 شخصیات کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرنے کا حکم چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

٭ اسلام آباد اور گرد و نواح میں بارش کا سلسلہ بھی جاری رہا مگر اس کے باوجود سفر انقلاب جاری و ساری ہے۔ تمام قومی و بین الاقوامی میڈیا انقلاب مارچ کی لمحہ بہ لمحہ صورت حال نشر کرتے ہوئے اس بات کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ انقلاب مارچ کے شرکاء زیادہ ہیں۔ خواتین کی تعداد بھی زیادہ ہے اور یہ شرکاء زیادہ منظم ہیں۔ شام 3 بجے قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دیگر قائدین کے ہمراہ دوبارہ سٹیج پر تشریف لائے اور باقاعدہ چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے کہا کہ

٭ ’’سانحہ ماڈل ٹاؤن کے 14 شہداء کی روحیں سوال کرتی ہیں کہ ہمیں کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا؟ اگر ہم ان شہداء کو انصاف نہ دلا سکے تو پاکستان میں کسی کے قتل کا قصاص نہیں ہوگا۔

٭ ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے قتل عام کے نتیجہ میں نوازشریف اور شہبازشریف فوری طور پر استعفیٰ دیں۔

٭ نوازشریف اور شہبازشریف کے استعفی کے بعد انہیں عام شہریوں کی طرح گرفتار کیا جائے۔ قتل کے مقدمہ میں ضمانت نہیں ہوتی۔

٭ قومی اور صوبائی تمام اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں، کیونکہ یہ غیرآئینی طور پر تشکیل دی گئی تھیں۔

٭ یہ اسمبلیاں آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی پر مبنی اور ٹیکس چوروں و قرضہ خوروں سے بھری ہوئی ہیں۔

٭ موجودہ غیرآئینی حکومت اور اسمبلیوں کو ختم کرنے کے بعد ایک نئی قومی حکومت قائم کی جائے۔

٭ نئی قومی حکومت کے ذریعے سب سے پہلے ہر اس شخص کا کڑا اور بے رحم احتساب کیا جائے جس نے اس ملک میں کرپشن کی ہے۔

٭اس قومی حکومت کے ذریعے 65 سال سے اپنے حقوق سے محروم غریبوں کو غربت سے نکالنے کیلئے دس نکاتی ایجنڈا نافذ کیا جائے۔

٭اس انقلابی ایجنڈا کے مطابق ہر بے گھر کو گھر دیا جائے۔ بے گھر خاندانوں کو تین / پانچ مرلہ کے پلاٹ مفت دیئے جائیں۔ ہر شخص کو روزگار فراہم کیا جائے یا روزگار الاؤنس دیا جائے۔ کم آمدنی والوں کو آٹا، چاول، دودھ، کوکنگ آئل، چینی اور سادہ کپڑا آدھی قیمت پر فراہم کیا جائے۔ غریبوں کیلئے بجلی، پانی اور گیس کے تمام بلوں پر ٹیکس ختم کر دیئے جائیں۔ سرکاری انشورنس قائم کی جائے اور غریبوں کو مکمل مفت علاج کی سہولت دی جائے۔ یکساں نصاب کے تحت میٹرک تک تعلیم لازمی اور مفت مہیا کی جائے، والدین بچوں کو تعلیم سے محروم نہ رکھ سکیں۔ پاکستان کی سرکاری زمینیں غریب کسانوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا کیلتاً خاتمہ کیا جائے۔ خواتین کو گھریلو صنعتی یونٹس کی صورت میں روزگار مہیا کیا جائے اور ان کے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم کئے جائیں۔ سرکاری و غیر سرکاری چھوٹے بڑے ملازمین کے درمیان تنخواہوں کے فرق کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے۔ انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنا کر عوامی شراکتی جمہوریت کی بنیاد رکھی جائے، جو عوام کو ان کی دہلیز پر حقوق مہیا کرے۔

ہم انقلاب کے ذریعے ایسا نظام چاہتے ہیں جیسا دنیا کے سارے ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں ہے۔ اس ملک میں کسی کرپٹ افسر کو نہیں بیٹھنے دیا جائے گا، ہر کرپٹ افسر جیل جائے گا۔ اقتدار میں رہ کر اربوں روپے کھانے والوں اور غریبوں کیلئے دو الگ الگ قانون ہیں، اب یہ نظام پاکستان میں نہیں چلے گا۔ جمہوریت رکھنی ہے تو تمام ریاستی اداروں کو ریاست کے تابع کرنا ہوگا۔ اگر جنرل پرویزمشرف پر آئین کو معطل کرنے پر مقدمہ چل سکتا ہے تو آئین کے بیسیوں آرٹیکل معطل کرنے والوں کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا جا سکتا؟ ہم عوام کو آئینی حقوق دلانا چاہتے ہیں، ہم پرامن لوگ ہیں اور دہشت گردی کو مسترد کرتے ہیں۔ ہم پاکستان میں ریاست مدینہ کا نظام لانا چاہتے ہیں، جہاں مسلم اور غیرمسلم شہریوں کو برابر کے حقوق میسر تھے۔ جس شخص کو روٹی کپڑا مکان روزگار علاج تعلیم میسر نہیں اس کا ووٹ کیسے آزاد ہوسکتا ہے؟ ہم مڈٹرم الیکشن کو مسترد کرتے ہیں، موجودہ نظام میں مڈٹرم الیکشن دوبارہ ایسے ہی لوگوں کو مسلط کردے گا‘‘۔

ان مطالبات کی منظوری کے لئے قائد انقلاب نے حکمرانوں کو 48 گھنٹوں کا الٹی میٹم دیا کہ ہمارے مطالبات کو 48 گھنٹوں میں تسلیم کیا جائے بصورت دیگر ہم اپنے سفر انقلاب کے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

17 تا 18 اگست 2014ء

انقلاب مارچ کے شرکاء کے جذبات ہر آئے روز بڑھتے جارہے ہیں۔ خیابان سہروردی پر کھلے آسمان تلے پڑاؤ ڈال رکھا ہے۔ حکمرانوں کو دیے گئے الٹی میٹم کی کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوچکی ہے۔ ملک بھر سے مختلف سیاسی، مذہبی، سماجی، علاقائی جماعتوں کے نمائندہ افراد اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ شرکاء انقلاب مارچ کے جذبات، استقامت، صبر اور جرات کو خراج تحسین پیش کرنے اور موقف کی حمایت میں ہر آئے روز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ قائد انقلاب اور دیگر قائدین کے خطابات کا صبح و شام سلسلہ بھی جاری ہے۔ ملی نغمے اور تحریکی ترانے بھی جذبات کو بڑھانے اور عزم و یقین کے اظہار میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ قائد انقلاب بھی اپنے انقلابی خطابات کے ذریعے انقلاب کے ثمرات کو بیان فرمارہے ہیں۔ ان کا ہر خطاب حکمرانوں پر بجلی کی کڑک کی طرح گرتا ہے اور عوام کے خون پر قائم ان کی عمارت اقتدار کو بھسم کرتا چلا جاتا ہے۔

سہروردی روڈ پر انقلاب مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب نے فرمایا کہ

’’موجودہ نظام کے تحت کوئی کرپشن ختم نہیں کرسکتا اور ماضی کی نام نہاد حکومتیں ملکی مسائل حل نہیں کرسکتیں، اپنے وسائل سے ملک چلانا ممکن ہے مگر اس کا راستہ صرف اور صرف سبز انقلاب ہے۔ ہمارے پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ پر سوال اٹھایا گیا کہ عوام کے معاشی مسائل کے حل کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے، ایسے افراد کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ماہرین کے ساتھ مل کر اس پر 2 سال ریسرچ کی جس کے مطابق مسائل کے حل کے لئے تمام وسائل پاکستان میں موجود ہیں اور اس کے لئے ایک روپے کا قرض بھی باہر سے لینا نہیں پڑے گا۔ اگر عوامی تحریک کے پیش کردہ 8 نکات پر عمل کرلیا جائے تو ملکی خزانے کو سالانہ 4 ہزار ارب روپے کا فائدہ ہوگا جسے کوئی فرد رد نہیں کرسکتا۔ اس ایجنڈے کے نفاذ کے لئے صرف وفاقی و صوبائی اسمبلیوں کے اخراجات میں 50 فیصد کٹوتی کردی جائے تو ملکی خزانے کو سالانہ 7 ارب 65 کروڑ روپے بچتے ہیں، اسی طرح ملک میں ہونے والی یومیہ 6 ارب روپے کرپشن تصور کرلی جائے اور نئی آنے والی قومی حکومت اس میں 50 فیصد کمی کر دے تو قومی خزانے کے سالانہ ایک ہزار ارب روپے بچائے جاسکتے ہیں۔

ٹیکس وصولی میں ملکی خزانے کو سالانہ 18 سے 20 کھرب روپے کا خسارہ ہورہا ہے اور اگر قومی حکومت ٹیکس کے نظام میں اصلاحات کرتے ہوئے 25 فیصد ٹیکس محصولات بڑھا دے تو سالانہ 500 ارب روپے قومی خزانے میں آسکتے ہیں۔ اگر بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقے معدنی وسائل سے مالا مال ہیں اگر ان سے استفادہ کیا جائے تو سالانہ 2 کھرب 54 ارب روپے کی وصولی ہوگی۔ بلوچستان اور سندھ کے سرحدی علاقوں میں بے شمار معدنیات موجود ہیں اگر وہ نکالی جائیں تو سالانہ 2 کھرب 54 ارب روپے کی وصولی ہوجائے گی، صرف ریکوڈک سے سونا نکالا جائے تو 31 ارب 25 کروڑ روپے کی سالانہ آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیل کے ذخائر سے سالانہ 30 کروڑ بیرل تیل وصول کیا جاسکتا ہے۔ گوادر پورٹ سے سالانہ 20 کھرب روپے آمدنی وصول کی جاسکتی ہے، اگر ملک میں 10 فیصد پاکستانی زکوٰۃ ادا کریں تو سالانہ 200 ارب روپے سے زائد زکوٰۃ وصول کی جاسکتی ہے جس سے غریب عوام کے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ سوئزرلینڈ کے بینکوں میں حکمران خاندانوں کے 200 ارب ڈالر پڑے ہیں،  اگر ملکی لوٹی گئی دولت واپس لائی جائے تو ملکی استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

موجودہ حکمرانوں نے کرپشن کو جمہوریت کا نام دے رکھا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے پاکستانی قوم کو مقروض بنا دیا۔ ہمارا تعلیمی نظام کینیا اور ایتھوپیا سے بھی بدترہے۔ ملک میں ظلم کی حکمرانی کو اب نہیں چلنے دیں گے۔ پاکستان معاشی ترقی کے حوالے سے افریقہ کے ممالک سے نچلی سطح پر آ گیا ہے۔ غریبوں کا پیسہ لوٹنے والوں سے پیسہ لیں گے۔ آپریشن ضرب عضب کا فیصلہ نواز شریف نے نہیں فوج نے کیا، فوج کا فیصلہ 48 گھنٹے کے بعد نواز شریف کو قبول کرنا پڑا۔ موجودہ نظام عوام کو انصاف نہیں دے سکتا، قرآن وحدیث اور خلافت راشدہ کا نظام لائیں گے۔ یہاں تو پیمرا، نادرا، الیکشن کمیشن، نیب کا چیئرمین بھی ان کی مرضی سے لگتا ہے اور اگر ان کی مرضی کے مطابق کام نہ کرے تو اسے ہٹا دیا جاتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن وزیراعلی کے حکم سے ہوا اور 2 ماہ بعد بھی شہداء کے لواحقین کا مقدمہ درج نہیں کیا جارہا جبکہ عدالت نے بھی شریف برادران سمیت 21 افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا اس کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہوا، ملک میں کوئی نظام نہیں رہا اور ہر ادارہ، آئین اور قانون حکمرانوں کے قابو میں ہے جس کی وجہ سے لوگ انقلاب کے لئے سڑکوں پر نکلے ہیں‘‘۔

٭ حکومت کو 48 گھنٹے کی دی گئی ڈیڈ لائن 18 اگست کو رات 12 بجے ختم ہوگئی مگر حکومت کی طرف سے قائد انقلاب کے پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ پر کسی مثبت رائے کا اظہار سامنے نہ آیا۔ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد قائد انقلاب نے شرکاء انقلاب سے رات 12 بجے کے بعد خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’ماڈل ٹاؤن میں لوگوں کو اذیت ناک قیدو بند کی صعوبتوں میں رکھا گیا ان پر کھانے پینے سمیت تمام ضروریات زندگی کی فراہمی بند رکھی گئی، کارکنوں سے غیر ملکی جنگی قیدیوں سے بھی بد تر سلوک کیا گیا لیکن وہ انقلاب کی جہدوجہد کی حفاظت کرتے رہے جس پر یہ تمام افراد مبارکباد کے مستحق ہیں۔ یوم شہدا منانے والوں پر آنسو گیس کی شیلنگ اور گولیاں چلائی گئیں جن میں کئی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے اور ہمارے 25 ہزار کارکن گرفتار کیے گئے جو آج تک گھروں کو نہیں پہنچ سکے ہیں، ان تمام لوگوں نے عظیم انقلاب کو جلا بخشی اور بلندی دی۔ انقلاب کی راہ میں مارے جانے والوں نے بزدل حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کو ہمارے لیے آسان کردیا ہے اور انقلاب کی کامیابی کا سہرا ماڈل ٹاؤن میں شہید کیے جانے والے 14 کارکنوں کے سر ہے۔ انقلاب آسانی سے نہیں آتے،قوموں کے مقدر پھونکوں سے نہیں بدلتے،انقلاب ایک مصیبتوں کی طویل جدوجہد ہے جو تن،من،دھن اور خون کی بازی مانگتا ہے، اگر قومیں مایوس ہوکر گھر میں بیٹھی رہیں تو ان کے مقدر نہیں بدلتے۔ قوم اٹھے اور فرعونوں کے ایوانوں کی طرف بڑھے،حکمرانوں نے قوم کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا ہے۔ انقلاب کی راہ میں جاں بحق ہونے والوں نے اپنے حصے کی قربانی دے دی اب قوم سے کہتا ہوں کہ انقلاب کا سورج طلوع کرنے کے لئے گھروں سے نکلے اور اس عظیم جدوجہد میں شریک ہوجائے تاکہ اپنی نسلوں کو بتاسکیں کہ انہوں نے ملک کی سرزمین پر انقلاب کا سورج طلوع ہوتے دیکھا اور وہ ظلم سے لڑنے والوں میں شامل تھے۔ مجھے اور میرے اتحادیوں کو اس جدوجہد کی کوئی ضرورت نہیں تھی مگر ہم یہ جنگ کروڑوں غریب مظلوموں کے لیے لڑرہے ہیں، مجھے جو کچھ بنایا اس پاکستان نے بنایا اور میں اس دھرتی کا قرض چکانا چاہتا ہوں، ہم سب قوم کی مدد کیلئے نکلے ہیں، یہ جنگ ملک کی دھرتی اور کروڑوں مظلوموں کے لیے ہے اس لیے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس میں شامل ہوں۔ کل شام پانچ بجے دھرنے کے مقام پر عوامی پارلیمنٹ لگے گی اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا‘‘۔

19 اگست 2014ء

گزشتہ رات کارکنان نے ظالم حکمرانوں کی طرف سے کریک ڈاؤن کے خدشہ کے پیش نظر جاگتے ہوئے گزاری، ہر کوئی قائد انقلاب کے حکم پر ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار تھا۔ ہر ایک کی نگاہ میں روشن مستقبل تھا۔ بچے، بوڑھے، جوان، خواتین ہر کوئی اپنے سفر انقلاب کے اگلے مرحلہ میں داخل ہونے کے لئے بے تاب تھا۔ انقلاب مارچ کے جملہ شرکاء نے شام 5بجے سے قبل قائد انقلاب کے کسی بھی حکم کی اطاعت کے لئے اپنے آپ کو ذہنی و جسمانی حوالے سے تیار کرلیا تھا۔ عوام الناس کی کثیر تعداد بھی گردونواح سے ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ کا حصہ بننے کے لئے پہنچ چکی تھی۔ قائد انقلاب سٹیج پر شام 6 بجے دیگر قائدین کے ہمراہ پہنچ گئے اور شرکاء سے خطاب کا آغاز عوام کے بنیادی حقوق کی بازیابی کے لئے اس جنگ کو جاری رکھنے کے متعلق سوالات سے کیا۔ ان سوالات کا عوامی پارلیمنٹ نے مثبت جواب دیا۔ قائد انقلاب نے کہا ’’ کیا آپ نواز اور شہباز شریف کیخلاف ایف آئی آر درج کروانا چاہتے ہیں، مجمع نے جواب دیا: ہاں۔ کیا آپ قومی حکومت چاہتے ہیں، مجمع نے جواب دیا: کیا احتساب چاہتے ہیں، عوام نے جواب دیا، ہاں۔ کیا آپ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ چاہتے ہیں، مجمع نے کہا ہاں۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ دھرنا پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے منتقل کردیا جائے۔ عوام نے ہاں میں جواب دیا‘‘۔

عوام کی اس متفقہ قرار داد کی منظوری کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ مارچ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پرامن طور پر منتقل ہوجائیگا۔ ہم پرامن رہیں گے اور پارلیمنٹ کے سامنے پرامن دھرنا ہو گا۔ انقلاب مارچ کے شرکاء کی ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ نے اپنے دھرنے کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے منتقل کرنے، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے خون کا قانون کے مطابق بدلہ لینے، وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ شہبازشریف سے استعفیٰ لینے، حکومت اور اسمبلیاں تحلیل کرنے سمیت 10 نکاتی قرارداد کی منظوری دیدی۔

قائد انقلاب نے آبپارہ چوک سے ریڈ زون کے لئے روانگی سے قبل رقت آمیز دعا کرائی اور اللہ تعالیٰ سے انقلاب کی کامیابی کے لئے فتح و نصرت کی دعا کی۔ اس دوران خواتین اور دیگر شرکاء آبدیدہ نظر آئے۔ رات تقریباً 11 بجے لاکھوں افرادکا قافلہ ریڈ زون کی طرف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے کے لئے روانہ ہوا۔ انقلاب مارچ کے شرکاء کی ریڈ زون کی طرف پیش قدمی کو قومی و بین الاقوامی ادارے تک مسلسل مانیٹرنگ کرتے رہے۔ تمام اہم ممالک کے سفارتخانوں سے اپنے ممالک کو لمحہ بہ لمحہ کی رپورٹس ارسال کی جاتی رہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے آزادی اور انقلاب مارچ کے شرکاء کے ریڈ زون کی طرف بڑھنے کی خبریں بریکنگ نیوز کے طو رپر جاری کیں۔ عزم و ہمت، جہد مسلسل اور یقین محکم کی صفات کا حامل یہ انقلاب مارچ نعرے لگاتا ہوا، تمام رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا، کنٹینر ہٹاتا ہوا بالآخر رات 2:30 بجے شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے اپنا پڑاؤ ڈال چکا تھا۔

20 اگست 2014ء

رات شرکاء انقلاب مارچ نے شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بسر کی۔ شرکاء حوصلہ مند دکھائی دے رہے ہیں اور منظم طریقے سے دھرنے میں شریک ہیں۔ آج قائد انقلاب کے حکم پر انقلاب مارچ کے شرکاء نے پارلیمنٹ کا علامتی محاصرہ کیا جو 3گھنٹے تک جاری رہا۔ محاصرے کے دوران ارکان پارلیمنٹ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک تھے اور وزیراعظم بھی ایوان میں موجود تھے، عوامی طاقت سے وزیراعظم سمیت تمام ارکان اسمبلی اتنے خائف نظر آئے کہ ایوان صدر کے راستے پچھلے دروازے سے واپس چلے گئے۔ پارلیمنٹ ہاؤس،  پارلیمنٹ لاجز، سپریم کورٹ، ایوان صدر، ایف بی آر، الیکشن کمیشن الغرض شاہراہ دستور پر موجود تمام سرکاری عمارات کے باہر کارکنان پرامن طور پر موجود ہیں۔ گرمی اور حبس کے باوجود کارکنان کا صبر و استقامت اپنی مثال آپ ہے۔ شاہراہ دستور پر کارکنوں سے اپنے پہلے خطاب میں قائد انقلاب نے کہا کہ

’’پاکستان کی پارلیمنٹ اور حکومت جعلی اور غیر آئینی ہے، ہزاروں کارکن 3 ہفتوں سے صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور اپنے بنیادی حقوق بازیاب کروانا چاہتے ہیں۔ آرٹیکل 62 اور 63 کے کی دھجیاں اڑا دی گئیں، ریڈ زون میں واقع پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ دیگر عمارتیں ہماری اپنی عمارتیں ہیں، انقلاب مارچ کے شرکاء ان ریاستی اداروں کے تقدس کو پامال نہیں کریں گے تاہم وہ لوگ مقدس نہیں جو ان عمارتوں پر قابض ہوگئے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن میں ریاستی دہشت گردی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا، اس ریاستی بربریت میں صرف پنجاب حکومت نہیں بلکہ وفاقی حکومت بھی ملوث ہے جس کی رضا مندی پر نہتے لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں۔ اگر سکیورٹی بیریئر ہٹانے کی بات ہوتی یا انقلاب کے تصور سے اختلاف ہوتا تو سیاسی طریقے سے بات چیت کی جاتی، لیکن دنیا کے کسی معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا کہ سیاسی اختلاف پر لاشیں گرائی جائیں۔ آج اسمبلی کے ممبران جمہوریت بچانے کی باتیں کررہے ہیں، یہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب مظلوموں پر گولیاں چلائی گئیں، آج جب مظلوم اپنا حق لینے اٹھے ہیں تو سب کو جمہوریت نظر آرہی ہے، یہ جمہوریت صرف لوٹ مار اور کرپشن کا نام ہے جس میں سب حصہ دار ہے، اب ملک میں کرپشن نہیں چلنے دی جائے گی،کرپشن،کرپٹ لیڈروں اور کرپٹ سیاسی نظام کا خاتمہ ہوگا، شفاف لوگ آئیں گے اور انتخابی اصلاحات کی جائیں گی، غریبوں کو روٹی،کپڑا،مکان،انصاف، تعلیم اور روزگار مہیا ہوگا،اقتدار نچلے طبقے کو منتقل کیا جائیگا، قوم جمہوریت کے ثمرات اور اقتدار میں حصہ دار ہوگی کیونکہ آئین بننے کے 41 سال بعد بھی عوام کو ان کے بنیادی حقوق نہیں دیئے گئے۔ آئین میں 20 ترامیم کی گئیں جو صرف اپنے سیاسی مفادات کے لئے کی گئیں لیکن اب ایسا نظام آئے گا جس میں لوٹ مار اور قاتلوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ انقلاب کے ذریعے پاکستان کو اندھیروں سے نکالنا ہوگا،ظلم کی رات ختم ہوگی، قوم کو لٹیروں سے نجات دلانا ہوگی۔ انقلاب مارچ پر امن رہے گااس میں کسی قسم کا تشدد اور انتشار نہیں ہوگا،ہم اپنی جدوجہد کے آخری لمحے تک پر امن رہنے کا ثبوت دیں گے۔ کارکنان ریاستی عمارتوں کا تقدس برقرار رکھیں اور ان کے اندر داخل نہ ہوں، ہم اپنے جمہوری حق کے ذریعے حکومت پر دباؤ بڑھا کر انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کردیں گے‘‘۔

21 تا 24 اگست 2014ء

شاہراہ دستور پر پرامن دھرنا اپنے جائز حقوق کو حاصل کرنے کے لئے سراپا احتجاج ہے، ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگ یک زباں و یک آواز ہیں۔ قائد انقلاب کے خطاب کا دن اور شام دونوں اوقات میں سلسلہ جاری ہے۔ مرکزی قائدین کے خطاب، ملی نغمے، تحریکی و انقلابی ترانے بھی شرکاء کے اندر جذبات کی نئی روح پھونک رہے ہیں۔ وقتاً فوقتاً اطلاعات مل رہی ہیں کہ پولیس اور انتظامیہ نے شرکاء مارچ کے لئے کھانے پینے اور شامیانے شاہراہ دستور پر آنے سے روک دیئے، جس پر قائد انقلاب کی ہدایات پر اپنی بنیادی ضروریات پر مبنی سامان کے ٹرک پولیس اور انتظامیہ سے کارکن اپنی مدد آپ کے تحت چھڑوا لاتے ہیں۔ قائد انقلاب اس صورت حال پر کارکنان پر ہونے والے ظلم و ستم پر خاموش نہیں رہتے فرماتے ہیں:

’’دھوپ سے بچنے کے لئے شامیانے اندر نہیں آنے دیئے جا رہے، عوامی تحریک کے شرکاء پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، ریاستی ادارے کہاں ہیں؟ ہم نے کسی کے گھر پر حملہ نہیں کیا، کارکنوں کیلئے لایا گیا کھانا تک باہر روک دیا گیا، دھرنے کے شرکاء بھوک و پیاس سے مر رہے ہیں۔ ابھی اطلاع ملی ہے کہ حکومتی درندوں نے گوجرانوالہ کے عوامی تحریک کے نائب صدر ملک ارشد کے بھائی ملک محمد افضل کو بھی گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ لعنت ہے ایسی جمہوریت پر جس میں عوام کا کھانا، پینا بند کر دیا جائے۔ دھرنے کے شرکاء نے ریاستی اداروں کی طرف ایک پتھر تک نہیں پھینکا اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ حکومت نے پانی میں زہر ملا کر بھیجا ہے۔ اس پانی کے پینے سے ہمارے متعدد لوگ فوڈ پوائزننگ کا شکار ہوئے ہیں، حکمران اپنے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے باز آجائیں۔ اسمبلی فلور پر نعرے مارنے والے اپنے رویوں پر غور کریں۔ انقلاب چند دنوں میں نہیں آتا، جو شرکاء دھرنا مشکلات کے باعث جانا چاہیں، وہ چلے جائیں میرا آپ پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔ میں عوام کے حقوق کے لئے جنگ جاری رکھوں گا۔ ارکان پارلیمنٹ اپنے مفاد کیلئے کام کرتے ہیں۔ایم این ایز کو عیاشیوں کیلئے فنڈز ملتے ہیں۔ حکومت سے انصاف کی توقع نہیں‘‘۔

قائد انقلاب نے انقلاب مارچ کے شرکاء کو دھرنے کے دوران نفلی اعتکاف کی نیت بھی کروا دی کہ انقلاب کے تمام شرکاء نفلی اعتکاف کی نیت کر لیں اور تمام وقت وضو سے رہیں۔ آج سارا دن وفاقی حکومت کی جانب سے دھرنے کے شرکاء کے خلاف طاقت کے استعمال کی باتیں گردش کرتی رہیں۔ 21 اگست کو آئی جی اسلام آباد آفتاب چیمہ کو محض اس لئے ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا ہے کہ انہوں نے حکمرانوں کے غیر آئینی و غیر قانونی حکم کو رد کردیا اور دھرنے کے شرکاء پر پولیس کریک ڈاؤن کرنے سے انکار کردیا۔

٭ برطانوی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’’اسلام آباد کا ڈی چوک ایک گاؤں کا منظر پیش کر رہا ہے چلچلاتی دھوپ اور حبس کارکنوں کو ایک انچ کے سائے کی تلاش میں سرگرداں کیے ہوئے ہے۔ دور دراز کے لوگ اسلام آباد کے اس علاقے سے بالکل ناواقف ہیں کوئی پوچھ رہا ہے کھانے کی جگہ کہاں ہے تو کوئی کہہ رہا ہے قریب میں کوئی مسجد ہے یا نہیں۔ آبپارہ کے مقابلے پریڈ گراؤنڈ ایک ایسا صحرا ہے جہاں دور دور تک سایہ نہیں کسی نے گرائے ہوئے سائن بورڈوں تلے، تو اکثر ٹرکوں کے نیچے سائے کو ہی غنیمت سمجھ کر سورج سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، خواتین بھی ٹرکوں کے نیچے پناہ لئے ہوئے ہیں‘‘۔

قائد انقلاب کے خطابات کا سلسلہ جاری ہے۔ حکمرانوں اور اس جعلی جمہوریت کا شب و روز پوسٹ مارٹم ہورہا ہے۔ قائد انقلاب فرماتے ہیں:

’’حکمران پارلیمنٹ کے نام پر کرپشن میں حصہ دار ہیں، ممبران پارلیمنٹ کو عیاشیوں کے لئے سہولت ملتی ہے، قرضے ملتے ہیں اور یہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے جارہے ہیں اور یہ سب کھیل پارلیمنٹ اور جمہوریت کے نام پر کھیلا جارہا ہے۔ انقلاب سے خوفزدہ پارلیمنٹیرین کو معلوم ہے کہ اگر انقلاب آگیا تو ان کی عیاشیاں ختم ہوجائیں گی، ہر ممبر ترقیاتی فنڈ کے نام پر کروڑوں روپے لیتا ہے اگر انقلاب آیا تو تمام فنڈ نچلے طبقے کو منتقل ہوگا اور ان کی عیاشیاں نہیں رہیں گی اسی وجہ سے انقلاب کے دشمن، وزیراعظم نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں‘‘۔

٭ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مظلوم، محکوم، غریب عوام جو اپنے حقوق کے حصول کے لئے، ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اور حکمرانوں کی بے حسی کے نتیجہ میں گذشتہ دو ہفتوں سے اسلام آباد میں موجود ہے۔ آج 22 اگست کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے جمعۃ المبارک کی نماز قائد انقلاب کی امامت میں ادا کی جارہی ہے۔ قائد انقلاب کی آواز گونج رہی ہے کہ

’’مسلمان نہ خود اپنے کسی بھائی پر ظلم کرتا ہے اور نہ کسی اور کو اس پر ظلم کرنے دیتا ہے۔ روزگار، انصاف، روٹی، عزت کا نہ ملنا ظلم ہے اور ظلم کے خلاف اٹھنا حکم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ نہتے شہریوں کا سرعام قتل ہو اور کوئی شنوائی نہ ہو، اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا؟ اس ظلم کے خلاف اٹھنا بھی حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو مظلوموں کو بے یارومددگار چھوڑے گا وہ میری امت میں سے نہیں۔ حکمران مجبوروں کا کھانا پانی بند کرنے کو جمہوریت سمجھتے ہیں؟ کیا مظلوموں کو قتل کروا کے پرچہ تک درج نہ ہونے دینے کو جمہوریت کہتے ہیں؟ انقلاب مارچ کے شرکاء کیلئے کھانا نہیں لانے دیا جا رہا، موجودہ حکمران وقت کے یزید اور فرعون ثابت ہورہے ہیں۔ انقلاب مارچ کے شرکاء ماڈل ٹاؤن میں ظلم و جبر اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلتے اور ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے، ظلم کی انتہا یہ ہے کہ 14 شہداء کی ایف آئی آر دو ماہ کے بعد بھی سیشن جج کے فیصلہ کے باوجود درج نہیں کی گئی۔ جب تک یہ حکمران موجود ہیں اس وقت تک غریب عوام کو انصاف نہیں مل سکتا۔ ملک کے ہر ریاستی ادارے پارلیمنٹ اور بارکونسلوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان حکمرانوں کے ہوتے ہوئے کسی غریب کو انصاف مل سکتا ہے؟ آئین قانون جمہوریت اخلاق اورانسانیت پانچوں میں سے کسی ضابطے کو منصف بنالیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا جواب دیتے حکمران گونگے کیوں ہوجاتے ہو؟ حکمران پارلیمنٹ ہاؤس پہ لکھے کلمہ طیبہ کے سائے میں بیٹھ کر غریبوں کا قتل کر رہے ہیں اور جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ حکمران پاکستان کے آئین کے خلاف کھیل کھیل رہے ہیں، انہوں نے آئین اور قانون کو غلام بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے کسی ادارے میں ہے جرات کہ وہ حکمرانوں کا گریبان پکڑ کر ان کا احتساب کرسکے؟‘‘

٭ ہر روز سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے وکلاء کثیر تعداد میں دھرنے میں تشریف لارہے ہیں۔ آئینی و قانونی طور پر ہمارے موقف کو درست مانتے ہوئے حکمرانوں کو ان کی بے حسی پر ملامت کررہے ہیں مگر حکمران اپنی ضد، ہٹ دھرمی، انا، غرور و تکبر کی دلدل میں اس قدر دھنس چکے ہیں کہ انہیں اپنے کئے پر کوئی ندامت و شرمندگی نہیں۔ حکومت ایک طرف مذاکرات کا کھیل بھی کھیل رہی ہے اور دوسری طرف ظلم و ستم کے سلسلہ کو بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ شاہراہ دستور کو تمام اطراف سے پنجاب پولیس اور اسلام آباد پولیس اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔ کوئی شخص شاہراہ دستور کی طرف آزادانہ آجا نہیں سکتا۔ PAT کے وکلاء آئینی و قانونی جنگ لڑنے میں بھی مصروف ہیں۔

٭ قائد انقلاب نے دھرنوں کیخلاف حکومتی گماشتوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست کا 12 صفحات پر مشتمل جواب بھی دائر کردیا ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جس میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرسکتی اور عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ اس درخواست کو مسترد کر دیں۔ عدالت سے سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں کہ اگر عوام یہ سمجھتے ہوں کہ موجودہ حکومت غیرقانونی ہے کیونکہ مینڈیٹ چرایا گیا ہے، حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کرسکتی، دن رات لوٹ مار کا بازار گرم ہو، کرپشن عام ہو، نظام ناکام ہو چکا ہو تو پھر عوام کا حکومت سے کیا مطالبہ ہونا چاہیے؟ پرامن احتجاج عوام کا بنیادی حق ہے اور یہی پسے ہوئے طبقے کیلئے واحد راستہ ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے دھرنے کو روکنا غیرجمہوری عمل ہے۔ عوامی مظاہرے جمہوریت کا حصہ ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک اور ہزاروں مرد و خواتین اپنے مطالبات کیلئے اسلام آباد میں جمع ہیں اور ان لوگوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی کسی عمارت کو نقصان پہنچایا حتیٰ کے مظاہرین دھرنے کی جگہ کو صاف رکھنے کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ ملک بھر سے آئے ہوئے مظاہرین کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں۔ انکے پاس بھوک یا بارش سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ معمولی خوراک پانی اور ادویات پر ان کا گزارا ہے مگر وہ انصاف کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

٭ حکومتی نمائندگان، اپوزیشن اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نمائندگان مذاکرات کے لئے صبح و شام آرہے ہیں۔ انقلاب مارچ و دھرنا میں شریک جملہ جماعتوں کے قائدین ڈاکٹر رحیق احمد عباسی (صدر PAT)، خرم نواز گنڈا پور (سیکرٹری جنرل PAT)، صاحبزادہ حامد رضا، اسد نقوی، مصطفی کھر، سردار آصف احمد علی قائدانقلاب کی نمائندگے کرتے ہوئے مذاکرات کررہے ہیں۔ مگر حکومت اس بات پر بضد ہے کہ کنوئیں کو صاف کرنے کے لئے 40 ڈول پانی تو نکال لیا جائے مگر مرا ہوا کتا اندر ہی رہنے دیا جائے۔ قائد انقلاب شرکاء دھرنا کو مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے فرمارہے ہیں کہ

’’ہم مذاکرات کیلئے تیار ہیں لیکن اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، شروع دن سے مذاکرات کا دروازہ کھلا ہے اور کھلا رہے گا، وزراء آئیں یا وزیراعظم، مذاکرات کیلئے تیار ہوں، مذاکرات کیلئے نوازشریف اور شہبازشریف بھی آئے تو ان کی بات بھی سنوں گا مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء سے غداری نہیں کریں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکتی۔ کارکن ڈٹے رہے تو انقلاب کوئی نہیں روک سکتا۔ حکومتی نمائندگان آجارہے ہیں ان کے سامنے بھی مطالبات رکھے ہیں۔ ہمارا پہلا مطالبہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے خون کا بدلہ ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بات ہو گی تو اگلے ایجنڈے پر بات ہو گی، ہمارے قائدین نے مذاکرات کئے، ڈیڈ لاک حکومت کی جانب سے ہے۔ حکومتی نمائندوں کو بتایا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا انصاف سب سے اہم ہے۔ پہلے شہداء کا خون پھر دس نکاتی ایجنڈا۔ ہم ڈرنے اور جھکنے والے نہیں۔ کسی مائنس ون یا مائنس ٹوکو نہیں مانتے، شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قتل کی ایف آئی آر درج کی جائے دیگر نکات پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا،  تاہم میکنزم پر بات ہو سکتی ہے، ہم نے کبھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے۔ حکومتی وزراء کو بتادیا کہ با معنی اور بامقصد مذاکرات ہونے چاہئیں‘‘۔

٭ آج 24 اگست سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن محمد افضل نے 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا اعتراف کرلیا۔ انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ انتخابات میں 35 نہیں بلکہ سینکڑوں پنکچر لگائے گئے جس کو جہاں جتنی توفیق ملی، اس نے زیادتی کی۔ افتخار محمد چودھری بھی انتخابی دھاندلی میں ملوث ہیں۔ جسٹس (ر) ریاض کیانی کا الیکشن کو تباہ کرنے میں 90 فیصد ہاتھ ہے، انتہائی منظم طریقے سے الیکشن میں کرپشن کی گئی۔ الیکشن کمیشن ہی کے ممبر کے اس اعتراف کے بعد قائد انقلاب کے گذشتہ ان تمام بیانات کی تصدیق ہوجاتی ہے جن میں آپ نے اس الیکشن کمیشن اور اس کے تحت ہونے والے انتخابات کو بہت پہلے ہی غیر آئینی و غیر قانونی اور جعلی قرار دے دیا تھا۔

25 اگست 2014ء

آج 12 دن گزر چکے، ایک طرف بارشیں، سخت دھوپ، حبس، پولیس کا محاصرہ، خوف و ہراس کا ماحول، مذاکرات کا ڈول، مگر حالات ابھی تک وہیں۔ 65 سالوں سے قوم کے جسم میں پیوست ان ظالم حکمرانوں کے پنجہ استبداد کو توڑنا کتنا مشکل ہے۔ مگر کسی نہ کسی کو تو ابتداء کرنا ہی تھی اور اس کا اعزاز قائد انقلاب کی قیادت میں شاہراہ دستور پر موجود اس غریب، مظلوم اور مقہور طبقہ کو میسر آیا۔ آج قائد انقلاب کا خطاب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس خطاب کا ایک ایک لفظ، چہرہ کا ایک ایک تاثر آپ کے عزم، یقین، خلوص کی منہ بولتی تصویر نظر آرہا ہے۔ قائد انقلاب کے ہاتھوں میں عزم و یقین اور اپنی منزل کے ساتھ کمٹمنٹ کے اظہار کے لئے علامتی طور پر کفن موجود ہے جو اس بات کا اظہار کررہا ہے کہ میں زندگی کی آخری سانس تک غریب عوام کے حقوق کی جنگ لڑوں گا خواہ مجھے شہید ہی کیوں نہ کردیا جائے۔ قائد انقلاب کی آواز شاہراہ دستور کی فضاؤں کو چیرتے ہوئے بلند ہورہی ہے کہ

’’حکومت کو 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہیں، وہ ہمارے مطالبات تسلیم کرے بصورت دیگر ہم اپنے احتجاج کو اگلے مرحلہ میں داخل کردیں گے۔ انقلاب مارچ کے شرکا کا عزم و حوصلہ قابل قدر ہے، اس بات پر کسی کو اختلاف نہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس مقام پر عوام کا سمندر کسی نے نہیں دیکھا اور یہ سمندر 12 دن تک صبر کا عظیم نمونہ پیش کرکے بیٹھا رہا، ملکی تاریخ میں انقلاب مارچ کے دھرنے جیسی مثال نہیں ملتی۔ اس انقلاب کی ابتدا ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے خون سے ہوئی اور یہ سب کچھ عوام کے صبر برداشت اور قربانیوں کے باعث ممکن ہوا کہ ہم آج اس مقام پر آگئے ہیں۔ بہت دیر قوم کے بیٹے بیٹیوں کو دھوپ میں نہیں جلا سکتا اور مزید پریشانیوں میں مبتلا نہیں دیکھ سکتا، اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے سینوں میں دل نہیں، ان کے ضمیروں میں غیرت نہیں، انہیں قوم کے بیٹے بیٹیوں کے مصائب کا کوئی احساس نہیں ہے۔ اگر کنٹینر لگا کر پورے پاکستان کو سیل نہ کیا جاتا تو آج پنڈی اور اسلام آباد کی حدود میں عوام کو سمونے کی طاقت نہ ہوتی، جگہ جگہ کنٹینر لگائے گئے اور ہمارے ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا گیا لیکن اس کے باوجود عوام کا سمندر امڈ آیا، عوام غریبوں اور ناانصافیوں کے مارے لوگوں کی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، ملکی تاریخ میں کسی نے اتنا طویل دھرنا نہیں دیا لیکن حکمران اس کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوئے جبکہ مذاکرات بھی صرف وقت ضائع کرنے کے لیے کیے گئے۔ حکمرانوں کے نزدیک غریبوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے مظالم کی کوئی اہمیت نہیں، یہ غریب عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں، حکمران سمجھتے تھے کہ دھرنے کے شرکا تھک ہار کر گھروں کو چلے جائیں گے لیکن ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ جب تک میں یہاں بیٹھا ہوں کوئی بھی واپس نہیں جائے گا۔

اس ملک میں اب غریب اور مظلوم کے لیے کوئی حق نہیں ہے، دو ماہ بعد بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر تک درج نہ ہوسکی، عدالتیں اور قانون طاقتور حکمرانوں کے سامنے بے بس ہیں، عوام کے پاس اب کفن اور دفن ہونے کے سوا کوئی حق نہیں، کوئی ادارہ بھی مظلوموں کی آواز سننے والا نہیں۔ اس عظیم مشن پر اگر مجھے موت بھی آجائے تو اسے بھی ہنس کر قبول کروں گا۔ حکمرانوں نے قائد اعظم کے خواب کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ جن کے لیے ملک بنایا گیا تھا ان کے پاس سوائے دفن ہونے کے کچھ نہیں بچا، ملک کا قانون، آئین اور جمہوریت کمزوروں کیلئے نہیں بلکہ طاقتوروں کے لیے ہے۔ یہ جنگ ہم آخری وقت تک لڑیں گے۔ عوام گھروں میں بیٹھ کر ظلم کا ساتھ نہ دیں بلکہ نظام کے خاتمے کے لیے ہماری جدوجہد میں شریک ہوجائیں، حکمرانوں سے ٹکرانے والا انسان روز روز پیدا نہیں ہوتا‘‘۔

قائد انقلاب کے اس خطاب سے جملہ شرکاء آبدیدہ ہوگئے۔ ان کے حوصلے جواں ہوگئے اور تمام شرکاء نے بھرپور نعروں کے ساتھ اپنے مشن کے ساتھ استقامت اور خلوص کا اظہار کرتے ہوئے اپنے قائد کے سنگ اس جنگ کو تا وقتِ حصولِ منزل حاصل کرنے کا عہد کیا۔

26اگست 2014ء

قائد انقلاب کی آواز شاہراہ دستور پر موجود عمارات پر قابض حکمرانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ ہر پسا ہوا طبقہ اسے اپنے دل کی آواز محسوس کرتا ہے۔ آج بھی قائد انقلاب اور دیگر جماعتوں کے قائدین نے حکومتی اصل چہرہ بے نقاب کیا اور اس نام نہاد جمہوریت کے نام نہاد محافظوں کو ان کے اصل کردار سے آگاہ کیا۔ دھرنوں میں بیٹھنے والے 18 کروڑ عوام کے نمائندے ہیں، جس طرح معاشرے کی اکثریت کو بنیادی ضروریات میسر نہیں اسی طرح دھرنے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی 2 وقت کی روٹی نہیں ملتی۔ غریب کا چولہا جلانے اور اس کے چہرے پر خوشیاں بکھیرنے کے لئے یہ لوگ بے تاب ہیں۔ قائد انقلاب کے حکومت کو کل دیئے جانے والی الٹی میٹم کے 24 گھنٹے گزر چکے۔

٭ آج سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کرنے والے لاہور ہائیکورٹ نے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل ٹربیونل نے تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرکے حکومت پنجاب کو بھجوا دی۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق فاضل ٹریبونل نے اپنی رپورٹ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی بنیادی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ

’’سانحہ ماڈل ٹاؤن انتظامیہ کی ناکامی تھی جس میں پولیس کی طرف سے نہتے افراد پر گولیاں چلائی گئیں۔ اس سانحے میں اس قدر وسیع پیمانے پر پولیس کی طرف سے کی گئی فائرنگ کسی ذمہ دار اتھارٹی کے حکم کے بغیر کرنا ممکن نہیں تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے ٹریبونل میں داخل کئے گئے حلف نامے میں تضاد ہے۔ وزیراعلیٰ نے کمیشن میں داخل حلف نامے میں کہا ہے کہ اس واقعہ کی اطلاع ملتے ہی انہوں نے متعلقہ اتھارٹیز کو اس بات کا حکم دیا کہ پولیس کو فوری طور پر ہٹا لیا جائے مگر سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور وزیراعلیٰ کے سابق پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ نے اپنے حلف ناموں میں اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ وزیراعلیٰ نے انکو کوئی ایسا حکم دیا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی ایسے حکم کا ذکر نہیں کیا۔ جس سے لگتا ہے حلف نامے میں یہ بات کچھ سوچ کر شامل کی گئی۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ نے اپنے بیان حلفی کے برعکس پولیس کو پیچھے ہٹنے کا ذکر کیا ہی نہیں۔ رپورٹ کے مطابق 16 جون کی رات اس وقت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کئے گئے فیصلے وسیع پیمانے پر قتل عام کا سبب بنے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پولیس مکمل طور پر ملوث ہے۔ یہ معاملہ پنجاب کی تمام حکومتی اتھارٹیز کی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ پولیس نے وہی کیا جس کا اسے حکم ملا تھا۔ فاضل ٹریبونل نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا انکو ذمہ داری کا تعین کرنے کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔ فاضل ٹریبونل نے اپنی وجوہات کے آخر میں یہ بھی تحریر کیا حکومت اسکی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین کرسکتی ہے‘‘۔

دنیا نیوز چینل کے ذریعے اس رپورٹ کے سامنے آنے پر قائد انقلاب نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’لاہور ہائیکورٹ کے تحقیقاتی جوڈیشل کمیشن نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کردیا ہے۔ہم نے کوئی گواہیاں نہیں دیں اسکے باوجود ٹربیونل نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حقائق واضح کردئیے، اسلئے وزیراعلیٰ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش نہیں کررہے کیونکہ رپورٹ سے انکا قاتل ہونا ثابت ہوچکا۔ شہبازشریف نے اپنے بیان حلفی میں پولیس کو واپس بلانے کیلئے Disengagement کا لفظ استعمال کیا، یہ دہشت گردی کی اصطلاح ہے جس کے تحت صفایا کرو اور واپس آجاؤ کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کے حکم کے بغیر یہ کارروائی نہیں ہوسکتی۔ 14 لاشیں اور 14 گھنٹے کی یہ طویل کارروائی ان کے حکم کے بغیر کیسے ہو سکتی ہے۔ وزیراعلیٰ نے توقیر شاہ کو او ایس ڈی بنایا لیکن وہ آج بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ شہبازشریف نے اپنے جھوٹے بیان حلفی میں یہ کہا کہ انہوں نے پولیس کو واپس آنے کا حکم دیا تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کے حکم کے بعد بھی پانچ گھنٹے آپریشن جاری رکھا جائے۔ شہباز شریف کے بنائے گئے ٹربیونل نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمے دار شہباز شریف کو ٹھہرایا، اب بات ٹربیونل سے آگے بڑھ گئی ہے۔ اب ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیں گے‘‘۔

٭ آج ہی کے دن انقلاب دھرنا کے شرکاء کے لئے یہ بات بھی اطمینان کا باعث بنی کہ جب حکمرانوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقدمہ کے اندراج کے متعلق سیشن کورٹ کے حکم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست کی تو ان کی یہ درخواست بھی خارج کردی گئی اور ہائی کورٹ نے بھی مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس محمود مقبول باجوہ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ سمیت 21 افراد کے خلاف درج کرنے کے سیشن عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے چار وفاقی وزراء کی درخواستیں خارج کردیں۔ عدالت نے وفاقی وزیر اطلاعات نشریات پرویز رشید، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی کی طرف سے سیشن جج کے فیصلے کیخلاف دائر درخواستیں خارج کرتے ہوئے اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ درخواست گزار اپنی درخواستوں کے حق میں کوئی قانونی جواز فراہم نہیں کرسکے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کا مقدمہ درج کئے بغیر اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

27 اگست2014ء

آج بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج کرانے کے لئے PAT کے وکلاء تھانہ فیصل ٹاؤن پہنچے تو مسلم لیگ (ن) کے درجنوں کارکن بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے دھمکیاں دینے اور بدتمیزی کے علاوہ شدید نعرے بازی کی۔ لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کے باوجود بھی پولیس نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت اہم حکومتی شخصیات و پولیس افسروں کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ درج نہیں کیا ہے۔ مقدمہ درج کرانے کے لئے PAT کے وکلا منصور الرحمان آفریدی کی قیادت میں لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کی مصدقہ نقل لے کر تھانہ فیصل ٹاؤن گئے تو پولیس اہلکاروں نے ان کی بات نہیں سنی اور کہا کہ ایس ایچ او تھانے میں موجود نہیں، وہ ان کی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کر سکتے، جس پر وفد ایس ایچ او کا انتظارکرتا رہا۔ اس دوران مسلم لیگ (ن) کے درجنوں کارکن بھی تھانے آ گئے۔ انہوں نے اس موقع پر شدید نعرے بازی کی، وفد کو دھمکیاں دینے کے علاوہ بدتمیزی کی۔ وفد رات گئے تک تھانے میں موجود رہا اور پولیس ٹال مٹول سے کام لیتی رہی۔

٭ آج قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے حکومت کو دی گئی 48 گھنٹے کی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی۔ کارکنان نہایت جذباتی ہیں۔ دھرنے کی اکثریت نے اپنے حقوق کی بحالی، ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے خون سے غداری نہ کرنے، ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور ہر صورت 18 کروڑ غریب عوام کو خوشیاں و خوشحالی دینے کے عہد کے عزم و یقین کو ظاہر کرنے کے لئے علامتی طور پر کفن پہن رکھے ہیں کہ ہم اپنی آخری سانس تک اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ خواتین، بچے، بوڑھے، جوان کوئی بھی پیچھے نہیں رہا۔ بڑا ہی عجیب منظر ہے ماں چھوٹے بیٹے کو کفن پہنارہی ہے۔۔۔ نوجوان، بزرگوں کو اور بزرگ نوجوانوں کو کفن پہنارہے ہیں۔ گردونواح سے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شاہراہ دستور پہنچ چکی ہے۔ علمائ، مشائخ، وکلائ، طلبائ، تاجر ہر کوئی ساتھ دینے کی بات کر رہا ہے۔

سفر انقلاب کے آئندہ مرحلہ کا اعلان ہونے والا ہے۔ عوام کی اس وابستگی اور جذبات کو دیکھ کر حکمران دنگ اور خوف زدہ ہیں۔ لہذا ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔ امن کو ایک موقع اور دینے کی خاطر قائد انقلاب نے مذاکرات کی حامی بھرلی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ وفاقی وزیر زاہد حامد اور میاں جاوید شفیع پر مشتمل وفد قائد انقلاب سے مذاکرات کے لئے کنٹینر میں پہنچ چکا ہے۔ ان سے قبل گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور گورنر سندھ عشرت العباد بھی آچکے ہیں۔ ہر ایک کی نظر کنٹینر کے کھلتے اور بند ہوتے دروازے پر لگی ہے۔ رات کے 10 بج رہے ہیں۔ یقین محکم، عزم پیہم کے پیکران کفن پہنے اپنے مشن کے ساتھ وفا کا اظہار کررہے ہیں۔ پورا ملک جاگ رہا ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی پر ماتم جاری ہے اور شرکاء دھرنا کے عزم و حوصلہ کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔ قومی و بین الاقوامی میڈیا ایک ایک چیز کو براہ راست نشر کررہا ہے۔حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دو دور ہوئے۔ پہلے دور کے بعد حکومتی نمائندگان، ہدایات لینے اور مطالبات کی منظوری لینے وزیراعظم کے پاس گئے اور کچھ دیر کے بعد واپس آگئے۔ پھر مذکرات کا یہ دوسرا دور ہوا۔ مذاکرات کا دوسرا دور بھی ناکام ہوگیا۔

رات کے 12:30 بج رہے ہیں۔ حکومتی وفد سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب نے کہا کہ

’’حکومت کیساتھ مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہو چکے۔ ہم نے مذاکرات کو آخری حد تک موقع دیا لیکن حکومت کی نیت ہی نہیں تھی کہ اسکو کامیاب کریں۔ ہم نے حکومت کے سامنے اپنی دو شرائط رکھی تھیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث 21 افراد کیخلاف مقدمہ درج کیا جائے اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف اپنا استعفیٰ پیش کریں لیکن وزیراعظم نوازشریف اور حکومت نے ہمارے جائز مطالبات کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے استعفے کی تو دور کی بات، وہ مظلوموں کی ایف آئی آر بھی کٹوانے کو تیار نہیں ہیں، اسلئے اب ہمارے حکومت کیساتھ مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ حکومت نے کوئی لچک نہیں دکھائی۔ ہم نے امن اور جمہوریت کو آخری حد تک موقع دیا ہے، اب ہمارے اوپر کوئی اخلاقی بوجھ نہیں ہے۔ گورنر سندھ اور پنجاب نے مسئلے کے حل کیلئے روزِ اوّل سے کوششیں کی اور آخری وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھیں جس پر انکا شکر گزار ہوں۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں کیونکہ حکومت غیرسنجیدہ ہے۔ اسے امن سے محبت نہیں۔ نوازشریف اور شہبازشریف کی خاندانی بادشاہت قائم ہے۔ لہذا وہ آئینی، قانونی، جمہوری اور اخلاقی طریقوں پر یقین نہیں رکھتے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ مقتولین کے ورثا اور مظلوموں کا حق ہے جس کا حکم عدلیہ نے بھی دیا ہے اور اب ہر اعتبار سے واجب ہے کہ اسکی ایف آئی آر درج کی جائے اور وزیراعلیٰ پنجاب سے فوری استعفیٰ لیا جائے تاکہ سانحہ کی غیر جانبدارانہ، آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات ہوسکے لیکن وزیراعظم نے ہماری شرائط نہیں مانیں۔ ہم نے پر امن مذاکرات کو حد سے بڑھ کر موقع دیا، ہم سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کرسکتا، اب عوام فیصلہ کریں گے‘‘۔

اس موقع پر گورنر سندھ محترم عشرت العباد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوامی تحریک کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔ قائد انقلاب اور دھرنا انتظامیہ کی طرف سے دھرنے کے شرکاء کو ہدایت کی گئی کہ وہ رات کو چوکس رہیں کہیں دشمن شب خون نہ مارے۔ بعد ازاں شرکاء انقلاب دھرنا نے اجتماعی اذانیں بھی دیں۔

28 اگست 2014ء

آج لاہور ہائیکورٹ کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ تھانہ فیصل ٹاؤن میں درج کر لیا گیا۔ مگر مقدمہ کے اندراج میں عمداً کئی چیزوں کو شامل نہ کیا گیا۔ نہ دہشت گردی کی دفعہ لگائی گئی اور نہ ہی وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کا نام شامل کیا گیا۔ گویا لاہور ہائی کورٹ کے حکم کا بھی اپنی مرضی کے مطابق اطلاق کررہے ہیں مگر اس توہین عدالت اورعدالت و عوام پاکستان کو دھوکہ دینے پر ان حکمرانوں سے کوئی بازپرس کرنے والا نہیں۔ دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب نے حکمرانوں کے اس طرز عمل پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ

’’ہمارے خلاف دہشت گردی کا پرچہ کاٹا گیا ہے جبکہ اپنے خلاف سیکشن 7 کی دفعہ 88 جو دہشت گردی سے متعلق ہے اس کو لگایا ہی نہیں گیا یعنی سانحہ ماڈل ٹاؤن پر دہشت گردی کا پرچہ نہیں کاٹا گیا، میں اس ایف آئی آر کو قبول نہیں کرتا اور اسے مسترد کرتا ہوں۔ ایف آئی آر میں نواز شریف اور شہباز شریف کا نام شامل نہیں، ایف آر نامکمل ہے۔ دہشت گردی کی دفعہ شامل ہوگی اور حکمرانوںکے نام شامل ہوں گے تو ایف آئی آر قبول کرینگے۔ کارکنو! انقلاب کیلئے تیار ہو جاؤ، جو آج کمزور ہیں، کل طاقتور نظر آ رہے ہیں، جن کی گردنیں سریئے کی وجہ سے اکڑی ہوئی ہیں وہ جھکتی نظر آرہی ہیں، جن کی گردنیں ظلم سے جھکی ہیں وہ اٹھتی نظر آ رہی ہیں، انشاء اللہ انقلاب کا سویرا طلوع ہوگا۔ ہمیں ہر قسم کی انتہا پسندی کو معاشرے سے ختم کرنا ہو گا، ہمیں انصاف فراہم کرنا ہو گا، ہمیں احتساب کرنا ہو گا، ہمیں مساوات قائم کرنا ہو گی، ہر کسی کو یکساں حقوق دینے ہونگے۔ چاہتا ہوں ظلم و جبر ختم ہو، پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان سے امن و محبت کے گیتوں اور ترانوں کی گونج آئے، یہ سارا عمل انقلاب کے بغیر نہیں ہو گا۔ ایف آئی آر جس طرح ہم درج کرانا چاہتے ہیں ویسے درج ہو۔ شہباز، نواز شریف مستعفی ہوں، اسمبلیاں تحلیل ہوں، دھاندلی کا الیکشن قبول نہیں۔ اسمبلیاں، حکومتیں، الیکشن کمشن غیرآئینی ہیں، انہیں مسمار کیا جائے، قومی حکومت بنے اور کڑا احتساب ہو، جس نے لوٹ مار کی ہے اس سے پائی پائی کا حساب لیا جائے، غریبوں کو ان کے معاش کا پورا پیکیج ملے۔ ہر شخص کو تعلیم، روزگار، صحت کی سہولیات، انصاف، برابر کے مواقع ملیں۔ غلامی کی تاریک رات ختم ہو گی، آزادی کی صبح طلوع ہو گی۔ اس ملک کے 10 کروڑ غریب اپنے ہی وطن میں جلا وطن ہیں۔ پاکستان کے معماروں نے ہمیں آئین کا چیک دیا، جس میں قائداعظم نے وعدہ کیا تھا کہ اس میں کوئی شخص بھوکا نہیں مرے گا، کوئی انصاف سے محروم نہیں ہو گا، لباس سے محروم نہیں ہو گا، کوئی بچہ تعلیم سے محروم نہیں رکھا جائے گا، ہر شخص کے معیار زندگی کو بلند کیا جائے گا، کسی بچے کو مزدوری پر مجبور نہیں کیا جائے گا، پاکستان میں امن قائم کیا جائے گا اور پاکستان کے باہر امن کو فروغ دیا جائے گا، ہم اس چیک کو کیش کرانے گئے، حکمرانوں نے کہا چیک کیلئے پیسے نہیں ہیں، قائداعظم کا چیک باؤنس ہو گیا مگر نواز شریف کی عیاشیوں کیلئے پیسے ہیں۔ نواز شریف کے بچوں کیلئے پیسے ہیں مگر جب غریب چیک لے کر آیا کہ میں بھوکا ہوں کھانا دو، پیاسا ہوں پانی دو، چھت نہیں گھر دو تو حکمرانوں کے پاس پیسے نہیں۔ ہم اس چیک کو کیش کرانے کیلئے یہاں ہیں، ہم نے وعدہ کیا ہے کہ پرامن رہیں گے لیکن اپنے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ امن کی خاطر 7 مرتبہ حکومت سے مذاکرات کئے لیکن یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔ مذاکرات میں دوسرے مطالبات تو ایک طرف وہ ایف آئی آر درج کرنے کیلئے تیار نہیں تھے، وہ شہباز شریف کے استعفے کیلئے تیار نہیں تھے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ کیسے مطمئن ہونگے۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک لوگوں کو عزت نہیں ملتی، محروموں کو حق نہیں ملتا، بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں ہوتی، جب تک بیروزگاروں کو روزگار نہیں ملتا، جب تک انصاف نہیں ملتا‘‘۔

٭ حکومت مسلسل خائف و بدحواس اور شرکاء دھرنا مسلسل عزم و ہمت کے آئینہ دار۔ مرکزی قائدین اور مشترکہ جدوجہد میں شریک جملہ قومی سیاسی قائدین مسلسل دھرنے میں موجود ہیں۔ تمام کے حوصلے بلند ہیں۔ کارکنان مسلسل 15 دن سے اسلام آباد دھرنے میں موجود ہونے کے باوجود جواں حوصلہ ہیں۔ رات کو قائد انقلاب خطاب کے لئے باہر تشریف لائے اور شاہراہ دستور پر تاحد نگاہ پھیلی ہوئی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کارکنان سے مشاورت کی کہ

’’ فوج نے آفیشل پیغام بھیجا ہے کہ حکومت نے انہیں ثالث بننے کی درخواست کی ہے۔ اگر ہم ثالث بنیں تو کیا آپ تیار ہیں؟ کارکنان سے سوال کرتا ہوں کہ کیا سیاسی بحران کے حل میں فوج کی ثالثی قبول کر لی جائے؟ فوج نے فارمولا تیار کرنے کیلئے 24 گھنٹے کا وقت مانگا ہے۔ حکومت نے بھکاری بن کر پاک فوج کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ کوئی عوامی طاقت حکومت سے ٹکرائے اور پاک فوج ثالثی کا کردار ادا کرے۔ مذاکرات کے بعد فارمولا عوامی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا۔ اگر آپ نے قبول کیا تو اسے قبول کریں گے وگرنہ رد کریں گے‘‘۔

قائد انقلاب نے عوام سے رائے مانگی تو عوام نے ثالثی کے ساتھ ساتھ آرمی چیف کے ضامنی بننے پر بھی اس پیشکش کو قبول کرنے کیلئے تائید میں ہاتھ کھڑے کئے۔ جس پر قائد انقلاب نے فوج کو بطور ثالث و ضامن قبول کرنے کی حامی بھری۔ آرمی چیف کی ثالث اور ضامن بننے کی یقین دہانی کے بعد قائد انقلاب نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان 24 گھنٹے کے لئے ملتوی کر دیا۔ کسی بھی معاہدہ کی صورت میں فوج ضامن کا کردار ادا کریگی۔ بعد ازاں رات گئے قائد انقلاب نے آرمی چیف سے ون ٹو ون تقریباً ساڑھے تین گھنٹے ملاقات کی اور انہیں اپنے مطالبات، حکمرانوں کے ظلم، ادھوری FIR اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نہ بنانے کے متعلق آگاہ کیا۔ بعد ازاں کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب نے شرکاء دھرنا کو بتایا کہ آرمی چیف نے ہمارے مطالبات کو برحق تسلیم کرتے ہوئے عدل و انصاف کی یقین دہانی کروائی ہے۔

29 اگست 2014ء

وزیراعظم نوازشریف کی درخواست پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز سیاسی بحران کے حل کیلئے ثالثی شروع کردی مگر قائد انقلاب کی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے بعد سیاسی بحران حل کرنے کی امید کی جو کرن پیدا ہوئی تھی اس وقت حکومتی رویے اور ہٹ دھرمی کے باعث معدوم ہو گئی ہے جب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے حکومت کو آڑھے ہاتھوں لیا کہ انہوں نے آرمی کو اس معاملہ میں ضامن و ثالث بننے کی درخواست کیوں دی حکومت، ارکان اسمبلی کے سامنے کوئی جواب نہ دے سکی اور بوکھلا گئی اور اسمبلی کے فلور پر وزیراعظم اور حکومتی وزراء نے آرمی کو ثالث بننے کی درخواست دینے سے یکسر انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان نے کیا ہے۔ وزیراعظم کے اسمبلی کے فلور پر اس بیان پر فوری ISPR کا ردعمل سامنے آیا اور اس نے وزیراعظم کی بات کی تردید کرتے ہوئے بارِ دیگر تصدیق کر دی کہ حکومت نے اس سلسلہ میں درخواست کی تھی۔ پورے ملک میں حکومت اور وزیراعظم کی خوب جگ ہنسائی ہوئی اور اس طرز عمل کی بھرپور مذمت کی گئی۔

دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب نے کہا کہ

’’قومی اسمبلی میں وزیراعظم نواز شریف کے ہماری طرف سے فوج کو ثالث بنانے کے بارے میں دیا گیا بیان جھوٹ پر مبنی ہے‘ جھوٹ بولنے پر دنیا بھر میں وزیر اعظم کو برطرف کیا جاتا ہے‘ وزیر داخلہ اور وزیراعظم کو جھوٹ بولنے پر استعفیٰ دینا چاہئے۔ نوازشریف کے بیان کو سختی سے رد کرتا ہوں‘ فوج غیر جانبدار رہنا چاہتی تھی ہم بھی فوج کو سارے معاملے میں شامل کرنا نہیں چاہتے تھے‘ نواز شریف نے خود آرمی چیف سے ثالث بننے کی درخواست کی۔ نواز شریف جھوٹوں اور عیاروں کے وزیراعظم ہیں‘ ایوان میں کھڑے ہو کر جھوٹ بولا۔ غلط بیانی پر وزیراعظم کا مواخذہ ہونا چاہئے۔ اللہ گواہ ہے کہ ہم نے آرمی چیف سے ثالث بننے کی درخواست نہیں کی۔ اس جھوٹ بولنے کے جرم کی پاداش میں انہیں فوری برطرف کرنے کا جواز بنتا ہے۔ وزیر اعظم اور ان کے رفقاء ایوان کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں۔ آرمی چیف کو ثالث بننے کی درخواست وفاقی حکومت اور وزیراعظم نے کی، ہم نے نہیں۔کل بھی ایف آئی آر میں جھوٹ بولا گیا کہ کاٹ دی گئی مگر وہ بھی ہمارے موقف کے مطابق نہ کاٹی گئی۔ اگر میں جھوٹ بول رہا ہوں تو فوج مجھے گرفتار کرے۔ اگر نواز شریف نے جھوٹ بولا ہو تو فوج اسے گرفتار کرے۔ آرمی چیف جانتے ہیں کہ کون سچا ہے کون جھوٹا۔ قومی اسمبلی سے جھوٹ بولنے والوں کے گریبان پکڑے جانے چاہئیں۔ فوج پر الزام لگانے کے بعد وزیراعظم عہدے پر فائز رہنے کے قابل نہیں رہے۔ ایسے بیانات فوج کو بدنام کرنے کی سازش ہیں‘‘۔

30 اگست 2014ء

پورے ملک میں وزیراعظم کے جھوٹ کا چرچا ہورہا ہے۔ محب وطن حلقے، عوام الناس، میڈیا ہر کوئی حکومتی رویے کی ہٹ دھرمی اور بے ضمیری کو بیان کررہا ہے۔ مطالبات کی منظوری کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے احتجاجی دھرنا آج اپنے 15 ویں روز میں داخل ہوچکا ہے۔ اس دوران قائد انقلاب کی ہدایات پر حکومت کے ساتھ اتمام حجت کی خاطر ہر ممکن تعاون کیا گیا، آخری حد تک مذاکرات کئے گئے۔ حکومت کی طرف سے آرمی کو بطور ثالث پیش کرنے پر بھی آرمی کے سامنے اپنا موقف دو ٹوک انداز میں رکھا گیا۔ حتی کہ ہماری طرف سے سفر انقلاب کے اگلے لائحہ عمل کے اعلان کو بھی متعدد مرتبہ موخر کیا گیا۔ مگر ہر مرحلہ پر حکومتی ہٹ دھرمی اور ضد سامنے آئی۔

آج پاکستان عوامی تحریک کی کور کمیٹی اور اتحادی جماعتوں کی مشاورتی کمیٹی کے طویل اجلاسوں میں شرکت کے بعد انقلاب دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب نے کہا کہ

’’آج حکومت و اپوزیشن دونوں کا الگ الگ وقت میں ایک بیان سامنے آیا کہ ’’جمہوریت کیخلاف کوئی اقدام برداشت نہیں کیا جائیگا اور جمہوریت کے لئے آخری لمحے تک لڑیں گے‘‘۔ وزیراعظم واضح کریں کہ انکے نزدیک جمہوریت کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انکی جمہوریت عالم نزع میں پہنچ چکی ہے اور انقلابیوں کی صورت میں ملک الموت انکی نام نہاد جمہوریت کی روح قبض کرنے آئے ہیں‘‘۔

اس موقع پر ڈی جی خان کی ایک دکھیاری ماں نے قائد انقلاب سے ملاقات کے دوران بتایاکہ اسکی بیٹی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایاگیا جس نے بعد ازاں خودسوزی کرلی مگر اسے آج کے دن تک انصاف نہیں مل سکا۔ جس پر قائد انقلاب نے کہا کہ

’’ایسی جمہوریت پر لعنت جس میں عزتیں محفوظ نہ ہوں، کہا جاتا ہے کہ میرے مرید اکٹھے ہوگئے ہیں حالانکہ میں نے پوری زندگی کبھی بیعت نہیں لی۔ لوگ ظلم و جبر سے تنگ آکر انقلاب کیلئے آئے ہیں۔ ظالم نظام کو جمہوریت کا نام مت دیں۔ اسوقت ملک میں لوگ عزتیں لٹا کر پیٹ پال رہے ہیں، کیا یہی جمہوریت ہے، آئین و قانون تو خود حکمرانوں نے پامال کر رکھا ہے۔ جس آئین کی بات حکمران کرتے ہیں وہ آئین لاجز، سرے محل اور رائیونڈ کے محلات میں ہے اور یہ آئین غرباء کیلئے نہیں وڈیروں کیلئے ہے۔ آئین نے لکھا ہے کہ جو عوام کے حقوق پر ڈاکہ زنی کرے اسے نکال باہر کرو، ہم اسی آئین پر عمل پیرا ہوکر حکمرانوں کو گھر بھیجیں گے۔ 75 فیصد ارکان قرضے لیکر معاف کرالیتے ہیں، آئین کے پہلے 40 آرٹیکلز جن کا تعلق عوام پاکستان سے ہے انہیں عملاً ختم کردیا گیا ہے۔ موجودہ اسمبلی آئینی نہیں اسے ٹوٹنا چاہیے کیونکہ اربوں کے قرضے لیکر معاف کرائے گئے، کیا آئین سے بغاوت کرنیوالے آئین کا تحفظ کرینگے۔ یہ پوری اسمبلی غیر آئینی و غیر اخلاقی ہے، اسے تحلیل ہوجانا چاہئے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ چند ہزار افراد جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرسکتے تو حکمران بتائیں کہ چند سو خاندان کیا عوام کے حقوق غصب کرسکتے ہیں۔ وہ 18کروڑ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو کیا جائز ہے کہ وہ غرباء کے حقوق غضب کریں۔ صرف شریف خاندان کے 22 افراد وزراء و ایم این اے و ایم پی اے ہیں۔ وزیراعظم کہتے ہیں ان کے اختیار میں ایسا نہیںجو مطالبات دھرنے والے کررہے ہیں تو کیا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے عہدوں سے استعفیٰ کا اعلان کرنا بھی اپنی زبان سے ان کے اختیار میں نہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں کیا کوئی ایسا شریف آدمی نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم عارضی طور پر نہیں لگ سکتا۔ انقلاب کی خاطر وزیراعظم کو ایک ماہ تک دینے کیلئے تیار ہیں تاکہ شفاف تحقیقات ہوجائیں مگر وہ اس کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں۔ نوازشریف بتائیں کہ کیا انکا نام نظام، جمہوریت یا آئین ہے، اگر اتنی سی بات بھی نہیں بول سکتے تو پھر عوام اپنا فیصلہ خود کرینگے‘‘۔

٭ آج شام 7 بجے قائد انقلاب نے اپنے خطاب میں شاہراہ دستور سے دھرنا وزیراعظم ہاؤس کے سامنے منتقل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس اگلے مرحلہ کا اعلان کرتے ہوئے قائد انقلاب نے کہاکہ

’’پرامن دھرنا وزیراعظم ہاؤس منتقل کر رہے ہیں، دہشت گردی اور تشدد کے خلاف ہوں، شرکاء ہر حال میں پرامن رہیں اور میرے کہے کی لاج رکھیں، امن کی قوت سے آپ جنگ جیتیں گے، دھرنا پرامن ہو گا، کوئی توڑپھوڑ نہیں ہوگی، ملک کا قانون غریبوں کو کوئی تحفظ نہ دے سکا۔ غریبوں کے حقوق کیلئے نکلے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں مقصد میں کامیابی عطا فرمائے۔ اللہ سے مدد کی بھیک مانگتے ہیں۔ اے اللہ مدد نازل فرما اور غیبی مدد کرکے فتح عطا فرما‘‘۔

اس موقع پر قائد انقلاب نے خصوصی دعا کرائی اور رو رو کر اللہ سے مدد طلب کی۔ تقریباً رات 10 بجے شرکاء دھرنا اپنا سامان سمیٹ کر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سے وزیراعظم ہاؤس کی طرف چلنا شروع ہوئے۔ شرکا نے وزیراعظم ہاؤس کی طرف مارچ شروع کردیا اور کارکنوں کی بڑی تعداد رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھنے لگی۔

اس موقع پر پولیس کی طرف سے مارچ کے شرکاء کو روکنے کیلئے آنسو گیس کی شدید شیلنگ کی گئی، ہوئی فائرنگ ہوئی اور نہتے و پرامن لوگوں کو خون میں نہلادیا گیا۔ مظاہرین کیبنٹ ڈویژن کے پاس پہنچے تھے کہ پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں چلانا شروع کردیں۔ آئی جی اسلام آباد نے مظاہرین کی گرفتاری کا حکم دیدیا۔ پولیس کی شیلنگ اور ربڑ کی گولیوں سے فائرنگ کے نتیجے میں 500 سے زائد افراد زخمی ہوگئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم ہاؤس کے اطراف میں شدید شیلنگ سے دھوئیں کے بادل پھیل گئے۔ متعدد افراد آنسو گیس کی شیلنگ سے بیہوش ہوگئے۔ مظاہرین نے شیلنگ کے اثر کو کم کرنے کے لئے درختوں اور جھاڑیوں کو آگ لگانا شروع کردی۔ اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور سینکڑوں زخمی ایمبولینسوں کے ذریعے منتقل ہونے شروع ہوگئے۔ حد سے بڑھتی ریاستی ظلم و ستم سے بچنے کے لئے بالآخر نہتے مظاہرین پارلیمنٹ ہاؤس کا جنگلہ توڑنے پر مجبور ہوگئے اور اپنے آپ کو محفو ظ کرنے کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں داخل ہو گئے۔ ظلم کی حد یہ کہ وزیر داخلہ اس تمام کارروائی کی فضائی نگرانی کرتے رہے اور عوام پاکستان کو شاہراہ دستور پر مرتے ہوئے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے رہے۔

ریڈ زون میں عوامی تحریک کے انقلاب مارچ کے شرکاء اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپوں کا سلسلہ پوری رات جاری رہا۔ کارکنان اور شرکاء دھرنا صرف ڈنڈوں اور پتھروں کے ذریعے ریاستی جبرو بربریت کے مقابلہ میں ساری رات دفاعی لڑائی لڑتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان و شرکاء دھرنا اس ناگہانی آفت کو برداشت نہ کرسکے اور ابتداء میں ہی شاہراہ دستور سے چلے گئے۔ اس دوران پوری رات کارکنان PAT نے نہ صرف اپنے قائدین بلکہ قائد انقلاب کی ہدایات پر عمران خان کے کنٹینر کو بھی حفاظتی حصار میں لئے رکھا تاکہ حکومت کسی طرح بھی ان قائدین کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچاسکے۔ شاہراہ دستور اندھیرے میں ڈوب چکی تھی اور اس اندھیرے میں ہر طرف سے صرف شیلنگ اور گولیوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ کہیں خواتین بے ہوش پڑی ہیں اور کہیں کوئی بزرگ شیلنگ سے نڈھال۔ کہیں کوئی بچہ موت و حیات کے درمیان تڑپ رہا ہے تو کہیں نوجوان خون سے لت پت نظر آرہے ہیں۔ اس دوران تین کارکن جام شہادت نوش کرچکے ہیں اور 600 سے زائد شدید زخمی ہیں۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، سینکڑوں کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ پولیس مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلاکر انہیں منتشر کرنے کی کوششوں میں لگی رہی جبکہ عوامی تحریک کے کارکنان اپنا دفاع کرتے رہے۔ ریڈ زون کی سڑکیں اور گرین ایریا آنسو گیس کے شیلوں، پتھروں اور ربڑ کی گولیوں کے خولوں سے بھر گئے۔ اس قدر تشدد کے باوجود PATکے کارکنان ڈٹے رہے اور پارلیمنٹ ہاؤس، کیبنٹ سیکرٹریٹ اور پاک سیکرٹریٹ کے علاقے میں موجود رہے۔ آنسو گیس سے خواتین اور بچے بری طرح سے متاثر ہوئے۔ خون میں لت پت کارکنوں اور بیہوش خواتین کو فوری طور پر ہسپتالوں میں بھجوایا گیا۔ مظاہرین نے آنسو گیس کا اثر زائل کرنے کیلئے کئی درختوں اور جھاڑیوں کو آگ لگا دی۔ کارکنوں نے ماسک، عینکیں پہن کر پولیس تشدد کو برداشت کیا۔ آنسو گیس کی شدید شیلنگ سے ریڈ زون، ڈپلومیٹک انکلیو، پی ٹی وی، پرائم منسٹر ہاؤس، سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت، پاک سیکرٹریٹ، بری امام، منسٹرز کالونی، ججز کالونی، بلوچستان ہاؤس، پنجاب ہاؤس، خیبر پی کے ہاؤس، سندھ ہاؤس، اسلام آباد کلب، ایمبیسی روڈ، راول ڈیم اور بنی گالہ میں دھوئیں کے بادل چھائے رہے۔ آبپارہ، میلوڈی، زیرو پوائنٹ، سپر مارکیٹ، فضل حق روڈ اور بلیو ایریا تک کارکنان پھیل چکے تھے اور پولیس سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا۔ زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کرنے کیلئے ریڈ زون ایمبولینسوں سے بھر گیا۔

اس ریاستی جبرو بربریت کے نتیجہ میںپاکستان عوامی تحریک کے 7 کارکنان جام شہادت نوش کرگئے۔ ریڈ زون سے پولی کلینک، پمز، سی ڈی اے ہسپتال میںاور راولپنڈی کے دیگر ہسپتالوں میں سینکڑوں زخمی لائے گئے۔ ساری رات پولیس کے ساتھ جھڑپیں جاری رہیں اور پولیس آنسو گیس کے ہزاروں شیل اور اندھا دھند گولیاں برساتی رہی۔

31 اگست 2014ء

رات کا اندھیرا چھٹ چکا ہے شاہراہ دستور پر آہستہ آہستہ روشنی پھیل رہی ہے مگر ابھی 18 کروڑ غریب کے آنگن میں روشنی کے لئے مزید قربانیاں درکار ہیں۔ سورج طلوع ہوا اور اس نے شاہراہ دستور پر زخموں سے چھلنی جسم، شیلنگ سے بے ہوش بزرگ، خواتین اور بچے جابجا دیکھے اور پورا دن وہ ان مظلوم لوگوں کو معاشرے میں روشنی بکھیرنے کی خاطر اپنے لہو سے چراغ جلاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ آج بھی دن بھر پولیس اور حکومت کے گلو بٹوں کی نہتے اور پرامن لوگوں پر شیلنگ اور فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ زخمیوں اور شیلنگ سے بے ہوش افراد ایمبولینسز پر آج بھی اسلام آباد کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل ہوتے رہے۔ اس تمام تشدد اور بہیمانہ طرز عمل کے باوجود شرکاء دھرنا صبرو استقامت کے پیکر بنے اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔ ایک طرف اسلحہ سے لیس 40 ہزار سے زائد پولیس اور حکومتی گلو بٹ جبکہ دوسری طرف مظلوم و غریب اور نہتی عوام۔ چشم فلک نے دیکھا کہ جذبہ، ہمت اور صبرو استقامت کو جیت نصیب ہوئی اور دھن، دھونس، تشدد اور جبرو بربریت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاست کی بھرپور شدید ترین کارروائی بھی ان پیکران عزم کے پیروں میں ہلکی سی لرزش پیدا نہ کرسکے۔ قائد انقلاب کا کہنا تھا کہ

’’ریاستی جبر و بربریت کی انتہا ہوگئی ہے۔ رات بھر پولیس نے پر امن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ نواز شریف،  شہباز شریف اور چوہدری نثار پر قتل، اقدام قتل اور تشدد کے مزید کئی مقدمے درج ہوں گے، قانون انہیں پھانسی کے پھندے پر لٹکائے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت انہیں بچا نہیں سکتی۔ وہ یہ بات اپنے ذہنوں سے نکال دیں کہ ہم انکے ظلم، جبر اور بربریت کے خوف سے اپنی جدوجہد ترک کردیں گے۔ پنجاب پولیس نے بدمعاشوں، لٹیروں اور درندوں کے کہنے پر اپنے ہی بھائیوں اور بہنوں پر ظلم کرکے ناقابل فراموش شرمناک تاریخ رقم کی ہے، دہشت گردی کے سامنے سینہ سپر ہونیوالے کارکن اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ کارکن اپنے عزم پر قائم رہیں کیونکہ انقلاب آسانی سے نہیں آتا، انقلاب میں مشکلات جتنی زیادہ ہوتی ہیں کامیابیاں اتنی ہی زیادہ ہوتی ہیں۔ بزدل اس ملک کے غریب عوام کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ آج تک عوام نے ظلم سہے ہیں اور اب ظلم کا بدلہ لینے کیلئے نکلے ہیں۔ حکمرانوں نے مظلوموں اور پر امن رہنے والوں کو کمزور سمجھا تھا لیکن وہ دیکھ لیں کہ یہ مظلوم کئی گھنٹوں سے امن کی طاقت سے ان کا مقابلہ کرتے رہے‘‘۔

٭ حکومتی جبرو بربریت کے انتہاء پر پہنچ جانے اور تمام اطراف سے شاہراہ دستور پر نہتے اور پرامن کارکنوں پر پولیس کے حملہ آور ہونے کے باعث گزشتہ رات خواتین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں پناہ لی تھی۔ آج بھی وہ تمام خواتین نہایت ہی پرامن طریقے سے پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں موجود ہیں اور وہیں دھرنا دے رکھا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کا لان اور شاہراہ دستور گو نواز گو کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ آج سارا دن شرکاء دھرنا کو پانی اور خوراک کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں برملا عوامی تحریک کے کارکنوں کے حوصلوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان عظیم کارکنان اور ان کی قیادت کی جرات کو سلام پیش کیا ہے۔ تاریخ نے ایسا بدترین قتل عام کبھی نہیں دیکھا۔ زخمی افراد کو نہ صرف ایمبولینسوں بلکہ ہسپتالوں سے دوراج علاج ہی گرفتار کیا جارہا ہے۔

٭ ملک بھر میں حکومتی جبر کے خلاف مختلف جماعتوں کے بھر پور مظاہرے سامنے آرہے ہیں۔ پنجاب بھر میں پندرہ دن کیلئے دفعہ 144 نافذ کردی گئی۔ پنجاب پولیس کی جانب سے شرکاپر زائد المیعاد آنسو گیس شیل استعمال کئے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ عام طور پر آنسو گیس شیلز کی زیادہ سے زیادہ عمر گیارہ ماہ ہوتی ہے تاہم پولیس کی جانب سے زائد المیعاد گیس شیلز کے استعمال سے لوگوں کی حالت خراب ہو گئی۔ پولیس اہلکاروں کی جانب سے 2008ء میں بننے والے آنسو گیس کے شیلز استعمال کئے گئے۔اس کشیدہ صورت حال سے کاروبار حکومت معطل ہوکر رہ گیا ہے۔ ملک میں بے یقینی کی فضاء چھائی ہوئی ہے۔ پورے ملک کی فضا حکومت کے اس بہیمانہ اور ظالمانہ اقدام کی وجہ سے سوگوار ہے۔ ہر کوئی حکومت کو لعن طعن کررہا ہے کہ ابھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا خون تازہ تھا کہ حکومت نے اپنی طاقت اور قوت کے زعم میں پرامن شرکاء کو بھی خون میں نہلادیا۔

اس دوران قومی اداروں کی خاموشی بھی بڑی عجیب ہے۔ کوئی بھی اس ظلم و ستم پر ظالموں کا گریبان پکڑنے اور آئین و قانون کے مطابق انصاف دینے کا اظہار کرتا نظر نہیں آرہا۔ دھرنے کے دوران سپریم کورٹ شرکاء دھرنا کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے لئے حکومت کو پابند بنانے کے بجائے صرف شاہراہ دستور کی ایک سائڈ کو ججز، ارکان اسمبلی اور دیگر بیوروکریسی کے گزرنے کے لئے خالی کرنے پرزور دیتی رہی مگر حکومت کی جانب سے راولپنڈی اسلام آباد میں سیکورٹی کے نام پر لگائے گئے کنٹینرز اور دیگر رکاوٹوں سے پید ا ہونے والی دشواریوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔ اگر لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے راولپنڈی اسلام آباد کے راستوں سے کنٹینرز اور رکاوٹیں ہٹانے کے احکامات دیئے بھی گئے تو حکومت نے اسے بھی ہوا میں اڑا دیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ توہین عدالت کے مرتکب ہونے والے متعلقہ محکموں کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس سے قوم کے ذہنوں میں ضرور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئین و قانون پر سختی سے عمل درآمد صر ف کمزور اور غریب کے لئے ہی لازم ہے کسی طاقت ور پر نہیں؟

یکم ستمبر2014ء

ریڈ زون آج بھی میدان جنگ بنا رہا اور جھڑپیں جاری رہیں۔ اس ریاستی جبرو ستم کو یہاں جاری ہوئے آج تیسرا دن ہے۔ پاک سیکرٹریٹ چوک میں مظاہرین کا پولیس سے تصادم ہوا، آنسو گیس کی شیلنگ، ہنگامہ آرائی ہوئی جس کے دوران مزید متعدد کارکن زخمی ہوئے۔ کارکنان PAT کا حوصلہ اور جذبہ دیکھ کر حکومت بوکھلا گئی اور اس نے گلو بٹوں کے ذریعے پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کراکر پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات بند کرا دیں اور الزام لگادیا کہ مشتعل مظاہرین نے پی ٹی وی پر قبضہ کیا اور نشریات رکوا دیں۔ حیران کن بات یہ تھی کہ PTV عمارت کے باہر تعینات پولیس آج کہیں دکھائی نہ دی۔ اس پولیس کو آج سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وہاں تعینات ہی نہ کیا گیا اور نہ ہی حکومت نے TV عمارت کی سیکیورٹی فوج کے سپرد کی۔ بعد ازاں اس صورتحال پر فوراً پاک فوج کی مدد طلب کرلی گئی۔ پاک فوج کے دستوں اور رینجرز نے پی ٹی وی کا کنٹرول سنبھال کر وہاں قبضہ کرنے والے افراد کو نکال دیا اور 45 منٹ کے بعد نشریات بحال ہو گئیں۔

شرکاء دھرنا نے سیکرٹریٹ چوک اور اس کے گرد و نواح میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ شاہراہ دستور اور اس کے گردونواح شرکاء دھرنا صبرو استقامت کی تصویر بنے موجود ہیں۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں موجود خواتین اور بزرگ احباب نے اپنی چادروں سے دھوپ سے بچنے کے لئے سائبان تان رکھے ہیں۔ حکومتی پروپیگنڈے اور ڈس انفارمیشن بھی اپنی انتہا پر ہے۔ ایک طرف نہتے اور پرامن کارکنان پر تشدد بھی کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اپنے افراد کے ذریعے سرکاری عمارتوں پر قبضے کرواکر الزام شرکاء دھرنا پر لگایا جارہا ہے۔ حکومت کا ایک گروہ سوچی سمجھی سازش کے تحت فوج پر بھی شرکاء دھرنا کی مدد کے الزامات لگانے میں دن رات مصروف ہے۔ اس سازش کو محسوس کرتے ہوئے آج فوج نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں فوج اور آئی ایس آئی، تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے آج شب ایک بیان جاری کیا۔ جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سیاسی تعطل کے دوران فوج یا آئی ایس آئی نے کسی بھی انداز میں پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی پشت پناہی نہیں کی ہے۔ فوج ایک غیر سیاسی ادارہ ہے جس نے متعدد مواقع پر جمہوریت کیلئے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اظہار کیا ہے۔ فوج کو ان تنازعات میں گھسیٹنا افسوسناک امر ہے۔ فوج کا اتحاد اور ساکھ ہی اس کی طاقت ہے جسے فوج فخر کے ساتھ سربلند رکھتی ہے‘‘۔

قائد انقلاب خطاب کررہے ہیں کہ

’’حکومت کا آئین و قانون پر یقین نہیں اسی لئے مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔ حکمرانوں کا صدیوں بادشاہت کرنے کا خواب ناکام بنادیں گے۔ شریف برادران نے اپنا نام جمہوریت اور آئین رکھ لیا ہے، لوگ اپنے ملک میں عدل وانصاف اور حقوق چاہتے ہیں، ملک کو شریف برادران کی بادشاہت سے واگزار کرنا ہم سب پر واجب ہوگیا ہے۔ ہمارے اب تک 25 کارکن شہید ہوچکے ہیں۔ ہمارے کارکنان اپنی جانوں کو بچانے کے لئے پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے، اب وہاں پرامن دھرنا دیئے ہوئے ہیں کسی بھی کارکن نے ایک پتھر بھی پارلیمنٹ ہاؤس پر نہیں پھینکا‘‘۔

٭ آج بالآخر شرکاء دھرنا کی صبر و استقامت اور قربانیوں کی بدولت ایک جزوی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ حکومت نے فوج کے دباؤ میں آکر حقیقت کو تسلیم کیا اور PAT کے موقف کے عین مطابق تمام دفعات بشمول دہشت گردی کی دفعہ لگاتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے جملہ ذمہ داران 21 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا جو حکومت نے 17 جون سے لے کر اب تک بالجبر روک رکھا تھا۔ تھانہ فیصل ٹاؤن میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وزیراعظم نوازشریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت 21 اہم حکومتی شخصیات و پولیس افسران کے خلاف درج مقدمہ میں دہشت گردی‘ اغوائ، قرآن پاک کی بے حرمتی اور تیاری کے ساتھ مداخلت بے جا کرنے کی دفعات شامل کر لی گئی ہیں۔ تھانہ فیصل ٹاؤن میں عدالتی احکامات پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وزیراعظم نوازشریف‘ شہباز شریف‘ حمزہ شہباز‘ وفاقی وزراء سعد رفیق‘ خواجہ آصف‘ پرویز رشید‘ عابد شیر علی‘ چودھری نثار‘ رانا ثناء اللہ‘ سابق ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رانا عبدالجبار و دیگر کے خلاف درج مقدمہ نمبر 696/14 میں 4 مزید دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے جن میں انسداد دہشت گردی، حبس بے جا کی غرض سے اغوا کرنے، قرآن پاک کی بے حرمتی، کسی کی جگہ پر گھسنے کی دفعہ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل مقدمہ میں قتل‘ ارادہ قتل‘ ڈکیتی سمیت دیگر دفعات لگائی گئی تھیں۔

٭ آج بھی ملک بھر میں مختلف طبقات زندگی کے نمائندہ افراد نے اسلام آباد میں نہتے اور پرامن کارکنان پر حکومتی جبرو بربریت کے خلاف مظاہرے کئے۔ پاکستان بار کونسل کے اعلان پر ملک بھر کی عدالتوں میں بھی ہڑتال رہی، بار رومز پر سیاہ پرچم لہرا دیئے گئے۔ پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل، لاہور بار اور لاہور ہائیکورٹ بار کونسل کی جانب سے اسلام آباد میں لوگوں اور میڈیا کارکنوں پر پولیس تشدد کے خلاف وکلاء نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ اس حوالے سے مذمتی اجلاس بھی منعقد کئے گئے۔ وکلاء کے علاوہ علمائ، مشائخ، تاجر، طلباء اور سول سوسائٹی کے افراد نے بھی اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی طرف سے مظاہرین اور صحافیوں پر تشدد کرنا ریاستی دہشتگردی ہے۔ مظاہرے کرنا شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ اسلام آباد میں پر امن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنانے اور خواتین و بچوں پر آنسو گیس کے شیل فائر کرنا آمرانہ رویہ ہے۔ حکومت نے طاقت کا مظاہرہ کرکے انتہائی احمقانہ حرکت کی ہے۔ انہوں نے جھلیانوالا باغ کی ایک بار پھر یاد تازہ کی ہے۔ اسلام آباد میں پنجاب پولیس کو بھجوا کر وزیراعلیٰ پنجاب نے جو کروایا ہم اس کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔

2 تا 11 ستمبر 2014ء

ریڈ زون میں کشیدگی برقرار ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے میں مظاہرین کا دھرنا مزید دو دن جاری رہا۔ جسے بعد ازاں 4 ستمبر کو قائد انقلاب کے حکم پر لان سے باہر شاہراہ دستور پر دوبارہ منتقل کردیا گیا۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے عین داخلی راستوں کے سامنے دھرنا میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔ ریڈ زون میں موجود انقلاب مارچ کے شرکاء نے چند جگہوں پر موجود پانی کی پائپ لائنوں میں سوراخ کرکے اپنے غسل اور کپڑے دھونے کا بندوبست بھی کر لیا ہے۔ استعمال کے بعد لکڑی کے ٹکڑے ٹھونک کر بند کر دیا جاتا ہے۔ شرکاء اپنے غسل، وضو اور کپڑے دھونے کے لئے اس پانی کو استعمال کررہے ہیں۔ اینٹوں کے چولہے بنا کر اپنے کھانے کے لئے انتظامات بھی ہورہے ہیں۔ شاہراہ دستور کے اردگرد پولیس کا محاصرہ بدستور جاری ہے۔ دھرنے میں آنے جانے والوں پر پولیس تشدد، لاٹھی چارج، گرفتاریوں کا سلسلہ بھی رکا نہیں ہے۔ کبھی کھانے کے ٹرک اور کبھی پانی کے ٹینکر روک کر شرکاء کے حوصلوں کو پست کرنے کی بھونڈی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ایک طرف عمران خان آزادی مارچ کے شرکاء کا خون گرمارہے ہیں تو دوسری طرف قائد انقلاب نہایت ہی منظم طریقے سے عوام پاکستان اور قومی و بین الاقوامی اداروں کے سامنے میڈیا کے ذریعے اپنا کیس پیش کررہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین، پرویز الہٰی، صاحبزادہ حامد رضا، علامہ راجہ ناصر عباس، احمد رضا قصوری، مصطفی کھر، سردار آصف احمد علی، ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، خرم نواز گنڈا پور اور تحریک کے دیگر قائدین بھی شرکاء دھرنا کے ساتھ اپنے خطابات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اپوزیشن کی طرف سے مذاکرات کے لئے تشکیل دیئے گئے جرگہ کے عمائدین اور دیگر نمائندگان، مختلف ممالک کے سفیروں اور مختلف قومی اداروں کے سربراہوں سے ملاقات کرکے حقائق سے آگاہ بھی کررہے ہیں۔ شرکاء بھوک، پیاس کی سختیوں کو ہنس کر برداشت کررہے ہیں مگر شکوہ تک زبان پر نہیں لارہے۔ قائد انقلاب کے انقلابی خطابات بھی شرکاء انقلاب کے لئے علمی، فکری خوراک ثابت ہورہے ہیں۔

آج قائد انقلاب عمران خان کی دعوت پر ان کے کنٹینر پر گئے اور وہاں سے خطاب کیا۔ دونوں رہنما آپس میں گلے بھی ملے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اکٹھے ملکر عوام کی جنگ لڑنے کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ اس موقع پر انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’میں نے اور عمران خان نے کرپشن کے بت پاش پاش کرنے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا ہے، انتخابات کی بنیاد دھن دھونس اور دھاندلی تھی۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مختلف مقررین نے کہا کہ ہم جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں تو کیا ہم جمہوریت کے خلاف ہیں، ہم بھی آئین اور جمہوریت کے خلاف نہیں ہیں، آئین عوام کو روٹی، کپڑا، مکان اور عزت سے جینے کا حق دیتا ہے۔ 41سال سے دو جماعتیں مل کر حکومت کر رہی ہیں۔ ان کی دلچسپی کاروبار حکومت چلانے سے ہے، ہماری دلچسپی غریبوں کا کاروبار چلنے سے ہے۔ تم کہتے ہو کہ جمہوریت کے ساتھ ہو، کیا ماڈل ٹاؤن میں 14افراد کو گولیوں سے مار ڈالنا جمہوریت ہے، کیا کنٹینرز لگاکر کھانا پانی بند کرنا جمہوریت ہے، جمہوریت نام ہے شفافیت، امانت، دیانت، احتساب، اداروں کے استحکام کا نام ہے۔ برطانیہ میں وزیر نے 40 پنس کا بل زیادہ بھرا، اْسے مستعفی ہونا پڑا، برطانیہ میں وزیر کو ریڈ لائٹ سے گاڑی گزارنے پر وزارت اور پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دینا پڑا، اسے جمہوریت کہتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ماڈل ٹاؤن انکوائری کیلئے شہبازشریف کو مستعفی کروا دیں آپ کو ایک شخص نہیں ملتا جو وزیراعلیٰ بننے کے قابل ہو۔ پی ٹی وی پر حملہ آور ہمارے لوگ نہیں یہ (ن) لیگ کے لوگ ہو سکتے ہیں ہم نے کسی کو نہیں بھیجا، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، وہ آپ کے گلو بٹ ہوں گے۔ بھوک اور پیاس کے باوجود یہاں انسانوں کا سمندر ہے۔ وزیراعظم غیرملکی دوروں پر اس لئے جاتے ہیں کہ وہاں پیسہ بنتا ہے، وہ روجھان، ڈیرہ غازی خان کیوں نہیں جاتے اس لئے کہ وہاں پیسہ بنتا نہیں بلکہ لگانا پڑتا ہے۔ شریف برادران آصف زرداری کو گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے کیا وہ جمہوری باتیں تھیں، وہ ہضم ہوگئیں لیکن ہم مظلوموں کی جدوجہد کیوں ہضم نہیں ہورہی۔ جب عوام کو کہیں انصاف نہ ملے تو پھر وہ سڑکوں پر نہ آئیں تو کیا کریں، ہم ظلم کے ستائے ہوئے لوگوں کی جنگ لڑرہے ہیں، تین چار ہزار لوگوں کی باتیں کرنے والے آج دیکھ لیں کہ ظلم و ستم کے باوجود آج عوام کا سمندر موجود ہے۔ آج عوام کے دباؤ پر وزیراعظم کو پارلیمنٹ یاد آگئی ہے ورنہ انہیں دورے کرنے کے دورے پڑتے تھے۔ یہ لوگ ملک کے غریبوں کی حالت بدلنے کے لیے دورے نہیں کرتے، حکمران صرف لوٹ مار کو جمہوریت کا نام دیتے ہیں اور اسی پر تمام بڑی جماعتوں نے بھی مک مکا کررکھا ہے۔ آج ان سب کرپٹ لوگوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے ہیں۔ امریکا کے احتجاج کی مثالیں دینے والے بتائیں کیا وہاں لوگوں کو اس طرح گولیاں مار کر قتل کیا جاتا ہے اور اگر وہاں کسی کا قتل ہوجائے تو مقدمہ درج کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی جاتی جبکہ وہاں الیکشن میں دھاندلی بھی نہیں ہوتی۔ کارکنان کو مبارکباد دیتا ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر ہمارے مطالبے کے مطابق درج کرلی گئی ہے جس میں وزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب سمیت وزرا بھی ملزم نامزد ہیں، عوام کے دباؤ پر یہ سب ممکن ہوا ہے، عوام نے جس جواں مردی کا مظاہرہ کیا اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

٭ کارکنان اپنے قائد کے ساتھ ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار نظر آرہے ہیں۔ قائد انقلاب نے متعدد مواقع پر انہیں چلے جانے کا کہا مگر وہ وفا کی تصویر بنے قائد کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ قائد انقلاب کو بھی اپنے کارکنان کی مجبوریوں کا اندازہ ہے اس لئے وہ بھی اپنے کارکنان سے محبت کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’جتنے مرضی مذاکرات کر لئے جائیں لیکن اپنے موقف سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹوں گا، ہمارے 30 ہزار کارکن گرفتار ہیں، انہیں چھوڑا جائے، راستے صاف کئے جائیں اور کنٹینر ہٹائے جائیں اگر 3 دن میں لاکھوں کا سمندر نظر نہ آئے تو ہم دھرنا ختم کردینگے۔ جب اپنے مظلوم، غربت اور ستائے ہوئے بے بس کارکنوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے اور مجھے رونا آتا ہے۔ ہمارے پاس غریب، مظلوم اور ستائے ہوئے لوگ ہیں، پارلیمنٹ ہاؤس میں بیٹھے لٹیرے، عیاش ہمارے عوامی سمندر میں موجود نہیں ہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ بہت سے لوگوں کے گھر کا چولہا جلنا بند ہونے کا خدشہ ہے، انکی نوکریوں کو خطرہ ہے، بچوں کے سکول کا مسئلہ ہے، اسلئے میری طرف سے ان تمام لوگوں کو اجازت ہے کہ آپ لوگ واپس اپنے گھروں میں جا سکتے ہیں، میں قبر میں بھی اور آخرت میں بھی آپ لوگوں کی ثابت قدمی کی گواہی دوں گا۔ میں فولاد ہوں، ظلم و جبر کے سامنے جھک نہیں سکتا، میں جانتا ہوں کارکن اپنی نوکریوں سے چھٹیاں لیکر آئے ہیں، کارکنوں کے گھروں میں مجبوریاں بھی ہیں، میں اپنی خوشی سے کارکنوں کو اجازت دیتا ہوں کہ جن کا گھر جانا ضروری ہے، گھروں میں مجبوریاں ہیں وہ واپس چلے جائیں، میں آپکی جنگ جاری رکھوں گا۔ مجھے اپنے کارکن اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ میرے ساتھ وڈیرے نہیں مڈل کلاس کے لوگ ہیں۔ کسی جماعت کے کارکنوں نے اتنی قربانیاں نہیں دیں جتنی میری جماعت کے کارکنوں نے دیں۔ کارکنوں کا حال دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے کہ کارکنوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے، لیکن حکمرانوں سے سمجھوتہ کروں گا اور نہ موقف میں لچک آئیگی۔ میں آپ کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے 36گھنٹے بعد کھانا کھاتا ہوں، دن میں 38 ادویات لیتا ہوں پھر بھی ظلم و جبر کے سامنے نہیں جھک رہا‘‘۔

٭ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی جاری ہے جہاں ہر روز ممبران پارلیمنٹ کی طرف سے شرکاء دھرنا کو طرح طرح کے القابات و الزامات سے نوازا جارہا ہے۔ پوری قوم کو ایک واضح تفریق نظر آرہی ہے۔ غریب عوام کا خون چوسنے والے اور ظلم و بربریت کے علمبردار پارلیمان کے اندر قابض اور 18 کروڑ عوام کے حقیقی نمائندے شاہراہ دستور پر حکمرانوں کی بے حسی پر ماتم کناں۔ قائد انقلاب ہر روز پارلیمنٹ کے فلور سے لگنے والے الزامات و تنقید کا حقائق کے ساتھ منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’پارلیمنٹ کے اجلاس میں بیٹھے ہوئے ہمارے اوپر زبان درازی کرتے ہیں، ہم ان کے ماضی و حال سے واقف ہیں کہ کون جمہوریت کے لئے کیا کچھ کرتا رہا ہے۔ پارلیمنٹ میں جو اْبھرتا ہے وہ نواز شریف کی تعریف توصیف کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہاں چند ہزار لوگ بیٹھے ہیں، جمہوریت کی بات کرنے والو! ہمیں غیر جمہوری کہنے والو! سنو! عوامی تحریک جمہوری نہیں تو 1999ء میں پیپلز پارٹی نے میری صدارت میں تحریک میں حصہ کیوں لیا۔ میں عوامی اتحاد کا صدر تھا، محترمہ میرے تحت ایک ڈیڑھ سال تک جمہوریت کی جنگ لڑتی رہیں۔ عوامی اتحاد کے اجلاس ہمارے سیکرٹریٹ میں ہوتے تھے۔ ہماری تحریک کو غیرجمہوری کہنے سے قبل اپنی جماعت کو بھی ذہن میں رکھیں۔ پیپلز پارٹی پر تو ملک کو دو ٹکڑے کرنے کا الزام آج بھی موجود ہے۔ سو اختلاف کریں مگر حد میں رہیں۔ محمود خان اچکزئی ہمیں گالیاں دیتے رہے مگر ان کا اپنا کردار یہ ہے کہ جب زیارت میں قائداعظم کی آخری آرام گاہ کو جلایا گیا تو ان کے سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ ہم نے سامراجی طاقت کی یادگار کو جلایا ہے۔ شرم کریں، آپ کب سے جمہوری بن گئے۔

پارلیمنٹ فلور پر چیخنے والو! ماڈل ٹاؤن سانحے پر جوڈیشل رپورٹ نے شہباز شریف کو قتل عام کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اگر سچے ہو تو وزیراعلیٰ کے استعفیٰ کا مطالبہ کرو۔ اس رپورٹ کو کیوں منظر عام پر نہیں لایا جارہا، اسے شائع کریں تاکہ ہر ایک کو پتہ چلے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔ اگر ارکان پارلیمنٹ نے یہ مطالبہ نہ کیا تو مطلب ہو گا کہ سب مفادات کے غلام ہیں ان کا جمہوریت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہم نے قطعاً پارلیمنٹ پر حملہ نہیں کیا۔ ہمارا جلوس تو پارلیمنٹ ہاؤس سے گزر کر وزیراعظم ہاؤس کی طرف جا رہا تھا، آگے سے گولیاں اور شیلنگ ہوئی، ہمارے جلوس کے پچھلے حصے پر بھی شیلنگ کی گئی شرکاء نے پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں پناہ لی۔ اس سے آگے پارلیمنٹ کی اصل بلڈنگ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ پارکنگ بھی چھوڑی ہوئی ہے۔ ان حکمرانوں سے کوئی یہ پوچھے کہ نواز شریف اور انکے ساتھیوں نے 13 اکتوبر 2011ء کو پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بولا تھا، 29 نومبر 1997ء میں نواز شریف کے حکم پر مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا، ان حکمرانوں کی سپریم کورٹ پر چڑھے ہوئے گیٹ،دیواروں، چھتوں پر چڑھے ہوئے تصاویر موجود ہیں۔ ہم تو سپریم کورٹ کے گیٹ کی طرف نہیں گئے۔ تم نے تو سپریم کورٹ کو دو ٹکڑے کر دیا۔ اس بارے کیا کہتے ہو‘‘۔

٭ قائد انقلاب کے حکم پر پنڈی اسلام آباد کے مخیر حضرات نے دھرنے میں موجود بچوں کیلئے سلائیڈز، سونگز، سکول کی کتابیں، کلر پینٹ اور واٹر پینٹ اور دیگر دلچسپی کی چیزیں اور کھلونے کثیر تعداد میں بھجوادیئے ہیں۔ پارلیمان کے ساتھ شاہراہِ دستور پر باقاعدہ ایک بازار بھی بن چکا ہے۔ فروٹ، دہی بھلے، چارٹ، برگر، چائے، بسکٹ، آئس کریم اور دیگر اشیاء خوردونوش اور ضروریات زندگی بھی ریڑھیوں، سٹالز، چھابڑیوں میں یہاں موجود ہے۔ قائد انقلاب نے باقاعدہ یہاں بچوں کے لئے ’’انقلاب سکول‘‘ بھی شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے تاکہ دھرنے میں موجود ہر عمر کے بچوں کی تعلیم کا ضیاع نہ ہو اور انہیں یہاں ان کے نصاب کے مطابق تعلیم دینے کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ پنجگانہ نمازیں اور جمعۃ المبارک کے اجتماعات کا سلسلہ بھی شاہراہ دستور پر جاری و ساری ہے۔ لاؤڈ سپیکرز سے ملی نغموں اور تحریکی و انقلابی ترانوں نے بھی ایک ماحول قائم کررکھا ہے۔ قائد انقلاب کے حکم پر محفل سماع کا مختلف اوقات میں اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ شرکاء دھرنا راتوں کو جاگ کر اپنی حفاظت خود کرتے نظر آرہے ہیں۔ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہورہا۔ صبح، دوپہر اور شام باقاعدہ ایک نظم کے مطابق کھانا بھی تقسیم ہو رہا ہے۔ دھوپ اور بارش سے بچنے کے لئے کثیر تعداد میں چھتریوں کا استعمال بھی عام ہے۔ سول سوسائٹی کے احباب بھی حسب استطاعت اشیاء ضروریہ لے کر دھرنے کے شرکاء کو بہم پہنچا رہے ہیں۔

انقلاب مارچ کے شرکا سے خطاب کے دوران پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کی گئی تقاریر کا قائد انقلاب کی طرف سے صبح و شام اپنے خطابات میں جواب دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

’’پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہمیں گالیاں دی جارہی ہیں، کسی ایک رکن کو توفیق نہیں ہوئی ہے کہ وہ جرات کر کے حکومت سے سوال کرے کہ ہزاروں افراد پارلیمنٹ کے سامنے کیوں آئے ہیں اور انہیں کون سے دکھ اور مصیبتیں ہیں جس کی وجہ سے وہ یہاں جمع ہیں۔ پارلیمنٹ جواب دے کہ مظلوموں کی آواز نہ سننے کا ذمہ دار کون ہے۔ جس دن سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا ہوا اس دن ایوان میں بیٹھے افراد کیوں نہ جاگے اور سوا دو ماہ کے بعد ایف آئی آر درج ہوئی لیکن ابھی تک کوئی ملزم گرفتار نہیں کیا گیا۔ پارلیمنٹ اگر آئین میں ترمیم کردے کہ حکمران غریبوں کا قتل کردیں تو ان پر مقدمہ نہیں بنے گا تو پھر ہم دھرنا ختم کرکے واپس چلے جائیں گے۔ ہمارے کارکنوں کو حکمرانوں کے ساتھیوں نے خانہ بدوش کہا اور انہیں ’’گھس بیٹھیے‘‘ کا طعنہ دیا، انہیں ’’خانہ بدوش‘‘ کہنا شرمناک بات ہے۔ روس اور چین کے انقلاب میں بھی بادشاہ اسی طرح عوام کو خانہ بدوش کہا کرتے تھے۔ حق مانگنے والے لوگوں کو لشکری اور غدار کہا گیا۔ حق مانگنے والوں کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک ہوتا آیا ہے۔ کسی رکن پارلیمنٹ کو ہمارے دکھوں کا مداوا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، میرے اور عمران خان پر جتنے چاہے مقدمات درج کرا دو ہم ڈرنے والے نہیں۔ یہ صبر اور اعصاب کی جنگ ہے، فتح ہماری ہوگی۔ ایوان میں بیٹھے لوگوں کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں۔ ہم مذاکرات کے مخالف نہیں مگر حکمران درحقیقت مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتے۔ مذاکرات کے لئے آنے والی کمیٹیاں بے اختیار ہوتی ہیں۔ لہذا ہماری کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کی تجویز کو اس موقع پر قبول کرنے سے قاصر ہوتی ہیں جس بناء پر مذاکرات مسلسل ناکام ہورہے ہیں‘‘۔

٭ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر شاہراہ دستور پر باقاعدہ خیمہ بھی لگادیئے گئے ہیں۔ اب یہ دھرنا خیمہ بستی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ عارضی انقلاب سکول بھی قائم ہے، جہاں چھوٹے بچے مصروف تعلیم ہیں حتی کہ M.A تک کی کلاسز کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔علاوہ ازیں مختلف تعلیمی کورسز میں بھی شرکاء دھرنا دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں۔ شاہراہ دستور پر انقلاب دھرنا کے شرکاء نے یوم دفاع کو بھی نہایت جوش و جذبہ سے منایا اور قائد انقلاب اور دیگر قائدین نے اپنے خطابات میں اپنی بہادر پاک فوج کو خراج تحسین پیش کیا۔

٭ قائد انقلاب نے دھرنے کے دوران ہی ملک میں آنے والے بدترین سیلاب سے متاثرہ عوام کے لئے مدد کی ہنگامی اپیل کی ہے اور MWF کے ملک بھر میں موجود رضا کاران کو سیلاب زدگان کی فوری مدد کی ہدایات دی ہیں۔ 9 ستمبر کو دھرنے میں اقلیتوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے خصوصی شرکت کی۔ قائد انقلاب اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے بھی خطابات میں تذکرہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ

’’عوامی تحریک صرف مسلمانوں کے حقوق کیلئے نہیں لڑ رہی یہ پاکستان کی اقلیتوں کے حقوق کیلئے بھی لڑ رہی ہے۔ یہ جنگ ہماری نہیں پورے پاکستان کی ہے۔ بعض پیسہ کھانے والے صحافی اور رپورٹر کہتے ہیں کہ یہاں لوگوں کو پیسے دے کر لایا گیا ہے۔ میں ایسا کہنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔ دھرنے میں کسی کو پیسے دے کر یا جبراً نہیں لایا گیا، دھرنے کے شرکاء اپنے ضمیر کی آواز پر آئے ہیں۔ ہماری جنگ جمہوریت کے خلاف نہیں، ظلم کے خلاف ہے۔ عوام خواب غفلت سے بیدار ہو گئے ہیں، ان کو سمجھ آ گئی کہ انقلاب کیا ہے۔ ہم اقلیتوں، مزدوروں، کسانوں اور بے کس مظلوم پاکستانی عوام کے حقوق کیلئے نکلے ہیں، غریبوں کا حق حکمرانوں سے چھین کر واپس لانا چاہتا ہوں۔ میری سوچ میں تنگ نظری نہیں، قائد اعظم کے وژن کے تحت جنگ لڑرہا ہوں۔

٭ ڈی چوک میں خیموں کی تنصیب کے بعد شاہراہ دستور سے ڈی چوک تک خیموں کا ایک شہر آباد ہوگیا ہے۔ جہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیاء عوام کو میسر ہیں۔ دھرنے میں اب آئس کریم جوس، چنا چاٹ فروٹ چاٹ، تازہ پھل اور پکانے کے لئے سبزی بھی دستیاب ہے۔ جوتوں اور کپڑوں کے سٹال بھی موجود ہیں۔ دوسری جانب دھرنوں کی طوالت کے باعث شرکاء نے دن کے اوقات میں خود کو مصروف رکھنے کیلئے کئی سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں۔ دھرنے میں نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کے لئے باقاعدہ کرکٹ میچز بھی منعقد ہورہے ہیں۔

٭ ارکان پارلیمنٹ کی تقاریر پر قائد انقلاب کی آواز اور موقف پورے ملک کی عوام کو حقائق سے روشناس کررہی ہے۔ عوام بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس انقلابی آواز نے انہیں اپنے حقوق سے آشنا کردیا ہے۔ شاہراہ دستور انقلاب کنٹینر سے آواز گونجتی ہے کہ

’’مشترکہ اجلاس میں کسی نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کا ذکر تک نہیں کیا،عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی کوملک میں بسنے والے غریب عوام کی محرومیوں کا احساس نہیں۔ یہ وہی عوام ہیں جن کے ووٹوں سے یہ لوگ منتخب ہو کرپارلیمنٹ میں آئے، افسوس کہ پارلیمنٹ کے فلور پر جمہوریت کاراگ الاپنے والوں نے ایک دن بھی غریب اور عام آدمی کے حقوق کی بات نہیں کی۔ دھرنے میں شریک اساتذہ، ڈاکٹرز اور سرکاری ملازم ہیں، یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے تمہیں اس قابل بنایا ہے کہ تم پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے قابل ہوئے، مگر تم نے ان غریبوں کے مسئلے کو پارلیمنٹ میں ڈسکس کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا۔ بہت جلد امید کی کرنیں پھوٹیں گی، غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت حکمرانوں سے چھین لیں گے۔ انقلاب کی صبح طلوع ہونے والی ہے، ہمارے مطالبات آ ئینی اور قانونی ہیں اس لئے کسی میں جرات نہیں کہ ہمارے اٹھائے ہوئے سوالوں کا جواب دے سکے۔ تمہاری جمہوریت بھوک سے مرنے والوں کی بات کیوں نہیں کرتی۔ وزیراعظم صاحب نے سیلاب زدہ علاقوں میں سرکاری خزانے سے دورے کئے، بتائیں سیلاب زدگان کی مدد رائے ونڈ کے خزانے سے کتنی کی ہے۔پارلیمنٹ دراصل پھپھے کٹنیوں کا اڈہ ہے۔ جہاں بات بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھایا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میںمیرے کنٹینر کو اوباما کے محل سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ میرے کنٹینر کا ماحول تو درویشی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کو دعوت دیتا ہوں، صحافیوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں اور اس کنٹینر کو دیکھیں۔ جہاں وزیراعظم دو/چار دن بھی نہیں رہ سکتے، جب آکر دیکھیں گے تو انکا سر شرم سے جھک جائیگا۔ انقلاب مارچ کیلئے آئے لوگوں پر طرح طرح کی باتیں ہوتی ہیں لیکن حکمران یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ تو آئین کے تحت اپنے حقوق لینے آئے ہیں۔ معاشرے میں معاشی آزادی نہ ہو تو جمہوریت ممکن نہیں۔ حکمرانوں نے پارلیمنٹ کو بھانجے، بھانجیوں، سمدھیوں، سالوں، ہم زلفوں سے بھر رکھا ہے۔ ایک ہی خاندان کے دس دس لوگ بیٹھے ہیں‘‘۔

12 تا 15 ستمبر 2014ء

اسلام آباد لاہورسمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں چھاپے مارتے ہوئے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے کے الزام میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ مذاکراتی ٹیم میں شامل مجلس وحدت مسلمین کے رہنما اسد نقوی کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ریڈ زون ڈی چوک ملحقہ علاقوں اور داخلی خارجی راستوں پر پولیس کا کریک ڈاؤن جاری ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں 100 سے زائد ناکے لگاکر ایک مرتبہ پھر پرامن کارکنان کو مشتعل کرنے اور تشدد کا ایک اور باب کھولنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ قائد انقلاب نے احتجاجاً حکومت سے ہونے والے مذاکرات کو معطل کر دیا ہے کہ ایک طرف حکمران مذاکرات کی بھیک مانگتے ہیں اور دوسری طرف گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جارہی ہیں۔قائد انقلاب کے 12 ذاتی محافظوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس نے ملک بھر میں موجود کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارنے شروع کردیئے ہیں اور وہاں سے جو کچھ ملا ساتھ لے گئے۔ کارکنان کے گھروں میں موجود اہل خانہ کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے۔ حکومت یہ سب کچھ پارلیمنٹ اور PTV پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کرنے کے نام پر کررہی ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد سے گذشتہ دن گرفتار کئے گئے تین ہزار سے زیادہ کارکنوں کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا ہے اور ایک ہزار سے زائد افراد گرفتار کئے گئے ہیں۔ انقلاب مارچ کیلئے کنٹینر اور کرین فراہم کرنیوالے مالک کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ قائد انقلاب کا کہنا تھا کہ

’’حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور اب مزید ریاستی جبر پر اتر آئی ہے۔ ہمارے 30 ہزار کارکنوں کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے، اب ایک مرتبہ پھر پنجاب بھر میں کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔ ہمارے ہزاروں کارکنوں کی گرفتاری، ماڈل ٹاؤن کے محاصرے اور راستوں کی بندش کے باوجود تاریخ میں کسی جماعت نے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو باہر نہیں نکالا اور ایک مہینے تک یہاں موجود رہنا دنیا کے لئے حیرت کا باعث ہے۔ مذاکرات کے لئے انسانی رویہ بھی ہونا چاہیئے۔ حکومت سے مذاکرات اس وقت تک نہیں ہوسکتے جب تک گرفتار کارکن رہا نہیں ہوجاتے‘‘۔

٭ گرفتار کئے گئے کارکنوں کو تھانوں اور جیلوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے تمام ہسپتالوں پر مسلم لیگ (ن) کا قبضہ ہے، جو اپنی مرضی کی رپورٹس ڈاکٹرز سے زبردستی لکھوارہے ہیں اور وہاں پر موجود زخمی کارکنان کو بھی اسی حالت میں گرفتار کررہے ہیں۔ 14 ستمبر کو قائد انقلاب نے پولیس تشدد سے زخمی پی اے ٹی کارکنوں کو میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔ ان کے جسموں پر موجود تشدد کے نشانات حکومتی بربریت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ اس بہیمانہ تشدد کی پورے ملک میں سخت مذمت کی جارہی ہے۔ مگر حکومت ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا مسلسل مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے۔

٭ قائد انقلاب سیلاب کی تباہ کاریوں کا سبب حکمرانوں کو قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اٹھارہ ہزاری میں شریف فیملی کی دو شوگر ملیں ہیں، شریف خاندان کی شوگر ملوں کو بچانے کیلئے اٹھارہ ہزاری کے لوگوں کے مکانات اور زمینوں کو تباہ و برباد کردیا گیا۔ حکمرانوں کو عوام سے کوئی غرض نہیں۔ حکومت نے ہمارے انقلاب مارچ کو روکنے کے لئے آئی بی کو پونے تین ارب روپے دیئے تاکہ وہ میڈیا سمیت مختلف ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ہمارے خلاف مہم چلاسکیں۔ لاٹھی چارج، گولیاں اور شیلنگ کے واضح نشانات کارکنوں کے جسموں پر ہیں، مگر میڈیکل رپورٹس میں گولیوں کا ذکر تک نہیں، سینکڑوں کارکنان کے جسموں میں موجود گولیوں کے باوجود انہیں ہسپتالوں سے فارغ کردیا گیا اور میڈیکل سرٹیفکیٹ میں گولی کا ذکر تک نہیں۔

٭ 15 ستمبر کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد نے شاہراہ دستور پر پولیس کی شیلنگ سے جاں بحق ہونے والے پاکستان عوامی تحریک کے 3 کارکنوں کے قتل کا مقدمہ وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور 3 وفاقی وزراء سمیت 11 افراد کے خلاف درج کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ جن دیگر افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، آئی جی اسلام آباد، آئی جی پنجاب، آئی جی موٹر وے، چیف کمشنر اسلام آباد، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ شامل ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ جواد حسن عباس کی عدالت نے کی۔ عوامی تحریک کے وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ 30اور 31 اگست کی درمیانی شب پولیس نے حکام کی ہدایت پر پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں پر زبردست شیلنگ کی جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہو گئے چونکہ آپریشن کی ہدایات براہ راست وزیراعظم کی منظوری سے جاری ہوئی ہیں اس لئے عدالت وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور دیگر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا متعلقہ تھانہ کو حکم دے‘‘۔

٭ قائد انقلاب کی ہدایات پر اور دھرنے سے آغاز کردہ نعرہ ’’گو نواز گو‘‘ کو ملکی سطح پر بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ ملک میں وزیراعظم سمیت حکومتی ذمہ داران اور وزراء کا عوامی مقامات پر ’’گو نواز گو‘‘ کے ذریعے استقبال کیا جارہا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ ہو، یا حکومتی اجلاس، کوئی کانفرنس ہو یا جلسہ ’’گو نواز گو‘‘ ہر جگہ سنائی دے رہا ہے۔ عوام جاگ رہے ہیں۔ حکمرانوں کی کرتوتیں دھرنوں کے ایک ماہ نے عوام کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں۔ اس مہم کو منتظم طور پر چلانے کے لئے قائد انقلاب نے ہدایات جاری کی ہیں کہ

’’ملک میں جعلی جمہوریت کے خاتمے کیلئے عوام گلی محلوں کو ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے بھر دیں،  جعلی حکمرانوں کو گھر بھیج کر ملک میں حقیقی جمہوریت لائیں گے۔ شہریوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی کا نام اصل جمہوریت ہے، انقلاب کے بعد عوام کو مساوی بنیادی حقوق ملیں گے، دہشت گردی کا خاتمہ جمہوریت سے کریں گے، اسمبلی کے 90 ممبران آئین کی خلاف ورزی کرکے آئے ہیں، عدالت نے وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو ملزم تسلیم کرلیا ہے، عدالت کا فیصلہ آگیا ہے اب دیکھتے ہیں آگے اس پر کتنا عمل ہوتا ہے۔ جو شہری ظلم کے نظام کو رَد کرتے ہیں، وہ ہر جگہ ’’گو نواز گو‘‘ لکھیں۔ سوشل میڈیا پر گو نواز گو مہم شروع کریں اور ہر موبائل ایس ایم ایس کے آخر میں گو نواز گو لکھنا شروع کریں، ملک میں جمہوریت نہیں، خاندانی بادشاہت ہے۔ محلوں میں بیٹھے ہوئے جعلی حکمرانوں کو گھر بھیجنا ہو گا۔ جمہوریت صرف انتخابات کا انعقاد نہیں، جعلی ووٹ لیکر اسمبلیوں میں جانا جمہوریت نہیں ہے، جمہوریت کے معنی ہیں کہ عوام کے حقوق دیئے جائیں، اقتدار کو نچلی سطح تک منتقل کیا جائے اور حکمران عوام کے برابر ہوں‘‘۔

٭ قائد انقلاب کی ہدایات پر شاہراہ دستور پر گوشہ درود قائم کردیا۔ تحریک منہاج القرآن نے شاہراہ دستور پر ایک خیمہ نصب کرکے اسے گوشہ دورد کا نام دے دیا ہے جہاں 24 گھنٹے اب درود و سلام کا ورد کیا جا رہا ہے۔

16 تا 30 ستمبر 2014ء

ملک بھر سے مظلوم اور غریب لوگ دادرسی کیلئے دھرنے میں آ رہے ہیں اور اپنے مسائل بیان کررہے ہیں۔ کوئی غریب اپنی عزت کے لٹنے کا رونا رو رہا ہے، کوئی حکومتی گماشتوں کے ظلم و ستم اور وڈیروں کے قبضہ کا ذکر کررہا ہے۔ قائد انقلاب ہر ایک کے مسئلہ کو سن رہے ہیں اور حسب استطاعت ان محکوم و مجبور افراد کی خدمت کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ قائد انقلاب کا کہنا ہے کہ

’’ انقلاب مارچ وہ جگہ ہے جہاں ظلم کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے۔ انقلاب مارچ میں وہ لوگ شریک ہیں جن کی آواز سننے والا کوئی نہیں، اس نے لوگوں کے دلوں میں شمع روشن کی، انقلاب لوگوں کے ذہنوں اور سوچوں میں آ چکا ہے۔ عدالتوں میں انقلاب کا آغاز ہو گیا ابھی مزید بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ پولیس ہمارے کارکنوں پر تشدد کر رہی ہے۔ ہم پر الزام لگایا کہ پی ٹی وی پر حملہ ہم نے کیا جبکہ مجھ جیسے شخص کو بھی نہیں پتہ کہ پی ٹی وی کی نشریات کہاں سے بند ہوں گی، میرے کارکنوں کو کس طرح سے اس چیز کا علم ہوگا۔ نشریات بند کرنے والے ن لیگ کے اپنے تربیت یافتہ لوگ تھے جنہوں نے فساد پھیلانے کیلئے پی ٹی وی پر حملہ کیا۔ اگر انقلابی پی ٹی وی میں گئے ہوتے تو سب کچھ برباد کر دیتے۔ پی ٹی وی پر حملہ حکومتی وزراء نے خود کروایا ہے‘‘۔

٭ 18 ستمبر کو قائد انقلاب نے قومی اخبارات میں PTV حملوں میں ملوث افراد کی تصاویر میں سے 6 افراد کی شناخت کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ پی ٹی وی میں کام کرنے والے ہیں اور اس وقت حاضر ڈیوٹی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ یہ حرکت حکومت نے اپنے گلو بٹوں کے ذریعے خود کروائی۔ جس پر اگلے روز وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہاں یہ ملازمین PTV کے ہیں مگر ان کی تصاویر غلطی سے شائع ہوگئی ہیں۔ حکومت کی اس بھونڈی حرکت اور PTV حملہ میں PAT کے کارکنان کو ملوث کرنے کے جھوٹے الزامات اپنی موت آپ مرگئے اور ایک مرتبہ پھر حکومت کو شرمندگی و ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر شاید نہیں، اگر شرم و ندامت کا احساس ان کے ہاں ہوتا تو اس طرح خون کی ندیاں نہ بہتیں۔

٭ قائد انقلاب کے دعوؤں کی سچائی ان کے بیان کے اظہار سے عیاں ہے۔ یقین اور جرات سے کی گئی ان کی باتوں اور حکومتی کرپشن کی داستانوں کو آج تک کسی وزیر مشیر کی طرف سے رد کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ جب حکومتی حلقوں کی طرف سے PAT پر غیر ملکی ایجنسیوں سے پیسے لینے کا الزام لگا تو قائد انقلاب نے اس پر ایسا جرات مندانہ بیان دیا کہ حکومتی وزراء بھیگی بلی بن گئے اور پھر اس موضوع پر انہیں بات کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ قائد انقلاب نے فرمایا:

’’حکومت ہم پر بیرونی ایجنسیوں سے پیسے لینے کے الزامات کی تحقیقات کروانے کے لئے عدالتی کمشن بنا لے، ایک روپے کی امداد ثابت ہوجائے تو مجھے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے۔ مزید یہ کہ حکومت بیرونی امداد اور کرپشن ثابت ہونے پر سزائے موت کا قانون بنائے، تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کی تحقیقات کروائے جس پر بھی امداد ثابت ہوجائے، اسے پھانسی دی جائے۔ لیکن حکومت ایسا نہیں کر سکتی کیونکہ اس میں بہت سے ’پردہ نشینوں‘ کے نام بھی آتے ہیں‘‘۔

٭ حکومتی مظالم، گرفتاریوں اور تشدد کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ دھرنے میں شریک لوگوں کے لئے کھانا پکوانے والی ٹیم کے افراد اور باورچیوں کو بھی گرفتار کیا جارہا ہے۔ حکومتی بدحواسی و بوکھلاہٹ ہر ایک پر عیاں ہورہی ہے۔ وزیراعظم کو ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں کا شور صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ 23 ستمبر کو لندن اور 26 ستمبر کو امریکہ میں اپنے دوروں کے دوران اپنی رہائش گاہ اور اقوام متحدہ کی بلڈنگ کے سامنے بھی سنائی دے رہا ہے۔ PAT کے کارکنان اور عوام پاکستان ان حکمرانوں کا تعاقب انٹرنیشنل سطح پر بھی کررہے ہیں۔ دھرنے کے 40 روز مکمل ہوچکے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے دفعہ 144 کو معطل کر دیا ہے۔ قائد انقلاب نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے رہائشی عوام کو گھر آنے جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ملک میں VIP کلچر کے خلاف بھی لوگوں میں کھڑے ہونے کی جرات پیدا ہوچکی ہے اور یہ تمام جرات دھرنے میں بیٹھے صبرو استقامت اور جرات و حوصلہ کے حامل افراد کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ وگرنہ آج سے 40 دن پہلے اس بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ قائد انقلاب شرکاء دھرنا سے مخاطب ہورہے ہیں:

’’حکمرانوں نے قوم سے مستقبل کی امید چھین لی ہے، آمروں اور جابروں نے قوم میں مایوسی پیدا کر دی ہے۔ اب پاکستان میں جگہ جگہ ’’گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگ رہا ہے۔ ’’گو نواز گو‘‘ قومی نعرہ بن چکا ہے۔ خاندانی بادشاہت سے عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا جاتا رہا ہے۔ لندن اور نیویارک میں بھی نواز شریف کا استقبال ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے ہوا، ایشیئن گیمز بھی ’’گو نواز گو‘‘ کے نعروں سے گونج رہی تھیں۔ غریب آدمی طاقتور مافیا کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ عوام کو شعور کی بیداری سے دور رکھا جاتا تھا۔ امیدوں کے چراغ جلنے سے تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے۔ قوم غلامی کو قبول کر لے تو کوئی نہیں اٹھا سکتا۔ مفادات کیلئے لوگ اپنا ضمیر فروخت کر دیتے ہیں۔ اقتدار کیلئے ضمیر بیچنا بربادی کی علامت ہے۔ انقلاب کے دھرنے نے لوگوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو 40 دن میں جگا دیا ہے۔ لوگوں کو جرات دی۔ ملک میں فکری انقلاب کی لہر آگئی ہے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں فکری لہر کو طوفان میں تبدیل کر دیں گے۔ انقلاب کو ملک گیر تحریک میں تبدیل کیا جائے گا، نقلاب کی لہر پورے ملک میں پھیل گئی ہے ہمارے فکری انقلاب کی فتح ہوچکی ہے۔

حکومت نے ہمارے گرفتار کارکنوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ رہائی کے بعد کارکن پھر دھرنے میں پہنچے ہیں۔ یہ ان کی غریب عوام سے محبت اور انقلاب کے لئے کمٹمنٹ کا اظہار ہے۔ عوامی تحریک کے کارکنوں کے جذبے کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ حکمرانوں کے مظالم نے انقلاب کو قوم کا مقدر بنا دیا ہے۔ زندگی بھیک سے نہیں آگے بڑھ کر چھیننے سے ملتی ہے۔ نواز شریف کے اقتدار کے خاتمے تک گو نواز گو کا نعرہ زور و شور سے گونجتا رہے گا۔ بچے بچے کی زبان پر گو نواز گو کا نعرہ ہے، خواتین، بچے، بوڑھے اور نوجوان سب انقلاب کیلئے کھڑے ہو گئے ہیں۔ میں قوم کو طاقتوروں کے سامنے سر اٹھانے کا طریقہ بتا رہا ہوں۔ حکمران اور اپوزیشن سب بھیڑیئے ہیں اور میں صرف عوام کو آئین پڑھا کر اپنا حق چھیننے کا طریقہ بتا رہا ہوں۔ حکمران جتنا بھی ظلم کر لیں، ان کے دن گنے جا چکے ہیں‘‘۔

قائد انقلاب نے حکمرانوں کی بیرون ملک عیاشیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا:

’’وزیراعظم نواز شریف امریکہ میں یومیہ 8 لاکھ روپے والے ہوٹل میں ٹھہرے۔ وزیراعظم کسی پاکستانی ہوٹل میں نہیں ٹھہرے۔ امریکی صدر بارک اوباما بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ ان حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ امریکی صدر اوباما نے نوازشریف کو ملاقات کے لئے وقت ہی نہیں دیا۔ وزیراعظم سے لے کر سپاہی تک ہر شخص کرپشن کا افیون زدہ ہے۔ کرپشن دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہم ملک میں مساوی قانون، حقوق چاہتے ہیں، چاہتے ہیں ہر گاؤں میں سکول ہو اور ہر شخص کو باعزت روزگار ملے، حکمرانوں کو صرف اپنے پیٹ کی فکر ہے۔ بھارت، نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش سے کئی گنا زائد یہاں بے روزگاری ہے، حکمران جھوٹے اعدادو شمار سے قوم کو گمراہ کرتے ہیں‘‘۔

٭ وفاقی دارالحکومت میں گاہے بگاہے ہونے والی موسلادھار بارش سے موسم میں خنکی آگئی، انقلاب مارچ کے شرکاء شدید مشکل کے باوجود استقامت کے ساتھ موجود ہیں۔ تیز ہواؤں کے ساتھ بارش سے خیمے اکھڑ جاتے ہیں۔ بارش کا پانی خیموں میں داخل ہوجاتا ہے۔ سردی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سول سوسائٹی اور تحریکی لوگ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اضافی کمبل اور دیگر ضروریات زندگی اپنی حسب استطاعت مسلسل پہنچارہے ہیں مگر شرکاء کی بہت بڑی تعداد کی وجہ سے ہر چیز کم محسوس ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ایک باقاعدہ خیمہ بستی آباد چکی ہے جس میں روزمرہ کے معمولات اور ان پر اٹھنے والے اخراجات ایک منظم رہائشی کالونی کے طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ پہلے بے سرو سامانی کا عالم تھا، دھوپ اور بارش سے بچاؤ کا بندوبست نہیں تھا، دھرنا دئیے بیٹھے خواتین و حضرات کے لئے کھانے پینے کا معقول بندوبست نہیں تھا۔ اب یہاں حالات بہت بدل چکے ہیں۔ شاہراہ دستور کے ڈی چوک میں سڑک کے ساتھ ساتھ ترتیب کے ساتھ خیمے نصب ہیں جنھیں دھوپ اور موسم کی شدت سے بچانے کے لئے ان پر پلاسٹک کی شیٹیں چڑھا دی گئی ہیں۔ ہر خیمے کا ایک نمبر ہے جس کے ذریعے اس میں رہائش پذیر افراد کی شناخت ہوتی ہے اور اسی کی بنیاد پر انہیں راشن اور دیگر امدادی سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ ایک ہزار خیموں میں دس ہزار لوگ رہائش پذیر ہیں جنہیں تین وقت کا کھانا انتظامیہ کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔ دھرنے میں شریک افراد کے یہ اخراجات برطانیہ میں مقیم عوامی تحریک کے ساتھیوں نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے۔ کیمپ کے انتظامات کو مؤثر بنانے کے لیے ایک مرکزی کنٹرول روم بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ہر شعبے کی الگ انتظامی کمیٹی ہے جو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی ہے۔ ان کمیٹیوں کی نگرانی اور آپس میں رابطے کے لیے کنٹرول روم کو استعمال کیا جاتا ہے۔

قائد انقلاب بھی گاہے بگاہے چہل قدمی کیلئے کنٹینر سے باہر آتے ہیں اور دھرنے میں موجود کارکنوں میں گھل مل جاتے ہیں، ان کے مسائل کو سن رہے ہیں، موقع پر معاملات حل کررہے ہیں۔ کبھی کھیلتے ہوئے بچوں کو چوم رہے ہیں، کبھی ان کے لئے قائم کردہ سکول کا جائزہ لے رہے ہیں اور کبھی کرکٹ کھیلتے ہوئے نوجوانوں کے ساتھ کھیل میں شریک ہوجاتے ہیں۔ کارکنان اپنے قائد کو اپنے درمیان پاکر بے پناہ خوشی و مسرت کا اظہار کررہے ہیں، ان کی تمام تھکان قائد کو قریب سے دیکھ لینے پر ختم ہوجاتی ہے، جذبات اور ولولوں میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ خواتین کارکنان کی قربانیاں لازوال ہیں۔ موسم کی شدت، ضروریات زندگی کا سامان نہ ہونے، گھروں سے دور خیموں میں زندگیاں مگر ان حضرت فاطمہ اور حضرت زینب رضی اللہ عنہما کی باندیوں کی عظمت کو سلام کہ وہ 18کروڑ عوام کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے اپنا آج ان کے کل کے لئے قربان کررہی ہیں۔

٭ قائد انقلاب کے معمولات کے خطابات جاری و ساری ہیں۔ 45 دن کنٹینر میں گزارنے والی یہ شخصیت سارا دن مصروف عمل رہتی ہے۔ مذاکرات، انٹرویوز، خطابات کی تیاری، کارکنان کے مسائل کا حل، آئندہ کے لائحہ عمل پر غورو فکر، اتحادی جماعتوں سے اجلاس، PAT کی کور کمیٹی کے اجلاس، مختلف احباب سے ملاقاتیں۔۔۔ کس قدر مشکل زندگی قائد انقلاب گزار رہے ہیں۔ مگر کس کے لئے؟ اپنے لئے؟ نہیں، بلکہ 18 کروڑ غریب عوام کے لئے۔ خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’حکمرانوں نے عوام کو خوف و ہراس کے علاوہ کچھ نہیں دیا، اس نظام کے ہوتے ہوئے ملک کے عوام کو کچھ نہیں ملے گا، اب لوگوں کو ایسا طرز زندگی سکھاؤں گا کہ وہ اپنا حق خود چھین لیں گے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنے کاروبارکو بچانے کیلئے شورمچایا جاتا رہا، حمام میں سب ایک جیسے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے آئیڈیل صوبہ پنجاب میں جرائم کی شرح میں ایک سو ایک فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سات ماہ میں دو لاکھ جرائم کی سنگین وارداتیں ہوئیں، ساڑھے گیارہ ہزار سنگین جرائم کا ہر روز ارتکاب ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟ لوگوں کی عزت وآبرو اور جان ومال کے تحفظ کیلئے 530 ارب روپے خرچ کردئیے گئے لیکن امن کہیں نظر نہیں آیا۔ ایسی جمہوریت جو لوگوں کو انصاف نہ دے سکے، اس جمہوریت کو نہیں مانتے۔ حکمرانوں نے عوام کو سوائے خوف و ہراس کے کچھ نہیں دیا، اس نظام کے ہوتے ہوئے اس ملک کے عوام کو کچھ نہیں ملے گا۔ اب ملک میں وڈیروں، لٹیروں کا کوئی مستقبل نہیں۔ کارکن جیلوں سے رہائی کے بعد گھر نہیں انقلاب مارچ پہنچ گئے ہیں۔ کئی کارکنوں کو ضمانت کے باوجود جیلوں میں رکھا گیا ہے، کارکنوں کی کاوشیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ حکمرانوں کو جانتا ہوں میرے سامنے جواب کی جرات نہیں کرسکتے۔ قوم کو خبر نہیں، انکے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ قوم کو کرپٹ لیڈر لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ یہ لوگ بلیک منی وائٹ کرا لینے کے ماہر ہیں۔ کرپٹ حکمران رہیں گے تو ملک کیسے ترقی کریگا۔ کرپٹ حکمرانوں کے نظام سے پہلی مرتبہ جنگ لڑی گئی ہے۔انقلاب مارچ نے قوم کو موجودہ نظام کیخلاف کھڑا کیا ہے،  عوام نظام بدلنے کیلئے 45 دن سے ہر مصیبت برداشت کررہے ہیں، قوم کو کرپشن کے ایک بڑے نظام نے جکڑا ہوا ہے۔ اب قوم ظلم اور جبر کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرسکتی۔ انقلاب مارچ کے بعد اب ملک بھر میں جلسے ہوں گے۔ کارکنوں کی وفاداری نے مجھے مقروض کردیا ہے۔ پنجاب حکومت کے ریاستی مظالم کوئی نہیں بھلا سکتا۔

حکمرانوں نے پوری قوم کو قرضے تلے دبا دیا، وفاق اور صوبے قرضوں پر پل رہے ہیں، حکمرانوں نے تمام کاروبار پر قبضہ کر لیا۔ کرپشن نے پنجاب سمیت پورے ملک کو کنگال کردیا، 2007ء میں پنجاب وسائل میں سرپلس تھا، 7سال میں پنجاب 452 ارب روپے کا مقروض ہو گیا ہے، کشکول توڑنے کی بات کرنے والوں نے کشکول اٹھا لئے اور پوری قوم کو مقروض بنا دیا ہے، حکمران قرضہ لیکر اپنی عیاشیوں پر خرچ کر رہے ہیں، کسی بھی جمہوری ملک کا وزیراعظم قرض نہیں لے سکتا، حکمرانوں سے پوچھا جائے کہ پنجاب کوکیوں مقروض بنا دیا گیا۔ موجودہ حکومت میں 94فیصد بیرونی قرضہ ہے، پنجاب میں سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، گھوسٹ سکول چل رہے ہیں 80فیصد آبادی پینے کے پانی سے محروم ہیں، 60لاکھ پڑھے لکھے افرادکے پاس روزگار نہیں ہے، محکمہ صحت میں 8 ہزار آسامیاں خالی پڑی ہیں، ملک کا سارا پیسہ لوٹ مار اور ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہورہا ہے، قرضے حکمرانوں کی جیب میں جارہے ہیں۔ میری جنگ ایسے نظام کے خلاف ہے جہاں محکوم، حاکم کا اورکمزور، طاقتورکا محاسبہ کرسکے، موجودہ اسمبلیاں حکمرانوں کا احتساب نہیں کرسکتیں، ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں طاقتور کا محاسبہ ہو سکے۔

ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، خونی انقلاب میں واحد رکاوٹ میں ہوں، انقلاب اب رائے ونڈ محل اور بلاول ہاؤس کو بھی بہا لے جائیگا، دھرنے کے شرکاء نے پوری قوم میں شعور بیدار کر دیا ہے، قوم کا بچہ بچہ آئین سے واقف ہو گیا ہے، انقلاب آنیوالا ہے۔ کسانوں سمیت اب قوم کا ہر طبقہ اپنے حقوق کی خاطر گھروں سے نکلے گا۔ گنبد خضرا کی قسم قوم کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہوں، جب یہ دھرنا تحریک میں تبدیل ہوگا تو شہر شہر انقلاب ہوگا۔ تب دنیا دیکھے گی انقلاب کسے کہتے ہیں۔ 17 جون سے 30 ستمبر تک تین ماہ پندرہ دن کی جدوجہد کا یہ نتیجہ ہے کہ ملک کے عام آدمی کو آئین کی شقیں یاد ہوگئی ہیں، قوم کا شعور بیدار ہوچکا ہے ۔ پاکستان عوامی تحریک کا دھرنا انقلاب کی بڑی تحریک بن کر پورے پاکستان میں ابھرے گا۔ دھرنوں کی وجہ سے پاکستانی قوم میں شعور آیا ہے۔ ہر جگہ گو نواز گو کے نعرے لگ رہے ہیں، سکول و کالج کے بچے بھی یہ نعرہ لگا رہے ہیں۔ عید شارع دستور پر ہو گی۔ قربانی کے بکرے ذبح ہوں گے اور بکروں پر بھی ’’گو نواز گو‘‘ لکھا جائے گا‘‘۔

یکم تا 5 اکتوبر 2014ء

انقلاب دھرنا اپنی پوری شان و شوکت، عظمت، وقار اور سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھتا جارہا ہے۔ متعدد مواقع پر کارکنان کو گھر واپس چلے جانے کا کہا گیا مگر وہ لوگ اس مقدس مشن کی تکمیل کے لئے وہاں سے جانے پر تیار نہ ہوئے۔ قائد انقلاب نے عید الاضحی کے بعد شاہراہ دستور پر دھرنے کو تحریک میں تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے کہ لاکھوں کارکنوں کو لے کر شہر شہر جا کر دھرنا دیں گے۔ گھر گھر سے ’’گو نواز گو‘‘ کی ریلی نکلے گی۔ عید کے بعد ملک کے کونے کونے میں جا کر جلسے کر کے عوام کو جگائیں گے اور ہر شہر کو دھرنا بنائیں گے اور اس ظالم نظام کا خاتمہ کریں گے۔

2 اکتوبر کو قائد انقلاب نے منزل انقلاب کے حصول کے لئے حکمت عملی تبدیل کرنے کا اعلان فرماتے ہوئے آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔ آپ نے اسلام آباد انقلاب دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ

’’جب بھی الیکشن ہوگا عوامی تحریک حصہ لے گی۔ پاکستان عوامی تحریک آج سے انتخابی جماعت بنا دی گئی۔ ہم پورے ملک سے الیکشن لڑیں گے۔ پارلیمنٹ میں آکر اس نظام کو بدلیں گے۔ عوامی تحریک پارلیمنٹ کے تقدس کو بحال کرے گی۔ ہمارے دھرنے کو 50 دن مکمل ہوگئے۔ دھرنے کے شرکاء نے تاریخ رقم کردی۔ دھرنے میں شریک بیٹوں اور بیٹیوں نے لازوال تاریخ رقم کی۔ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں عوام میں شعور آیا ہے۔ اب اس شعور کو ہم انتخابات میں کامیابی کے ذریعے انقلاب کے حصول کے لئے استعمال کریں گے۔ پورے ملک میں اپنے امیدوار کھڑے کریں گے، الیکشن لڑیں گے مگر نظام پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ عوام اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو سمجھ گئے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک سے ٹکٹ انصاف سے ملیں گے۔ عوامی تحریک کو ملک کی سب سے بڑی انتخابی اور انقلابی جماعت بنائینگے۔ ہم ہر شخص کو روٹی، کپڑا، مکان، روزگار اور خواتین کو باعزت روزگار دینگے، خوشحالی عوام کے گھروں تک جائے گی۔ ہم نے دنیا میں طویل ترین دھرنا دینے کی تاریخ رقم کر دی ہے۔ ہمارے کارکنان کو گولیاں بھی نہ روک سکیں۔ ہم پر جس طرح سے تشدد کیا گیا‘ کوئی اور ہوتا تو بھاگ جاتا۔ اپنی بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کی استقامت اور حوصلے کو سلام پیش کرتا ہوں جو مسلسل50 دن سے یہاں بیٹھی ہیں۔ کارکنان کا جذبہ بھی قابل تحسین ہے۔ دھرنوں کو ملک کے کونے کونے میں پھیلا دیا جائے گا۔ شہر شہر جلسے منعقد کئے جائیں گے۔

اس موقع پر قائد انقلاب نے 12 اکتوبر کو فیصل آباد اور 19 اکتوبر کو لاہور میں جلسہ کرنے کا اعلان بھی کیا۔

٭ عیدالاضحی دھرنے میں ہی منانے کے اعلان نے کارکنان کو مزید جذباتی کردیا ہے۔ تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقعہ ہوگا کہ ہزاروں لوگ اپنی خاطر نہیں بلکہ مقہور و مجبور لوگوں کو ان کے حقوق دلوانے کی خاطر اپنے پاس موجود آسائشات کو ترک کرکے دھرنے میں عید منائیں گے۔ عید کی تیاریاں زوروں پر ہیں، قربانی کے جانور اونٹ اور بکرے دھرنوں میں پہنچ چکے ہیں۔ قائد انقلاب عید کی امامت کروائیں گے۔ تحریک انصاف کی قیادت کو بھی دعوت دے دی گئی ہے۔ وہ بھی دھرنوں میں ہی قربانی کریں گے اور عید منائیں گے۔ عوامی تحریک کے ذمہ داران کی ٹیم خواتین اور بچوں کیلئے سوٹ خریدنے بازار میں شاپنگ کررہی ہے تاکہ یہاں موجود بچوں اور ماؤں بہنوں بیٹیوں کو نئے لباس اور عید کی چیزیں مہیا کرسکیں۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ذمہ داران کو قائد انقلاب نے ہدایات دی ہیں کہ وہ دھرنے والوں اور سیلاب زدگان کے لئے قربانی کا بھرپور اہتمام کریں۔ مختلف شخصیات اور سول سوسائٹی کے افراد کی طرف سے قربانی کے جانوروں کا تحفہ دھرنے میں پہنچایا جارہا ہے۔

6 تا 8 اکتوبر 2014ء (عیدالاضحی)

آج عیدالاضحی ہے شاہراہ دستور پر عوام کا ایک سمندر موجود ہے۔ قربانی کی عید کا احساس بھی ہورہا ہے کہ آج واقعتا غریب عوام کے لئے قربانی کے جذبے سے لبریز یہاں موجود ہیں۔ بچے، خواتین، بزرگ، جوان ہر عمر کے افراد ان خوشیوں میں شریک مگر عزم تمام کا ایک کہ اصل عید تب ہوگی جب منزل انقلاب ملے گی۔ قائد انقلاب کا خطاب شروع ہوچکا ہے۔فرما رہے ہیں:

’’ مواخات کے عظیم رویوں کو زندہ کرنا ہو گا تا کہ محروم طبقات حقیقی خوشی سے مستفید ہو سکیں۔ عیدالاضحی معاشرے کے پسے ہوئے استحصال زدہ طبقے کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کا درس دیتی ہے۔ نفسانی خواہشات کے خلاف بند باندھنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے اس عمل سے فلاحی رویے پھوٹتے ہیں اور معاشرے سے انتہا پسندانہ منفی رجحانات کے خاتمے میں مدد ملتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے انتشار و افتراق سے تائب ہو کر امت مسلمہ جسد واحد بن جائے تاکہ وہ کھویا ہوا عروج دوبارہ پا سکے۔قوم متاثرین سیلاب، آئی ڈی پیز، مسکینوں، بیواؤں غریبوں کو نہ بھولے۔ اس موقع پر ہم اللہ کے ساتھ پورے توکل اور یقین سے عہد کریںکہ ہمیں اپنی جدوجہد کے ساتھ ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جو معاشرہ ظلم سے آزاد ہو۔ ایسا انقلاب بپا کرنا ہے، جس سے معاشرے سے ہر ظلم و استحصال کا خاتمہ کرنا ہے۔

اس موقع پر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، شیخ رشید احمد، ڈاکٹر رحیق عباسی، سربراہ مجلس وحدت المسلمین راجہ ناصر عباس،احمد رضا قصوری، خواجہ عامر فرید کوریجہ،خرم نواز گنڈاپورکے علاوہ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما، کارکنان اور عوام الناس اور سول سوسائٹی بڑی تعداد میں موجود ہے۔ نماز عید کے بعد قائد انقلاب نے تمام شرکاء خواتین و حضرات کو عید الاضحی کی خصوصی مبارک باد دی۔

عید کو نہایت تزک و احتشام سے منایا جارہا ہے۔ قائد انقلاب دھرنے میں شریک تمام شرکاء کے خیموں کا وزٹ کررہے ہیں۔ شہداء کے لواحقین سے خصوصی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ زخمیوں کی حوصلہ افزائی فرمارہے ہیں۔ ہزاروں لوگ ایک ہی خاندان کے لوگ متصور ہورہے ہیں۔ جانور بھی ذبح کئے جارہے ہیں۔ کھانے بھی بن رہے ہیں۔ سول سوسائٹی کے افراد بھی دھرنے والوں کی ضیافت کا اہتمام کررہے ہیں۔ ملی نغموں، ترانوں کا ایک سلسلہ بھی جاری ہے۔ کسی ایک چہرہ کو بھی دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہورہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو پچھلے 55 دنوں سے مسلسل یہاں موجود ہیں۔ ہر ایک کے چہرہ پر منزل کے عزم و ہمت کی جھلک واضح دکھائی دے رہی ہے۔ حکمران اس عزم و ہمت کا مقابلہ اپنی ریاستی طاقت کے ساتھ ہرگز نہیں کرسکتے۔

عید کے تینوں دن خطابات کا سلسلہ بھی جاری رہا اور لوگ قربانی کے جانوروں کے گوشت سے بھی لطف اندوز ہوتے رہے۔ عوام الناس کی بہت بڑی اکثریت ان تینوں دن شاہراہ دستور کے مناظر کو دیکھنے اور ان افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے آتی رہی۔ میڈیا نے عید کی نماز سے لے کر تمام مناظر براہ راست نشر کئے۔ وہ کیوں نہ کرتے، ایسا اجتماع پھر شاید تاریخ کو شاہراہ دستور پر دیکھنے کو نہ ملے۔

9 تا 11 اکتوبر 2014ء

پاکستان عوامی تحریک کی انتخابی سرگرمیاں بحال کرنے کے اعلان کا کارکنان نے بھرپور طریقے سے خیر مقدم کیا۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ قائد انقلاب اپنی حکمت و بصیرت سے منزل انقلاب کے حصول کے لئے جو بھی حکمت عملی طے کریں گے وہ ہمیں منزل کے قریب ہی لے جائے گی۔ قائد انقلاب نے کہا ہے کہ

’’میں اور میرے پارٹی سیاسی منشور تیار کر رہے ہیں، اہم نکتہ کرپشن کا خاتمہ ہو گا، جب سے کاروبار کرنے والے سیاست میں آئے ہیں سارا نظام کرپٹ ہو گیا ہے۔ حکمران میرٹ پر سرکاری نوکریاں نہیں دیتے، لاکھوں کی تنخواہ پر سفارشی لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں۔ عوام کو سوال پوچھنے کا حق ہے کہ سرکاری ملازم کا میرٹ کیا ہے، پاکستان کے ادارے خسارے میں جا رہے ہیں، حکومت کا پورا نظام کرپٹ ہے، ہمیں کرپشن کی جڑوں کو کاٹنا ہے، کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے سب کو ساتھ بیٹھنا ہو گا۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہماری انقلابی جدوجہد بھی جاری رہے گی اور سیاسی بھی۔ ہمارا مقصد 1947ء والا گمشدہ پاکستان کو بازیاب کرانا ہے۔ آنے والے انتخابات میں عوامی تحریک انقلاب کا استعارہ بن کر ابھرے گی۔ جب بھی الیکشن آیا ’’سٹیٹس کو‘‘ کا مقابلہ کیا جائے گا۔ انقلاب ایک طرف اور ’’سٹیٹس کو‘‘ کی جماعتیں دوسری طرف ہوں گی۔ نوجوان جنگی بنیادوں پر انقلاب کے پیغام کو عام کر نے کے لئے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کو استعمال کریں اور ہر شخص تک پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب کے پیغام کو عام کیا جائے۔ جو شخص بھی اپنا کمپیوٹر، لیپ ٹاپ یا سیل فون کھولے، آگے آپ کا پیغام ہی ہو۔ میرا پیغام ہر اس شخص کے لئے ہے جو ملک میں اور ملک سے باہر پوری دنیا میں جہاں جہاں سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے۔ عوامی تحریک بہت جلد ملک کی سب سے بڑی جماعت بنے گی اور انشاء اللہ حکومت بنائے گی‘‘۔

ملک بھر میں جلسوں کے اعلان کے وقت قائد انقلاب نے اس حکمت عملی کا اعلان فرمایا کہ

’’12 اکتوبر کو فیصل آباد اور اس کے بعد جھنگ کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد میں واپس اسلام آباد دھرنے میں پہنچوں گا جو لوگ اسلام آباد دھرنے میں ہیں وہ اپنے خیمے میں موجود رہیں گے، دھرنا یہیں پر رہے گا۔ تاہم ان علاقوں کے کارکنوں کو اپنے اپنے اضلاع میں جلسوں کی تیاری کیلئے بھیج رہا ہوں۔ جن کے شیڈول کا اعلان ہوچکا ہے۔ میرے پاس ہیلی کاپٹر نہیں کہ بار بار آؤں اور جاؤں۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جائیں اور جلسے کی تیاری کریں۔ ملک بھر میں جلسوں کا مقصد انقلاب کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ہمارا نعرہ ’’گو نواز گو‘‘ اور ’’گو نظام گو‘‘ ہوگا‘‘۔

12 اکتوبر 2014ء (انقلاب اِن فیصل آباد)

آج قائد انقلاب اسلام آباد کے دھرنے کو ملک گیر پھیلانے کی تحریک کا آغاز کررہے ہیں۔ آج فیصل آباد میں پہلا جلسہ ہے جسے ’’انقلاب اِن فیصل آباد‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کارکنان اپنے قائد کو بھرپور انداز سے دعاؤں اور نعروں کے ساتھ روانہ کر رہے ہیں۔ فیصل آباد روانہ ہونے سے قبل اپنے خطاب میں قائد انقلاب نے فرمایا:

’’اللہ نے کارکنوں کے صبر، استقامت اور جدو جہد کو عظیم کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ انقلابی دھرنے کو 60 دن مکمل ہوگئے ہیں اور اب یہ انقلابی دھرنا آج اپنی کامیابی کے اگلے مرحلے میں داخل ہورہا ہے، جس کا پہلا پڑاؤ فیصل آباد میں ہوگا، ہمارا دھرنا ایک جگہ بیٹھنے سے عبارت نہیں تھا، ہمیں اس ملک کے نظام کو بدلنا ہے اور ہم اسے بدل کر دم لیں گے۔ کارکنوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی، فیصل آباد کا جلسہ ثابت کردے گا کہ انقلابی دھرنا کامیاب ہوگیا ہے، اس نے ملک کے سیاسی موسم کو بدل دیا ہے، اس ملک کے عوام ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں، آج کے جلسے کی کامیابی ثابت کردے گی کہ کرپشن کے بتوں کو ٹوٹنا اور مظلوموں اور محروموں کو اقتدار پر بیٹھنا ہے۔ ہمیں قائد اعظم کے پاکستان کو دوبارہ بازیاب کرانا ہے۔ انقلاب مارچ میں شریک ماؤں،  بیٹیوں، بہنوں، بیٹوں اور بزرگوں کو مبارکباد دیتا ہوں کہ جنہوں نے انقلاب کو زندہ تحریک بنادیا ہے اور اسے ملک کا آئندہ نظام بنادیا ہے۔ اب انقلاب کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ انقلاب کی تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ انقلاب ایک تسلسل کا نام ہے اس میں جمود نہیں ہوتا، اس کے کئی مراحل ہوتے ہیں، ہم غریبوں کے لئے دیوانہ وار لڑیں گے، ظلم کے ایوانوں اور وقت کے فرعونوں سے ٹکر لیں گے، غریبوں کو ان کا حق دلانے کے لئے تن،  من اور دھن کی بازی لگے گی اور یہ بازی اللہ کی مدد سے جیت کر دکھائیں گے‘‘۔

قائد انقلاب اتحادیوں اور کارکنان کے ہمراہ بڑے قافلے کے ساتھ فیصل آباد کیلئے روانہ ہورہے ہیں۔ اس موقع پر عوامی تحریک کی مرکزی قیادت بھی ان کے ساتھ شریک تھی۔ آپ دو ماہ کے بعد وفاقی دارالحکومت کی حدود سے باہر نکلے اور ہزاروں افراد کا قافلہ آپ کے ساتھ محو سفر ہے۔ راستے میں جابجا ہزاروں لوگوں نے استقبال کیا۔ اور رات گئے قائد انقلاب کا قافلہ فیصل آباد دھوبی گھاٹ پہنچا۔ جہاں پہلے سے ہی لاکھوں افراد آپ کی آمد کے منتظر تھے۔ اتحادی جماعتوں کے سربراہان بھی سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ اسے فیصل آباد کی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی اجتماع قرار دیا جارہا ہے۔ فیصل آباد پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قائد انقلاب نے کہا ہے کہ

’’فیصل آباد کے دھوبی گھاٹ میں عوام کا سمندر ہے۔ فیصل آباد کے عوام نے انقلاب کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ لوگوں نے عوام دشمن نظام کو مسترد کر دیا۔ تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکتا، عوام کا سمندر میرے ساتھ ہے، بادشاہت اور جمہوریت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ عوام نے کرپشن کا نظام مسترد کر دیا۔ میری تمام سیاست اور جدوجہد انقلاب ہو گی، نظام کو بدلنے کی جدوجہد برقرار رہے گی، یقین تھا کہ لوگ انقلاب کیلئے نکلیں گے، انقلاب کی کامیابی کا سہرا عوام اور میڈیا کے سر ہے۔ لوگوں کو پکڑ کر جلسے میں نہیں لایا گیا، نہ ہی یہ سرکاری ملازموں اور پٹواریوں کا جلسہ ہے۔ عوامی تحریک پہلا ریفرنڈم جیت گئی، آج شہدا کے خون کی فتح ہے، لاکھوں افراد کا اجتماع انقلاب کی فتح ہے، قومی حکومت بنی تو انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کرینگے، ہم نے کسی سے اتحاد نہیں کیا، ہماری جدوجہد انقلاب کیلئے ہے، عوام نے غریبوں کے منشور کے حق میں فیصلہ دیدیا ہے، آج بھی کہتا ہوں سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘۔

قائد انقلاب نے فیصل آباد کے اقبال پارک دھوبی گھاٹ میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’عوام کے سمندر نے انقلاب کے حق میں فیصلہ دیدیا، آج عوام کا سمندر دھوبی گھاٹ کے علاوہ امام بارگاہ سے لیکر چنیوٹ بازار تک ہے، لاکھوں لوگ موجود ہیں۔ انقلاب کے حق میں تاریخی ریفرنڈم میں ہم پہلی جنگ جیت چکے ہیں، کرپشن اور پاکستان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے، ملک میں جعلی جمہوریت برقرار نہیں رہ سکتی، غربیوں کے حقوق اور مقدر کو بدلنا ہو گا۔ 1970ء میں مزدور طبقہ کے لوگ سرمایہ کاروں کے خلاف فیصل آباد سے اٹھے تھے، عظیم انقلاب کا آغاز بھی فیصل آباد سے ہو رہا ہے۔ آج ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا خون رنگ لایا ہے، غریب عوام اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ میں نے ایک جرم کیا وہ جرم یہ تھا کہ میں نے 10نکاتی ایجنڈا بنایا کہ آدھی قیمت پر غریبوں کو کپڑے، سودا سلف فراہم کروں گا، 15 ہزار سے کم آمدن والوں کے بجلی سوئی گیس کے آدھے بل حکومت اور آدھی عوام ادا کرے گی، غریب کا مفت اور بہترین علاج کیا جائے گا، ہر بچے کو تعلیم یافتہ بنایا جائے گا، غریب کسان کو 5 سے 10 ایکڑ زرعی زمین مفت فراہم کی جائے گی۔ ملک میں فرقہ واریت کا خاتمہ کروں گا، لوگ دنیا کی جنت پاکستان کو سمجھیں گے، اس کے بدلے میر ے گھر ماڈل ٹاؤن میں قیامت برپا کر دی گئی۔ مجھے سیاست اور اقتدار کی ہوس نہیں، میں تو دین کا کام کر رہا تھا، مجھے میرے ضمیر نے جھنجھوڑا میں پاکستانی ہوں اور مجھے پاکستان نے طاہرالقادری بنایا ہے۔ میں ملک کیلئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہادوں گا، میں اس ملک کو اثاثہ بنانا چاہتا ہوں۔ عوام موجودہ نظام کے خلاف جنگ میںہمیں نوٹ، سپورٹ اور ووٹ دیں۔ پوری زندگی میں ایک پائی بھی کسی اندرونی و بیرونی ایجنسی، ملک یا حکومت سے مدد قبول کی ہو تو پھانسی دے دی جائے۔ کارکن ایسی تیاری کریں جیسے تین ماہ بعد الیکشن ہوں۔ میڈیا کے ذریعے گھر گھر میں انقلاب کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ اقتدار میں میڈیا کو حقیقی آزادی دلائیں گے، موجودہ حکمران رہے تو اللہ نہ کرے پاکستان کی کشتی ڈوب جائیگی۔ پاکستان کو بچانے کیلئے کونے کونے سے عوام ا ٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ نظام بدل کر ہی دم لینگے۔ فیصل آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ، راولپنڈی اور ملتان کو الگ الگ صوبے بنائیں گے، ہماری جدوجہد سے فوری طور پر حکومت نہ گئی مگر ایک بڑا انقلاب یہ برپا ہو گیا کہ شعوری انقلاب آگیا ہے کہ عوام کو اپنا حق لینا آگیا اور حکمرانوں کے خلاف ٹکر لینے کی جرات آگئی ہے‘‘۔

(ق) لیگ کے پرویز الٰہی, سربراہ مجلس وحدت مسلمین علامہ راجہ ناصر عباس،  چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ محمد حامد رضا اور دیگر مقررین نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔

13 تا 18 اکتوبر 2014ء

دھوبی گھاٹ میں کامیاب جلسے کے بعد قائد انقلاب نے اگلے روز فیصل آباد میں مختلف علاقائی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ بعدازاں جھنگ، چنیوٹ، اٹھارہ ہزاری اور دیگر علاقوں کا وزٹ کیا۔ اس وزٹ کے دوران انہوں نے بالخصوص سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین میں امداد تقسیم کی۔ ان علاقوں میں قائد انقلاب کی آمد پر ہزاروں لوگوں نے والہانہ استقبال کیا حتی کہ دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں میں بھی قائد انقلاب کی آمد کے موقع پر ہزاروں افراد جمع تھے۔ قائد انقلاب 14 اکتوبر کو تین روزہ دورہ پر جھنگ پہنچے تو چنیوٹ موڑ پر کارکنوں اور عوام کی بڑی تعداد نے پرتپاک استقبال کیا۔ گڑھ مہاراجہ میں متاثرین سے خطاب میں قائد انقلاب نے کہا کہ

’’قائداعظم کے خواب کے تکمیل ہی میرا اور عوام کا انقلاب ہے، قائداعظم کے پاکستان میں لٹیروں کے نظام بدلنے کیلئے عوام مجھے آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت دیں گے تو لٹیروں کے حرام کی دولت سے چہروں کی سرخیاں غریبوں کو لوٹا دوں گا۔ عوامی تحریک آئندہ بلدیاتی و قومی انتخابات میں کلین سویپ کرے گی اور جھنگ کی ہر نشست ان شاء اللہ ہم جیتیں گے۔ سیلاب سے 240ارب کا نقصان ہوا ہے اور کسانوں کیلئے صرف 4ہزار روپے امداد کا اعلان باعث شرم ہے۔ انقلاب کا قافلہ چل پڑا ہے اسے شہر شہر قصبہ قصبہ لیکر جائیں گے۔ یونین کونسل کی سطح پر تنظیم سازی کر کے بلدیاتی اور قومی و صوبائی الیکشن میں جاگیرداری و سرمایہ داروں کو شکست فاش دینگے۔ اگر عوام نے انقلاب برپا کرنا ہے، تبدیلی لانی ہے امیر غریب کا فرق ختم کرنا ہے انصاف دہلیز پر حاصل کرنا ہے تو اس نظام کے خلاف آواز بلند کرنی ہو گی اور عوامی تحریک کا ساتھ دینا ہو گا۔ پی اے ٹی غریبوں کی جماعت ہے اور غریبوں، کسانوں، مزدوروں اور طلبہ کی حالت بدلنے کا مشن لیکر نکلی ہے اسے کامیاب بنایا جائے‘‘۔

٭ قائد انقلاب جھنگ کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کیلئے جس جس شہر، قصبہ، گاؤں جارہے ہیں ہر جگہ کے ہزارہا لوگ استقبال کے لئے موجود تھے۔ جھنگ چنیوٹ موڑ، ایوب چوک، صدر، ہیڈتریموں، اٹھارہ ہزاری، گڑھ موڑ اور احمد پور سیال ہر جگہ انسانی سروں کا سمندر ڈاکٹر قادری کو خوش آمدید کہنے کیلئے امنڈ آیا، استقبال میں شریک ہزارہا خواتین و حضرات، بچے، بوڑھے، نوجوان کرپٹ نظام کے خاتمے اور گو نواز گو کے نعرے لگاتے نظر آئے۔

٭ متاثرین سیلاب گڑھ موڑ اور احمدپور سیال کے بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک کے علاوہ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت ضلع جھنگ کے ہیڈ کوآرٹر پر اتنا بڑا جلسہ نہیں کر سکی۔ سیلاب زدگان نے اپنے غم بھلا کر آج تحصیل احمد پور سیال میں تاریخ کا سب سے بڑا انسانی سمندر جمع کر دیا ہے۔ آج اس دھرتی پر انقلاب کا جو منظر میں دیکھ رہا ہوں، یہ ظالموں اور جابروں کے بت پاش پاش کر دے گا۔ صرف 3 دن کے نوٹس پر، بغیر کسی تشہیری مہم کے عوام کا یہ سمندر جمع ہے، اب کوئی انقلاب کو روک نہیں سکتا۔ یہ وہ دھرتی ہے جس نے مجھے جنم دیا ہے، اٹھارہ ہزاری میں عوام کا سمندر دیکھ کر یوں لگا جیسے دوبارہ دھوبی گھاٹ آ گیا ہوں۔ پاکستان عوامی تحریک کیلئے جھنگ انتخابات میں ناقابل شکست قلعہ ثابت ہوگا، جابروں اور ظالموں کو شکست ہوگی۔ قوم کیلئے گونواز گو کا نعرہ انقلاب مارچ کے دھرنے کا تحفہ ہے، جس نے قوم کی سوچ اور فکر تبدیل کر دی ہے۔ انقلاب کیلئے ہمارے 2 ماہ کے دھرنے، کارکنوں کی قربانیوں اور استقامت نے 18 کروڑ عوام کی سوچ کو بدل دیا ہے۔ شہداء کے خون کی برکت سے پاکستان کا ہر شہر، قصبہ اور گاؤں جاگ اٹھا ہے، جلد انقلاب کی فتح کا نظارہ اقوام عالم دیکھے گی‘‘۔

٭ ضلع جھنگ کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کے سلسلہ میں 15 اکتوبر کو قائد انقلاب علاقہ اٹھارہ ہزاری پہنچے۔ اس موقع پر آپ نے متاثرین میں لاکھوں روپے مالیت کا امدادی سامان تقسیم کیا۔ سیلاب زدہ علاقہ میں متاثرین سے اظہار ہمدردی اور محبت کیلئے ان کا یہ غیر اعلانیہ دورہ نہایت کامیاب رہا۔ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ واقعتا دو ماہ کے دھرنوں اور قائد انقلاب کی کاوشوں نے لوگوں کے اندر ایک امید پیدا کردی ہے۔ جس کا اظہار سیلاب زدہ علاقوں کے دورہ کے دوران ہمیں جابجا نظر آرہا ہے۔ قائد انقلاب نے اپنے خطاب میں بعض متاثرین کو مالی امداد کے ووچر دیئے جانے کے باوجود انہیں مبینہ ادائیگیاں نہ ہونے پر ووچرز کی کاپیاں لہراتے ہوئے حکمرانوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ

’’ حکمرانوں نے سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو ایسے جعلی چیک دیے ہیں جنہیں ادائیگی نہیں ہوئی۔ غریب لوگوں کسانوں محنت کشوں کو پہلے سیلاب نے تباہ کیا، اب حکمران ان کے ساتھ دھوکہ کر کے انہیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔ متاثرین کی بددعائیں حکمرانوں کو تباہ کر دیں گی، وہ صرف فوٹو بنوانے اور دنیا کو ٹی وی پر اپنی شکل دکھانے کیلئے یہاں آئے تھے، انکے خلاف دفعہ 420 کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ ان لوگوںکا قصور صرف یہ ہے کہ یہ وڈیرے لٹیرے نہیں ہیں اگر یہ لاہور کے رہائشی ہوتے تو اب تک انہیں ادائیگی ہو چکی ہوتی۔ وہ مقامی سیلاب متاثرین کے احتجاج میں خود شریک ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں25 ہزار روپے مالی امداد کی ادائیگی فوری طور پر کی جائے ورنہ ایسا نہ ہو کہ لوگ بینکوں پر دھاوا بول دیں۔ وزیراعظم نے اٹھارہ ہزاری میں دو ماہ کے بجلی کے بل معاف کرنے کا اعلان کیا، حکومت نے بل معاف کرنے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ بل بھجوا کر لوگوں کے ساتھ دھوکہ اور فریب کیا ہے۔65 سالوں سے حکمرانوں نے غریب عوام کو کچھ نہیں دیا۔ میں ملک کے عام طبقے کی جنگ لڑنے کیلئے صرف اور صرف یہاں آئے ہیں‘‘۔

٭ بعد ازاں قائد انقلاب چنڈ بھروانہ کا بھی دورہ کیا یہاں بھی اسی طرح محبت و عقیدت کے جذبات کے ساتھ آپ کا استقبال کیا گیا۔ سیلاب زدگان میں امدادی سامان تقسیم کیا اور اظہار خیال فرمایا۔ اس دورہ کے دوران مختلف سماجی و سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں بھی جاری رہیں۔

٭ جھنگ کے کامیاب دورہ کے بعد قائد انقلاب نے چنیوٹ کا غیر اعلانیہ دورہ کیا۔ ان کا یہ دورہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے امداد کے سلسلہ میں تھا۔ بھوانہ چنیوٹ میں بھی جھنگ کی طرح ہزاروں لوگوں نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس موقع پر متاثرین سیلاب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھوانہ ضلع چنیوٹ میں میرا عظیم الشان استقبال اس بات کی دلیل ہے کہ غریب عوام میں وطن کی محبت نے جوش مارا ہے اور یہ انقلاب کے خواہش مند ہیں۔ حکمرانوں نے یوم شہداء پر جھنگ، چنیوٹ اور دیگر شہروں میں کریک ڈاؤن کروایا، اگر گھر میں کوئی فرد نہ ملا تو مویشیوں کو جیل لے گئے۔ شہداء کی قربانیاں، انقلاب مارچ اور دھرنا اشرافیہ کیلئے نہیں، غریب عوام کے حقوق کی بحالی کیلئے ہے، جن کا رزق حکمران کھا گئے ہیں۔ حکومت پنجاب نے سیلاب کی روک تھام کے لیے 57 ارب روپے سرکاری خزانے سے مختص کیے، اگر وہ بجٹ کرپشن کی بجائے حفاظتی اقدامات پر خرچ ہوتا تو سیلاب نہ آتا۔ ضلع چنیوٹ کے موضعوں کے نام پر حکومت نے 28 کروڑ روپے خزانے سے نکلوائے، مگر غریبوں کی بجائے اپنی شوگر ملوں پر خرچ کیے۔ سیلاب متاثرین پر ظلم بند کیا جائے اور وعدے کے مطابق سیلاب متاثرین کے حقوق ان کے گھروں میں پہنچائے جائیں۔ حکمرانوں کی شوگر ملز سیلاب سے بچ گئیں، مگر غریبوں کی بستیاں اور فصلیں تباہ ہو گئیں۔ حکومتی وزراء میرے خلاف اس لیے بول رہے ہیں کہ میں نے غریبوں، مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کی بات کی ہے۔ عوام اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے پاکستان عوامی تحریک کو ووٹ دیں۔ ہم ظلم کے خاتمے کے لیے انقلاب اور انتخاب دونوں محاذوں پر جنگ جاری رکھیں گے۔

٭ 13 تا 16 اکتوبر فیصل آباد، جھنگ اور چنیوٹ کے دور دراز علاقوں بالخصوص سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے، سیلاب متاثرین کی امداد کرنے اور ان علاقوں کی سیاسی، مذہبی و سماجی شخصیات سے ملاقات کے بعد قائد انقلاب 17 اکتوبر کو اپنے وعدہ کے مطابق ایک مرتبہ پھر اسلام آباد شاہراہ دستور پر قائم دھرنا میں پہنچ گئے۔ اللہ رب العزت نے انہیں کمال ہمت، جرات، استقامت اور انتھک پیکر کی شکل میں ڈھالا ہے کہ اس قدر سخت شیڈول، مصروفیات کے باوجود اپنے مشن، منزل اور مقصد کو کسی بھی طور نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ اپنے آرام کو تج کرکے غریب و محکوم کی بالادستی کی جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہیں۔ عوامی تحریک کا ہر جلسہ حکومت کیخلاف ریفرنڈم ثابت ہورہا ہے۔ اسلام آباد ہو یا فیصل آباد جھنگ ہو چنیوٹ کے سیلاب متاثرہ علاقے تمام جگہوں پر جلسوں کے باعث حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ یہ امر واضح نظر آرہا ہے کہ اب انقلاب لوگوں کی آرزو بن چکا ہے۔

٭ اسلام آباد پہنچنے پر کارکنوں نے قائد انقلاب کا والہانہ استقبال کیا اور آپ کو جلوس کی صورت میں انقلاب دھرنے میں لایا گیا۔ 17 اور 18 اکتوبر قائد انقلاب شرکاء دھرنا کے ساتھ اسلام آباد شاہراہ دستور پر موجود رہے۔ پھر وہی مصروفیات شروع ہوچکی ہیں جن کو چھوڑ کر فیصل آباد جلسہ کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ صبح و شام دھرنے والوں سے خطابات بھی کئے اور اتحادی جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں بھی۔ PAT کی کور کمیٹی کے اجلاسز میں آئندہ کا لائحہ عمل کا جائزہ بھی لیا اور دھرنے والوں کو ہر ممکن سہولیات بہم پہنچانے کے لئے اقدامات بھی کئے۔ شرکاء دھرنا بھی عجب کمال افراد ہیں۔ قائد کے حکم پر ہر قربانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار، نہ زبان پر کوئی شکوہ نہ شکایت۔ اپنے اپنے خیموں میں مقیم ہیں۔ بچے انقلاب سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ پارلیمنٹ، ایوان صدر اوردیگر ریاستی عمارتیں بھی ان پیکران خاکی کی جرات کو یقینا سلام پیش کررہی ہوں گی۔ کل قائد انقلاب کی لاہور جلسہ کے لئے روانگی ہے۔ دھرنا اپنی جگہ قائم رہے گا۔ جلسہ کے بعد 21 اکتوبر کو قائد انقلاب واپس دھرنا میں پہنچیں گے۔

19 اکتوبر 2014ء (انقلاب اِن لاہور)

قائد انقلاب اسلام آباد دھرنے سے کارکنان اور میڈیا سے ملاقات کے بعد روانہ ہوئے۔ جوں جوں لاہور کی طرف سفر ہوتا جارہا ہے عوام کی بہت بڑی اکثریت آپ کے ساتھ شامل ہوتی چلی جارہی ہے۔ مینار پاکستان پر جلسہ میں آمد کے موقع پر ٹھوکر نیاز بیگ سے لیکر جلسہ گاہ تک کا سفر کئی گھنٹوں میں طے ہوا۔ حکومت کی طرف سے مینار پاکستان آمد کیلئے ریلی کا روٹ تبدیل کرنے کی تجویز کو قبول نہ کیا گیا اور ملتان روڈ کے روٹ سے ہوتے ہوئے قائد انقلاب جلسہ گاہ پہنچے۔جلسہ گاہ پہنچنے پر قائد انقلاب کا لاکھوں عوام نے پرتپاک استقبال کیا۔ مینار پاکستان اور اس کے گردو نواح کی سڑکیں لوگوں سے بھرچکی تھیں۔ لوگ دوپہر 2 بجے سے ہی پنڈال میں پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ اب رات کے 8 بجے ہیں مگر لوگوں کا جوش و خروش اسی طرح قائم ہے۔ سٹیج پر (ق) لیگ کے صدر محترم شجاعت حسین، سنی اتحاد کونسل کے محترم صاحبزادہ حامد رضا، مجلس وحدت المسلمین کے محترم راجہ ناصر عباس، محترم مصطفی کھر، محترم سردار آصف احمد علی، محترم احمد رضا قصوری، محترم ڈاکٹر حسن محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، محترم ڈاکٹر رحیق احمد عباسی، محترم خرم نواز گنڈا پور، محترم شیخ زاہد فیاض اور دیگر ممتاز شخصیات بھی موجود تھیں۔ ان تمام شخصیات نے اس موقع پر خطابات کرتے ہوئے انقلاب کے لئے ہر طرح کی قربانیاں دینے کے عہد کا اظہار کیا۔ پورا پنڈال ’’گو نواز گو‘‘ اور ’’گو نظام گو‘‘ کے نعروں کے ساتھ گونج رہا ہے۔ کچھ کارکنوں نے حکومت کا علامتی جنازہ بھی اٹھا رکھا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کی تصاویر بھی ان کے لواحقین اٹھائے ہوئے پنڈال میں موجود ہیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب نے فرمایا:

’’ قومی حکومت کا قیام ہمارا مشن ہے، حکومت کے خاتمے کیلئے ملک گیر احتجاجی دھرنے دئیے جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمے کے بعد قومی حکومت قائم کی جائے، عام انتخابات سے پہلے احتساب اور اصلاحات کی جائیں، اگر ہم پر احتساب اور اصلاحات کے بغیر انتخابات مسلط ہوئے تو ہم پھر بھی حصہ لیں گے، کارکنان سپورٹ، ووٹ اور نوٹ دیں۔ 3ماہ میں عام انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تیاریاں شروع کر دیں، موجودہ حکمرانوں کے 2018ء تک اقتدار میں رہنے سے ملک کی تباہی ہو گی۔ لاہور کی عوام نے انقلاب کے حق میں اور حکمرانوں کے خلاف ریفرنڈم کا فیصلہ سنا دیا۔ سانحہ منہاج القرآن کے شہداء کا معاملہ کسی دیت سے نہیں ذمہ داروں کی پھانسی سے ہی حل ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی حکمران سن لیں سانحہ منہاج القرآن پر کسی کو ’’ریمنڈ ڈیوس‘‘ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، لاکھوں عوام کو گواہ بناکر کہتا ہوں کسی شہید کی دیت نہیں ہو گی، جو شیطان پروپیگنڈہ کر رہا ہے وہ سن لے شہداء کا بدلہ صرف قصاص اور عدالت کے ذریعے خون کا بدلہ خون ہو گا، شہداء کے خون کا معاملہ لین دین سے ذمہ داروں کے پھانسی سے ہی ختم ہو گا، پوری دنیا کی دولت کو اپنی جوتی کے نوک پر رکھتا ہوں۔ اب حکمرانوں کو جانا ہو گا، لاہور ن لیگ کا نہیں انقلاب، عوامی تحریک اور نئے نظام کا ہو گا۔ حکمران پاکستان کو ایسٹ انڈین کمپنی کے دور میں لے جانا چاہتے ہیں، حکمرانوں نے 50ارب میٹرو بس پر لگا دیا جبکہ پنجاب میں عوام صاف پانی نہ پینے سے مر رہے ہیں۔ حکمران ہر کام کا ٹھیکہ غیرملکی کمپنی کو دیتے ہیں کیونکہ ان کو وہاں سے کمیشن زیادہ ملتی ہے۔

انقلاب کے بعد پاکستان کی ہر سڑک سونا اگلے گی اور پاکستان کو عالمی برادری میں اس کو اصل مقام دلائیں گے کیونکہ خطے میں پاکستان میں اس مقام پر جہاں ایک طرف اقتصادی طور پر چین، انڈیا، سنٹرل ایشائ، ایران اور دنیا میں کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے۔ پاکستان کو اس کا مقام دینے کیلئے ایماندار اور محب وطن قیادت کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ چین سمیت چاروں ترقی کے زون ہمارے بغیر ترقی نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہم ان کو ساتھ لیکر اپنا بھی فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان میں انقلاب کے بعد کرپشن کے خاتمہ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر کرکے یہاں پر سرمایہ کاروں کو مکمل سکیورٹی فراہم کی بجائے کیونکہ پاکستان میں امن سے سرمایہ کاری ہوگی جس سے ہم غربت اور مہنگائی سمیت دیگر مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد کے شہیدوں اور ڈی چوک کے غازیوں کوسلام پیش کرتا ہوں۔ شہداء کی قربانیوں نے کروڑوں عوام کو بیدار کر دیا۔ شہدا کے مقدس خون کے طفیل انقلاب مارچ کو تشکیل دینے کی توفیق ہوئی۔ ہمارے احتجاج نے عوام کو خواب غفلت سے جگا دیا ہے۔ دھرنوں نے کروڑوں عوام کو ظلم کیخلاف کھڑے ہونے کی جرات دی۔ پاکستان میں کمیونزم، ملازم اور ٹیررازم سب چل چکے۔ اب پاکستان میں صرف ’’قائداعظم ازم‘‘ چلے گا۔

٭ مینار پاکستان لاہور میں جلسے کے بعد قائد انقلاب ماڈل ٹاؤن اپنی رہائش گاہ تشریف لے آئے۔ قائد انقلاب نے 20 اکتوبر کا دن اپنی رہائش گاہ پر گزارا اور اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے علاوہ PAT کے ذمہ داران سے بھی مشاورتی اجلاس ہوا جس میں دھرنوں کے مستقبل اور آئندہ لائحہ عمل پر غور و فکر کے بعد کچھ فیصلہ جات کئے گئے۔ ان فیصلہ جات کا اعلان کل 21 اکتوبر کو اسلام آباد دھرنا میں پہنچنے کے بعد کیا جائے گا۔

21 اکتوبر 2014ء (ملک گیر دھرنوں کا اعلان)

قائد انقلاب ایک مرتبہ پھر لاہور کے جلسہ کے بعد اسلام آباد دھرنے میں پہنچ گئے۔ کارکنان نے والہانہ استقبال کیا۔ رات تقریباً 7 بجے قائد انقلاب نے دھرنے میں موجود شرکاء اور میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے شاہراہ دستور پر موجود دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ

’’دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے کیا گیا۔ ہم اسلام آباد میں دھرنا ختم کر رہے ہیں مگر ملک بھر میں احتجاجی جلسوں کا سلسلہ جاری رہے گا، قومی حکومت کے قیام کے لئے جدوجہد جاری رکھیں گے، پی اے ٹی کا انقلاب کا ایجنڈا قائم رہے گا۔ قانون ہاتھ میں لینا ہوتا تو 14 افراد کے جاں بحق ہونے کا بدلہ 14لاشوں سے لیتے۔ آئین اور قانون کے مطابق شہیدوں کے خون کا قصاص لیں گے۔ انقلاب کا سفر ختم نہیں ہوا، ابھی جاری ہے۔ لوگ اپنا سامان سمیٹنا شروع کریں اور واپسی کا رخت سفر باندھیں۔ مذاکرات میں ابھی تک کچھ طے نہیں ہوا۔ ہم نے انقلاب مارچ اور دھرنے اپنی مرضی سے کئے اور اب اسلام آباد کا دھرنا ختم بھی اپنی مرضی سے کررہے ہیں مگر دھرنوں کی یہ تحریک جاری رہے گی۔ ماڈل ٹاؤن سانحہ پر حکومت جس طرح کی تحقیقاتی ٹیم بنانا چاہتی ہے ہمیں اس پر اعتراض ہے۔ ایک ایسی JIT بنائی جائے جس میں ISI، MI، IB اور KPK  کا کوئی پولیس افسر شامل ہو تاکہ آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات عمل میں آئیں جبکہ حکومت اس طرح کی JIT بنانے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے اور نہ ہی شہباز شریف کا استعفیٰ آ رہا ہے۔ لہذا اب ہم اپنے پیغام اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو لے کر ملک کے طول و عرض میں جائیں گے اور اپنے پیغام انقلاب کو ان تک پہنچائیں گے۔ انقلاب مارچ کو 70روز تک کامیاب بنانے پر کارکنوں کا مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے گولیوں اور جیلوں کا سامنا کیا۔ انقلاب کی اس جدوجہد میں قید و بند کی آزمائشیں آئیں، اس کے باوجود کارکن انقلاب کیلئے ڈٹے رہے، اب ہم یہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن انقلاب کا سفر ختم نہیں ہوا۔ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور نہ ہی ان کے خون کو بیچیں گے۔ دھرنا ختم کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ کوئی بات طے نہیں ہوئی۔ ہم چاہتے تھے کہ پنجاب سے باہر کے لوگوں پر تحقیقاتی ٹیم بنے اور وزیر اعلیٰ پنجاب مستعفی ہوں جس پر حکومت رضا مند نہیں ہوئی۔ اب پورے ملک میں اپنی تحریک چلائیں گے اور دھرنے دیں گے‘‘۔

پورے ملک میں دھرنوں کے لائحہ عمل کا اظہار انہوں نے ان الفاظ میں کیا کہ

’’ہم ہر شہر میں دو دو دن قیام کریں گے اور جناح ازم کا پیغام پورے ملک میں پھیلائیں گے۔ کارکن حوصلہ رکھیں ان کی تحریک ابھی ختم نہیں ہوئی، کارکن سراپا انقلاب بن کر جائیں۔ عوامی تحریک اپنے اصولی موقف پر قائم ہے، حکمرانوں کی طرف سے پارٹی کارکنوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ تبدیل نہ ہوا تو کئی محاذ حکومت کیخلاف کھول سکتے ہیں۔ دھرنوں نے استحصالی نظام کیخلاف عوام میں شعور بیدار کیا۔ جو کفن انقلاب کیلئے تیار کئے گئے ہیں وہ جلد اس استحصالی نظام کے گلے کا پھندا بنیں گے‘‘۔

رات گئے قائد انقلاب اور ہزاروں کارکن شاہراہ دستور کو الوداع کہتے ہوئے سفر انقلاب کے اگلے مرحلہ کی تیاریوں کے لئے رخصت ہوگئے۔ قائد انقلاب نے کارکنوں سے الوداعی ملاقات کی اور خواتین کارکنوں کو سروں پر پیار دیا اور اجتماعی دعا بھی کرائی۔

23 اکتوبر 2014ء (انقلاب ان ایبٹ آباد)

اسلام آباد دھرنا ختم کرنے کے بعد شیڈول کے مطابق پہلا جلسہ ایبٹ آباد میں ہوا۔ ایبٹ آباد اور ہزارہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ عوام نے قائد انقلاب کی فکر کونہ صرف قبول کیا بلکہ آئندہ آنے والے دنوں میں اس کے عملی اظہار کے لئے بھی تیار ہیں۔ تاحد نگاہ عوام کا جم غفیر اس بات کا واضح اظہار تھا کہ 70 دن اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر جاری دھرنا ناکام نہیں ہوا بلکہ اس نے پاکستان کی تاریخ میں ایک موثر کن کردار ادا کرتے ہوئے آئندہ کے پاکستان کے لئے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کردی ہے۔ ایک ایسی بنیاد جس پر ایسا مستحکم و روشن پاکستان قائم ہوگا۔ جس کا خواب اقبال نے دیکھا، قائداعظم نے عملی تعبیر دی اور جس کی تکمیل کے لئے قائد انقلاب گذشتہ 33 سال سے مصروف جدوجہد ہیں۔ سٹیج پر ایبٹ آباد اور ہزارہ کے سیاسی، سماجی اور علاقائی عمائدین تشریف فرما ہیں۔ صوبہ ہزارہ کے لئے جدوجہد کرنے والے بابا زمان حیدر بھی موجود ہیں۔ ہر زبان پر گونواز گو اور گو نظام گو کے نعرے ہیں۔ جلسہ میں ہزارہ صوبہ کی تحریک میں شہادتیں حاصل کرنے والوں کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی اور زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ انقلاب کے بعد KPK میں سب سے پہلا صوبہ ’’ہزارہ‘‘ بنایا جائے گا۔ انقلاب اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب کا کہنا تھا کہ

’’جب ہم نے اسلام آباد دھرنے کو ملک گیر تحریک میں بدلنے اور شہر شہر لے جانے کا فیصلہ کیا تو بعض لوگوں کی جانب سے تنقید کی گئی کہ انقلاب ختم ہو گیا لیکن جو لوگ انقلاب کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تنقید کرنے والوں کی باتوں پر کان نہ دھریں اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں کیونکہ ہم نے اسلام آباد کے دھرنے کو ختم نہیں کیا بلکہ ہم نے اس دھرنے کو ملک گیر دھرنے میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ کمانڈر کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ جنگ کے دوران کس محاذ پر جانے کا فیصلہ کرتا ہے، ہماری جنگ ختم نہیں بلکہ شروع ہوئی ہے اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

(اس خطاب میں قائد انقلاب نے دھرنے اور انقلابی جدوجہد پر اعتراض اور تنقید کرنے والوں کے سوالات کے مدلل جوابات دیئے۔ یہ مکمل خطاب اسی شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔)

24 اکتوبر 2014 ء (ہری پور دھرنا)

ایبٹ آباد کے کامیاب جلسہ میں ہری پور کے عوام کے بھرپور اصرار پر ایبٹ آباد کے بجائے ہری پور میں ایک روزہ دھرنے کا اعلان کیا گیا۔ چند گھنٹوں کے نوٹس پر ہری پور میں عظیم الشان دھرنا دیا گیا جس میں ایبٹ آباد سے بھی بڑھ کر عوامی شرکت دیکھنے میں آئی۔ قائد انقلاب نے دھرنا کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

’’ملک میں قانون، جمہوریت اور انصاف کا قتل ہو چکا ہے۔ انقلاب کے ذریعے مظلوم کی داد رسی پر مبنی نظام لائیں گے۔ ہری پور والوں نے ظلم و بربریت کے نظام کا علامتی جنازہ نکال دیا، جلد حقیقی جنازہ اٹھنے والا ہے۔ شہدا کے خون سے غداری اور بے وفائی نہیں کرینگے۔ ڈیل کی باتیں کرنیوالے خود بکے ہوئے ہیں۔ حکمران بے پناہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنا چاہتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کا خون انقلاب کی بنیاد ہے۔ ہم ان سے بے وفائی اور غداری نہیں کرینگے بلکہ قرآن اور قانون پاکستان کے مطابق بدلہ لیں گے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ تفتیش کیلئے JIT بنانے کا اختیار بھی نامزد ملزمان جو پنجاب اور وفاق میں حکمران ہیں، کے پاس ہو۔ لعنت ہے ایسے قانون اور جمہوریت پر جس میں FIR درج کرانے کیلئے اتنا بڑا لانگ مارچ کرنا پڑے۔ حکمران، عوام کی روز مرہ اشیائے خوردونوش پر ٹیکس میں بے پناہ اضافہ کر رہے ہیں۔ بجلی کے تیز چلنے والے میٹروں کے ذریعے 35 فی صد ناجائز بل وصول کئے جا رہے ہیں۔ متاثرین تربیلا ڈیم کے واجبات کی ادائیگی، ریٹائرڈ فوجی اورمزدوروں کی پنشن میں اضافہ اور ٹیلی فون فیکٹری کے کنٹریکٹ ملازمین کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے سیاستدان غیر تربیت یافتہ ہیں ہم جلد مستقبل کے سیاستدانوں کی تربیت کیلئے قومی سطح کا ایک ادارہ بنائیں گے۔ عوام پاکستان عوامی تحریک کی رکنیت حاصل کریں اور بلدیاتی الیکشنوں میں بھر پور حصہ لینے کی تیاری کریں۔ اسلام آباد میں 70 دن کے دھرنوں نے قوم کو بیدار کردیا جس کے نتیجے میں لوگوں کے ذہن اور دل بدل گئے، کروڑوں لوگ انقلاب کے دھرنے کا حصہ بننا چاہتے تھے اس لئے ملک بھر میں دھرنے کو پھیلانے کا اعلان کیا۔ اب دھرنا انقلاب کا پیغام لے کر شہر شہر جائے گا‘‘۔

اس موقع پر قائد انقلاب نے ملک کے دیگر شہروں بھکر، سرگودھا، سیالکوٹ، مانسہرہ اور کراچی میں جلسے اور دھرنا دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا:

’’عوام کو حقوق دلانے کیلئے انقلاب لاکر رہیں گے۔ پاکستان عوامی تحریک کو 2004ء والی پوزیشن پر بحال کر دیا ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات ہوں یا ضمنی انتخاب اس میں بھرپور حصہ لیں گے، بلدیاتی الیکشن میں بھی ہماری پارٹی حصہ لے گی۔ عوامی تحریک کو بیرون ملک بھی متحرک کیا جائیگا، اوورسیز تنظیمیں موجود ہیں انہیں دوبارہ فعال کیلئے میں بیرون ملک کے دورے بھی کرونگا۔ اسلام آباد سے دھرنا اٹھاکر پورے ملک میں پھیلا دیا ہے اور پاکستان کے تمام اضلاع میں جلسے کریں گے اور دھرنے دیں گے۔ آنے والے دنوں میں حکمرانوں کو اس فیصلہ کے اثرات کا بھی معلوم ہوجائے گا۔ انقلابی جدوجہد بھی جاری رہے گی اور ووٹ کی طاقت سے ظلم کے خلاف لڑ کر ظالمانہ نظام کو بھی بدلیں گے۔ کرپٹ سیاست اور سیاست دانوں سے قوم کو نجات دلائیں گے۔ فیصل آباد‘ لاہور‘ ایبٹ آباد اور ہری پور ہزارہ کے تاریخی جلسوں سے حکمران بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم ان شاء اللہ منزل انقلاب کے حصول کے لئے اپنا سفر جاری رکھیں گے اور اس کے حصول کے لئے انتخابات کی حکمت عملی کو اختیارکررہے ہیں۔ انتخابات میں بھی عوامی تحریک ان شاء اللہ کامیاب ہوگی اور ملک پاکستان کے حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی مملکت بننے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔