انقلاب کو اس دھرتی کا مقدر بنانے کا سفر جاری رہےگا۔ قائد انقلاب کا ورکرز کنونشن سے خصوصی خطاب

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

انقلاب کو اس دھرتی کا مقدر بنانے کا سفر جاری رہے گا
ملک بھر میں 541 مقامات پر منعقدہ ورکرز کنونشن سے قائد انقلاب کا خصوصی خطاب

2 نومبر کو قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملک بھر میں 541 سے زائد مقامات پر منعقدہ ورکرز کنونشنز سے TV لنک کے ذریعے خصوصی خطاب کیا۔ تقریباً 5 گھنٹے پر محیط اس خطاب میں دھرنوں کے ملک گیر اثرات، تحریک کی آئندہ حکمت عملی، کارکنان کی قربانیاں اور دیگر موضوعات زیر بحث رہے۔ اس موقع پر قائد انقلاب نے 17 جون سے لے کر آج تک قربانیاں اور سختیاں جھیلنے والے کارکنان کو پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے ہنگامی لائحہ عمل کا اعلان بھی فرمایا۔ ذیل میں اس تفصیلی خطاب میں بیان کردہ چند موضوعات نذرِ قارئین ہیں۔

جانثار کارکنان کو درپیش مسائل اور ان کا حل

اس انقلابی جدوجہد کے دوران وہ کارکنان جو جسمانی یا مالی طور پر متاثر ہوئے ہیں اور انہیں معاشرہ میں اس انقلابی جدوجہد میں حصہ لینے کی وجہ سے مشکلات اور مسائل درپیش ہیں۔ ان میں شہداء کے خاندان، زخمی افراد، گرفتار شدگان اور جن پر مقدمات قائم کئے گئے، سب شامل ہیں۔ ان تمام احباب کی ہر طرح سے امداد اور ان کے مسائل ومشکلات کے حل کے لئے ڈویژن کے لحاظ سے10 کمیٹیاں بنادی گئی ہیں۔ ان کمیٹیوں کے افراد متاثرہ کارکنان اور ان کے خاندانوں سے براہ راست ملاقاتیں، زخمیوں کے حال احوال، قیدیوں کی رہائی کے لئے اقدامات اور کارکنان سے اجتماعی ملاقاتیں کریں گے اور ان کے معاملات کو حل کرنے کے لئے اقدامات کریں گے۔ یہ عمل 7 نومبر سے 20 نومبر تک مکمل کیا جائے گا۔

گرفتار کئے گئے کارکنان کی رہائی، بے بنیاد اور جھوٹے مقدمات میں ملوث کارکنان کی آئینی قانونی مدد، دھرنوں میں شرکت کی وجہ سے روزگار ختم ہونا، نوکریاں ختم ہوجانا، مقروض ہوجانا، تشدد کی وجہ سے مفلوج ہوجانا اور اس طرح کے جملہ مسائل جو تحریکی کارکنان کو تحریک کی وجہ سے درپیش آئے، ان تمام مسائل کے حل کے لئے مرکزی سطح پر سات افراد پر مشتمل ایک خصوصی بحالی سیل بھی قائم کردیا گیا ہے۔ اس خصوصی سیل کے افراد ایسے تمام کیسز کا جائزہ لیں گے اور ہر ممکن بحالی کے لئے خصوصی اور فوری اقدامات کریں گے۔ ایسے افراد جن کے گھریلو حالات متاثر ہوئے ہیں، جب تک ان کو متبادل روزگار حاصل نہیں ہوتا، اس وقت تک مرکز ان کی مکمل کفالت کرے گا اور ایک دن کے لئے بھی ان جانثار کارکنان کو معاشرتی و معاشی حوالے سے تنہا نہیں چھوڑے گا بلکہ ان کی ہر ممکن مالی و قانونی امداد جاری رکھے گا تاوقتیکہ یہ تمام افراد دھرنوں سے پہلے والی حالت پر بحال نہیں ہوجاتے۔

اس انقلابی جدوجہد کے دوران کارکنان نے ہر حوالے سے قربانیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے وہ نہ صرف ہماری تحریک کا ماتھے کا جھومر ہے بلکہ آئندہ آنے والے زمانے میں بھی ہمارے کارکنان کی قربانیاں دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے لئے صبر، استقامت اور جہد مسلسل کے باب میں مینارہ نور کی حیثیت کی حامل ہوں گی۔

منفی پروپیگنڈوں کا سدِّباب

ان تمام مسائل کا بدستور موجود ہونا، مقدمات کا ختم نہ ہونا، گرفتار افراد کی رہائی عمل میں نہ آنا اور ابھی تک مختلف علاقوں میں کارکنان پر کریک ڈاؤن اور چھاپوں کا سلسلہ جاری رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم نے دھرنا ختم کرنے کے لئے حکومت سے کسی بھی قسم کی کوئی ڈیل نہیں کی۔ اگر ڈیل کی ہوتی تو سارے کے سارے لوگ رہا ہوگئے ہوتے، تمام مقدمات ختم ہوگئے ہوتے، تمام معاملات حل ہوچکے ہوتے اور کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ ان تمام مشکلات و مسائل کا ابھی تک موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی جماعت اور قیادت نے کسی بھی قسم کی کوئی ڈیل نہیں کی۔ ڈیل کی باتیں کرنے والے بعض نام نہاد اینکرز اور میڈیا ہے جو اس طرح کی باتیں کرکے ہماری جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ حکومت سے 25سے 30 مذاکرات کے دور ہوئے اور ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ہمارا اول دن سے جو موقف تھا ہم اس پر قائم رہے، استعفیٰ کا مطالبہ کرتے رہے، ہم شفاف JIT (جو پنجاب کے افسروں کے بغیر ہو، جس میں ایک آئی ایس آئی کا ممبر ہو، ایک MI کا ہو، ایک IB کا ہو اور پولیس افسر KPK سے ہو) کا مطالبہ کرتے رہے، حکومت نے ان مطالبات کو ماننے سے انکار کردیا۔ وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور ہم اپنے موقف پر قائم رہے۔ آج کے دن تک کسی بات پر بھی اتفاق نہیں ہوسکا۔ لہذا ڈیل کیسی؟ ہمارے وکلاء آج بھی گرفتار کارکنان کی رہائی کے لئے عدالت میں پیشگیاں بھگت رہے ہیں، ہم کروڑوں روپے وکلاء کو فیس کی مد میں اور دیگر آئینی و قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ادا کررہے ہیں۔ ہم تو قانونی جنگ آج تک لڑ رہے ہیں۔ ایسے شخص پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فرشتوں اور کل مومنین کی لعنت ہے جو اس طرح حقائق کے منافی ڈیل کی باتیں کرتا ہے۔ دھرنے کا ختم کرنا، کسی ڈیل، معاہدہ اور مذاکرات کا نتیجہ نہیں تھا۔ یہ ہمارا اپنا آزادانہ فیصلہ ہے۔ یہ ہماری سیاسی حکمت عملی ہے، جنگ کو اگلے مرحلے میں نئی حکمت عملی کے مطابق لے جانے کا ہمارا اپنا آزادانہ فیصلہ ہے۔

کیا ہم انقلاب کے مشن سے ہٹ گئے ہیں؟

اس بات کو پختہ ایمان کی طرح دل و جان میں بٹھالیں کہ انقلاب مارچ، دھرنا اور اس کے بعد انتخابی سیاست تمام حکمت عملیاں ہیں۔ ہمارا مقصد ’’انقلاب‘‘ ہے اور ہم اپنی انقلابی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ کارکنان بھول کر بھی کبھی ایسا گمان نہ کریں کہ ہم نے جو قربانیاں دیں، شہادتیں ہوئیں اور جدوجہد کی، ان تمام کے باوجود شاید ہم انقلاب سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔انتخابات میں حصہ لینے کے عمل کا معنی کبھی یہ نہ سمجھیں کہ ہم انقلاب کی جدوجہد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ ہر گز نہیں، نہیں، نہیں۔ انقلاب کے لئے ہماری جدوجہد جاری ہے، جاری رہے گی، ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹے۔

یہ ذہن نشین کرلیں کہ ہم اس نظام کا ہرگز حصہ نہ بننے جارہے ہیں، نہ بنیں گے، نہ بننے کا سوچ سکتے ہیں اور نہ کبھی ایسا ہوگا۔ ہم اس نظام کو مٹانے اور گرانے ہی کی جنگ لڑیں گے۔ انتخابات میں حصہ لینے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم اس نظام کاحصہ بننے جارہے ہیں، ہرگز نہیں۔ ہم اس نظام کو شیطان، شر، دشمن سمجھتے ہیں، ہم اس سے لڑیں گے، اس کا خاتمہ کریں گے اور انقلاب لائیں گے۔ ہمارا روز اول سے جو عہد ہے اسی پر ہم قائم ہیں۔ اس میں رتی برابر بھی کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ لہذا یہ ناممکن ہے کہ ہم اپنی منزل انقلاب سے پیچھے ہٹیں۔

پس آئندہ جو بھی جدوجہد ہوگی وہ ہماری منزل انقلاب کے حصول کے لئے ہی ہوگی۔ ہماری منزل اور ہمارا مقصد نہیں بدلا۔ ہم نے انقلاب کے لئے صرف حکمت عملی تبدیل کی ہے۔ انقلاب ہماری حکمت عملی نہیں بلکہ ہماری منزل ہے۔ ہماری پہلی حکمت عملی احتجاج تھی، اس احتجاج کو کبھی انقلاب مارچ کا نام دیا، کبھی دھرنا کا نام دیا۔ ٹائیٹل جو چاہیں ہم دے دیں۔ ہم انتخابات کو بھی انقلاب کا نام دیں گے۔ ہر چیز کو انقلاب کا ٹائٹل اس لئے دیتے جائیں گے کہ ہماری اصل منزل انقلاب ہے۔ جدوجہد کا جو بھی مرحلہ آئے گا ہم اس میں انقلاب کا لفظ لگائیں گے۔ ہم اس موجودہ انتخابی و سیاسی نظام کے فرسودہ اور عوام دشمن ہونے کے موقف پر اب بھی قائم ہیں۔ ہم اپنے فلسفہ، نظریہ سے ایک انچ بھی نہ پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہٹیں گے۔ ہم اس نظام کو اسی طرح آج بھی باطل، عوام دشمن اور سٹیٹس کو سمجھتے ہیں جس طرح اول دن سے سمجھتے تھے۔ ہم اس نظام سے سمجھوتہ نہیں کریں گے بلکہ اس سے لڑیں گے، اسے مٹاکر دم لیں گے اور ان شاء اللہ انقلاب آئے گا۔ ہماری منزل انقلاب تھی اور ہے۔

منزل کے حصول کی دو حکمت عملیاں

یاد رکھ لیں! حق کی تحریک چلانے والوں کی منزل نہیں بدلا کرتی، حکمت عملیاں بدلتی رہتی ہیں۔ حکمت عملی اور طریقہ کار بدلنے سے کبھی یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے اپنی منزل بدل لی ہے۔ منزل انقلاب ہے اور منزل قائم رہے گی۔ اس منزل کے حصول کے لئے دو حکمت عملیاں ہیں:

  1. احتجاج
  2. انتخابات
  1. 2004ء سے لے کر 2014ء تک ہم نے جو حکمت عملی اپنائی وہ ’’احتجاج‘‘ کی تھی۔ انقلاب کی منزل کے حصول کے لئے پچھلے دس سالوں میں بیداری شعور سے لے کر انقلاب مارچ اور دھرنے تک کی جو حکمت عملی ہم نے اپنائی یہ احتجاج تھا۔ مارچ اور دھرنا جیسی سرگرمیاں احتجاج کے ذیل میں آتی ہیں۔ ہم نے اس احتجاج کو امسال انقلاب مارچ کا نام دیا تھا، پچھلے سال اسے لانگ مارچ کا نام دیا تھا۔ مارچ، دھرنے، گھیراؤ کرنا، سڑکیں بلاک کرنا، یہ تمام احتجاج کا حصہ ہوتا ہے۔ منزل انقلاب کے لئے ایک حکمت عملی احتجاج ہے، ہم نے اب تک یہ احتجاج کا طریقہ اپنایا۔
  2. منزل انقلاب کو حاصل کرنے کا دوسرا طریقہ انتخابات ہے، جس پر ہم تنقید کرتے ہیں۔

انتخاب لڑنے والے کچھ لوگ اس نظام کو برا نہیں سمجھتے مثلاً مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، اے این پی، جے یو آئی وغیرہ وغیرہ، یہ اس نظام کو درست سمجھتے ہوئے اس انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور اس نظام کا حصہ رہتے ہیں، اس نظام کا حصہ بننے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ وہ خود نہ صرف اس نظام کا حصہ ہوتے ہیں بلکہ اس نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اسے سپورٹ کرتے ہیں۔ جیسے اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں ارکان اسمبلی اس نظام کو سپورٹ کرتے رہے۔ سو وہ اس انتخابات میں حصہ اس لئے لیتے ہیں تاکہ یہ نظام قائم رہے اور اس نظام کے قائم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُن کی کرپشن قائم رہے اور غریب ہمیشہ محکوم رہے۔ المختصر یہ کہ کئی لوگ اس نظام میں رہنے اور اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔

ہم اگر انتخابات کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم بھی اس نظام کا حصہ بننے کے لئے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، نہیں، ہم اس نظام کو گرانے کے لئے انتخابات اور ووٹ کی طاقت کی حکمت عملی کو اختیار کررہے ہیں۔ ہماری احتجاج کی حکمت عملی بھی ساتھ ساتھ برقرار اور جاری رہے گی۔ کب اور کیسے؟ اس کا فیصلہ وقت اور ضرورت کی مناسبت سے کرتے رہیں گے۔ دوسری حکمت عملی یعنی انتخابات میں شرکت کے عمل سے ہم نے پہلی حکمت عملی یعنی احتجاج کو ترک نہیں کردیا۔ احتجاج کا دروازہ ہم نے کھلا رکھا ہے۔ اس لئے میں کہا کرتا ہوں کہ ہماری جدوجہد کے دو کریکٹر ہوں گے:

  1. انقلابی جدوجہد
  2. انتخابی جدوجہد

انقلابی جدوجہد سے مراد احتجاج کی حکمت عملی ہے۔ اس کے ذریعے حکمرانوں پر عوامی دباؤ ڈالنا مقصود ہوتا ہے کہ موجودہ نظام یا حکومت گھٹنے ٹیک جائے۔ اس حکمت عملی کے ذریعے کامیابی ملتی ہے یا نہیں یہ الگ سوال ہے۔ تاہم ہماری یہ احتجاج کی حکمت عملی جاری رہے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے انتخابات میں حصہ لینے کی حکمت عملی بھی شروع کردی ہے۔ اس نظام کی بوسیدہ عمارت کو گرانے، نظام کو بدلنے اور انقلاب لانے کے لئے ہم انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ہمارا اور دوسروں کا نقطہ نظر انتخابات میں شرکت کے مقصد کی بناء پر مختلف ہوگا۔ پہلے ہم نے عوام کی احتجاجی طاقت و قوت کے ذریعے اس نظام کو ختم کرنا چاہا اور اب ہم ووٹ کی طاقت سے اس نظام کو ختم کریں گے۔ انتخابی جنگ ہو یا احتجاجی جنگ دونوں طریقہ کار میں ہمارا مقصد اس فرسودہ نظام کا خاتمہ ہے اور انقلاب لانا ہے۔

انقلاب ایک طویل جدوجہد ہے۔ جس پر ہم 33 سالوں سے کاربند ہیں۔ ہمارے 33 سال ایک تربیت میں گزرے۔ اسی تربیت کا نتیجہ دنیا نے ہماری حالیہ جدوجہد میں انقلاب مارچ اور دھرنا کے دوران دیکھا۔ ان 33سالوں میں ہمارے کارکنوں کے اندر مشن کے ساتھ استقامت اور کمٹمنٹ پیدا ہوئی۔ اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ آپ کے بیداری شعور، صبر، جرات، استقامت اور قربانیوں کا نمونہ آج پاکستان کی کوئی جماعت پیش نہیں کرسکتی۔ 70 دن کا ہمارا انقلاب مارچ اور دھرنا ہمارے عوامی احتجاج کا طریقہ تھا۔ اس دوران قربانیاں بھی لازوال ہوگئیں، صبرو استقامت بھی بے مثال ہوگیا، یقین میں بھی کوئی کمی نہ تھی۔ ہم نے ہر ممکن تدبیر بھی کی کہ اس عوامی احتجاج کے ذریعے ہم منزل انقلاب کو پالیں گے۔ مگر اللہ کی شان اور تقدیر کہ اس عوامی احتجاج کے ذریعے حکومت کے خاتمہ، قومی حکومت کے قیام اور اس کے ذریعے نئے نظام کے آنے کے نتائج فوری طور پر حاصل نہ ہوسکے۔ اس کے برعکس ایک دوسرا نتیجہ حاصل ہوا اور وہ یہ کہ ہماری جدوجہد کے نتیجہ میں قوم بیدار ہوگئی، قوم کا شعور بیدار ہوگیا اور اس نظام کے خلاف ایک نفرت پیدا ہوگئی۔ یہ ایک ایسا نتیجہ تھا کہ جس کا ہم نے انقلاب مارچ کی روانگی کے وقت تصور بھی نہیں کیا تھا۔ دو مہینے میرا فکر، میرا خطاب دن رات قوم سنتی رہی اور گھر بیٹھے لوگوں کے ذہنوں میں اس نظام کے خلاف وہ نفرت پیدا ہوگئی جو پچھلے 40 سال میں پیدا نہ ہوسکی تھی۔ اس نظام کے خلاف ایک ذہنی بغاوت پیدا ہوگئی جس کا ’’گو نواز گو‘‘ کی شکل میں ہر جگہ اظہار ہوا۔ اس سٹیٹس کو کے خلاف لوگوں کے اندر ذہنی انقلاب آگیا، ایک فکری تبدیلی آگئی اور لوگوں کو ایک امید نظر آگئی۔ اس سے قبل وہ مایوس تھے، اسی لئے اٹھتے نہیں تھے اور نکلتے نہیں تھے۔ لہذا ہم اب اس فکری انقلاب کی صورت میں بوئی گئی فصل کو ان شاء اللہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں کاٹیں گے اور ووٹ کی عوامی طاقت سے اپنی منزل کو حاصل کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری احتجاج کی پالیسی بھی جاری رہے گی جس کا بنیادی نقطہ اس فرسودہ سیاسی نظام کو بدلنا اور انقلاب لانا ہوگا۔

مقصد پر ایمان اور یقین کامل کا اظہار

یہاں ایک اور اہم نکتہ کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ انسان بعض اوقات مکمل سچائی اور یقین کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھاتا ہے کہ ایسا ہوگا۔ یہ قسم دراصل انسان کے اندر کی سچائی کی علامت ہوتی ہے، یہ اس کا اپنے ارادے اور مقصد پر ایمان اور یقین کا کامل اظہار ہوتا ہے۔ انسان اپنی سمجھ، حسن تدبیر، یقین، سچائی اور طریقہ کار پر بھروسہ کرتے ہوئے اگر کسی کام کے مستقبل میں کرنے یا ہونے کی قسم کھاتا ہے اور اگر اسے وہ مطلوبہ نتائج میسر نہ آئیں جس کی اس نے قسم کھائی تھی تو اس کی قسم جھوٹی نہیں ہوتی۔

ہمارا انقلاب مارچ پر روانگی اور دھرنے کے دوران انقلاب کے آنے کی قسم کھانا دراصل ہمارے یقین، ایمان اور سچائی کا اظہار تھا۔ اس لئے کہ ہمیں اپنے میکنزم پر اعتماد تھا کہ اس طریق سے ہم انقلاب کی منزل کو حاصل کرلیں گے۔ بعد ازاں اس طرح ممکن نہ ہوسکا۔ لہذا فوری طور پر نتیجہ نہ نکلنے کی بناء پر ہماری قسموں کو جھوٹا نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اگر اندر سچائی ہے تو آپ سو قسم کھاسکتے ہیں۔ اگر اندر حق ہے، جھوٹ اور دھوکہ نہیں ہے، اطمینان قلب ہے تووہ قسم سچی ہوتی ہے۔ بعد ازاں اگر وہ حالات بدل جائیں جو آپ قسم کھاتے وقت دیکھ رہے تھے اور شرائط پوری نہ ہوسکیں، نتیجتاً مقصد حاصل نہ ہو تو اس کو ازروئے شرع جھوٹی قسم نہیں کہتے۔

جھوٹ یہ ہوتا ہے کہ مثلاً کوئی شخص کھانا کھاتا ہے اور قسم کھاکر کہتا ہے کہ میں بھوکا ہوں اور کھانا نہیں کھایا۔۔۔ کوئی شخص ایک جگہ ہوکر آیا ہے اور وہ قسم کھاکر کہتا ہے کہ میں بالکل وہاں گیا ہی نہیں۔۔۔ کسی نے کوئی کام کیا یا نہیں کیا اور قسم کھا کر کہہ دے کہ اس نے کیا ہے یا نہیں کیا۔۔۔ گویا گزری ہوئی چیز پر اپنے عمل کے برعکس قسم کھاکر اسکے کرنے یا نہ کرنے کا کہنا جھوٹی قسم کھلاتا ہے۔ جو چیز آئندہ کے عزم و ارادہ کے لئے ہو، وہ اندر کی سچائی اور یقین کا اظہار ہے، اس پر گناہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس کے عزم اور قوت ارادی کا اظہار ہے۔

پس حالات و واقعات کے بدل جانے اور شرائط پوری نہ ہونے کے باعث کوئی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا حالانکہ اس کے کرنے پر قسمیں بھی کھائی گئی ہوں تو وہ قسمیں ہرگز جھوٹی نہ ہوں گی۔ جس شخص کو تمام تدابیر کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل میں کسی کام کے کرنے یا ہونے کا جتنا یقین، ایمان ہو وہ اپنے حسب حال اس پر قسم کھاسکتا ہے۔ کام نہ ہونے کی صورت میں اس کی قسم جھوٹی نہ ہوگی بلکہ قسم اس شخص کے اپنے کام کے ساتھ مخلص و صادق ہونے، اس کے ارادہ کی سچائی، یقین کا اظہار اور حسن نیت تصور کی جائے گی۔

مقصد کا فوری حاصل نہ ہونا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں

آیئے اس بات کو قرآن و سنت کی روشنی میں بھی سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور نبی کی جملہ باتیں وحی کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ جب ہم قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ چیز سامنے آتی ہے کہ انبیاء کرام کی بعض باتیں ایسی بھی ہیں کہ جن کے ہونے کے متعلق نبی/ پیغمبر نے اپنے پیروکاروں کو خوشخبری سنادی مگر وہ تمام خوشخبریاں فوری پوری نہ ہوئیں بلکہ اُن کا اظہار بھی ایک مدت کے بعد سامنے آیا۔ لہذا اگر کوئی امتی اپنے عزم و ارادہ اور یقین کی بناء پر قسم کھائے اور وہ بات فوری پوری نہ ہو تو اس پر اعتراض و تنقید کرنا درست نہیں۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کاوش و جدوجہد کا نتیجہ ایک عرصہ گزرنے کے بعد ظاہر ہو۔ اس لئے کہ انبیاء کرام کے لئے بھی اللہ رب العزت کی طرف سے یہی ہوتا آیا ہے کہ خوشخبری کا عملی اظہار ایک عرصہ بعد ہوا، اگر انبیاء کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو ہماری حیثیت تو ان کے سامنے خاک کے ذرے کے برابر بھی نہیں ہے۔

٭ امام ابن منذر، ابن جریر، امام بیہقی اور دیگر ائمہ نے روایت کیا اور یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب دیکھا (یاد رہے کہ نبی/رسول کا خواب بھی وحی الہٰی ہوتا ہے) کہ وہ صحابہ کرام کے ساتھ مکہ میں پرامن داخل ہورہے ہیں، عمرہ کررہے ہیں، اللہ کے گھر کا طواف کررہے ہیں، سروں کا حلق کروارہے ہیں۔ جب یہ خواب دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو بتایا اور عمرہ کے لئے تیاری کرلی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور 1500 صحابہ کرام نے باقاعدہ عمرہ کی نیت سے احرام پہن لئے، قربانی کے جانور ساتھ لے لئے، مکہ کی طرف سفر شروع ہوا لیکن حدیبیہ کے مقام پر اہل مکہ نے روک لیا اور مکہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ اس مقام پر صلح نامہ حدیبیہ لکھا گیا اور مسلمانوں کو اگلے سال عمرہ کے لئے آنے کا معاہدہ طے پایا اور حدیبیہ کے مقام سے واپس مدینہ آنے کا فیصلہ ہوگیا۔ اس موقع پر صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا:

اَيْنَ رُؤيَاکَ يَارَسُوْلَ اللّٰه صلی الله عليه وآله وسلم.

’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا خواب کہاں گیا‘‘؟

صحابہ کرام مختلف سطح کے تھے، کوئی نیا نیا حلقہ اسلام میں داخل ہوا ہے، کوئی پختہ ایمان والا ہے، کوئی چھوٹی عمر کا ہے، کوئی دیہات کا رہنے والا ہے۔ ہر کوئی ابوبکر، عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے درجے کا نہ تھا۔ جب صحابہ کرام میں سے کسی نے یہ سوال کیا تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح کی آیت نمبر27 نازل فرمائی:

لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا.

(الفتح:27)

’’بے شک اﷲ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت کے عین مطابق سچا خواب دکھایا تھا کہ تم لوگ، اگر اﷲ نے چاہا تو ضرور بالضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، (کچھ) اپنے سر منڈوائے ہوئے اور (کچھ) بال کتروائے ہوئے (اس حال میں کہ) تم خوفزدہ نہیں ہو گے، پس وہ (صلح حدیبیہ کو اس خواب کی تعبیر کے پیش خیمہ کے طور پر) جانتا تھا جو تم نہیں جانتے تھے سو اس نے اس (فتحِ مکّہ) سے بھی پہلے ایک فوری فتح (حدیبیہ سے پلٹتے ہی فتحِ خیبر) عطا کر دی۔ (اور اس سے اگلے سال فتحِ مکّہ اور داخلہ حرم عطا فرما دیا)‘‘۔

حدیبیہ سے واپس جارہے ہیں مگر اللہ فرمارہا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا۔ اس سال فوری مقصد پورا نہیں ہوا جس کو حاصل کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تھے۔ جو خواب میں دیکھا تھا، اس کا عملی اظہار اس وقت فوری ظاہر نہیں ہوا مگر اس کے باوجود میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب سچا ہے۔ کیسے؟ فرمایا:

اگر اس سال وہ مقصد فوری حاصل نہیں ہوا تو گھبراؤ نہیں، اللہ نے چاہا تو یقینا مسجد حرام میں داخل ہوگے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے اس آیت مبارکہ میں مِنْ دُوْنِ ذٰلِکَ فَتْحًا قَرِيْبًا کے ذریعے فتح خیبر کی بھی خوشخبری سنا دی۔

خواب میں اشارہ فتح مکہ کی طرف تھا جو دو سال کے بعد جاکر عمل میں آئی۔ خواب 6 ہجری میں دیکھا، اس کی تعبیرکے حصول کے لئے احرام باندھے، سفر کیا، قربانی کے جانور ساتھ لئے مگر تعبیر 2 سال کے بعد 8 ہجری میں فتح مکہ کی صورت میں حاصل ہوئی۔

اس موقع پر یہاں تک نوبت آگئی کہ صحابہ کرام کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ میں ہی احرام کھولنے، قربانی کرنے، سرمنڈوانے کے 3 مرتبہ احکامات صادر فرمائے مگر 1500 صحابہ کرام صلح نامہ حدیبیہ ہوجانے کے باعث اس قدر پریشان تھے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی تعمیل کے لئے کوئی بھی نہ اٹھا۔ جب فوری تعبیر سامنے نہ آئی، نتیجہ و مقصد حاصل نہ ہوا جس کے لئے گھروں سے نکلے تھے تو دل بجھ گئے۔ اس پریشانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے خیمہ میں داخل ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ

’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ پر شدید غضب، پریشانی اور جلال تھا۔ آپ لیٹ گئے، میں نے پریشانی کا سبب پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’هلک المسلمون ’’ یہ مسلمان ہلاک ہوگئے‘‘ میں نے انہیں 3 مرتبہ حکم دیا کہ احرام کھول دو، قربانی کرو اور سر منڈوا لو مگر انہوں نے میرے حکم پر عمل نہیں کیا۔ اے ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں جلال میں کیوں نہ آؤں کہ وہ میری بات کو سن رہے ہیں، میرے چہرے کو دیکھ رہے ہیں مگر کوئی شخص میری بات پر عمل نہیں کررہا‘‘۔

کائنات انسانی میں کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر بھی کوئی لیڈر ہوسکتا ہے اور صحابہ کرام سے بھی بہتر کیا کوئی کارکن/ انسان دنیا میں ہوں گے۔ جو یہ گمان بھی کرے وہ کافر اور بے ایمان ہوگا۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مشورہ دیا کہ چونکہ یہ فتح کے بغیر واپس جارہے ہیں، اس لئے نہایت دکھی ہیں، ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے خفا نہ ہوں۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو حکم نہ دیں بلکہ ان کے سامنے اپنا جانور ذبح کردیں، سر مبارک کے بال کٹوائیں، احرام کھول دیں، جب آپ کو عملاً کرتا دیکھیں گے تو آپ کی اتباع کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا۔ صحابہ کرام نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک کی اتباع کی۔

٭ اسی بات کو اللہ رب العزت کی اس سنت سے بھی سمجھیں کہ قرآن مجید کی متعدد آیات اللہ تعالیٰ نے نازل کرنے کے بعد منسوخ فرمادیں اور ان کی جگہ دوسری آیات نازل فرمائیں۔ کیوں؟ کیا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو نازل کرنے کے بعد دوسری آیات کے نازل فرمانے کو جانتا نہ تھا۔ جانتا تھا مگر پہلی آیات کو نازل ان موجودہ حالات کے مطابق کیا اور بعد میں حالات کی تبدیلی کے بعد دوسری آیات نازل فرمادیں۔ کیا اللہ تعالیٰ کی وحی سے بھی بڑھ کر کوئی دو ٹوک بات اور کمٹمنٹ ہوتی ہے؟ کیا اس نے منسوخ آیات کو اتارتے وقت بتایا تھا کہ 4/2 سال کے بعد ان آیات کو منسوخ کردوں گا اور ان کی جگہ دوسری آیات اتاروں گا۔ نہیں، بلکہ حالات کے بدلنے پر اللہ تعالیٰ نئی آیات نازل کرتا ہے۔ پس ناسخ و منسوخ بھی حکمت عملی کو بدلنے ہی کا ایک حصہ ہے۔ سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی کئی امور میں ناسخ و منسوخ ہیں جو حالات و واقعات کے بدل جانے پر سامنے آتے ہیں۔

٭ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے قسطنطنیہ (استنبول) کی فتح کی نوید دینا اور بعد ازاں صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین کی طرف سے اس پر اپنایا جانے والا طرز عمل بھی ہمیں حکمت عملی کو حالات کے مطابق بدلنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حکمت عملی کی تبدیلی کو نہ شکست کہتے ہیں اور نہ ہی جدوجہد کا خاتمہ کہتے ہیں۔ حکمت عملی کی تبدیلی دراصل جدوجہد کا تسلسل ہی ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسطنطنیہ کو فتح اور اس کے لئے جانے والے پہلے لشکر کی بخشش کی بشارت دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مغفرت کو سن کر صحابہ کرام نے پے درپے اس کو فتح کرنے کے لئے لشکر روانہ کئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت سن کر صحابہ کرام استنبول (قسطنطنیہ) کو فتح کرنے والے لشکر میں شمولیت کی تمنا کرتے تھے۔ استنبول کو فتح کرنے کے لئے پہلا حملہ 49 ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں تھا۔ یہ محاصرہ 6 ماہ جاری رہا۔ اس لشکر میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت ابو ایوب انصاری اور کئی جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاری وہیں شہید ہوگئے، ان کا مزار بھی وہیں ہے۔ 6ماہ سے زائد محاصرہ جاری رہنے کے باوجود کامیابی نہ ملی، لشکر واپس آگیا مگر کسی نے اس کو شکست نہ سمجھا اور نہ ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کو نعوذ باللہ غلط کہا۔ کامیابی حاصل نہ ہوئی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی قربانیوں کا انہیں پورا اجر عطا فرمایا۔

دوسرا دور آیا حضرت جنادہ بن ابی امیہ کے دور میں 54 ہجری سے 60 ہجری تک 7 سال مسلسل حصار ہوتے رہے۔ یہ حصار ہر سال کے اپریل تا ستمبر گرمیوں کے موسم میں ہوتا تھا اور سردیوں میں واپس چلے جاتے تھے۔ اس دوران شہادتیں بھی ہوئیں مگر فوری نتیجہ نہ ملا۔ فتح نہ ملنے کے باوجود عمل ترک نہ کیا۔ حوصلے نہ ہارے، یقین متزلزل نہ ہوا۔

تیسرا زمانہ سلمان بن عبدالملک کا آیا۔ یہ تیسرا حصار 97 ہجری تا 98 ہجری 2 سال تک جاری رہا۔ اس وقت 1800 بحری جہاز اور ایک لاکھ 20 ہزار فوجی حصہ لے رہے تھے مگر کامیابی نہ ملی۔ ان تمام لشکروں کے دھیان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی نوید پر مبنی حدیث اور مغفرت کی بشارت رہتی تھی۔ لہذا عزم و یقین قائم رہتا اور تسلسل کے ساتھ قسطنطنیہ فتح کرنے کے لئے محاصرے اور جنگیں جاری رکھتے۔ کامیابی نہ ملتی مگر فضیلت اور اجر سمیٹتے رہتے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان پر یقین کی وجہ سے قربانیاں دیتے چلے جارہے ہیں۔700 سال تک ہر زمانے میں امت مسلمہ کے لوگ جن میں صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اولیاء، صالحین بھی شامل تھے، استنبول جاتے، فتح حاصل کرنے کے لئے محاصرہ کرتے، جنگ کرتے، لیکن کامیابی نہ ملنے کے باوجود حوصلہ نہ ہارتے۔ حتی کہ 857 عیسوی میں خلافت عثمانیہ کے دور میں سلطان محمد الفاتح نے استنبول کو فتح کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت کی تعبیر 700 سال بعد حاصل ہوئی۔

اس میں ہمارے لئے سبق ہے کہ حق کی کامیابی پر ایمان و یقین کبھی متزلزل نہیں ہونا چاہئے۔ کامیابی بہر صورت حق ہی کا مقدر بنتی ہے۔

٭ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے غرق ہونے کے لئے بدعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اسی وقت دعاکے سننے اور قبول ہونے کی خوشخبری سنادی کہ فرعون غرق ہوجائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو یہ خوشخبری سنادی۔ ایک زمانہ اس خوشخبری کی عملی تعبیر کے انتظار میں گزرا اور 40 سال کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا اور فرعون غرق ہوا۔

بتانا یہ مقصود ہے کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ کا وعدہ کب پورا ہو جائے۔ امتی جو عزم و ارادہ اور یقین لے کر حق کے راستے میں نکلا ہے، اس کی عملی صورت میں کامیابی کس موقع پر سامنے آنی ہے، اس کا صرف اللہ کو معلوم ہوتا ہے۔ تقدیر اللہ کے ہاتھ میں ہے، بندہ صرف عزم و یقین کے ساتھ تدبیر ہی کرسکتا ہے اور اسی کا حکم ہے۔ لہذا اپنے مشن پر ایمان و یقین اور سچائی کے ساتھ تمام تدبیر کو اختیار کرتے ہوئے پختہ ایمان و یقین کے ساتھ انسان جو بھی کہے وہ غلط نہیں ہوتا بلکہ اس کی سچائی کا اظہار ہوتا ہے اور فوری نتیجہ حاصل نہ ہونا قطعاً شکست نہیں کہلاتا۔

٭ حضرت مولیٰ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شام میں اپنی حکومت کا اعلان کردیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی حکمت عملی اپنائی۔ ان سے لڑے کہ ان کی حکومت جائز نہیں، اس لئے کہ یہ خلافت راشدہ کے مقابلے میں قائم ہے۔ جنگ صفین ہوئی، ہزارہا شہادتیں ہوئیں، مگر فیصلہ نہ ہوسکا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ سے واپس آگئے۔ مدینہ کی بجائے کوفہ کو دارالحکومت بنانے کا مقصد بھی شام کو کنٹرول کرنا تھا۔ بعد ازاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوگئی۔

حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا دور آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی جنگ کے سلسلہ کو جاری رکھا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ساتھ جنگ کی تاکہ خلافت راشدہ قائم ہو اور شام کی حکومت ختم ہو لیکن جب دیکھا کہ جنگ کے نتیجے میں کچھ حاصل نہیں ہورہا تو امام حسن رضی اللہ عنہ نے حکمت عملی تبدیل کرلی اور ان کے ساتھ صلح کر لی۔

پھر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے حکومت شام سے صلح والی حکمت عملی کو جاری نہ رکھا بلکہ حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے یزید کے خلاف جنگ لڑی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ والی حکمت عملی ہی کو اختیار کیا۔ اس جنگ یعنی واقعہ کربلا میں بھی بظاہر کامیابی نہ ملی اور آپ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔ اہل بیت کی قربانیاں ہوئیں مگر حق پر قائم رہنے کی وجہ سے آج بھی اور قیامت تک فاتح امام حسین رضی اللہ عنہ اور شہداء کربلا ہی کہلائیں گے۔ اس لئے کہ حق کی خاطر قربانیاں دینی پڑتی ہیں، تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں مگر عزم و یقین کو قائم رکھنا پڑتا ہے۔

ہم بھی ان مقدس ہستیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق کی خاطر۔۔۔ 18 کروڑ غریب عوام کی خاطر۔۔۔ آئین و قانون کی بالادستی کی خاطر۔۔۔ اس ملک میں عدل وانصاف کو قائم کرنے کی خاطر اپنا سفر انقلاب جاری رکھیں گے اور ان شاء اللہ فتح ہمارا مقدر بنے گی۔ اس منزل انقلاب کے حصول کے لئے جہاں جہاں حکمت عملی کی تبدیلی ناگزیر ہوئی، کرتے رہیں گے مگر منزل و مقصد انقلاب ہی رہے گا۔ انقلاب ایک جہد مسلسل ہے، اس کے لئے کارکنان کو ہمیشہ قربانیوں کے لئے تیاررہنا ہے اور آئین و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے جنگ کو جاری رکھنا ہے۔

کارکنان تحریک! یاد رکھیں! ہم 70 دن کی انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں ہارے نہیں بلکہ جیتے ہیں اور 70 دن کے ہمارے دھرنے نے سوئی ہوئی قوم کو جگادیا ہے۔ اگر اسلام آباد میں انقلاب نہیں آیا تو ملک میں کروڑوں لوگوں کی سوچوں میں انقلاب اور تبدیلی آگئی ہے۔ اس نظام کے خلاف نفرت اور بیداری و شعور آگیا ہے۔ اب ہمیں اس شعور اور بیداری کے ذریعے انتخابات میں حصہ لیتے ہوئے اپنی منزل انقلاب تک پہنچنا ہے۔ اگر انقلاب کی منزل فوری نہیں ملی تو عوام پاکستان مایوس کیوں۔۔۔؟ اب ہم اپنی اسی منزل انقلاب کے حصول کے لئے دوسرا راستہ یعنی انتخابات کو اپنا رہے ہیں۔ ہم اپنی منزل کے حصول کے لئے مختلف حکمت عملیاں اختیار کرتے رہیں گے۔ اس لئے کہ حکمت عملی کی تبدیلی مقصد کی تبدیلی ہرگز نہیں کہلاتی بلکہ منزل و مقصود کو حاصل کرنے کے لئے مختلف ذرائع و طرق کا استعمال درحقیقت اس مقصد کے ساتھ دلی وابستگی، خلوص اور یقین کا اظہار ہے کہ ہر صورت منزل کو حاصل کرنا ہی کرنا ہے۔