عیدِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔ جود و سخا کا موسم

شیخ عبدالعزیز دباغ

امسال عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر تحریک منہاج القرآن کے ممتاز اور نامور نعت گو شاعر جناب ریاض حسین چودھری کے دو مجموعہ ہائے کلام بیک وقت صدارتی اور صوبائی ایوراڈ کے حقدار ٹھہرے۔ چودھری صاحب کا یہ امتیاز جہاں مدحت نگاری میں انکے لئے ایک منفرد اعزاز ہے وہاں ہمارے لئے باعث فخر و انبساط ہے کہ تحریک منہاج القرآن کو حاصل گنبد خضرٰی کے فیضان کا موسم پورے جوبن پر ہے اور کشکول آروز میں بارانِ کرم کی بے پایاں خیرات کا موسلا دھار سلسلہ جاری ہے۔

ریاض حسین چودھری وہ خوش نصیب نعت نگارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کے پہلے دو مجموعہ ہائے نعت صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ 2000ء میں ان کا نعتیہ کلام کا دوسرا مجموعہ ’’رزقِ ثنا‘‘ میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اس امتیازی کامیابی سے سرفراز ہوا جبکہ 2008ء میں ’’خُلدِ سخن‘‘ ان کا چھٹا مجموعہ کلام اس ایوارڈ کا مستحق ٹھہرا۔ یہ دونوں کتب بھی میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر شائع ہوئیں۔ اب ’’غزل کاسہ بکف‘‘ اور ’’آبروئے ما‘‘ دو مجموعے یکے بعد دیگرے 2013-14ء میں شائع ہوئے۔ اب کے برس عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ان کے لئے بھی ایوارڈز کا اعلان کیا گیا۔ اس طرح چودھری صاحب کے نعتیہ کلام کے 12 مجموعوں میں سے 4 مجموعے صدارتی اور صوبائی ایوارڈز کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔

ریاض حسین چودھری تحریک منہاج القرآن کے سنیئر رفقاء میں سے ہیں۔ 13 جنوری 1985ء کو رفاقت نمبر 932  کے ساتھ تحریک سے وابستہ ہوئے اور مرکز پر فروری 1990ء سے اگست 2002ء تک مختلف ذمہ داریوں پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آغاز میں ناظم نشر و اشاعت کے طور پر کام کیا اور جلد ہی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ذوق صحافت کے پیش نظر انہیں پندرہ روزہ ’’تحریک‘‘ کا چیف ایڈیٹر مقرر فرمایا۔ تقریباً عرصہ 6 سال تک وہ اس ذمہ داری پر فائز رہے۔ بعد ازاں انہیں صدر شعبہ ادبیات تحریک منہاج القرآن کا قلمدان سونپا گیا۔

ریاض حسین چودھری تحریک کی وابستگی اختیار کرتے ہی مشن کے فیض سے سیراب ہوئے اور جون 1985ء میں ہی درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری ان کا نصیب ٹھہری۔

چودھری صاحب مشن کی ذمہ داریاں بھی نبھاتے رہے اور نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی گنگناتے رہے۔ اگر انہیں فنائے مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔ نعت ایک کیفیت ہے جو ان پر ہمہ وقت طاری رہتی ہے اور یقینا یہ ان کی طبعِ موزوں پر تحریک کا بے پناہ فیضان ہے کہ وہ عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبے ہوئے ہیں اور مسلسل لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی ہر کتاب کیفیاتِ عقیدت ومدحت کا ایک سر بستہ صحیفہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہم چودھری صاحب کو ان کے دو مجموعوں ’’غزل کاسہ بکف ‘‘ اور ’’آبروئے ما‘‘ کو بیک وقت صدارتی ایوارڈ کا اعزاز حاصل ہونے پر مبارکباد اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اوائل دور سے اب تک تحریک منہاج القرآن سے ان کی بے لوث وابستگی ہمارے لئے ایک اعزاز ہے۔ آپ زندگی کے 74ویں برس میں ہیں، اس ضعف اور بیماری کے باوجود ان کی امتیازی مدحت نگاری کا سفر جاری و ساری ہے۔ چودھری صاحب، درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس نسبت کو تحریک کے فیضان کا کرشمہ سمجھتے ہیں اور فروغِ تحریک کے لئے اس کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ مسلسل اعلیٰ اور معیاری نعتیہ کلام کی تخلیق کی وجہ سے آپ نعت نگاری کی تاریخ میں ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اِس وقت آپ فن نعت کے اساتذہ میں مقامِ امامت پر فائز ہیں۔

ریاض حسین چودھری صاحب ایک عظیم محب وطن تحریکی ہیں ، جوانوں سے ٹوٹ کر پیار کرتے ہیں اور نئی نسل کو امت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ سمجھتے ہیں۔ اس کا اظہار ان کے نعتیہ کلام میں جابجا ملتا ہے۔اس حوالے سے آپ نے اپنے دونوں مجموعوں کو ایوارڈز ملنے کے موقع پر یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ ان ایوارڈز کو شہدائے ماڈل ٹاؤن اور پشاور کے آرمی سکول کے ننھے شہداء کے نام منسوب کرتے ہیں۔رب کریم شہداء کے لئے ان کی اس محبت اور عقیدت کو قبول فرمائے اور ظلم وجبر کے اس قبیح دور کے خاتمے کے لئے ہمیں اپنا جرات مندانہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اب چند سطور آپ کے اس فنِ مدحتِ نگاری کے بارے میں:

چودھری صاحب کی نعت نے جدید غزل کو وہ وسعتِ داماں عطا کی ہے جو اس سے پہلے اردو غزل کے حصے میں نہ آ سکی۔ اگر غزل کو ہیئت اور مخصوص مضامین کے شکنجے سے آزاد ایک تخلیقی تجربہ سمجھا جائے جو محبت کی سرشاری اور لفظ اور لہجے کی موسیقی سے وجود میں آتا ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہیں کہ غزل نے آستانہِ ریاض سے جی بھر کر فیض پایا ہے۔ اردو غزل کا دامن بہت وسیع ہے اور نعت کا کینوس تو زمان و مکاں سے بھی ماوراء ہے۔ اس طرح نعت، غزل کے مقابلے میں وسیع تر شعری اور تخلیقی تجربہ ہے مگر یہ دو اصنافِ شعر ہم جنس ہیں اور ایک ساتھ محوِ پرواز ہیں۔ ہاں اگر غزل کی پرواز زمان و مکاں تک محدود ہے تو نعت کی جولا نگاہ ان سے ماوراء ہے۔ اس مقام پر غزل عجز و نیاز میں سر نگوں نظر آتی ہے۔

غزل کی یہی لچک ہے جس سے ایک نفسِ خلّاق غزل کہتے کہتے وادئ بطحا کی تخلیقی وسعتوں کا زائر بن جاتا ہے۔ غزل بطور صنفِ شعر وادئ نعت کے حوالے سے اپنا دامن نہیں سمیٹتی بلکہ گریباں چاک، وارفتہ، منزلِ جاناں کی طرف لپکتی ہے کہ یہ تو وہ آستانہ ہے جہاں سے ہر بھکاری زمان و مکاں کے خزانے اپنے دامن میں سمیٹ کر اٹھتا ہے۔

ریاض حسین چودھری کا اس صنفِ ادب کے حوالے سے وسیع تر، جدید تر اور حقائق پر مبنی وہ فلسفہِ تخلیقِ فن ہے جس کا احساس اُس شعر سے شروع ہوتا ہے جو ریاض نے اپنی زندگی کی سب سے پہلی نعت تخلیق کرتے ہوئے لکھا تھا اور جو آج تک ان کے احساسِ فن پر محیط ہے۔ آج البتہ اس فلسفے کا تخلیقی اظہار ان کے جملہ نعتیہ کلام کی صورت میں مجسم نظر آتا ہے اور ریاض کا یہ وہ کارنامہ ہے جس سے انہیں تغزلِ نعت میں امامت کا مقام عطا ہوا ہے۔

چودھری صاحب کے کلام میں نہ کہیں روانی تھمتی ہے نہ شگفتگی اور تازگی میں کمی نظر آتی ہے۔۔۔ ایک کاروانِ بہار ہے جو اپنے تمام رنگوں اور عطر بیزیوں کے ہر سو رواں ہے۔۔۔ جس میں ریاض خود بھی مہک رہے ہیں اور سارے عالمِ نطق و سماعت کو بھی مہکا رہے ہیں۔ ان پر یقیناًسرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خصوصی کرم ہے۔