القرآن: مفہوم نبوت اور شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین

قرآن مجید میں اللہ تعاليٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جابجا ’’النبی‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا۔ ارشاد فرمایا:

يٰـاَيّهَا النَّبِيّ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا.

(الاحزاب:45)

’’اے نبِيّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا بناکر بھیجا‘‘۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَ الْاُمِّيَ.

(الاعراف:157)

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) ‘‘۔

اگر لفظ ’’نبی‘‘ اور نبوت کے معنی اور مفہوم کی روشنی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان نبوت کو سمجھنے کی کوشش کریں تو لفظِ ’’نبی‘‘ کے اندر بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بہت سی شانوں کا تذکرہ موجود ہے۔ آیئے! لفظِ ’’نبی‘‘ کے مختلف معانی کی روشنی میں مفہومِ نبوت اور مقام و شانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آشنائی حاصل کرتے ہیں:

لفظِ ’’نبی‘‘ کا مادہِ اشتقاق

لغت اور عقائد کی جملہ کتب بشمول تہذیب اللغہ، الصحاح، لسان العرب، القاموس المحیط، الشفائ، النبوات (علامہ ابن تیمیہ)، شرح المواقف (السید الشریف الجرجانی)، شرح المقاصد (علامہ تفتازانی)، تحریر المطالب (شرح عقیدہ ابنِ حاجب)، کشاف الاصطلاحات الفنون (مولانا اشرف علی تھانوی) میں بالاتفاق لفظ ’’نبی‘‘ کے دو مادہ ہائے اشتقاق بیان کئے گئے ہیں:

  1. بعض نے کہا ہے کہ ’’نبی‘‘ اور ’’نبوت‘‘ کا لفظ ’’نَبَاءَ‘‘ (ہمزہ کے ساتھ) سے مشتق ہے۔
  2. بعض کے نزدیک لفظِ ’’نبی‘‘ ’’نَبَا‘‘ ( بغیر ہمزہ) سے مشتق ہے۔

ان دونوں مادہ ہائے اشتقاق کے لحاظ سے جملہ کتب اللغہ میں لفظ ’’نبی‘‘ کے مختلف معانی ہیں جو ذیل میں درج کئے جا رہے ہیں:

1۔ ’’نبی‘‘۔۔۔ غیب کی خبریں دینے والا

٭ اگر لفظ نبی کو نَبَاءَ سے مشتق سمجھیں تو نبی کا معنی ہے غیب کی خبر دینے والا۔ اگر لفظ نبی بروزنِ فَعِيْلٌ بمعنی فاعل ہو تو اس کا معنی ہوگا کہ

يَکُوْنَ مُخْبِرًا اَمَّا اَطْلَعَهُ اللّٰهُ عَلَيْهِ.

’’اللہ تعاليٰ نے اپنے جس غیب پر انہیں مطلع کیا ہے، اس غیب کی خبریں لوگوں کو دینے والا‘‘۔

اسی لئے قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ

وَمَا هُوَ عَلَی الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ.

(التکوير:24)

’’اور وہ (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لیے کوئی کمی نہیں چھوڑی)‘‘۔

’’اَلنَّبُوّات‘‘ میں علامہ ابن تیمیہ نے اس معنی کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

٭ اگر لفظِ ’’نبی‘‘ بروزن فَعِيْلٌ بمعنی مَفْعُوْلٌ ہو تو نبی کا مطلب ہے:

اَنَّ اللّٰه تَعَالٰی اَطْلَعَهُ غَيْبِهِ فَيَکُوْنُ النَبِيّ.

’’اللہ تعاليٰ نے جس ذات کو اپنے غیب پر مطلع کیا ہو، اپنے غیب کی اطلاع دی ہو اس کو نبی کہتے ہیں‘‘۔

2۔ ’’نبی‘‘۔۔۔گمراہی سے نکالنے والا

تہذیب اللغہ اور تحریر المطالب (شرح عقیدہ ابن حاجب) میں لفظِ ’’نبی‘‘ کے مادہ اشتقاق ’’نَبَاءَ‘‘ کے حوالے سے ’’خروج‘‘ کا معنی بھی آیا ہے۔ صاحب تحریر المطالب شرح عقیدہ ابن حاجب پر خروج کے اعتبار سے اس کا معنی لکھتے ہیں کہ

خَرَجَ مِنْ بَلَدٍ اِلٰی بَلَدٍ اُخْرٰی خَرَجَ مِنْ اَرْضِ اِلٰی اَرْضِ اُخْرٰی.

’’ ایک جگہ سے کوئی نکل کر دوسری جگہ چلا جائے، ایک حال سے نکل کر دوسرے حال میں چلا جائے‘‘۔

اس معنی کے لحاظ سے نبی کا معنی ہوگا:

اَلَّذِيْ اَخْرَجَ النَّاسَ مِنَ الضَّلَالَةِ اِلٰی الْهُدی.

وہ ذات جس نے لوگوں کو گمراہی سے نکال کر ہدایت میں پہنچادیا۔ وہ ذات جس نے لوگوں کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال دیا، ان کو خروج کردیا اور ہدایت کی روشنی میں لے گئے، اس کو نبی کہتے ہیں۔

3۔ ’’نبی‘‘۔۔۔ تمام مخلوق سے اعليٰ

لفظِ ’’نبی‘‘ کے دوسرے مادہِ اشتقاق ’’نَبَا، اَلنَّبْوةُ‘‘، کے اعتبار سے بھی لفظِ نبی کے مختلف معانی ہیں۔ اَلنَّبْوةُ کا معنی ہے: اَلْاِرْتِفَاع جس کو بلندی ملی‘‘۔ اسی سے اَلنَّبَاوَة ہے یعنی جومقام بلند ہو۔ زمین سے بلند ٹیلہ، بلند مینار یا بلند جگہ جو دور سے نظر آئے، جس کو دیکھ کر لوگ ہدایت پائیں، بھولے ہوئے راستہ پائیں۔ اس شے کی بلندی کی وجہ سے اس کو نَبْوٰی کہتے ہیں۔ ائمہ لغت کا کہنا یہ ہے کہ اس وجہ سے اس سے النَّبُوَّة اخذ کیا ہے۔ اس سے لفظ نبی نکلا ہے۔ نبی کو اس معنی کے لحاظ سے اس لئے نبی کہتے ہیں کہ

 اِنَّهُ شُرِّفَ عَلٰی سَائِرِالْخَلْقِ.

’’اُسے ساری مخلوق میں سب سے بلند بنایا جاتا ہے‘‘۔

نبی کو وہ شان، عظمت، بلندی، شرف اور رفعت دی جاتی ہے کہ ان کا مقام کل کائنات انسانی اور خلق میں سب سے بلند ہوتا ہے۔ اس کی ذات کی بلندی کو دیکھ کر لوگ اسے آئیڈیل بناتے ہیں اور اس سے راستہ پاتے ہیں۔

٭ ابن الاعرابی نے اَلنَّبْوةُ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ اَلْمُرْتَفِعُ مِنَ الْاَرْضِ زمین پست ہوتی ہے، ایک ہی لیول میں ہوتی ہے اور وہ چیز، پہاڑ، ٹیلہ، مینار یا عمارت جو زمین کی پستی کو چھوڑ کر بلند ہوجائے، اس کو ’’نَبْوَة‘‘ کہتے ہیں۔اس معنی کی رُو سے

اَلنَّبِيّ هُوَا الْعَلَمُ مِنْ اَعْلَامِ الْاَرْضِ الَّتِيْ يُهْتَدٰی بِهٰا

’’نبی اس ذات کو کہتے ہیں جس کا مقام و مرتبہ سب سے اونچا ہو اور لوگ اسے دیکھ کر رہنمائی پائیں‘‘۔

گویا نبی کو نبی اس لئے کہتے ہیں اللہ تعاليٰ اسے ساری مخلوق پر بلندی، عظمت اور رفعت عطا کرتا ہے۔ پس اسی عظمت اور علو مرتبت کی وجہ سے وہ نبی کہلاتا ہے۔

٭ قاضی عیاض کہتے ہیں:

هُوَ مَرْتَفَعَ مِنَ الْاَرْضِ وَمَعْنَاهُ اَنَّ لَهُ رُتْبَةً شَرِيْفَةً وَمَکَانَةً نَبِيْهَا.

’’وہ ذات جو ساری مخلوق ارضی اور ساری مخلوق سماوی سے بلند ہوتی ہے۔ اسے اتنا بلند رتبہ، بلند مقام اور وہ شرف و عظمت عطا کی جاتی ہے کہ ہر شے اس کی عظمت کے نیچے ہوجاتی ہے‘‘۔

4۔ ’’نبی‘‘۔۔۔ راستہ

مادہ اشتقاق ’’نَبَا‘‘ کے اعتبار سے نبی کا ایک معنی ’’طریق‘‘ (راستہ) بھی ہے۔ تمام لغت کی کتب نے اسے بیان کیا ہے کہ

اَلنَّبِيّ هُوَ الطَّرِيْقُ وَالْاَنْبِيَاءُ طُرُقُ الْهُدٰی.

’’ نبی راستے کو کہتے ہیں، انبیاء وہ ذوات ہیں جو بھولے ہوؤں کو ہدایت کا راستہ دکھاتے ہیں۔

نبی کی ذات ایک نئی راہ اور نئی طرز دیتی ہے۔ جب لوگ بھولے ہوئے، بھٹکے ہوئے اور گمراہ ہوتے ہیں، انہیں نہ اپنی پہچان ہوتی ہے اور نہ اپنے خالق کی پہچان ہوتی ہے۔۔۔ نہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے اور نہ دوسرے کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کی معرفت ہوتی ہے۔۔۔ وہ محظ گمراہی، لاعلمی، بے خبری، جہالت اور ضلالت میں ہوتے ہیں۔ لغت کے اس معنی کے اعتبار سے ان حالات میں نبی کی ذات خود راستہ ہوتی ہے۔ جب نبی مبعوث ہوتا ہے تو بھولے ہوئے انسانوں کو راستہ دکھا دیتا ہے۔ اس نبی کی ذات، سیرت، وجود، عمل، طور طریقے اور اسوہ و شعار میں خود ایک راستہ ہوتا ہے جو بھولے ہوؤں کو حق کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ نبی ایسا راستہ دکھاتا ہے کہ بندے کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنے خالق و مالک کی پہچان بھی ہوتی ہے۔ اپنے اور دوسرے لوگوں کے درمیان رشتے کی نوعیت کی پہچان کے ساتھ ساتھ وہ اچھے برے کو بھی جان جاتا ہے۔ گویا ایک کامل ہدایت کا راستہ دے دینے والے اور انسانیت کے لئے خود راستہ بن جانے والے کو نبی کہتے ہیں۔

٭ ابومعاذ النحوی نے قدیم لغتِ عرب کا ایک قول نقل کیا ہے کہ مَنْ يَضُلُّنِيْ النَّبِی اَيْ اَلطَّرِيْق. یعنی کسی نے پوچھنا ہو کہ میں بھولا ہوا ہوں، کوئی مجھے راستہ دکھا دے تو راستہ پوچھنے کے لئے کہتے: مَنْ يَضُلُّنِيْ عَلَی النَّبِی یعنی کوئی مجھے نبی دکھادے۔ نبی دکھانے کا مطلب یہ ہوتا کہ میں بھولا ہوا ہوں کوئی مجھے سیدے راستے پر چلادے۔ پس نبی کا وجود خود سیدھا راستہ ہوتا ہے۔

اسی لئے قرآن مجید نے کہا:

 اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ

 ’’اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘۔

الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ خود وجود مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہے اور ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ہے۔

نبی کی ذات ایک طرف تمام مخلوق میں سب سے بلند ہوتی ہے اور دوسری طرف نبی وہ ہے جس سے لوگ راستہ پائیں۔ اس کا معنی یہ بھی ہے کہ ایسا راستہ، طریقہ اور وسیلہ جو لوگوں کو اللہ تک لے جائے گویا لوگوں کو اللہ سے ملانے کے راستے اور واسطے کو بھی نبی کہتے ہیں۔

5۔ ’’نبی‘‘۔۔۔ جدا/علیحدہ

لفظ اَلنَّبْوةُ، اَلنَّبَاوَة سے نبی کا ایک اور دلچسپ معنی بھی ہے۔ وہ معنی ہے اَلْجَفْوَہ ’’جدائی، علیحدگی‘‘۔ اس معنی کی رو سے نبی کا معنی ہے وہ ذات جو جدا اور علیحدہ ہو۔قرآن مجید میں ہے کہ

تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ.

(السجدة: 16)

’’ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں بستر سے جدا کے لئے تَتَجَافٰی کا لفظ استعمال کیا جو اَلْجَفْوٰی سے ہے۔ نبوت کا ایک معنی یہی اَلْجفوٰی ہے۔ اس معنی کی رُو سے نبی وہ ہے جو علیحدہ ہو، جو دوسروں سے جدا ہو۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کس طرح دوسروں سے جدا ہوتا ہے؟ اس معنی کی رو سے جدائی دو طرح کی ہے:

  1. ذاتی طور پر دوسروں سے جدا۔
  2. معاشرتی رسوم و رواج سے علیحدہ۔

1۔ ذاتی طور پر دوسروں سے جدا

نبی کی اپنی ذات میں علیحدگی اور جدائی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں پیکر بشریت ہوتا ہے مگر باقی بشروں سے جدا ہوتا ہے، عالم بشریت سے علیحدہ ہوتا ہے۔ نبی کے وجود انسانی اور پیکر بشریت میں خود ایک جدائی اور علیحدگی ہوتی ہے۔ یہ مقامِ نبوی جو انہیں دوسروں سے جدا کرتا ہے بایں طور ہے کہ بشری پیکر ہونے کے باوجود وہ بشریت کے وصف سے علیحدہ ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیکر بشری تھا مگر سایہ نہ تھا، ہر بشری اور انسانی وجود کا سایہ ہوتا ہے، سائے کے بغیر کوئی وجود نہیں۔ جب پیکر بشری ہو مگر سایہ نہ ہو تو بشری پیکر رکھنے کے باوجود بشریت سے جدا ہوگئے۔۔۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ آتا تھا مگر پسینے میں بدبو نہ تھی بلکہ خوشبو تھی، لہذا اپنے پیکر بشری میں دوسروں سے جدا ہوگئے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسم رکھتے تھے مگر اس پر مکھی نہ بیٹھتی تھی۔۔۔ انسانی جسم تھا، جسم کی ضرورتیں ہوتی ہیں مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلسل فاقوں سے ساری زندگی گزاری اور کبھی کمزوری نہ ہوئی۔۔۔ اس پیکر نبوت کی آنکھیں تھیں، آنکھیں صرف آگے دیکھنے کے لئے ہوتی ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں جس طرح آگے دیکھتی تھیں اسی طرح پیچھے بھی دیکھتی تھیں۔۔۔ ہماری آنکھیں روشنی میں دیکھتی ہیں، اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتیں مگر آقا علیہ السلام کا پیکر بشریت طیبہ ایسا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں اندھیرے میں اسی طرح دیکھتیں جس طرح اجالے میں دیکھتیں۔۔۔ تمام پیکران بشریت کے لعاب دہن سے امراض پیدا ہوتے ہیں، جراثیم پیدا ہوتے ہیں مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسے اپنا لعاب دہن لگا دیتے تو اس کو شفا مل جاتی، اندھے کو بینائی مل جاتی، بیماروں کی امراض دور ہوجاتیں۔

گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم بشریت سے تھے مگر بشری خصائص سے جدا اور علیحدہ ہوگئے تھے۔ بشری پیکر رکھ کر اس طرح بشری خصائل سے الگ ہوئے کہ عالم نور کے ملائکہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلوؤں کے برابر نہ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرشی ہوکر عرشیوں سے بھی اونچی شان کے حامل ہوگئے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی ذات کے اعتبار سے دوسروں سے علیحدگی اور جدائی کی شان ہے۔

2۔ معاشرتی رسوم و رواج سے علیحدہ

ایک علیحدگی اور جدائی کی شان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی بھی ہے جس کا تعلق اس اجتماع اور معاشرت کے ساتھ تھا جس میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہتے تھے۔ وہ جدائی یہ ہے کہ جس معاشرے میں آقا علیہ السلام کی بعثت ہوئی، اس معاشرے کا عالم یہ تھا کہ لوگ قتل و غارتگری کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر نسلیں قتل ہوجاتی تھیں، پڑھنے لکھنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ جہالت، ظلم، جبر، بربریت مسلط تھی۔ نفرتیں عام تھیں، انسانیت کی کوئی قدر اور عزت نہ تھی۔ خون خرابہ اور دشمنی و عداوت عام تھی۔ قبیلوں میں اگر لڑائی ہوجاتی تو دو دو سو سال جنگیں چلتی تھیں اور ہزارہا لوگ مارے جاتے اور انسانی لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے تھے۔

ایسے معاشرے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ جدائی بایں طور سامنے آئی کہ آپ اس قتل و غارت کے معاشرے میں پیکر امن بن کر تشریف لائے۔ وہ معاشرہ جس میں انسان کی عزت و تکریم کا کوئی تصور نہ تھا، آقا علیہ السلام اس معاشرے میں رہے اور اس معاشرے کے برے رسم و رواج سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے انسان کی تکریم و عظمت کا سبق دیا۔۔۔ قتل و غارتگری سے منع کیا۔۔۔ ان پڑھوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا۔۔۔ دشمنی کرنے والوں کو محبت کرنا سکھایا۔۔۔ خون خرابہ کرنے والوں کو خون کی حفاظت کرنا سکھایا۔۔۔ عزتیں لوٹنے والوں کو عزت بچانا سکھایا۔۔۔ پورے معاشرے میں جبر اور بربریت کرنے والوں کو رحمت کا طریقہ سکھایا۔ اس طرح معاشرے کی جو روش اور طریقہ تھا، آقا علیہ السلام اس طریقہ اور روش سے علیحدہ ہوتے ہوئے اس اجتماع اور معاشرے کی خصلتوں سے جدا ہوگئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی معاشرے میں پیدا ہوئے، اسی معاشرے میں بچپن، لڑکپن اور جوانی گزاری۔ اس معاشرے میں شب و روز گزارے جہاں طاقتور، کمزور کو غلام بنالیتے تھے، انہیں کوڑوں سے مارتے تھے، انہیں پتھروں کی سزا دیتے اور آگ میں جلادیتے، چھوٹی چھوٹی بات پر قتل کردیتے۔ پوری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے اس معاشرے میں گزاری۔ اس دور میں کوئی جدید تہذیب نہ تھی، کوئی ماڈرن کلچر نہ تھا، میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روم، مصر اور بابل نہیں گئے، وہ کتابوں اور انٹرنیٹ کا دور بھی نہ تھا۔ وہی معاشرہ ہی ہر ایک کا استاد تھا مگر اس معاشرے میں جنم لینے کے باوجود آقا علیہ السلام نے اس معاشرے کو اپنا استاد نہیں بنایا بلکہ خود اس معاشرے کے استاد بن گئے، اس معاشرے کے معلم، مرشد، ہادی اور رہبر بنے اور اس طرح معاشرے کی روش سے جدا ہوگئے۔ کردار، آئیڈیاز، فکر، سوچ، تعلیم اور عمل کی یہ جدائی اور علیحدگی بایں طور سامنے آئی کہ اس معاشرے کو امن اور رحمت کا مرکز بنا دیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے کو کیونکر تبدیل کیا؟

عرب معاشرہ کس راستہ اور روش پر گامزن تھا اور جو نیا راستہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کیا، ان دونوں کا تذکرہ سیرت کی کتب میں مذکور ہے۔ آیئے! اس پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں:

پانچ اور چھ سن نبوت میں جب مکہ کے لوگوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی حد کردی۔ صحابہ کرام تعداد میں قلیل ہونے کے اعتبار سے کمزور اور پریشان حال تھے، ان حالات میں آقا علیہ السلام نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ تقریباً 83 افراد پہلی مرتبہ اور 18 افراد دوسرے مرحلہ میں حبشہ چلے گئے۔ یہ تاریخ اسلام میں پہلی ہجرت تھی۔ جب قریش مکہ کو پتہ چلا کہ مسلمان حبشہ میں پناہ لے چکے ہیں تو انہوں نے اپنا وفد بھیجا تاکہ وہ شاہ حبشہ نجاشی کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ مسلمانوں کو واپس مکہ بھیج دے اور ان کو وہاں قیام نہ کرنے دے۔

بادشاہ نے قریش مکہ کے وفد کا موقف سنا اور مہاجر صحابہ کو بلا بھیجا اور اپنے دربار میں عیسائی مذہبی رہنماؤں کی موجودگی میں ان سے بڑا اہم سوال کیا۔ بادشاہ نے کہا:

قریشِ مکہ کا یہ کہنا ہے کہ یہ لوگ ہمارے دین کی روش سے پھر گئے ہیں۔ ہماری رسم و رواج کا ایک معیار اور تاریخ تھی، ہمارا عقیدہ، مذہب، کلچر اور روایت ایک تھی۔ انہوں نے ان روایات، آبائی مذہب، کلچر اور عقائد کو چھوڑ دیا ہے اور ایک نیا مذہب، نیا راستہ، نیا طریقہ اختیار کرلیا ہے۔ اے مسلمانو! وہ کون سا نیا دین ہے جس کے لیے تم نے اپنے آباء و اجداد کا مذہب ترک کر دیا اور میرا یا کوئی اور موجودہ مذہب بھی اختیار نہیں کیا؟

اس پر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور دین محمدی کے دس نمایاں پہلو شاہِ حبشہ کے سامنے بیان کیے:

أَيّهَا الْمَلِکُ! کُنّا قَوْمًا أَهْلَ جَاهِلِيّةٍ، نَعْبُدُ الْأَصْنَامَ وَنَأْکُلُ الْمَيْتَةَ وَنَأْتِی الْفَوَاحِشَ وَنَقْطَعُ الْأَرْحَامَ، وَنُسِيئُ الْجِوَارَ وَيَأْکُلُ الْقَوِيّ مِنّا الضّعِيف.

’’اے بادشاہ! ہم جاہل، غیر تہذیب یافتہ اور وحشی قوم تھے۔ ہم بتوں کی پوجا کرتے اور مردار کھاتے تھے۔ ہم قطع رحمی کرتے تھے اور پڑوسیوں کے حقوق سے ناآشنا تھے۔ ہم میں سے طاقت ور اپنے سے کمزور کو کھا جاتا تھا‘‘۔

فَکُنّا عَلَی ذَلِکَ حَتّی بَعَثَ اﷲُ إلَيْنَا رَسُولًا مِنّا، نَعْرِفُ نَسَبَهُ وَصِدْقَهُ وَأَمَانَتَهُ وَعَفَافَهُ فَدَعَانَا إلَی اﷲِ لِنُوَحّدَهُ وَنَعْبُدَهُ وَنَخْلَعَ مَا کُنّا نَعْبُدُ نَحْنُ وَآبَاؤُنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ الْحِجَارَةِ وَالْأَوْثَانِ.

’’ہم ان ہی برائیوں (روش، طریقہ) پر تھے کہ اﷲ تعاليٰ نے ہم میں سے ہی ایک رسول مبعوث فرمایا جس کا نسب، صدق، امانت اور عفت ہم جانتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اﷲ تعاليٰ کی طرف بلایا تاکہ ہم اس کی توحید کو تسلیم کریں اور اس کی عبادت کریں اور ان پتھروں اور بتوں کی پوجا ترک کردیں جن کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کرتے چلے آرہے تھے‘‘۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نیا راستہ دکھایا۔۔۔ ان کی روش، پرانی روش سے جدا تھی۔۔۔ انکا راستہ ہمارے پرانے راستے سے جدا تھا۔۔۔ ان کی دعوت اور تعلیم پرانے طریقے سے جدا تھی۔۔۔ انہوں نے جو ہمیں دعوت دی اور جو راستہ دکھایا، وہ یہ تھا کہ

وَأَمَرَنَا بِصِدْقِ الْحَدِيثِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَصِلَةِ الرّحِمِ وَحُسْنِ الْجِوَارِ وَالْکَفّ عَنِ الْمَحَارِمِ وَالدّمَاءِ، وَنَهَانَا عَنِ الْفَوَاحِشِ وَقَوْلِ الزّورِ، وَأَکْلِ مَالِ الْيَتِيمِ وَقَذْفِ الْمُحْصَنَاتِ.

(سيرت ابن هشام)

’’ انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت ادا کرنے، صلہ رحمی کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ عمدہ سلوک کرنے، محرمات سے اجتناب کرنے، خوں ریزی سے بچنے اور برائیوں سے رُکنے کا حکم دیا۔ اور ہمیں حکم دیا کہ ہم جھوٹ نہ بولیں، یتیم کا مال نہ کھائیں اور پاک باز خواتین پر تہمت نہ لگائیں۔‘‘

’’پس ہم نے پرانی روش بدلی اور یہ نیا طریقہ اختیار کیا اور اس نئے طریقے کو قبول کرنے کے نتیجے میں ہماری قوم ہمارے خلاف ہوگئی‘‘۔

شاہِ حبشہ نجاشی کے دربار میں بیان کردہ انہی اصولوں اور صفات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر مختلف مواقع پر بھی بیان فرمایا۔ جن کے مطالعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ کس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان معاشرتی رسوم و رواج سے جدا و علیحدہ ہوئے اور کن تعلیمات اور اقدار کو اس معاشرہ میں پروان چڑھایا۔

٭ 621ء میں ہجرت مدینہ سے پہلے اوس و خزرج کے لوگ (مدینہ) یثرب سے آئے۔ آقا علیہ السلام چونکہ معاشرے کی روش سے جدا تھے اور نبوت کی شان یہ تھی کہ آپ اس معاشرے میں رہ کر معاشرے کی بری عادتوں سے پاک تھے اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تلقین فرماتے۔ یثرب یعنی مدینہ کی سرزمین پر دو سو سال سے زیادہ عرصے سے اوس و خزرج کے درمیان جاری جنگوں میں کوئی مصالحت کرانے والا نہ تھا۔۔۔ دشمنی کو امن میں بدلنے والا نہ تھا۔۔۔ انہیں امن و دوستی کا سبق دینے والا نہ تھا جس پر وہ اعتماد کرسکیں۔ وہ یثرب میں تھے انہوں نے اڑھائی تین سو میل دور یثرب کے علاقے میں رہتے ہوئے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ امن کو سنا، آپ کے کردار کی خبر ان تک پہنچی کہ انہوں نے فساد ختم کرکے امن کی تعلیم دی ہے۔۔۔ یہ سراپا امن ہیں۔۔۔ یہ امن کا پرچار کرتے ہیں۔۔۔ امن کی دعوت دیتے ہیں۔۔۔ امن کی روش بتاتے ہیں۔ پس آقا علیہ السلام کے اس کردار کی خوشبو سونگھ کر، خبر سن کر اوس و خزرج کے قبائل آقا علیہ السلام کو مکہ میں بطورِ خاص ملے۔ اس دوران آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت بھی دی کہ آپ آئیں تاکہ آپ کے آنے سے دو سو سال سے جاری ہماری دشمنیاں ختم ہوجائیں اور قتل و غارتگری امن میں بدل جائے۔ پس آقا علیہ السلام کو مدینے کی دعوت دینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبرِ امن ہونے کی بنیاد پر تھی۔

صحیح مسلم میں ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وفد سے درج ذیل نکات پر حلف لیا:

  • ہم اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔
  • ہم چوری یا ڈاکہ زنی کے مرتکب نہیں ہوں گے۔
  • ہم بدکاری کا ارتکاب نہیں کریں گے۔
  • ہم اپنی اولاد (خصوصا بچیوں) کو قتل نہیں کریں گے۔
  • ہم کسی پر الزام تراشی یا اس کی غیبت نہیں کریں گے۔
  • ہم عورتوں پر تہمت نہیں لگائیں گے۔
  • ہم ہمیشہ عفت و عصمت اور حیاء والی زندگی گزاریں گے۔
  • ہم نیک افعال اور اَعليٰ مقصد میں آپ کی حکم عدولی نہیں کریں گے۔
  • ہم حق اور سچ کو اپنی زندگی کا مشن بنا کر چلیں گے اور ہر طرح کے حالات میں ثابت قدم رہیں گے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس روش، طریقہ اور راستہ پر اس معاشرے کے لوگوں کو چلایا اور ہدایت دی، وہ معاشرہ ان اقدار سے پہلے آگاہ نہ تھا اور نہ ان اقدار پر عمل کرتا تھا۔ کوئی ادارہ بھی نہیں تھا جو ان کی ترویج کرتا اور تعلیم دیتا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معاشرے کے اندر پیدا ہوئے اور ایک نئے اقدار کی کائنات آباد کردی۔۔۔ دنیا کو نئی افق پر لے گئے۔۔۔ انسانیت کو نیا مقام عطا کردیا۔

آقا علیہ السلام اس معاشرے میں سچائی، عدل اور انصاف کا درس دے رہے ہیں۔ جہاں ان اقدار کا خواب و خیال بھی نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشرے کو جھوٹ سے بچا رہے ہیں۔۔۔ قتل کی جگہ امن کا درس دے رہے ہیں۔۔۔ بدکاری کی جگہ حیا اور شرم کا درس دے رہے ہیں۔۔۔ معاشرے میں خیر و بھلائی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ اس معاشرے کو امن و سکون کا پیکر بنانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرامین ارشاد فرمائے، وہ معاشرہ اس کا تصور تک نہ کرسکتا تھا۔

٭ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے:

ولا تقتلوا وليدا طفلا، ولا امراة، ولا شيخا کبيرا، ولا تغورن عينا ولا تعقرن شجرة الا شجرا يمنعکم قتالا، ولا تمثلوا بآدمی ولا بهيمة، ولا تغدروا ولا تغلوا.

(بيهقی، السنن الکبريٰ، 9:90، رقم: 17934)

اسلامی لشکر کسی بچے کو قتل نہیں کرسکتے، عورت کو قتل نہیں کرسکتے، بوڑھے کو قتل نہیں کرسکتے، جس چشمے سے پانی نکلتاہو اس کو خشک نہیں کرسکتے (چونکہ پانی انسانیت کو زندگی عطا کرتا ہے) اور جنگ میں حائل درختوں کے علاوہ سر سبز درختوں کو کاٹ نہیں سکتے، (چونکہ وہ انسانی حیات کی ذمہ داری بنتے ہیں)۔ انسان کی لاش کو مسخ نہیں کرسکتے، جانور کی لاش کو بھی مسخ نہیں کرسکتے، وعدے کو توڑ نہیں سکتے اور چوری و خیانت نہیں کرسکتے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

لَا تَقْتُلُوا اَصْحَابَ الصَّوَامِعِ.

(ابن ابی شيبه، المصنف، 6:484، رقم: 33132)

’’کلیساؤں کے متولیوں (یعنی پادریوں) کو قتل نہ کرنا‘‘۔

یعنی کسی بھی مذہب کے مذہبی رہنماؤں راہبوں، پجاریوں، مبلغوں کو قتل نہیں کرسکتے۔ اسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مواقع پر کسانوں، تاجروں، مریضوں، غیر مسلموں کے نوکروں، سفیروں اور پرامن غیر مسلموں کے قتل سے بھی منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاهِدًا، اَوِ انْتَقَصَهُ، اَوْ کَلَّفَهُ فَوْقَ طَاقَتِهِ اَوْ اَخَذَ مِنْهُ شَيْئًا بِغَيْرِ طِيْبِ نَفْسٍ فَاَنَا حَجِيْجُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

(ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج.... 3:170، رقم: 3052)

’’خبردار! جس نے کسی غیر مسلم شہری پر ظلم کیا یا اس کا حق مارا یا اس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا یا اس کی دلی رضا مندی کے بغیر کوئی چیز اس سے چھین لی تو قیامت کے دن میں اس کی طرف سے جھگڑا کروں گا‘‘۔

ذرا سوچیں! وہ سوسائٹی جس میں اپنے پرائے ہر ایک کا قتل ہوتا ہو اس سوسائٹی میں آقا علیہ السلام ان تعلیمات کا درس دیں، جن کا تصور نہ انہوں نے کبھی سنا تھا اور نہ کبھی دیکھا تھا۔ آقا علیہ السلام کی اس جدوجہد کو آج کی سوسائٹی کے اعتبار سے نہ لیں کہ جب ہمارے سامنے UNO چارٹر ہے، United Nation کے چارٹر آف رائٹس ہیں۔ انڈیا کا آئین اور ہیومن رائٹس ہے۔ پاکستان کا آئین اور ہیومن رائٹس ہیں۔ جدید دور کی جدید تہذیب ہمارے سامنے ہے۔ اس تناظر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو نہ دیکھیں بلکہ چودہ سو سال قبل انسانیت کس حال میں تھی، کیسا جبر، بربریت، قتل و غارتگری اور دہشت گردی کا ماحول تھا۔ اس معاشرے کو سامنے رکھ کر دیکھیں کہ آقا علیہ السلام نے انسانیت کو جو روش دکھائی اور راستہ دکھایا، جو مذہب، دین، تعلیم اور سیرت دی وہ ان تمام سے جدا تھی اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بربریت کے ماحول سے انسانیت کو جدا کرتے ہوئے بلند کر دیا۔

جنت کی ضمانت کیونکر ممکن ہے؟

حضرت ابو شریح روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:

يَارُسُوْلَ اللّه اَخْبِرْنِيْ بِشَئْیٍ يُوْجِبُ لِيْ اَلْجَنَّة.

’’آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے ایسا عمل، راستہ اور طریقہ زندگی بتائیں جسے اپناؤں تو مجھے جنت مل جائے‘‘۔

یہ سوال ایک ایسے معاشرے میں کیا جارہا ہے کہ جس معاشرے میں انسانی قدروں اور اخلاقی قدروں کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

طِيْبُ الْکَلَامِ وَبَذْلُ السَّلاَم وَاِطْعَامُ الطَّعَامِ.

ابو شریح اگر جنت کی ضمانت چاہتے ہو تو تین چیزوں کو اپنالو:

  1. جس سے گفتگو کرو مسکرا کر کیا کرو، تمہاری گفتگو میں نرمی و مٹھاس ہو۔
  2. دشمنی عداوت کو مٹاؤ اور ہر طرف امن و سلامتی کو پھیلاؤ۔
  3. جو لوگ بھوکے ہیں جنہیں حقوق نہیں مل رہے، ان لوگوں کو کھانا کھلاؤ، اپنے وسائل ان کی غربت کو دور کرنے کے لئے خرچ کرو، تمہیں جنت مل جائے گی۔

لوگو! پوچھنے والا جنت کی ضمانت پوچھ رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی فرماسکتے تھے کی پنجگانہ نماز پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکوٰۃ دو، تسبیح کرو، اللہ اللہ کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی عبادت کی بات نہیں کی حالانکہ وہ دور مذہبی دور تھا۔ جب لات، منات اور عزی کی پوجا ہوتی تھی اور وہ لوگ ان بتوں کی عبادت کے ذریعے جنت تلاش کرتے تھے مگر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چہرے کی مسکراہٹ کو جنت کا راستہ بتارہے ہیں۔۔۔ جس معاشرے میں قتل وغارتگری ہوتی ہے، وہاں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امن سلامتی پھیلانے کو جنت کا راستہ بتارہے ہیں۔۔۔ جس معاشرے میں کسی کو بھوکے کی پرواہ نہیں، وہاں بھوکوں کو کھانا کھلانا جنت کا راستہ بتارہے ہیں۔

٭ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اس معاشرے کی روش، سوچ، فکر بدل دی اور نیا فلسفہ، نظریہ، دین، کلچر اور تہذیب دی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:

تَبَسُّمُکَ فِيْ وَجْهِ اَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةٌ.

’’اپنے بھائی کو مسکراکر ملنا صدقہ ہے۔‘‘

وَاِرْشَادُکَ الرَّجُلٌ فِی اَرْضِ الضَّلَال لَکَ صَدَقَةٌ.

’’بھولے بھٹکے آدمی کو پکڑ کر راستہ دکھانا صدقہ اور خیرات تصور ہوگا، جنت میں لے جائے گا۔‘‘

وَبَصَرُکَ لِلرَّجُلِ الرَدِّيَ الْبَصَرلَکَ صَدَقَةٌ.

’’اندھے آدمی کو پکڑ کر اس کو راستہ دکھانا،اس کی مدد کرنا، یہ صدقہ ہے۔ یہ تمہیں جنت میں لے جائے گا۔‘‘

وَاِمَاطَتُکَ الْحَجَر وَالشَّوْکَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيْق لَکَ صَدَقَةٌ.

’’ماحولیاتی صحت کو قائم کرنا، رستے میں پتھر پڑا ہوا نظر آئے، کانٹا نظر آئے، ہڈی نظر آئے، اسے ہٹاکر راستے کو صاف کردینا یہ صدقہ ہے۔ یہ عمل تمہیں جنت میں لے جائے گا۔‘‘

وَ اِفْرَاغُکَ مِنْ دَلْوِکَ فِيْ دَلْوِ اَخِيْکَ لَکَ صَدَقَةٌ.

تیرے بھائی کو پانی کی حاجت ہو اور تیرے پاس پانی کا ڈول ہو، اپنے ڈول سے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا صدقہ ہے، یہ تمہیں جنت میں لے جائے گا۔

٭ سبحان اللہ! آقا علیہ السلام نے انسانیت کو کیا معیار، روش، دین عطا کیا کہ جس دور میں غریب غریب تر تھا، امیر امیر تر تھا، امرائے قریش اور سرداران قریش غریبوں کا استحصال کرتے تھے، اس دور میں آقا علیہ السلام ہمیں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ

طَعَامُ الْوَاحِدِ يَکْفِي الاِثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الاِثْنَيْنِ يَکْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَکْفِي الثَّمَانِيَةَ.

’’ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں (کی زندگی بچانے) کے لیے کافی ہے، اور دو کا کھانا چار (کی زندگی بچانے) کے لیے کافی ہے اور چار کا کھانا آٹھ آدمیوں (کی زندگی بچانے) کے لیے کافی ہوتا ہے۔‘‘

(صحيح مسلم)

یہ چودہ سو برس پہلے کی تعلیمات ہیں۔ آج دنیا بھوک، غربت اور بے گھری کے خاتمے کی بات کرتی ہے مگر یہ تصور تاجدار کائنات نے آج سے 14 سو سال قبل عطا کردیا۔ آج ہم ان کا میلاد منارہے ہیں۔ ہمیں میلاد مناتے ہوئے ان تعلیمات کو بھی اپنے سامنے رکھنا ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف امت مسلمہ کے محسن نہیں بلکہ ساری کائنات انسانی کے محسن ہیں۔ جنہوں نے اپنے وسائل سے بھوکوں کو کھانا کھلانے، غریبوں کی حاجت مندی کرنے، پریشان حالوں کی پریشانی کو دور کرنے اور اپنے کھانے میں اوروں کو شریک کرنے کی تعلیمات دیں۔

آقا علیہ السلام نے اپنی ان تعلیمات کے ذریعے دراصل معاشرے سے کرپشن ختم کرنے کا راستہ بتایا۔ اس لئے کہ جب ہم اپنا کھانا دوسرے کو کھلا رہے ہیں تو دوسرے کی حق تلفی کا امکان نہیں ہو سکتا۔ گویا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کرپشن فری معاشرے کی نشاندہی کی اور فرمایا جس کے پاس ضرورت سے زائد کھانا ہو وہ اسے لوٹادے جس کے پاس ضرورت کا کھانا نہیں اور جس کے پاس ضرورت سے زائد سواری ہو وہ اسے لوٹادے جس کے پاس ضرورت کی سواری نہیں۔

آقا علیہ السلام کی ان تعلیمات کے ذریعے یہ پیغام واضح ہورہا ہے کہ جس معاشرے میں معاشی ناہمواری ہو، امیر امیر تر ہو اور وہ لوگوں کے حقوق پر قابض ہوجائے تو اس معاشرے سے امن و سکون اور خوشحالی ختم ہوجاتی ہے۔

معاشی دہشت گردی کا خاتمہ

آج دہشت گردی بھی دو قسموں کی ہے:

  1. ایک دہشت گردی وہ ہے جس کے ذریعے بے گناہ اور معصوم لوگوں کی جان لے لی جاتی ہے۔
  2. دوسری دہشت گردی وہ ہے جو سیاست کے نام پر کی جاتی ہے اور غریب معاشروں کے حقوق چھین لئے جاتے ہیں۔ ان سے روٹی کا لقمہ اور جینے کا حق بھی لے لیا جاتا ہے۔

جو دہشت گردی مذہب کے نام پر ہورہی ہے وہ تو ہے ہی لائق مذمت اور لائق لعنت مگر اس سے بڑی دہشت گردی وہ ہے جو سیاست کے نام پر حکمران غریبوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر کرتے ہیں۔ حکمرانوں کی جائیدادیں کرپشن کے پیسوں سے دنیا بھر میں بڑھ جاتی ہیں مگر غریب رزق حلال، پانی، بجلی، عزت اور روزگار کو ترس جاتا ہے۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اپنی سیرت و کردار سے معاشرے کی ڈویلپمنٹ کا سبق سکھایا۔۔۔ وسائل کی مساویانہ تقسیم کا سبق سکھایا۔۔۔ معاشرے کے اندر عدل اور انصاف قائم کرنے کا سبق سکھایا۔۔۔ وہ نظام لانے کی تعلیم دی جس نظام میں ہر حقدار تک اس کا حق پہنچے اور کوئی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے۔

آقا علیہ السلام کے اس جملے پر غورو فکر اور اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے کہ ’’وہ شخص مومن ہی نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھرکر کھائے اور سوجائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے‘‘۔

ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں بسنے والے خواہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم، انہیں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیان کردہ انسانی اقدار کی تعلیمات کو اپنانا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں کتنے لاکھوں لوگ بھوکے سوتے ہیں، کیا ان کی مدد کئے بغیر ہماری مسلمانی برقرار رہے گی۔۔۔؟ کیا ہندو کا ہندو فیتھ برقرار رہے گا۔۔۔؟ کیا مسلمان کا اسلام اور ایمان برقرار رہے گا۔۔۔؟ کیا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم کا مذہب برقرار رہے گا۔۔۔؟ اس لئے کہ کوئی مذہب بھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ ایک طرف معاشرے میں لوگ بھوکا سوئیں، خودکشیاں کریں، کھانے کو لقمہ نہ ملے، عزت گنوائیں اور دوسری طرف کچھ لوگ سارے وسائل پر قابض ہوکر اس معاشرے کے اندر ناہمواری پیدا کردیں۔ آقا علیہ السلام نے وہ معاشرہ جس کا خواب ہم آج دیکھتے ہیں، اسے پندرہ سو سال قبل پیدا کرکے دکھا دیا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشرے کی غلط روش سے جدا ہوئے اور امت کو ایک جدا اور نیا راستہ دکھادیا۔ اگر ہم اس طریقے پر چل پڑیں تو اس میں نہ صرف انفرادی بلکہ من حیث القوم اجتماعی بقا اور عزت کا راز مضمر ہے۔

(جاری ہے)