الفقہ: آپ کے دینی مسائل

مفتی عبدالقیوم خان ہزاروی

سوال: سماعِ موتیٰ اور فرمان الہٰی اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی میں فرق کی وضاحت فرما دیں؟

جواب: اکثر سوالات جاہلیت، علم کی کمی اور تعصب کے کے سواء کچھ نہیں۔ یہ روش نیم ملاؤں کی ہے۔ اور عوام تو ماشاء اﷲ جنہیں قرآن ناظرہ پڑھنا نہیں آتا، وہ قرآنی سیاق وسباق کو کیا جانیں۔ اندھوں نے اندھوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے سہارے نامعلوم منزل کی طرف سرپٹ دوڑے جار ہے ہیں۔ ہم انتہائی اختصار سے سماع موتیٰ یعنی مردوں کے سُننے اور انک لا تسمع الموتی کو عام فہم انداز میں عرض کر دیتے ہیں۔

ائمہ لغت

سب سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ائمہ لغت نے موت کے کئی معانی لکھے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے:

زوال القوة العاقلة وهي الجهالة کقوله تعالٰی {اَوَمَنْ کَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ} و {اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی}.

’’قوت عاقلہ کا زائل ہونا یعنی جہالت۔ جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے: {تو کیا جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا (جاہل تھا تو ہم نے اسے علم سے نوازا)} اور {بے شک آپ ان اندھوں (مردہ دلوں، ہٹ دھرم جاہلوں) کو نہیں سناتے (منواتے)}۔

(المفردات في غريب القرآن، 1: 476)

علامہ ابن منظور وضاحت کرتے ہیں:

قوله تعالٰی: {اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰـتِنَا} وأي ما تسمع الامن يؤمن بها واراد بالاسماع ههتنا القبول والعمل بما يسمع.

’’فرمان باری تعالیٰ ہے: {آپ تو محبوب! صرف اسے سناتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے} یعنی صرف آیات پر ایمان لانے والوں کو سناتے ہیں اور یہاں سنانے سے مراد قبول کرنا اور سنی ہوئی حقیقت پر عمل کرنا ہے‘‘۔

هم کانوا يسمعون ويبصرون ولکنهم لم يستعملوا هذا الحواس استعمالا يجدي عليهم فصاروا کمن لم يسمع ولم يبصر ولم يعقل.

’’وہ (کفار) سنتے دیکھتے تھے، مگر ان حواس کو اس طرح استعمال نہ کرتے تھے کہ ان پر ان حواس ومحسوسات کے فوائد مرتب ہوتے۔ لہٰذا وہ ان لوگوں کی طرح ہوگئے جنہوں نے نہ سُنا، نہ دیکھا اور نہ سمجھا‘‘۔

(ابن منظور، لسان العرب، 8: 162. 164)

قرآن مجید کی روشنی میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَo

(النّمل، 27: 80)

’’(اے حبیب!) بے شک آپ نہ تو اِن مُردوں کو اپنی پکار سناتے ہیں اور نہ ہی بہروں کو، جب کہ وہ (آپ ہی سے) پیٹھ پھیرے جا رہے ہوںo

٭ یہاں پر الْمَوْتٰی (مُردوں) اور الصُّمَّ (بہروں) سے مراد کافر ہیں۔ صحابہ و تابعین ث سے بھی یہی معنٰی مروی ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا:

وَمَا يَسْتَوِی الْاَحْيَآءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اﷲَ يُسْمِعُ مَنْ يَشَآءُ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِo

’’اور نہ زندہ لوگ اور نہ مُردے برابر ہو سکتے ہیں، بے شک اﷲ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے، اور آپ کے ذِمّے اُن کو سنانا نہیں جو قبروں میں ہیں‘‘۔

(فاطر، 35: 22)

٭ یہاں پر مَنْ فِي الْقُبُوْرِ (قبروں میں مدفون مُردوں) سے مراد کافر ہیں۔ اَئمہ تفسیر نے صحابہ و تابعین ث سے یہی معنی بیان کیا ہے۔

ایسی تمام آیات جن میں کافروں کو مُردوں سے تشبیہ دی گئی ہے، ان میں سُنانے سے مراد منوانا ہے۔ جیسے ہم روز مرہ کی بول چال میں کہتے ہیں، وہ ہماری بات نہیں سنتا۔۔۔ سیاستدان عوام کی ایک نہیں سنتے۔۔۔ فلاں والدین کی بات نہیں سنتا۔۔۔ وہ لوگ کسی کی سنتے ہی نہیں۔۔۔ مراد یہ ہے کہ سُنتے تو ہیں مگر عمل نہیں کرتے، سننے کے تقاضے پورے نہیں کرتے۔ یونہی کفار، انبیاء کرام کی بات نہیں سنتے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:

وَقَالُوْا لَوْکُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِيْ اَصْحٰٰبِ السَّعِيْرِo

(الملک، 67: 10)

’’اور (قیامت کے دن دوزخی) کہیں گے اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو دوزخیوں میں نہ ہوتے‘‘۔

یہاں بھی سننے سے مراد ماننا ہے۔ مشرکین مکہ مُردے نہ تھے جو قبروں سے نکل کر کسی جگہ جمع ہو گئے بلکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے دعوتی خطاب کرتے تھے اور وہ بھاگ جاتے تھے۔ یہ زندہ، ہٹے کٹے، بگڑے ہوئے، گمراہ لوگ تھے۔ انہی سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخاطب ہوتے اور یہی لوگ کلمہ حق سن کر بدکتے اور بھاگتے تھے۔ گستاخانہ بیہودہ باتیں کرتے تھے۔ یہی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون کے پیاسے اور آپ کے جان نثاروں پر مصائب وآلام کے پہاڑ توڑتے رہے۔

کیا مظلوم مسلمانوں پر عرصہِ حیات تنگ کرنے والے آنکھوں سے اندھے، کانوں سے بہرے اور زبانوں سے گونگے تھے؟ کیا دشمن کے یہ لشکر کسی قبرستان کے مردے تھے؟ جی نہیں، ان کو خدا نے سننے والے کان دیے تھے اور آج کے منکرین کو یہ سب کچھ دیا گیا ہے۔ کان ہر بات سننے پر آمادہ ہیں مگر محبوب اقدس کی زبانِ حق ترجمان سے ایمان کا نغمہ لاہوتی سننے یعنی ماننے پر آمادہ نہیں۔ کانوں سے جو کام لینا تھا وہ نہ لیا۔ کان اپنی مقصدیت کھو بیٹھے۔ عرب فصاحت وبلاغت میں ثانی نہ رکھتے تھے۔ نظم ونثر، قصائد وخطابات میں ان کا مقابل نہ تھا۔ وہ بجا طور اپنے آپ کو عرب (مافی الضمیر فصیح وبلیغ الفاظ سے ظاہر کرنے والے) اور باقی دنیا کو عجم (گونگے) کہتے تھے۔ مگر یہ تمام زبان وبیان تو اس لئے عطا ہوا تھا کہ خدا ومصطفی کی شان بیان کریں۔ جب اس مقصد کو انہوں نے نظر انداز کر دیا تو مالک کی نظر میں عرب گونگے ٹھہرے۔

آنکھیں ملی تھیں حسنِ محبوب کی قدم قدم پر بکھری نورانی شعاعوں کے گُن گانے کے لیے۔ خالق کی تسبیح، تکبیر اور تقدیس کے لیے زبانیں ملیں کہ درود وسلام اور تلاوت قرآن و ذکر و نعت کے آب حیات سے تر رہیں۔ لیکن انہوں نے ان قوتوں سے خالق کا انکار، رسولوں کی بے ادبی اور دینی شعار کی توہین کی۔ ظالم، شیطانی اور طاغوتی عناصر کی تائید وتوصیف، تملّق وخوشامد، جھوٹ اور برائیوں کی حمایت میں صرف کیا تو منکرین وظالمین کا یہ گروہ اپنے وجود کا جواز کھو بیٹھا۔ خداداد صلاحتیں ان کے عقل، حواس وشعور زنگ آلود ہو گئے ان کے دل مردہ ہو گئے۔ اب نہ یہ سننے والے رہے، نہ بولنے والے، نہ حقیقت میں آنکھوں والے۔

ارشاد فرمایا:

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَهَنَّمَ کَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰئِکَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَo

’’اور بے شک ہم نے جہنم کے لیے جنوں اور انسانوں میں سے بہت سے (افراد) کو پیدا فرمایا وہ دل (و دماغ) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سمجھ نہیں سکتے اور وہ آنکھیں رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) دیکھ نہیں سکتے اور وہ کان (بھی) رکھتے ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو) سن نہیں سکتے، وہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ (ان سے بھی) زیادہ گمراہ، وہی لوگ ہی غافل ہیں‘‘۔

(الاعراف، 7: 179)

المختصر یہاں مردوں سے مراد کافر اور نہ سننے سے مراد، نہ ماننا ہے۔

تفاسیر کی روشنی میں

آئیے اس کی مزید وضاحت کے لیے مختلف تفاسیر کا مطالعہ کرتے ہیں:

٭ قاضی ناصر الدین ابو سعید عبد اﷲ بن عمر بن محمد شیرازی بیضاوی فرماتے ہیں:

انما شبهوا بالموتی لعدم انتفاعهم باستماع ما يتلی عليهم کما شبهوا بالصم في قوله {وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ}.

’’کفار کو مُردوں سے محض اس لئے تشبہیہ دی گئی کہ وہ کلام حق سن کر فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اثرپذیر نہیں ہوتے جیسے ان کو اس فرمان باری تعالیٰ میں بہروں سے تشبہیہ دی گئی۔ ’’نہ تم بہروں کو پکار سنا سکو جب وہ پیٹھ دے کر بھاگ جائیں، اس حال میں ان کو سنانا بہت دور ہے‘‘۔

(بيضاوی، أنوار التنزيل وأسرار التاويل، 4: 277)

٭ امام رازی فرماتے ہیں:

فاﷲ سبحانه وتعالٰی قطع محمداً ٍصلی الله عليه وآله وسلم عنهم بأن بين له أنهم کالموتی وکالصم وکالعمی فلا يفهمون ولا يسمعون ولا يبصرون ولا يلتفتون الی شيء من الدلائل وهذا سبب لقوة قلبه عليه الصلاة والسلام علی اظهار الدين کما ينبغي.

’’سو اللہ تعالیٰ نے محمد مصطفی a کی ان منکرین سے ایمان لانے کی امید ختم کر دی اور آپ پر واضح کر دیا کہ وہ مردوں کی طرح ہیں، بہروں کی طرح ہیں، اندھوں جیسے ہیں، نہ حق کو سمجھیں، نہ حق بات سنیں، نہ چشم بصیرت سے دیکھیں، نہ دلائل نبوت کی طرف توجہ کریں اور یہی حضور کے قلب اطہر کی طاقت کا سبب ہے کہ دین کا جیسا چاہیے غلبہ ہو کر رہے گا اور یہ فرمان باری تعالیٰ:

ان تسمع الا من يومن بايتنا.

’’آپ تو صرف ان کو سناتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھیں‘‘۔

یعنی آپ کا سُنانا تو صرف ان کو نفع دے گا، جن کے متعلق اللہ جانتا ہے کہ وہ آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی دل سے ان کو حق سچ یقین کرتے ہیں، وہی مخلص مسلمان ہیں۔

(تفسير کبير،24، 216)

٭ علامہ آلوسی، روح المعانی میں فرماتے ہیں:

انما شبهوا بالموتی علی ما قيل لعدم تاثرهم لما يتلی عليهم من القوارع، … وقيل لعل المراد تشبييه قلوبهم بالموتی فيما ذکر من عدم الشعور… شبهوا بالموتی لانهم لا ينتفعون بما يتلی عليهم.

’’کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی گئی جیسا کہ کہا گیا ہے کہ وہ تبنیات جو ان پر پڑھی جاتی ہیں، ان سے وہ متاثر نہیں ہوتے۔۔۔ اور کہا گیا کہ شاید ان کے دلوں کو مردوں سے تشبیہ، ان کے عدم شعور کی وجہ سے ہے۔۔۔ ان کو مردوں سے تشبیہ دی گئی اس لئے کہ وہ پڑھی جانیوالی آیات سے فائدہ نہیں اٹھاتے‘‘۔

(علامه سيد محمود آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی،20/17)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

قرآن سے مردوں اور بہروں کی وضاحت کے بعد آیئے! احادیث مبارکہ کی روشنی میں سماعِ موتیٰ کی وضاحت کرتے ہیں:

٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّی إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ.

’’ بندے کو جب اس کی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چل دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سن رہا ہوتا ہے‘‘۔

٭ حضرت انس بن مالک نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ

’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے روز کفار قریش کے چوبیس سرداروں کی لاشوں کو ایک اندھے کنوئیں میں پھینکنے کا حکم فرمایا تھا۔ میدانِ بدر سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کنوئیں کی منڈیر پر جا پہنچے اور ان لوگوں کے نام مع ولدیت لے کر مخاطب فرمایا کہ اے فلاں بن فلاں، اے فلاں بن فلاں! کیا یہ بات تمہیں اچھی لگتی ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے۔ بے شک ہمارے رب نے ہم سے جس چیز کا وعدہ فرمایا تھا وہ ہمیں حاصل ہوگئی۔ بتاؤ جس کا اس نے تمہارے لیے وعدہ کیا تھا وہ تمہیں مل گئی ہے یا نہیں؟ راوی کا بیان ہے کہ حضرت عمر عرض گزار ہوئے:

يَا رَسُولَ اﷲِ مَا تُکَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَهَا؟

’’یا رسول اللہ! آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں جن کے اندر روحیں نہیں ہیں‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ.

’’قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے‘‘۔

قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں ایک گونہ زندگی ڈالی، تاکہ وہ سنیں اور آپ کے ارشادِ عالی سے ان کی بیخ کنی، ذلّت، سزا اور حسرت و ندامت کا اظہار ہوجائے۔‘‘

(بخاري، الصحيح، 4: 1461، رقم: 3757)

شارحین حدیث

ملا علی قاری

ثبت بالاحاديث ان الميت يعلم من يکفنه ومن يصلي عليه ومن يحلمه ومن يدفنه… فيه دلالة علی حياة الميت في القبر، لان الاحساس بدون الحياة ممتنع عادة.

(المرقاة المفاتيح، شرح، مشکوة المصابيح.1، ص198)

’’احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ ’’بے شک میت جانتی ہے کہ کون اس کو کفن پہنارہا ہے، کون اس پر نماز جنازہ پڑھ رہا ہے، کون اس کو اٹھا رہا ہے اور کون اس کو دفن کررہا ہے۔۔۔‘‘ اس میں قبر میں میت کے زندہ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ زندگی کے بغیر احساس عرفِ عادت میں ممکن نہیں‘‘۔

علامہ زمخشری

قال الزمخشری فی قوله: (انک لا تسمع الموتی) شهوا بالموتی وهم احياء لان حالهم کمال الاموات.

علامہ زمخشری نے کہا آیت کریمہ (انک لا تسمع الموتی) میں کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی گئی، حالانکہ وہ زندہ تھے، اس لیے کہ ان کا حال مردوں کا سا تھا۔

(عينی عمدة القاری شرح صحيح البخاری، 17.97)

امام ابن حجر عسقلانی:

هو مجاز والمرد بالموتی او فی حال من سکن القبر وعلی هذا لا يبقی فی الکية دليل مانفته عائشة.

’’یہ مجاز ہے مردوں اور قبروں والوں سے مراد کافر ہے، ان زندوں کو مردوں سے تشبہیہ دی گئی، مطلب یہ کہ یہ لوگ مردوں اور اہل قبور کی سی حالت میں ہیں، اس صورت میں سیدہ عائشہ j کی اس آیت میں نفی والی دلیل نہ رہی‘‘۔

(فتح الباری شرح صحيح البخاری، 7.353)

خلاصہ مبحث

قرآن کریم نے آنکھوں والوں کو اندھا۔۔۔ کانوں والوں کو بہرہ۔۔۔ بولنے والون کو گونگا۔۔۔ اور زندہ کو مردہ کہا ہے کہ حق بات نہیں سنتے، کلمہ حق نہیں بولتے، ایمان کے آثار نہیں دیکھتے، جلوہ محبوب کی رنگینیوں سے محروم ہیں، مقصد حیات سے بے خبر ہیں، حق کے خلاف اور باطل کی حمایت میں لڑتے ہیں اس لئے یہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں۔

صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَo

یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گےo

(البقرة،2:18)

اس کے مقابلے میں جنہوں نے مقصد حیات پا لیا وہ مر کر بھی زندہ ہیں ان کے جنازے پڑھے گئے، تجہیز وتکفین ہو گئی، جسموں کے ٹکڑے ہو گئے، خون بہہ گئے، جسم کے اعضاء کٹ گئے، بچے یتیم، عورتیں بیوہ ہو گئیں،ترکہ تقسیم ہو گیا، قبریں بن گئیں مگر زندہ ہیں۔ فرمایا:

وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ اَمْوَاتٌ

اور جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مُردہ ہیں۔

(البقرة، 2: 154)

بلکہ سورہ آل عمران میں تو راہ حق میں شہیدوں کو مردہ خیال کرنے سے بھی سختی سے منع فرما دیا:

وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُوْنَ.

(آل عمران،3: 169. 171)

’’ٖاور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال (بھی) نہ کرنا، بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں انہیں (جنت کی نعمتوں کا) رزق دیا جاتا ہے‘‘۔

دوسرے مقام پر فرمایا:

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ کَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِل سَوَآءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَآءَ مَا يَحْکُمُوْنَo

’’کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیاں کما رکھی ہیں یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم انہیں اُن لوگوں کی مانند کر دیں گے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے (کہ) اُن کی زندگی اور ان کی موت برابر ہو جائے۔ جو دعویٰ (یہ کفّار) کر رہے ہیں نہایت برا ہے‘‘۔

(الجاثية،45: 21)

جب نیک وبد کے اعمال برابر نہیں، ان کی زندگی اور موت برابر نہیں تو ان کی زندگی وموت کے اوصاف وآثار کیونکر ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟