تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام 31 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس2015ء

ماہ ربیع الاول پوری مسلم دنیا کیلئے خوشی اور مسرت کا احساس لے کر آتا ہے۔ اس مبارک مہینے کی خوشیوں کے آگے ہماری ذاتی اور اجتماعی خوشیاں ہیچ ہیں۔ میلاد کا سب سے بڑا پیغام محبت، امن اور سلامتی ہے۔ اس ماہ میں تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے وابستگان اور کارکنان پوری دنیا میں محافل میلاد کا انعقاد کر کے دنیا کو امن، سلامتی، محبت، برداشت اور احترام انسانیت کا پیغام دیتے ہیں۔ امسال منعقدہ محافل میلاد اور دعائیہ تقاریب میں سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ پشاور اور پاک فوج کے شہداء اور ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر کائنات میں کوئی خوشی نہیں، ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کمزور پڑنے والے تعلق کو بحال اور مضبوط کرنے کیلئے ماہ میلا د بہترین مہینہ ہے۔ دنیا بھر میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشیوں کا ہر سطح پر انعقاد منہاج القرآن کا طرہِ امتیاز بن چکا ہے۔ ماہ ربیع الاول کا چاند نظر آتے ہی تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، نماز مغرب کے بعد خصوصی نوافل ادا کئے گئے۔ مرکزی سیکرٹریٹ اور منہاج یونیورسٹی اور تحریک کے تمام مرکزی تعلیمی ادارہ جات پر چراغاں کیا گیا۔ ضیافت میلاد کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا۔ منہاج القرآن ویمن لیگ، یوتھ لیگ، مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ، علماء کونسل اور دیگر فورمز کے زیر اہتمام ضیافت میلاد اور محافل میلاد منعقد کی گئیں۔

ملک میں دہشت گردی کے خطرات اور شدید ترین سرد موسم کے باوجود تحریک منہاج القرآن نے سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے 31 ویں سالانہ عالمی میلاد کانفرنس 3 جنوری 2015ء کی شب مینار پاکستان کے سبزہ زار میں منعقد کی۔ یہ کانفرنس ایک ہی وقت میں پاکستان کے 150 مقامات (تحصیلات / اضلاع) کے علاوہ دنیا کے 90 ممالک میں منعقد ہوئی جسے ARY News اور منہاج ٹی وی کے ذریعے براہ راست نشر کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور احباب، علمائ، مشائخ، اقلیتی نمائندوں، وکلاء، اساتذہ، طلبہ اور خواتین و حضرات نے لاکھوں کی تعداد میں شرکت کی۔

٭ کانفرنس کے پہلے سیشن میں نقابت کے فرائض محترم غلام مرتضیٰ علوی، محترم فرحت حسین شاہ نے ادا کئے۔ جبکہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت محترم حیدر برادران، محترم ہمدمی برادران، محترم شکیل طاہر، محترم ثقلین رشید (حیدر آباد)، منہاج نعت کونسل اور دیگر نے حاصل کی۔ اس عالمی میلاد کانفرنس سے مختلف مہمانان گرامی نے بھی اظہار خیال کیا۔

محترم علامہ اعجاز حسین بہشتی (رہنما وحدت المسلمین) نے خطاب کرتے ہوئے کہا امت اسلامیہ کو آج کی رات اس عظیم مولود، خاتم المرسلین محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں۔ رحمت، نبوت و رسالت سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس لئے کہ رسالت و نبوت کا تعلق صرف مسلمانوں کے لئے ہے جبکہ رحمت کا دائرہ ہر انسان اور مخلوق تک پھیلا ہوا ہے۔ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر ہمیں متفق ہونے کی ضرورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام امن و محبت کے فروغ ہی میں ہماری بقاء ممکن ہے۔

مسیحی رہنما محترم بشپ اکرم مسیح گل نے خطاب کرتے ہوئے کہا آج دل نہایت شادمان ہے اور خدا کی شکر گزاری سے بھرا ہوا ہے کہ اس پلیٹ فارم سے آپ سے مخاطب ہوں۔ دنیا کے دوسرے بڑے مذہب اسلام کے ماننے والے اہل اسلام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ولادت کے موقع پر دنیا کے تمام مسیحوں کی طرف سے مبارک باد دیتا ہوں۔ اسلام اور قرآن ہمیشہ بھائی چارہ، یگانگت کا درس دیتے ہیں۔ اسلام ہم تمام کو اکٹھا کرتا ہے۔ تمام انبیاء کرام امن کاپرچار کرنے آئے۔ جب مسجد نبوی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مسیحی قوم کا وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی۔ یہ محبت اور بھائی چارہ کا درس ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعے تمام دنیا کو دیا۔

منہاج القرآن کے تمام رفقاء، عہدیداران، طاہرالقادری صاحب اور ان کی ساری ٹیم اس مبارک موقع پر مبارک کے مستحق ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف وہ خوب کام کررہے ہیں۔ طاہرالقادری صاحب کا اس پاکستانی قوم پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے موسم، بھوک، بیماری اور دیگر حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے قوم کی آواز بلند کی اور تمام لوگوں کو یکجا کیا۔ انہوں نے ساری قوم اور پاکستان کی بقاء کے لئے جو جدوجہد کی وہ قابل ستائش اور خراج تحسین کی مستحق ہے۔ میں ایک مسیحی ہونے کے ناطے منہاج القرآن اور اس کی ساری ٹیم، طاہرالقادری صاحب سے لے کر عام کارکن تک تمام کو ولادت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارکباد اور اس جدوجہد کی مبارکباد دیتا ہوں۔

ہندو رہنما محترم پنڈت بھگت لال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج آمنہ کے لعل کا جنم دن ہے، عید میلاد صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگ منارہے ہیں۔ آپ تمام کو میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ رسول اعظم، سلطان اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاکیزہ قدموں میں چند اشعار پیش کرتا ہوں:

کچھ عشق محمد میں نہیں شرطِ مسلماں
ہے کوثری ہندو بھی طلبگار محمد (ص)

اللہ رے کیا رونق ہے بازار محمد کی
معبودِ جہاں بھی ہے خریدارِ محمد (ص)

رحمۃ اللعالمین سارے جہانوں کے لئے رحمت کا سمندر ہیں۔ اسی لئے کسی نے کہا کہ

عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمد (ص) پر اجارہ تو نہیں

میں شیخ الاسلام طاہرالقادری صاحب اور ان کے تمام کارکنان کے لئے دعا گو ہوں۔ شیخ الاسلام کو اللہ صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ وہ سرکار دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تمام مذاہب کو لے کر خوبصورت گلدستہ سجالیتے ہیں۔ دعا ہے کہ یہ گلدستہ اسی طرح مہکتا ہوا پوری دنیا کو مہکاتا رہے تاکہ پتہ چلے کہ ہم سب پاکستانی ایک قوم ہیں۔

منہاج القرآن ویمن لیگ کی صدر محترمہ راضیہ نویدنے بھی اس موقع پر خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات امن و محبت کو بیان کیا اور دہشت گردی و انتہاء پسندی کے خاتمہ کے لئے منہاج القرآن کے کردار پر روشنی ڈالی۔

٭دوسرے سیشن کا آغاز محترم انوارالمصطفی ہمدمی کی نقابت سے ہوا۔ اس سیشن میں تلاوت کی سعادت محترم قاری نور احمد چشتی جبکہ نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محترم امجد بلالی برادران، محترم محمد افضل نوشاہی و ہمنوا اور محترم حافظ انصر علی قادری نے پیش کی۔

اس موقع پر محترم امجد بشیر (ممبر یورپین پارلیمنٹ) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی عالمی سطح پر دہشت گردی و انتہا پسندی کے خلاف خدمات و کردار کو تسلیم کرتا ہوں کہ آپ نے یورپ میں مسلمانوں پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لگنے والے الزامات کی حقیقی معنوں میں بیخ کنی کی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے اسلام کے موقف ’’امن و سکون‘‘ کو بہتر انداز میں دنیا کے سامنے بیان کیا۔ گزشتہ ماہ میں نے محترم حسین محی الدین قادری کو یورپ کے مختلف MPs سے ملاقات کروائی۔ اس موقع پر انہوں نے اسلام کے عقائد اور تعلیمات امن کو بھرپور انداز میں پیش کیا جسے سن کر ممبران پارلیمنٹ بڑے حیران ہوئے کہ آج تک اسلام کی سلامتی اور امن کی تصویر ہم نے نہ دیکھی اور نہ سنی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا یہ کردار یورپ میں ہم بسنے والے مسلمانوں اور دیگر مذاہب والوں کے لئے بہت اچھا ہے۔ ہم مسلمانوں کو دین اسلام کے قریب لانے والے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب ہیں۔ میں نے پاکستان میں کئی لوگوں سے ملاقات کی جو یہاں موجود محرومیوں کا گلہ کرتے ہیں لیکن وہ لوگ اس بات کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی کاوشوں اور دھرنوں سے ہم محروموں اور غریبوں کو اپنے حقوق بلند کرنے کے لئے زبان اور جرات ملی ہے۔ لوگوں کو آگہی حاصل ہوئی، یہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب اور منہاج القرآن کا بہت بڑا کردار ہے۔

میں ہیومن رائٹس کمیٹی یورپین پارلیمنٹ کا بھی ممبر ہوں، اس حیثیت سے میں 17 جون کو منہاج القرآن میں ہونے والی پولیس دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔ 6 ماہ ہوچکے مگر آج تک انصاف نہیں ملا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ یورپین پارلیمنٹ کے ذریعے ان شاء اللہ میں آپ کو انصاف دلواؤں گا۔ جن لوگوں نے ہمارے 14 افراد کو شہید کیا ہے، ہم ان کو پکڑیں گے اور انصاف دلوائیں گے۔ 14 افراد شہید کرنے والوں اور کروانے والوں کی پکڑ ضرور ہوگی۔ یورپین پارلیمنٹ یہ ضرور کرے گی، اس میں ملوث ہمارے حکمران یورپ میں آنہ سکیں گے، انہیں وہاں اس حوالے سے سخت مزاحمت کا سامنا ہوگا۔ میں پاکستان آنے سے قبل وہاں یہ کیس درج کرواکر آیا تھا اور واپس جاکر اس کی پیروی کروں گا۔

محترم خرم نواز گنڈا پور (ناظم اعلیٰ تحریک) نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسم کی سختی اور اس شدید ترین سردی کے باوجود عشاق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عالمی میلاد کانفرنس میں لاکھوں کی تعداد میں شرکت نہایت خوش آئند امر ہے، میں آپ کو خوش آمدید اور مبارکباد دیتا ہوں۔ بدقسمتی سے آج پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور ہمارے حکمران اس دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ سانحہ پشاور کے دہشت گرد شاید ان کی پہنچ سے باہر ہوں مگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے دہشت گرد جانے پہچانے ہیں، ان کے چہرے عیاں ہیں، کیمروں میں ان کی شکلیں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوچکی ہیں۔ یہ دہشت گرد کبھی اپنے انجام سے نہیں بچ سکتے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ منہاج القرآن کے عظیم فرزند سانحہ ماڈل ٹاؤن کو بھول جائیں گے، یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ہم مرتو سکتے ہیں مگر بھول نہیں سکتے۔ ہم نہ بِکتے ہیں اور نہ جھکتے ہیں۔ ہمارے عظیم قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی عظیم جدوجہد سے یہ ثابت کردیا ہے کہ جہاں وہ دنیا میں داعی امن ہیں، امن کی علامت ہیں وہاں ان کا جذبہ ہمالیہ کی طرح بلند اور چٹانوں سے کئی زیادہ مضبوط ہے۔ ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داراوں کو انجام تک نہ پہنچالیں۔

ہم لوگ اس معاملہ کو نہ صرف پاکستان کی عدالتوں تک لے کر گئے ہیں بلکہ یورپین پارلیمنٹ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن تک بھی لے کر گئے ہیں تاکہ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا جاسکے اور بتایا جاسکے کہ ریاستی دہشت گردی کے سامنے کھڑے ہوجانے والے لوگ ابھی تک موجود ہیں۔ ان شاء اللہ دہشت گردی کی اس لہر کا ہم ایک قوم بن کر مقابلہ کریں گے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے پاکستان کو ایسا بے مثال ملک بنائیں گے جہاں ہر خاص و عام، ہر امیر و غریب، ہر مذہب، ہر مسلک کے انسان کو برابر کے حقوق ملیں اور امن و سکون کی زندگی نصیب ہوگی۔ آیئے ہم میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مناتے ہوئے اس بات کا عہد کریں کہ ہم ملک پاکستان کو اسلامی تعلیمات ’’امن، سکون، محبت، رواداری‘‘ کے مطابق ڈھالنے کے لئے ہر ممکن کردار ادا کریں گے اور اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے۔ یہاں تشریف لائے تمام مہمانان گرامی سے بھی گزارش ہے کہ ایک پرامن اور عظیم پاکستان کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

مہمانان گرامی کے خطابات اور نعت خوانی کے بعد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’انسانیت سے محبت اور عدم تشدد‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا:

خطاب شیخ الاسلام

پوری امت مسلمہ اور پوری انسانیت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی نعمت مبارک ہو اور تحریک منہاج القرآن و پاکستان عوامی تحریک کے وہ قائدین و کارکنان جنہوں نے یخ بستہ رات میں انتہائی شدید سردی اور دھند میں بھی مینار پاکستان پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد Celebrate کرنے اور دنیا تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام محبت و سیرت کو پہچانے کا اہتمام کیا، سب کو مبارکباد دیتا ہوں۔

حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے کچھ اہم تقاضے ہیں، ان تقاضوں میں سے اہم ترین تقاضا ’’انسانیت سے محبت اور عدم تشدد‘‘ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے بیان میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ.

(الانبياء:107)

’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر‘‘۔

صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کفارو مشرکین کے لئے بددعا کریں۔ آپ نے فرمایا:

اِنِّيْ لَمْ يُبْعَثْ لَعَانًا وَاِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً

’’میں بددعا کرنے والا بن کر مبعوث نہیں ہوا بلکہ میں سراپا رحمت بن کر مبعوث ہوا۔‘‘

دوسری روایت کے الفاظ ہیں:

اِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً وَلَمْ اُبْعَثْ عَذَابًا.

’’میں سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اور کسی کے لئے عذاب/ اذیت بناکر نہیں بھیجا گیا‘‘۔

یعنی میں ایسا عمل نہیں کرسکتا جس سے کسی دوسرے کو اذیت پہنچے۔ یہاں سے دو تصور سامنے آتے ہیں:

  1. انسانیت سے محبت
  2. عدم تشدد

آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کا نچوڑ یہ ہے کہ انسانیت سے محبت کرنا محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ایک جزو ہے۔ اسی طرح زندگی عدم تشدد پر گزارنا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور عمل اس بات پر شاہد و عادل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات کے لئے سراپا امن، رحمت اور محبت ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلاتفریق رنگ و نسل اور طبقہ و مذہب طبقات انسانی کے لیے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا گیا۔ تورات میں اللہ نے فرمایا کہ آخرالزمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو میں دھیما پن ہوگا۔۔۔ اگر کوئی زیادتی بھی کرے گا تو بدلہ بھلائی سے دیں گے اور درگزر فرمائیں گے۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ترش رو نہیں ہوں گے۔۔۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھے گا اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نرمی نظر آئے گی۔۔۔

اسلام اور سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ظلم و تشدد کیلئے کوئی جگہ نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت تو انسانیت سے محبت ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک غزوہ میں کچھ کافر عورتیں اور بچے قتل ہو گئے، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا۔

جنہیں جہاد کا غلط تصور دیا گیا انہیں پیغام دیتا ہوں کہ عورتوں اور بچوں کا قتل جہاد نہیں بلکہ دہشت گردی اور اسلام سے منافی عمل ہے۔ حوریں جنت میں ہوتی ہیں جنہم میں نہیں، معصوم بچوں اور عورتوں کو قتل کرنے والے جہنم میں جائیں گے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے، وہ شخص ایک بھیڑ کو اس طرح ذبح کررہا تھا کہ اس نے بھیڑ کو گراکر اس کی گردن پر پاؤں رکھا ہوا تھا اور گرانے کے بعد اس کے سامنے پتھر پر چھری تیز کررہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو ڈانٹا کہ اس کو گرانے اور اس کی گردن پر پاؤں رکھنے سے پہلے تم چھری تیز نہیں کرسکتے تھے؟ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی گردن پر پاؤں رکھ کر، اسے اذیت دے کر اب چھری تیز کررہے ہو۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

اَفَلَا قَبْلَ هٰذَا اَ تُرِيْدُ اَنْ تُمِيْتَهَا مَوْتَتَيْن.

’’اس سے پہلے تم نے چھری تیز کیوں نہ کی؟ کیا تم اسے دو موتیں دینا چاہتے ہو‘‘۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کے لئے اتنی اذیت کو بھی برداشت نہ کیا۔ یہ ہے اخلاق۔۔۔ یہ ہے دین اسلام۔۔۔ یہ ہے سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ یہ ہے سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ یہ ہے کردار رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ ایسے معاشرے کے لئے پاکستان بنایا گیا تھا۔۔۔ مگر افسوس کہ ہم نے یہاں محبتوں کی جگہ نفرت کے بیج بودیئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں تعلیمات امن اور سلامتی والا کردار عطا کیا۔ قرآن و سنت نے مسلمانوں کو ایسا ہی طرز زندگی، فکر اور نظریہ دیا۔ افسوس کہ ہم کس طرف بھٹکے چلے جارہے ہیں۔ ملک پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے مطابق ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کے مطابق قیامت تک ایسے ظالم، دہشت گرد، قاتل لوگ نکلتے رہیں گے جو کہ اپنے نام نہاد تصور اسلام کو معاشرہ پر بزور طاقت مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقریباً 100 احادیث مبارکہ میں ایسے دہشت گردوں کے نکلنے کے متعلق آگاہ کیا تھا اور ان کے خاتمہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک فرمادیا کہ ان خوارج کا آخری گروہ دجال کے وقت نکلے گا اور اس کا ساتھی ہوگا۔

صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خاتمہ کے حوالے سے ارشاد فرمادیا کہ ایسے لوگ جو دین اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کریں گے، یہ جہاں بھی ملیں ان کو قتل کردو اور انہیں قتل کرنے کا اجر تمہارے وہم و خیال میں بھی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں، اسی لئے انسانوں، بے گناہوں کو قتل کرنے والوں کے بارے میں فرمایا: ’’اگر میں اِن لوگوں کو پا لوں تو میں ان کو اس طرح ختم کردوں گا جس طرح اللہ نے قوم ثمود کا خاتمہ کیا‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو باقاعدہ مبارکباد دی جو ظالموں، دہشت گردوں کے ظلم کی وجہ سے شہید ہوئے اور جنہوں نے ان دہشت گردوں کو قتل کیا۔

وہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کی بات کرنے والے ہیں، مبارکباد کے مستحق ہیں اس لئے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ایمان ہے۔ جس کے دل میں مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عشق و محبت نہیں، اسے ایمان کی ہوا ہی نہیں لگی۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت کی اتباع کرتے ہیں یہ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کرنے سے ہی اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے۔ یہ دونوں سوچیں دہشت گری کے خلاف ایک ہوجائیں اور اس بات کا فیصلہ کرلیں کہ اگر ہم نے پاکستانی سوسائٹی کو مصطفوی، اسلامی اور قرآنی معاشرہ بنانا ہے تو اسے پرامن بنانا ہوگا۔۔۔ لوگوں کی جان و مال کو حفاظت دینا ہوگی۔۔۔ دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اگر دہشت گردی بچ گئی اور دہشت گردوں کو بچانے کے لئے سیاسی، قانونی، آئینی اور عدالتی راستے نکالے گئے، دھوکہ بازی کی گئی، سیاست کی گئی تو پھر خدا کا عذاب اس معاشرہ پر اترے گا اور ہم اللہ اور اس کے رسول کے باغی متصور ہوں گے۔

اسلام تو مردہ انسانوں کی بھی تکریم کا درس دیتا ہے، چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم۔ امن کی تعلیم پاکستان کے نصابات میں ہونی چاہیے۔ میں آرمی چیف سے مطالبہ کرتا ہوں کہ مدارس اور سکولوں کے نصابات میں امن کے باب کو شامل کیا جائے اور اسلام کے حقیقی تصور سے روشناس کیا جائے۔ اگر موجودہ سیاسی نظام دہشت گردوں کو تحفظ نہ دیتا تو فوجی عدالتیں بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ فوجی عدالتوں کے قیام نے ثابت کر دیا کہ موجودہ نظام دہشت گردی کے خاتمے میں ناکام ہو چکا ہے۔ سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ اور افواج پاکستان فیصلہ کریں کہ اس ملک کو امن و عدم تشدد کا معاشرہ بنانا ہے یا دہشتگردی کا؟ ملک کی تمام مساجد سے دہشت گردی کے خلاف آوازیں بلند ہونی چاہییں، دہشت گردی کے خلاف جنگ، ہماری قومی جنگ ہے۔

میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام انسانیت سے محبت ہے۔۔۔ عدم تشدد، محبت رسول ہے۔۔۔ سوسائٹی کو امن سے بہرہ یاب کرنا محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔ معاشرے کو اس نہج پر لے جانا ہے کہ ہر ایک شخص دوسرے سے محبت کرے۔۔۔ ہر شخص دوسروں کے دکھوں کا مداوا کرے۔۔۔ ہر شخص نہ صرف دوسرے انسانوں بلکہ جانوروں تک کا خیال کرے۔۔۔ بھوک اور غربت ختم کرنے کے لئے ہر شخص اپنا کردار ادا کرے۔ اس معاشرے سے کرپشن کے خاتمہ کے لئے صرف فوجی عدالتیں ہی کافی نہیں۔ اس لئے کہ یہ تو دہشت گردی کے مرتکب افراد کی سزا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی نوبت کیوں آتی ہے؟ دہشت گردی، انتہا پسندی سے جنم لیتی ہے، ہمیں انتہا پسندی کو جڑ سے کاٹنا ہوگا۔ انتہا پسندانہ سوچ اور تبلیغ کو ختم کرنا ہوگا۔ فرقہ واریت اور تکفیریت کی سوچ کو ختم کرنا ہوگا۔ پورا معاشرہ کو امن، سکون، رواداری، محبت کی آماجگاہ بنانا ہوگا۔